اٹلی: فلسطین کی آزادی کے لیے لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی عام ہڑتال

|انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کا اعلامیہ، ترجمہ: آصف لاشاری|

3اکتوبر بروز جمعہ اٹلی میں جو کچھ ہوا اس کی تاریخ میں کم مثالیں ملتی ہیں۔ اس کے بارے میں سوچیے۔ ایک سیاسی عام ہڑتال۔ عالمی یکجہتی اور سامراجیت کے خلاف ایک سیاسی عام ہڑتال۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

لاکھوں لوگوں نے صنعتی ایکشن میں حصہ لیا۔ 20 لاکھ لوگوں نے عوامی احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے ”ہر چیز بند کر دو!“، کے نعرے کے تحت براہ راست اس ایکشن میں حصہ لیا۔ اگلے دن، چار اکتوبر بروز ہفتہ، غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف روم میں تقریباً 10 لاکھ لوگ ملک گیر احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلے۔ یہ واقعات عالمی صورتحال میں ہنگامہ خیز تبدیلی کا حصہ ہیں جو کہ صرف اٹلی تک محدود نہیں بلکہ فرانس میں عوامی تحریک، سپین میں بڑے عوامی مظاہرے اور ہر جگہ ہونے والے جنریشن زی کے انقلابات، جنہوں نے ستمبر کو بھی سرخ کر دیا ہے، اس میں شامل ہیں۔ ان واقعات کا تجزیہ کرنا، ان کی اہم خصوصیات کو سمجھنا اور ان کے اثرات کا جائزہ لینا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اٹلی کی تحریک کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟

سب سے پہلے ہمیں اس بات کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک عوامی روایتی تنظیموں کے باہر سے ابھری ہے۔ اٹلی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین سی جی آئی ایل (CGIL) کے لیڈران کو مجبوری میں اس ہڑتال کی کال دینی پڑی کیونکہ اس سے پہلے ایک چھوٹی یونین یو ایس بی (USB) کی طرف سے 22 ستمبر کو فلسطین کے حق میں عام ہڑتال کی کال نے، جس میں ہزاروں محنت کشوں اور نوجوانوں نے حصہ لیا تھا، اس بڑی ٹریڈیونین کی اہمیت کو تقریبا ختم کر دیا تھا۔

تحریک کی دوسری واضح خاصیت اس میں نوجوانوں کا کردار ہے جو ہر جگہ ہونے والے تحرک میں اگلی صفوں میں رہے، بہت بڑی تعداد میں تحریک میں شامل ہوئے (حتی کہ سی جی ائی ایل کے جنرل سیکرٹری لندینی (Landini) کو بھی اس حقیقت کو بیان کرنا پڑا) اور جو ہر جگہ محنت کشوں اور آبادی کے دیگر حصوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر باہر نکلے۔

اٹلی میں ہونے والے پچھلے دو ہفتے کے واقعات کی تیسری غالب خصوصیت عوام کے دل و دماغ میں نمو پانے والی یہ طاقتور سوچ ہے کہ صرف مظاہرے کافی نہیں ہیں بلکہ اب اس سے کچھ بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ عام ہڑتال کا نعرہ ”بند کا مطلب بند“ جو کہ فرانس کی تحریک سے حاصل کیا گیا، اس صحت مند سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگ اب جان چکے ہیں کہ حکومتوں پر اخلاقی دباؤ ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اب ہمیں ڈائریکٹ ایکشن کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ جو کہ ابھی اپنی ابتدائی حالت میں ہے اپنے اندر انقلاب کے بیچ سموئے ہوئے ہے جس میں لوگ اپنے تمام تر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔

تحریک کی چوتھی اور شاید سب سے اہم خصوصیت بندرگاہوں کے محنت کشوں کا اسرائیل سے آنے اور جانے والے تمام تر سامان کو لادنے اور اتارنے سے انکار کر کے ڈائریکٹ ایکشن کی طرف بڑھنا ہے۔ بندرگاہوں کے محنت کشوں نے (جینووا، لیوورنو اور دیگر بندرگاہوں پر) اپنی ہڑتالوں کے ذریعے اس عمل کو مکمل کیا اور اسے دیگر جگہوں پر عوامی مظاہروں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ مظہر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح کے واقعات (مارسائی (Marseille) اور پیراؤز Piraeus میں) پہلے بھی ہو چکے ہیں لیکن اطالوی بندرگاہوں کے محنت کش اسے اعلیٰ سطح پر لے گئے۔

