برطانیہ: انتخابی نتائج کے اسباق۔۔۔ چلے چلو کہ ابھی منزل نہیں آئی!

|تحریر: راب سیول؛ ترجمہ: ولید خان|

12 دسمبرکو ہونے والے برطانوی انتخابات تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ان انتخابات کے نتائج حسب معمول انتہائی غیر متوقع تھے جن میں دائیں بازو کی ٹوری پارٹی بورس جانسن کی قیادت میں واضح اکثریت جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے جبکہ لیبر پارٹی جیرمی کاربن کی قیادت میں بائیں بازو کا انتہائی انقلابی منشور دینے کے باوجود اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔اس صوتحال کا سائنسی تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مستقبل کی جدوجہد کے لیے اہم نتائج اخذ کیے جا سکیں جو اس طبقاتی کشمکش کے شدت اختیار کرنے کا عہد ہے۔

تمام رجعت پسند خوشی کے مارے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خاص طور پر نتائج پر خوشی کا اظہار کیا۔ امریکی صدرنے ٹویٹر پر لکھا کہ ”بورس جانسن کوشاندار فتح مبارک ہو!“ فنانشنل ٹائمز نے پاؤنڈ کی قدر میں بہتری کے بعد والہانہ اعلان کیا کہ ”جانسن نے برطانوی انتخابات میں دیو ہیکل فتح حاصل کر لی“۔

جانسن کے ٹوریز اور ارب پتی پریس نے میدان جیت لیا ہے۔ اگرچہ نشستوں کے حوالے سے لیبر پارٹی کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے لیکن 2017ء انتخابات کے بعد ٹوری پارٹی کے ووٹ محض 3 لاکھ ہی بڑھے ہیں۔۔”دیو ہیکل“ کی اصطلاح مبالغہ آرائی ہے۔

مبصرین مسلسل صورتحال میں دروغ گوئی کی زہریلی ملاوٹ کر رہے ہیں کہ لیبر کے لئے یہ نتائج 1930ء کی دہائی کے بعد سے سب سے زیادہ تباہ کن ہیں۔ اگرچہ پارٹی کے پاس نشستیں کم ہیں لیکن 1982ء کے انتخابات کے بعد سے ووٹ حصہ سب سے زیادہ بڑھا ہے اور کوربن نے 2005ء میں بلیئر کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔

پھر بھی ٹوری میڈیا اور بلیئرائٹ اس دھچکا کو استعمال کرتے ہوئے کوربن انقلاب کو پسپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زہریلی زبان استعمال کرتے ہوئے وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لیبر قائد کو فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے۔ ہمیں اس چال سے ہر صورت اپنا تحفظ کرنا ہے۔

سکاٹ لینڈ کے علاوہ ٹوریز نے عام انتخابات کو اغوا کرتے ہوئے سارا الیکشن بریگزٹ مسئلہ پر مرکوز کر دیا جس میں جانسن نے وعدہ کیا کہ ”بریگزٹ ہو کر رہے گا“۔ اس رنگ میں ہر شے رنگی گئی اور انتخابات کے نتائج بھی زیادہ تر اسی حقیقت کے عکاس ہیں۔

ا س لئے یہ حیران کن نہیں کہ لیبر شمال، مڈلینڈز اور ویلز میں بہت سینشستیں ہار گئی۔ ان میں بلائتھ ویلی جیسی نشستیں بھی شامل ہیں جو لیبر کے پاس 1935ء سے ہے اور ویک فیلڈ بھی جو لیبر کے پاس 1932ء سے موجود تھی۔ ان مقامات پر کئی محنت کش ووٹر بریگزٹ کا مسئلہ ختم کرنے کے لئے مضطرب تھے تاکہ دیگر فوری مسائل کی طرف بڑھا جا سکے۔

