پا بہ زنجیر پرومیتھیئس: یونانی خرد افروزی کی جلوہ گاہ

|تحریر: جیس مورے ڈین، ترجمہ: پارس جان|

جبر کے خلاف مزاحمت اور انسانی ترقی کے پیغام کے باعث، ایسکیلس کا ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ ہزاروں سال سے انقلابیوں کے خون کو گرما رہا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس مضمون میں جیس مورے ڈین نے اس ڈرامے کے مرکزی خیالات، تاریخی سیاق و سباق اور ہمارے عہد تک پہنچنے والے اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ قدیم یونانی خرد افروزی (Enlightenment) کا دور انسانی تاریخ کے اہم ترین ادوار میں سے ایک ہے۔ اس عہد میں جس طرح سیاست، فکر اور ثقافت میں بیک وقت انقلابات برپا ہوئے، اس سے قبل اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کا موازنہ صرف پندرھویں اور سولہویں صدی کے احیائے علوم اور اٹھارویں صدی کی روشن خیالی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں ایتھنز یونان کا مرکز و محور تھا اور اپنے فلسفیوں، سائنسدانوں، جمہوریت پسندوں کے ساتھ ساتھ اپنے فن کی نئی صنف یعنی ڈرامے کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ جب جمہوری آئین تشکیل دیا گیا تو یونانی تھیٹر کے تہوار کو بھی از سرِ نو منظم کر کے اسے جدید جمہوریت کا لازمی جزو قرار دے دیا گیا۔ عظیم یونانی ڈرامہ نویس شعرا نے شعوری طور پر سماج میں ارتقا پذیر تصورات سے ہم آہنگی اور مطابقت رکھنے والے ڈرامے تخلیق کیے۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے ایسکیلس سے منسوب المیہ ڈرامہ ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ اس شاندار عہد کا شاہکار ہے۔

یہاں ایتھنز کی جدید جمہوریت کی شریانوں میں خون بن کر دوڑنے والے ترقی پسند سیاسی اور سائنسی تصورات کو جیتی جاگتی یونانی المیہ نگاری کی شاندار اور دیدہ زیب ادبی روایت میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف اپنے عہد کا شاہکار تھا بلکہ یہ ہزاروں سال سے ترقی پسند عناصر کے اعصاب میں بھی گونج رہا ہے۔

ہیزیڈ اور ایسکیلس

ڈرامے کا پلاٹ آٹھویں صدی قبل مسیح کی ہیزیڈ (Hesiod) سے منسوب رزمیہ نظموں میں مذکور پرومیتھیئس کی دیومالا سے ماخوذ ہے۔ ایتھنز کے لوگ یقینا پہلے سے ہی ہیزیڈ کے کام سے بخوبی آشنا تھے جسے ہومر کی نظموں کی طرح قدیم یونان میں بعد ازاں عیسائیت میں انجیل سے ملتا جلتا مقام حاصل تھا۔ ہیزیڈ اور ایسکیلس دونوں کے خیال میں زیوس کے باپ کرونس (Cronus) اور اس کی پرانے خداؤں اور دیوتاؤں کی فوج کو شکست دے کر زیوس کی قیادت میں اولمپئن خدا برسرِ اقتدار آ چکے تھے۔ زیوس کے اقتدار کے اوائل میں، پرانے دور کا ایک دیوتا، پرومیتھیئس، خداؤں سے آگ چوری کرتا ہے اور اسے سونف کے ذخیرے میں چھپا کر انسانوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں زیوس پرومیتھیئس کو سزا سناتا ہے اور اسے سمندر کی طرف منہ کر کے ایک چٹان کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ چونکہ پرومیتھیئس لافانی ہے لہٰذا وہ تا ابد وہیں بندھا رہے گا۔ ایسکیلس کے ہاں یہ مواد ایک بالکل مختلف شکل اختیار کرتا ہے اور دنیا کے بارے میں ایک بالکل نئے نکتہ ِ نظر میں ڈھل جاتا ہے۔ ہیزیڈ کے دیوتاؤں کے شجرے میں کرونس پر زیوس کی فتح کو انتشار پر نظم وضبط کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ہیزیڈ کے مطابق اگرچہ زیوس سخت اور غصیلا ہے، لیکن آخری تجزیے میں وہ عاقل اور عادل ہے اور کائنات کو مضبوط لیکن بے داغ ہاتھوں سے چلا رہا ہے۔ پرومیتھیئس ایک چالاک بدمعاش ہے جو زیوس کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو کر اب سزا بھگت رہا ہے۔

اس کے برعکس ایسکیلس کا زیوس ایک غیر قانونی اور غاصب حکمران ہے جو ایک وحشی آمریت کے ذریعے مسلط ہے اور اپنی طاقت کا من مرضی سے بے دریغ سفاکانہ استعمال کرنے کا عادی ہے۔ پرومیتھیئس کو ایک شہید ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے جسے غلط کاری کی نہیں بلکہ ایک جابر کے خلاف بغاوت کر کے بنی نوعِ انسان کی پاسبانی کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ سیاسی منظر کشی اتنی ہی واضح ہے جتنی ہم عصر ایتھنز میں یہ ایک ٹھوس سیاسی حقیقت کے طور پر موجود تھی۔ زیوس کے خلاف پرومیتھیئس کی جدوجہد عین اسی وقت میں پیش کی گئی جب سماج میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ایتھنز کی جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نومولود جمہوریت کونئی سے نئی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔

سفاک زیوس

فن کی اس نئی صنف یعنی ڈرامے کو ایسکیلس نے اپنے مؤقف کو پیش کرنے کے لیے بہت خوبصورتی سے استعمال کیا۔ ایتھنز کے لوگ اسے پہلا عظیم المیہ نگار مانتے تھے، پھر اس کے بعد سوفوکلس اور یوری پیڈس کے نام آتے ہیں۔ ارسطو مکالمے کے کردار کو تقویت بخشنے والے دوسرے اداکار کی ایجاد کو ایسکیلس سے منسوب کرتا ہے اور اسے اس فن کا موجد قرار دیتا ہے۔ زیوس کی سفاکانہ سلطنت کے کردار کو دل دہلا دینے والے پہلے ہی سین میں بہت کامیابی سے پیش کیا گیا ہے جہاں پرومیتھئیس کوبندھا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کے اعضا دھات کے شکنجوں اور زنجیروں کے ذریعے چٹان سے بندھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی چھاتی کی بھی احاطہ بندی کی گئی ہے،جس سے اس پر مصلوب کیے جانے کا گماں گزرتا ہے، یہ وہ سزا تھی جو ایتھنز میں سب سے حقیر مجرموں کے لیے مختص تھی۔ اسے ’دنیا کے آخری کونے‘ پر تا ابد مار پیٹ کرنے کے لیے باندھا گیا ہے۔ زیوس کے معتمدانِ خاص کروٹس اور بیا (جو بالترتیب قوت اور جبر کی استعاراتی تجسیم ہیں) کی ہدایات پر زیوس کے بیٹے اور فولاد گری کے دیوتا ہیفاسٹس کو اس تعزیر پر عملدرآمد کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ اس سزا کا مقصد پرومیتھیئس کو توڑنا ہے تاکہ وہ زیوس کا اطاعت گزار بن جائے اور انسانوں سے محبت کی بری لت سے توبہ تائب ہو جائے۔ یوں مطلق العنانیت سے بغاوت اور بیدار ہوتی ہوئی روشن خیال انسانیت کے تصوارت کو ابتدائی لائنوں میں ہی واضح کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں سارے ڈرامے میں پرومیتھیئس یونہی سٹیج پر بندھا رہتا ہے اور یہی ڈرامے کا مرکزی خیال ہے جو درحقیقت زیوس کی سلطنت کی وحشت کی تصویر ہے۔

ڈرامے کی ترتیب و تشکیل

ڈرامے کی غیر مبہم سیاسی ماہیت کو بہت سے کلاسیکیت پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر اولیور ٹاپلن اسے ’عظیم لیکن کھوکھلی‘ تحریر قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”یہ جبر اور تباہی کی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی رومانوی تعبیر کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ڈرامے کے طور پر یہ غیرموزوں ہے“۔ اس طرح کی ہر تنقید ایک مخصوص طبقاتی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔ جبکہ یہ ڈرامہ ایک ڈرامے کے طور پر بھی انتہا ئی اعلیٰ ادبی تحریک سے لبریز ہے جس کے ذریعے نظریات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آغاز سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ پرومیتھیئس مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور وہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ تاہم جوں جوں مختلف کردار آ کر پرومیتھیئس سے ملتے اور اسے اپنے اپنے طریقے سے سمجھتے اور سمجھاتے ہیں تو یہ منکشف ہوتا جاتا ہے کہ دراصل زیوس کے زوال کی کلید بھی پرومیتھیئس ہی کے ہاتھ میں ہے۔

جوں جوں پسِ پردہ حقیقت آشکار ہوتی جاتی ہے، ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ پرومیتھیئس ایک غیبی بشارت سے باخبر ہے جس کے مطابق ایک بے نامی عورت جسے زیوس نے حاملہ کیا ہے زیوس یعنی باپ سے بھی زیادہ طاقتور بیٹے کو جنم دینے والی ہے۔ سو پرومیتھیئس کو باندھنے کا مقصد محض زیوس کے خلاف بغاوت کی ہی سزا دینا نہیں بلکہ تشدد کے ذریعے اس غیبی بشارت کی مکمل جانکاری اور تفصیلات حاصل کرنا بھی مقصود ہے۔ یعنی اگر زیوس کو پتہ چل جائے کہ وہ عورت کون ہے تو وہ اس سانحے کا تدارک کر سکتا ہے۔ یوں زیوس کا مقدر پرومیتھیئس کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ایسکیلس کی طرف سے یقینا اور واقعی ایک منفرد اضافہ ہے۔ جوں جوں ڈرامہ آگے بڑھتا ہے، پرومیتھیئس مزید نڈر اور بیباک ہوتا جاتا ہے۔ لگ بھگ ناقابلِ فہم انداز میں ڈرامہ درد اور زبوں حالی کی تصویر سے ایک ناقابلِ گرفت قوت اور ایک ناقابلِ حرکت یا جامد شے کے مابین آفاقی تصادم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

غیر متزلزل اور ثابت قدم

حالانکہ ڈرامے کے دیگر تمام کردار زیوس کی جابرانہ فطرت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن پرومیتھیئس اکیلا اس کا آخر تک انکاری رہتا ہے۔

