مارکس کا فلسفے میں انقلاب،’’فیورباخ پر تھیسس‘‘ کا ایک تجزیہ

[تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: صبغت وائیں]
’’یہ سوال کہ آیا انسانی غور و فکر بجائے خود حقیقی وجود رکھتا ہے یا نہیں، کسی طرح بھی نظریاتی سوال نہیں، یہ عملی سوال ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ عمل میں اپنے غورو فکر کی صداقت ثابت کر کے دکھائے، یعنی اس کی اصلیت اور اس کی طاقت کو، اور ادھر والے رخ کو ثابت کرے۔ غور وفکر کے حقیقی وجود ہونے یا نہ ہونے کی بحث، جب اسے عمل سے بیگانہ کرکے زیر غور لایا جائے، محض عمل، خیالی بحث ہو کر رہ جاتا ہے۔ ‘‘ (مارکس، فیورباخ پر دوسرا تھیسس)
علم کا مسئلہ صدیوں سے فلسفے کا بنیادی سوال رہا ہے۔ لیکن یہ نام نہاد مسئلہ محض اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم انسانی علم کو مندرجہ ذیل نظر سے دیکھتے ہیں:
الف: طبعی وجود سے الگ کسی چیز کے بطور
ب: اور مادی دنیا سے الگ کسی چیز کے بطور
ہمارے سامنے شعور کے متعلق ایک ایسا یک طرفہ نظریہ ہے، جسے ایک ایسی حد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد ہمیں خارجی دنیا سے جدا رکھنا ہے۔ در حقیقت ہم اس دنیا سے علیحدہ نہیں ہیں بلکہ اسی دنیا کا حصہ ہیں اور یہ شعور ہمیں اس سے جدا کرنے کی بجائے اس سے جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ ابتدا ہی سے انسان کا تعلق اس مادی اور زمینی دنیا کے ساتھ، خیالی وماورائی کے بجائے، حقیقی اور عملی ہے۔
جیسا کہ سمجھا جاتا ہے ہم صرف اپنے دماغ سے نہیں سوچتے بلکہ ہم یہ کام اپنے جملہ جسم سے کرتے ہیں۔ سوچ وہ ہے جو نظر بھی آئے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ایک ایسی سرگرمی کے طور پر نظر آئے جو کہ اپنے آپ ہی میں مکمل ہے جس کا انسان سے کوئی تعلق نہیں (جیسے کہ ’’گھوسٹ ان دی مشین‘‘ نامی فلم میں دکھایا گیا ہے)۔ بلکہ یہ اجتماعی انسانی تجربے اور انسانی حسیاتی سرگرمی کے جزو کے طور پر پوری دنیااور دوسرے انسانوں کے ساتھ باہمی عمل میں نظر آئے۔ اسے لازمی طور پر اس پیچیدہ اور مستقل باہمی عمل کے جزو کی حیثیت سے دیکھا جائے گا، نہ کہ ایک ایسی کٹی ہوئی سرگرمی کے بطور، جس کو مشینی انداز میں انسان کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے۔
مادیت اس تصور کو رد کرتی ہے کہ ذہن، شعور، روح وغیرہ مادے سے علیحدہ ہیں۔ خیال محض دماغ کے وجود کا انداز ہے، جوکہ زندگی ہی کی طرح مادے کی ایک خاص ترتیب میں جڑت ہے۔ دماغ اور اعصابی نظام کی جملہ سرگرمی کی کُلیّت کو ہم ذہن کا نام دیتے ہیں۔ لیکن، جدلیاتی طور پر، یہ کُل ان تمام اجزا کے مجموعے سے بڑا ہے۔
یہ مادی نکتہ نظر سائنس کے نتائج سے قریب قریب میل کھاتا ہے، جو کہ بتدریج دماغ کے افعال اور اس کے سربستہ رازوں کو افشا کرتی جارہی ہے۔ اس کے بر عکس، عینیت پرست شعور اس کو ایک ’’معمے‘‘ کے بطور پیش کرنے پر اڑے ہوئے ہیں، ایک ایسا بھید، جسے ہم کسی بھی طور نہیں جان سکتے۔ اس جگہ ہماری پرانی دوست، روح تمام تر تقدیس کے ساتھ اپنے ہمراہ وہ تمام فرشتے، شیطان اور دیگر پُراسرار لاؤ لشکرلئے فتح کے شادیانے بجاتی دوبارہ نمودار ہو جاتی ہے جنہیں سائنس کو عرصہ دراز قبل عجائب گھر کو ارسال کر دینا چاہئے تھا۔

ڈیکارٹ اور ثنویت (Dualism)
مذہب اور توہم پرستی خود کو عینیت پرست فلسفے کے معتبر مکھڑے کے پیچھے چھپاتے ہیں۔ عینیت پرستی کی تہہ میں ہمیشہ مذہب موجود ہو گا۔ معصوم، بے عیب اور لا یزال روح کو اس گندے، غلیظ، ناقص پُرعیب اور ناپائدار جسم کی قید میں باور کیا جاتا ہے۔ جو کہ ہمہ وقت اس آرزو میں رہتی ہے کہ کب موت کی گھڑی آئے اور اس کی جان چھوٹے اور یہ روح تیرتی ہوئی سیدھی بہشت پدھارجائے (اگر خوش قسمتی ساتھ دے تو)۔