اطالوی محنت کشوں کے اس اقدام کو آگے بڑھانے اور عالمی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ جینووا میں یورپی بندرگاہوں کے محنت کشوں کی ہونے والی کانفرنس اس سمت میں پہلا شاندار قدم ہے۔ محنت کشوں کا بائیکاٹ عملی اور سیاسی دونوں حوالوں سے بہت بڑا اثر ڈالے گا کیونکہ یہ اسرائیلی جنگی مشین کا بہت زیادہ نقصان کرے گا اور سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کشوں کی طاقت کو بہت زیادہ بڑھا دے گا۔

پانچویں یہ کہ ایک ایسے ملک میں جہاں دائیں بازو کی رجعتی حکومت ہے، اطالوی محنت کشوں اور نوجوانوں کی یہ وسیع تحریک نام نہاد بائیں بازو میں موجود تشکیک پسند، سنکی اور مایوس عناصر کے منہ پر زور دار تمانچہ ہے جنہوں نے پچھلا سارا سال انتہائی گھناؤنے انداز میں نام نہاد فاشزم، بوناپارٹ ازم اور رجعت کے ابھار کا رونا روتے ہوئے گزار دیا۔

سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کے نتیجے میں تمام تر بورژوا اداروں کی تعظیم کے خاتمے نے گہرے اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ بائیں بازو کے دیوالیہ پن نے اس غصے کو کئی جگہوں پر دائیں بازو کے رجعتی جعل ساز راہنماؤں کو ابھرنے کا موقع دیا، جنہوں نے پھر اس غصیلے موڈ کو رجعتی سمت میں دھکیلنے کی کوشش کی جیسا کہ مہاجرین کو تمام تر مسائل کا ذمہ دار قرار دینا۔ میلونی کی حکومت بھی ایسا ہی ایک کیس ہے۔

یہ اس صورتحال کا کوئی لازمی نتیجہ نہیں ہے کیونکہ ذرا سا موقع ملتے ہی یہ غصہ اپنا اظہار طبقاتی جدوجہد کے دھماکے کی صورت میں کرے گا اور پہلے بھی کئی جگہوں پر اپنا اظہار کر چکا ہے۔ آج دائیں بازو اور رجعت کے ابھار کے خلاف لڑنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر لڑاکا جدوجہد شروع کی جائے نہ کہ ثقافتی جنگوں یا جمہوریت، اداروں اور ریپبلک کے دفاع کے مجہول نعرے لگائے جائیں بلکہ اس کی بجائے ساری سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طبقاتی جنگ شروع کی جائے۔

چھٹی خصوصیت یہ کہ بلاشبہ اطالوی تحریک کا جنم فلوٹیلا کے سوال اور غزہ پر حملے کی مخالفت میں ہوا لیکن اس کی جڑیں اس سے بھی کہیں گہری ہیں۔ غزہ کے سوال نے بڑے عرصے سے تاخیر کی شکار احتجاجی عوامی تحریک کے ابھار کے لیے ایک کیٹالسٹ کا کردار ادا کیا۔ سالوں سے جاری کٹوتیوں کی پالیسیاں، سماجی اخراجات میں کٹوتیاں، صحت اور تعلیم کے شعبوں پر حملے، معیار زندگی میں گراوٹ (بالخصوص اٹلی میں 2008ء کے بحران کے بعد سے)، کام کی جگہوں پر استحصال کی شدت میں اضافہ، مستقل نوکریوں کی جگہ عارضی بھرتیاں۔۔ یہ تمام تر سماجی و معاشی پریشرز لمبے عرصے سے مجتمع ہو چکے تھے اور اپنے اظہار کا راستہ تلاش کر رہے تھے۔

ٹریڈ یونینوں کے لیڈران جو کہ دراصل سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ میں ضم ہو چکے ہیں، ان تحریکوں کو راستہ دینے سے انتہائی خوفزدہ تھے۔ مجتمع شدہ دباؤ فلسطین کے سوال پر ابھرنے کی طرف گیا لیکن درحقیقت یہ پورے نظام اور دائیں بازو کی حکومت کے خلاف بھی ایک عوامی احتجاجی تحریک تھی۔ اس تحریک نے ان طاقتوں کو جگا دیا ہے جنہیں یہ لیڈران قابو میں نہیں رکھ سکتے۔

غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف اطالوی عوامی تحریک 22 ستمبر کی عوامی تحریک سے لے کر 3 اکتوبر کی عام ہڑتال اور روم میں بڑے پیمانے کے عوامی مظاہرے تک دن بدن طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔ کسی نقطے پر تحریک کے حالیہ مرحلے میں تعطل آنا ناگزیر ہے تاہم اس تحریک کا اثر تادیر برقرار رہے گا اور محنت کشوں و نوجوانوں کی جدوجہد کے ہر پہلو بشمول اجرتوں اور کام کے حالات کی بہتری کی صنعتی جدوجہد میں فلسطین سے یکجہتی کے سوال کے باہر بھی گونجتا رہے گا۔

محنت کشوں اور نوجوانوں کو مالکان اور حکومتوں کے مقابلے میں اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ وہ اب پُراعتماد ہیں، یہ اعتماد انہیں دوسرے محاذوں پر جدوجہد شروع کرنے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ جیسا کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی اٹلی کے کامریڈز نے واضح کیا کہ یہ ایسے ہے جیسے کوئی ڈیم اچانک ٹوٹ جائے۔

یورپ میں پھیلتی عوامی تحریک

یہ اٹلی کی تحریک کی اہم خصوصیات ہیں مگر یہ خصوصیات صرف اٹلی تک محدود نہیں ہیں۔ اسی ہفتے سپین بھر میں میں بھی فلسطین سے یکجہتی میں بڑے پیمانے کے عوامی مظاہرے ہوئے جن میں تقریباً 20 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔

بارسلونا میں بندرگاہ اور اہم شاہراہوں کو بند کرنے کی کوششوں کی صورت میں مؤثر عمل (ڈائریکٹ ایکشن) کی طرف رجحان یہاں بھی موجود ہے اگرچہ یہ ابھی کمزور شکل میں ہے۔ یونین راہنماؤں کو مجبوراََ 15 اکتوبر کو محدود سطح کے ہڑتالی عمل کی کال دینی پڑی ہے جبکہ کچھ یونینز نے اسی دن کیٹالونیا، باسک اور گالیزیا میں 24 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دی ہے۔

فرانس میں ”ہر چیز بند کر دو!“ کی تحریک حکومت اور مائیکرون، جو بڑے پیمانے کی کٹوتیوں کی پالیسیاں نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کے خلاف 10 اور 18 ستمبر کو دو بڑے پیمانے کے ڈیز آف ایکشن کا موجب بنی۔ اس تحریک نے اب فرانسیسی وزیراعظم لیکارنو کو دفتر میں محض 27 دن گزارنے اور کابینہ تشکیل دینے کے 24 گھنٹوں کے بعد ہی استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے۔

اٹلی اور سپین میں اس بڑے پیمانے کے تحرک کا آغاز اوپر سے بڑی ٹریڈ یونین تنظیموں یا بائیں بازو کی جماعتوں کے راہنماؤں کی بجائے نیچے عام عوام کی جانب سے ہوا۔ دونوں جگہوں پر نوجوانوں نے ہی سب سے متحرک کردار ادا کیا۔

دیگر یورپی ممالک (جرمنی، بیلجئیم، آئرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، پرتگال، نیدڑلینڈ) میں بھی فلسطین کی تحریک سے یکجہتی میں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تحرک دیکھنے میں آیا اور فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے خلاف لڑاکا قسم کے مظاہرے ہوئے۔ اس میں ہمیں یونان میں یکم اکتوبر کو لیبر قوانین میں ہونے والی رد اصلاحات کے خلاف عام ہڑتال کا اضافہ کرنا ہو گا۔ یہ ہڑتال ٹیمپی (Tempi) ریلوے حادثے میں ہونے والی تباہی کو چھپانے کے خلاف ہونے والے بڑے پیمانے کے مظاہروں اور عام ہڑتال کا تسلسل بھی ہے۔

