مظلوم اقوام کی جدوجہد اور راہِ نجات

|تحریر: زلمی پاسون|

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں سطح پر دیگر مظلوم اقوام کی نسبت پشتون قوم کے اندر پی ٹی ایم کی شکل میں ایک عوامی تحریک موجود ہے، اور گزشتہ ہفتے سے اسلام آباد میں ہونے والے شاندار جلسہ عام کے بعد سے ایک دفعہ پھر پی ٹی ایم پر ریاستی جبر میں شدت آئی ہے۔ جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں پشتون نوجوانوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں۔ جہاں تک اس تحریک کے آگے بڑھنے کا تعلق ہے تو یہ اب اپنے ارتقا کے اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے اور قیادت کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہو گیا ہے۔ اس تحریک کے آغاز پر ہم کافی لکھ چکے ہیں، کہ اس تحریک کی اُٹھان میں ایک اہم اور بنیادی وجہ عمومی طور پر نام نہاد ”پٹرو ڈالر جہاد“ اور پھر ”وار آن ٹیرر“ کے بعد سابقہ فاٹا میں جب ریاستی پشت پناہی میں طالبانائزیشن کو فروغ دیا گیا، تو ریاست کے بنائے گئے بُت ان کے لیے مسئلہ بنتے گئے۔ اور ایک وقت میں ان ریاستی اثاثہ جات نے ریاستی رِٹ کو للکارتے ہوئے اپنی حکومت کا اعلان کیا۔ جبکہ اس سب سے پہلے ریاست نے سابقہ فاٹا میں مختلف ناموں سے فوجی آپریشنز کرتے ہوئے سوائے دہشتگردوں کو ختم کرنے کے ہر حوالے سے تباہی مچا دی۔ ریاستی جرائم اور سامراجی عزائم کے نتائج کے خلاف پی ٹی ایم کا اُبھار ہوا، جوکہ آج تک مختلف نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے جاری ہے۔ اس موضوع پر آگے جاکر تفصیل سے بات کریں گے۔

تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ: ریاست پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تلک اس ملک میں مظلوم اقوام کا مسئلہ نہ صرف جوں کے توں پڑا ہے، بلکہ اس میں وقت کے ساتھ شدت آرہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان مظلوم اقوام کا زندان ہے۔ جس طرح بالشویک انقلاب کے عظیم رہنماء کامریڈ لینن نے زار شاہی کے حوالے سے کہا تھا کہ روس مظلوم اقوام کا جیل خانہ ہے۔ ریاست پاکستان کی کمپوزیشن میں اہم تبدیلی صرف بنگلہ دیش کی آزادی کی صورت میں اس ریاست کے سینے پر ایک وار ہے، مگر وہ آزادی بھی قوم پرست سیاست کے بجائے سرخ پوشوں کی مزاحمتی تحریک کے مرہون منت ہے۔ جس پر پھر کبھی بحث کی جاسکتی ہے۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں مظلومیت کے شکار اقوام کی جدوجہد اور ممکنہ راہِ نجات کے حوالے سے بات کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ آج عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کے عہد میں نظام کی حدود کے اندر رہ کر آزادی ممکن نہیں رہی، مگر دوسری جانب تمام مظلوم اقوام کی جدوجہد اسی زوال پذیر نظام کے اندر رہ کر ہی حاصل کرنے کی تگ و دو جاری ہے۔ لہٰذا اس بحث کو نظریاتی طور پر سمجھنا اور آگے بڑھانا انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ کیا اس موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہم آزادی جیسی عظیم نعمت کو حاصل کرسکتے ہیں؟

قومی سوال کا تاریخی حل

یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ قومی سوال کو حل کرنے کی ذمہ داری بالخصوص سرمایہ دارانہ نظام کی تھی، مگر سرمایہ دارانہ نظام نے اس سوال کو اپنی غیر ہموار اور مشترکہ ترقی کی مرہونِ منت محض یورپ کے چند چھوٹے خطوں تک محدود کرتے ہوئے حل کیا۔ یوں دنیا کی ایک وسیع و عریض خطے میں قومی سوال اب تک حل طلب ہے، اور یہ سوال پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جس کی واضح مثال پاکستان میں برسرپیکار عوامی و مسلح جدوجہد کی تحریکیں ہیں۔

