کسان پیکج، بدحال کسان اور زرعی مافیا

|تحریر: جلیل منگلا|

 

رواں ماہ حکومت نے زرعی پیکیج کا ڈھونگ رچایا جسے ملک کے کسانوں نے رتی برابر بھی سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ آج تک سابقہ ادوار میں بھی ایسے پیکجز سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ آج کسان اتنے بدحال ہیں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ کسان طبقہ موسمیاتی تبدیلیوں، حکمرانوں کی زراعت میں عدم دلچسپی اور ان کی ناقص پالیسیوں، کھاد، بیج، سپرے پر لوٹ مار اور ناقص فصلوں کے پکنے کے بعد فروخت کرنے کے مسائل سے دلبرداشتہ ہوچکا ہے۔ آج زراعت کا شعبہ تاریخی بدحالی کا شکار ہے اور یہی حالات رہے تو آئندہ زراعت مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔

ماضی میں زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ رہا ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے اور یہی ملک کی آبادی کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ زراعت ملکی معیشت کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 18 فیصد کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی میں 20 فیصد انڈسٹری اور 60 فیصد سروسز کا حصہ ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ اس وقت ملک کو جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں موسمیاتی تبدیلی، انرجی بحران، جدید سائنسی بنیاد پر کاشتکاری کا نہ ہونا شامل ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال یاپانی کی قلت کی وجہ سے کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ہرآنے والے سال میں یا تو فصلوں کی پیداوار میں کمی ہورہی ہے یا پھر فصلوں کی کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔ حکومتی عدم تعاون کی وجہ سے کسانوں کو جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اور مصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف ان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں، جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسان بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے کسانوں اور کاشتکاروں کو آگاہ کرنے کی سہولیات نہیں ہیں۔

اسی طرح زراعت کو جدید بنانے کے حوالے سے پاکستان کے حکمران طبقے نے آج تک کچھ نہیں کیا۔ آج سائنسی بنیادوں پر ماحول دوست چھوٹے ڈیمز کا بننا اس وقت اشد ضروری ہے کیونکہ ان سے سیلاب کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے اور پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں جو حکمران بھی آتا ہے صرف ڈرامے بازی ہی کرتا ہے۔ یہی کچھ گزشتہ دنوں وزیراعظم کے 1800 ارب روپے کے زرعی پیکیج میں کیا گیا ہے جسے تاریخی پیکیج کہا جارہا ہے۔ اس پیکج میں اعلان کی گئی رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے زیادہ بتائی جارہی ہے مگر کسانوں کی اکثریت نے اسے ایک بھونڈا مذاق قرار دیا ہے کیونکہ وہ درست طور پر سمجھتے ہیں کہ اس سے بھی اپنے ہی لوگوں کی تجوریاں بھرنے کی کوشش کی جائیگی۔

اس سال جون میں DAP کھاد کا انٹرنیشنل مارکیٹ میں نرخ 983 ڈالر فی ٹن تھا اور ڈالر 245 روپے کا تھا اس طرح شپمنٹ اور بیگنگ چارجز کے بغیر فی بیگ 12041.75 روپے بنتا تھا جس کو بنیاد بنا کر کھاد کی کمپنیوں نے DAP کا ریٹ 13850 روپے مقرر کیا حالانکہ ان کمپنیوں نے مہنگی سے مہنگی DAP بھی 783 ڈالر فی ٹن خریدی تھی جبکہ ڈالر 186 روپے پر تھا اور اس کے بعد کوئی DAP کی انوائس ریکارڈ پر نہیں۔ اس حساب سے ان کمپنیوں کو یہ کھاد 7281.90 روپے فی بیگ پڑی جو کمپنیوں نے 15000 روپے فی بیگ تک بیچی۔ اس وقت DAP کا انٹرنیشنل مارکیٹ میں ریٹ 750 ڈالر فی ٹن ہے اور ڈالر 222 روپے کا ہے تو اس طرح DAP کی ایک بوری کا ریٹ 8325 روپے علاوہ شپمنٹ چارجز بنتا ہے۔