سمندروں کا پرانا دیوتا اوشن جس کی جگہ نئی اولمپیئن سلطنت میں پوذائڈن نے لے لی ہے، وہ بھی ہمدرد بن کر پرومیتھیئس سے ملنے آتا ہے لیکن وہ ریاست کے آگے گھٹنے ٹیک دینے والے بزدل عملیت پسند کی طرح پرومیتھیئس کو ’صلاح مشورے‘ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اوشن پرومیتھیئس کو زیوس سے اس کی ڈیل کروانے کی پیشکش بھی کرتا ہے تاکہ وہ بھی دیگر پرانے دیوتاؤں کی طرح زیوس کی سلطنت میں عافیت سے رہ سکے، لیکن پرومیتھیئس اس پیشکش کا تمسخر اڑا کر اسے مسترد کر دیتا ہے۔ اوشن کی بیٹیاں اوشنڈز پرومیتھیئس سے ملنے آتی ہیں اور سٹیج پر اس کے ساتھ ہی کورس کی طرح ٹھہری رہتی ہیں جو تمام یونانی ڈراموں کی روایت تھی جس میں ایک گروپ کی شکل میں کچھ کردار سٹیج پر موجود رہتے ہیں، پس پردہ موسیقی پر ناچتے اور گاتے ہیں اور دیگر کرداروں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ پرومییھیئس کی طرف ترس اور ہمدردی کے جذبات رکھتی ہیں لیکن وہ زیوس کے خوف سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہی رہتی ہیں۔ وہ بار بار پرومیتھیئس سے سوال کرتی ہیں کہ تمہاری ان تکالیف اور آہ و زاری کا بھلا کیا فائدہ ہو گا۔ کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔

ڈرامے کے آخری حصے میں زیوس کا پیغمبر ہرمیز جسے پرومیتھیئس ”دیوتاؤں کے ہرکارے“ کا نام بھی دیتا ہے، پرومیتھیئس کو مکمل طور پر توڑنے کے لیے وارد ہوتا ہے۔ وہ دھمکی دیتا ہے کہ غیبی بشارت کا راز افشا نہ کیا گیا تو زیوس ایک ہولناک طوفان بھیجے گا جو پرومیتھیئس کو پہاڑوں میں تہس نہس کرے گا اور پھر اسے زیرِ زمین غرق کر دیا جائے گا۔ طویل عرصے تک دوزخ کی اس پاتال میں اذیت بھگتنے کے بعد اسے دوبارہ چٹان سے باندھ دیا جائے گا لیکن اس بار تشدد کئی گنا زیادہ اذیت ناک ہو گا۔ کیونکہ اس بار زیوس ایک عقاب بھیجے گا جو ہر دوسرے دن پرومیتھیئس کے جگر کو نوچ نوچ کر کھا لیا کرے گا اور چونکہ وہ لافانی ہے تو ابد تک اس کا جگر بار بار بنتا رہے گا اور یہ اذیت جاری رہے گی۔ لیکن پرومیتھیئس اپنے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:

”جب ایک دوسرے سے بھرپور نفرت ہو تو دشمن کے ہاتھوں تکالیف برداشت کرنے میں کوئی ہزیمت نہیں ہوتی، لہٰذا میرے لیے بھیجے گئے تیز بجلی کے بنے آگ کے لچھے دار ریشوں کو مجھ پر برسنے دو، ہوا کو گرج چمک کے ساتھ ہلچل پیدا کرنے دو، منہ زور آندھیوں سے کہو کہ دنیا کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیں۔ زمین کو سرکش طوفان کے سامنے اپنی بنیادوں سے لرزنے دو، ہاں اس کی جڑوں سے۔ امڈتے ہوئے طوفانوں کو آسمانی ستاروں اور سمندری لہروں کو راستے سے بھٹکا لینے دو، میرے اس جسم کو جتنا مرضی اوپر اچھالو اور پھر اسے بھلے ہی خاک میں یا دوزخ کی پاتال کے بے لگام گردابوں میں غرق ہو کر منہدم ہو جانے دو“۔

دھمکی کے عین مطابق زیوس نے طوفان برپا کر دیا جس کی ہولناکی سے زمین اور آسمان ایک ہو گئے۔ ہرمیز نے کورس کو جانے کو کہا کہ کہیں انہیں بھی اس کرب سے نہ گزرنا پڑے جو پرومیتھیئس کا مقدر بن چکا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر کورس کی ایک نمائندہ لڑکی نے یہ کہہ کر جانے سے منع کر دیا کہ:

”تم ہم سے اس کمینگی کی توقع کیسے کر سکتے ہو؟ ہم اس کے ساتھ ہی وہ سب کچھ برداشت کریں گے جو ہمیں ہر قیمت پر کرنا چاہیے۔ میں نے غداروں سے نفرت کرنا سیکھا ہے، مجھے اور کسی بیماری سے اتنی کراہت نہیں ہوتی جتنی غداری سے ہوتی ہے“۔

اور اسی آخری سین کے ساتھ یہ المیہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ یوں یہ ڈرامہ مصلحت سے قطعی انکار پر ختم ہوتا ہے اور انقلابی جمہوریت پسندوں کی تخلیق کردہ نئی اقدار کو جراتِ رندانہ سے اجاگر کرتا ہے۔ کلاسیکیت پسند ایزابل رفل کہتا ہے کہ ”ڈرامہ انقلابی جمہوری نظریات کے ابتدائی مراحل کی تقلیم کرتا ہے“۔

