استنبول انتخابات اور ترکی میں ابلتا بحران

|تحریر: اولیور بروتھرٹن؛ ترجمہ: ولید خان|

استنبول میں 23 جون 2019ء کو منعقد ہونے والے میئر انتخابات حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP)بہت بڑا سانحہ ثابت ہوئے ہیں۔ حزبِ اختلاف ریپبلیکن پیپلز پارٹی (CHP) نے شہر میں AKP کی بیس سالہ حکمرانی کو 55فیصد ووٹ سے جیت کر نیست ونابود کر دیا۔ اگرچہ یہ انتخابات مقامی تھے لیکن یہ AKP مخالف جذبات کا نکتہ آغاز ثابت ہوئے اور بالآخر صدر رجب طیب اردگان کی موجودہ قیادت پر عدم اعتماد کا ریفرنڈم بن گئے۔

مارچ میں پورے ترکی میں مقامی انتخابات منعقد ہوئے لیکن یہ وہ انتخابات تھے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ مارچ انتخابات میں 13 ہزار ووٹوں (0.16 فیصد) سے AKP کو استنبول میں شکست فاش ہوئی لیکن اردگان نے نام نہاد ووٹنگ بے ضابطگیوں کا بہانہ کر کے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔
اردگان کی طرف سے یہ ایک مایوس اور پریشان کن کوشش تھی کہ کسی طرح سے عزت بچاتے ہوئے ایک ایسے شہر میں شرمناک شکست سے بچا جائے جہاں سے اس نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور اس وقت سے آج تک یہ شہر AKP کی راجدھانی تھا۔ لیکن 23 جون کو میئر انتخابات دوبارہ کرانے کی چالاکی اکارت گئی کیونکہ CHP نے نہ صرف اپنی اکثریت برقرار رکھی بلکہ اس میں 13 ہزار سے 8 لاکھ تک کا اضافہ بھی کیا۔ یہ انتخابات درحقیقت موجودہ معاشی ابتری اور اردگان کی آمرانہ حکومت کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار ہیں۔

استنبول ملک کا سب سے بڑا اور دولت مند شہر ہے اور ان میئر انتخابات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2017ء میں استنبول کا ملکی GDP میں 30 فیصد حصہ تھا جو دارالحکومت انقرہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ شہر AKP کے چیلوں کی ملازمت کا مرکز ہے اور اس شہر کے فنڈ دیو ہیکل عوامی پراجیکٹس اور کاموں کے کنٹریکٹوں کی فراہمی سے اردگان کے نیٹ ورکوں کو بیش بہا منافع بخشتے ہیں۔ درحقیقت صورتحال کو پہلے سے بھانپتے ہوئے اردگان نے ان میں سے بہت سارے بجٹ شہری میونسپلٹی سے نکال کر ڈسٹرکٹ میونسپلٹیوں اور براہِ راست صدر کے کے کنٹرول میں ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ بہرحال استنبول کا ہاتھ سے نکل جانا ایک بڑا سانحہ ہے اور اس کی تکلیف AKP سے منسلک حکمران طبقے کو محسوس ضرور ہو گی۔

استنبول کی شکست AKP کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اردگان نے خود اپنا سیاسی کیریئر 1994ء میں شہر کے میئرکی حیثیت سے شروع کیا تھا۔ اب تک استنبول پچھلے بیس سالوں سے AKP کا قلعہ رہا ہے جس میں اردگان کی پارٹی مسلسل استعمال کیے گئے ووٹوں کا نصف سے زیادہ حاصل کرتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ سالوں میں اس تسلط میں تواتر سے کمی ہوتی رہی ہے اور AKP کا ہر گزرتے دن کے ساتھ رائٹ ونگ قومی تحریک پارٹی (MHP) اور دیگر پر انحصار بڑھتا رہا ہے تاکہ اپنی معمولی اکثریت کو برقرار رکھا جا سکے۔ ان انتخابات نے اس کے سابقہ قلعے میں اس شرمناک شکست کے ساتھ اس کی مقبولیت کے خاتمے پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اردگان کے اپنے الفاظ ہیں کہ ”جو استنبول جیتے گا، وہی ترکی جیتے گا۔“