جنریشن زی کے انقلابات کی عالمگیر لہر

یہ واقعات یورپی ممالک، ان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جنریشن زی کے انقلابات کی عالمگیر لہر میں داخل ہونے کی نمائندگی کرتے ہیں جس نے پچھلے مہینے کے اندر (انڈونیشیا، نیپال، مشرقی تیمور، فیلپائنز، مڈغاسکر، موروکو، پاراگوائی، ایکواڈور، پیرو) یکے بعد دیگرے کئی ممالک کو مکمل طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دنیا بھر میں آج ایک ایسی نسل موجود ہے جو 2008ء کے بحران کے بعد جوان ہوئی ہے اور کٹوتیوں کی پالیسیوں، انقلابات اور عوامی تحریکوں، کرونا بحران کے اثرات، ماحولیاتی بحران، امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق، جنگوں اور جنگی جنون کے سائے میں پلی بڑھی ہے۔ ان تمام عوامل نے مل کر بورژوا اداروں، پارٹیوں، سرمایہ دارانہ میڈیا، پارلیمنٹ وغیرہ کے احترام کا خاتمہ کر دیا ہے۔

سرمایہ دارانہ بحران اور اس کی کئی دیگر شکلوں کے گرد مجتمع شدہ غصہ عوامی تحریکوں، سرکشیوں، بغاوتوں اور انقلابات کی عالمگیر کڑیوں کی شکل میں پھٹ پڑا ہے۔ یہ سب کچھ عالمی صورتحال میں ایک ڈرامائی تبدیلی کی غمازی کرتا ہے۔ نوجوان اس تحریک کی اگلی صفوں میں کھڑے ہیں اور وہ جبلی طور پر عالمگیریت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، ایک دوسرے کی تحریکوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور ان تحریکوں سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ یہ مظہر ہمیں ایک ہی طرح کے نعروں، بینرز اور ہر احتجاج میں سٹرا ہیٹ کرو (Straw Hat Crew) کے جھنڈے (Pirate Flag) کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔

سرکاری بائیں بازو کا مکمل دیوالیہ پن ان تحریکوں کو اس مرحلے سے آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور اگر کہیں یہ تحریکیں اپنے انقلابی عمل سے کسی حکومت یا سلطنت کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکنے کے مرحلے تک پہنچ بھی جاتی ہیں تو بائیں بازو کے دیوالیہ پن کی وجہ سے اوپری سطح پر محض چند نمائشی تبدیلیوں کی طرف موڑ دی جاتی ہیں اور جس سے بنیادی طور پر عوام کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

عوام کو جب کبھی بھی موقع ملا انہوں نے ایک نہیں کئی بار جدوجہد کرنے کے لازوال عزم اور حوصلے کا اظہار کیا ہے، بعض مواقع پر تو تمام تر مسائل کے باوجود انہوں نے خود رو طریقے سے ایسا کر دکھایا ہے۔ ہر جگہ جس چیز کی کمی نمایاں طور پر سامنے آئی ہے وہ ایک ایسی انقلابی قیادت ہے جو اپنے نام کے شایانِ شان ہو اور جو تحریک کو فیصلہ کن فتح تک لے کر جا سکتی ہو۔ ایک ایسی انقلابی کمیونسٹ قیادت تیار کرنے کا فریضہ آج پہلے سے بھی زیادہ جلدی کا تقاضا کرتا ہے۔

فلسطین کی آزادی مگر کیسے؟

اطالوی عام ہڑتال فلسطین سے یکجہتی کی تحریک کے ایک اعلی ترین مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے اور دنیا بھر کے محنت کشوں و نوجوانوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ صرف اٹلی کے اندر عوامی تحریک و متحرک نوجوانوں اور محنت کشوں کے بے پناہ دباؤ نے طاقتوں کے توازن کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ دائیں بازو کی حکومت بہت پیچھے جا چکی ہے۔

سی جی آئی ایل (CGIL) اور ڈیموکریٹک پارٹی کے راہنما ایک طرف دھکیل دیے جانے کے خوف کی وجہ سے بائیں بازو کو جوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ اقدام بھی بائیں بازو کے مرہونِ منت ہی ہے۔ یہی وقت ہے کہ تحریک کو آگے کی سمت میں دھکیلا جائے اور آگے بڑھا جائے۔ تحریک کو کچھ مخصوص مطالبات کو اپنانا چاہیے (اسرائیل پر مکمل تجارتی پابندی، سفارتی تعلقات کا خاتمہ وغیرہ) اور مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں 48 گھنٹوں کی ہڑتال کی دھمکی دی جانی چاہیے۔