اس لحاظ سے مادے کو ایک درجہ دوم کے شہری کی مانند سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایک کمی کمین کے جیسا، جو اپنی عالی جاہ، لافانی روح کی خدمت پر مامور ہے۔ یہ نظریہ کم ازکم اتنا ہی قدیم ہے جتنے کہ افلاطون اور فیثاغورث۔ جنہوں نے اس مادی دنیا کو اس مطلق خیال کی گھٹیا نقل قرار دیا جو کہ دنیا کے خیال کئے جانے سے قبل موجود تھا۔
جدید دور میں روح کے بغیر جسم کی وجود پذیری کا خیال مشہور فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (1596-1650ء ) لے کر آیا۔ اس نے اس معاملے کو اُلجھا دیا، جو کہ ہمیشہ سے الجھن میں ہی رہا تھا۔ اس نے ثنویت کا تصور دیا، جس کے مطابق سوچ یا شعور مادے سے کوئی مختلف چیز ہے۔ اس میں ذہن کوئی ایسی چیز ہے جو کہ جسم کے اندر موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس سے چنداں مختلف بھی ہے۔ ثنویت کے متعلق ناقابل حل مسئلہ یہ جڑا ہے کہ اگر تو ذہن کوئی ایسی شے ہے جو مادی جسم سے بالکل مختلف ہے تو یہ دونوں آپسی تعلق میں کیسے آتی ہیں؟
یہاں غلطی یہ ہوتی ہے کہ شعور کو ایک ’’چیز‘‘ کے طور پر لیا جاتا ہے جو کہ انسانی حسیاتی سرگرمی سے جداہے اور علیحدہ سے آزاد حالت میں وجود پذیر ہے۔ جدید سائنس نے ہمیشہ ہی شعور کو بطور ایک آزاد ’’چیز‘‘ ہونے کے تصور کو رد کیا ہے۔ ہم فطرت کے طریق کار کے متعلق وہ جانتے ہیں جو کہ ڈیکارٹ نہ جانتا تھا۔ یعنی مالیکیول، ایٹموں اور ایٹم کے زیر تحت ذرات کی دنیا اور ان برقی تحاریک (Impulses) کے بارے میں جو کہ دماغ کی کار کردگی کی ذمہ دار ہیں۔
عصبی خلیے برقی اور کیمیائی دونوں طرح کے عوامل کرتے ہیں۔ ہر عصبی خلیے کے آخر میں ایسے مخصوص علاقے ہوتے ہیں جنہیں Synaptic Terminals کہا جاتا ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی جھلی دار تھیلیاں ہوتی ہیں جن میں نیورو ٹرانسمیٹر کا کیمیائی مادہ بھرا ہوتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ عصبی تحریک (Nerve Impulse) کو ایک عصبی خلیے سے دوسرے عصبی خلیے تک پہنچاتا ہے۔ ایک برقی عصبی تحریک ایک نیوران میں سے گزرنے کے بعد ٹرمینل میں پہنچ جاتی ہے اور نیورو ٹرانسمیٹر کے کیمیائی مادے کو اس کی تھیلیوں سے باہر نکلنے کے لئے ابھار دیتی ہے۔
نیورو ٹرانسمیٹر Synaps (یہ قریب واقع عصبوں یا نیوران کو جوڑتا ہے)کے اندر سے گذرتا ہے اور ایک برقی چارج پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے جو کہ عصبی تحریک کو آگے لے جاتا ہے۔ یہ عمل اس وقت تک بار بار دوہرایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک پٹھہ حرکت میں آجائے، ریلیکس ہو جائے یا پھر دماغ تک کوئی حسی ارتسام نہ پہنچ جائے۔ ان برقی کیمیائی عوامل کو نظامِ اعصاب کی’’ زبان‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس زبان کے ذریعے جسم کے کسی بھی ایک حصے کی معلومات دوسرے حصوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ سائنسی تشریح فوراً ہی سوچ اور شعور کے متعلق اس پراسرار عینیت پرست نظریے سے اپنی جان چھڑا لیتی ہے کہ یہ کوئی بعید الفہم اور ناقابل توضیح چیز ہے جو کہ باقاعدہ فطرت سے اور دیگر جسمانی افعال سے کٹی ہوئی ہے۔

ہاتھ اور دماغ
