ہندوستان: معاشی تضادات کی کوکھ میں پلتے طوفان(حصہ دوم)

تحریر: |آفتاب اشرف|
2008Indian Economy Cartoonء کے مالیاتی کریش سے شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران نے دنیا کی تمام چھوٹی بڑی معیشتوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتیں مسلسل سست روی کا شکار ہیں اور کئی تو کساد بازاری کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ چینی معیشت کی شرح نمو 2015ء میں صرف 6.9فیصد رہی جو کہ بحران سے قبل 2007ء میں 14.2فیصد تھی۔ روس اور برازیل جیسی نام نہاد ’’ابھرتی ہوئی منڈیاں‘‘ پہلے ہی معاشی کساد بازاری کا شکار ہو چکی ہیں۔ عالمی معیشت کی اس بحران زدہ کیفیت کے پسِ منظر میں ہندوستان کے حکمرانوں اور سرکاری معیشت دانوں کی طرف سے ہندوستانی معیشت کی شرح نمو میں اضافوں کے دعوے نے نہ صرف مقامی اور عالمی بورژوازی کے سنجیدہ حلقوں میں ہلچل پیدا کی بلکہ ان اعدادوشمار کے بارے میں بہت سے سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے میں مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہندوستانی وزارتِ خزانہ کے ان بلندوبانگ دعوؤں کا پر دہ چاک کرکے شدت اختیار کرتے ان معاشی تضادات کو عیاں کریں جو مستقبل میں طبقاتی جدوجہد کے ابھار کا پیش خیمہ بنیں گے۔

<< حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں >>

GDP کی شرح نمو میں اضافہ۔۔ حقیقت یا افسانہ؟
2008ء میں شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران سے پہلے 07-2006ء میں ہندوستان کی معیشت 9.6فیصد کے انتہائی بلند شرح نمو کو چھو رہی تھی۔ 2008ء کے بعد عالمی معاشی بحران کے اثرات کے تحت ہندوستانی معیشت کی شرح نمو کم ہوتے ہوئے مالی سال 14-2013ء میں 4.7فیصد تک گر گئی۔ 2014ء کے عام انتخابات کے دوران نریندرا مودی نے کانگریس پارٹی کی سربراہی میں قائم UPA کی سابقہ حکومت کی معاشی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر ہندوستانی معیشت کو ماضی کی بلند شرح نمو حاصل کرنے کے قابل بنائے گا۔ انتخابات کے نتیجے میں BJP کی حکومت بنی اور مودی ہندوستان کا وزیراعظم تو بن گیا لیکن بحران زدہ عالمی معیشت کے پس منظر میں اس کیلئے الیکشن میں کئے گئے ’’معاشی جادوگری‘‘ کے وعدے پورے کرنا ممکن نہیں تھا۔ اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی سست پڑتی ہوئی ملکی معیشت سے گھبرا کر مودی حکومت نے اپنی ’’معاشی کارکردگی‘‘ کی دھاک بٹھانے کی خاطر اعدادوشمار کے ہیرپھیر سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ جنوری2015ء میں ہندوستان کے مرکزی شماریاتی دفتر(CSO) نے GDP کی شرح نمو ماپنے کیلئے ایک نیا فارمولہ وضع کیا جس کے تحت مالی سال 14-2013ء کی 4.7فیصد شرح نمو کو بڑھا کر 6.9فیصد کر دیا گیا۔ مالی سال 15-2014ء کی 7.3فیصد اور مالی سال 16-2015ء کی 7.6فیصد شرح نمو کا تعین بھی اسی فارمولے کے تحت کیا گیا ہے۔ اعدادوشمار کے اس ہیرپھیر پر جہاں کسی بھی ’’اچھی خبر‘‘ کے متلاشی حلقوں نے نہایت خوشی کا اظہار کیا وہیں کچھ سنجیدہ معاشی حلقوں بشمول ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رگھورام Modi Rajan GDP Disputeراجن(Raghu Ram Rajan) کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا کیونکہ کاغذی اعدادوشمار میں کی گئی تبدیلیاں تلخ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ CSO کی جانب سے وضع کردہ شرح نمو ماپنے کے نئے فارمولے کی تفصیلات سامنے آئیں اور مودی سرکار کی معاشی فریب کاریوں کا پول کھل گیا۔ ماضی میں GDP کی شرح نمو کا تعین کرنے کیلئے پہلے معیشت کے تمام حصوں(زراعت، صنعت، سروسز وغیرہ) میں پیداوار میں ہونے والے حقیقی سالانہ اضافے یعنی (Gross Value Added)GVA کا علیحدہ علیحدہ تعین کیا جاتا تھا اور پھر معیشت کے تمام سیکٹرز کے GVA کو جمع کر کے GDPکی سالانہ شرح نمو نکالی جاتی تھی جو کہ معیشت میں ہونے والے حقیقی پیداواری اضافے کی درست عکاسی کرتی تھی۔ CSO کے وضع کردہ نئے فارمولے کے تحت چونکہ حتمی صارف تک پہنچنے والی اشیا اور سروسز کی قیمت میں ان پر لگنے والے بالواسطہ ٹیکس(Indirect Taxes) شامل ہو جاتے ہیں اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی منہاہو جاتی ہے لہذا بالواسطہ ٹیکسوں اور حکومتی سبسڈی کوبھی GDPکی شرح نمو کا تعین کرنے والے فارمولے کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کے تحت سالانہ شرحِ نمو کا تعین کرنے کیلئے کل ملکی معیشت کے سالانہ GVA میں تمام بالواسطہ ٹیکسوں کو جمع کر دیا جاتا ہے اور پھر حاصلِ جمع میں سے تمام حکومتی سبسڈی کو تفریق کر دیا جاتا ہے۔یوں اس فارمولے کے تحت اگر GVA جمود کا شکار بھی رہے لیکن بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ اور حکومتی سبسڈی میں کمی ہوتی جائے تو بھی GDP کی شرح نمو میں اضافہ ریکارڈ ہو گا۔ ہندوستان کی حالیہ بلند شرح نمو کے پیچھے سب سے اہم کردار انہی بڑھتے ہوئے بالواسطہ ٹیکسوں اور گھٹتی ہوئی حکومتی سبسڈی کا ہے جس پر آگے چل کر ہم مزید تفصیل سے بات رکھیں گے۔ حکومت کی اس شماریاتی ہیرا پھیری سے اکتا کر بعض معیشت دانوں نے دیگر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی معیشت کی حقیقی شرح نمو کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ایک اہم مثال HSBCکے معاشی تھنک ٹینک کی ہے جس کے ماہرین نے ریلوے فریٹ ٹرانسپورٹ کے حجم، بجلی کی کھپت میں اضافے اور نجی شعبے کی طرف سے حاصل کئے جانے والے قرضوں جیسے ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا کہ 16-2015ء میں ہندوستانی معیشت کی حقیقی شرحِ نمو 5.4فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اندازے اور شرحِ نمو کے سرکاری اعدادوشمار(7.6فیصد) میں 2.2 فیصد کا فرق ہے جو کہ بالکل اتنا ہی ہے جتنا2014-2013ء کے پرانے طریقہ کار کے تحت تعین کردہ شرح نمو (4.7فیصد) اور نئے طریقہ کار کے تحت حاصل ہونے والی شرحِ نمو (6.9فیصد) میں تھا۔

بیرونی تجارت کے اشاریے اور معاشی سست روی
برآمدات اور درآمدات کی صورتحال سے ہمیں کسی بھی سماج میں ہونے والی معاشی سرگرمی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ بڑھتی ہوئی درآمدات جہاں ہمیں اندرونی منڈی میں بڑھتی ہوئی کھپت کے بارے میں اشارہ دیتی ہیں وہیں بڑھتی ہوئی برآمدات ہمیں بیرونی منڈیوں میں مانگ کے اضافے کے بارے میں بتاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی معاشی نظام ہے اور اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی معیشت عالمی معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتی۔ ہندوستانی معیشت کی شرح نمو کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار کا پول کھولنے کیلئے 2008ء سے پہلے اور بعد کے بیرونی تجارت کے اعدادوشمار کا مطالعہ ہمیں ہندوستانی معیشت کی حقیقی صورتحال کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے2000ء سے لے کر 2008ء تک ہندوستان کی درآمدات میں 402فیصد جبکہ برآمدات میں 309فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ بحران کے بعد مسلسل سست روی کا شکار عالمی معیشت کے اثرات کے تحت 2008ء سے لے کر 2016ء تک درآمدات میں صرف 24فیصد اور برآمدات میں صرف 48فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ صرف مالی سال 16-2015ء میں ہی درآمدات پچھلے مالی سال کی نسبت 68ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 448ارب ڈالر سے گر کر 380ارب ڈالر پر آ گئیں اور برآمدات 49ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 310ارب ڈالر سے کم ہو کر 261ارب ڈالر پر آ گئیں۔ بورژوا معیشت دان اس صورتحال کی ذمہ دارعالمی منڈی میں تیل اور دیگر اجناس کی گرتی ہوئی قیمتوں کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کی یہ بات درست ہے لیکن عالمی منڈی میں اجناس کی گرتی ہوئی قیمتیں درحقیقت زائد پیداواری صلاحیت اور گرتی ہوئی قوت خرید کی ہی تو عکاسی کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان اعدادوشمار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گرتی ہوئی قوت خرید اور کھپت کی وجہ سے اجناس کی کم قیمتوں کے باوجود تجارت کا مقداری حجم نہیں بڑھ رہا اور بیرونی تجارت کے دونوں شعبوں (درآمدات اور برآمدات) میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جہاں برآمدات میں کمی عالمی معاشی سست روی اور بیرونی منڈیوں کی گرتی ہوئی کھپت کی طرف اشارہ کررہی ہے وہیں درآمدات میں کمی ملکی معیشت کی سست روی اور اندرونی منڈی کی کم ہوتی ہوئی کھپت کے بارے میں بتارہی ہے۔ بیرونی تجارت کے یہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ مودی سرکار کے بلندوبانگ دعوؤں کے برعکس دنیا کی دیگرتمام معیشتوں کی طرح ہندوستانی معیشت بھی عالمی معاشی بحران سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ہندوستانی معیشت کی نام نہاد ’’بلند شرح نمو‘‘ صرف مرکزی شماریاتی دفتر میں پڑی فائلوں تک ہی محدود ہے۔

شرح سود میں کمی اور بنکاری کا بحران
بلند شرح نمو کے سرکاری دعوؤں کے برعکس شرح سود میں کی جانے والی مسلسل کمی معاشی سست روی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 2014ء سے لے کر اب تک ریزرو بینک آف انڈیا نے بنیادی شرح سود کو 8فیصد سے بتدریج کم کرتے ہوئے 6.5فیصد کر دیا ہے جس کا مقصد حکومت اور نجی شعبے کیلئے سستے قرضوں کا حصول یقینی بنانا ہے۔ ریزرو بینک پر حکومت اور نجی شعبے کی طرف سے شرح سود کو مزید کم کرنے کیلئے خاصا دباؤ ہے اور غالب امکانات ہیں کہ مستقبل قریب میں اسے مزید کم کر دیا جائے گا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ شرح سود میں مسلسل کمی معاشی سرگرمی میں تیزی کے دعوؤں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور خصوصاً نجی شعبے کی طرف سے معاشی سرگرمی جاری رکھنے کیلئے سستے قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار معاشی بحران کے گہرے ہونے کی علامت ہے۔ دوسری طرف ڈوبے ہوئے قرضوں کی وجہ سے بنکاری کا شعبہ پہلے ہی خاصے دباؤ کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں 70فیصد بنکاری سرکاری بینکوں کے ذریعے ریاستی ملکیت میں ہے اور سرکاری بنکوں کا سب سے بڑا مقروض نجی شعبہ ہے جس میں چھوٹی درمیانی کمپنیوں سے لے کر ٹاٹا اور ریلائنس جیسے بڑے کاروباری گروہ سب شامل ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق سرکاری بینکوں کی جانب سے دیئے جانے والے 7000ارب بھارتی روپے کے قرضے یا تو ڈوب چکے ہیں یا ان کی واپسی مشکوک ہے۔ یہ قرضے سرکاری بینکوں کی جانب سے دیئے جانے والے کل قرضوں کا تقریباً 17فیصد بنتے ہیں اور ان ڈوبتے ہوئے قرضوں کی بھاری اکثریت کا تعلق نجی شعبے(خصوصاً بڑی کمپنیوں) سے ہے۔ ڈوبے ہوئے قرضوں کی وجہ سے سرکاری بینک سرمائے کی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے 2015ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ چار سالوں میں سرکاری بینکوں کو 700ارب روپے کا سرمایہ فراہم کرے گی تاکہ اس قلت کو دور کیا جا سکے۔ اس سے پہلے 14-2010ء کے دوران بھی حکومت کی جانب سے سرکاری بینکوں کو 586ارب روپے کا سرمایہ فراہم کیا جا چکا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے سرمائے کے یہ انجکشن ضرورت سے نہایت کم ہیں اور حکومت اس سے زیادہ سرمایہ مہیا کرنے کی گنجائش نہیں رکھتی۔ اس تمام تر کیفیت کے باوجود نجی شعبہ حکومت کے ذریعے ریزرو بینک پر مزید سستے قرضوں کے حصول کیلئے شرح سود کو اور کم کرنے کیلئے دباؤ بڑھا رہا ہے جس کی ایک جھلک ہمیں حال ہی میں نریندرا مودی اور ریزرو بینک کے گورنر رگھو رام راجن کے مابین ابھرنے والے اختلافات کی صورت میں نظر آئی۔ ایک ہوشیار اور حقیقت پسند بورژوا معیشت دان ہونے کی حیثیت سے راجن افق پر منڈلاتے ایک نئے عالمی مالیاتی کریش کو بھانپ رہا ہے اوریہی وجہ ہے کہ وہ شرح سود میں فوری طور پر مزید کمی کرنے کا مخالف ہے تاکہ ایک نئے مالیاتی کریش کی صورت میں اس ہتھیار کا بروقت استعمال کیا جا سکے۔ اسی طرح وہ سمجھتا ہے کہ سرکاری بینکوں کو دباؤ کا شکار قرضوں کی واپسی کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک نئے کریش کی صورت میں سرکاری بینکوں کے پاس نجی شعبے کو قرضے دینے کیلئے وافر سرمایہ دستیاب ہو۔ بنیادی طور پر راجن سرمایہ دار طبقے کا ایک سمجھدار دوست ہے جو آنے والی مشکلات کو دیکھ رہا ہے لیکن معاشی سست روی اور بحران میں گھری ہندوستانی بورژوازی نہ ہی پچھلے قرضے اتارنے کے چکر میں اپنے منافعے کو کم کر سکتی ہے اور نہ ہی سستے نئے قرضوں کے بغیر معاشی سرگرمی جاری رکھ سکتی ہے۔ لہذا حتمی طور پر راجن کو شرح سود میں کمی اور قرضوں کی واپسی کے معاملے میں حکومتی دباؤ کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پڑے ہیں۔

مالیاتی خسارے کا مسئلہ
2008Indian Fiscal Deficit Cartoonء کے بحران کے بعد ہندوستان کا کل مالیاتی خسارہ (مرکز اور ریاستوں کو ملا کر)مالی سال10-2009ء تک GDP کے 9.3فیصد تک پہنچ گیا تھا جو کہ خطرناک حد تک زیادہ تھا۔ اس کے بعد پہلے UPA اور پھر BJP حکومت کی پالیسیوں کے تحت مالی سال 16-2015ء تک کل مالیاتی خسارے کو GDPکے تقریباً 6.3فیصد تک کم کر دیا گیا ہے(اگرچہ غیر سرکاری ذرائع مثلاً HSBCکے مطابق یہ ابھی بھی GDP کے 6.9فیصد کے برابر ہے)اور یونین بجٹ 17-2016ء میں اسے مزید کم کر کے GDPکے 6.1فیصد تک لائے جانے کا ٹارگٹ ہے۔ مالیاتی خسارے میں کمی کرنے پر حکومت کو نہ صرف ہندوستانی بورژوازی اور معیشت دانوں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی بورژوازی کے سنجیدہ نمائندوں کی طرف سے بھی زبردست داد تحسین موصول ہوئی۔ مالیاتی خسارے میں کامیابی سے کمی کرنے کو مودی حکومت نہ صرف اپنا بہت بڑا کارنامہ سمجھتی ہے بلکہ انہی بنیادوں پر اس کی ہندوستانی معیشت کے دنیا کی مضبوط ترین معیشت ہونے کی بڑھک بازی بھی قائم ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مالیاتی خسارے میں یہ کمی کیسے کی گئی ہے اور جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس کے ہندوستانی محنت کش طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں پچھلے چند سالوں میں ٹیکس آمدن کی بدلتی ہوئی نوعیت اور غریب عوام کو دی جانے والی حکومتی سبسڈی میں ہونے والی تبدیلیوں کا طبقاتی نکتہ نظر سے مطالعہ کرنا پڑے گا۔

ٹیکسوں کا بڑھتا ہوا بوجھ
مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے ہندوستان کی حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھاتی چلی آ رہی ہے۔ مالی سال12-2011ء میں 8900 ارب بھارتی روپے کی کل ٹیکس آمدن ہوئی جو کہ مالی سال 16-2015ء میں بڑھ کر 14500ارب بھارتی روپے تک جا پہنچی۔ اسی طرح یونین بجٹ 17-2016ء میں حکومت کی کل ٹیکس آمدن کا ہدف 16300ارب بھارتی روپے رکھا گیا ہے۔ لیکن ایک طبقاتی سماج میں ٹیکسوں کے مجموعی اعدادوشمار کو بیان کر دینا کافی نہیں ہے۔ لازمی ہے کہ ہم طبقاتی نقطہ نظر سے ان اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہوئے اس حقیقت کو واضح کریں کہ کس طبقے پر بتدریج ٹیکسوں کی بھرمار کی جا رہی ہے اور کس طبقے کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جا رہی ہے۔ مالی سال 16-2015ء کی کل ٹیکس آمدن کا 54فیصد براہ راست ٹیکسوں (کارپوریٹ ٹیکس، انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس وغیرہ) اور 46فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوا لیکن پچھلے چند سالوں سے کل ٹیکس آمدن میں براہ راست ٹیکسوں اور بالواسطہ ٹیکسوں کا باہم تناسب بتدریج بدل رہا ہے۔ مثلاً مالی سال 10-2009ء میں بڑے نجی کاروبار کی آمدن پر لگنے والا کارپوریٹ ٹیکس، کل ٹیکس آمدن کا 39فیصد بنتا تھا لیکن 17-2016ء میں یہ کل ٹیکس آمدن کا صرف 30فیصد بنے گا۔ اسی رجحان کا اندازہ ہمیں مالی سال16-2015ء کی ٹیکس آمدن کے اعدادوشمار سے بھی ہوتا ہے جن کے مطابق پچھلے مالی سال کی نسبت براہ راست ٹیکسوں میں 13.1 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں میں 19.5فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ویسے تو غریب دشمنی میں UPA حکومت بھی کچھ کم نہ تھی لیکن مودی سرکار نے تو برسراقتدار آتے ہی تیزی کے ساتھ ٹیکسوں کا سارا بوجھ محنت کشوں پر منتقل کرنا شروع کر دیاہے۔ 2015ء میں مودی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مالی سال17-2016ء سے شروع کرتے ہوئے چار سالوں میں کارپوریٹ ٹیکس کو 30فیصد سے کم کر کے 25فیصد پر لائے گی تاکہ نجی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش حالات پیدا کئے جا سکیں۔ سرمایہ دارطبقے سے کئے گئے وعدے پورے کرتے ہوئے رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے نئی رجسٹرڈ ہونے والی تمام کمپنیوں کیلئے کارپوریٹ ٹیکس کو ایک ہی جست میں 30فیصد سے کم کر کے 25فیصد کر دیا ہے۔ اسی طرح پہلے سے رجسٹرڈ چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کیلئے کارپوریٹ ٹیکس کو 29فیصد کر دیا گیا ہے جسے آنے والے سالوں میں مزید کم کر کے 25فیصد پر لایا جائے گا۔ ایسے ہی پہلے سے رجسٹرڈ بڑی کمپنیوں پر کارپوریٹ ٹیکس کی بتدریج کمی کا آغاز اگلے مالی سال سے کیا جائے گا اور مالی سال20-2019ء کے آغاز تک اسے بھی 25فیصد تک کر دیا جائے گا۔ سرمایہ دار طبقے کو ٹیکس چھوٹ دینے کے اور اقدام میں حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں ویلتھ ٹیکس کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس کی جگہ ایک کروڑ بھارتی روپے سے اوپر سالانہ آمدن رکھنے والے افراد پر فکسڈ 2فیصد اضافی سرچارج لگا دیا گیا ہے۔ اس اقدام کا حقیقی مقصد انتہائی امیر افراد (ارب پتیوں) کو ٹیکس ریلیف دینا ہے۔ براہ راست ٹیکسوں میں کمی کے برعکس آنے والے سالوں میں بالواسطہ ٹیکسوں میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی مختلف قسم کے بالواسطہ ٹیکسوں کی جگہ گڈز اینڈ سروسز ٹیکس(GST) کا نفاذ ہے جو پورے ہندوستان میں یکساں ہو گا اور جسے مرکزی حکومت اپنی صوابدید کے مطابق بڑھا سکے گی۔ 6مئی2015ء کو لوک سبھا GST کے نفاذ کا بل پاس کر چکی ہے اور عنقریب اسے منظوری کیلئے راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ غالب امکانات ہیں کہ مالی سال 17-2016ء کے اختتام تک ہندوستان میں GST نافذ ہو جائے گا اور یہ اقدام ایک ہی جھٹکے میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے باہم تناسب کو بالکل الٹ کر دے گا۔
