انڈیا: عام آدمی پارٹی کی عوام دشمن حقیقت

|تحریر: یاسر ارشاد|

مارچ 2022ء میں ہندوستان کی ریاست پنجاب کے انتخابات میں کانگریس، شرومانی اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی (AAP) کی حیران کن فتح نے اس پارٹی کے اُبھار اور کردار کے حوالے سے ایک بار پھر بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک دہائی قبل اپنی تشکیل اور دہلی کے انتخابات میں فتح کے ساتھ ہی عام آدمی پارٹی زیادہ تر سیاسی اور بالخصوص بائیں بازو کے حلقوں میں موضوع بحث بن گئی تھی۔ پاکستان کے بائیں بازو کے سبھی دھڑوں میں اس پارٹی کے یکا یک اُبھار نے کافی دلچسپی پیدا کی تھی چونکہ پاکستان میں بائیں بازو کا کوئی بھی دھڑا کسی صوبے میں، اکثریت حاصل کرنا تو درکنار، کبھی بھی صوبائی یا قومی اسمبلی کی چند نشستوں پر بھی کامیابی نہیں حاصل کر پایا۔ اسی لیے عام آدمی پارٹی کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں ہندوستان کے دارلحکومت میں دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھرنا ان کے لیے زیادہ ہی حیران کن تھا۔ دوسری جانب اس پارٹی کے نام اور اس کی پاپولر نعرے بازی سے بھی یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے یہ کوئی بائیں بازو کی پارٹی ہو۔

دہلی میں مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کے بعد اس سال مارچ میں ہونے والے پنجاب کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی زبردست انتخابی فتح نے ایک بار پھر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ہندوستان کے سیاسی پنڈتوں کے بعض حصے تو یہ امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والے عرصے میں عام آدمی پارٹی کانگریس کی جگہ قومی سطح کی پارٹی بن جائے گی۔ اگرچہ ہندوستان کی سیاست سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں علاقائی پارٹیوں کا اُبھار کوئی نیا مظہر نہیں۔ کئی ریاستوں میں علاقائی سطح کی پارٹیاں اُبھرتی اور برسر اقتدار آتی رہی ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومتوں میں بھی ان علاقائی پارٹیوں کا اہم کردار رہا ہے۔ 2009ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی پندرہویں لوک سبھا میں 38 پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے جن میں سے سوائے دو پارٹیوں کے باقی 36 پارٹیاں علاقائی تھیں۔ درحقیقت ہندوستانی سماج جغرافیائی حوالے سے بہت زیادہ وسیع و عریض ہونے کے ساتھ نسلی، ثقافتی، زبانوں اور علاقائی کے ساتھ ذات پات کی تفریقوں کے حوالے سے بھی انتہائی متنوع ہے۔ ہندوستان کی خصی بورژوازی اور اپاہج سرمایہ داری تقسیم ہند کے بعد چار دہائیوں تک تمام تر ریاستی پشت پناہی، تحفظ اور امداد کے باوجود یہاں جدید قومی ریاست استوار نہیں کر سکی اور اس کے بعد نیو لبرل پالیسیوں نے سماج میں امیر و غریب کے درمیان تفریق کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ معاشی ناہمواری میں وقت کے ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا گیا اوراسی نا برابری اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف بغاوت کے طور پر علاقائی مسائل کے حل کے نعروں پر وقتاً فوقتاً مختلف ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا اُبھار بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے یہ علاقائی پارٹیاں بھی مسائل کو حل نہیں کر پائیں اسی لیے پھر ان علاقائی پارٹیوں کا زوال بھی ناگزیر ہو گیا۔ 2009ء میں لوک سبھا میں 36 علاقائی پارٹیوں کی نمائندگی سے بعض تجزیہ نگار یہ نتائج اخذ کر رہے تھے کہ شاید ہندوستان کی تاریخ میں اب کبھی بھی کسی ایک قومی پارٹی کی حکومت نہیں بن پائے گی لیکن پھر پہلے 2014ء اور بعدازاں 2019ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دوتہائی اکثریت حاصل کر لی۔ اس تمام عرصے میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی انقلاب سے غداری اور جمہوری مرحلے کی تکمیل میں ہندوستانی بورژوازی کی شرمناک غلامی نے بھی سرمایہ داری سے نجات کی کوششوں کو علاقائی اور نسلی سیاست کی غلاظت میں ڈبو دیا۔ بورژوا پارٹیوں کی زوال پذیری کی کیفیت میں عام آدمی پارٹی جیسے مظاہر کے اُبھار میں ہندوستان کی سٹالنسٹ پارٹیوں کی انقلاب سے غداری ایک اہم عنصر ہے۔ پھر بھی حالیہ عرصے میں ہندوستان کی روایتی پارٹیوں (کانگریس، بی جے پی وغیرہ) کے مقابلے میں ایک نو مولود پارٹی کی اس قدر زبردست کامیابی حقیقت میں ایک دلچسپ سیاسی و سماجی مظہر ہے جس کا سنجیدہ تجزیہ کرنا ضروری ہے۔

بدعنوانی کے خلاف تحریک کا پس منظر

بد عنوانی ایک ایسی اصطلاح ہے جسے بارہا تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں بیشتر مسائل اور بحرانوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک کے نام نہاد لبرل دانشوروں سمیت ان کے سامراجی آقا بھی بدعنوانی کو ہی تمام مسائل کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ سامراجی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے مختلف سروے سالہا سال سے بدعنوانی کی درجہ بندی کی فہرستیں شائع کرتے چلے آ رہے ہیں جن میں سرفہرست ہمیشہ یہی ترقی پذیر ممالک ہی ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پسماندہ سماجوں کے حکمران طبقات اور ریاستی و سماجی ادارے سر تا پا بدعنوانی کی غلاظت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بظاہر بد عنوانی ان ممالک میں تمام مسائل کی ایک بڑی وجہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ تمام تر ترقی پذیر ممالک کا سرمایہ دار طبقہ اپنی تاریخی تاخیر زدگی اور پسماندگی کے باعث اپنے جنم کی نامیاتی کمزوریوں کی وجہ سے عالمی منڈی پر غلبہ رکھنے والے ممالک کے سرمایہ داروں کی تکنیک کا مقابلہ کرنے کا اہل ہی نہیں تھا۔ اسی لیے اس سرمایہ دار طبقے نے ایک جانب عالمی منڈی پر غالب سامراجیوں کی غلامی اختیار کی اور دوسری جانب اپنی منافع خوری کے لیے ریاستی وسائل کی بڑے پیمانے پر چوری، ٹیکسوں میں چھوٹ اور وسیع پیمانے کی بدعنوانی کو اپنا ذریعہ بنایا۔ یوں تاریخی طور پر بدعنوانی ترقی پذیر ممالک میں اس نظام کی نااہلی اور تاریخی متروکیت کی حالت میں زندہ رہنے کی ایک لازمی شرط بن گئی۔ بدعنوانی اس گلی سڑی سرمایہ داری کے بستر مرگ حالت میں ان خطوں میں رائج ہونے کی ایک علامت ہے۔ وسیع پیمانے پر عمومی پھیلاؤ اختیار کرنے کے باعث بد عنوانی از خود بے شمار مسائل کی ایک وجہ ہونے کے ساتھ درحقیقت یہ پسماندہ ممالک کی کمزور، گلی سڑی، مفلوج اور متروک سرمایہ داری کی ایک علامت ہی ہے۔ اگر ان تاریخی حقائق کو پس پشت ڈال دیا جائے تو ان ممالک میں پھیلی ہوئی بدعنوانی ہی تمام مسائل کی جڑ دکھائی دیتی ہے۔ اسی لیے تمام بورژوا اور پیٹی بورژوا دانشوروں کے ساتھ نام نہاد بائیں بازو بھی بدعنوانی کو ہی ان سماجوں کے تمام مسائل کی وجہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے بھاشن جھاڑتے رہتے ہیں۔

ہندوستان میں بدعنوانی کے خلاف سب سے پہلا شور شرابہ نوے کی دہائی کے آغاز میں شروع ہوا تھا جب ہندوستان میں چار دہائیوں تک نہرووین سوشلزم کے نام پر رائج ریاستی (تحفظاتی) سرمایہ دارانہ طرز کی ناکامی کے بعد نیو لبرل یا آزاد منڈی کی طرز کو لاگو کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی تھی۔ ریاستی ملکیت کو نجکاری کے ذریعے سرمایہ دار گِدھوں کو بیچنے کی خاطر بیوروکریسی کی نا اہلی اور بد عنوانی کے خلاف بڑے پیمانے کی تشہیری مہم چلا کر آزاد منڈی اور نجکاری کے حق میں رائے عامہ ہموار کی گئی۔ اگرچہ انفوٹیک جیسے بعض شعبوں کو 80ء کی دہائی میں ہی لبرلائز کر دیا گیا تھا لیکن آزاد منڈی کی جانب اس حقیقی پیش رفت کو سوویت یونین کے انہدام سے پھیلنے والی عمومی مایوسی اور سٹالنسٹوں کی نظریاتی پراگندگی نے بڑے پیمانے پر سہولت فراہم کی۔ سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی وضاحت سے نابلد سٹالنسٹ پارٹیاں اور مزدور رہنما اس سامراجی نظریاتی یلغار کے خلاف مزاحمت کرنے کی بجائے اسی کے گُن گانے لگے۔ دوسری جانب چین میں حاکم (سٹالنسٹ) ماؤاسٹ بیوروکریسی بھی پہلے ہی بتدریج سرمایہ دارانہ استواری کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اسی لیے ہندوستان کی انتہائی منظم مزدور تحریک اپنی بائیں بازو کی زبردست روایات کے باوجود سٹالنسٹوں کی نظریاتی غلطیوں، ماسکو اور چین کی اندھی تقلید اور مرحلہ وار انقلاب کے رد انقلابی نظریات کے باعث تاریخ کے خاتمے جیسے سامراجی نظریات کی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکی۔