اطالوی عام ہڑتال ہر جگہ فلسطین سے یکجہتی کی تحریک کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتی ہے جو کہ احتجاجی مظاہرے، محنت کش عوام کا براہ راست ایکشن، ہر چیز کو بند کرنا اور محنت کشوں کے بائیکاٹ ہیں۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جسے اپنانے کی ضرورت ہے۔

بندرگاہوں کے محنت کشوں کی جینووا کانفرنس نے یورپ اور بحیرہ روم بھر کے بندرگاہ کے محنت کشوں کو اس نسل کشی کے خلاف ڈے آف ایکشن کی کال دی ہے۔ یہ ایک شاندار آغاز ہے اور اسے بندرگاہوں اور ٹرانسپورٹ کے محنت کشوں اور اسلحے کی صنعت کے محنت کشوں کو ساتھ ملاتے ہوئے عالمی محنت کش طبقے کے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی بنیاد کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بہت سی وجوہات ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو نیتن یاہو کی خواہش کے خلاف اس امن معاہدے کے لیے زور دینے کی کوششوں پر مجبور کیا۔ یہ ہمارے اس اعلامیے کا مدعا نہیں ہے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ نسل کشی کے خلاف عوامی تحریک کے پھٹنے اور خاص طور پر اطالوی ابھار نے اس سب میں واضح طور پر بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

مارکو روبیو اور ٹرمپ دونوں نے خود بھی یہ تسلیم کیا جب انہوں نے یہ کہا، ”اسرائیل کی عالمی تنہائی بھی کی ایک وجہ ہے کہ غزہ کی جنگ کو ختم ہونا چاہیے“۔ امریکی سامراج، اسرائیلی اتحادیوں اور سہولت کاروں کو غزہ میں نسل کشی کے ان کے حمایت یافتہ عرب حکمرانوں اور ان کے اپنے ملکوں میں پڑنے والے انقلابی اثرات کے انقلابی نتائج سے انتہائی خطرناک خوف لاحق ہے۔

ہمیں واضح طور پر سمجھنا چاہیے کہ ٹرمپ کا غزہ کا منصوبہ ایک جال ہے۔ وہ جو کچھ فلسطینیوں کو پیش کر رہا ہے وہ ایک ایسا ہولناک انتخاب ہے جس میں ایک طرف فلسطینیوں کی نسل کشی اور نسلی صفائی ہے اور دوسری طرف ٹرمپ اور ٹونی بلیئر کی براہِ راست حکمرانی پر مبنی نوآبادیاتی غلامی۔ یہ ناکام اوسلو معاہدوں کا دوسرا ظالم ترین اضافہ ہے۔

فلسطین کو صرف انقلابی طریقوں سے آزادی دلائی جا سکتی ہے جس کا آغاز رجعتی عرب اور مسلمان حکومتوں کو اکھاڑ پھینکنے سے کیا جانا چاہیے جو اس کے استحصال میں لازمی معاونین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مصر، اردن، لبنان، ترکی اور سعودی عرب کے نوجوانوں اور محنت کش عوام کو اطالوی عام ہڑتال سے شکتی حاصل کرنی چاہیے اور اس انقلابی مثال کی پیروی کرنی چاہیے۔

فلسطین کے لیے جدوجہد کو الگ تھلگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مغرب میں یہ سب سے پہلے اور بنیادی طور پر ہماری اپنی سامراجی حکومتوں کے خلاف جدوجہد ہے جو غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی میں معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ وہی حکومتیں ہیں جو محنت کشوں اور نوجوانوں پر ظالمانہ کٹوتیوں کی پالیسیاں نافذ کرتی ہیں اور فوجی اخراجات میں بڑے پیمانے کے اضافے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ غزہ میں نسل کشی کے خلاف جدوجہد کو اپنے ملکوں میں کٹوتیوں کی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اطالوی جدوجہد کا طریقہ کار صرف فلسطین سے یکجہتی کی تحریک کے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر محنت کشوں اور نوجوانوں کی اجرتوں، کام کے حالات، گھروں اور فوجی اخراجات کے خلاف اور صحت و تعلیم کے حصول کی جدوجہد کے آگے بڑھنے کا راستہ بھی ہے۔

3اکتوبر کی عام ہڑتال اور عمومی طور پر 2025ء کے سرخ ستمبر کے واقعات ایک زبردست توانائی کا ذریعہ ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمام اہم نتائج اخذ کریں اور انہیں عمومی طور پر ہر جگہ لاگو کریں۔

Comments are closed.