سوچ اور شعور کے متعلق عینیت پرستانہ عقیدہ (نظریہ) انسانی ارتقا کے حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ یہ تجریدی بھی ہے اور صوابدیدی بھی یعنی یہ ایک من گھڑت نظریہ ہے جس کی قطعاً کوئی زمینی بنیاد نہیں۔ یہ غیر تاریخی ہے (مارکسی تناظر میں’’تاریخی‘‘ کو عمرانی کے معنوں میں سمجھا جانا چاہئے)۔ خوراک کی تلاش اور جنگلی جانوروں کے ہتھے چڑھنے سے بچاؤ کی ضرورت، ابتدائی انسان (اور نیم انسان) کا ارد گرد کے فطرتی ماحول سے تعلق کا تعیّن کرتی تھی۔ سیدھے کھڑے ہونے نے (جو کہ ارد گرد کے موسم میں تبدیلی سے آنے والی ماحول میں تبدیلی کے باعث ناگزیر ٹھہرا تھا) ہاتھوں کو آزاد کر دیا تھا، جس نے ہاتھ سے کی جانے والی محنت کو ممکن بنایا۔
شعور، دماغ اور مرکزی اعصابی نظام کے ارتقا کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا اوریہ ارتقا انسان کی اسی عملی سرگرمی سے مخلوط ہے، جسے ہم محنت کے نام سے جانتے ہیں۔ انسان نے اپنی جسمانی محنت سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کر دیا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خود اپنے آپ کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ پیش رفت جس کی جڑیں ارتقا کے ابتدائی مراحل میں تھیں دسیوں لاکھ برس میں ہوئی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تواس کی جڑیں غیر فقاریہ سے فقاریہ (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جاندار) کے ارتقا میں جا ملتی ہیں جس کے ذریعے پہلے مرکزی نظامِ اعصاب کا ارتقا ہوا اور پھر بالآخر ایک دماغ وجود میں آیا۔
ہاتھ سے دماغ کے تعلق کی سیر حاصل شہادتیں موجود ہیں۔ ہاتھ کے کام کی ہنر مندی اور اس سے متعلق مختلف النوع سرگرمیوں میں چابک دستی پیدا کرنے سے دماغ کی استعداد کار میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بھی ترقی ملتی ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ دماغ کے بڑے حجم، سیدھی قامت اور مختلف النوع کے مخصوص افعال سر انجام دینے کے لئے ہاتھ کے ارتقا کا آپس میں جدلیاتی تعلق ہے۔ انسانی ہاتھ ارتقا کی بہترین پیداوار ہے، انگوٹھے کی باقی ہاتھ کی نسبت مخالفت، اصل میں پہلی ایسی موافقت تھی جس نے گرفت کرنے اور دیگر دستکاری کو ممکن بنایا۔ یہ بعد میں ہونے والے ارتقا کی اولین شرط تھی۔
بن مانس درختوں کو جھلانے کے لئے اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ انہیں تنکے اور چھڑیاں پکڑنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات تو وہ انہیں انتہائی پیچیدہ کاموں کے لئے، مثلاً دیمک نکالتے وقت قدیمی آلات کی حیثیت سے کھدائی کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار جب ہمارے دُور کے آباء نے سیدھی قامت اختیار کر لی، تو ہاتھ انواع و اقسام کے افعال سے نبرد آزما ہونے کے لئے آزاد تھے۔ مسلسل مشق سے ہاتھ مزید مہارت حاصل کرتے گئے اور اس قابل ہو گئے کہ ان کی مدد سے باریک تر، نفیس اور پیچیدہ افعال سر انجام دیے جا سکیں، خاص طور پر فطرتی اشیا کو بطور اوزار استعمال کرنے کے۔
ہاتھوں نے دماغ کو ارتقا دیا نہ کہ اس کے بر عکس، اس بات کو نچلے درجے کے حیوانات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ دنیا پر تدبر نہیں کرتے۔ ۔ ۔ اسے کھا جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے انسان کا بچہ دنیاکو ’’جاننے‘‘ کے لئے اسے اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے۔ ایسے ہی بولی جانے والی زبان کسی ہتھوڑے یا کھرپے کی طرح کا آلہ نہیں ہے، جسے اپنی مرضی سے بنایا جائے۔ در حقیقت، زبان نے بھی سماجی میل جول اور اجتماعی پیداوار کے طور پر شعور کے ہمراہ ہی ارتقائی مراحل طے کئے۔ اسے ’’بنایا‘‘ نہیں گیا بلکہ یہ اجتماعی انسانی سرگرمی اور معاشرتی زندگی کے نتیجے میں وقت کے ایک لمبے عرصے میں نموپذیر ہوئی۔