نوے کی دہائی کے اوائل سے ہندوستان کی منڈی کو بتدریج کھولتے ہوئے نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ جیسی تمام دیگر سامراجی پالیسیوں کا نفاذ کیا جانے لگا۔ 2000ء سے 2008ء کے عالمی معاشی اُبھارکے زیر اثر ہندوستان کی معیشت میں بھی تیز ترین بڑھوتری ہوئی۔ عالمی بینک کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2003ء سے 2007ء کے پانچ سالوں میں ہندوستانی جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطاً 7.9 فیصد سالانہ رہی۔ عالمی بینک کی اسی رپورٹ کے مطابق، جس میں 1961ء سے شرح نمو کے سالانہ اعداد و شمار درج ہیں، ہندوستان میں پہلی بار ان پانچ سالوں کے دوران معاشی نمو ہر سال سات فیصد سے زیادہ رہی۔ اسی معاشی عروج کے دوران ہندوستان میں کئی دیگر شعبوں سمیت ٹیلی کمیونیکیشن اور انفو ٹیک کے شعبوں میں تیز ترین بڑھوتری ہوئی۔ 1984ء میں بنائی جانے والی نئی کمپیوٹر اور سافٹ وئیر پالیسی کے تحت ہارڈ وئیر کی درآمدات اور برآمدات کو لبرلائز کر دیا گیا تھا۔ یوں ہندوستان کی ریاست کرناٹکا کے دارلحکومت بینگلور میں ہندوستان کی سلی کون ویلی (Silicon Valley) بننے کے عمل کا آغاز ہوا۔ امریکی اور یورپی کمپنیوں نے سستی اور ہنر مند محنت کی لوٹ کے لیے بینگلور میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا اور یوں بڑے کاروباروں کو زیادہ منافع بخش بنانے کے لیے آؤٹ سورسنگ (Out Sourcing) کا عمل شروع ہوا۔ آؤٹ سورسنگ کے ذریعے دنیا بھر سے سستی محنت کو لوٹنے کے عمل کو تیز ترین انٹرنیٹ نے بنیاد فراہم کی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے کل آؤٹ سورسنگ کے 35 فیصد مراکزبینگلور میں ہیں جنہیں گلوبل ان ہاؤس مراکز (GIC) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ داروں نے بھی عالمی اجارہ داریوں کے ساتھ شراکت کے ذریعے ہندوستانی صنعت کے کئی شعبوں کے لیے جدید تکنیکی بنیاد حاصل کی۔ ہندوستانی معیشت کو عالمی منڈی کے لیے کھولے جانے کے بعد ہی اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں معیشت کی تیز ترین بڑھوتری ممکن ہوئی جس کے ساتھ ہی ہندوستان میں بہت بڑی مڈل کلاس وجود میں آئی جس کا حجم بعض تخمینوں کے مطابق تیس کروڑ تک بتا یا جاتا تھا۔ معاشی عروج کے سالوں میں اسی نو دولتیے درمیانے طبقے نے عالمی اجارہ داریوں کی بے شمار مصنوعات کی کھپت کے لیے ایک بڑی منڈی فراہم کی۔ تیز ترین معاشی بڑھوتری اور خریداری کے عروج کا یہ سلسلہ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے یک دم منقطع ہو گیا۔ اگرچہ یہ عروج بھی ہندوستان کے محنت کشوں، کسانوں، آدی واسیوں اور ممبئی، دہلی، چنائی، بینگلور اور کلکتہ کی جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والوں کی زندگیوں میں کوئی خاص بہتری نہیں لا سکا تھا۔ معاشی عروج کے دوران ایک بار پھر ہندوستان کے محنت کشوں نے اپنی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بائیں بازو کی سٹالنسٹ پارٹیوں پر انحصار کرتے ہوئے انہیں بڑی انتخابی فتح دلائی۔ 2004ء کے عام انتخابات میں چار سٹالنسٹ پارٹیوں کے اتحاد، لیفٹ فرنٹ، کے 61 امیداوار انتخابی فتح حاصل کرتے ہوئے لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے جبکہ سماج وادی یا سوشلسٹ پارٹی کے 36 ممبران اس کے علاوہ تھے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں اس انتخابی فتح کو سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (UPA) کی حکومت کی باہر رہ کر حمایت کی پالیسی پر کار بند ہو گئیں۔ اس کا مطلب کانگریس کے اس دور حکومت میں کی جانے والی بڑی پیمانے کی نجکاری اور مزدور دشمن پالیسیوں کی حمایت تھا۔ یہ عمل محض کانگریس کی حمایت تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ مغربی بنگال میں سٹالنسٹوں کی حکومت خود بھی انہی پالیسیوں پر عمل پیرا تھی اور 2007ء میں مغربی بنگال کے ایک علاقے نندی گرام میں انڈونیشیا کے صنعتکاروں، سلیم گروپ، کو سپیشل اکنامک زون میں کیمیکل پلانٹ لگانے کے لیے زمین فراہم کرنے کی خاطر کسانوں کو زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔ اس زبردستی بے دخلی کے عمل میں ریاستی مسلح اہلکاروں کے شانہ بشانہ کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کو بھی کسانوں پر تشدد کرتے اور ان کے گھروں کا آگ لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس وحشیانہ تشدد میں 14 دیہاتی مارے گئے جبکہ سینکڑوں بے گھر ہو گئے۔ سٹالنسٹ ریاست کے اس جبر کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے باعث حکومت کو یہ منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ سٹالنسٹ زوال پذیری کی یہ انتہا تھی جس نے بعد ازاں 2011ء کے ریاستی انتخابات میں ان کی شکست کا راستہ ہموار کیا اور یوں مغربی بنگال میں سٹالنسٹوں کے 34 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔

2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے زیر اثر اس سال ہندوستانی معیشت کی شرح ترقی بھی کم ہو کر 3.1 فیصد ہو گئی۔ 2009ء اور 2010ء کے سالوں کے دوران معاشی ترقی کی شرح ایک بار پھر اوسطاً سالانہ 8 فیصد رہی۔ یہی وہ عرصہ تھا جس میں سرمایہ داری کے عالمی آقاؤں اور ماہرین نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ہندوستان جیسی دوسری درجے کی چند معیشتوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے برکس (BRICS) نامی ایک بلاک بنانے کی کوشش کی۔ برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کے ممالک پر مبنی اس برکس نامی بلاک کی عارضی شرح نمو کو سرمایہ داری کو بحرانوں سے نکالنے والے نئے معاشی انجن کا نام دیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی معیشتوں کے بحرانوں کی دلدل میں دھنسنے کے بعد اب برکس ممالک سرمایہ داری کو نئے معاشی عروج کی جانب لے جائیں گے اور ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس دلدل سے باہر نکالیں گے۔ سرمائے کے ماہرین کے یہ اعلانات ابھی مکمل بھی نہیں ہو پائے تھے کہ برکس ممالک کی شرح نمو میں گراوٹ کا واضح رحجان سامنے آنے لگا۔ 2011ء میں ہندوستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک گر گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہندوستان کی مشہور بدعنوانی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا جس نے ہندوستان کے اسی نئے اُبھرنے والے درمیانے طبقے کی فرسٹریشن کو بھی سیاسی اظہار فراہم کیا۔

انڈیا بدعنوانی کے خلاف (India Against Corruption)

70 ہزار کروڑ کی خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود 2010 میں منعقد ہونے والی دولت مشترکہ کھیلوں میں کرپشن کی وجہ سے انتہا درجے کی بد انتظامی سامنے آئی جو ہندوستان کے لیے ایک قومی شرمندگی کا واقع بن گیا۔ اسی واقع کے خلاف 14 نومبر کو اروند کجریوال نے دہلی کی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کے خلاف ایف آئی آ درج کرائی اور یوں ہندوستان کی معروف بدعنوانی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا جس نے عام آدمی پارٹی کی تشکیل کے لوازمات فراہم کیے۔

