سری لنکا سے نیپال تک نوجوانوں کی انقلابی تحریکیں اور اسباق

|تحریر: بین کری، ترجمہ: عبدالحئی|

ایک دن ایسا لگتا ہے کہ ملک پرسکون ہے اور حکمران ٹولہ مضبوطی سے اقتدار پر قابض ہے۔ اگلے دن انقلابی عوام جلتی ہوئی پارلیمانی عمارت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

پولیس غائب ہو جاتی ہے، وزیرِاعظم اور اراکین پارلیمنٹ بھاگ جاتے ہیں۔ حال ہی میں نیپال سے سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز حیران کن تھیں۔ وہ حیرت انگیز طور پر اُن مناظر سے ملتی جلتی ہیں جو ہم پہلے ہی سری لنکا، بنگلہ دیش، کینیا، انڈونیشیا میں دیکھ چکے ہیں۔

ان واقعات کا مطلب کیا ہے؟ بائیں بازو کے کچھ لوگ جو ان مناظر سے متاثر ہوتے ہیں خود کو اس لہر کے ساتھ بہا لے جاتے ہیں بغیر یہ سوچے کہ یہ لہر کس سمت جا رہی ہے۔ وہ عوام کے لیے نعروں کے گویا جوشیلے حامی بن جاتے ہیں، جس کی انقلاب میں عوام کو سب سے آخر میں ضرورت ہوتی ہے۔

دیگر لوگ اس ساری صورتحال کے بارے میں زیادہ منفی تاثرات رکھتے ہیں۔ وہ نیپال، سری لنکا یا ان میں سے کسی اور مثال کو دیکھتے ہیں اور ان کا ذہن میں بٹھائے ہوئے اس خاکے سے موازنہ کرتے ہیں کہ ایک انقلاب کیسا ہونا چاہیے۔

وہ سوویتوں کو نہیں دیکھتے۔ وہ مزدوروں کی کونسلیں کو نہیں دیکھتے۔ بلکہ وہ عوام کو محض اسی حد تک منظم پاتے ہیں، جتنا وہ کسی حادثاتی قیادتوں یا محض سوشل میڈیا کے ہیش ٹیگز کے گرد منظم ہوتے ہیں۔ انہیں سرخ پرچم نظر نہیں آتا۔ انہیں سری لنکن کے جھنڈے، کینیا کے جھنڈے، بنگلہ دیش اور نیپال کے جھنڈے نظر آتے ہیں۔

انہیں ان تحریکوں کے چند مطالبات مبہم اور محدود نظر آتے ہیں، خصوصاً جب ان کا موازنہ سوشلسٹ انقلاب کے مکمل پروگرام سے کیا جائے۔ اور وہ اس ناقابلِ انکار حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب تک یہ انقلابات بمشکل ہی کوئی بنیادی تبدیلی لا سکے ہیں۔ وہ حقارت سے اعلان کرتے ہیں کہ یہ سرے سے انقلاب ہیں ہی نہیں، پھر دوبارہ سو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب اصل انقلاب آئے تو انہیں جگایا جائے۔

بطور حقیقی کمیونسٹ، ہم نہ تو خود کو ظاہری مناظر سے متاثر ہونے دے سکتے ہیں، اور نہ ہی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ انقلابات پہلے سے بنے بنائے خاکوں میں فٹ ہو جائیں گے۔ ہمیں واقعات کی حقیقت تک پہنچنا ہو گا اور ان سے عملی اسباق اخذ کرنے ہوں گے۔

پھر ان رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟

سری لنکا سے نیپال تک یہ انقلابات اپنی اپنی منفرد خصوصیات رکھتے ہیں۔ لیکن اب تک کچھ واضح اور ناقابلِ انکار نمونے سامنے آ رہے ہیں۔ جب انہیں اکٹھا کیا جائے تو یہ ہمیں اس عہد کے کردار کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں۔

عوام کی طاقت

سب سے پہلی بات جو کہنی ضروری ہے، یہ ہے کہ ہم انقلابی عوام سے جدوجہد یا بہادری کے معاملے میں اس سے زیادہ کچھ مانگ ہی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ان کے اندر کتنی عظیم پوشیدہ طاقت موجود ہے۔

تین سال پہلے جب سری لنکا کے عوام صدارتی محل پر ہلہ بولا، جو وہاں پر ہونے والے واقعات کی پہلے کڑی تھی، تو پولیس مچھروں کی طرح ادھر ادھر بکھر گئی۔ راجاپکشا کا خاندان دم دبا کر بھاگ گیا۔ معاشرے میں کوئی اور قوت اس طاقت کا ذرا بھی مقابلہ نہیں کر سکی۔

حکومت نے خود کو بے بسی کے عالم میں معلق پایا۔ انقلاب وہیں اور اسی وقت حکومت کو کچل سکتا تھا۔ حقیقت میں طاقت سڑکوں پر موجود عوام کے ہاتھ میں تھی۔ باقی صرف یہ کرنا رہ گیا تھا کہ پرانی حکومت کو برطرف قرار دے دیا جاتا۔ لیکن عوام اس شعور سے آشنا نہیں تھے کہ طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی جماعت موجود تھی جو ان کی جانب سے اقتدار پر قابض ہونے کے لیے کافی بااختیار ہوتی۔

چنانچہ اسی شام جب یہ شاندار فتح حاصل ہوئی، انقلابی عوام کے پاس کرنے کو کچھ باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ وہ صدارتی محل خالی کریں اور گھروں کو لوٹ جائیں۔ اس کے بعد پرانی نفرت زدہ پارلیمنٹ، جو راجاپکشا کی جماعت کی اکثریت سے بھری ہوئی تھی، نے صدر کے متبادل کا انتخاب کیا۔