آلات کا باقاعدہ استعمال اور اجتماعی محنت لازمی طور پر کسی نہ کسی زبان کا ضرورت کا احساس دلاتی ہے جس سے آزاد عوامل کا ایک پورا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تمام کے تمام ذہنی اور جسمانی افعال ایک دوسرے سے قریبی جڑت میں ہیں۔ جدلیاتی طور پر وجہ نتیجہ بن جاتی ہے اور نتیجہ، وجہ۔ انسانی ہاتھ آنکھ اور دماغ سے انتہائی قریبی تعلق میں ہے اور اس ارتباط میں انسانی ہاتھوں سے بنا انتہائی ابتدائی پتھر کا اوزار بھی قابلِ توجہ سمجھا جاتا ہے۔ سب انسان اوزار بناتے اور استعمال میں لاتے ہیں اور اوزار سازی کے لئے ہاتھ، آنکھ اور دماغ کا باہمی سمبندھ درکار ہے۔ جو دسیوں لاکھ برس کی مدت سے انسانی دماغ کے ہونے والے ارتقا کا باعث ہے۔ ’’یوں لگتا ہے جیسے اوزاروں کے استعمال نے انسانی دماغ کی زیادہ تر افزائش قبل از موقع ہی کر دی تھی جسے ہم آسٹرالوپیتھیکس قسم کے رکازی (fossil) انسانوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ‘‘ (H.J. Fleure and M. Davies, A Natural History of Man in Britain, p. 47.)
پتھر کے ابتدائی آلات کو شعوری طور پر بناناہی یقینی طور پر وہ واضح قوتِ محرکہ تھی جس نے ابتدائی تصورات کے بننے کوکوئی شکل دی ہو گی، جس سے کہ بعد ازاں سوچ ارتقا پذیر ہوئی۔ اس چیز نے بغیر کسی شک وشبہے کے دماغ کی اندرونی ساختوں پر اپنے اثرات ڈالے ہوں گے، جو کہ دماغ کے حجم کی افزائش کی صورت میں سامنے آئے۔ اگر ان تبدیلیوں کو ان کی کُلیّت میں لیا جائے تو یہ ایک معیاری جست کو ظاہر کرتی ہے جو کہ انسانیت کو دیگرتمام زندہ مادے سے جُدا کرتی ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری نوع کسی قسم کی تخلیق یا کسی اعلیٰ ہستی کی دستکاری کا نمونہ نہیں ہے بلکہ ارتقا کی پیداوار ہے جس میں فیصلہ کن کردار انسانی ہاتھ کی محنت کا ہے۔ جس طرح کہ اینگلز نے آج سے سو سال پہلے واضح کیا تھا کہ’’پس یہ دماغ نہیں جس نے انسانیت کی تعمیر کی بلکہ انسان کا اپنا ہاتھ ہے جس نے دماغ کو فروغ دیا۔ ‘‘

مارکس کا فلسفیانہ انقلاب
فیورباخ پر اپنے تیسرے تھیسس میں مارکس لکھتا ہے:
’’مادی فلسفے کی یہ تعلیم کہ لوگ محض ماحول اور اپنی تربیت یا اٹھان کی ہی پیداوار ہوتے ہیں، چنانچہ بدلے ہوئے لوگ دراصل مختلف ماحول اور مختلف تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں، یہ تعلیم اس بات کو بھول جاتی ہے کہ حالات یا ماحول کا بدلا جانا بھی تو لوگوں کے ہی دم سے ہوتا ہے اور یہ کہ جو تربیت دیتے ہیں انہیں خود بھی تو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مادی فلسفے کی یہ تعلیم چارو ناچار اس نوبت کو پہنچ جاتی ہے کہ معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دے، جس کا ایک حصہ پورے سماج سے بلند و برتر ہو (مثال کے طور پررابرٹ اووین کی تحریریں ملاحظہ ہوں)۔ ماحول کا اور انسانی سرگرمی کا بیک وقت بدلتے رہنا تب ہی سوچا جا سکتا ہے اور معقولیت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے، جب ہم اسے ایسے عمل کی صورت میں دیکھیں جو انقلاب لاتا رہتاہے۔‘‘