ہندوستان کو عالمی معیشت کا اہم کھلاڑی ثابت کرنے کی غرض سے ہی 2010ء کے اکتوبر میں دولت مشترکہ کی کھیلوں کا انعقاد ہندوستان کے دارلحکومت دہلی میں کیا گیا۔ کھیلوں کے اس عالمی میلے کے انعقاد کے لیے دہلی میں کھیل کے میدانوں، کھلاڑیوں کے لیے رہائشوں اور دیگر تفریحی مقامات کی تعمیر کے ساتھ پورے دہلی میں ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے پلوں اور فلائی اوورز، میٹرو، اور سڑکوں کی ازسر نو تعمیر کے ساتھ ساتھ دہلی کی میٹرو بس سروس کے لیے نئی بسوں کی خریداری جیسے بے شمار منصوبے شامل تھے۔ بعض تحقیقات کے مطابق اس پورے منصوبے پر 70 ہزار کروڑروپے کی رقم خرچ کی گئی۔ لیکن کھیلوں کا آغاز ہونے کے ساتھ ہی کھلاڑیوں کی رہائشوں میں انتہائی ناقص تعمیر کی وجہ سے پانی کے رسنے سے لے کر سانپوں کے گھس آنے جیسی ہر قسم کی شکایات کا سلسلہ سامنے آنے لگا۔ بے شمار کھلاڑی اپنی رہائشیں چھوڑ کر ہوٹلوں یا نجی فلیٹوں میں منتقل ہو گئے۔ مقامی و عالمی ذرائع ابلاغ میں اس پرلے درجے کی بد انتظامی کے ساتھ کھیلوں اور دیگر سامان کو خریدنے میں ہونے والے گھپلوں کی خبریں بھی منظر عام پر آنے لگیں۔ عالمی سطح پر قومی عظمت کا نظارہ دکھانے کی غرض سے 70 ہزار کروڑ کی خطیر رقم خرچ کی گئی لیکن یہ ہندوستان کے لیے ایک قومی شرمندگی کا واقع بن گیا۔ اسی واقع کے خلاف 14 نومبر کو اروند کجریوال نے دہلی کی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کے خلاف ایف آئی آ درج کرائی اور یوں ہندوستان کی معروف بدعنوانی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا جس نے عام آدمی پارٹی کی تشکیل کے لوازمات فراہم کیے۔ بدعنوانی کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے والا عام آدمی پارٹی کا سربراہ، اروند کجریوال، انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑگ پور سے مکینیکل انجینئرنگ میں گریجویٹ ہے جس نے انڈین ریونیو سروس کے دہلی آفس میں انکم ٹیکس کے جوائنٹ کمیشنر کے طور پر 1995ء میں ملازمت اختیار کی۔ 1999ء میں اس نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر پری ورتن (تبدیلی) کے نام سے ایک تحریک بنائی اور بعد ازاں ملازمت چھوڑ کر اسی تحریک کو منظم کرنے کا کام کرنے لگا۔ یہ تحریک سماجی فلاح و بہبود اور ترقی کی سکیموں کے حصول میں معاونت کے ساتھ مختلف سرکاری دفاتر میں پھنسے عام لوگوں کے کام بغیر رشوت کے کرانے میں مدد کرتی تھی۔ یہ کوئی رجسٹرڈ این جی او نہیں تھی اور لوگوں کے چندے سے ہی اپنے مالی اخرجات پورے کرتی تھی۔ 2005ء میں کجریوال اور اس کے ساتھیوں نے پندرھویں صدی کے ایک صوفی شاعر کبیر داس کے نام سے منسوب کبیر نامی ایک باقاعدہ این جی او بنائی۔ یہ این جی او بھی اپنی پیش رو پری ورتن کی طرح سماجی امداد کے کاموں کے ساتھ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سرکاری سکیموں کے بجٹ کی معلومات جمع کر کے ان سکیموں میں ہونے والی بد عنوانیوں کو منظر عام پر لاتی تھی۔ 2005ء سے 2010ء کے دوران کجریوال نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو بدعنوانی کے خلاف ایک ہتھیار بنانے کے لیے عوامی بیداری کی کئی مہمیں چلائیں۔ مگر 2010ء میں دولت مشترکہ کے کھیلوں کے دوران سامنے آنے والی دیو ہیکل بدعنوانی کے معاملے نے کجریوال کی بد عنوانی کے خلاف تحریک کو تیزی سے ملک بھر میں پھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ کجریوال نے دہلی کے مختلف علاقوں سمیت دیگر شہروں میں بھی احتجاجی پروگرام منعقد کیے جنہیں اس وقت کے حالات میں بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج دی گئی۔ کجریوال نے تحریک کی حمایت میں اضافہ کرنے کی غرض سے مختلف مذہبی رہنماؤں سے بھی روابط بنائے۔ یوگا کے گرو اور روحانی رہنما بابا رام دیو اور زندگی گزارنے کا فن نامی فاؤ نڈیشن کے بانی اور روحانی سربراہ شری روی شنکر دو ایسے مذہبی رہنما تھے جنہوں نے تحریک کے ابتدائی ایام میں اس کی حمایت کی اور یوں ان کی بدولت شہری درمیانے طبقے میں موجود ان کے لاکھوں پیروکاروں نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ روی شنکر کی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے دہلی اور دیگر شہری مراکز میں بدعنوانی کے خلاف تحریک کی ابتدائی بنیادیں تعمیر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ساتھ ہی ان مذہبی رہنماؤں کی حمایت کے باعث یہ تحریک شہروں کے درمیانے طبقے میں اپنی بنیاد استوار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ان دو مذہبی رہنماؤں کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کے بعد کجریوال کو اپنی تحریک کو مزید وسعت دینے کے لیے کسی نئے ایسے چہرے اور کردار کی تلاش تھی جو زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو متوجہ کر سکے۔ انا ہزارے ایک سابقہ فوجی اور مہاراشٹر کی ریاست کے ایک گاؤں کا خود ساختہ گاندھی کا پیروکار تھا۔ انا ہزارے 90ء کی دہائی سے ہی مہاراشٹر کی ریاست میں بدعنوانی کے مختلف واقعات کے خلاف ہڑتالیں اور احتجاج کرنے کے حوالے سے کافی شہرت کا حامل تھا جس دوران وہ کئی بار جیلوں میں بھی جا چکا تھا۔ اس کے علاوہ انا ہزارے رالیگن سدی گاؤں کا رہنما بھی ہے جسے مہاراشٹر کا ایک مثالی گاؤں کہا جاتا ہے۔ اس گاؤں کی تعمیر اور دیگر سماجی سرگرمیوں کے لیے انا ہزارے کو حکومت ہند کی جانب سے 1992ء میں پدما بھوشن ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ اس نے 2006ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں ترامیم کے خلاف ایک بھوک ہڑتال کر کے مہاراشٹر حکومت کو یہ ترامیم کرنے سے روک دیا تھا۔ یوں کجریوال کی بدعنوانی کے خلاف تحریک میں انا ہزارے کا نیا چہرہ شامل کیا گیا اور انا ہزارے کو ہندوستان کا دوسرا گاندھی بنا کر پیش کیا گیا جو ہندوستان کی بد عنوانی سے آزادی کی دوسری جنگ لڑ رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس تحریک کے نعروں کو بھی مہاتما گاندھی کے تحریک آزادی ہند کے دوران اپنائے گئے نعروں کی طرز پر مرتب کیا گیا جیسا کہ 1942ء میں گاندھی نے جو انگریزو ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ دیا تھا اسی طرز پربھرشٹا چار ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ اپنا یا گیا۔ اس تحریک کو ہندوستان کے شہری درمیانے طبقے کے وسیع تر حصوں کی حمایت اور ذرائع ابلاغ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہو گئی اور اپریل 2011ء میں اس تحریک نے حکومت سے ایک آزاد احتساب بیورو (جان لوک پال بل) کے قیام کے بل کا مسودہ تیار کرنے کے لیے حکومتی ارکان کے ساتھ اس تحریک کے نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 5 اپریل کو دہلی کے مشہور مقام جنتر منتر پر دھرنے کے دوران انا ہزارے نے اس مطالبے کی منظوری تک بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس خبر کے نشر ہو نے پر ہندوستان کے کئی شہروں میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور حقیقی معنوں میں یہیں سے اس احتجاجی تحریک کا بڑے پیمانے پر آغاز ہوا تھا۔ ہندوستان کے زیادہ تر شہری علاقوں میں بڑے احتجاج شروع ہوگئے اور چار دن بعد 9 اپریل کو حکومت نے اس مطالبے کو منظور کر لیا اور انا ہزارے نے بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ تحریک کے نمائندوں اور حکومتی ارکان کے درمیان بل کا مسودہ تیار کرنے کے معاملے پر با ر ہا اختلافات اُبھر کر سامنے آتے رہے جس پر احتجاجات کا یہ سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری رہا۔ بدعنوانی کے خلاف یہ تحریک تقریباً 18 ماہ تک جاری رہی جس میں جون 2012ء کے دوران اس تحریک کو غیر سیاسی رکھنے کے سوال پر کجریوال کے ساتھیوں اور انا ہزارے کے درمیان پھوٹ پڑ گئی۔ انا ہزارے تحریک کو مکمل طور پر غیر سیاسی رکھنے کا حامی تھا جبکہ کجریوال اس تحریک کو بنیاد بناتے ہوئے ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ جون 2012ء کی اس پھوٹ کے بعد کجریوال نے اسی سال نومبر میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔

عام آدمی پارٹی کا منشور

عام آدمی پارٹی کا 2015ء میں جاری کردہ منشور 70 نکات پر مشتمل ہے۔ کنٹریکٹ ورکرز کو مستقل کرنے اور جھونپڑ پٹیوں کی جگہ (جہاں جھگی وہاں مکان) پکے مکان تعمیر کرنے جیسے چند بڑے اعلانات کے علاوہ پینے کا صاف پانی اور سستی بجلی کی فراہمی، سرکاری تعلیمی اداروں کی تعمیر، صحت کی سہولیات میں بہتری لانا، شہر کی ٹرانسپورٹ کو معیاری بنانا، نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافے کو روکنا، صفائی کے عملے کی تعداد بڑھانا، بدعنوانی اور رشوت کا خاتمہ کرنا جیسے نکات شامل ہیں۔ یہ منشور پوری صفائی کے ساتھ درمیانے طبقے کی اس فکر کا عکاس ہے کہ سرمایہ داری کے مسائل کو دیانتداری اور گڈ گورننس کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت ہندوستان جیسی گلی سڑی سرمایہ دارانہ ریاست میں بد عنوانی اور بد انتظامی کے پیدا کردہ سینکڑوں ایسے مسائل موجود ہوتے ہیں جو دہلی جیسے بڑے شہروں میں بسنے والے عام لوگوں کی زندگیوں کو غذاب بنا دیتے ہیں۔ محکمہ برقیات سے بجلی کا کنکشن یا نیا میٹر حاصل کرنے یا گلی کی سیوریج لائن ٹھیک کرانے جیسے بے شمار مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں ریاستی اداروں کی روایتی بے حسی اور نااہلی بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوسری جانب درمیانے طبقے کے زیادہ تر حصے بالعموم سرمایہ داری نظام کے زیادہ تر مسائل کو اداروں کی نا اہلی کا ہی نتیجہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ اپنے چھوٹے موٹے کاروباروں کو چلانے میں کامیابی حاصل کرنے سے وہ یہی عملی نتائج اخذ کرتے ہیں کہ یہ ادارے اور ان کے سربراہان اگر بد عنوان اور نا اہل نہ ہوں تو زیادہ تر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے عام طور پر کم ازکم تمام ترقی پذیر ممالک کے درمیانے طبقے کی رائے میں ہر سرکاری شعبے کو نجی تحویل میں ہونا چاہیے۔ نجکاری جیسی سامراجی پالیسیوں کو لاگو کرنے کے حق میں وہ عام طور پر اپنے کامیاب کاروباروں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ کسی حد تک اس دلیل میں یہ جزوی سچائی موجود ہوتی ہے کہ ان ممالک میں ریاستی تحویل میں موجود اداروں کو جس بدعنوان بورژوازی اور اسی کی پیدا کردہ بیوکریسی کی حاکمیت میں چلایا جا رہا ہوتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے کی خاطر ان کی کارکردگی کو نا معقول حد تک خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ چونکہ ان ممالک کی بورژوازی تاریخی طور پر تاخیر زدہ ہونے کے باعث ایک صحت مند ریاستی ڈھانچہ تعمیر کرنے کی سوچ سے بھی عاری ہو چکی ہے۔ یہ حکمران طبقہ اور اشرافیہ ریاستی اداروں اور وسائل کی لوٹ مار کے ذریعے ہی اپنے منافعوں کی ہوس پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لیے کسی وبا سے بچاؤ کی ویکسین سے لے کر کسی سڑک، ہسپتال یا دیگر کسی بھی ادارے کی تعمیر کا منصوبہ ایسا نہیں ہوتا جس میں سے بے پناہ کرپشن کے ذریعے سبھی اپنا حصہ وصول نہ کریں۔ ہندوستان کی رائج الوقت بڑی سیاسی پارٹیاں کئی دہائیوں سے جس بھیانک لوٹ مار میں ملوث تھیں اور دوسری جانب ہندوستان کی سٹالنسٹ پارٹیاں انہیں بورژوا جماعتوں کی دم چھلہ بن کر تبدیلی اور انقلاب کی سیاست ترک کر چکی تھیں تو ایسی کیفیت میں لوگوں اور بالخصوص درمیانے طبقے کی زندگیوں میں تھوڑا بہت بدلاؤ لانے کا پروگرام اور نعرے بھی ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کافی تھے۔ اسی لیے بد عنوانی کے خاتمے کی تھوڑی بہت سنجیدہ تحریک نے فوری طور پر درمیانے طبقے کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ عام آدمی پارٹی کی بنیاد بھی اسی سماجی تحریک کے خمیر سے اٹھائی گئی تھی۔ اس پارٹی نے دسمبر 2013ء کے دہلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور بدعنوانی کے خلاف تحریک کے دوران متحرک ہونے والے درمیانے طبقے کے ساتھ عام غریبوں اور محنت کشوں نے بھی اس کے سماجی بہتری اور شہر کے مسائل کے حل کے انتخابی منشور کی حمایت کی۔ عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 28 نشستیں جیتیں جبکہ بی جے پی نے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن کسی بھی پارٹی کے پاس حکومت بنانے کے لیے اکثریت نہیں تھی۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہلی میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن کانگریس کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور گزشتہ انتخابات میں 43 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی کانگریس 35 نشستیں ہار گئی اور دہلی کی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کجریوال سے بیس ہزار ووٹوں کے مارجن سے اپنی سیٹ بھی ہار گئی۔ بی جے پی نے کسی پارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے سے انکار کردیا اور یوں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے 8 ممبران کی حمایت سے اقلیتی حکومت تشکیل دی۔ لیکن یہ حکومت بھی محض 49 دن قائم رہنے کے بعد کانگریس سے اختلافات کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ 2014ء میں ہندوستان کے عام انتخابات منعقد ہونے تھے اسی لیے دہلی کے انتخابات 2015ء میں منعقد ہوئے۔ 2014ء کے عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے پورے ہندوستان سے 414 امیدوار میدان میں اتارے لیکن صرف پنجاب سے چار امیدوار ہی فتح حاصل کر پائے۔ فروری 2015ء میں دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، کانگریس ایک بھی نشست نہیں جیت سکی جبکہ بی جے پی کو صرف تین نشستوں پر کامیابی مل سکی۔ دہلی میں اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کے بعد 2020ء کے انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی نے 62 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دوبارہ دہلی میں اپنی حکومت قائم کی۔