استنبول میں اردگان اور AKP کی گراوٹ کی بنیاد ترکی میں جاری معاشی بحران ہے۔ 2002ء میں اردگان کی سیاسی اٹھان کی بنیاد پرانی کمالسٹ افسر شاہی اور ملک کی کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے ناقص ترقی، کرپشن اور عدم مساوات کے خلاف شدید غم و غصہ تھا۔ پرانے ریاستی ڈھانچے کے دیوالیہ پن اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں قدرے سرمایہ دارانہ خوشحالی کی بنیاد پر اردگان نے کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو بطور لبرل اصلاح پسند پیش کرتے ہوئے ترک محنت کشوں کو قابلِ ذکر مراعات فراہم کیں اور پورے ملک میں دیوہیکل ترقیاتی منصوبے بھی بنائے۔ GDP میں بے پناہ اضافے (13-2001ء کے دوران چار گنا اضافہ ہوا) کی وجہ سے اردگان معیارِ زندگی میں بہتری کا سہرا سر پر باندھے عمومی معاشی خوشحالی میں اپنے سیاسی کیریئر کو آگے بڑھاتا رہا۔ 08-2002ء کے دوران یورپی یونین سے منسلک سرحد کی وجہ سے ترکی ایک انوکھی پوزیشن میں تھا۔ 2008ء کے بحران سے پہلے ترکی زیادہ مضبوط یورپی معیشتوں کے لئے سستی لیبر کا بہت بڑا ذریعہ تھا جس کی وجہ سے ترکی میں بے تحاشہ سرمایہ اور زرِ مبادلہ ترکی آیا۔

لیکن پچھلے چند سالوں میں معیشت میں سنجیدہ گراوٹ آئی ہے جس کے اثرات اب مزدوروں اور غربا پر براہِ راست پڑ رہے ہیں جو قرضوں اور بے قابو افراطِ زر کے پہاڑوں تلے کچلے جا رہے ہیں۔2008ء کے بحران کے بعد سے ترک معیشت کا انحصار سستے قرضوں اور مغربی ممالک کی سٹہ بازسرمایہ کاری پر رہاہے۔ 2018ء میں ترکی کا مجموعی قرضہ 100ارب ڈالر تک جاپہنچا تھا اور ابھی بھی اس میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ جس سال میں امریکی ڈالر مضبوط ہو رہا تھا اسی سال میں لیرا کی قدر میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی جس نے غیر ملکی کرنسی پر منحصر قرضوں پر شدید دباؤ ڈالا اور اشیاء خوردونوش جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں۔ حکومت کی طرف سے کم از کم اجرت میں رسمی اضافہ کرنے کے باوجود ایک عام اجرتی مزدور کی تنخواہ 413 ڈالر ماہانہ ہے جس سے کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ مقامی انتخابات کے دنوں میں AKP نے سبزی کے ٹھیلے لگا کر سستی سبزی بھی بیچنے کی کوشش کی تاکہ محنت کش طبقے کی بڑھتی مایوسی اور غم و غصے کو روکا جا سکے۔ اب اردگان اپنے آپ کو عوام کے سامنے بطور اصلاح پسند پیش نہیں کر سکتا اور اسی لئے اقرباء پروری اور کرپشن کے افسر شاہانہ نیٹ ورک پر اس کا انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن اس وجہ سے اقتدار پر اس کی گرفت اور بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

معیشت کو بحال رکھنے، روزگار کو بہتر کرنے اور AKP سے منسلک سرمایہ داروں کی جیبوں کو بھرنے کی کوششوں میں پارٹی نے پچھلے چند سالوں میں دیو ہیکل تعمیراتی پراجیکٹس کے لئے بے تحاشہ قرضہ لیا ہے۔ تعمیراتی شعبہ اس وقت ترک GDP کا پانچواں حصہ بنتا ہے لیکن اس کا بیشتر حصہ بیرونی قرضوں کے مرہونِ منت ہے۔ تاہم بڑھتے بجٹ خسارے کے باوجود دیو ہیکل اخراجات کر کے ووٹروں میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ اردگان کی شدید خواہش کے باوجود ترک معیشت کو لامتناہی طور پر سستے قرضوں پر نہیں چلایا جا سکتا۔ اس وقت بیرونی قرضہ ترک GDP کا نصف بنتا ہے جسے بہرحال واپس کرنا ہے لیکن ترک حکمران طبقے کو باہر نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی۔ یہ معاشی کمزوری ترکی کی مغربی ممالک کے ساتھ عالمی سیاسی صورتحال، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ(ترکی نے اپنا آدھا قرضہ امریکہ کو واپس کرنا ہے)، میں خرابی کی وجہ سے اور بھی زیادہ گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔لیرا کی قدر میں کمی اور قرضوں کی واپسی میں ناکامی ترک معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ افق پر ایک ایسا بحران پنپ رہا ہے جس کا سب سے زیادہ قہر محنت کش طبقے پر ٹوٹے گا۔