ان چند زیرِ غور جملوں میں ایک فلسفیانہ انقلاب موجود ہے۔ عظیم جرمن فلسفی ہیگل حقیقت کو واشگاف کرنے کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا، لیکن باوجود اپنی تمام تر دیو ہیکل ذہانت و فطانت کے، وہ نظریے سے عمل کی طرف ایک فیصلہ کن جست نہ لے سکا۔ کیوں کہ وہ اپنے عینیتی عقائدکی عصبیت میں بُری طرح سے گرفتار تھا۔ ہیگل کے ہاں جدلیات بدستور بعید از فہم تھی، اس کی عمیق سچائیاں تجریدی اور پیچیدہ تعقُّلی براہین کے ڈھیروں میں پِنہاں تھیں۔ ان جدلیاتی سچائیوں کو ایک مارکس کی فطانت کی ضرورت تھی جو کہ اُس تعقُّلی مغز کو آشکارا کرے جو کہ ہیگل کی منطق کے صفحات میں کہیں چھُپا پڑا تھا اور اسے اس حقیقی، مادی اور زمینی زندگی پر لاگو کرے۔
آخر کار کارل مارکس نے فلسفے کو ان ہوا بنداندھے کنوؤں سے کھینچ کر باہر نکالا جن میں الٰہیاتی سوچ نے اسے صدیوں سے قید کر رکھا تھا اوراب اس نے دن کے اُجالے میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ اب کہیں جا کر سوچ کا عمل سے انضمام ہوا۔ اب یہ محض عالموں کی یک طرفہ اور نِری خیالی سرگرمی نہ رہی تھی بلکہ ایک حقیقی، انسانی حسیّاتی سرگرمی تھی۔ عظیم جرمن شاعر گوئٹے بائیبلی اثبات، کہ’’ابتداء میں کلام تھا‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے، ’’ابتدا میں کام تھا‘‘۔
لیکن حقیقی انسانی سرگرمی (یعنی محنت) ایٹموں کی طرح، اپنے آپ کے اندر علیحدگی میں کی جانے والی سرگرمی نہ تھی۔ یہ لازمی طور پر، اپنی ماہیت میں اجتماعیت پر مبنی تھی۔ یہ انفرادی جدوجہد سے مرکب تھی۔ یہ مردوں اور عورتوں کی تخلیقی جانفشانی تھی جس سے تہذیب کے تمام عجوبے نمودار ہوئے۔ یہ اس بات کا مقرونی ادراک ہے جسے بابا ہیگل جزیاتی اور آفاقی (particular and universal) کا انضمام کہتاتھا۔ تاحال اس لازمی انضمام کا نہایت ہی ڈھٹائی سے انکار کیا گیا ہے۔ بنی نوع انسان کی سوچ اور اس کے اعمال کو ایک اجتماعی سرگرمی کے بجائے ان افراد کے انفرادی کام کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے جو کہ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔
یہ جھُوٹا تصور، بورژوا تعصب کو سیدھا سیدھا واضح کر دیتا ہے اوریہ سرمایہ دارانہ معاشرے کی ساختوں، اس کی اخلاقیات اور قدروں کومنصفانہ قرار دینے کی خاطر کی گئی ایک بورژوا کوشش ہے۔ ایک ایسا سماج، جس میں ذات یعنی ’’فرد‘‘ کے اقتدار اعلیٰ کی توثیق کی گئی ہے۔ جب کہ حقیقت میں سوادِ اعظم کی انفرادیت کو کچل کر اسے مٹھی بھر لوگوں کی ایک ایسی اقلیت کی انفرادیت کا غلام بنا دیا جاتا ہے جس کے قبضے اور دسترس میں ذرائع پیداوار ہیں اور اس ناطے اس کے ہاتھ میں خود زندگی کی کلید ہے۔ اور اگر سچ کہیں تو یہ اقلیت بھی ان طاقتوں (یعنی سرمایہ) کے ہاتھوں غلام ہی ہے جو کہ ان کے بس سے باہر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود یہ اقلیت بھی ایسی قوتوں کی مرہونِ منت ہے جس پر اُنہیں خود بھی اختیار نہیں۔

بیگانگی اور بورژوا سماج
مارگریٹ تھیچر، جس کے مرنے پر کوئی آنکھ بھی اشکبار نہ ہوئی، نے ایک بار صریحاً کہا تھا کہ، ’’دنیا میں سماج نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں۔‘‘
لیکن ارسطو نے کہا تھا کہ انسان ایک سیاسی حیوان ہے، اس کا مطلب تھا کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ تمام انسانی ترقی کا راز سماجی سرگرمی ہے جس میں سوچ اور گفتگو بھی شامل ہے اور اس کی جڑیں اجتماعی محنت میں ہیں۔ ہیگل کہتا ہے کہ کسی شخص کی قوتِ متخیّلہ کا انحصار اس کے دیگر لوگوں کے ساتھ تعلقات پر ہے۔ جن لوگوں کو کسی اُجاڑ بیابان جزیرے میں قیدِ تنہائی کی سزا کاٹنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے ان کی سوچنے سمجھنے اور ابلاغ کی صلاحیتیں بُری طرح متاثر ہوجاتی ہیں۔