بد عنوانی اور سرمایہ داری

عالمی منڈی پر غالب سامراجی ممالک نے اپنی لوٹ مار کی غرض سے ترقی پذیر ممالک کہلانے والے خطوں میں سرمایہ داری نظام کی جس ناہموار اور بے ہنگم طرز کو اوپر سے جبراً مسلط کیا اس نے ان سماجوں کے ارتقا کو ایک مخصوص بگڑی ہوئی ساخت عطا کی۔ اس مخصوس طرز ارتقا کے عمومی قانون کی خصوصیات اور اس سے جنم لینے والے تضادات کے نتائج کی سائنسی وضاحت لیون ٹراٹسکی نے مشترکہ اور نا ہموار ترقی کے تاریخی قانون کے وسیع اطلاق کے ذریعے اپنی بے شمار تصانیف اور بالخصوص اپنے شاہکار نظریہ مسلسل انقلاب میں کی تھی۔ اس وضاحت کے مطابق پسماندہ ممالک تاریخ کے جس موڑ پر سرمایہ دارانہ عالمی منڈی کے دھارے میں داخل ہوئے اس وقت ترقی یافتہ ممالک کی بورژوازی تکنیکی ترقی اور مالیاتی طاقت کے حوالے سے پہلے ہی عالمی منڈی پر سامراجی غلبہ قائم کر چکی تھی۔ یوں پسماندہ ممالک کی بورژوازی اپنے جنم سے ہی تکنیکی اور مالیاتی حوالے سے عالمی منڈی پر غالب سامراجی ممالک کی بورژوازی کے مرہون منت، مطیع اور غلام تھی۔ دوسرے لفظوں میں، ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلابات پہلے برپا ہوئے جس کی وجہ سے ان ممالک کے سرمایہ داروں کو اپنی صنعت اور تکنیک کو بتدریج ترقی دینے کے لیے دہائیوں اور صدیوں پر مبنی طویل وقت میسر تھا۔ اس عرصے کے دوران ان سرمایہ داروں نے ریاستی طاقت پر اپنے تسلط کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سرمائے میں اضافے کے لیے جاگیرداروں اور چرچ کی ملکیت کی کھلی لوٹ کے ساتھ زمینوں سے بے دخل کیے جانے والے غریب کسانوں کو اپنی فیکٹریوں میں ہانک کر ان کے قوت محنت کا بھی بے پناہ استحصال کیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس اُبھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے نے دنیا کے سبھی خطوں کو اپنی نو آبادیات میں تبدیل کر کے ان کے قدرتی وسائل اور دولت کو بھی کئی صدیوں تک دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ یوں ترقی یافتہ سرمایہ داروں کے پاس قدر زائد کی وہ بے پناہ مقدار جمع ہوئی جس کے ایک حصے کو تحقیق پر خرچ کرتے ہوئے انہوں نے تکنیک کو بے پناہ ترقی دی۔ اپنی اسی لوٹ مار کو جاری رکھنے کی غرض سے ہی ترقی یافتہ بورژوازی اپنی نو آبادیات میں سرمایہ دارانہ ذرائع پیداوار رائج کرنے اور ان خطوں میں بورژوا ملکیتی رشتوں کو متعارف کرانے پر مجبور ہوئی۔ سامراجی ممالک کے زیر سایہ ان خطوں میں ایک بورژوا طبقے کی نشوونما ہوئی جو ہر حوالے سے ان کا مطیع، گماشتہ اور غلام تھا۔ ترقی یافتہ ممالک کی بورژوازی نے اپنی ریاستوں سمیت پورے کرہ ارض کی دولت کو لوٹ کر اتنا دیو ہیکل سرمایہ حاصل کر لیا تھا کہ انہیں اپنے اپنے ممالک میں پرولتاریہ کی جدوجہدوں کے نتیجے میں ایک ایسا جدید ریاستی ڈھانچہ استوار کرنا پڑا جو نسبتاً کم بد عنوان تھا۔ یعنی ان ممالک کی بورژوازی کو سرمائے کی اس قدر بہتات تھی کہ انہیں کسی گلی کی سڑک یا نالی کی تعمیر کے ٹھیکے سے کمیشن حاصل کرنے کے لیے بد عنوانی کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی لیے ان کو سماجی تعمیرات یا دیگر ایسے شعبوں کے سربراہان یا کلرکوں کو بد عنوانی، کمیشن خوری اور رشوت میں ملوث کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان ممالک کے سرمایہ دار بد عنوانی میں ملوث نہیں ہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس ان ممالک کے سرمایہ دار تیسری دنیا کے ممالک سے زیادہ بڑے لٹیرے اور بد عنوان ہیں لیکن وہ اپنی اس لوٹ مار کو ریاستی اور عالمی منڈی کے قوانین کی تشکیل کے ذریعے جائز بنا دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجودہمیں وقتاً فوقتاً تمام ترقی یافتہ ممالک میں بھی بد عنوانی کے بڑے بڑے واقعات نظر آتے رہتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ان ممالک میں سماجی خدمات اور دیگر ریاستی اداروں کی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ عام لوگوں کو پولیس کے ہر ناکے پر بلاوجہ رشوت دینی پڑے یا شناختی کارڈ بنوانے سے لے کر ہسپتال سے دوائی لینے یا سکول و کالج میں داخلہ لینے یا بجلی کا کنکشن لینے جیسے روزمرہ کاموں کے لیے رشوت یا سفارش کی ضرورت پڑے۔ اس کے برعکس پسماندہ ممالک کی بورژوازی کی صورتحال مختلف تھی۔ نہ تو ان کا جنم آزاد تاریخی ارتقا اور نشوونما کے نتیجے میں ہوا اور نہ ہی ان کو لوٹ مار کے وہ وسیع تر مواقع میسر آئے اور نہ ہی ان کو صنعت و تکنیک کو ترقی دینے کے لیے طویل تاریخی مدت دستیاب تھی۔ ان کا جنم سامراج کی چھتر چھایہ میں ایک گماشتہ طبقے کے طور پر ہوا اور دوسری جانب پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری نظام کی استواری پرانے سماجی ڈھانچے کا کسی انقلاب کے ذریعے مکمل طور پر صفایا کرتے ہوئے نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ ان ممالک میں جہاں ایک جانب سرمایہ داری کی کچھ بنیادیں سامراجی ممالک کی لوٹ کے پیش نظر انتہائی بے ہنگم انداز میں تعمیر ہوئیں وہیں ان ممالک کے زیادہ تر علاقوں میں صدیوں سے چلے آنے والے پرانے قبائلی، نیم قبائلی اور نیم جاگیرداری تعلقات کی باقیات بھی موجود تھیں۔ یوں جدید صنعت اور دیگر انفراسٹریکچر کی تعمیر نے ایک طاقتور پرولتاریہ بھی پیدا کر دیا جو ان ممالک کی بورژوازی کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی اپنی ہڑتالوں اور جدوجہدوں کے ذریعے اس گماشتہ بورژوازی کے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے ارادے اور صلاحیتوں کا اظہار کر چکا تھا۔ سوویت انقلاب کی فتح نے اس امکانی خطرے کو ایک فوری حقیقی خطرے میں تبدیل کر دیا تھا۔ ہندوستان کی بورژوازی اور اس کے سیاسی نمائندے ہندوستان کی قومی آزادی کی جدوجہد کے دوران ہی اپنے خلاف اُبھرتے ہوئے ایک پرولتاری انقلاب کے خطرے کی جھلک بارہا دیکھ چکے تھے۔ اسی لیے انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی کی آخری دو دہائیوں کے دوران ہندوستان کی بورژوازی اور اس کے سیاسی نمائندوں نے محنت کشوں کی ہر ہڑتال اور جدوجہد کی نہ صرف بھرپور مخالفت بلکہ ان سے بد ترین غداری کی۔ اس عمل میں ماسکو کی نظریاتی زوال پذیری اور انقلاب سے غداری کے باعث ماسکو کی اندھی تقلید کرنے والی ہندوستان کی سٹالنسٹ پارٹیوں کے جرائم نے بھی ان کی معاونت کی۔ انہی بنیادوں پر دوسری عالمی جنگ کے بعد انگریز سامراج کے خلاف اُبھرنے والی جدوجہد کو مذہبی فرقہ واریت کی زہریلی تلوار سے کاٹ کر ہندوستان کے زندہ جسم کو تقسیم کر کے دو گماشتہ سرمایہ دارانہ ریاستیں تشکیل دی گئیں۔ ان ریاستوں کی بورژوازی اپنی نامیاتی کمزوریوں اور تاریخی خصی پن کے باعث محنت کش طبقے کے خلاف ان سماجوں کی سبھی رجعتی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے بر سر اقتدار آئی۔ اس غیر فطری اور رجعتی گٹھ جوڑ نے اس گماشتہ بورژوازی کو جدید تاریخ کے سب سے رجعتی طبقے میں تبدیل کر دیا جس میں خود اپنے نظام کے تاریخی فرائض پورے کرنے کی خواہش کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ ان فرائض کی تکمیل کی صلاحیت سے یہ پیدائشی طور پر ہی محروم تھے۔ اس گماشتہ بورژوازی کو سامراج کی جانب سے ورثے میں منتقل کیا گیا جو ریاستی ڈھانچہ ملا انہوں نے اسے کانٹ چھانٹ کر کے بہتر بنانے کی بجائے اپنے خصی پن کے رنگ میں اس کو بھی رنگ دیا۔ اپنی تاریخی کمزوریوں اور خصی پن کا ازالہ کرنے کے لیے درکار سرمایہ حاصل کرنے کی غرض سے اس بورژوازی نے اسی ریاستی ڈھانچے کو سر تا پا بدعنوانی کی غلاظت میں غرق کر دیا۔ بورژوازی اپنی مالیاتی اور تکنیکی کمزوریوں کا خاتمہ کرنے کی اہلیت سے عاری ہونے کے باعث ایک جانب سامراجی غلامی کا نیا طوق گلے میں ڈالنے پر مجبور تھی اور دوسری جانب قدر زائد کی لوٹ کے لیے اپنے ہی سماج کے وسائل کو نوچنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی ذرائع موجود نہیں تھے۔ یوں بورژوازی کو جس بے دردی کے ساتھ قومی وسائل کو لوٹنے کی ضرورت تھی اس کو پورا کرنے کے لیے اسے پورے ریاستی ڈھانچے کو اس بدعنوانی میں اپنا شراکت دار بنانا پڑا۔ پاکستان میں اس شراکت داری نے فوج کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ اس وقت فوج خود تمام تر کاروبار اور معیشت کے ایک تہائی سے زیادہ حصے کی مالک بن چکی ہے۔ ہندوستان میں اگرچہ آغاز میں نہرووین سوشلزم کے نام پر ریاستی تحفظاتی پالیسی کے ذریعے ایک بورژوا طبقے کی نشوونما کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن یہ عمل بھی ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ یوں دیگر پسماندہ بورژوا ممالک کی طرح ہندوستانی سرمایہ داری میں بھی بدعنوانی نظام کی خرابیوں کی وجہ نہیں بلکہ اس گماشتہ سرمایہ داری کو زندہ رکھنے اور اس کی سانسوں کو بحال رکھنے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ جس طرح کسی بچے کی ٹانگیں پیدائشی طور پر مفلوج ہوں اور اس کا علاج ممکن نہ ہو یا بر وقت علاج نہ کرانے کی وجہ سے اس کی معذوری مستقل شکل اختیار کر جائے تو اس کو کھڑا ہونے یا تھوڑا بہت چلنے کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑے گی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جوں جوں وہ بڑا ہوتا جائے گا توں توں اسے زیادہ بڑے سائز کی بیساکھیوں کی ضرورت ہو گی۔ اگرچہ اس کے باقی جسم کی نشوونما صحت مند انداز میں ہو رہی ہوتی ہے لیکن اس کا مفلوج پن اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے۔ اب اگر تیس سال بعد اس کی بیساکھیوں کو اس کی معذوری کی وجہ قرار دے کر اس سے بیسا کھیاں چھیننے کی کوشش کی جائے گی تو وہ پھر بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پائے گا بلکہ منہ کے بل گر جائے گا۔ اسی طرح پسماندہ ممالک کی گماشتہ سرمایہ داری اپنے جنم کے مفلوج پن کے باعث بدعنوانی کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہونے کے قابل ہے اور بد عنوانی کے خاتمے کی ہر سنجیدہ کوشش اس پوری سرمایہ داری کی عمارت کو لرزا دیتی ہے۔ اس لیے ہندوستان سمیت دیگر پسماندہ ممالک میں بھی بد عنوانی کے خلاف اس طرح کی تحریکیں چلتی رہتی ہیں اور بعض اوقات اس بے پناہ حد تک پھیلی ہوئی بدعنوانی کے خلاف نیچے سے محنت کشوں اور عام عوام کی بڑی سنجیدہ تحریک اُبھرنے کے خطرات کو ٹالنے کے پیشگی اقدامات کے طور پر خود حکمران طبقات کے سنجیدہ حصوں کو بھی کچھ انتہائی سخت عملی اقدامات تک کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن ان تمام اقدامات اور تحریکوں کا مقصد بد عنوانی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ بے قابو ہوتی بدعنوانی کو ایک قاعدے میں لانے کے ساتھ محنت کشوں اور عام عوام کا نظام پر اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے۔ پسماندہ ممالک کے تمام تر تجربات کا نتیجہ یہی ہے کہ اس گلی سڑی سرمایہ داری کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر سے بد عنوانی کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں۔ بد عنوانی کے خلاف اُبھرنے والی تحریکوں کے نتیجے میں کچھ نئے قانون بنا دیے جاتے ہیں یا جب تک تحریک کا زیادہ زور ہوتا ہے اس دوران رشوت اور بد عنوانی کے طور طریقے تبدیل کر دیے جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں یا مہینوں کے لیے رشوت لینے اور بد عنوانی سے کسی حد تک اجتناب کیا جاتا ہے لیکن پھر ہر چیز معمول پر آجاتی ہے اور اس دوران بدعنوانی کے نئے طریقے بھی دریافت ہو چکے ہوتے ہیں۔

