کوئٹہ: مزدور کانفرنس بعنوان ”انقلاب روس اور آج کی مزدور تحریک“ کا انعقاد

|رپورٹ: ریڈورکرز فرنٹ، کوئٹہ|

29 اکتوبر بروز جمعرات کوئٹہ پریس کلب میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے انقلاب روس کی 103ویں سالگرہ کے موقع پر ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے مزدور کانفرنس بعنوان ”انقلاب روس اور آج کی مزدور تحریک“ کا انعقاد ہوا۔ پہلے اس مزدور کانفرنس کے انعقاد کے لیے میونسپل کارپوریشن کے ہال کا انتخاب ہوا تھا مگر ضلعی اور صوبائی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آخری گھنٹوں میں پریس کلب کا ہال بُک کرنا پڑا۔

مزدور کانفرنس میں مختلف اداروں اور شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندگان نے مزدور کانفرنس میں شرکت کی۔

کانفرنس کی صدارت ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے صوبائی آرگنائزر کریم پرہار نے کی جب کہ کراچی سے آئے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما پارس جان مہمان خصوصی تھے۔

کانفرنس کے تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے رزاق غورزنگ نے کہا کہ ہم آج جس عنوان کے تحت مزدور کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں یہ واقعہ انسانی تاریخ اور بالخصوص بیسویں صدی کا ایک عظیم واقعہ تھا جس میں ریاست کا کنٹرول روس کے محنت کش طبقے کے ہاتھ میں آگیا۔ اس کے بعد روس جیسا انتہائی پسماندہ ملک بہت کم وقت میں اتنی ترقی کر گیا کہ وہاں پسماندگی، غربت، لاعلاجی، ناخواندگی، محرومی اور استحصال کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ انقلابِ روس نے مزدوروں کو زار روس کی بادشاہت سے اور صدیوں کے ظلم و جبر اور استحصال کے نظام سے آزاد کرایا اور ایک غیرطبقاتی سماج کی تعمیر کا آغاز کیا جہاں امن، روٹی اور زمین ہر انسان کا بنیادی حق ٹھہرا۔ اس انقلاب نے عالمی مزدور تحریک کی ہمت اور یقین میں بھی اضافہ کیا۔ یہ انقلاب یورپ کے سرمایہ داروں کے لیے موت کا پیغام تھا اور دوسری طرف دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے آزادی کی جدوجہد کا استعارہ تھا۔ 1917ء میں اقتدار پر قبضہ کرتے ہی بالشویک پارٹی نے سب سے پہلے نجی ملکیت کو ختم کیا۔ تمام جاگیریں غریب کسانوں میں تقسیم کی گئیں۔ 8 گھنٹے کام کے اوقات کارقانونی کردیے گئے۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم مفت کردی گئی۔ 1940ء میں تقریبا 90 فیصد عوام کو لکھنے اور پڑھنے پر عبور حاصل تھا۔ 1918ء میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ زچگی کے دوران اور اس کے چھ ماہ بعد مکمل چھٹی بمعہ تنخواہ کو یقینی بنایا گیا۔

اس کے بعد بلوچستان ٹیکنیکل ڈرافٹس مین اسیوسی ایشن کے صدر نظام الدین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کل مزدور تحریک میں نظریات کی بحث موجود نہیں ہے جسکی وجہ سے تمام ٹریڈ یونینوں کی لیڈرشپ آج انقلابی سیاست سے خوفزدہ ہے اور لین دین کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔

کانفرنس سے آل پاکستان کلرک ایسی ایشن، بولان میڈیکل کالج کے سینئر نائب صدر اکرم کاکڑ نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی کاوش کو سراہا اور کہا کہ انقلابِ روس جن نظریات کی بنیاد پر کامیاب ہوا تھا آج ہمیں ان تمام نظریات کی ضرورت ہے تاکہ مزدور طبقے کو اپنے نظریات اور تاریخ کا ادراک ہو سکے۔

بلوچستان ایگریکلچر ایمپلائز یونین کے صوبائی جنرل سیکرٹری منظور بلوچ، پیرا میڈیکس سٹاف ایسوسی ایشن سول ہسپتال کے صدر شفاء مینگل، پاکستان ورکرز فیڈریش کے محمد حنیف، آل بلوچستان کلرک اینڈ ٹیکنیکل ایمپلائز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر شکر خان رئیسانی اور مرکزی جنرل سیکرٹری شمس اللہ کاکڑ نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ جبکہ کانکن لیبر یونین کے صدر اقبال خان اور PTCL ایمپلائز یونین کے صدر صلاح الدین تقریب کے آخر میں پہنچے جن کو تقریر کا موقع نہیں مل پایا۔

