کشمیر: آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تحریک، نتائج و اسباق

|تحریر: یاسر ارشاد|

13 جنوری کو عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر پونچھ ڈویژن میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ پونچھ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں ہزاروں لوگوں نے شاہراہوں اور بازاروں کو مکمل بند کر کے آٹے کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ کشمیر کے مختلف اضلاع کو پاکستان سے ملانے والے چار اہم داخلی راستوں کو ہزاروں عوام نے مکمل طور پر بند کیا جن میں سے دو اہم راستے 14 جنوری کو بھی بند رہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ دھرنے پر بیٹھے رہے۔ آزاد پتن پل دن دوپہر سے شام تک میدان جنگ بنا رہا جہاں نہتے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر اندھا دھند آنسو گیس، پتھراؤ اور لاٹھی چارج کے بے دریغ استعمال کے ساتھ فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے۔ اس وحشیانہ تشدد سے مشتعل ہونے والے مظاہرین نے بعد ازاں پولیس پر دھاوا بولا اور انہیں نہ صرف مار بھگایا بلکہ آزاد پتن پل کے نزدیک موجود پولیس چوکی اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ پلندری، منگ اور تھوراڑ سمیت آزاد پتن سے ملحقہ دیگر علاقوں کے لوگ نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں احتجاج کے لیے نکلے بلکہ راستے میں جگہ جگہ کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑتے اور پولیس کے وحشیانہ تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے جب آزاد پتن پل پر پہنچے تو ان کا موڈ اس حد تک سرکش ہو چکا تھا کہ انہوں نے ریاستی طاقت کی ہر علامت کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ آزاد پتن پر ریاستی تشدد کے خلاف لڑنے والے مظاہرین نے زبردست منصوبہ بندی کے ذریعے پولیس کے لیے پلندری سے ایمبولینس میں منگوائے جانے والے آنسو گیس کے گولے اور اسلحہ کی کمک کو بھی راستے میں روک کر ضبط کر دیا۔ دوسری جانب ٹائیں ڈھلکوٹ میں اہم شاہراہ کو بند کر کے دھرنا دینے والے لوگوں نے شدید سردی کے باوجود تمام رات انقلابی گیت گاتے اور نعرے لگاتے ہوئے ایک فتح کے جشن کی مانند گزاری۔ آزادی اور فتح کا یہ احساس اور سرشاری درحقیقت عوامی اتحاد اور جڑت کے سامنے ریاستی طاقت کے ڈھیر ہو جانے کے باعث تھا۔

Image may contain: one or more people and outdoor

آزاد پتن پل کے نزدیک موجود پولیس چوکی اور گاڑیوں کو عوام نے ریاستی جبر کے جواب میں نذر آتش کر دیا۔