 

پاکستان کی زرعی تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی ہے، شہباز شریف حکومت نے کھاد کی کمپنیوں کو 58 ارب روپے سبسڈی دے کر 11250 روپے بوری کا ریٹ فکس کر دیا ہے جبکہ مارکیٹ میں پہلے ہی کھاد کی قیمت 12000 روپے فی بوری سے بھی کم پر آ گئی تھی اور مارکیٹ میں افواہ گرم تھی کہ یہ ریٹ کچھ دنوں میں 9500 روپے تک گرنے والا ہے مگر شہباز شریف کی کرپٹ حکومت نے الٹا 58 ارب روپے کھاد کمپنیوں کی جھولی میں ڈال دیے اور ان کا ریٹ ممکنہ مارکیٹ ریٹ سے بھی 1750 روپے اوپر رکھ دیا ہے تاکہ وہ اپنے اسٹاکس کو مہنگے داموں نکال دیں۔ یوں زمیندار کو رعایت دینے کے نام پر الٹا زمیندار کی جیب پر مزید 6 ارب روپے کا ڈاکہ مارا گیا ہے۔ شہباز شریف نے پیکج میں اعلان کیا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کسانوں کو بلا سود قرض فراہم کیے جائیں گے، ڈی اے پی کی پیداوار کیلئے کھاد بنانے والوں کو سستی گیس فراہم کی جائے گی، ڈی اے پی کی فی بوری میں 2500 روپے کمی کروانے کے لیے ڈی اے پی پر 58 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ ہم نے دیکھا کہ 58 ارب روپے بغیر کسی حیل حجت کے فرٹیلائزر مافیا کی تجوریوں میں ڈال دیئے گئے اور ساتھ ساتھ گیس پر پہلے سے دی جانے والی سبسڈی میں بھی مزید اضافہ کر دیا گیا۔ اعلان کیا گیا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں گندم کے بیج کے 12 لاکھ تھیلے فراہم کیے جائیں گے، وفاق اور صوبے مل کر بیج کیلئے 13 ارب 20 کروڑ روپے دیں گے، سیلاب زدہ علاقوں میں بے زمین ہاریوں کو بلا سود 5 ارب کے قرضے دیئے جائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیلاب میں ڈوبے بیشتر علاقوں سے ابھی تک پانی تک نہیں نکالا جا سکا، خصوصاً سندھ جو ابھی تک سمندر کا منظر پیش کررہا ہے اور جہاں پانی خشک بھی ہو چکا ہے وہاں پر زمین اب قابلِ کاشت نہیں رہی، کیونکہ اکثر جگہوں پر سیلاب کی وجہ سے کئی کئی فٹ تک ناقص مٹی پڑی ہوئی ہے، جسے لیول کرنا سیلاب سے برباد کسانوں کے لیے بالکل ممکن نہیں ہے۔

یہاں پر سوال بنتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کسان یہ بیج کے تھیلے لے کر آخر کیا کریں گے۔ اسی طرح سرکار خود بتا چکی ہے کہ ٹریکٹر کی قیمت عام کسانوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے اور ملک کا وزیراعظم ٹریکٹر مافیا سے ٹریکٹر کی قیمت کم کرانے کے لیے ترلے کرتا رہا۔ آخر میں اس نے ’بے بس‘ ہو کر اعلان کیا کہ 5 سال تک استعمال شدہ ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت ہوگی، اور ان استعمال شدہ ٹریکٹرز کی درآمد کیلئے ڈیوٹی پر چھوٹ دی جائے گی۔ مگر پھر یہ سوال بنتا ہے کہ کیا عام کسان باہر سے ٹریکٹر منگوا سکتا ہے یا ان درآمد شدہ ٹریکٹرز سے بھی پھر مال بنایا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ کسانوں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی آلات کی فراہمی میں دی جانے والی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں تک نہیں پہنچتی،کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کا 50 فیصد فائدہ بیورو کریسی اور باقی بچ جانے والی 50 فیصد میں سے 90 فیصد فائدہ جاگیر دار اور وڈیرے اٹھاتے ہیں اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ریلیف چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹا کسان دن بدن معاشی طور پر بدحالی کا شکار اور جاگیر دار اور وڈیروں کے اثاثے بڑھتے جا رہے ہیں۔

کسانوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کسان پیکج میں حکومت کی طرف سے زرعی سولر سسٹم دیا جائے اور زرعی مشینری سستی کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ کھاد بنانے والے اداروں کو کسانوں کے نام پر سبسڈی دے کر مال بنانے کا موقع دینا بند کیا جائے اور کسانوں کو براہِ راست کھاد کی مقررہ قیمت پر سبسڈی کی سہولت دی جائے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں سرٹیفائیڈ بیج سستا ملنا چاہیے اور ہمارے دیسی بیجوں کا اسٹاک اور ڈیٹا بھی محفوظ کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح زرعی ادویات مارکیٹ میں جنیرک نام کے ساتھ دسیتاب ہونی چاہئیں، جس سے کاشتکاروں کو سستی زرعی ادویات مل سکیں۔ اجناس کی خیرید و فروخت کے لئے کوئی واضح پالیسی ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی مافیا کاشتکاروں کا استحصال نہ کرسکے اور عام صارفین کو زرعی اجناس مناسب نرخوں پر دستیاب ہو سکیں۔ ایسے پیکیجز کے ڈھونگ کا کسانوں کو کیا فائدہ کہ کسان پورا سال خاندان سمیت محنت کرے اور فصل تیار ہو نے کے بعد اس کی کوئی مناسب قیمت اسے نہ مل سکے۔

پاکستان کے کسان اسی صورت حال کا شکار ہیں کیونکہ کسان اپنی کپاس کی فصل کی فروخت کیلئے پریشان ہیں اور کپاس کا کوئی خریدار نظر نہیں آتا اور کسان کی کپاس غلہ منڈیوں میں لاوارث پڑی ہے۔ وزیر اعظم جب کسان پیکیج کا اعلان کررہا تھا تو کسی نے سوال نہیں کیا کہ اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ کسانوں کے فصل کاشت کرنے کے بعد حکومت اسے اس کی مناسب قیمت پر خریدے گی کیونکہ کپاس فروخت نہ ہونے کی وجہ سے کسان پہلے ہی گندم کی فصل کاشت نہیں کر پا رہا ہے۔ پہلے بھی کسان کپاس کی فصل پر فی ایکڑ ڈیڑھ سے زیادہ نقصان کرچکا ہے جس کی ذمہ دار ریاست ہے کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ دو نمبر بیج سپرے اور کھاد ہے جس نے کسان کو تباہ کردیا ہے۔

