کوٹلی: لاک ڈاؤن کے نام پر نوجوان کا قتل‘ ریاستی جبر نامنظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|

فوٹو بشکرئی ڈیلی مجادلہ

26 مارچ کو کرونا وبا کے حوالے سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران کوٹلی پولیس نے ایک نوجوان کو ناکے پر روک کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ نوجوان پولیس سے جان بچا کر بھاگا۔ پولیس اہلکار اس کا پیچھا کر رہے تھے کہ بھاگتے ہوئے وہ نوجوان ایک کھائی میں گر کر شدید زخمی ہوگیا۔ اس زخمی نوجوان کو ڈسٹرکٹ ہسپتال کوٹلی لایا گیا لیکن معمول کے مطابق ڈاکٹروں نے اس کو راولپنڈی لے جانے کی ہدایت کی اور اس نوجوان کی راولپنڈی لے جاتے ہوئے راستے میں ہی موت واقع ہو گئی۔ اہل علاقہ اس نوجوان کی لاش شہید چوک کوٹلی لائے اور انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اس ریاست کے تمام مسلح اداروں کو صرف غریبوں پر تشدد کرنے کا کام آتااور یہی ان کا طبقاتی کردار بھی ہے اسی لیے ان کے لاک ڈاؤن کا مطلب غریبوں پر جبر کرنا ہی ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی مختلف علاقوں سے نوجوانوں کی تذلیل اور تشدد کی خبریں سوشل میڈیا پر سامنے آتی رہتی ہیں۔ یہ جبر انتہائی شرمناک ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

لاک ڈاؤن پر عملدارآمد کے حوالے سے بھی ان اداروں کو طبقاتی کردار کھل کر سامنے آتا جا رہا ہے۔ اگر کوئی امیر آدمی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرے تو اس کے ساتھ مسلح اداروں کا برتاؤ اگر تھوڑا سا بھی سخت ہو تو خود حکمران مداخلت کرتے ہیں جبکہ غریبوں پر ہر قسم کے جبر کی کھلی چھوٹ ہے۔ کوٹلی میں نوجوان کی ہلاکت اور مختلف علاقوں میں نوجوانوں کی تذلیل اور تشدد پر کوئی حکمران مداخلت نہیں کرتا۔ درحقیقت، مسلح اداروں کے اہلکاروں کا عام لوگوں اور غریبوں کے ساتھ جس قسم کا برتا ؤ ہوتا ہے یہ ان کا اپنا انفرادی نہیں ہوتا بلکہ ان اداروں کے اہلکاروں کے برتاؤ میں ان کے طبقاتی کردار کا عکس ہوتا ہے۔ مسلح ادارے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے اور عام عوام پر ان کی ظالمانہ حاکمیت قائم رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور اسی مقصد کی بنیاد پر ان کے اہلکاروں کی تربیت کی جاتی ہے۔ یہ ادارے حکمرانوں کو پروٹوکول دینے اور عوام پر جبر کرنے کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن عام طور پر ان اداروں کے بارے میں یہ جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ یہ عوام کا تحفظ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ایک عام نوجوان پولیس والوں سے اس قدر کیوں خوفزدہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی گرفت میں آنے سے بچنے کے لیے اپنی جان دے دیتا ہے؟

کرونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن ضروری ہے لیکن وحشیانہ ریاستی جبر کے ذریعے اس پر عملدرآمد قابل مذمت ہے۔ تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ ہر قسم کی سماجی سرگرمیوں پر پابندی کی صورت میں نوجوانوں کو گھروں میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت جبر کی بجائے ان کو کچھ بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ دنیا کے جس ملک میں بھی لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے وہاں لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت مفت مہیا کرتے ہوئے گھروں میں رہنے کی تر غیب دی جاتی ہے نہ کہ ڈنڈے مار کر۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی تمام بشمول موبائل کمپنیوں کو پابند کرے کہ لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ کی مفت لا محدود سروس فراہم کی جائے اور مسلح اداروں کے اہلکاروں کو لوگوں پر تشدد اور ان کی تذلیل کرنے سے روکا جائے۔

Comments are closed.