پنجاب: لاکھوں اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور چھوٹے سرکاری ملازمین و محنت کش سڑکوں پر۔۔۔حکمرانوں کے ایوان لرز اٹھے!

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے احکامات پر حکمرانوں کی جانب سے صوبہ پنجاب میں پنشن قوانین میں مزدور دشمن تبدیلیوں اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خلاف لاہور سول سیکر ٹریٹ کے باہر منعقد ہونے والے احتجاجی دھرنے سے اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس) کے مرکزی و صوبائی قائدین اور ڈیڑھ سو کے قریب ملازمین و محنت کشوں کی گرفتاری کے بعد سے صوبہ بھر میں پورے جوش و جذبے اور جرات کے ساتھ جاری چھوٹے سرکاری ملازمین کی احتجاجی تحریک اپنے چھٹے روز میں داخل ہو چکی ہے۔ ان چھے دنوں میں صوبہ پنجاب کے درجنوں شہروں میں کل ملا کر لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات کی منظوری اور گرفتار شدگان کی رہائی کے لئے ایسے زبردست احتجاج کئے ہیں جن کی کم از کم پچھلی تین دہائیوں میں مثال نہیں ملتی۔ ویسے تو ان احتجاجوں میں درجنوں سرکاری محکموں کے ملازمین و محنت کش شامل ہیں لیکن سب سے نمایاں کردار سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز ادا کر رہے ہیں۔

صوبہ بھر کے زیادہ تر سرکاری سکولوں اور کالجوں میں پچھلے چھے روز سے ہڑتال بھی جاری ہے جسے کامیاب بنانے میں اساتذہ کے ساتھ طلبہ نے بھی بھر پور حصہ لیا ہے۔

اسی طرح صوبہ بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی ہڑتال پر ہیں جبکہ دیگر بیشمار سرکاری محکموں ودفاتر میں تالہ بندی یا جزوی ہڑتال بھی جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اٹک، جہلم، کامونکی، گجرات، گوجرانولہ، لیہ، میانوالی، عارف والا، ساہیوال، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، وہاڑی، چیچہ وطنی، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈی جی خان سمیت بیشمار شہروں میں دسیوں ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت دیگر سرکاری ملازمین و محنت کش بڑی احتجاجی ریلیاں نکالتے ہیں جن میں آئی ایم ایف کے گماشتہ حکمرانوں کی مزدور و عوام دشمن پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، شہروں کی بڑی شاہراؤں کو کئی گھنٹوں کے لئے بلاک کر دیا جاتا ہے اور ضلعی انتظامیہ، خاص کر ڈی سی آفس کا گھیراؤ کیا جاتا ہے۔

آغاز کے چند دنوں میں احتجاجی تحریک اور ہڑتال لاہور اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں تھوڑی کمزور تھی لیکن اب پچھلے دو تین روز میں ان شہروں میں بھی بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور یہاں کے ملازمین و محنت کش بھی حرکت میں آ رہے ہیں۔

مزید برآں ایسے سرکاری محکموں اور عوامی اداروں کے ملازمین جو پہلے اس تحریک کا حصہ نہیں تھے، وہ بھی اب یا تو تحریک میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر رہے ہیں یا پھر تحریک کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک شاندار مثال ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن، ینگ نرسز ایسو سی ایشن اور پیرا میڈیکس تنظیموں پر مشتمل گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کی ہے جس نے دو دن قبل تحریک میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح ریلوے ورکرز سے لے کر دیگر کئی عوامی اداروں کے محنت کشوں کی جانب سے بھی تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تین دنوں میں اگیگا پنجاب کی احتجاجی تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے وفاقی دارالحکومت کے اگیگا اتحاد نے بھی وفاقی سیکرٹریٹ اور دیگر وفاقی محکموں میں احتجاج کئے ہیں جبکہ بلوچستان میں ہونے والے اساتذہ، میونسپلٹی ورکرز وغیرہ کے احتجاجوں میں بھی اگیگا پنجاب کی احتجاجی تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا ہے۔ یوں ایک طرف جہاں احتجاج و ہڑتال کا دائرہ کار ہر رو ز پھیلتا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف محنت کش طبقہ ”ایک کا دکھ،سب کا دکھ“ کے نعرے کو بھی عملی جامہ پہنا رہا ہے۔