ضلع باغ میں ہڑتال سے قبل بڑے پیمانے کی گرفتاریاں کی گئیں اور 13 جنوری کو وزیر اعظم آزاد کشمیر کے دورے کے پیش نظر تقریباً ایک کرفیو لگا دیا گیااور احتجاج کرنے کے لیے جمع ہونے والے لوگوں کو بھی فوری گرفتار کیا جاتا رہاجس کے باعث وہاں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہو سکا۔ تراڑکھل میں ایک بہت بڑا احتجاج کیا گیا جو دن بھر جاری رہا اور شام کو آزاد پتن پل پر تصادم کی خبریں آتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے آزاد پتن کی جانب مارچ کیا اور دوسرے دن دھرنا ختم ہونے تک وہیں رہے۔ بلوچ میں سینکڑوں مظاہرین نے ایک شاندار احتجاج کیا اور دھرنا دیا جو دوسرے دن بھی جاری رہا۔ ہجیرہ میں بھی ایک زبردست احتجاج کیا گیا جو شام تک جاری رہا اس کے علاوہ ان تین اضلاع کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے بازاروں میں احتجاج ہوئے۔ اس کے علاوہ ضلع کو ٹلی کو راولپنڈی سے ملانے والی اہم شاہراہ کو بھی ہولاڑ کے مقام سے 13 جنوری کو سارا دن مکمل بند رکھا گیا جبکہ مظفرآباد کے کچھ علاقوں سمیت تتہ پانی بازار اور کوٹلی شہر میں بھی احتجاج ہوئے۔ دھیر کوٹ کے مقام پر بھی دھرنا سارا دن جاری رہا اور رات کو جب قیادت نے مختلف حیلے بہانوں سے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی تو عوام نے اس کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا اور کئی بار قیادت کی جانب سے اعلان کے باوجود عوام کے دباؤ کی وجہ سے اس کو جاری رکھنا پڑا لیکن آخر کار قیادت اس دھرنے کو ختم کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ آزاد پتن اور ٹائیں پر دھرنے کو رات بھر جاری رکھنے کے اعلان پر راولاکوٹ کے مرکزی چوک میں بھی مظاہرین نے فوری طور پر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔ سب سے زیادہ سرد مقام ہونے کے باوجود راولاکوٹ میں مظاہرین کی ایک قلیل سی تعداد کے جوش و خروش کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے یخ بستہ رات سڑک پر گزارنے کا فیصلہ کیا۔ عام حالات میں بظاہر نا ممکن آنے والے تمام کام ایک عوامی تحریک کے دوران اجتماعی طاقت کے احساس سے سرشار ذہنوں کو بالکل معمولی لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

بے مثال کامیابی اور پیش رفت

13 جنوری کو پونچھ کے تین اضلاع میں مکمل شٹرڈاؤن، پہیہ جام ہڑتال کے ساتھ تمام سرکاری دفاتر میں غیر اعلانیہ ہڑتال رہی چونکہ مظاہرین نے 12 تاریخ کی رات کو ہی سڑکیں بند کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا جس کے باعث نقل و حمل مکمل طور پر بند ہو گئی تھی۔ 14 جنوری کو بھی کچھ علاقوں میں جزوی جبکہ راولاکوٹ سمیت کئی علاقوں میں مکمل ہڑتال رہی۔ ہڑتال کے پھیلاؤکا عالم یہ تھا کہ دیہاتوں کی کئی ایسی رابطہ سڑکیں تھیں جن کو نوجوانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس نے خود ہی بند رکھا تھا اور احتجاج میں شرکت کے لیے جانے والی گاڑیوں کو بھی بمشکل ہی گزرنے کی اجازت دیتے اور تقاضا کرتے کہ لوگ پیدل سفر کر کے جائیں اس طرح پہیہ جام کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سوائے باغ شہر کے باقی ہر جگہ ہڑتال کا زور تقریباً ایک جیسا تھا اور ہر علاقے میں ہڑتالی عوام کا مکمل کنٹرول تھا، ریاست کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ عوامی جدوجہد کے نقطہ نظر سے یہ ایک زبردست پیش رفت ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تین اضلاع میں مکمل ہڑتال جبکہ مظفر آباد اور کوٹلی کے علاقوں میں جزوی ہڑتال اور احتجاج منظم کیے گیے۔ اس ہڑتال کو ہر علاقے میں منظم کرنے کے لیے سیاسی کارکنان کے ساتھ عام عوام اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ اس ہڑتال کا سب سے اہم پہلو ہی یہی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں عوام اپنے حق کی خاطر سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور منظم ہو کر عملی جدوجہد میں حصہ لیا۔ اس سے قبل یہ لوگ محض انتخابات میں ووٹ ڈالنے یا کسی پارٹی کے انتخابی جلسے میں شرکت کرنے یا پھر کبھی کبھار بھارتی مقبو ضہ کشمیر میں کیے جانے والے کسی بڑے ظلم کے خلاف منعقد ہونے والے کسی احتجاج میں خاموشی سے شرکت کرنے تک محدود تھے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد اپنے بنیاد ی حق کی خاطر سڑکوں پر نکل آئی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا۔ اس ہڑتال کے حوالے سے کوئی کچھ بھی کہے حقیقت یہ ہے کہ عوام نے تاریخ کے میدان میں اپنا پہلا قدم رکھتے ساتھ ہی پہلے سے چلی آ رہی ساری سیاسی بساط کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ نہ صرف حکمرانوں کی بلکہ قوم پرستوں کے فرسودہ نظریات اور پروگرام کا خاتمہ کرتے ہوئے سیاست پر اپنے طبقاتی پروگرام کی مہر ثبت کر دی ہے۔