اقلیت کی حکمرانی اور بد عنوانی

تاریخی حوالے سے بھی جائزہ لیا جائے تو بورژوازی کوئی پہلا بد عنوان حکمران طبقہ نہیں تھا، نہ ہی بد عنوانی بورژوازی کی ایجاد ہے۔ سماج کی طبقات میں تقسیم کے ساتھ ہی بالا دست یا حاکم طبقات میں اپنی حاکمیت اور اختیارات کا لوٹ مار اور عوام کے خلاف ناجائز استعمال کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ ہر طبقاتی سماج کا حکمران طبقہ اپنی مخصوص طرز سے بد عنوان تھا اور بد عنوانی ہر اقلیتی حاکمیت کا نامیاتی جزو رہی ہے۔ سلطنت روم کے غلام مالکان یا عہد وسطیٰ کے جاگیردار اور بادشاہتیں آج کی بورژوازی سے کم بد عنوان نہیں تھیں۔ اس لیے بدعنوانی کی وجوہات کو شخصیات یا سماجی پرتوں کی اخلاقی گراوٹ میں نہیں تلاش کیا جا سکتا بلکہ ان ٹھوس مادی و سماجی حالات میں ہی بد عنوانی کی جڑیں پیوست ہوتی ہیں جو کسی خاص تاریخی عہد میں سماج کی ایک چھوٹی سی اقلیت کی حاکمیت کو تاریخی جواز فراہم کرتے ہیں۔ اقلیت کی حاکمیت اور اختیارات کے قیام کا اگر مادی تاریخی جواز موجود ہو تو یہ وجود میں آجاتی ہے اور پھر کوئی آفاقی اخلاقی معیار باقی نہیں رہتا بلکہ اسی حاکمیت کی طرفداری اور ضروریات ہی اخلاقیات کا معیار بن جاتا ہے۔ اختیارات اور حاکمیت کی صدیوں سے چلی آنے والی اپنی ہی ایک منطق ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے سوویت انقلاب کی زوال پذیری کو جنم دینے والے ٹھوس سماجی حالات اور بیوروکریسی کے اُبھار کی وجوہات کی وضاحت انتہائی سادہ مثال کے ذریعے کی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت بیوروکریٹک کنٹرول کی ضرورت کو جنم دیتی ہے۔ اگر گوشت کی دکان پر گوشت طلب کرنے والوں کی طویل قطار ہوگی تو اس ہجوم کو قاعدے میں رکھنے کے لیے ایک سپاہی درکار ہوگا۔ لیکن یہ سپاہی سب سے پہلے گوشت کا ایک بہترین ٹکڑا اپنے لیے الگ رکھ لے گا۔ اسی عمل کی وضاحت انیسویں صدی کے معروف انگریز تاریخ دان لارڈ اکٹن نے ان الفاظ میں کی تھی کہ ”طاقت بدعنوان کرتی ہے اور مطلق طاقت مطلق طور پر بد عنوان کر دیتی ہے“۔ سوویت بیوروکریسی کی حاکمیت کو جس مادی پسماندگی اور انقلاب کی تنہائی نے جواز فراہم کیا تھا ان حالات میں اس بیوروکریسی کو بد عنوان ہونے سے سوشلزم کے عظیم آدرش بھی نہیں روک پائے۔ حاکمیت سے جڑی بد عنوانی کی غلاظت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے خاتمے کی مسلسل اور انتھک سائنسی جدوجہد جاری رکھی جائے جیسا کہ لیون ٹراٹسکی نے کیا تھا۔ یہی عمل بعدازاں چین سمیت دیگر پرولتاری بونا پارٹسٹ ریاستوں میں بھی وقوع پذیر ہوا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت بھی اگر قومی حدود میں مقید رہ جائے تو مادی ترقی کا وہ معیار حاصل نہیں کر سکتی جو حاکمیت کی تمام شکلوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ قومی حدود میں مقید رہ کر اس کا مزید ارتقا لازمی ایسے حالات کو جنم دیتا ہے جس میں ماضی کے حکمران طبقات کی تمام غلاظتیں دوبارہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ انسانی سماج کے کئی صدیوں پر محیط ارتقا کا سبق یہی ہے کہ اقلیت کی حاکمیت اور کنٹرول سے بد عنوانی کو الگ نہیں کیا جا سکتا چاہے اس حاکمیت کی بنیاد کسی بھی قسم کے پیداواری رشتوں پر کیوں نہ ہو۔ اس بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو ایک طبقاتی نظام کے ڈھانچے کو قائم رکھتے ہوئے اس کو بد عنوانی سے پاک کرنے کی بات درحقیقت اس نظام کے خلاف اُبھرنے والی نفرت کو گمراہ کرنا اور دوبارہ اسی نظام پر عام لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے کا مقصد پورا کرتی ہے۔ اسی لیے بدعنوانی کے خاتمے کی اکثر تحریکوں کو حکمران طبقات اور ان کے ذرائع ابلاغ کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے چونکہ یہ تحریکیں نظام کے لیے خطرہ بننے والے عوامی غم و غصے کو انقلابی راستے سے بھٹکا دیتی ہیں۔ حکمران طبقات اور ذرائع ابلاغ کی بڑے پیمانے پر حمایت نہ صرف ہندوستان میں عام آدمی پارٹی بلکہ 2011ء کے بعد سے پاکستان میں تحریک انصاف کی سابقہ بد عنوان حکمرانوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو بھی دستیاب رہی۔

عام آدمی پارٹی کی حکومت اور محنت کش طبقہ

اس سال جنوری سے دہلی کی آنگن وادی سکیم کی ہزاروں محنت کش خواتین اجرتوں میں اضافے اور دیگر مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں لیکن عام آدمی پارٹی نے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے ان کے خلاف بھی لازمی سروسز ایکٹ کا کالا قانون نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ آنگن وادی خواتین کی یہ ہڑتال کئی مہینوں سے جاری ہے اور دہلی حکومت نے تقریباً 900 خواتین کو برطرف کر دیا ہے۔ حکومت کے اس انتہائی وحشیانہ اقدام کے خلاف دہلی ہائی کورٹ کو مداخلت کر کے حکومت کو مزید بر طرفیوں سے روکنے کا حکم جاری کرنا پڑا ہے۔