گزشتہ ایک سال سے مارکیٹ میں دونمبر ڈی اے پی کھاد دھڑلے سے فروخت ہورہی ہے۔ سادہ لوح کسان لٹ رہا ہے۔ پہلے توغریب کسان ڈی اے پی کھاد 14000 کی بوری خرید نہیں سکتا اور اگر قرضہ اٹھا کر خرید بھی لیتا ہے تو دو نمبر کھاد ہی ملتی ہے اسی وجہ سے کسان کی فصل اچھی نہیں ہوتی۔ موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ جو عوامل کسان کی تباہی کاباعث ہیں ان میں نقلی کھاد، بیج اور سپرے بھی شامل ہیں۔ ماضی اور حال کی حکومتوں نے زراعت کے شعبہ کی ترقی کیلئے کسی بھی طرح کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو جو نمایاں وجوہات سامنے آتی ہیں، ان میں سرفہرست ڈیزل، پٹرول، زرعی آلات، کھاد، بیج، زرعی ادویات اور زراعت میں استعمال ہونے والے دیگر لوازمات کا مہنگا ہونا ہے۔ خاص طور پر جو موجودہ حکومت نے سبسڈی اور بلاسود قرضے دینے کا ڈرامہ کیا ہے اس ڈرامے کو بھی کسان سنجیدہ لینے سے ڈرتا ہے، کیونکہ اسے پتہ ہے ایسا کرنے کی صورت میں اسے سب سے پہلے ملک بھر کے محکمہ ریونیو کے کمپیوٹر سنٹرز کے چکر لگانے پڑیں گے کیونکہ کسی ریکارڈ کے بغیر اپنے آپ کو کسان ثابت کرنا مشکل ہے اور لینڈ ریکارڈز میں کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ کی غلطیاں کسانوں کیلئے وبال جان اور محکمہ مال کے اہلکاروں کیلئے چاندی کمانے کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اکثر کمپیوٹر سنٹرز پر کسانوں کا کوئی کام بغیر سفارش کے نہیں ہوتا، حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی اس بابت سنجیدہ پالیسی نہ ہونے کے باعث کمپیوٹر سنٹرز کے افسران اور عملے کی اصلاح کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

جس وقت یہ پیکیج جاری کیا گیا اس وقت گندم کی کاشت شروع ہوچکی تھی اور کپاس نہ ہونے کی وجہ سے اگیتی کاشت شروع ہوچکی تھی۔ حکمرانوں کی بے حسی کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ وہ کپاس کی فصل کی بات نہیں کر رہے جس میں کسان فصل نہ ہونے کی وجہ سے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے فی ایکڑ کے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں اور اگر کسی نے کپاس اگائی ہوئی ہے تو وہ فروخت نہیں ہو رہی۔ اسی طرح ستم ظریفی دیکھیے جو گندم ریاست نے گزشتہ سال کسان سے 2000 روپے فی من کے حساب سے خریدی تھی وہی گندم آج کسان 3200 روپے فی من خریدنے پر مجبور ہے۔ رواں سال گندم کی امدادی قیمت 3000 روپے فی من رکھی گئی ہے جبکہ اس وقت مارکیٹ میں تقریباً 3600 روپے فی من کے حساب سے بیچی جا رہی ہے۔ اس وقت بھی حکمران بیرونِ ملک سے 3600 روپے فی من کے حساب سے باہر سے گندم امپورٹ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ یہی بدمعاشی گنے کی فصل کے ساتھ کی جا رہی ہے گندم کی کاشت کاوقت گزرتا جارہا ہے اور مل مالکان جان بوجھ کر کریشنگ شروع نہیں کر رہے۔ دوسری طرف کسان چیخ رہا ہے کہ گنے کاریٹ 400 روپے فی من کیاجائے مگر شوگر ملز مافیا جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، ریٹ طے ہی نہیں ہونے دیتے۔کسی شوگر مل نے اپنی مرضی سے 225 روپے ریٹ طے کیا ہوا ہے، تو کسی نے 275 روپے فی من۔ جہاں کسان کی ہر فصل کے ساتھ ہی یہ کھیل کھیلا جاتا ہو وہاں یہ کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ یہ پیکیج اور سبسڈیاں کسانوں تک پہنچ پائیں گی۔ کسانوں کو تباہ کرنے کیلئے ایک زرعی بینک ہی کافی ہے اور قرضوں کے چکر میں پھنسنے والا کسان کبھی اس کے چنگل سے نکل ہی نہیں پاتا۔ آج زرعی شعبے کو درپیش ان تمام تر مسائل اور ان کی شدت، پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور عالمی سطح پر زوال پذیر سرمایہ داری کو دیکھ کر ان تمام مسائل کا جو واحد حل نظر آتا ہے وہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ آج صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی زراعت کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.