5اگست 2024ء کو بنگلہ دیش کی حکومت بھی اسی طرح ہوا میں معلق ہو چکی تھی۔ پولیس، جس نے پچھلے ہفتوں میں دہشت کی حکمرانی مسلط کی تھی، نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ حقیقت میں وہ عوام کے انتقام سے خوفزدہ ہو کر میدان چھوڑ چکے تھے۔ ملک کے 600 تھانوں میں سے 450 جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے۔ نفرت زدہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو فوجی سربراہوں نے ایک ہیلی کاپٹر میں بٹھایا اور ملک سے باہر لے گئے۔

طاقت انقلابی عوام کے ہاتھوں میں تھی اور وہ اپنی انقلابی حکومت قائم کر سکتے تھے۔ لیکن ایک بار پھر وہ اپنی طاقت کے شعور سے محروم تھے۔ پرانی حکومت شکست کھا چکی تھی۔ پرانے جرنیلوں اور ججوں کو ہٹایا جانا چاہیے تھا اور ہٹایا جا سکتا تھا۔ مگر اس کی بجائے طلبہ رہنما شکست خوردہ جرنیلوں سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے ایک سابق بینکار کی سربراہی میں عبوری حکومت پر اتفاق کر لیا جہاں وہ علامتی وزارتوں میں بیٹھنے پر راضی ہو گئے۔

کینیا میں تمام قربانیوں اور تمام خونریزی کے بعد بھی اس سے بھی کم حاصل کیا گیا ہے۔ روٹو بدستور اقتدار کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔

ان تمام معاملات میں بنیادی معمہ یہ ہے کہ عوام نے زبردست طاقت دکھانے کے باوجود حقیقت میں کتنا تھوڑا پایا ہے۔

یہ سب ایک مفقود عنصر کا نتیجہ ہے جس کی طرف ہم بار بار لوٹیں گے: یعنی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی۔ قیادت کے بغیر انقلاب کے پروگرام اور حتمی مقصد کے بارے میں تذبذب کی کیفیت حاوی ہے اور یہ تمام انقلابات آدھے راستے میں رک گئے ہیں۔

لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سرے سے انقلابات تھے ہی نہیں ہم ان سے کہتے ہیں ان حالات میں کسی اور قسم کا انقلاب ممکن ہی نہیں تھا۔ لینن نے اس اعتراض کا فیصلہ کن جواب دیا تھا جب انہوں نے اُن لوگوں کو مخاطب کیا جو یہ انکار کرتے تھے کہ 1916ء میں ہونے والی آئرلینڈ میں ایسٹر بغاوت کوئی انقلابی اہمیت رکھتی ہے، اور وہ اسے محض ایک ’بغاوت‘ قرار دیتے تھے۔

”یہ تصور کرنا کہ ایک سماجی انقلاب اس کے بغیر ممکن ہے کہ نوآبادیات اور یورپ میں چھوٹی قوموں کے بغاوتی مظاہرے ہوں، چھوٹے بورژوا طبقے کے انقلابی جوش و خروش کے بغیر، جس میں اس کے تمام تعصبات شامل ہوں، بغیر اس کے کہ غیر طبقاتی شعور رکھنے والے پرولتاری اور نیم پرو لتاری عوام جاگیرداروں، چرچ، بادشاہت، غیر ملکی جبر وغیرہ کے خلاف حرکت میں آئیں، ایسا تصور کرنا سماجی انقلاب کو رد کرنے کے مترادف ہے۔ صرف وہی لوگ، جو یہ سوچیں کہ ایک جگہ فوج قطار میں کھڑی ہو کر کہے گی، ’ہم سوشلسٹ ہیں‘ اور کسی اور جگہ ایک فوج کہے گی، ’ہم سامراجی ہیں‘ اور یہ ہی سماجی انقلاب ہو گا، صرف وہی لوگ اتنی مضحکہ خیز اور دقیق رائے رکھتے ہیں کہ آئرش بغاوت کو ’بغاوت‘ کہہ کر بدنام کریں۔ جو کوئی ’خالص‘ سماجی انقلاب کی توقع رکھتا ہے، وہ اسے کبھی دیکھ نہیں پائے گا۔ ایسا شخص انقلاب کی زبانی تعریف کرتا ہے لیکن یہ نہیں سمجھتا کہ انقلاب کیا ہے۔“ (لینن، بحث برائے خود ارادیت کا خلاصہ)

قیادت کا مسئلہ

واضح قیادت کی کمی ہے۔ لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ عوام کے حالات اتنے مایوس کن ہیں کہ وہ اس مفقود عنصر کے منظر پر آنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ نوجوان تو سب سے کم اس بات پر آمادہ ہیں کہ حالات بالکل درست ہو جانے تک صبر سے بیٹھے رہیں۔

اس تمام انقلابی ہلچل کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ایک نئی نسل کے نوجوان کس طرح منظر پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ نوجوان جن سے مستقبل چھین لیا گیا ہے جن کے پاس کھونے کو سب سے کم اور پانے کو سب سے زیادہ ہے، جو سب سے زیادہ توانائی رکھنے والی پرت ہے اور ماضی کی شکستوں کے بوجھ سے آزاد ہے، ہر جگہ سب سے آگے محاذ پر موجود رہے ہیں۔

نیپال اور کینیا میں اسے ”جین زی انقلاب“ کہا جا رہا ہے۔ سربیا اور بنگلہ دیش میں طلبہ کی بڑی تحریکوں نے گویا بجلی کی طرح لاکھوں عام مزدوروں اور غریب عوام کے غصے کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔

اگرچہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک فرق موجود ہے لیکن عام طور پر جو معمولی سی قیادت ابھری ہے وہ نوجوانوں نے ہی آگے لائی ہے۔ کیا وہ کوئی الجھن پیدا کرتے ہیں؟ بالکل کرتے ہیں۔ اس میں کس کا قصور ہے؟ ہمارا دو ٹوک جواب ہے یہ مزدور تنظیموں کے اُن رہنماؤں کا قصور ہے جن کا کام ہی قیادت کرنا ہے۔

قابلِ مذمت حقیقت یہ ہے کہ ان کی بزدلانہ غیر موجودگی نوجوانوں کی بہادری کے ساتھ قیادت میں ہونے کا ایک شرمناک تضاد رہی ہے۔

جس طرح کینیا اور بنگلہ دیش میں جرنیلوں نے سپاہیوں کو بیرکوں میں مقید رکھا تھا تاکہ وہ انقلاب سے متاثر نہ ہوں بالکل اسی طرح مزدور طبقے کی بھاری بھرکم صفوں کو مزدور رہنماؤں نے بیرکوں میں بند کر رکھا ہے۔

یہ سراسر ایک جرم ہے۔ بالآخر صرف مزدور طبقے کے ہاتھ میں یہ طاقت ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی جڑ سے اکھاڑ پھینکے جو عوام کی تمام بدحالی اور دکھوں کا اصل ذمہ دار ہے۔

نوجوانوں نے کئی بار مزدوروں سے جڑنے کی کوشش کی ہے۔ سربیا میں طلبہ کو درست طور پر یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ٹریڈ یونینز سے مطالبہ کیا کہ وہ وُوچچ حکومت کے خلاف عام ہڑتال منظم کریں اور انہوں نے کام کی جگہوں پر زبوروی (اجتماعی اسمبلیاں) قائم کرنے کی بھی اپیل کی۔ لیکن ٹریڈ یونین دفاتر کے تنگ نظر بیوروکریٹوں نے ان تمام مطالبات کی مزاحمت کی، کیونکہ وہ انہیں اپنی چھوٹی چھوٹی جاگیروں پر قبضہ سمجھتے تھے۔

کینیا میں COTU-K ٹریڈ یونین مرکز کے بدنصیب جنرل سیکرٹری نے تو یہاں تک کیا کہ اس نے روٹو کے پسماندہ فنانس بل 2024ء کے دفاع میں بیان دیا، جس نے پوری تحریک کو جنم دیا تھا!

اور 2022ء میں سری لنکا کی ارگلیا (’جدوجہد‘) کے عروج پر ہڑتال (انقلابی عام ہڑتال) کا تصور وسیع پیمانے پر پھیل گیا تھا۔ لیکن ٹریڈ یونینوں نے ایک دن کی ہڑتال کے سوا کسی اور چیز کے لیے کال دینے سے انکار کر دیا۔

کرپشن کے خلاف

ان تمام تحریکوں کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ عوام نے سب سے نمایاں اور طاقتور علامتوں کو نشانہ بنایا ہے جو ان کے غصے کو بھڑکاتی ہیں۔

سڑے ہوئے حکمران ٹولے جو اپنی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ اپنی بربریت کے باعث بھی نفرت کا نشانہ بنتے ہوئے عوام کے تمام غصے کو اپنی طرف کھینچ لائے ہیں، سری لنکا میں راجاپکشا کا ٹولہ، بنگلہ دیش میں حسینہ کا ٹولہ، کینیا میں روٹو کا ٹولہ، نیپال میں حکمران اور ان کے ’نیپو بچے‘ انڈونیشیا میں سیاست دان جو اپنی شاندار تنخواہوں میں اضافہ کر رہے تھے، سربیا میں وُوچچ اور اس کے غنڈے۔

سب سے بڑھ کر سری لنکا، کینیا، بنگلہ دیش، نیپال، انڈونیشیا اور دیگر جگہوں کے عوام سب سے پہلے کرپشن کے خلاف ضرب لگا رہے ہیں۔

بہت سے شکی لوگ اس جانب اشارہ کرتے ہیں اور طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ بات ان کے مؤقف کو ثابت کرتی ہے کہ یہ انقلابات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک حقیقی انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہوتا ہے نہ کہ کرپشن کے خلاف۔

لیکن کرپشن دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی تمام سڑاند کی سب سے طاقتور اور انتہائی علامت ہے۔ عوام ناانصافی نفرت اور غصے کے ایک گہرے احساس سے بھر جاتے ہیں جب وہ اپنے گرد موجود دولت کی حیرت انگیز سطح کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک وہ دولت ایک کرپٹ اشرافیہ کے ذریعے لوٹی جا رہی ہے۔

مغربی مبصرین کرپشن کو نام نہاد تیسری دنیا کی ایک بدقسمت خصوصیت قرار دیتے ہیں اور اس کی وجہ پسماندگی بتاتے ہیں۔ بلاشبہ وہ یہ سب سامراج کے نشانات چھپانے کے لیے کرتے ہیں جو غربت اور پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

لیکن اسی طرح کی کرپشن تمام سرمایہ دارانہ ممالک میں عام ہے خاص طور پر یورپ میں بھی۔ سربیا میں نووی ساد کینوپی کے گرنے کے سانحے اور یونان میں ٹیمپی ریل حادثے کے جرم کے درمیان مماثلت پر غور کریں جنہوں نے دونوں صورتوں میں عوام کے بڑے ہجوم کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ دونوں معاملات میں قصور وار کرپٹ سیاستدان ہیں۔ وہ رشوت اور کرپٹ سودے بازی سے کمائی گئی نقدی گنتے ہیں، جبکہ غریب عوام اپنے ان جاں بحق پیاروں کو گنتے ہیں جو کرپشن کے باعث ہونے والی ان تباہیوں میں جان سے گئے۔