اسباق

واضح ہے کہ لاکھوں افراد، خاص طور پر نوجوان نتائج سے شدید مایوس ہیں۔ 13 دسمبر جمعہ کا دن ہمیشہ ”سیاہ جمعہ“ کے نام سے جانا جائے گا۔ ایک ایسا دن جب جانسن نمبر 10 میں دوبارہ گھسنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک دانا فلسفی اسپینوزا نے کہا تھا کہ ”ہمارا کام رونا یا ہنسنا نہیں بلکہ سمجھنا ہے“۔ ہمیں اس شکست سے ضروری اسباق اخذ کرنے ہیں۔

لیبر کے پاس یہ انتخابات جیتنے کا ہر ممکن امکان موجود تھا لیکن بریگزٹ کا مسئلہ بہت جان لیوا ثابت ہوا۔ ہم نے پہلے کہا تھا کہ مینی فیسٹو میں موجود طبقاتی مسائل کو جتنا زیادہ بحث مباحثہ سے دور رکھا جائے گا اتنا ہی زیادہ جانسن کی کامیابی کا امکان بڑھے گا۔ یہ سر کرنے کے لئے ایک دیو ہیکل پہاڑ تھا۔

2017ء کے انتخابات میں لیبر پارٹی نے بریگزٹ نتائج کو قبول کیا اور مزدور حقوق کے تحفظ کی بات کی۔ اس پوزیشن کے ذریعے پارٹی نے کئی بریگزٹ نواز ووٹ جیتے۔ لیبر کا مینی فیسٹو ریڈیکل تھا اور قائد کوربن۔ اس انتخابی مہم میں لیبر پارٹی کے ووٹ میں 1945ء کے بعد سب سے بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ واضح طور پر کوربن، بریگزٹ اور لیفٹ ونگ پالیسیاں ووٹروں کے لئے مسئلہ نہیں تھے۔

تو پھر کیا تبدیل ہو گیا؟ کلیدی تبدیلی یہ تھی کہ لیبر پارٹی کو بریگزٹ مخالف کے طور پر پیش کیا گیا، یعنی ایک نیا بریگزٹ ریفرنڈم۔ اس وجہ سے ٹوری پارٹی کو موقع مل گیا کہ وہ لیبر کو بریگزٹ کی راہ میں حائل اور جموری مینڈیت مخالف پارٹی کے طور پر پیش کریں۔ ممبران پارلیمنٹ کو جمہورت نظر انداز کرنے والوں کے طور پر دیکھا جانے لگا اور اس وجہ سے غم و غصہ اور اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا۔

اس وجہ سے ٹوری پارٹی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنے آپ کو حقیقی بریگزٹ پارٹی کے طور پر پیش کر سکیں جو عوام کی امنگوں کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ بدقسمتی سے اس وجہ سے لیبر پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے کیمپ میں دکھائی دی جو بریگزٹ کی مخالفت کر رہا تھا۔ ٹوریز کی مدد ایک انتہائی رجعتی قوت بریگزٹ پارٹی کے سربراہ فاراج نے بھی جس کی پارٹی انمحنت کشوں کے علاقوں والی ”لال دیوار“ نشستوں پر کھڑی ہوئی اور لیبر کے اہم ووٹ توڑ دیے گئے۔

بریگزٹ

حتمی تجزیے میں، بریگزٹ نے انتخابی نتائج پر گہرا اثر ڈالا

لیبر پارٹی پر یہ تباہ کن تبدیلی سب سے پہلے اس کے اپنے اندر موجود دائیں بازو کے بلیئرائٹ ممبران پارلیمنٹ نے مسلط کی جنہوں نے زوروشور سے ایک نئے ریفرنڈم کی مہم چلائی۔ پھر انہوں نے لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ مل کر بریگزٹ کو ناکام کرنے کی بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔

ان وجوہات کی بنا پر اس انتخابی شکست کی ذمہ داری لیبر رائٹ ونگ کی ہے جن میں سرِ فہرست سر کیئر سٹارمر ہے۔ اس وجہ سے بھرپور کنفیوژن رہا جو کوربن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش کا حصہ تھا کیونکہ ایسا محسوس ہوا جیسے کوربن کمزور اور غیر واضح ہے۔