شدید ہوتی معاشی صورتحال، اردگان کے بدمعاش امیج اور طور طریقوں کی وجہ سے AKP کی فطری حمایت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ استنبول میں CHP نے نہ صرف روایتی سیکولر حمایت میں ووٹ حاصل کئے بلکہ مذہبی محلوں جیسے فاتح میں بھی بڑی کامیابیاں حاصل کیں جہاں AKP کی بہت زیادہ حمایت موجود تھی۔ درحقیقت استنبول دوبارہ انتخابات کروا کر نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کا الٹا اثر پڑا ہے۔ AKP کے روایتی حامی مایوسی کا شکا ر ہیں اور ان میں سے بہت سارے پولنگ سٹیشنوں سے دور رہے جبکہ دیگر نے کھلم کھلا CHP کی حمایت کی۔ AKP پارٹی نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کا جواز یہ تھا کہ وہ بڑے متقی و پرہیزگار ہیں اور کمالسٹ اسٹیبلشمنٹ کی کرپشن اور آمریت سے پاک ہیں۔ لیکن بیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد پارٹی اب وہی کردار ادا کر رہی ہے جبکہ آئے دن کوششیں جاری ہیں کہ زیادہ سے زیادہ طاقت فرد واحد یعنی اردگان ہاتھوں میں مجتمع ہو جائے۔

یہ تمام مسائل اس وقت اردگان پر بھوت بنے منڈلا رہے ہیں۔ امن، پاکیزگی اور خوشحالی کے تمام وعدے راکھ ہو چکے ہیں بلکہ تیزی کے ساتھ شعور کی تبدیلی کا موجب بن رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ اقتدار حاصل کرتے وقت اردگان کی پالیسی ”تمام ہمسایوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات“ تھی۔ اردگان کی خارجہ پالیسی اس وقت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ ایک نو عثمانی سلطنت تعمیر کرنے کے سامراجی عزائم زمین بوس ہو چکے ہیں۔ شام میں روس اور ایران کے ہاتھوں اس کی بری طرح پٹائی ہوئی جس کے بعد اب ان کے ساتھ اس کا ایک غیر مستحکم اتحاد ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے روایتی حلیف امریکہ کے ساتھ بھی چپقلش کا شکار ہے جسے وہ روس کے ساتھ توازن میں لانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اکثریت کی نظر میں ان تمام مہم جوئیوں سے خالی خزانوں کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔

اس دوران لاکھوں کروڑوں شامی پناہ گزین اس وقت ترکی میں موجود ہیں جن کے ذریعے اردگان اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور مخصوص علاقوں کی آبادی کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن گھمبیر ہوتے معاشی حالات میں حکمران طبقے کے لئے سستی لیبر کا کردار ادا کرنے والے پناہ گزین اب دردِ سر بنتے جا رہے ہیں۔ اس میں CHP نے بھی ایک مخصوص کردار ادا کیا ہے جو پناہ گزین مخالف جذبات کو ابھار کر اردگان پر حملے کر رہی ہے۔

لیکن اردگان اور AKP کے حوالے سے شدیدغم و غصے کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ CHP کے پاس بھی کوئی قابلِ ذکر متبادل موجود نہیں ہے۔ استنبول انتخابات میں فتح کی بنیاد خالصتاًاردگان مخالف جذبات تھی جس میں سیاسی پارٹیوں نے کلیدی سیاسی مسائل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنے آپ کو محض AKP کا متبادل بنا کر پیش کیا۔ CHP کے نومنتخب میئر اکرم امام اوگولو نے شہر کے محنت کشوں کے لئے کسی ٹھوس پروگرام کے بجائے یہ کھوکھلا نعرہ پیش کیا کہ ”سب بہتر ہو جائے گا“۔ CHP محنت کش طبقے کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام پیش کئے بغیر اتنی آسانی سے جیت گئی، یہ اس حقیقت کا ٹھوس ثبوت ہے کہ ترک سماج میں اردگان کی پوزیشن انتہائی کمزور ہو چکی ہے اور عوام اب استنبول میں اسے مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔

اردگان اور AKP کے حوالے سے شدیدغم و غصے کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ CHP کے پاس بھی کوئی قابلِ ذکر متبادل موجود نہیں ہے

لیکن امام اوگولو کے منتخب ہو جانے سے زمینی حقائق میں کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ حالیہ چند سالوں سے CHP روایتی طور پر سیکولر اور اصلاح پسند ہونے کے باوجود قدامت پسند لفاظی استعمال کر رہی ہے تاکہ AKP کے ووٹروں کو توڑ کر اپنی طرف راغب کیا جائے۔ امام اوگولو CHP کے اس رجحان کا عکس ہے۔ وہ ایک رائٹ ونگ بورژوا قدامت پرست ہے جو معیارِ زندگی اور مزدوروں پر معاشی حملے کرنے کا قائل ہے لیکن ظاہر ہے اپنی انتخابی مہم میں اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ انتخابی مہم کے دوران وہ جلسوں میں قرآنی آیات کے حوالے دیتا رہااور اپنی مضبوط مذہبی اقدار کا پرچار کرتارہا تاکہ استنبول کی ان رجعتی قدامت پرست پرتوں کو مائل کر سکے جو روایتی طور پر AKP کو ووٹ ڈالتی آئی ہیں۔ عملی طور پر امام اوگولو کی اردگان ”مخالفت“ محض حکمران طبقے کے ایک حصے کی سفاک اور علامتی مخالفت ہے جس کے پیچھے اس کے مفادات چھپے ہوئے ہیں۔اس امیدوار کی حمایت میں دیو ہیکل اضافے کو درست طور پر اسٹیبلسمنٹ مخالف حمایت (یا اردگان مخالف)حمایت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

ترکی میں سرمایہ دارانہ بحران سیاست میں اپنا اظہار کرنا شروع ہو گیا ہے۔ جب تک معیشت ترقی کر رہی تھی اس وقت تک حکمران طبقہ کچھ نہ کچھ ٹکڑے محنت کش طبقے پر نچھاور کر سکتا تھا۔ لیکن سنگین ہوتا بحران محنت کش طبقے کی کمر توڑنے کے درپے ہے۔ ان حالات میں AKP کی حقیقی طبقاتی وفاداری عوام کے سامنے ننگی ہو رہی ہے اور عوام اب اس بحران سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مارنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ترکی میں بحران کی اصل حقیقت ہے۔ ایک مزدور سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی میں کچھ پرتیں CHP کی حامی بن گئی ہیں تاکہ اردگان کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لیکن CHP عوام کا ایک بھی دیرینہ مسئلہ حل نہیں کر سکے گی اور جلد ہی یہ حقیقت بھی عوام پر عیاں ہو جائے گی۔ یہ تمام تر صورتحال ترک تاریخ میں ایک نئے باب کے جنم کی نشاندہی کر رہی ہے؛ اردگان کے نام نہاد”نیا ترکی“کا خاتمہ اور بحران، عدم استحکام اور شدید طبقاتی جدوجہد کا آغاز۔

اگر ترکی کے معاشی اور سماجی حالات میں خاطر خواہ تبدیلی لانا ہدف ہے تو یہ خواہش موجودہ سیاسی ڈھانچے اور بالعموم سرمایہ داری میں پوری نہیں ہو سکتی۔ عوامی شعور AKP سے بیزار ہونا شروع ہو گیا ہے لیکن آنے والے عہد میں صرف اردگان کی غداریاں ہی قابلِ ذکر نہیں ہوں گی۔ استنبول کے میئر انتخابات واضح ثبوت ہیں کہ ترک سیاست پر اردگان کی گرفت ڈھیلی ہو رہی ہے اور محنت کش طبقہ اسٹیبلشمنٹ سے متنفر ہے لیکن امام اوگولو اور CHP کی عوامی مسائل کو حل کرنے کی نااہلی مستقبل قریب میں بڑے بڑے سیاسی زلزلوں کو جنم دے گی۔ تحریک اپنے خدوخال وضع کر رہی ہے اور صرف محنت کش طبقہ ہی بحیثیتِ مجموعی بورژوازی، AKP اور ناگزیر امام اوگولو اور CHP کی ناکامی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے سرمایہ داری کے بحران کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

Comments are closed.