دریں اثنا، سری لنکا یا بنگلہ دیش کا ایک غریب رکشہ ڈرائیور صرف اپنی بھوک کی تکلیف کا موازنہ کولمبو کے لوٹس ٹاور یا گنگا پر بننے والے پدما برج جیسے شاندار نمائش پر مبنی منصوبوں سے کرے تو وہ اپنے اور حکمرانوں کے درمیان بے پناہ خلیج کو محسوس کر سکتا ہے۔ جبکہ جکارتہ غریبوں کے لیے ایک جہنم ہے، انڈونیشیا کی حکومت موجودہ دارالحکومت کی غربت اور گندگی سے دور ایک نیا چمکتا دمکتا دارالحکومت تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔

جب عوام سری لنکا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور نیپال میں حکومت کے خلاف نکلے تو انہی ناز و نعم میں پلے ہوئے منافقوں، قوم کے ان رہنماؤں پر انہوں نے وار کیا۔ انہوں نے فطری طور پر ان گلی سڑی ٹولیوں پر سیدھا ان کے سروں پر ضرب لگائی اور ہمیں وہ مناظر دکھائے جن میں پارلیمنٹ کی عمارتوں پر دھاوا بولا گیا، صدارتی محلات کو لوٹا گیا اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر اور اراکین پارلیمنٹ کی رہائش گاہوں کو نذر آتش کیا گیا۔

عوام نے درست فطری ردعمل دکھایا جب انہوں نے ان بدعنوان غنڈوں پر حملہ کیا جو عہدے کے ذریعے خود کو لامتناہی طور پر مالا مال کرتے ہیں۔ تاہم، بالآخر اگر ان لوگوں کو باہر بھی نکال دیا جائے تو دوسرے ان کی جگہ لینے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ کرپشن ختم کرنے کے لیے ہمیں سرمایہ کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اور اس کا مطلب ہے نجی ملکیت کا خاتمہ اور سرمایہ دار ریاست کے مسلح اداروں کو توڑ دینا جو حکمران طبقے کی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں۔

تمام پارٹیوں سے نفرت

تقریباً ان تمام تحریکوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ مسئلہ صرف موجودہ حکمران ٹولے کا نہیں بلکہ تمام سیاستدان اور جماعتیں ایک جیسی ہی ہیں۔ نام نہاد اپوزیشن نے بھی زیادہ تر معاملات میں خود کو اتنا ہی گلا سڑا ثابت کیا ہے۔

اور یہ صرف بدعنوانی ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ حقیقت کہ وہ اسی قابلِ نفرت پارلیمانی کھیل میں شریک ہیں اور جھوٹ سے بھری ہوئی وہی زبان بولتے ہیں، اپوزیشن کو بھی موجودہ حکمرانوں کے ساتھ داغدار کر دیتی ہے۔

یوں سری لنکا میں بدعنوان صدر گوتابایا راجاپکشا کو نشانہ بنانے والے نعرے ”گو ہوم گوٹا“ کے ساتھ ساتھ عوام نے ”گو ہوم 225“ کا نعرہ بھی بلند کیا، یعنی پارلیمنٹ کے تمام 225 اراکین کو بھی نکال باہر پھینکا جائے۔

کینیا میں نوجوان اراکینِ پارلیمنٹ کو ”MPigs“ کہتے ہیں۔ بالکل درست کہتے ہیں! غریبوں کو مزید غریب بنانے کے قوانین پاس کرتے ہوئے یہ تمام ”MPigs“ پارلیمانی اخراجات اور مراعات کی ناند میں اپنی تھوتھنی گڑھے رکھتے ہیں۔ کینیا کے نوجوانوں کو رُٹو سے کوئی سروکار نہیں لیکن وہ اپوزیشن رہنماؤں جیسے اوڈنگا (Odinga) سے بھی کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتے، جو جلد ہی رُٹو کے جوتے کے پیچھے انقلابی نوجوانوں کے خوف سے دبکا بیٹھا نظر آیا۔

ان کا نعرہ ”قبیلے کے بغیر، رہنما کے بغیر، پارٹی کے بغیر‘، دراصل کینیا میں ان تمام قبائلی سرمایہ دار ٹولیوں کی ایک نہایت صحت مند فطری نفی کو ظاہر کرتا ہے جنہیں کینیا میں ”سیاسی جماعتیں“ کہا جاتا ہے۔

لیکن اگر موجودہ تمام پارٹیاں حکمران طبقے کے اس یا اُس بدعنوان گروہ کے اوزار ہیں، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مزدور اور نوجوان بغیر کسی پارٹی کے کام چلا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ صورتحال پُر زور مطالبہ کرتی ہے کہ ان کے پاس اپنی ایک ایسی جماعت اور قیادت ہو جو ان کے مفادات کی نمائندگی کرے۔

بایاں بازو بھی اتنا ہی برا ہے

تمام سیاسی جماعتوں کی یہ نفی اس حقیقت کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ زیادہ تر معاملات میں نام نہاد بائیں بازو کی جماعتیں بھی دائیں بازو کی جماعتوں جیسی ہی بری ہیں!