عام آدمی پارٹی کی حکومت بھی ہندوستان کی دیگر ریاستوں اور مرکزی حکومت کی طرح ہی ایک نااہل سرمایہ دارانہ حکومت ہے۔ اس کا ثبوت کرونا لاک ڈاؤن کے وقت سامنے آیا جب دہلی افرا تفری، بھوک، اموات، ہجرتوں اور انتشار کا سب سے بڑا مرکز بنا ہوا تھا۔ کنٹریکٹ پر نوکریاں کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کو راتوں رات بیروزگار اور بے گھر ہوکر واپس اپنے دیہاتوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے ان کے لیے دیہاتوں میں واپسی کا سفر بھی ناممکن ہو کر رہ گیا تھا۔ دہلی حکومت نے تمام مزدوروں کو دو ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا جسے سرمایہ داروں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا مگر دہلی حکومت ان سرمایہ داروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ عام آدمی پارٹی کا ایک اہم اعلان تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کا وعدہ تھا مگر سات سال کی حکومت کے بعد بھی اس اعلان پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ نجی شعبے سمیت سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کش اس وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے محنت کشوں نے ملازمین کی مستقلی کے لیے بارہا ہڑتالیں اور احتجاج بھی کیے لیکن عام آدمی پارٹی کی حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کا فیصلہ کیا۔ اکتوبر 2018ء میں ٹرانسپورٹ ورکرز نے کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کے فیصلے کے خلاف 29 اکتوبر کو ہڑتال کی کال دی۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے ان پر لازمی سروسز ایکٹ کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود ٹرانسپورٹ ورکرز نے، چکہ بند، کے نعرے کے تحت دہلی میں پہیہ جام کر دیا۔ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی اس ہڑتال نے آخرکار عام آدمی پارٹی کو تنخواہوں میں کمی کے مزدور دشمن فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل ملازمین کے برابر اجرتیں دینے کا قانون منظور کیے جانے کے باوجود ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ صحت عامہ کی آشا جیسی سکیموں کے ساتھ دیگر شعبوں میں اسی قسم کی سکیموں کے تحت کام کرنے والے ہزاروں محنت کش اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ آشا سکیم کے ملازمین تین ہزار روپے ماہانہ اور ایک ہزار روپے کرونا الاؤنس جیسی انتہائی کم اجرتوں پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح دہلی کی فیکٹریوں کے مزدور انتہائی غیر انسانی حالات میں معمولی اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں آئے روز فیکٹری حادثوں میں درجنوں مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن عام آدمی پارٹی کی حکومت ان سرمایہ داروں کی مکمل گماشتگی میں چپ سادھے بیٹھی ہے۔ 2019ء میں دہلی کے علاقے اناج منڈی میں ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے 50 مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ حادثے کے بعد ہونے والی تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ چمڑے کے بیگ بنانے والی اس فیکٹری کے مزدوروں کو فیکٹری کے گودام میں ہی رہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت میں دہلی کی تمام تر نجی فیکٹریوں میں مزدوروں کو ہر قسم کے بنیادی قانونی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور فیکٹری مالکان سیفٹی اور کم از کم اجرت جیسے تمام قوانین کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں مگر پھر بھی عام آدمی کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی اس پارٹی کی حکومت ایسے واقعات کے خلاف کوئی اقدام تو دور کی بات ان کی کھل کر مذمت تک کرنے کی جرات نہیں کر تی۔ اس سال جنوری سے دہلی کی آنگن وادی سکیم کی ہزاروں محنت کش خواتین اجرتوں میں اضافے اور دیگر مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں لیکن عام آدمی پارٹی نے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے ان کے خلاف بھی لازمی سروسز ایکٹ کا کالا قانون نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ آنگن وادی خواتین کی یہ ہڑتال کئی مہینوں سے جاری ہے اور دہلی حکومت نے تقریباً 900 خواتین کو برطرف کر دیا ہے۔ حکومت کے اس انتہائی وحشیانہ اقدام کے خلاف دہلی ہائی کورٹ کو مداخلت کر کے حکومت کو مزید بر طرفیوں سے روکنے کا حکم جاری کرنا پڑا ہے۔ حکومت کے ان انتہائی اقدامات کے باوجود محنت کش خواتین کی یہ جدوجہد جاری ہے اور عام آدمی پارٹی کا مزدور دشمن مکروہ چہر ننگا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے بڑے کارنامے!

عام آدمی پارٹی نے جو اعلانات کیے تھے ان میں سے محض چند ایک پر ہی جزوی عملدرآمد کیا جا سکا ہے۔ 11 فروری 2020ء کو ٹائمز آف انڈیا نے ایک مضمون میں عام آدمی پارٹی کے سات کارناموں کی تفصیلات لکھیں جن کے باعث اسے تیسری بار دہلی میں انتخابی فتح حاصل ہوئی۔ ان کارناموں میں پہلا دہلی کے پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافے پر کنٹرول تھا۔ دوسرا دہلی میں ایک ہزار محلہ کلینک کے ذریعے صحت کی سہولیات تک سب کی رسائی کو ممکن بنانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اب تک محض 300 محلہ کلینک بنائے جا سکے۔ اسی طرح سرکاری سکولوں میں نئے کمروں کی تعمیر اور دیگر کچھ ایسی سرگرمیاں متعارف کرائیں جو نجی تعلیمی اداروں میں ہوتی تھیں۔ سب سے بڑا ریلیف جو دیا گیا وہ دو سو یونٹ ماہانہ تک استعمال کرنے والوں کو مفت اور چار سو یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والوں کو 50 فیصد قیمت پر بجلی اور بیس ہزار لیٹر مفت پانی کی فراہمی ہے، لیکن دہلی کی کچی بستیوں، جھونپڑ پٹیوں سمیت غریبوں کے ایسے بے شمار علاقے ہیں جو ابھی تک اس آسائش سے بھی محروم ہیں۔ اس کے ساتھ بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی کے مقابلے میں ایک اعتدال پسند ہندتوا کے پرچار کے ساتھ مذہبی مقامات کی یاترا پر جانے والے بزرگوں کے لیے مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی گئی۔