دوسری طرف حکمران جہاں اس تحریک سے خوفزدہ ہیں وہیں انہیں یہ بھی ادارک ہے کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں پورے ملک کے محنت کشوں و ملازمین کے حوصلے نہایت بلند ہوں گے اور حکومت و ریاست کے لئے اپنی مزدور و عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اسی لئے وہ تحریک کو توڑنے کے لئے ریاستی جبر سمیت ہر ممکن حربہ استعمال کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ احتجاجی تحریک کے زبردست دباؤ کے تحت عدالت نے دو دن بعد ہی لاہور سول سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنے سے گرفتار ہونے والے اگیگا قائدین اور ملازمین و محنت کشوں کی رہائی کے حکامات جاری کر دیے تھے لیکن پنجاب حکومت نے انہیں رہا کرنے کی بجائے فوراً ہی 16 ایم پی او کا آمرانہ قانون استعمال کرتے ہوئے انہیں ایک ماہ کے لئے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں نظر بند کر دیا جہاں کسی کو بھی ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

اسی طرح اگیگا پنجاب کے ضلعی قائدین اور متحرک کردار ادا کرنے والے ملازمین خصوصاً اساتذہ کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کچھ مزید گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اور ہاتھ نہ آنے والوں پر جھوٹے پرچے بھی کاٹے جا رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ شو کاز نوٹس، معطلی اور تبادلوں جیسی محکمانہ تادیبی کاروائیاں بھی عروج پر ہیں۔ لیکن سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہر حکومتی غنڈہ گردی کے نتیجے میں احتجاجی ملازمین و محنت کشوں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں اور تحریک کا دائرہ کار مزید وسیع ہو رہا ہے۔

حکومتی ایما پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پہلے تو کئی روز تحریک کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا لیکن جب تحریک کے دباؤ کے تحت ایسا کرنا مزید ممکن نہ رہا تو اب گول مول باتوں اور دونوں سائیڈوں کا موقف پیش کرنے کے نام پر عوام میں کنفیوژن پھیلا کر انہیں احتجاجی ملازمین، خاص کر اساتذہ کے خلاف بھڑکانے اور سرکاری سکولوں کی شوگر کوٹڈ نجکاری کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہاں ہمیں تحریک کی کمزوریوں پر بات رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم انہیں دور کرتے ہوئے تحریک کو مزید مضبوط بنا سکیں۔ سب سے پہلے تو اگیگا پنجاب کی قیادت کو دیگر صوبوں کے اگیگا اتحادوں سے فوری طور پر حرکت میں آنے اور تحریک کے ساتھ بھر پور عملی اظہار یکجہتی کرنے کی پرزور اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ اگر بالفرض پنجاب میں حکومت لیو انکیشمنٹ اور پنشن کے قوانین میں مزدور دشمن تبدیلیاں اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر باقی صوبوں پر بھی ان مزدور وعوام دشمن حملوں کا ہونا ناگزیر ہے۔

اسی طرح اگیگا قیادت کو ابھی تک تحریک کے دائرہ کار سے باہر موجود عوامی اداروں کی یونینز اور ایسو سی ایشنز کے ساتھ خود جا کر ملاقات کرنے اور انہیں تحریک کا حصہ بننے پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ واپڈا، پوسٹ، پی آئی اے، سول ایوی ایشن، ریلوے اور ایسے دیگر ادارے پہلے ہی نجکاری کے حملے کی زد میں ہیں اور اگیگا تحریک کی ناکامی ان اداروں پر نجکاری کے حملے میں بھی مزید شدت لائے گی اور ان اداروں میں مزدور دشمن پنشن قوانین ترامیم کے لاگو ہونے کی راہ بھی ہموار کرے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ اگیگا قیادت کو نجی صنعتوں کے محنت کشوں کی ہمدردیاں جیتنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور اس حوالے سے تمام نجی صنعتوں میں حکومتی اعلان کردہ کم از کم اجرت میں اضافے اور اس کے فوری اطلاق کو اپنے پروگرام کا حصہ بنانا چاہئے۔

انہی سب اقدامات سے ایک ملک گیر عام ہڑتال کا راستہ بھی ہموار ہو گا جو حکمرانوں کے مزدور و عوام دشمن حملوں کے سامنے ایک بند باندھنے کا کام کرے گی۔ اسی طرح اگیگا قیادت کو خاص طور پر لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں تحریک کو مزید مضبوط بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ان شہروں کے سرکاری محکموں کے ملازمین و محنت کش بھی تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگیگا پنجاب کی تنظیمی کمزوریاں ہیں جو آڑے آ رہی ہیں۔