ایتھنز کی جمہوریت کا ابھار

ایتھنز کی جمہوریت طبقاتی جدوجہد کے طویل عہد کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ گزشتہ دو صدیوں سے مسلسل اضطراب، خانہ جنگی اور انقلابات نے سارے قدیم یونان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور حیرت ہے کہ اس عہد کے لیے عدم ’توازن‘ کی نامناسب اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ صرف چند صدیاں قبل یونانی سماج تاریخ کے اس مرحلے پر تھا جسے ماہرِ بشریات لیوس ہینری مارگن ’بربریت کے بالائی مرحلے‘ کا نام دیتا ہے۔ یہ مکمل طور پر کسانوں پر مشتمل تھا جو سماجی طور پر قبائل اور مشترکہ خاندانوں کی شکلوں میں رہتے تھے۔ آٹھویں صدی قبل مسیح میں یونانی آبادکاری کی لہر نے تجارت کی ترقی، اجناس کی پیداوار اور نئی ’زر کی معیشت‘ کو مہمیز دی۔ اگرچہ اجناس زیادہ تر زرعی ہوتی تھیں، مثال کے طور پر زیتون، شراب وغیرہ۔ تاہم زیادہ مستعد زمینداروں نے مسلسل بڑھتے ہوئے غلاموں کی محنت سے پیدا کردہ قدرِ زائد نچوڑ کر بہت زیادہ امیر ہونا شروع کر دیا تھا۔ طبقاتی خلیج مسلسل بڑھتی گئی اور قدیم قبائلی سماجی تنظیم سے شہری ریاستوں کی ابتدائی اشکال نمودار ہونا شروع ہوئیں۔ ہیزیڈ کے دور میں شہری ریاستوں کی یہ ابتدائی شکل اشرافیائی نوعیت کی تھی جہاں کلیدی اہمیت کے حامل عہدوں پر مٹھی بھر امیر زمیندار گھرانوں کی اجارہ داری تھی۔ غریب کسان دولتمندوں کے مقروض تھے اور آئندہ صدیوں میں قرضوں کا یہ بوجھ ناقابلِ برداشت ہو گیا جس سے عدم مساوات اور طبقاتی اضطراب اپنی انتہاؤں کو پہنچ گیا۔

اسی دور میں تاجروں کا ایک نیا طبقہ ابھر کر سامنے آیا جس کی اکثریت کا تعلق سابقہ اشرافیہ طبقے سے نہیں تھا۔ ساتویں صدی کے وسط میں، سماج میں اپنے مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کی بنیاد پر اس طبقے نے اشرافیہ کے وراثتی اقتدار کوچیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔ اشرافیہ بمقابلہ غیر اشرافیہ (غلاموں اور خواتین کے علاوہ) کا سوال شدت سے ابھرا اور انقلابی درجہ حرارت کو جنم دینے کا باعث بنا۔ یہ ہنگامہ خیز عہد یونانی شاہوں کے ابھار سے پھٹ پڑا۔ یہ مختلف پس منظر کے افراد تھے جو بعض اوقات اشرافیہ اور بسا اوقات غیر اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، یہ لوگ طاقت کے ذریعے سیاسی اقتدار ہتھیا لیتے تھے اور پھر مطلق اتھارٹی سے ریاستی امور چلاتے تھے۔ زیوس کو واضح طور پر ڈرامے میں ایک ایسے ہی سفاک شاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ان عمومی، البتہ مختصر، شاہی اقساط نے اشرافیائی اقتدار کو شدید ہچکولے دیے اور سماج میں نام نہاد ’عدم توازن‘ کو مزید تقویت ملی۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد ’شخصی شاہی‘ کے ساتھ ساتھ اشرافیائی اقتدار کی جگہ ’امر اشاہی‘ نے لے لی جہاں وراثتی اقتدار کی بجائے ملکیتی اہلیت فیصلہ کن شکل اختیار کر گئی۔ لیکن کچھ شہری ریاستوں میں یہ عمل امرا شاہی سے بھی تجاوز کر گیا۔ ایتھنز میں کورنتھ، میگارا اور سائیراکاس، جو غیر اشرافیہ میں سے تھے، ڈٹ کر لڑے اور انہوں نے ملکیت سے ماورا تمام آزاد انسانوں کے لیے مساوات جیت لی۔ ایتھنز میں 508 قبل مسیح میں کلیس تھینس نے جمہوری آئین تشکیل دیا۔ تاہم یہ اصلاحات کے طویل سلسلے کا محض آغاز تھا جن کے ذریعے آئندہ دو صدیوں میں جمہوریت کو تقویت ملی، اشرافیہ پر مسلسل حملے جاری رہے۔ لیکن غیر اشرافیہ کی مسلسل فتوحات کے باوجود، اشرافیہ ابھی تک ایک طبقے کے طور پر موجود تھی اور وہ اپنا تاج واپس حاصل کرنے کے لیے بیتاب تھی۔ ایتھنز چاروں اور سے جمہوریت مخالف طاقتور ریاستوں سے گھرا ہوا تھا جن میں سپارٹا اور مطلق العنان ایرانی سلطنت کے نام اہم ہیں۔ ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ کسی بھی سیاسی مراجعت کے خلاف جدوجہد کا حصہ تھا۔ یہ ڈرامہ جمہوری اقدار اور ہر قسم کے شاہانہ عناصر (یعنی محض یونانی شخصی شاہی کا مظہر ہی نہیں بلکہ سیاسی حقوق پر وہ تمام قدغنیں جن کی وکالت اشرافیہ اور امرا کر رہے تھے) کے مابین امتیازی خطوط کو واضح کرتا ہے۔ ڈرامے میں اس جدوجہد کے بطن سے جنم لینے والے انقلابی خیالات کی پرومیتھیئس کی شخصیت میں تجسیم کر کے ان کا دفاع کیا گیا ہے۔ لیکن ڈرامہ ایتھنز کی جمہوری نظریات کے محض دفاع سے آگے بڑھ کر ان نظریات کو مربوط کلیت بخشتا ہے اور انہیں دنیا کے بارے میں ایک مکمل طور پر جدید مادیت پسندانہ نکتہ ِنظر کا لازمی جزو بنا دیتا ہے۔

یونانی خرد افروزی

”پا بہ زنجیر پرومیتھیئس“ سے صرف ایک سو سال قبل چھٹی صدی قبل مسیح میں آج کے ترکی میں واقع یونان کی ایک شہری ریاست میلیٹس میں فلسفے کا جنم ہوا۔ یہاں دیومالا اور دیوتاؤں کے بغیر فطرت کو اس کے اپنے اندر سے عقلی بنیادوں پر سمجھنے کی ابتدائی کوششیں کی گئیں۔