تقریب سے ایپکا بی ایم سی یونٹ کے صدر باسط شاہ نے کہا کہ ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں کی کاوش کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ مزدو طبقے کے حقیقی نظریات کو محنت کشوں تک لے کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے بی ایم سی بحالی تحریک کے حوالے سے مفصل بات کی۔

مزدور کانفرنس کے مہمانِ خصوصی ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما پارس جان نے ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے ٹیم کی کاوش کو سراہااور آئی ہوئی تمام مزدور یونینز، ایسوسی ایشنز اور طلبہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان میں مزدور تحریک کو نظریات اور انقلابی سیاست سے دور کر دیا گیا ہے، اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد یقینا قابل تعریف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں جہاں ٹریڈ یونین قیادتوں کی جانب سے نظریاتی بحث و مباحثہ کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے تو وہیں دوسری جانب نیچے سے مزدوروں میں انقلابی نظریات کی پیاس میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پارس جان نے کہا کہ باقی مقررین نے ٹریڈ یونین قیادتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو اس عمل کی غمازی کرتا ہے کہ اس وقت قیادت اور عام مزدوروں کے درمیان فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ عام مزدور اپنی قیادت کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک بھر میں دو قسم کی سیاست چل رہی ہے۔ ایک سیاست حکمران طبقے کی ہے جبکہ دوسری اور اصل سیاست محنت کش طبقے کی ہے، جس کا اظہار ہم نے 25 سال بعد 6 اور 14 اکتوبر کو اسلام آباد میں دیکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف کورونا سے دس لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس دوران عالمی مالیاتی بحران میں بھی بہت زیادہ شدت آچکی ہے۔ جس کے نتیجے میں دو ارب کے قریب افراد کا روزگار داؤ پر لگ چکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال دنیا میں مزید 27 کروڑ افراد شدید بھوک کا شکار ہوں گے جو ان کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دے گا۔ اسی طرح کروڑوں افراد دنیا بھر میں بیروزگاری کے باعث اپنے مکانوں کے کرائے ادا نہیں کر پا رہے اور انہیں مکانوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے جس کے باعث خصوصاً بچے اور بوڑھے موت کے منہ میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ کورونا وباء کے دوران دنیا کے تمام بچوں میں سے لگ بھگ ایک تہائی یا 46 کروڑ 30 لاکھ بچے تعلیم سے محروم رہے اور کسی بھی طرح تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر سکے۔ یہ صورتحال صرف پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ صرف امریکہ میں 5 کروڑ سے زائدافراد چند ہفتوں میں بیروزگار ہوگئے ہیں۔ جبکہ برطانیہ میں 90 لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ یہ تمام صورتحال واضح کرتی ہے کہ یہ انسان دشمن اور قاتلانہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اس پر بنائی گئی ریاست اور اس کے تمام تر اداروں کا کردار عوام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ ان اداروں میں پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں سے لے کر عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا سمیت تمام ادارے شامل ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس نظام کو ختم کر کے ایک سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے جس میں تمام وسائل عوام کی اجتماعی ملکیت میں ہوں اور ہر شخص کو مفت علاج اور تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان بھی مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کیا جائے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے جس کے لیے محنت کشوں کو منظم ہونے کی جتنی ضرورت آج ہے تاریخ میں شاید کبھی بھی نہیں تھی۔

مزدور کانفرنس کے صدارتی کلمات ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے آرگنائزر کریم پرھر نے ادا کیے اور آئے ہوئے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے پیش کیے چند مطالبات، جن میں ریڈیو پاکستان سے حالیہ جبری طور پر برطرف ہونے والے ایک ہزار سے زیادہ ملازمین کے نکالنے اور احتجاج کی پاداش میں ہونے والے ریاستی جبر کی مذمت اور انکے مطالبات کی حمایت، بھی موجود تھا، کے خلاف قراداد منظور کی گئی۔

Comments are closed.