سکردو: گندم کے بحران اور دیگر مسائل کے خلاف عوامی احتجاج

|رپورٹ: احسان علی ایڈووکیٹ|

سکردو میں انجمن تاجران کی طرف سے ایک احتجاج جاری ہے جن کے بنیادی مطالبات یہ ہیں۔

1۔ گندم کوٹہ کٹوتی کی وجہ سے پیدا بحران کا خاتمہ
2۔ جی بی فنانس ایکٹ 2022ء اور ریونیو اتھارٹی ایکٹ 2022ء کے ذریعے چھوٹے بڑے تاجروں پہ مختلف کے فیسوں کے نام پہ عائد کردہ ٹیکسز کا خاتم
3۔ 20 گھنٹے سے زائد بجلی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ
4۔ مقامی باشندوں کی مشترکہ غیر آباد زمینوں پہ حکومت کی طرف سے خالصہ سرکار لینڈ کے نام پہ قبضے کا خاتمہ

اس احتجاج میں موجود تاجروں کا زیادہ زور گزشتہ سال 2022ء کے بجٹ میں عائد ٹیکسز کے خاتمے پر ہے۔ سخت سردی کے باوجود سکردو میں تاجروں کے ساتھ عام لوگوں نے بھی اس تحریک میں بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ گندم کا بحران اور لوڈ شیدنگ جیسے مسائل کی شدت بھی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں منفی 11 تا منفی 15 ڈگری کی سخت ترین سردی میں بھی سڑکوں پر ہے۔

اس تحریک کی عوامی پذیرائی کی ایک بڑی وجہ یہاں پر تمام شعبوں کے افراد کا اتحاد بھی ہے۔ایم ڈبلیو ایم جیسی دائیں بازو کی فرقہ پرور پارٹیاں بھی تحریک کی قیادت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی۔

اس کے مقابلے میں گلگت سٹی میں بھی یہی مسائل درپیش ہیں لیکن اتحاد نہ ہونے کے باعث اور پھوٹ کی وجہ سے تحریک خاصی کمزورہے۔ یہاں تاجروں کی تنظیم بھی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے نیز گلگت میں مذہبی، لسانی اورعلاقائی تعصبات بھی شعوری طور پر مسلط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام پارٹیاں بھی اپوزیشن میں ہونے کے باعث تحریک کوکمزور کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور عوامی اتحاد کو مختلف طریقوں سے کمزور کر رہی ہیں۔

تحریک کے دباؤ کی وجہ سے نئے سال کے آغاز پر حکومت کی ایما پر سکردو میں کمشنر بلتستان کی وساطت سے تاجروں کے ساتھ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے گندم بحران کے خاتمے کیلئے پنجاب حکومت سے اپنے بجٹ سے اضافی گندم خریدنے کا بھی فیصلہ کیاہے، جبکہ تاجروں کو یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ تاجروں پہ عائد کردہ مختلف ٹیکسوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔ نیز یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ تحریک کے قائدین لمبے عرصے تک سڑکوں پر رہنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تحریک کو وسعت دیتے ہوئے سماج کی مزید پرتوں بالخصوص محنت کش طبقے کو منظم انداز میں شامل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے مطالبات منظور ہونے سے قبل ہی احتجاجی تحریک کو انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن یہ بحران عارضی نوعیت کا نہیں اور نہ ہی حکمران طبقہ ان مطالبات کو مکمل طور پر تسلیم کرے گا بلکہ جھوٹے وعدوں اور حیلے بہانوں سے تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی لیے آنے والے عرصے میں تحریک زیادہ شدت سے دوبارہ ابھر سکتی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ ان مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور ان مسائل کے حل تک ناقابل مصالحت جدوجہد جاری رکھے گا۔

Comments are closed.