میلیسیئن فلسفیوں نے کائنات کی ابتدا اور اجزائے ترکیبی کے سوالات سے ابتدا کی۔ فلسفیانہ مادیت پسندی کے ظہور کے ساتھ ہی سارے یونان میں سائنس کے نئے میدان کھل گئے۔ حیاتیات، فطرتی تاریخ، میکانیات، موسمیات، نقشہ کشی، ارضیات اور ادویات سب کو سائنسی بنیادیں ملنا شروع ہوئیں۔ چھٹی صدی کے اختتام پر جمہوریت کے ابھار سے فطرت کے مطالعے سے ارتقا پذیر سوچنے کے نئے معیارات کا سماجی سوالات پر اطلاق شروع ہوا۔ سیاسیات، اخلاقیات، تاریخ، لسانیات اور منطق بھی مطالعے کے میدان بن گئے۔ سائنس اور ثقافت کی یہ ترقی غلام دارانہ سماج کے مرہونِ منت تھی جس کے باعث سماج کی ایک پرت کو خود کو سوچ وچار کے لیے وقف کرنے کے مواقع میسر آئے جس سے پیداواری قوتوں، تکنیک اور ثقافت کو بے نظیر ترقی ملی۔ ’قیدی پرومیتھیئس‘ نے ان تمام جدید ترقی پسند نظریات کو ایک ڈرامائی اکائی میں مربوط کر دیا۔

ہیزیڈ کے ’انسان کا زوال‘

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسکیلس نے یہ کام ایک مرتبہ پھر اپنے ڈرامے کا ہیزیڈ کی نظموں سے موازنہ کرتے ہوئے کیا۔ ہیزیڈ کے ہاں کرونس انسان (مرد، جیسے عورتیں تھیں ہی نہیں) کے سنہرے دور کا نمائندہ تھا۔ یہ انسان (مرد) محنت اورا ذیت سے آزاد خدائی رحمت کے سائے میں رہتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ:

”دیوتاؤں کی طرح وہ اپنی زندگی بے چینی اور تکلیف سے قطعی طور پر ماورا ہر طرح کی فکر سے آزاد ارواح کے طور پر گزارتے تھے۔ اناج پیدا کرنے والے کھیت خود کار طریقے سے بہت سا اناج بلاتعطل پیدا کر دیتے تھے“۔

اس حسین دور کا خاتمہ زیوس کے اقتدار میں آنے سے نہیں بلکہ پرومیتھیئس کی حماقت کی وجہ سے ہوا۔

زیوس کے اقتدار میں آنے کے بعد پرومیتھیئس کو دیوتاؤں کو انسانوں کی بلی چڑھانے کے طریقوں پر غور و خوض کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ہیزیڈ کے بقول پرومیتھیئس ایک مکار شعبدہ باز ثابت ہوا اور اس نے زیوس اور اولمپیئنز کو دھوکہ دینے اور قربانی کے انسانی گوشت کا بڑا حصہ خرد برد کرنے یعنی انسانوں کی جان بخشی کی راہ نکال لی۔ انتقامی کاروائی کے طور پر زیوس نے بنی نوعِ انسان کو آگ سے محروم کر دیا لیکن پرومیتھیئس نے اسے چوری کر کے انسانوں کو لوٹا دیا، اسی کے سبب پرومیتھیئس سزا کا حقدار قرار پایا۔

اس جرم میں ملوث ہونے کی پاداش میں زیوس نے انسانوں (مردوں) کو سزا دینے کے لیے پہلی عورت پینڈورا تخلیق کی،

”اس نے آگ کے بدلے اس خوبصورت شرانگیز شے کی سازش کی۔۔۔ کیونکہ اسی سے نسوانیت یعنی عورت کی نسل چل پڑی، جی ہاں اسی سے فانی انسانوں کی دشمن یعنی نسل اور قبیلے کے بطور عورت کا جنم ہوا“۔

زیوس نے پھر برائیوں سے لبریز ایک مرتبان بنایا جسے پینڈورا نے کھول دیا اور ساری برائیاں نسلِ انسان میں طاعون کی طرح پھیل گئیں۔ یوں بتدریج انسانیت کا زوال شروع ہوا جو ’لوہے کے دور‘ پر منتج ہوا جو ہیزیڈ کا دور بھی ہے جہاں انسانوں کو ”بے چینی اور تکالیف سے کبھی مکتی نہیں مل سکتی، نہ ہی راتوں کو کبھی کرب سے نجات مل سکتی ہے اور دیوتا ان کی دیکھ بھال کے بدلے دکھ دیتے ہیں“۔

انسانی ترقی کا گیت

ایسکیلس کا ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ اس کے برعکس مؤقف پیش کرتا ہے۔ انسان (مرد) کے زوال کی بجائے بنی نوعِ انسان (بلا تخصیصِ مرد و زن) گزشتہ دور میں نہ صرف تکلیف میں تھے بلکہ جانوروں کی سی زندگی گزارتے تھے اور فطرت کی قوتوں کے مکمل طور پر غلام تھے۔ اس نکتہ ِ نظر کے مطابق یہ پرومیتھیئس کی طرف سے آگ کا تحفہ ہی تھا جس نے انسانیت کی ترقی کے رستے کی رکاوٹیں صاف کیں اور فطرت پر انسان کی برتری کی راہیں متعین کیں۔ شاعری کی اس مقبو ل ترین نظم میں پرومیتھیئس اپنے دیے گئے آگ کے تحفے کے بعد ممکنہ انسانی ترقی کے اہم ترین سنگ ہائے میل کی زمانی ترتیب میں فہرست سازی کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ وضاحت کرتا ہے کہ انسان ہمیشہ باشعور نہیں تھے۔ آگ سے پہلے ہم زمین پر اپنے ماحول کو سمجھے اور متاثر کیے بغیر دیگر درندوں کی طرح ہی رہتے تھے:

”میں نے انسانوں کو بے دماغ پایا اور انہیں دماغ دیا، انہیں اپنی مرضی کا مالک بنایا۔۔۔ پہلے ان کے پاس آنکھیں تھیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے تھے، کان تھے لیکن سماعت نہیں تھی۔ خواب کے دوران دیکھی گئی شکلوں کی طرح وہ اپنی طویل زندگیوں میں بے ترتیبی سے بھٹکتے پھرتے تھے“۔

پرومیتھیئس پھر آگ کے تحفے کے باعث ہمارے ابھار کی نشاندہی کرتا ہے۔ پہلے ہم نے موسموں کے چکر کو سمجھا جس سے زراعت کی ترقی ممکن ہوئی۔ پرومیتھیئس پھر بالترتیب ریاضی، زبان، جانوروں کی پرورش، ادویات، جہاز سازی اور معدنیات وغیرہ کا ذکر کرتا ہے۔ آخرالذکر دونوں ہم عصر ایتھنز میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی تھیں کیونکہ ایتھنز کے پاس بحری سلطنت تھی اور وہ پرکشش معدنی دولت سے مالا مال تھا۔ وہ ان الفاظ پر اختتام کرتا ہے، ”انسان کا ہر فن پرومیتھیئس سے نکلا ہے“۔ لیکن یہ یاد رہے کہ پرومیتھیئس نے ہمیں صرف آگ اور امید کے تحائف دیے تھے، جس کے بعد اسے سزا دی گئی اور پھر اس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ جیسے وہ ڈرامے میں پہلے خود وضاحت کرتا ہے کہ:

”میں نے آگ کا خفیہ خزانہ تلاش کیا اور اسے سونف کے ذخیرے میں بھر لیا، جب اس سے استفادہ حاصل کیا گیا تو وہ انسان کے ہر ہنر میں اس کا استاد ثابت ہوا، ایک عظیم ذخیرہ۔ یہ وہ گناہ تھا جس کا مجھے ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور جس کی میں نے کھلے آسمان کے نیچے زنجیروں میں جکڑے جانے کی صورت میں قیمت چکائی“۔

دیوتا کی طرف سے ابتدائی تحریک کے بعد کسی ماورائی قوت کا کہیں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ پھر بس فطرت تھی اور انسان، اور ہماری بہتری کا انحصار بیک وقت ہماری تکنیکی ترقی اور دماغی صلاحیتو ں پر تھا۔ یوں یہ ڈرامہ ابتدائی انسانوں کے جانوروں کی دنیا سے تہذیب میں سفر کی مادیت پسندانہ توضیحات پیش کرتا ہے۔ اُس وقت یہ نظریات مختلف شکلوں میں ہر جگہ گردش میں تھے۔ مثال کے طور پر چھٹی صدی قبل مسیح کے میلیسیئن فلسفی انیکسیماندر نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ انسان اور دیگر جانوروں کا ارتقا مچھلی سے ہوا ہے۔ پانچویں یا چھٹی صدی قبل مسیح کے فلسفی زینوفینس نے انسانی ارتقا کا ایک دہریانہ تصور پیش کیا کہ ”شروع سے ہی فانی انسانوں کے تمام معاملات میں دیوتاؤں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن وقت پر یہ سوال اٹھانے سے انہوں نے بہتر دریافتیں کیں“۔

ڈرامہ پانچویں صدی کے فلسفی انیگزا گورس کی اس بات کو بھی دہراتا ہے یا اس کے زیرِ اثر ہے کہ انسانی ہاتھوں کا ارتقا ”انسانوں کے تمام جانداروں میں سب سے زیادہ ذہین ہونے“ کا باعث ہے۔ انسانی ارتقا میں دماغ اور جسم کے جدلیاتی تعلق کی گہری بصیرت گزشتہ صدی کی جدید سائنس میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈرامے میں ہم عصر فلسفے اور فطری سائنس کے تصورات میں موازنے کے دیگر بھی بہت سے نکات مل جاتے ہیں۔ اور ان تصورات کو دیومالائی ڈرامائی انداز میں پیش کر کے یہ ڈرامہ واقعی کچھ اصلی مواد فراہم کرتا ہے اور انہیں ایک کلیت میں مربوط کرتے ہوئے ان نظریات کو مزید نکھارتا ہے۔ علامت نگاری کا فن فلسفیانہ، سیاسی اور ثقافتی تصورات کو ڈرامے کے مختلف اجزا میں ظاہر کرنے کے امکانات سے مزین ہے اور فن کے اس ذریعے سے یہ نظریات ایک دوسرے سے جڑتے ہیں، ٹکراتے ہیں اور تعلق میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر غالب امکان ہے کہ آگ یہاں قدیم یونان کے تصور ”ٹیکنے“ (techne) (کام، ہنر اور فن کی عملی تعبیر، اسلوب اور پیداوار کے معنی میں) کی علامت ہے۔ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ پرومیتھیئس کا کردار ’ٹیکنے‘ کا ہی علامتی تشخص ہے۔ تاہم جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ ایسکیلس کا پرومیتھیئس انسانی ذہانت کے کسی ایک پہلو کی ہی علامت نہیں بلکہ انسانی صفات کی کلیت کی علامت ہے۔