سرمایہ داری لوگوں کو تنہائی، مغائرت اور ایک دوسرے سے دُوری کی طرف لے جاتی ہے۔ اُنہیں سکھایا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ’’انفرادی وجود‘‘ ہیں، جیسے کہ علیحدہ علیحدہ ایٹم۔ یہ بات بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی سماجی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جو کہ مستقل طور پر ایک دوسرے سے متصادم رہتی ہیں۔ اس کا عکس ہمیں سیاست، مذہب اور فلسفے میں ملتا ہے۔ بورژوازی نے اپنی پہلی جنگِ عظیم مذہبی جنگوں کے دوران جاگیر داری کے خلاف سولہویں اور سترھویں صدیوں میں لڑی جب پروٹسٹنٹ فرقے کے پیرو کاروں نے ہر فرد کایہ حق مانگا کہ وہ اپنے طریقے سے خدا کی عبادت کرے۔
سرمایہ داری کی ابتدا میں ’بورژوا انفرادیت پسندی‘ ایک ترقی پسند قوت تھی۔ اُس وقت تک بورژوازی، پیداواری قوتوں کو ارتقا پذیر کرنے اور اُنہیں انسانی تہذیب اور ثقافت کے اُفق پر گامزن کرنے کے قابل تھی۔ لیکن اس کا یہ کردار تاریخ کی دھند میں کہیں پَچھڑ گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ دور کی بوسیدگی سے انفرادیت، محض خود پرستی، خود غرضی اور غیرانسانی رویوں کی حامل کٹھورتا بن کے رہ گئی ہے۔ یہ دوسرے انسانوں کی تکلیف سے لاتعلق رہنا سکھاتی ہے۔ اس سے وحشیانہ طرزِ عمل اور رویے کوتحریک ملتی ہے جس سے انسانی تہذیب اور ثقافت کی جڑوں ہی کے کھوکھلا ہوجانے کا خطرہ در پیش ہے۔
ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہم ’’آزاد ‘‘ہیں، اور ایسا سوچنا ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ جرمن فلسفی لیبنیز نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر ایک مقناطیسی سُوئی سوچ سکتی تو یقیناًوہ یہی خیال کرتی کہ وہ اپنے آزاد ارادے ہی سے شمال کی طرف رُخ کر لیتی ہے۔ انیسویں صدی میں ڈاروِن نے اس بات کے لئے باقاعدہ جنگ کی کہ نوعِ انسانی کسی ذاتِ اعلیٰ کی تخلیق نہیں بلکہ یہ جانوروں ہی کی دنیا سے ارتقا پذیر ہوا ہے۔ بیسویں صدی میں فرائیڈ نے ہمیں دکھایا کہ ہمارے بہت سے اعمال لاشعوری ہیں اور یہ کہ ’’آزادمرضی‘‘ حقیقت میں ایک سراب ہے۔
تاہم، ہر مرحلے پر آدمیوں اور عورتوں نے ان حقائق سے منہ پھیرنے کی کوشش کی اور اشیا کے عظیم سلسلے میں نوعِ انسانی کے ایک خاص، ممتاز مقام کے حامل ہونے پر اصرار کرتے رہے ہیں۔ یہ خیال ہماری عقل وفہم سے متناقض ہے کہ ہم آزاد مختار نہیں ہیں اور یہ کہ ہمارے اعمال ان قوتوں سے متعین ہوتے ہیں جنہیں نہ تو ہم سمجھ سکتے ہیں اورنہ ہی یہ ہماری دسترس میں ہیں۔ جیسا کہ ہیگل نے وضاحت کی تھی کہ، سچی آزادی، لازمیت کا انکار نہیں بلکہ لازمیت کو جاننا ہے۔
شعور طبعی ماحول سے متعین ہوتا ہے۔ اگر البرٹ آئن سٹائن ہندوستان کے کسی کسان کے گھر میں پیدا ہوا ہوتا، تو ہو سکتا ہے کہ اس کی جنمی ذہانت اسے چاول کی کاشت کاری کا ایک ماہر بنا دیتی، لیکن کیاکوئی اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ وہ نظریہ اضافیت دریافت کر لیتا؟ ٹراٹسکی نے ایک بار پوچھا تھا: ’’کتنے ارسطو ہیں جو کہ سور چرا رہے ہیں اور کتنے سور چرانے والے ہیں جو کہ شاہی تختوں پہ براجمان ہیں؟‘‘
سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز ہی خود غرضی کی بنیاد پر قائم ہے۔ لیکن محنت کش طبقے میں معاملات بہت مختلف ہیں۔ مارکس بتاتا ہے کہ تنظیم کے بغیر محنت کش طبقے کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں کہ وہ استحصال کے لئے خام مال ہے۔ مزدوروں کو پیداوار ی لائن میں اجتماعی محنت میں آپسی تعاون پر مجبور کیا جاتا ہے، جہاں طبع پیداوارانفرادی کے بجائے سماجی ہوتا ہے۔ ایک کسان یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’یہ گوبھی کا پھول میں نے اُگایا ہے‘‘ لیکن فورڈ کمپنی کا کو ئی مزدور یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’یہ کار میں نے بنائی ہے۔‘‘