21 دسمبر کو ضلع پونچھ میں ہونے والی جزوی ہڑتال کے بعد بھی روٹی کو ثانوی اور قومی آزادی اور غیرت کو اولین مسئلہ قرار دینے والے قوم پرستوں کو بھی عوام نے مجبور کیا کہ وہ اس ہڑتال میں شرکت کریں اگرچہ ہڑتال میں شمولیت کے باوجود ان کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کا اس میں کیا کردار ہے۔ اس ہڑتال کے ساتھ ہی اس خطے کی سیاسی تاریخ کے ایک نئے باب اور موڑ کا آغاز ہو چکا ہے۔ دہائیوں تک الحاق اور خود مختاری کے گرد ہونے والی فروعی سیاست کے خاتمے اور عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی جدوجہد کا یہ پہلا فیصلہ کن قدم تھا۔ اس ہڑتال نے کشمیر کے سماج کی طبقاتی تقسیم کو بھی واضح کر دیا ہے جس کو کشمیری قوم پرستی کے نام پر چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس ہڑتال نے واضح کر دیا ہے کہ تمام سرمایہ دارانہ معاشروں کی طرح ہی کشمیر میں بھی بنیادی تفریق طبقاتی یعنی غریب اور امیر کی ہے۔ یہ تفریق اچانک عدم سے وجود میں نہیں آئی بلکہ پہلے سے موجود تھی لیکن قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کی بنیاد پر اس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا تھا۔ آٹے کی تحریک نے واضح کر دیا کہ کشمیر کے غریبوں کا مسئلہ روٹی ہے جب کہ کشمیر کے امیروں کا مسئلہ روٹی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ بیروزگاری سے لے کر مہنگی تعلیم اور علاج سمیت دیگر مسائل کی بنیاد بھی طبقاتی ہے قومی نہیں۔ اسی حوالے سے اس تحریک کی ایک کلیدی اہمیت ہے جس نے مستقبل کی سیاست کے واضح خطوط متعین کر دیے ہیں۔ دوسری جانب یہ محض ایک تبدیل شدہ عہد کی بالکل نئی اور ماضی سے یکسر مختلف طرز سیاست کا ابھی صرف آغاز ہے اور یہ رحجان آنے والے عرصے میں اس نظام کے زوال اور بحرانوں کے باعث مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہر عوامی تحریک کی طرح ہی اس تحریک نے بھی ریاست کا حکمران طبقے کا طبقاتی ہتھیار ہونے کے کردار کو مکمل بے نقاب کر دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں غریب عوام سڑکوں پر سستی روٹی کا مطالبہ کرنے نکلے تھے جن کا مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے ان پر لاٹھیاں، آنسو گیس اور گولیاں برسائی گئیں۔ اسی قسم کا ریاستی جبر جب اکتوبر 2019ء میں PNA کے احتجاجی مظاہرین پر مظفرآباد میں کیا گیا تو زیادہ تر قوم پرستوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ جبر کرنے والی پولیس پنجاب سے منگوائی گئی تھی۔ اس وقت بھی جھوٹے پروپیگنڈے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کشمیری پولیس اچھی ہے لیکن اب کی بار تشدد کرنے والی پولیس کشمیری ہی تھی۔ درحقیقت ریاست کے ادارے کے تاریخی کردار سے نا واقفیت اور قومی تعصب کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کے باعث اس قسم کی سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر کا نام نہاد ریاستی ڈھانچہ بھی یہاں کی حکمران اشرافیہ اور امیروں کی طبقاتی حکمرانی کو غریب عوام پر جبر و تشدد کے ذریعے مسلط رکھنے کا ادارہ ہے۔ عوام اور محنت کشوں کو سرمایہ داروں کی طبقاتی حاکمیت اور استحصال سے حقیقی نجات حاصل کرنے کے لیے اس ریاست کو اکھاڑ کر ایک مزدور ریاست کا قیام کرنا پڑے گا۔