اندھی امید

پرومیتھیئس نے انسانوں کو درحقیقت ’اندھی امید‘ کی شکل میں ایک اور تحفہ بھی ودیعت کیا تھا۔ یہ بظاہر ایک منفی چیز لگتی ہے تاہم اس کی وضاحت ڈرامے میں کر دی گئی ہے کہ کرونس کے دور میں انسانوں کو پتہ ہوتا تھا کہ وہ کب مریں گے۔ اندھی امید کے تحفے نے اس علم کو ان سے چھین لیا۔ اوشنڈز اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ یہ واقعی ایک عظیم تحفہ ہے کیونکہ جب تمہیں نہیں پتہ ہوتا کہ تم نے مرنا کب ہے تو تمہارے پاس اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کرنے کی واقعی ایک وجہ ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ یہ بھی ہیزیڈ کے مؤقف سے ایک بڑا انحراف ہے۔ اس کے پینڈورا کے دیو مالائی تصور کی پیچیدگی میں امید بھی انسان کے لیے برائی کے مرتبان ہی میں شامل ہے۔ لیکن جب مرتبان کھلتا ہے اور تمام برائیاں انسانوں میں طاعون پھیلانے کے لیے بھاگ نکلتی ہیں، امید مرتبان میں ہی پھنس جاتی ہے اور بھاگ نہیں پاتی، یوں انسان مایوسی اور بدظنی کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایسکیلس کا پرومیتھیئس تاہم انسانوں کو امید سے نوازتا ہے۔ بظاہر یہ بہتر مستقبل کی امید ہے لیکن یہ تجریدی سوچ کی صلاحیت بھی ہے۔ ایک طرف آگ اور امید کے جڑواں تحائف تمام انسانی ترقی کی کنجی ہیں یعنی ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے کا ذریعہ اور محرک ہیں۔ ان معنوں میں امید ہماری زندگیوں کو بہتر کرنے کی ہماری باطنی خواہشات کی علامت ہے۔ دوسری طرف مستقبل کے بارے میں ہمارے خداداد علم کواندھا کر دینے کی وجہ سے ہمیں خود سے مستقبل کی پیش بینی کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، یوں سوچ وچار کی ہماری صلاحیت بڑھتی ہے۔ قدیم یونانی عام طور پر تعقلی سوچ، ادراک، تجرید، تصورسازی اور اسی طرح کی دیگر خصوصیات کے لیے ناؤس (‘nous’) یا فہم کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ اسی لیے پرومیتھیئس اپنے آگ اور امید کے تحائف کی صورت میں ہماری انسانیت کی اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ نمائندگی کرتا ہے یعنی ناؤس اور ٹیکنے، عقل اور عمل، احساس اور سوچ۔

جدلیاتی اتحاد

پرومیتھیئس کا ”انسانی ترقی کا گیت“ نظم کے لیے محض خطِ مماس ہی نہیں بلکہ اس کا مرکزی خیال ہے جو زیوس کے خلاف پرومیتھیئس کی جدوجہد میں منعکس ہونے والے سیاسی تصورات کو جلا بخشتا ہے۔ ڈرامہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ انسانی سماج کے تمام پہلو جدوجہد سے پیدا ہوئے ہیں اور جدوجہد کے ذریعے ہی ترقی کرتے ہیں۔ زیوس انسانی سماج کے پاؤں کی تمام بیڑیوں کی علامت ہے جبکہ پرومیتھیئس ہماری تخلیقی روح کا نمائندہ ہے اور ان سماجی بیڑیوں اور فطرت کی قوتوں کے خلاف مزاحمت میں پیش رفت اور رجائیت کا علمبردار ہے۔

تبدیلی کا جدلیاتی تصور تمام خیالات کو متحد اور منضبط کرتا ہے۔ لیکن یہ کسی پُر انتشار اور بے لگام تبدیلی کا تصور نہیں بلکہ یہ بلندی کی طرف مائل ترقی پسندانہ تخلیقی تبدیلی کا تصور ہے۔ پرومیتھیئس ناقابلِ تصور کی بشارت دیتا ہے یعنی کہ موجودہ حالات مکمل طور پر اپنے الٹ میں بدل جائیں گے:

”پس اپنے ناگہانی زوال میں زیوس کو پتہ چلے گا کہ حکومت اور غلامی میں کتنا فرق ہے“۔

جہد کے باعث کائنات میں مسلسل تغیر کا یہ تصور چھٹی صدی قبل مسیح کے فلسفی ہیراکلیطس کے تصورات کا ہی تسلسل ہے جو اپنے ایک اقتباس میں کہتا ہے کہ:

”ہومر یہ کہنے میں غلط تھا کہ کاش دیوتاؤں اور انسانوں کے مابین کشمکش ختم ہو جائے۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ وہ کائنات کی تباہی کی دعا کر رہا تھا کیونکہ اگر اس کی دعا قبول ہو جاتی تو سب کچھ ختم ہو جاتا“۔

تغیر اور تضاد (کشمکش) کا حقیقت سے منسلک یہ تصور ایک ٹھوس سچائی ہے اور ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ میں مختلف زاویوں سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسکیلس اس جدلیاتی سوچ کو ہیراکلیطس کے دور سے مزید ترقی یافتہ نئے سائنسی اور سیاسی خیالات سے لبریز کر دیتا ہے۔