ٹیکسوں کا بوجھ کس طبقے کو زیادہ کچل رہا ہے؟ اس بات کا پوری طرح اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک کسی طبقے سے حاصل ہونے والی ٹیکس آمدن کا موازنہ کل قومی دولت میں اس طبقے کے حصے سے کر کے نہ دیکھا جائے۔ یہ موازنہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہندوستان کی امیر ترین 10فیصد آبادی جو کل قومی دولت کے 76فیصد کی ملکیت رکھتی ہے، براہ راست ٹیکسوں کی صورت میں کل ٹیکس آمدن کا 54فیصد دیتی ہے جبکہ بقیہ 90فیصد آبادی جو کل قومی دولت کے صرف 24فیصد کی ملکیت رکھتی ہے، بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں کل ٹیکس آمدن کا 46فیصد دیتی ہے۔ آنے والے سالوں میں جہاں سرمایہ دار طبقے کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریلیف دیا جائے گا وہیں مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے محنت کش طبقے پر ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا جس سے ایک طرف تو غریب عوام کی زندگی جہنم بن جائے گی تو دوسری طرف ملکی منڈی کی قوت خرید میں مزید کمی واقع ہو گی جو کہ معیشت کی ’’حقیقی‘‘ شرح نمو میں مزید کمی کا باعث بنے گی۔

حکومتی سبسڈی میں کمی
مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت غریب عوام پر ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات، خوراک اور مصنوعی کھاد جیسی اشیا پر دی جانے والی سبسڈی کو کم کرنے کے درپے ہے لیکن وسیع غربت اور بڑھتے ہوئے طبقاتی تضادات کے پس منظر میں اسے یہ کام نہایت احتیاط اور چالاکی سے کرنا پڑ رہا ہے تاکہ محنت کش عوام کے غیض و غضب کو قابو میں رکھا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے جہاں 14-2013 میں خوراک کی مد میں دی جانے والی 920ارب روپے کی سبسڈی کو بڑھا کر 17-2016ء میں 1350ارب کر دیا ہے اور مصنوعی کھاد کی مد میں دی جانے والی 673ارب کی سبسڈی کو معمولی اضافے کے ساتھ بڑھا کر 700ارب روپے کر دیا ہے وہیں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 14-2013ء میں پٹرولیم مصنوعات کی مد میں دی جانے والی 854ارب روپے کی سبسڈی کو کم کر کے 17-2016ء میں 270ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ یوں 14-2013ء میں ان تینوں اشیا کی مد میں مجموعی طور پر 2447ارب بھارتی روپے کی سبسڈی دی گئی جو17-2016ء میں 127ارب روپے کی کمی کے ساتھ 2320 ارب بھارتی روپیہ ہو گئی۔ علاوہ ازیں جہاں ایک طرف عوام کی ایک وسیع اکثریت کو دی جانے والی سبسڈی میں بتدریج کمی کی جا رہی ہے وہیں حکمران طبقے کے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے ہندوستان کے فوجی بجٹ کو14-2013ء میں 2000ارب روپے سے بڑھا کر17-2016ء میں 2500ارب بھارتی روپے کر دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ملک کی 90-80 فیصد آبادی کو صرف 2320ارب روپے کی سبسڈی دینے پر تکلیف میں مبتلا حکومت نے اکنامک سروے آف انڈیا(Economic Survey of India) 2015-16ء کے مطابق ملک کی امیر ترین 1فیصد آبادی کو کاروبار کے فروغ میں مدد کیلئے تقریباً 1000ارب روپے کی سبسڈی دی ۔

قرضوں کی دلدل