قومی سوال کا بہترین حل روس میں 1917ء میں برپا ہونے والے انسانی تاریخ کے عظیم سوشلسٹ انقلاب کے بعد کیا گیا تھا۔ افسوس کہ اس عظیم الشان تاریخی تجربے کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں برسرِ پیکار قومی آزادی کی تحریکوں کے شرکاء سے چھپایا جاتا ہے۔ اس انقلاب نے زار شاہی کے روس کو ملیامیٹ کرتے ہوئے تاریخ کی پہلی مزدور ریاست اور رضاکارانہ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا۔ جبکہ زار شاہی کے جبر کا شکار تمام مظلوم اقوام کو بالشویک پارٹی کی نڈر اور انقلابی قیادت نے آزاد کراتے ہوئے ایک مزدور ریاست کی شکل میں جمع کیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بھی وہ تمام مظلوم اقوام آج دنیا میں آزادانہ ریاستوں کے طور پر موجود ہیں۔ گوکہ سوویت یونین کے ٹوٹنا اپنے جوہر میں رد انقلابی اور رجعتی عمل تھا، مگر یہاں اُس موضوع کی بجائے قومی سوال سے متعلق بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان میں قومی جبر کے خلاف سطح پر موجود تحریکیں

پاکستان میں قومی جبر کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے مختلف اقوام کی مختلف ادوار میں مختلف طریقہ کار کے تحت تاریخی جدوجہد رہی ہے۔ قومی آزادی جیسے عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان بھر میں ان مظلوم اقوام کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں ان تحریکوں کو نظریاتی اور عوام میں مقبولیت کے حوالے سے مزید قوت عطاء کرتی تھیں، کیونکہ سوویت یونین کے انہدام سے پہلے ان تمام تر قومی تحریکوں پر بائیں بازوں کی ایک چھاپ ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے ان تحریکوں میں ترقی پسندی کے رجحانات کافی حد تک پائے جاتے تھے۔ اس بنیاد پر وہ عوام میں کافی حد تک اثر رسوخ بھی رکھتے تھے۔ جبکہ پاکستان میں ان کی سیاست کا پیمانہ اسٹیبلشمنٹ مخالف رہا۔ گوکہ ان تمام سیاسی رجحانات میں نظریاتی کمزوریاں بدستور اپنی جگہ برقرار رہیں مگر انہوں نے کبھی بھی (چند ایک کو چھوڑ کر) موقع پرستی کو منہ نہیں لگایا۔ مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان تمام تر قوم پرست تحریکوں اور پارٹیوں نے اپنا سیاسی قبلہ یکسر ماسکو سے تبدیل کرتے ہوئے واشنگٹن کی طرف کر دیا جس کے بعد ان تمام تر مروجہ سیاسی قوم پرست رجحانات کی سیاسی اور نظریاتی زوال پذیری کا آغاز ہونے لگا اور یوں یہ تمام تر قوم پرست رجحانات موقع پرستی اور مہم جوئی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے جہاں سے اب تک نہ صرف وہ نکلنے میں ناکام ہیں، بلکہ انہوں نے اپنی تمام تر عوامی حمایت کو کھو ڈالی اور یہ تمام تر سیاسی رجحانات اس وقت ہوا میں معلق ہیں۔

بلوچ قومی سوال کے حوالے سے اگر ہم محض گزشتہ دو دہائیوں کی بات کریں کہ جہاں پر 2006ء کے بعد شروع ہونے والی مسلح جدوجہد نے بلوچ قومی سوال کو پورے پاکستان سمیت عالمی سطح پر ایک مہمیز عطا کی۔ اس ضمن میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے اس مسلح جدوجہد کو کافی عرصے تک کیڈرز کی ایک بہت بڑی کھیپ مہیا کی۔ مگر شدید ریاستی جبر کے بعد بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے سینکڑوں ممبران کو نہ صرف یہ کہ اب تک مختلف زندانوں میں رکھا گیا ہے بلکہ ان سے کئی گنا زیادہ تعداد میں فیک انکاؤنٹرز، مسخ شدہ لاشوں اور جعلی مقابلوں میں مار دیا گیا ہے۔ ریاستی جبر میں شدت کے بعد اس تحریک کی عوامی سطح پر بھی حمایت کم ہونے لگی جبکہ ساتھ ہی ساتھ ان کو کیڈرز کی فراہمی میں بھی شدید کمی آگئی۔