بدقسمتی سے ان ساری چالبازیوں میں کمزور لیفٹ نے بھی کردار ادا کیا جن میں کلائیو لیویس، ایمیلی تھارن بیری، پال میسن، اوین جونز اور دیگر شامل ہیں جنہوں نے نام نہاد ”عوامی ووٹ“ کے مظاہروں میں بھی حصہ لیا۔ اس میں جان میکڈونل بھی قصوروار ہے جس نے پارٹی کو بریگزٹ مخالف کیمپ میں جانے دیا۔

ان تمام وجوہات کی وجہ سے موجودہ شکست ناگزیر ہو گئی۔ نئے ریفرنڈم کی حمایت کرنے والے یہ بھول گئے کہ 2016ء کا بریگزٹ ووٹ ان لوگوں کی مدد کی پکار بھی تھا جو معاشی طور پر پچھڑ چکے ہیں۔ یہ ان کا ہیجانی خیال تھا کہ شاید اس طریق کار سے ان کے مسائل حل ہو جائیں۔ وہ اپنی زندگیوں کے مسائل ختم کرنا چاہتے تھے۔

لیبر کو اپنی 2017ء والی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ یورپی یونین کے اندر یا باہر رہنا کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کا استحصال کیا جاتا رہے گا جب تک سرمایہ داری سے قطع تعلقی کر کے سماج کی ازسرِ نو سوشلسٹ بنیادوں پر تشکیل نہیں کی جاتی۔

اس وجہ سے ان انتخابات کا فیصلہ بریگزٹ مسئلہ نے کیا جن میں کئی سابق لیبر ووٹروں نے ناک پر ہاتھ رکھ کر ٹوری پارٹی کو ووٹ دیا تاکہ ”بریگزٹ ہو جائے“۔

جہاں تک یہ خیال ہے کہ جانسن اور ٹوریز محنت کش طبقہ کو لاحق کوئی ایک بھی مسئلہ حل کر پائیں گے خام خیالی ہے۔ جانسن تھوتھا چنا باجے گھنا ہے۔ ٹوریز کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ درحقیقت وہ ہر سماجی مسئلہ پہلے سے زیادہ گھمبیر کرتے چلے جائیں گے۔ ٹوریز پچھلی ایک دہائی سے حکومت میں ہیں۔جبری کٹوتیوں اور معیارِ زندگی میں گراوٹ کی دہائی۔ اب وہ محنت کش طبقے پر ایک نئے اور زیادہ خوفناک حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

جھوٹ، فریب، بہتان

یہ انتخابات کئی نسلوں میں شاید سب سے زیادہ غلاظت زدہ تھے۔ کوربن پر بہتان تراشیوں کا ایک پہاڑ توڑا گیا جس میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے میڈیا کے گماشتوں نے غلیظ ترین کردار کشی کی

یہ انتخابات کئی نسلوں میں شاید سب سے زیادہ غلاظت زدہ تھے۔ کوربن پر بہتان تراشیوں کا ایک پہاڑ توڑا گیا جس میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے میڈیا کے گماشتوں نے غلیظ ترین کردار کشی کی۔

BBC کو ہمیشہ برٹش بُل شِٹ کارپوریشن کے نام سے یاد کیا جائے گا جو ارب پتی طبقے کی سب سے وفادار آواز ہے۔ لارا کوینسبرگ جیسے مبصرین نے لیبر اور کوربن پر حملوں میں مکروہ اور گھناؤنا کردار ادا کیا جبکہ اسی دوران ٹوری پارٹی کی طرف رویہ بے انتہا نرم رکھا گیا۔

ہمیشہ کی طرح ان کا ساتھ روزانہ پارلیمانی لیبر پارٹی (PLP) میں موجود بلیئرائٹ نے دیا۔ یہ کیریئر اسٹ پارٹی کے اندر جاسوس اور دشمن ہیں۔ ان کی ایک ہی ذمہ داری ہے کہ لیبر پارٹی کو سرمایہ داری کے لئے محفوظ رکھا جائے۔