تیز ترین معاشی ترقی کے تمام تر دعوؤں کے برعکس ہندوستان کی معیشت قرضوں کی دلدل میں ڈوب رہی ہے۔ محنت کش طبقے پر ٹیکس بڑھانے اور غریب عوام کو دی جانے والی سبسڈی میں کمی کے باوجود سرمایہ دار طبقے کو ٹیکسوں میں دی جانے والی بھاری چھوٹ، طبقہ امرا کی ٹیکس چوری، بڑے کاروبار کو دی جانے والی حکومتی سبسڈی، بے تحاشہ فوجی اخراجات، پچھلے قرضوں اور سود کی ادائیگی اور عالمی معاشی بحران کے اثرات کی وجہ سے حکوت کو ہر سال مالیاتی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مالیاتی خسارے کا 80فیصد سے زائد حکومت نئے قرضے لے کر پورا کرتی ہے۔ یوں سالانہ اخراجات پورے کرنے کیلئے حکومت کو درکار کل رقم کا تقریباً 24فیصد نئے قرضہ جات کے حصول سے آتا ہے۔ یہ تمام قرضہ اکٹھا ہو کر ایک پہاڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2015ء کے اختتام تک کل حکومتی قرضہ (اندرونی اور بیرونی حکومتی قرضہ جات ملا کر)GDP کے تقریباً 66فیصد کے برابر ہو چکا تھا۔ کل حکومتی قرضے کا 92فیصد اندرونی قرضہ ہے جو کہ ریزرو بینک آف انڈیا، دیگر سرکاری بینکوں اور ملکی مالیاتی منڈی میں حکومتی بانڈز اور بلز کے اجرا سے حاصل کیا گیا ہے جبکہ 8فیصد بیرونی قرضہ ہے جو کہ مختلف ممالک ،IMF اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ سرکاری معیشت دان کل حکومتی قرضے میں بیرونی قرضے کے معمولی حجم کو ہندوستانی معیشت کی ایک بہت بڑی مثبت علامت مانتے ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے کہ مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کیلئے بیرونی قرضوں کے بجائے اندرونی قرضوں پر انحصار حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں کے سامراجی شکنجوں سے ایک حد تک محفوظ رکھتا ہے لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔ بیرونی قرضوں کی صورتحال کا تجزیہ اندرونی قرضوں (جو کہ ملکی کرنسی میں ہوتے ہیں)کی صورتحال سے مختلف ہوتا ہے۔ بیرونی قرضے چونکہ غیر ملکی کرنسی میں ہوتے ہیں لہذا ان کے معاملے میں حکومتی بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ غیر حکومتی بیرونی قرضوں کی صورتحال کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ ملک کے کل بیرونی قرضے (حکومتی اور غیر حکومتی ملا کر) کا کسی بھی وجہ سے بڑھنا ادائیگیوں کے توازن پر دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہندوستان کی صورتحال کو دیکھا جائے تو 2015ء کے اختتام تک ہندوستان کا کل بیرونی قرضہ 480ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا جو GDPکے تقریباً 23فیصد کے برابر تھا۔ اس میں سے 90ارب ڈالر حکومتی بیرونی قرضہ ہے اور بقیہ 390ارب ڈالر غیر حکومتی بیرونی قرضہ ہے۔ کیونکہ کل بیرونی قرضے کا زیادہ تر حصہ (83فیصد)طویل مدت کے قرضوں پر مبنی ہے لہذا فوری طور پر کل بیرونی قرضوں کے بڑے حجم کے باوجود ادائیگیوں کے توازن پر زیادہ دباؤ نہیں ہے لیکن مستقبل میں جیسے جیسییہ قرضہ قابل واپسی ہوتا جائے گا ادائیگیوں کے توازن پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔کل حکومتی قرضوں کے بڑے حجم (GDPکا 66فیصد)کی وجہ سے حکومت کو اپنی سالانہ آمدن کا ایک قابل ذکر حصہ پچھلے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ مالی سال16-2015ء میں حکومت نے اپنی کل آمدن(ٹیکس اور غیر ٹیکس آمدن ملا کر)کا 27فیصد پرانے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی پر خرچ کیا۔ اگر ہم اس رقم میں فوجی اخراجات اور سرمایہ دار طبقے کو دی جانے والی سبسڈی کیلئے مختص رقم بھی شامل کر لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مالی سال16-2015ء میں کل حکومتی آمدن کا 48فیصد قرضوں کی ادائیگی، سامراجی عزائم کی تکمیل اور سرمایہ دار طبقے کی تجوریاں بھرنے کیلئے استعمال ہوا۔

سرمایہ داری مسائل کی جڑ ہے!