بعض صورتوں میں بایاں بازو دائیں بازو کی جماعتوں کی طرح ہی بدعنوان بن گیا ہے۔ حسد میں مبتلا سماجی مدارج طے کرنے والے یہ لوگ کئی بات اور بھی بدتر ثابت ہوتے ہیں یہاں تک کہ لفظ ’بایاں‘ ہی سے ایک ناقابلِ برداشت بدبو آنے لگتی ہے۔

یہ صرف بائیں بازو کی کسی اخلاقی خامی یا کمزوری کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس سڑاند کی جڑیں جھوٹے نظریاتی اصولوں میں ہیں۔ اس افسوسناک صورتحال کی خاص ذمہ داری اسٹالن ازم پر عائد ہوتی ہے، جس کے ’مرحلہ واریت‘ کے زہریلے نظریے نے براہِ راست بائیں بازو کی کئی جماعتوں کو حکمران طبقے کے بدترین اور سب سے گلے سڑے عناصر کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔

اس نظریے کے مطابق پسماندہ ممالک میں سب سے اہم ذمہ داریاں سوشلسٹ نہیں بلکہ بورژوا جمہوری ذمہ داریاں ہیں۔ اس میں کچھ حد تک سچائی موجود ہے۔

پسماندہ سرمایہ دار ممالک جیسے نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈونیشیا میں عوام کی سب سے واضح اور فوری خواہش یہ ہے کہ موجودہ حکومتوں کے بدعنوان اور آمرانہ اقتدار کو توڑا جائے۔ سب سے بڑھ کر، ان ظالمانہ حکومتوں کے تحت زندگی گزارنے والے عوام آزاد سانس لینا چاہتے ہیں۔ وہ جمہوری حقوق چاہتے ہیں۔

ان ذمہ داریوں میں بذاتِ خود کوئی فطری طور پر سوشلسٹ پہلو نہیں ہے۔ یہ وہی ہیں جنہیں مارکس وادی ”بورژوا جمہوری“ عمل کہتے ہیں۔

لیکن اس وجہ سے کہ انقلاب کو بورژوا جمہوری عوامل کا سامنا ہے، سٹالن ازم کے ”مرحلہ واریت“ کے نظریے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں انقلاب کی قیادت کے لیے بورژوازی کے کسی ’ترقی پسند‘ دھڑے کی تلاش کرنی چاہیے۔ کئی سالوں کی محض سرمایہ دارانہ ترقی کے بعد جس کا آغاز انقلاب کے قومی بورژوا مرحلے سے ہونا فرض کیا جاتا ہے، کوئی ملک بالآخر سوشلسٹ نظام کے لیے تیار ہو گا۔

صرف ایک چھوٹی سی رکاوٹ ہے۔ آج کسی بھی پسماندہ ملک میں سرمایہ دار طبقے کا کوئی ایسا ’ترقی پسند‘ دھڑا موجود ہی نہیں ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک طفیلیہ طبقہ ہے، جو پوری طرح سامراج پر انحصار کرتا ہے۔ یہ انقلابی عوام سے خوفزدہ ہے ان کی تمام پالیسیاں اقدامات اور بیانات اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ بالخصوص یہ سماج کی واحد مسلسل انقلابی قوت یعنی مزدور طبقے سے خوفزدہ ہے۔

سرمایہ دار طبقے کے کسی ’ترقی پسند‘ دھڑے کے فریب کی تلاش میں سٹالنسٹ کبھی ایک گلی سڑی ٹولی کے دامن سے لپٹ جاتے ہیں تو کبھی کسی دوسری کے دامن سے۔

بنگلہ دیش کی کمیونسٹ پارٹی نے دہائیوں تک حسینہ اور اس کے والد مجیب کی عوامی لیگ کی حمایت کی۔ انہوں نے عوامی لیگ کو بنگلہ دیش کی قومی آزادی کا ’ترقی پسند‘ محافظ قرار دیا اور اپنی مسلسل حمایت کو یہ جواز دیا کہ سیکولر عوامی لیگ جماعتِ اسلامی کے مذہبی بنیاد پرستوں کے مقابلے میں کم تر برائی ہے۔

اب وہ حسینہ کی بدنامی میں شریک ہیں، جبکہ جماعتِ اسلامی کے رجعت پسند خود کو حسینہ کی عوامی لیگ حکومت کے شہید کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

جب کوئی انقلابی جماعت موجود نہ ہو جو کرپشن کے مسئلے کو سرمایہ داری سے جوڑ سکے تو اسلام پسند آگے بڑھتے ہیں اور خود ہی ’کرپشن کے خلاف جدوجہد‘ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”ہاں، ہم بھی بدعنوان سیاستدانوں کے خلاف ہیں“۔ ”ہمیں صاف ستھری سیاست چاہیے، پرانے چہروں کی جگہ نئے چہرے چاہییں۔“ یہ رجعت پسند کرپشن کی ذمہ داری سرمایہ داری پر ڈالنے کے بجائے اسے دوسرے مبینہ اسباب جیسے کہ سیکولر رہنماؤں کی اخلاقیات یا دین داری کی کمی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

شاید سٹالنسٹ نظریہ ’مرحلہ واریت‘ کی سب سے سخت مذمت نیپال اور وہاں کی سیاست پر حاوی ماؤاسٹوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

دس سالہ بغاوت کے بعد ماؤ اسٹ 2006ء میں انقلابی لہر کے سہارے اقتدار میں لائے گئے۔ انہوں نے کیا کِیا؟ انہوں نے فوراً نیپالی کانگریس جیسی کھلے عام بورژوا جماعتوں کے ساتھ ایک مشترکہ 12 نکاتی معاہدے پر دستخط کیے اور تب سے ملک پر نام نہاد ”کمیونسٹوں“ اور ان بورژوا عناصر کے اتحاد کی حکومتیں قائم ہیں۔

ان کا جواز یہ تھا کہ تمام ’ترقی پسند‘ اور ’جاگیردار مخالف‘ قوتوں کو متحد ہو کر بادشاہت کو کچلنا اور ایک جمہوریہ قائم کرنا ہو گا۔ اس سے نیپالی سرمایہ داری کی ترقی ہو گی جو کسی خاص مرحلے پر نیپال میں سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد ڈالے گی۔

لیکن 2008ء سے 2025ء تک کوئی ترقی درج نہیں کی گئی۔ نیپال انسانی ترقی کے اشاریے میں 193 ممالک میں 140ویں درجے سے گر کر 145ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ ہر سال ہزاروں نوجوان غربت سے بچنے کے لیے بیرونِ ملک کام کرنے کو بھاگتے ہیں، یہاں تک کہ ملک کی معیشت کا ایک تہائی حصہ ترسیلاتِ زر پر مشتمل ہے۔