نتائج

مارکسزم سماج کے سائنسی تجزیے و تناظر کا فلسفیانہ طریقہ کار ہے جس میں کسی بھی سیاسی و سماجی مظہر کے عروج و زوال کو پورے بورژوا سماج کے ساتھ تعلق میں دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ پیٹی بورژواخیال پرستوں کی کھوکھلی دانش کسی بھی سیاسی پارٹی کا تجزیہ اس کی محض ظاہری کامیابی سے مرغوبیت کی بنیاد پر کرتی ہے۔ عہد حاضر کے بے شمار نام نہاد بائیں بازو کے گروپوں کا تعلق بھی دانشوروں کی اسی نوع سے ہے جو دائیں بازو کے نئے اور سابقہ کے مقابلے میں زیادہ رجعتی مظہر کے اُبھار پر فاشزم، فاشزم چلانے لگتے ہیں اور اسی طرح کسی دائیں بازو کے نیم اصلاح پسند نعرے باز کو بھی سوشلسٹ بنا کر پیش کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس تمام شور و شرابے میں وہ محض ایک چیز کوپوری صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں اور وہ ہے ان کی سطحیت، ان کا کھوکھلا پن اور مارکسی فلسفے سے مکمل لا علمی۔ نام نہاد بائیں بازو کے جو لوگ عام آدمی پارٹی کو بائیں بازو کا رحجان تو دور کی بات کوئی اصلاح پسند پارٹی بھی سمجھتے ہیں ان کی عقل پر ماتم کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ عام آدمی پارٹی کا منشور اور نعرے بازی تجربیت اور عملیت پسندی کی بنیاد پر بورژوا سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کو ریاست کی انتظامی مشینری کی کارکردگی کو بہتر بنا کر حل کرنے کے پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں۔ عام آدمی کی اصطلاح ایک انتہائی عمومی، مبہم اور غیر واضح اصطلاح ہے جس کے ذریعے بورژوا سماج کی طبقاتی ساخت اور مختلف طبقات کے کردار کی وضاحت نہیں ہوتی۔ پارٹی کے پروگرام میں عام آدمی کی اصطلاح کا مفہوم و معنی بھی رائج الوقت سیاسی پارٹیوں اور قائدین کے خلاف استعمال کرتے ہوئے حاوی سیاسی اشرافیہ کے مقابلے میں خود کو سیاسی اختیارات اور حکومتی ایوانوں تک رسائی سے محروم لوگوں کا نمائندہ ثابت کرنے کے لیے ہے۔ دوسری جانب عام آدمی کی اصطلاح واضح طور پر بورژوا سماج کی پیدا کردہ طبقاتی تقسیم میں پرولتاری طبقے کے تاریخی کردار کو چھپانے اور اسے مسخ کرنے کے لیے ایک زہریلے اوزار کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ یہ سیاسی سوچ پھیلائی جارہی ہے کہ واضح طبقاتی سیاست اور انقلاب کی جدوجہد ضروری نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ریاست کے بدعنوانی جیسے دیگر مسائل کے خلاف سبھی لوگ مل کر کوشش کریں تو ان برائیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک اچھی اور عام آدمی کی دوست سرمایہ داری تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی اور لازمی پیغام یہ ہے کہ سرمایہ داروں کی حاکمیت، تسلط، لوٹ مار اور استحصال کے خاتمے کے بارے میں سوچنا بھی جرم ہے۔ خرابی سرمائے کی حاکمیت اور استحصال کی وجہ سے نہیں۔ لہٰذا اس حاکمیت کو قائم رکھنے والی ریاستی و انتظامی مشینری کی بدعنوانی اور رشوت خوری جیسے مسائل کو دور کر دیا جائے تو سب اچھا ہو جائے گا۔ پھر ان مسائل کو بھی دور کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ حاوی سیاسی پارٹیوں کی جگہ اروند کجریوال اور اس کے ڈھونگی گروہ کو اقتدار میں لا یا جائے۔ عام آدمی پارٹی کی دہلی اور پھر حالیہ عرصے میں پنجاب کے انتخابات میں فتح کا جائزہ لیا جائے تواس میں بھی یکسر کوئی ایسا حیرانگی کا پہلو نہیں ہے۔ سرمایہ داری نظام کے عالمی بحران کے باعث گزشتہ دہائی کے دوران مختلف ممالک میں سیاست پر حاوی دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے زوال اور نئی پارٹیوں کے اُبھار کا ایک پورا سلسلہ نظر آتا ہے۔ مزدور تحریک میں حقیقی مارکسی قوتوں کی کمزوری، سٹالنسٹ اور اصلاح پسند پارٹیوں کی غداری اور سرمایہ داری کے بدترین بحران کے امتزاج نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس میں محنت کشوں اور درمیانے طبقے کی بحران سے نجات پانے کی خواہش انتخابی میدان میں ہر ایسے بائیں یا دائیں بازو کے رحجان، جو بھی سٹیٹس کو کے خاتمے کی بات زیادہ جرات کے ساتھ کرتا ہے، کی حمایت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ عالمی سطح پر ایسے حالات موجود ہیں جن میں حقیقی مارکسی قوتوں کی عدم موجودگی یا عددی کمزوری کے باعث دائیں اور بائیں بازو کے پاپولسٹ رحجانات کے تیزی سے اُبھرنے اور ڈوبنے کا عمل جاری رہے گا۔ عام آدمی پارٹی کی فتح بھی ہندوستان کی سیاست پر حاوی پارٹیوں بالخصوص کانگریس سے شدید نفرت کا اظہار ہے۔ عام آدمی پارٹی کی روزمرہ مسائل کے حل کی بات کے ساتھ اس کو دیگر پارٹیوں پر سب سے بڑی فوقیت یہ حاصل ہے کہ اس پر ماضی کا کوئی بوجھ نہیں اور اس کا نیا ہونا از خود ایک مراعت ہے۔ بورژوا پارلیمانیت سے عام لوگوں کی نفرت اور بد اعتمادی کے اظہار کا یہ ابتدائی قدم ہے کہ وہ سات عشروں سے سیاست پر حاوی پارٹیوں کو مسترد کرکے کسی نئی پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ قومی سطح پر کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے خلاف بی جے پی کی 2014ء کے انتخابات میں فتح کی بنیادی وجہ بھی ایک جانب ان پارٹیوں سے شدید نفرت اور دوسری جانب مودی کی انتخابی مہم میں منافقانہ طبقاتی نعرے بازی تھی جس میں اس نے خود کو چائے والا اور راہول گاندھی کو شہزادہ قراردے کر انتخابات کو غریب اور امیر کے درمیان لڑائی کے طور پر پیش کیا تھا۔ بی جے پی کی 2019ء کے انتخابات میں دوبارہ فتح اصل میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کی جانب سے کوئی بھی متبادل پروگرام دینے میں مکمل ناکامی کا نتیجہ تھا۔ درحقیقت سرمایہ داری نظام کے زوال اور بحران کی شدت اور تسلسل کے باعث ہر ملک میں سماجی تبدیلی کی شدید خواہش اور تڑپ موجود ہے جس کا ابتدائی اظہار اس قسم کے متضاد مظاہر کے اُبھار میں ہو رہا ہے۔ ان تمام مظاہر میں ایک عنصر مشترک ہے کہ ہر دائیں یا بائیں بازو کے پاپولسٹ رحجان کو سٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کا نعرہ دینا پڑتا ہے۔ اس سطح پر طبقاتی شعور سے عاری عوام کی اکثریت درمیانے طبقے کی پیروی کرتے ہوئے تبدیلی کے نعرے کو سنجیدہ لے رہی ہے اور انہیں اس سے غرض نہیں کہ یہ تبدیلی بائیں بازو کے انقلابی اقدامات کے ذریعے لائی جائے گی یا دائیں بازو کے رجعتی اقدامات کے ذریعے۔ پیٹی بورژوا خیال پرستوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں سرمایہ داری کی اصلاح کرتے ہوئے اسے بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ان کے لیے سماج کی انقلابی تبدیلی ایک یوٹوپیا جبکہ عملی سیاست یعنی اس نظام کا حصہ بن کر اس کی برائیوں کو دور کرنا ہی اصل انقلابی کام ہوتا ہے۔ ہندوستان میں عام آدمی پارٹی کی بدعنوانی کے خلاف تحریک ہو یا پاکستان میں عمران خان کا اُبھار، دونوں ہی درمیانے طبقے کی اسی سوچ کی پیداوار ہیں جنہیں حکمران طبقے کے ایک حصے کی حمایت اور ذرائع ابلاغ کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے ذریعے عام لوگوں کے شعور پر مسلط کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ایک ہی قسم کے دائیں بازو کے پاپولسٹ مظاہر ہیں جن میں بے شمار امتیازات کے باوجود چند کلیدی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں بدعنوانی کے خلاف تحریکوں اور نعرے بازی کے ذریعے درمیانے طبقے کی حمایت پر پروان چڑھائے گئے۔ دونوں نے آزادی کے قائدین سے نعرے مستعار لیے اور سات دہائیوں سے سیاست پر حاوی پارٹیوں کے خلاف خود کو نئے اور اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لانے والے کے طور پر پیش کیا۔ بحرانوں کے ادوار میں بورژوا حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ ایسے نئے چہروں اور پارٹیوں کی ضرورت موجود رہتی ہے جو تبدیلی کی منافقانہ نعرے بازی کے ذریعے محنت کشوں اور عوام میں مقبولیت حاصل کر سکیں۔ اسی لیے ہمیں ہندوستان کے کچھ لبرل دانشور اور تجزیہ نگار بورژوازی کو کانگریس کے تاریخی زوال سے پیدا ہونے والے خلا میں عام آدمی پارٹی کو مستقبل کی ایک قومی پارٹی کے طور پر دیکھنے اور اس کے بارے میں سنجیدہ منصوبہ بندی کرنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ ہندوستان کی بورژوا سیاست میں کانگریس کا زوال حقیقت میں ایک سنجیدہ بحران کو شدید تر کرتا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی دو تہائی اکثریت سے لگاتار دوسری بار حکومت کے قیام اور کئی ایک ریاستوں میں انتخابی فتح کے ذریعے اس کی ظاہری طاقت کا جو تاثر اُبھر رہا ہے وہ اس کی حقیقی طاقت اور عوامی بنیادوں کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ درست ہے کہ کانگریس اور بائیں بازو کی سٹالنسٹ پارٹیاں بی جے پی کے مقابلے میں خود کو اس سے بہتر متبادل کے طور پر پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں جس کے باعث بی جے پی کا اُبھار اس کی اصل طاقت سے کئی گنا بڑا دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ عرصے میں کانگریس کے ڈوبتے سورج کی ترچھی شعاعوں کا پیدا کردہ بی جے پی کا اس کے اصل قد سے کئی گنا بڑا سایہ ہندوستان کے سیاسی اُفق پر چھا کر ہر منظر کو دھندلا رہا ہے۔ مگر اصل صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ ہندوستان کے محنت کشوں کی گزشتہ کئی سالوں سے لگاتار ہر سال ہونے والی عام ہڑتالیں، بی جے پی حکومت کے کسان دشمن قوانین کے خلاف ایک سال تک جاری رہنے والی کسانوں کے بے مثال جدوجہد کی زبردست فتح، شہریت کے قوانین کے خلاف اُبھرنے والی عوامی تحریک اور اس وقت جاری دہلی کی آنگن وادی محنت کش خواتین کی انتہائی لڑاکا تحریک جیسی محنت کشوں کی بے شمار چھوٹی بڑی لڑائیاں ایک بالکل مختلف منظر کی تخلیق میں محو ہیں۔ بی جے پی اپنی تمام تر انتخابی کامیابیوں کے باوجود سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث متشدد ہندو انتہا پسندی کی جانب تیزی سے لڑھکتی جا رہی ہے جس سے اس کے بڑھتے ہوئے داخلی بحران اور تضادات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اپنی کامیابی کے عروج پر بی جے پی میں داخلی طور پر یہ تضاد شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ بی جے پی اپنی تشکیل کے ایک اہم عنصر، رجعتی ہندتوا یا آر ایس ایس، کے نظریات پر عمل پیرا ہو کر تمام مذہبی اقلیتوں سے ہندوستان کو پاک کرے گی یا پھر وہ ہندوستان کے نام نہاد سیکولر بورژوا طبقے کی ایک گماشتہ پارٹی رہے گی۔ مذہبی انتہا پسندی کے نظریات کو حصول اقتدار کی کوششوں کے دوران ایک اوزار کے طور پر استعمال کرنا الگ بات ہے لیکن بر سر اقتدار آنے کے بعد ان جنونی نظریات کے حامل حصوں کو قابو میں رکھ پانا بالکل مختلف بات ہوتی ہے۔ آر ایس ایس کے جنونی حصوں کی اپنے ہندتوا ایجنڈے پرعمل کی کوششیں بورژوا نظام سے متصادم ہورہی ہیں۔ بورژوازی کے لیے ہندتوا جنونیوں کی متشدد سرگرمیاں ایک محدود دائرے کے اندر ہی قابل قبول ہیں لیکن بی جے پی کی اس قدر بھاری انتخابی فتح ان بورژوا حدود و قیود کو توڑنے کا تقاضا کر رہی ہے۔ یہ تضاد آنے والے ماہ و سال میں شدت اختیار کرے گا اورایک خاص وقت میں اس کی وجہ سے بی جے پی کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور بحرانات کا ایک پورا سلسلہ جنم لے گا۔ ہندوستان کی بورژوا سیاست اور پارٹیوں کا بحران آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کرے گا اور ایسے وقت میں عام آدمی پارٹی کے مرکزی سطح پر بر سر اقتدار آنے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ دوسری جانب ہندوستان کا محنت کش طبقہ بھی تیزی سے اس نظام کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اتر کر اس سارے منظر کو تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ مارکسزم یہ واضح کرتا ہے کہ بورژوا سماج کے خلاف جدوجہد میں پرولتاری طبقہ سماج کی سبھی استحصال زدہ پرتوں اور درمیانے طبقے کی قیادت حاصل کرتے ہوئے بورژوا ریاست کو اُکھاڑ کر ایک پرولتاری ریاست قائم کرے گا۔ بورژوا سماج میں پرولتاریہ واحد ایسا طبقہ ہے جو اپنی نجات کے لیے جو بھی انقلابی اقدامات کرے گا ان کے ذریعے سماج کی دیگر تمام استحصال زدہ پرتوں کی نجات کا حصول بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ اسی لیے بورژوا سماج کے خلاف لڑائی کے لیے ایک واضح طبقاتی اور سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کا ہونا بنیادی شرط ہے۔

Comments are closed.