کوربن کے منتخب ہونے کے بعد سے اب تک لیبر رائٹ ونگ کوربن پر مسلسل حملے کر رہا ہے اور اس میں سرمایہ دار میڈیا برابر کا شریک ہے۔ انہوں نے 2016ء میں ایک کُو کے ذریعے کوربن سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں 80فیصد PLP، 172 لیبر ممبران پارلیمنٹ، نے اسے ہٹانے کے لئے ووٹ دیا۔کُو تو شرمناک شکست سے دوچار ہوا لیکن وہ کوربن کی کردار کشی کرنے سے باز نہیں آئے۔

جب بھی ٹی وی چلایا جاتا تو کوئی نہ کوئی لیبر ممبر پارلیمنٹ کسی پروگرام میں بیٹھا کوربن پر حملہ کر رہا ہوتا۔ ان کی امید تھی کہ ہم اتنی بہتان تراشی کریں کہ شائد کچھ نتیجہ نکل ہی آئے۔ اسے دہشت گردوں کا ہمدرد، ماسکو کا پِٹھو، چیک جمہوریہ کا جاسوس اور (ظاہر ہے) یہودی مخالف قرار دیا گیا۔

کوربن اور لیبر پارٹی پر یہودی مخالفت کا الزام نہ صرف بلیئرائٹ ونگ نے لگایا بلکہ چیف ربّی (جس نے الزم لگایا کہ یہودی مخالفت کے الزامات کے معاملہ کے بعد کوربن ”مسندِ اقتدار کے لئے نااہل ہو چکا ہے“)، کینٹربری کا آرچ بشپ، ہندو اور مسلم مذہبی قائدین بھی اس میں پیش پیش تھے۔ یہاں تکہ کہ سائمن وائزنتھال سنٹر نے بھی خبردار کیا کہ کوربن یہودیوں کے لئے سب سے بڑا عالمی خطرہ ہے!

یہودی لیبر تحریک (JLM)نے بھی لیبر قائد پر حملہ کیا جس میں فرضی یہودی مخالف باتیں برابری اور انسانی حقوق کمیشن کو دی گئیں جو کہ شرمناک انداز میں لیبر پارٹی کی نام نہاد یہودی مخالفت پر تفتیش کر رہا ہے۔ نام نہاد لیبر ملحق JLM نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا کہ وہ ایک کوربن حکومت کے لئے مہم نہیں چلائے گی۔ یعنی درحقیقت وہ کھلم کھلا ایک ٹوری حکومت کی حمایت کر رہے تھے!

یہ سب بلیئرایٹ ونگ اور ان کے دوستوں کی طرف سے مکمل دھوکہ دہی اور سبوتاژ ہے۔ اس سیاہ گناہ میں انہیں سرمایہ دار میڈیا اور پریس کی مکمل حمایت حاصل تھی جو ٹوری پارٹی کو کوربن پر حملوں کے لئے مسلسل گولہ بارود فراہم کرتے رہے۔

زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے بلیئراٹ ونگ نے اعلان کیا کہ وہ کوربن کی قیادت میں لیبر کو ووٹ نہیں دے سکتے۔ بلیئر نے کہا کہ اگرچہ وہ ووٹ لیبر کو ہی دے گا لیکن دیگر کو لبرل ڈیموکریٹس یا ٹوریز کو ووٹ ڈالنا چاہیے۔ نیو لیبر پراجیکٹ کے کلیدی رکن لارڈ مینڈلسن نے کوربن کو تبدیل کرنے کا کہا۔

پارٹی سے علیحدہ ہونے سے پہلے ممبر پارلیمنٹ جان ووڈکاک نے کہا کہ وہ ”کبھی سوچے گا بھی نہیں کہ ووٹ دے کر جیرمی کوربن کو برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا دے“۔ اس نے اور سابق لیبر ممبر پارلیمنٹ ایان آسٹن نے عوام کو ورغلایا کہ وہ بورس جانسن کو ووٹ دیں کیونکہ کوربن قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیبر کے نامزد وزیرصحت جان ایش ورتھ نے بھی اس دروغ گوئی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس کی ریکارڈنگ بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے جس میں اس نے کھلم کھلا کوربن سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہوا ہے۔ درحقیقت اس نے وہی کچھ کہا جواکثریت لیبر ممبر پارلیمنٹ سوچتے ہیں۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ ایک رائٹ ونگ سازش ہے جس میں ارب پتی اشرافیہ اور اس کے بلیئرائٹ دوست شامل ہیں۔ اس کا مقصد ہی کوربن کو تباہ و براد کرنا اور لیبر پارٹی کو سبوتاژ کرنا ہے۔