پندرہ برس تک سرمایہ دار طبقے کی طرف سے ریاست چلانے کے بعد ماؤ اسٹوں کے اپنے سیاستدان عوام کی نفرت کا نشانہ بن گئے ہیں۔ وہ بھی کھلے عام بورژوا جماعتوں کی طرح کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

’نیپو کڈز‘ (nepo kids) جن کی نمایاں ہوتی دولت نے حالیہ واقعات کو بھڑکایا، ہم کسے دیکھتے ہیں؟ سمیتا دہل (Samita Dahal) جیسی نوجوان جو ایسے ہینڈ بیگز دکھاتی ہے جن کی قیمت ایک نیپالی مزدور کی اوسط ماہانہ تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہے اور جس کا دادا کوئی اور نہیں بلکہ چیئرمین پراچندا (Prachanda) ہے جو ماؤ اسٹ گوریلوں کا سابق رہنما تھا۔

رنگین انقلابات؟

ایک رائے جو نئی کثیر قطبی دنیا کے حامیوں میں مقبول ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ دراصل انقلاب کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دراصل ردِ انقلابات یا ”رنگین“ انقلابات ہیں، یعنی مغربی خفیہ ایجنسیوں کی پراسرار سازشیں جن کے ذریعے عوام کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہی بات اکثر عرب بہار کے بارے میں بھی کہی گئی ہے، جو موجودہ انقلابی لہر سے بہت سی مشابہت رکھتی تھی۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ غلط طور پر کیوں یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب کسی سازش کا نتیجہ تھا۔ مصر میں مزدور طبقہ اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکا۔ نتیجہ؟ ال سیسی نے مبارک کی جگہ لے لی اور آج مصر میں حالات 2010ء کے مقابلے میں سو گنا زیادہ سخت ہیں۔ لیبیا اور شام میں سامراج نے ان ممالک کو وحشیانہ خانہ جنگی میں دھکیلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

یہ حقیقت کہ موجودہ انقلابی لہر کا مرکز جنوبی ایشیا ہے اور یہ کہ کچھ حکومتیں جو ہل کر رہ گئی ہیں چین کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سب مغرب کی جانب سے منظم کردہ حکومت کی تبدیلی ہے۔

اس خیال میں ایک طنز پوشیدہ ہے کہ جو کچھ ہم اب دیکھ رہے ہیں وہ دراصل رنگین انقلابات کی لہر ہے۔

کثیر قطبی دنیا کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ بائیں بازو کو سامراج کے خلاف لڑنا چاہیے اور اس کے لیے اسے ترقی پسند اور سامراج مخالف بورژوا حکومتوں کی حمایت کرنی چاہیے جو گلوبل ساؤتھ میں ہیں۔ لیکن وہ اس حقیقت سے اندھے ہیں کہ بائیں بازو کی اتنی بدنامی جس کی وجہ سے رجعت پسند خلا میں چھلانگ لگانے کی کوشش کر سکتے ہیں بالکل اس لیے ہے کہ بائیں بازو نے برسوں تک اسی ’ترقی پسند‘، ’سامراج مخالف‘ قومی بورژوازی کے فریب کو برقرار رکھا!

یہ خیال کہ یہ واقعات ’رنگین انقلابات‘ ہیں، غلط ہے۔ سازشیں اس کی وضاحت نہیں کرتی جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط خیال ہے جس میں کچھ حد تک سچائی موجود ہے کہ بغیر انقلابی قیادت کے ردِ انقلاب غالب آ سکتا ہے، سامراجیوں کو مداخلت کے مواقع مل سکتے ہیں اور حالات انتہائی رجعت پسندانہ سمت میں بگڑ سکتے ہیں۔

ہمیں صاف طور پر کہنا ہو گا کہ ان انقلابوں کا حساب کتاب یہی ظاہر کرتا ہے اور یہ ایک ایسا سبق ہے جس سے سیکھنا ضروری ہے۔

شام میں انقلاب کے پرولتاریہ پروگرام ترتیب نہ دے پانے کی ناکامی نے سامراجیوں کو اس تحریک کو ہائی جیک کرنے اور اسے اسلام پسند بغاوت میں تبدیل کرنے کا موقع دیا۔ اسی طرح، 2018ء میں ایران میں نوجوانوں کے احتجاج نے واضح طبقاتی نقطہ نظر نہ اپنانے کی وجہ سے مغربی حمایت یافتہ لبرل اپوزیشن کے دائرے کی طرف جھکاؤ اختیار کر لیا۔

اور ان حالیہ مثالوں میں؟ کینیا میں رُٹو اقتدار میں برقرار ہے۔ یہ ایک سخت حقیقت ہے کہ نوجوان چند روزہ احتجاجوں کے ذریعے اسے ہٹانے میں ناکام رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں پرانی حکومتیں گرا دی گئیں اور پھر بھی تینوں ممالک میں حکومتیں آئی ایم ایف کے حکم پر کفایت شعاری پر مبنی پالیسی اپنانے اور مزدور و غریب طبقے پر حملے کر رہی ہیں۔ سب مجبور ہیں کہ یہ پالیسی نافذ کریں کیونکہ سرمایہ داری کے تحت یہ واحد ممکنہ پالیسی ہے۔

سری لنکا میں بحالی کے حوالے سے بے پناہ جوش و خروش کے درمیان پچھلے سال تک غربت کی شرح 2022ء کے اوائل کے مقابلے میں دوگنی رہی۔ نوجوان اگر ممکن ہو تو بیرونِ ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں ورنہ اپنی بقا کے لیے انتہا درجے کے لمبے اوقات کار تک کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش میں جولائی 2024ء کی تحریک کے بعد تقریباً 2.1 ملین نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔

حالات مسلسل خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی تکلیف اور ناخوشی کی بنیادی وجہ سرمایہ داری کا بحران ہے اور یہ انقلاب سرمایہ داری کی جڑ پر حملہ نہیں کر سکے۔

کرپشن بھی ختم نہیں ہوئی۔ بنگلہ دیش میں طلبہ رہنماؤں نے اپنی زیادہ تر طاقت استعمال کر دی ہے۔ سب سے بڑھ کر بات وہ ہے جو بنگلہ دیش میں انقلاب کی بنیاد بننے والے کوٹہ سسٹم کے ساتھ ہوا۔ طلبہ نے گزشتہ سال اس امتیاز کو ختم کرنے کے لیے مظاہرہ کیا: خاص طور پر 1971ء کی آزادی کی جنگ کے سابق فوجیوں کے خاندانوں کے لیے اعلیٰ تنخواہ والے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے ختم کرنے کے لیے۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جو حقیقت میں حسینہ اور عوامی لیگ حکومت کے ہمنواؤں کے لیے ملازمتیں فراہم کرتا تھا۔

وہ کوٹہ سسٹم واقعی ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ جولائی 2024ء کے احتجاج پر سابق فوجیوں کے خاندانوں کے لیے مخصوص ملازمتوں کا ایک نیا کوٹہ سسٹم متعارف کروا دیا گیا!

سرمایہ داری کے تحت لوٹ مار کی دوبارہ تقسیم ہی ممکن ہے، لیکن لوٹ کا خاتمہ کبھی نہیں ہوتا۔

ایک ادھورا عمل

انقلابات کسی ایکٹ پر مشتمل ڈرامے نہیں ہوتے، اور یہ کہانی کا انت نہیں ہے۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش میں نفرت زدہ پرانی حکومتیں گرائی گئیں۔ عوام نے ابتدائی فتح حاصل کی جو متاثر کن تھی۔ لیکن قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح حقیقی ہونے کی نسبت قدرے واضح تھی۔ حکومت کا سرے سے خاتمہ ہو چکا ہے، لیکن پرانا ریاستی نظام اور پرانا حکمران طبقہ اب بھی اقتدار میں ہے۔

جو کچھ ہم نے یہاں دیکھا ہے، اس میں اور فروری 1917ء میں روس میں ہونے والے واقعات کے درمیان ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔

روسی مزدور ایک انقلابی عام ہڑتال میں منظرِ عام پر آئے تھے۔ چند دنوں کے اندر، زار کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ایک عبوری حکومت قائم کی گئی۔ لیکن جب جوش و جذبہ کم ہوا، تو معلوم ہوا کہ پرانے بادشاہت پسند جرنیل اور بیوروکریٹس اپنی جگہ موجود ہیں۔ سرمایہ دار اب بھی فیکٹریوں کے مالک تھے، جاگیردار اب بھی تمام زمین کے مالک تھے۔ یہ زاریت تھی لیکن زار کے بغیر۔

جب تک پرانا ریاستی نظام نہ توڑا جاتا اور مزدور خود اقتدار نہ سنبھالتے، تب تک یہ فتح ادھوری رہتی۔ یہ اکتوبر 1917ء کے انقلاب میں ممکن ہوا۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ممکن تھا کہ بالشویک پارٹی وہاں موجود تھی، جس نے انقلاب کے مقاصد کو واضح کیا اور روس کے مزدور طبقے اور دیگر مظلوم عوام کو اپنے جھنڈے تلے متحد کیا۔

اگر یہ پارٹی وہاں موجود نہ ہوتی تو پرانا حکمران طبقہ ممکنہ طور پر روس کو پوری طرح بربریت میں دھکیل دیتا۔ خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ قتل عام کا ابھار ہوتا۔ تمام امکانات کے ساتھ روس کو سامراجی طاقتوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا اور لاکھوں لوگ ہلاک ہو جاتے۔

دوسرے الفاظ میں، روس بھی وہی انجام بھگتتا جو آج سوڈان بھگت رہا ہے۔ وہاں 2019ء میں انقلابی عوام کے پاس اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہترین موقع تھا۔ قیادت نے اس موقع کو ضائع کر دیا اور اب ملک دو رجعت پسند مسلح ٹولوں اور ان کے پیچھے کھڑی مختلف سامراجی طاقتوں کے درمیان وحشیانہ خانہ جنگی سے تباہ ہو رہا ہے۔

یقیناً سوڈان میں ہم اب جو ہم دیکھ رہے ہیں، اتنا تباہ کن رجعت پسندانہ انجام ہرگز ناگزیر نہیں ہے۔ مزدور طبقے کی طاقت اور کئی دیگر عوامل نتیجے کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ ایک شدید چتاونی ہے۔

اگلی باری کس کی؟

جو انقلابی واقعات ہم نے دیکھے ہیں ممکن ہے کہ کئی سالوں تک سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، انڈونیشیا، کینیا اور دیگر جگہوں پر جاری رہیں۔ اتار چڑھاؤ جاری رہے گا اور بلاشبہ نئے بغاوتی مظاہرے بھی دیکھنے کو ملیں گے۔

اگر 1903ء سے 1917ء تک کی بالشویزم کی تاریخ ہمیں ایک سبق سکھاتی ہے وہ یہ ہے کہ انقلاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے پارٹی کو پہلے سے تعمیر کرنا ضروری ہے۔ ہم یہ کہنے سے ہچکچاتے ہیں کہ انقلاب کے حالات میں انقلابی پارٹی قائم نہیں کی جا سکتی، لیکن ایسا کرنا آسان کام نہیں ہے۔

ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، وہ دنیا کے باقی حصوں میں موجود سب سے ترقی یافتہ انقلابی مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے ہے، جو ابھی تک انقلاب کی لہر سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کام فوری طور پر شروع کرنا ضروری ہے، ابھی اسی وقت! ہم نے جو تمام مثالیں دی ہیں، وہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

مستقبل کی عوامی انقلابی پارٹی کے کارکنوں کی تربیت کے لیے وقت درکار ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے پاس وافر مقدار میں وقت موجود ہے۔ وہ حالات جنہوں نے پہلے ذکر کیے گئے تمام ممالک میں انقلاب پیدا کیے، ہر جگہ تیزی سے پختہ ہو رہے ہیں۔

یہ حیران کن ہے کہ وہ حالات جو ان انقلابوں کو جنم دیتے ہیں، کتنے ملتے جلتے تھے۔

بظاہر یہ دنیا کے سب سے بحران زدہ ممالک بھی نہیں تھے۔ بالکل بھی نہیں۔ یہ اس رفتار سے ترقی کر رہے تھے کہ جدید سرمایہ دارانہ ممالک کے ماہرینِ معاشیات حسد سے سرخ ہو جاتے۔

2010ء سے 2024ء کے درمیان، 2020ء کے وبائی سال کو چھوڑ کر، نیپال نے اوسطاً 4.7 فیصد سالانہ ترقی کا تجربہ کیا؛ کینیا نے 5.2 فیصد اور انڈونیشیا نے 5.23 فیصد۔ سری لنکا پہلے ہی بحران میں داخل ہو گیا تھا، لیکن 2010ء سے 2018ء کے سالوں میں اس نے بھی اوسطاً 6.43 فیصد سالانہ ترقی حاصل کی تھی۔

لیکن سطح کو ہلکا سا کھرچنے سے کیا ملا؟ انتہائی ناہمواری، ’بے روزگاری، مسلسل غربت اور سامراجیوں کو واجب الادا ناقابلِ ادا سودی قرضوں کا پہاڑ۔ حکمران طبقے کے لیے سب سے بڑا خطرہ نوجوانوں میں بلند شرح بے روزگاری اور کسی بھی قابلِ قبول مستقبل کی کمی ہے جو ایک عام مسئلہ ہے۔

سری لنکا میں 2021ء میں نوجوانوں میں بے روزگاری 25 فیصد تھی، جو اوسط شرح سے چار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ انڈونیشیا میں 44 ملین نوجوانوں میں سے 7 ملین بے روزگار ہیں۔ بنگلہ دیش میں 25 سے 29 سال کے کم از کم پانچ نوجوانوں میں سے ایک بھی محفوظ ملازمت نہیں رکھتا جس کا معاہدہ ایک سال سے زیادہ قائم رہے۔ وبا سے پہلے بنگلہ دیش میں 39 فیصد گریجویٹس بے روزگار تھے۔

”ہمارے پاس نوکریاں ہیں اور نہ ہی مستقبل،“ جیسا کہ کینیا کے ایک نوجوان نے کہا، ”لہٰذا ہمارے پاس تمہیں گرانے کے لیے سارا وقت ہے اور تم سے لڑنے میں کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔“

کیا یہ خصوصیات صرف ان ممالک میں ہی پائی جاتی ہیں؟ بالکل نہیں۔ یہ کئی ممالک میں پائے جانے والے حالات سے حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔

2023ء تک، 21 ممالک، جن کی آبادی 700 ملین ہے، دیوالیہ ہو چکے تھے یا دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھے۔ دنیا بھر میں 3 ارب لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو قرض کے سود کی ادائیگی پر صحت یا تعلیم سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

عام حالات میں بھی عوام پہلے سے بڑھتے ہوئے بحران کی سطح سے اوپر سانس لینے کی کوشش میں تھے۔ یہ خاص طور پر غریب اور نام نہاد درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے درست ہے، جن کے پاس کرونا وبا کے آغاز کے ساتھ پھوٹنے والے بحران کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ذخائر موجود نہیں تھے۔

جب 2022ء میں سری لنکا میں انقلاب برپا ہوا جس کے متعلق ہم نے پیش گوئی کی تھی کہ اسی نوعیت کے واقعات ایک کے بعد ایک ملک میں رونما ہوں گے کیونکہ ان میں بنیادی خصوصیات مشترک ہیں۔ اور ایسا ہی ہوا، اور ہم پراعتماد طور پر پیش گوئی کرتے ہیں کہ ان ممالک کی طویل فہرست ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ بھارت اور پاکستان کے حکمران طبقے اور ان کے کئی ”نیپو کڈز“ ان مناظر کو دیکھ کر خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔

یہ انقلابی لہر غریب، کم ترقی یافتہ ممالک میں شروع ہوئی ہے، لیکن یہ صرف انہی تک محدود نہیں رہے گی۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ، ”گاؤٹ چھوٹی انگلی یا بڑے پیر سے شروع ہوتا ہے، لیکن ایک بار شروع ہونے کے بعد یہ دل تک پہنچنے تک بڑھتا ہے۔“

انقلاب کی آگ پہلے ہی سربیا میں یورپ کے کناروں کو پہنچ چکی ہے اور فرانس میں بلوکونز ٹاؤٹ (bloquons tout) کی تحریک یہ ظاہر کرتی ہے کہ انقلاب واقعی دل تک پہنچے گا۔ دنیا آگ میں ہے، اور انقلابی دھماکے روزمرہ کا معمول ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہو گا، اور اس سے پیدا ہونے والی تمام ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے، ایک انقلابی پارٹی کی فوری تعمیر کے لیے عمل کرنا ہو گا۔

Comments are closed.