مزدور کا شعوران وجوہات کی بنا پر فطرتاً اجتماعی ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ہتھیار اپنے کردار میں اجتماعیت کے حامل ہیں مثلاً ہڑتال، عام ہڑتال، مزدوروں کے جلسے اور مظاہرے۔ انفرادیت تو ایک ہڑتال توڑنے والے مزدور کی وجہ امتیازہو سکتی ہے جوکہ اپنے ذاتی خود غرضی پر مشتمل مفادات کو اپنے ساتھی مزدوروں کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ پریس اور میڈیا ہمیشہ اُس کالی بھیڑ کے ’’حوصلے‘‘ کی تعریفوں کے پُل باندھتا ہے، جو کہ مبینہ طور پر ’’فرد کی آزادی ‘‘ کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے۔
مرد اور عورتیں اپنے گرد موجود حالات کو تبدیل کرنے اوراپنے مطابق ڈھالنے کی لڑائی لڑتے ہوئے اپنی تاریخ خود بناتے ہیں۔ تاہم، حالات کو تبدیل کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو بھی تبدیل کر تے ہیں۔ ایک ساکت، جامد اور دائمی شئے کا ’’ انسانی فطرت‘‘ کے نام سے تصور ایک خاص قسم کے گہرے تعصب پر مبنی ہے، لیکن در حقیقت یہ ایک بے بنیاد خیال ہے۔ نام نہاد فطرتِ انسانی، تاریخ میں لاتعداد بار تبدیل ہوئی۔ یہ اب بھی حالتِ تبدیلی میں ہے اور مستقبل میں اور زیادہ تبدیل ہوگی۔
ہم اپنے سے ایک بیگانی اورمبہم دنیا میں رہتے ہیں، جسے لوگ جان نہیں سکتے۔ ایسی دنیا جہاں عقل کی بات کرنے کا رواج ہی نہیں۔ ایسی دنیا، جہاں بہترہے کہ سرے سے سوچا ہی نہ جائے۔ جدید بورژوا فلسفے کا کھوکھلا پن اس خیال کا پورے طور پرعکاس ہے، جیسا کہ ہم ’’مابعد جدیدیت‘‘ (Post Modernism) کے لایعنی، پھِیکے اور احمقانہ ’’فن پاروں‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ مرد و زن کو یوں لگتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں پر اِختیار کھو چکے ہیں، اور اُنہیں ناقابلِ شناس اور بعیدالقیاس قوتوں کی جانب سے اِدھر اُدھر کیا جارہا ہے جو کہ اُن کی دسترس سے باہر ہیں۔ انسانی زندگی سے اس کی تمام قدر اور انسانیت نوچ لی گئی ہے اور اسے بربریت اور تشدد کے ایسے گڑھوں میں دھکیل دیا گیا ہے جو کہ ایک مہذب اور تعقلی زندگی کی بنیاد ہی کو برباد کر دیتے ہیں۔ ہیگل کے کہنے کے مطابق ’’تعقُّل، عدم تعقُّل بن جاتا ہے‘‘۔
بیگانگی جو کہ آج جدید بورژوا سماج میں زندگی کا خاصہ بن چکی ہے، مقبولِ عام ثقافت میں بھی نظر آتی ہے۔ اس بات کی کوئی کیا وضاحت کر سکتا ہے جو کہ جدید بیگانی سحر انگیزی روبوٹوں سے پیدا کی جارہی ہے؟ ایسے روبوٹ جو کہ انسانی اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں اور دنیا پر قبضہ جما لیتے ہیں جیسا کہ’’ ٹرمینیٹر‘‘ سلسلے کی فلموں میں مسلسل پیش کیا جارہا ہے۔ سائنس فکشن کے یہ نمونے، ہمیں انسانوں یا روبوٹوں کے شعور کی ماہیت کے متعلق بہت کم، یا پھر کچھ بھی نہیں بتاتے۔ لیکن اس کے برخلاف یہ اس بیگانی دنیا کے بارے میں بکواس کے انبار لگا دیتے ہیں جس میں نسلِ انسانی اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں رہ رہی ہے۔
ٹرمینیٹر کے ڈراؤنے خوابوں کی دنیا میں ’’چیزیں‘‘ (مشینیں، روبوٹ) دنیا پر قبضہ کر لیتی ہیں اور لوگوں کو اپنا غلام بناناشروع کر دیتی ہیں۔ لیکن یہ ہولناک خواب پہلے سے ہی ایک حقیقت ہے۔ ہمارے دور میں انسانوں کو شئے کے درجے تک گرا دیا گیا ہے اور اشیا (خاص طور پر روپیہ پیسہ) کی حیثیت انسانوں سے فائق کر دی گئی ہے۔ پہلے وقتوں میں قدیم مذاہب کے کاہن مولاک کے بُت کے سامنے بچوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ آج ہر سال لکھوکھا بچے سرمایے کی قربان گاہ پر بَلی چڑھا دیے جاتے ہیں۔