بلوچ مسلح قومی جدوجہد نے بلوچ سماج کو ہر حوالے سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں دو انتہائیں دیکھنے کو ملیں۔ پہلی انتہا بلوچ مسلح جدوجہد ہے جبکہ دوسری انتہا یہاں پر شدید قسم کی موقع پرستی اور ریاستی دلالی ہے۔ نظریاتی زوال پذیری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس وقت بلوچ مسلح جدوجہد کے اندر بھی لبرل قوم پرستی کے نظریات چھائے ہوئے ہیں، جبکہ ان سے پہلے مسلح بغاوتوں پر ایک محدود پیمانے تک بائیں بازوں کے نظریات کی چھاپ ہوا کرتی تھی۔ بعض اوقات یہ نظریاتی زوال پذیری نسل پرستی تک بھی چلی جاتی ہے جہاں پر تمام تر نظریاتی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے لوگوں کو محض ان کی نسل، زبان اور قومیت کی بنیاد پر قتل کیا جاتا ہے۔ گوکہ اس کے لیے دلیل ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، محض ریاستی مشینری کے ایجنٹ کا لیبل لگا کر اُس قتل کو قانونی شکل دے دی جاتی ہے۔

بلوچ قومی تحریک کو اگر ہم سائنسی انداز سے دیکھتے ہیں تو اس وقت سطح پر موجود تمام سیاسی موقع پرست رجحانات سے لوگ انتہائی بدظن ہو چکے ہیں اور ان سیاسی رجحانات سے بدظنی کے رد عمل میں ان کی ہمدردی مسلح جدوجہد کے ساتھ ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مسلح جدوجہد میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ بلوچ سماج میں اس وقت متبادل کی تلاش پاکستان بھر میں دیگر مظلوم اقوام کی نسبت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس متبادل کی پیاس صرف مارکسزم کے نظریات سے ہی بجھائی جا سکتی ہے۔ کیونکہ بلوچ سماج جس مشکل، اذیت اور تکلیف دہ حالات سے گزرا ہے، اب وہ یہ مکمل طور پر جان چکا ہے کہ ان کے مسائل کا حل کسی ایسے متبادل نظریات کی موجودگی سے ہو سکتا ہے جن کو کبھی انہوں نے نہیں آزمایا۔ مارکسزم کے نظریات کو اس وقت کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کیونکہ جن نظریات کا وقت آجائے دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہ ہی مٹا اور نہ ہی جھٹلا سکتی ہے۔