دھوکہ، سازشیں

اب وہ گھٹیا پن سے لیبر کے لیفٹ ونگ مینی فیسٹو پر حملے کر رہے ہیں کہ یہ ”خود کشی سے قبل لکھا گیاتاریخ کا سب سے طویل خط ہے“جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مینی فیسٹو (اور پارٹی کی عوامی تحریک)ہی وہ چیز تھی جس نے اور بھی زیادہ بڑے نقصان سے بچایا ہے۔

سرگرم کارکنوں کی شاندار مہم کے باوجود لیبر کی شکست کی ایک اور وجہ نئی لیبر کی گلی سڑی روایت ہے۔ اس کے ابھی تک محنت کش علاقوں میں گہرے اثرات ہیں۔

بلیئرازم کے دھوکوں اور فریب نے لیبر کے حوالے سے دورس شکوک و شبہات عوام کے شعور میں پیوست کئے ہوئے ہیں۔ کئی محنت کش ابھی بھی لیبر کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں جو تمام سیاست دانوں اور ان کے عہد و پیمان سے متنفر ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ جو بات سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ ”آپ ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ یہ سب ایک ہیں۔ وہ صرف اپنا ہی سوچتے ہیں“۔

اس کی وجہ پارٹی میں رائٹ ونگ کا اثرورسوخ ہے خاص طور پر مقامی کونسلوں میں جہاں لیبر نے بھرپور انداز میں کٹوتیوں کی پالیسی لاگو کی۔ یہ حقیقت سکاٹ لینڈ کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم ہے جہاں بلیئرائٹ ونگ نے پارٹی تباہ و براد کر دی ہے۔

غیر منتخب کرنے کا حق

کوربن انقلاب ابھی مکمل نہیں ہوا۔ دایاں بازو تحریک کو ناکام کرنے اور پارٹی پر مکمل قبضے کے لیے پرامید ہے۔

لیبر ممبران کو کوربن کو ہٹانے کی نئی مہم کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس دباؤ کے نتیجہ میں لیبر قائد کو پارٹی سربراہی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ہم کہتے ہیں کہ کوربن کے خلاف متشدد مہم بند کرو!
ظاہر ہے کہ شکست کے حوالے سے پوری تحریک میں تفصیلی بحث مباحثہ ہونا چاہیے اور ممبر شپ کی قیادت میں بھرپور مواخذہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس وقت تمام تر شواہد بلیئرائٹ ونگ کے غلیظ کردار کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

کوربن انقلاب ابھی مکمل نہیں ہوا۔ لیبر رائٹ ونگ پورا زور لگا رہا ہے کہ کوربن تحریک کو تباہ و برباد کر دیا جائے اور پارٹی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔ لیبر قیادت متعدد مرتبہ بلیئرائٹ ونگ کو مطمئن کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ انہیں ان غداروں کے علیحدہ ہو جانے کا ڈر ہے۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پارٹی تمام کیریئراسٹوں اور ٹوری جاسوسوں کو باہر نکال دے۔

2018ء کی لیبر کانفرنس میں مقامی پارٹیوں کے 90فیصد مندوبین کا مطالبہ تھا کہ ممبران پارلیمنٹ کے ضروری انتخاب (آزاد انتخاب) کا کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے۔ لیکن اس کی ٹریڈ یونین قائدین نے مخالفت کی تھی۔ یہاں تک کہ مومینٹم کے قائد جان لانسمان نے بھی مخالفت کی۔