انقلابی روح

’پرومیتھیئس کی سزا‘ کو عام طور پر ایسکیلس کے ’اوریسٹیہ‘ کی طرح ایک ادبی مثلث کا حصہ سمجھا جاتا ہے تاہم دیگر دو ڈرامے بدقسمتی سے گم ہو گئے تھے۔ پھر بھی ایسکیلس کے باقی کام اور ایتھنز کے سماج کی فطرت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ادبی مثلث کے آخری ڈرامے میں کسی نہ کسی طرح زیوس اور پرومیتھیئس میں سمجھوتہ کروا دیا گیا ہو گا۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوری ایتھنز بھی بہرحال ایک طبقاتی سماج ہی تھا۔ قانونی شہری تعداد کے حوالے سے آبادی کی اقلیت پر مشتمل تھے۔ صرف ایتھنز کے مرد شہری تھے جبکہ غیر مقامیوں، غلاموں اور ایتھنز کی سبھی خواتین کو کوئی سیاسی حقوق حاصل نہ تھے۔ اور قانونی شہریوں میں بھی طبقاتی بنیادوں پر امتیازات موجود تھے۔ اگرچہ تمام شہریوں کے لیے سیاسی مساوات کا تصور تو تھا لیکن معاشی مساوات کا کوئی دکھاوا تک نہیں تھا۔ اسی لیے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ امیر شہری کسی طور بھی مزید اصلاحات کے حق میں نہیں تھے۔ ماضی میں جمہوریت کے لیے انقلابی جدوجہد وقت کی اہم ضرورت تھی اور قابلِ ستائش بھی تھی لیکن اب سب کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ تحمل سے واپس زندگی کے روزمرہ معمولات پر توجہ مرکوز کی جائے۔ یوں پرومیتھیئس کی نام نہاد ادبی مثلث کے اختتام پر سمجھوتہ ہی اس سماجی صورتحال کی ممکنہ ترجمانی ہو سکتا تھا۔

تاہم ڈرامہ ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ خود ایتھنز کے سماج کے قدامت پسندانہ پہلو کا ترجمان ہرگز نہیں۔ اگرچہ یہ اس مخصوص زمان و مکاں ہی کی پیداوار ہے لیکن اس ڈرامے میں آزادی، انسانی ترقی اور خرد افروزی کی باغیانہ گونج پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان سے ہزاروں سال بعد بھی سنی جا سکتی ہے۔ یورپ بھر میں جمہوری انقلابات کے دور میں فنکاروں اور انقلابیوں میں ایسکیلس کا پرومیتھیئس پوری توانائی سے گونجتا رہا۔ انقلابی انگریز رومانوی شاعر پرسی شیلے نے ’پرومیتھیئس آزاد‘ کے نام سے ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ کا جواب لکھا، جس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا اور ہم جیوپیٹر (زیوس کا رومی نام) کی سلطنت کا خاتمہ دیکھتے ہیں۔ اپنی نظم کے دیباچے میں وہ فنکاروں کی اس نوجوان اور پر امید نسل کے جوش و خروش کو اِن الفاظ میں قلم بند کرتا ہے:

”مجھے انسانیت کے جابر کے ساتھ اس ہیرو کی مفاہمت کے روحانی زلزلے کے تصور سے ہی گھن آتی ہے۔ پرومیتھیئس بلاشبہ جیسا کہ وہ تھا، ویسے ہی ہمارے لیے عظیم مقاصد کے لیے حاصل کردہ شفاف ترین اور برحق محرکات کی مکمل اور برتر اخلاقی اور تعقلی انسانی فطرت کا نمونہ ہے“۔

نوجوان گوئٹے نے بھی ’پا بہ زنجیر پرومیتھیئس‘ سے کئی خیالات مستعار لیے اور پرومیتھیئس کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی جسے دہریت کی اذان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ بیتھوون نے بھی روشن خیالی کی طرف بنی نوعِ انسان کی مسافرت کی فاتحانہ ترنگ پر مبنی گیت ’پرومیتھیئس کی مخلوقات‘ کی شاندار دھن تخلیق کی۔ کارل مارکس بھی اس ڈرامے سے بے حد متاثر تھا۔ وہ ایسکیلس کو اپنا محبوب ترین شاعر کہتا ہے اور اس نے اپنی تحریروں میں جگہ جگہ پرومیتھیئس کے حوالے دیے ہیں۔ اپنی شاہکار تصنیف ’سرمایہ‘ میں مارکس لکھتا ہے کہ ”سرمایہ دارانہ پیداوار مزدور کو سرمائے کے ساتھ اس سے بھی زیادہ مضبوط کھونٹے سے باندھ دیتی ہے جس سے ولکن (ہیفائسٹس کا رومی نام) نے پرومیتھیئس کو چٹان پر باندھا تھا“۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مارکس کے نزدیک اب یہ محض فطرت یا سیاسی جبر نہیں بلکہ خود نظام (سرمایہ داری) ہے جو انسانیت پر جبر کرتا ہے لیکن یہ اس نظام کا جبر ہی ہے جو محنت کش طبقے کو اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے۔

آج کا پرومیتھیئس

آج کل قنوطی اور بیمار ذہنیت کے مدرسین اس ڈرامے کے مرکزی خیالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر مبینہ بائیں بازو کے وہ مدرسین حقارت کے مستحق ہیں جو انقلاب اور سائنس پر خام ’عقیدے‘ کے لیے طنزاً پرومیتھیئن ازم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی زوال کے عہد میں پیٹی بورژوا علمیت کے خصی پن کا واضح اظہار ہے۔ درحقیقت پرومیتھیئن جدوجہد ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد ہے جو ساری طبقاتی تاریخ میں جاری رہی ہے اور محنت کش طبقے کو ورثے میں ملی ہے۔ آج سرمایہ داری نہ صرف پیداوار کے پاؤں کی بیڑی بن چکی ہے بلکہ ثقافت، فلسفے، سائنس اور مجموعی طور پر انسانی ترقی کے پاؤں کی بھی زنجیر بن چکی ہے۔ قدیم یونانیوں کی اشرافیہ کے خلاف جدوجہد اور جاگیرداروں کے خلاف انقلاب پسند بورژوازی کی جدوجہد کی طرح سرمایہ داری کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد کے لیے خِرد افروزی لازم و ملزوم ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کی تخلیق کردہ بے بہا پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے محنت کش طبقہ انسانیت کو تاریخ میں پہلی بار حقیقی آزادی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔

Comments are closed.