بیگانگی کی اس طرز کا خاتمہ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس کی مادی بنیاد کا خاتمہ کر دیا جائے۔ عدم تعقلی اور خرد دشمن سوچ کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ سماج میں موجود بنی نوعِ انسان کے مابین غیر منطقی اور غیر انسانی رشتوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس احساس کے خاتمے کا، کہ ہم اپنی زندگیوں اور نصیب پر دسترس کھو چکے ہیں، کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ تضاد کے حامل پیداواری تعلقات کو اُٹھاکے پھینک دیا جائے اور ایک تعقُّلی منصوبہ بند معیشت استوار کی جائے جہاں تمام فیصلے جمہوری انداز میں آزاد مرد اور عورتیں کریں۔
ایک تعقّلی معاشرے میں، یعنی سوشلزم کی منصوبہ بند سوسائٹی میں، لوگوں کی چیزوں کے ہاتھوں غلامی کو آزاد مردوں اور عورتوں سے بدل دیا جائے گاجو چیزوں کا انتظام کریں گے۔ مشینوں کا غلام ہونے کے بجائے، مشینیں ہماری تابع فرمان غلام ہوں گی۔ سرمایہ داری کے تحت ٹیکنالوجی میں آنے والی ہر پیشرفت محض کام کے دن کو لمبا کرنے اور مزدوروں کی دست نگری میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سوشلزم میں بجائے اس کے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ قدرِ زائد پیدا کرنے کے لئے لمبے اوقاتِ کار کے لئے مشقت کریں، کام کم کریں گے اور زندگی کو زیادہ جیئیں گے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی گزشتہ صدی کی حیران کن دریافتوں نے ہر وہ چیز ہماری ہتھیلی پر رکھ دی ہے جو اس کرۂ ارض کی کایا پلٹنے کے لئے درکار ہے۔ سائنس نے کائنات کے جن حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے وہ مذہب کی طرف سے آشکار کی گئی ان تمام فرضی ’’آسمانی سچائیوں‘‘ سے اعلیٰ تر اور ولولہ خیز ہیں۔ اپنی زندگی کے شرائطِ کار میں انقلاب برپا کرتے ہوئے، انسانیت خود اپنی حالت کو تبدیل کرنے کی راہ نکالے گی، جس سے ہماری نوع کی قدیمی تاریخ کا خاتمہ ہو گا۔ تا کہ انسان، انسانوں کی طرح زندگی گزارے، کام کرے اور سوچے، نہ کہ جانوروں کی طرح؛آزاد مردوں اور عورتوں کی طرح جیے نہ کہ غلاموں کی طرح۔
یہ بات ہمیں واپس مارکس کے فیورباخ پر تیسرے تھیسس کی طرف لے جاتی ہے:
’’مادی فلسفے کی یہ تعلیم کہ لوگ محض ماحول اور اپنی تربیت یا اٹھان کی ہی پیداوار ہوتے ہیں، چنانچہ بدلے ہوئے لوگ دراصل مختلف ماحول اور مختلف تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں، یہ تعلیم اس بات کو بھول جاتی ہے کہ حالات یا ماحول کا بدلا جانا بھی تو لوگوں کے ہی دم سے ہوتا ہے، اور یہ کہ جو تربیت دیتے ہیں انہیں خود بھی تو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مادی فلسفے کی یہ تعلیم چارو ناچار اس نوبت کو پہنچ جاتی ہے کہ معاشرہ کو دو حصوں میں بانٹ دے، جس کا ایک حصہ پورے سماج سے بلند و برتر ہو، (مثال کے طور پررابرٹ اووین کی تحریریں ملاحظہ ہوں)۔ ماحول کا اور انسانی سرگرمی کا بیک وقت بدلتے رہنا تب ہی سوچا جا سکتا ہے اور معقولیت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے، جب ہم اسے ایسے عمل کی صورت میں دیکھیں جو انقلاب لاتا رہتاہے۔‘‘
اس کا سیدھاسادہ مطلب یہی ہے کہ اپنی سوچ کو انقلابی بنانے کے لئے معاشرے کو انقلابی بنانا ہوگا۔
لندن، 17مئی، 2013ء

Comments are closed.