لیکن حقیقی جمہوری مواخذہ پوری پارٹی کی ہیئت کو تبدیل کر کے رکھ دیتا۔ PLP کوربن اور اس کے گرد مجتمع تحریک کی قیادت میں متحد ہو جاتی۔ پارٹی جانسن اور ٹوریز کے خلاف متحد ہو جاتی۔

یہ کام ابھی باقی ہے۔ یہ انتخابی شکست۔۔اور بلیئرائٹ ونگ کا ہیجان۔۔اس حقیقت کی غمازی ہے کہ یہ کام اس وقت سب سے اہم ہے۔ نئے سال میں تمام لیبر پارٹی میٹنگ میں یہ کام ایجنڈے میں سرِ فہرست ہونا چاہیے۔ ٹریڈ یونینز کو بھی اس حوالے سے جیتنے کی ضرورت ہے۔ یونائٹ دی یونین کی سرکاری پوزیشن مثبت ہے لیکن اب اس کو حقیقت کا روپ دھارنے کا وقت ہے۔

منظم کرو!

مارکس ازم تاریخ کا طویل تناظر بناتا اور دیکھتا ہے۔ یہ پورے عمل کو اس کی کلیت میں دیکھتا اور اس کی تشریح کرتا ہے۔ تاریخ ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتی۔ یہ پورا عہد شدید پر انتشار ہے۔ اعتدال پسندی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے بحران کی حقیقی عکاسی ہے۔

درمیان میں رائٹ ونگ کی طرف جھکاؤ بھی آئیں گے۔ لیکن یہ پہلے سے زیادہ شدید لیفٹ ونگ جھکاؤ کی راہیں ہموار کریں گے۔ یہ عمل اس وقت تک آگے بڑھتا رہے گا جب تک محنت کش طبقہ آزادی کا راستہ تلاش نہیں کر لیتا۔۔سرمایہ داری سے مکمل انحراف۔

آج تمام رجعت پسند خوشیاں منا رہے ہیں۔ لیکن یہ خوشی عارضی ہے۔ سر رابرٹ وال پول کے الفاظ میں ٹوریز ابھی رنگ رلیاں منا رہے ہوں گے لیکن کل وہ روتے پھریں گے۔ اب ان کے پاس پارلیمانی اکثریت آ چکی ہے اور ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا۔ ان کو اس حقیقت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

یہ جانسن ٹوری حکومت بحران زدہ حکومت ہو گی۔ یہ اپنی مدت پوری نہیں کرے گی۔ ایک نیا عالمی بحران افق پر منڈلا رہا ہے۔ پوری صورتحال اپنے الٹ میں تبدیل ہو جائے گی۔

محنت کش طبقہ سیاسی رکاوٹ کا سامنا کرتے ہوئے صنعتی تحرک کی جانب دیکھے گا۔ ہمیں اس کے آثار ابھی سے ڈاک اور ریل مزدوروں میں نظر آ رہے ہیں۔ مزدور اور نوجوان کام کی جگہوں اور سڑکوں پر متحرک ہوں گے۔

واقعات، واقعات اور پھر واقعات شعور کو تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ استحکام ممکن نہیں جیسا کہ چلی سے سوڈان اور لبنان تک واضح ہے۔

ہمیں فوری طور پر مارکس ازم کی قوتوں کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک کو ایک نظریاتی ریڑھ کی ہڈی، ہمت و حوصلہ اور سماج کی تبدیلی کا ایک تناظر فراہم کیا جائے۔ ہمیں وضاحت اور افہام وتفہیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں رہنمائی کے لئے ایک طبقاتی تجزیے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مزدوروں اور نوجوانوں کے لئے ایک مارکسی آواز کی ضرورت ہے۔ ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس آواز کی تعمیر میں ہمارے ممبر بنیں اور ہمارا ساتھ دیں۔

ٹوری فتح ہوا میں بخارات بن کر اڑ جائے گی۔ پورا سماج لیفٹ کی جانب اور حتمی طور پر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے لئے پوری قوت سے راغب ہو گا۔ ہمیں تعمیر، منظم اور تیاری کے آفاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ان اہداف کو حاصل کرنا ہے۔

Comments are closed.