قیادت کا سوال

اس تحریک کے آغاز سے ہی قیادت کا سوال زیر بحث رہا ہے لیکن تمام تر گفتگوفروعی اور شخصیات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ قیادت کا سوال نہ صرف انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے بلکہ کئی حوالوں سے فیصلہ کن بھی ہے۔ سب سے پہلے ان معروضی اور موضوعی وجوہات کی وضاحت ضروری ہے جو اس سوال کو جنم دے رہی ہیں چونکہ بظاہر ایک ہی سوال اٹھایا جا رہا ہے لیکن اس کی وجوہات مختلف ہیں۔ زیادہ تر سیاسی حلقوں کی جانب سے اس سوال کے اٹھائے جانے کی وجہ ان کا اپنا قیادت کا وہی تصور ہے جو ان کی اپنی پارٹیوں یا گروپوں میں رائج ہے۔ اس نقطہ نظر سے جب وہ اس نومولود عوامی تحریک کی قیادت کو مجسم شکل میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں کسی ایک فرد یا دو چار افراد کے گروہ کی صورت میں قیادت دکھائی نہیں دیتی جس پر وہ چیخ اٹھتے ہیں کہ تحریک تو موجود ہے لیکن قیادت نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس ساری تحریک کے دوران ان کی اپنی پارٹیوں کے مرکزی قائدین بے عملی کا شکار رہے اور کوئی کردار ادا نہیں کر سکے۔ سیاسی پارٹیوں کی اس نا اہلی کو چھپانے کے لیے بار ہا کو شش کی گئی کہ تمام پارٹیوں کے قائدین متحد ہو کر ایکشن کمیٹی کو پیچھے دھکیل کر اس کی قیادت پر کنٹرول حاصل کر یں لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ یوں ان حلقوں کی جانب سے قیادت کے فقدان کا سوال حتمی طور پر اس نقطے کی جانب لے جاتا ہے کہ ان تمام قائدین کو جنہوں نے اس تحریک کے آغاز اور پھیلاؤ میں کوئی کردار نہیں ادا کیا ان کو تحریک کی قیادت سونپ دی جائے تو قیادت کا بحران ختم ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عمومی طور پر تحریک کو پیچھے دھکیلنے اور انہی فرسودہ سیاسی ڈھانچوں میں مقید کر کے اس کا خاتمہ کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایک ابھرتی ہوئی عوامی تحریک کو آغاز سے ہی کسی قیادت کے کنٹرول میں کرنے کی کوشش درحقیقت تمام تر قیادتوں کے خوف اور نا اہلی کی پیداوار ہے۔ پس اس موضوعی خواہش سے جنم لینے والا قیادت کے بحران کا سوال تحریک کی حقیقی صور تحال کا عکس نہیں ہے۔ تحریک کی معروضی حقیقت کو اسی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جس طرح یہ عمل وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ موجودہ تمام تر سیاسی ڈھانچے اور قیادتیں ایک عوامی تحریک کو منظم کرنے یا اس کو قیادت فراہم کرنے کی اہلیت سے عاری ہو چکے ہیں اسی لیے عوامی تحریک نے ابھرنے کے لیے ایک نئی تنظیمی شکل کو جنم دیا۔ اگر عوام کے سامنے کوئی ایسی پارٹی یا قیادت موجود ہوتی جس کے بارے میں عوام کو یقین ہوتا کہ وہ ان کے مسائل کے حل کی لڑائی لڑنے کی اہل ہے تو لازمی طور پر ایسا ہوتا کہ عوام اپنی ایکشن کمیٹیاں بنانے کی بجائے اس پارٹی یا قیادت سے رابطہ کرتے۔ دوسری جانب یہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ اس تحریک کی قیادت کوئی دو یا چار افراد کر رہے ہیں، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہر علاقے میں مختلف سیاسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنان اس کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان علاقائی نمائندوں کی باہمی جڑت پر مبنی ضلعی کمیٹیاں جو مجموعی طور پر تحریک کی قیادت کر رہی ہیں وہ محض ان بکھری ہوئی تحریکوں کو باہم یکجا کرنے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ تحریک کی قیادت کے فقدان کا ماتم کرنے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ جس حد تک ممکن ہے اس تحریک کو وسعت دی جائے اور اس کو مزید پھیلایا جائے۔ تحریک کی بڑھوتری اور وسعت اس کو نہ صرف مضبوط کرے گی بلکہ ہر نیا کامیاب اور ناکام اقدام عوام کو سیاسی طور پر زیادہ با شعور کرے گا۔ ناکامیوں اور کامیابیوں سے مزین سیاسی عمل سے گزرے بغیر نہ تو محنت کش عوام کو اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کا موقع میسر آسکتا ہے اور نہ ہی ہر سطح کی قیادت تجربہ کار ہو سکتی ہے۔ اس وقت تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اس نے ہزاروں لوگوں کو باہم جڑت بناتے ہوئے جدوجہد کے عمل میں داخل کر دیا ہے۔ اگر کوئی سیاسی کارکن تحریک سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس کی مضبوطی کے لیے کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کو تحریک پر پرانی قیادتوں کو مسلط کرنے کی بجائے عوام کی نئی پرتوں کو تحریک کا حصہ بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔

کیا یہ ہڑتال کامیاب نہیں تھی؟

ہڑتال میں شامل بے شمار سیاسی کارکنا ن، صحافی اور عام لوگ بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ اتنی بڑی ہڑتال کے نتیجے میں کیا حاصل ہوا؟ یہ درست ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ ہڑتال کی گئی تھی وہ حاصل نہیں ہو سکا اور ہزاروں لوگوں نے شدید سردی اور دیگر تکالیف برداشت کرتے ہوئے پونچھ ڈویژن کو مکمل بند کیا اور پولیس کا جبر بھی برداشت کیا لیکن حکمرانوں نے پھر بھی آٹے کی قیمتیں کم نہیں کیں لیکن یہ اس ہڑتال کا صرف ایک پہلو ہے۔ اول تو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ پورے پونچھ ڈویژن اور چار داخلی راستوں کو بند کرنا از خود ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کو ممکن بنانے والے ہزاروں لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اس ہڑتال کا اعلان کردہ مقصد یہ نہیں تھا کہ آٹے کی قیمتیں کم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرایا جائے گا بلکہ آٹے کی قیمتوں کو کم کرانے کے لیے احتجاج کو ضلع پونچھ سے نکال کر ایک زیادہ وسیع پیمانے پر ہڑتال کو کامیابی سے منظم کیا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ ہڑتال سو فیصد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی بلکہ اس سے بڑھ کر اب اس کی گونج ان تین اضلاع سے باہر کشمیر کے باقی علاقوں میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے اتنے بڑے عوامی تحرک سے یہ امید وابستہ کر لی تھی کہ وہ حکمرانوں کو قیمتوں میں کمی پر مجبور کر لیں گے لیکن ایسا نہ ہونے کی صورت میں انہیں وقتی طور پر ایک مایوسی کے احساس نے گھیر لیا ہے۔ عوام تو اپنی جگہ بے شمار سیاسی کارکنان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی اسی لیے ہڑتال کے کامیاب نہ ہونے کا تاثر کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔ اس ہڑتال کے ساتھ ایک اور حوالے سے بھی توقعات وابستہ تھیں کہ جب پونچھ ڈویژن کے اندر اتنے بڑے پیمانے پر عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہو ں گے تو اس کے زیر اثر کشمیر کے باقی علاقوں کے عوام بھی اس احتجاج میں شمولیت اختیار کر لیں گے اور یوں یہ پورے کشمیر کی ایک تحریک بن جائے گی لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکا۔ اسی قسم کی امیدوں کے پورا نہ ہو سکنے کے باعث اس ہڑتال کو نا کا م قرار دیا جا رہا ہے جو درست نہیں ہے۔ یہ ایک زبردست، ولولہ انگیز، سرکش اور کامیاب ہڑتال تھی اور سب سے بڑھ کر اس نے ہر علاقے میں ہزاروں لوگوں کو متحرک کیا اور یہی اس کا سب سے شاندار کا رنامہ ہے۔ یہ ہزاروں لوگ سیاسی طور پر بیدار ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنے اتحاد کی طاقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ آنے والے عرصے میں لوگ اپنے اتحاد کی طاقت اور ہڑتال کے اوزار کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔

عوامی کمیٹیاں اور مستقبل کی جدوجہد

اس ہڑتال کو منظم کرنے والی عوامی کمیٹیاں ایک زبردست پیش رفت ہے اور جدوجہد کو وسیع عوامی بنیادوں پر منظم کرنے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جس کا نعم البدل کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو مستقبل میں ہر اجتماعی جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہے گی لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ موجودہ کمیٹیاں ہی اپنا تسلسل قائم رکھ پائیں۔ اس تحریک کے خاتمے کے ساتھ ان کمیٹیوں کا غیر فعال ہونا بھیممکن ہے لیکن جونہی کوئی نئی عوامی جدوجہد شروع ہو گی اسی طرح کی کمیٹیاں راتوں رات دوبارہ فعال ہوں گی اور زیادہ وسیع پیمانے پر دوبارہ تشکیل پا ئیں گی۔ ان کمیٹیوں میں ہی یہ صلاحیت ہے کہ وہ تمام سیاسی اور دیگر تفریقوں کو بالائے طاق رکھ کر فوری طور پر عوام اور سیاسی کارکنان کے بڑے حصوں کو کسی ایک مسئلے کے حل کی لڑائی کے لیے منظم و متحرک کر سکیں۔ کئی علاقوں کی عوامی کمیٹیوں نے لوگوں کو اس جدوجہد میں متحد کرنے کے لیے کئی ایک علاقائی اور دیگر تقسیموں کے خلاف شدید لڑائی لڑ کر ان کے قیام کو یقینی بنایا۔ سیاست کو اپنی میراث سمجھنے والے کئی ایک قائدین نے کھلے عام ان کمیٹیوں کے سیاسی کارکنان، پارٹیوں اور بالخصوص قیادتوں کا استحصال کرنے کا الزام لگایا۔ ایسے قائدین کی ان کمیٹیوں سے یہ نفرت بجا بھی ہے چونکہ اپنے طبقاتی مفادات کی تکمیل کے لیے انہوں نے عوام میں جو تقسیم اور نفرت پیدا کر رکھی ہے عوامی کمیٹیوں نے وقتی طور پر ان کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام محنت کش عوام کو اس لڑائی میں حکمرانوں کے خلاف متحد کر دیا ہے۔ بہت ابتدائی سطح پر ہی سہی مگر یہ کمیٹیاں طبقاتی شعور کی بیداری کا ایک منظم اظہار ہیں جس سے حکمران دہشت زدہ ہو رہے ہیں۔ اس نظام کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ اس طبقاتی شعور کو زیادہ واضح کرتاجائے گا اور معاشی مسائل کے گرد ابھرنے والی جدوجہد سیاسی سوالات اور بالخصوص طاقت اور اقتدار کے سوال کو بھی اپنی جدوجہد کا محور بنائے گی۔ آنے والے عرصے میں اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے متحرک ہونے والے عوام پے درپے اور بالخصوص ناکام جدوجہدوں کے تجربات سے انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ بات ان کے سامنے زیادہ سے زیادہ واضح ہوتی جائے گی کہ جب تک اس استحصالی نظام کو اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا ان کے مسائل حتمی طور پر حل نہیں ہو سکتے۔

Comments are closed.