ایک ایسے عہد میں جب سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر تاریخی متروکیت کا شکار ہو کر اپنے سب سے ترقی یافتہ مراکز میں پیداواری قوتوں کو مزید بڑھوتری دینے اور سماج کو آگے لے جانے کی اہلیت سے محروم ہو چکا ہے، ہندوستان کی پسماندہ اور تاریخی دیری کا شکار سرمایہ داری سے کسی بہتری کی توقع کرنا بدترین حماقت ہے۔ ریاستی سرمایہ داری ہو یا نیو لبرل سرمایہ داری ، دونوں صورتوں میں معاشی ترقی کے فوائد صرف مٹھی بھر سرمایہ دار طبقے اور اوپری درمیانے طبقے تک محدود رہے ہیں اور اب سرمایہ داری ماضی کی یہ غیر ہموار ترقی دینے کی اہلیت بھی کھو چکی ہے اور سماج پر بوجھ بن کر اسے پیچھے کی طرف لے جا رہی ہے۔ عالمی معیشت میں دور دور تک کسی ٹھوس بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے اور ایک نئے مالیاتی کریش کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں جو 2008ء سے کہیں زیادہ بلند پیمانے پر ہو گا اور عالمی معیشت کی موجودہ سست روی کو معاشی کساد بازاری (Economic Recession)میں بدل دے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا حالیہ بحران کسی حادثے یا بدقسمتی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں سرمایہ داری کے نامیاتی تضادات میں ہیں جن کا حل سرمایہ دارانہ نظام کی حدودمیں رہتے ہوئے ناممکن ہے۔ سرمایہ داری انسانی سماج کواب کبھی بھی وہ ترقی نہیں دے سکے گی جو کہ ماضی میں اس کا خاصہ رہی ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے اس تاریخی بحران سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی بالکل غلط ہو گا کہ اپنے تضادات کے بوجھ تلے دب کر سرمایہ داری خود بخود ختم ہو جائے گی۔ اگر اس کو شعوری طور پر اکھاڑ کر نہ پھینکا گیا تو یہ ایک عفریت کی طرح بنی نوع انسان پر مسلط رہے گی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی اور بربریت پھیلاتے ہوئے انسانی تہذیب کو برباد کر کے رکھ دے گی۔

ہندوستان۔۔ ابھرتے ہوئے طوفان کے آثار
amritsar_india_labor_protestدنیا کے ہر خطے کی طرح ہندوستان میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت اور شدید طبقاتی ناہمواری کے خلاف بغاوت کا لاوا پک رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے سینکڑوں چھوٹے بڑے احتجاج، ہڑتالیں، مظاہرے اور پچھلے چار سالوں میں ہونے والی تین ملک گیر عام ہڑتالیں مستقبل میں ہونے والی کھلی طبقاتی جنگ کے ابتدائی آثار ہیں۔ کیرالہ سے لے کر ہماچل پردیش تک اور گجرات سے لے کر بنگال تک، نجی صنعتیں ہوں یا سرکاری اداروں کے محنت کش، کھیت مزدور ہوں یا غریب کسان، ہر جگہ ایک بغاوت سلگ رہی ہے۔ سرمایہ دارطبقے کی بڑھتی ہوئی وحشت، مذہبی انتہا پسندوں کی جنونیت اور مودی سرکار کا ریاستی جبر ہندوستان کے محنت کش طبقے کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ طبقہ حالات کی بھٹی میں تپ کر فولاد بن رہا ہے۔ محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور خصوصاً طلبا میں بھی شدید بے چینی ہے جو کہ پچھلے کچھ عرصے سے بے شمار کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بننے والی احتجاجی تحریکوں میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ طلبا کے فوری مسائل سے شروع ہونے والی ان تحریکوں میں اب بحیثیت مجموعی سماجی اور معاشی نظام پر تنقید کی جانے لگی ہے۔ طبقاتی کشمکش میں تیزی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں محکوم قومیتوں کا مسئلہ بھی ایک بار پھر پوری شدت سے سر اٹھا رہا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بننے والی حالیہ تحریک اسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے۔محکوم قومیتوں کا مسئلہ اس سچائی کا ایک اظہار ہے کہ ہندوستانی بورژوازی اپنے تاریخی فرائض سر انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ لیکن محنت کشوں، نوجوانوں، کسانوں، محکوم قومیتوں کی یہ جرات مندانہ جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مشترکہ دشمن (سرمایہ داری) کے خلاف لڑنے کیلئے اسے درست نظریاتی ہتھیاروں سے مسلح نہ کیا جائے۔

نجات کا واحد راستہ۔۔ سوشلسٹ انقلاب!
مارکسزم(سائنسی سوشلزم)کے بغیر نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کی پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ہندوستان کا محنت کش طبقہ اپنی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کیلئے لازمی ہے کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع پرتوں کو مارکسزم کے نظریات سے روشناس کراتے ہوئے ایک منظم مارکسی قیادت کی تعمیر کے کام کو تیز تر کیا جائے تاکہ وقت آنے پر ہندوستان کا محنت کش طبقہ نہ صرف ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکے بلکہ برصغیر کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام میں ہراول دستے کا کردار ادا کر سکے۔

ہندوستان: معاشی تضادات کی کوکھ میں پلتے طوفان (حصہ اول)

Comments are closed.