اگیگا تحریک کی ایک اور اہم کمزوری یہ ہے کہ قیادت ابھی تک تحریک اور خاص کر سرکاری سکولوں و اساتذہ کے متعلق حکومتی پراپیگنڈے کو کاؤنٹر کرنے اور عوام تک اپنا موقف پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔

واضح رہے کہ تحریک کی کامیابی یا ناکامی میں عوامی ہمدردی کا عنصر ایک فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے اور قیادت، خاص کر اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو عوام تک یہ پیغام پہنچانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اگر حکومت سرکاری سکولوں کی نجکاری جیسے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو غریب کا بچہ تو تعلیم سے بالکل محروم ہو جائے گا جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پر ہونے والے حکومتی حملے ویکسی نیشن مہم کو سبوتاژ کر کے کروڑوں بچوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

ایسے ہی اگیگا قیادت اور احتجاجی ملازمین کو کسی بھی سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹی یا عدلیہ سمیت کسی بھی ریاستی ادارے سے بھلائی کی کوئی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہئے اور سب پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ پورا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور سول و فوجی ریاستی افسر شاہی اور عدلیہ محنت کشوں کے دشمن تھے، ہیں اور رہیں گے۔

اگیگا قیادت کی ایک اور نہایت ہی خوفناک کمزوری اس کا مختلف مذہبی تنظیموں کے لیبر ونگز پر حد درجہ انحصار ہے حالانکہ ان نام نہاد لیبر فیڈریشنز کا عملی طور پر تحریک میں ٹکے کا بھی کردار نہ تو ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ یہ تمام مذہبی تنظیمیں فوجی اشرافیہ اور خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں جو اس ملک کے اصل پالیسی ساز ہیں۔ ان تمام تنظیموں کا ماضی مزدور دشمنی اور مزدور تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی بیشمار وارداتوں سے بھرا پڑا ہے اوریہ نظریاتی طور پر مزدور مخالف ہیں۔ یہ سوچ ہی احمقانہ ہے کہ فوجی اشرافیہ اور خفیہ ایجنسیاں، جو محنت کشوں اور ملازمین پر ہونے والے ان تمام حملوں کے اصل پالیسی ساز ہیں، کے ٹاؤٹوں پر انحصار کر کے تحریک کو کامیاب سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اگیگا میں ان مزدور دشمن ٹاؤٹ عناصر کی موجودگی کی بھرپور مخالفت کی ہے اور آج پھر بتائے دیتے ہیں کہ یہ ریاستی ٹاؤٹ تحریک کو برباد کرنے کے لئے مناسب وقت کی تلاش میں ہیں اور موقع ملتے ہی مہلک وار کریں گے لہٰذا اگیگا قیادت کے لئے ان سے فوراً کنارہ کشی اختیار کرنا اور ملازمین و محنت کشوں کی طاقت پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے مکمل طور پر اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا تحریک کی کامیابی کی نہایت ہی اہم شرط ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ (اور اس سے منسلک ”ماہانہ ورکر نامہ“ اور ”مزدور ٹی وی“) تقریباً تین سال قبل اگیگا اتحاد کی تشکیل کے دن سے اس کی بھرپور حمایت کرتا آیا ہے اور اس کی ہر تحریک میں شانہ بشانہ ساتھ کھڑا رہا ہے۔ حالیہ تحریک میں بھی ریڈ ورکرز فرنٹ ہمیشہ کی طرح اپنے محنت کش و ملازمین بہن بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے اور ان کے انتہائی جائز مطالبات کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے تحریک کو پھیلانے اور اسے مضبوط بنانے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک کے دوران ملازمین و محنت کشوں کے ساتھ ساتھ ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور کے کارکنان بھی ریاستی جبر کا شکار ہوئے ہیں اور جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ مگر مزدور تحریک کی بڑھوتری و مضبوطی کی راہ میں دی جانے والی یہ قربانیاں ہمارے حوصلوں کو مزید بلند کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ہم منزل مقصود پر پہنچنے تک اپنے محنت کش و ملازمین ساتھیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

فتح کی سمت متحد۔۔بڑھے چلو! بڑھے چلو!
فتح تمہاری منتظر۔۔بڑھے چلو! بڑھے چلو!
اگیگا احتجاجی تحریک۔۔زندہ باد!
مزدور اتحاد۔۔پائندہ باد!

Comments are closed.