پشتون قومی سوال

پشتون قومی سوال کے حوالے سے جو جدوجہد رہی ہے وہ بلوچ قومی سوال سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ فرق موجود ہے کہ بلوچ قومی تحریکوں کا مقصد آزاد ریاست کا قیام ہے، جبکہ پشتون قومی سوال کے حوالے سے محض ایک وقت میں پشتونستان کا ڈرامہ رچایا گیا جوکہ اپنے آغاز سے ہی فلاپ ہوگیا، جبکہ دوسری جانب پشتون قومی سوال کے حوالے سے جو بھی جدوجہد رہی ہے وہ صوبائی خود مختاری تک ہی محدود رہی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پشتون قوم پرست تحریکیں اپنے اُلٹ میں تبدیل ہوتی گئیں اور انہوں نے صوبائی خود مختاری کے ساتھ ساتھ ریاست کے اسٹیبلشمنٹ کے وفادار کی حیثیت سے بھی کردار ادا کرنے کی حامی بھر لی۔ جس کا اظہار ہم نے 2008ء کے الیکشن میں دیکھا۔ جبکہ اس کے بعد مختلف انتخابات میں تمام پشتون قوم پرست پارٹیوں نے وہ سب کچھ کیا جن کے خلاف وہ اپنی سیاست کر رہے تھے۔ نام نہاد وار ان ٹیرر کی حمایت سے لے کر افغانستان میں امریکی سامراج کی مداخلت کو خوش آمدید کہا گیا۔ جبکہ سابقہ فاٹا سمیت پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں فوجی آپریشنز کی نہ صرف حمایت کی، بلکہ ان آپریشنز کا ہر فورم پر دفاع کیا اور ریاست کو مجبور کرتے رہے کہ مزید فوجی آپریشنز میں تیزی لائی جائے تاکہ دہشت گردوں کا قلع قمع ہو۔ مگر فوجی آپریشنز کی آڑ میں جہاں سابقہ فاٹا سمیت خیبر پختونخواہ کے کئی علاقے شدید تباہی اور بربادی کا شکار رہے، لاکھوں کی تعداد میں عوام کو ہجرت کرنا پڑی اور زندگی کے تمام تر آسائشوں اور بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے نام پر ایک ایسا بازار گرم کر دیا گیا جس میں معصوم پشتونوں کو فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اونے پونے داموں امریکی سامراج کو بیچ دیا اور اب تک ان کی تعداد نامعلوم ہے کہ کل کتنے پشتون اس دہشت گردی کی آڑ میں اب تک لاپتہ افراد کی زندگی جی رہے ہیں۔

پی ٹی ایم کا اُبھار

اس ظلم، جبر اور استبداد کے خلاف 2018ء میں پشتون تحفظ موومنٹ کا ابھار ہوا۔ اس تحریک کے ابھار نے جہاں ایک طرف ان تمام تر روایتی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی، تو وہیں ریاست کی دوغلی پالیسیوں کو ننگا کرتے ہوئے ریاستی بنیادوں کو ہلا ڈالا۔ پہلی بار پشتون قوم نے ریاستی آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے سے انکار کرنا شروع کیا۔ جبکہ انتہائی قلیل عرصے میں ریاست کے وہ تمام تر جرائم پاکستان بھر کے عوام کے سامنے رکھ دیے کہ ریاست پاکستان نے سابقہ فاٹا میں کون سے جرائم کیے ہیں اور اس تحریک کی اُبھار کی وجوہات کیا ہیں۔ اپنے آغاز میں یہ تحریک اُن تمام تر پشتون عوام کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہی جو وقتاً فوقتاً ریاستی جبر سمیت ان تمام تر سیاسی رجحانات سے بدظن ہو چکے تھے، اور ایک متبادل آواز کی تلاش میں تھے۔ مگر اس تحریک کے ساتھ ان روایتی قوم پرست پارٹیوں نے ریاست سے بھی گھناؤنا کردار ادا کرتے ہوئے اس تحریک کو محدود سے محدود کرنے کی حتی الوسع کوششیں کیں، جن میں وہ وقتی طور پر کامیاب رہیں۔ انہون نے اس تحریک کو اپنے آغاز کے دوران منظم ہونے اور ایک سیاسی لائحہ عمل اختیار کرنے سے روکے رکھا۔ لیکن جب اس تحریک نے اپنے آپ کو منظم کرنے کی جونہی بات کی تو وہ تمام تر روایتی پارٹیوں کے کارکنان واپس اپنے اپنے سیاسی رجحانات کی طرف چلے گئے۔ لیکن یہاں پر پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت پر ایک اہم سوال اٹھا کہ اگر ان کے پاس سابقہ روایتی قوم پرست پارٹیوں کی نسبت کوئی ایڈوانس سیاسی پروگرام ہوتا، تو شاید ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والی اکثر پرتیں اس تحریک کے ساتھ ہی جڑی رہتیں۔ مگر تحریک کی قیادت اب تک گُو مگوں کی کیفیت سے دوچار ہے اور ان کے پاس کوئی واضح سیاسی اور نظریاتی لائحہ عمل نہیں ہے، صرف چند تجریدی کلمات کے اوپر ان کا سہارا ہے جو کہ مستقبل میں تحریک کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

 

 

اس کے علاوہ وقت کے گزرنے کے ساتھ اس تحریک میں بھی دراڑیں پڑنے لگیں، جس کا اظہار ہم نے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی شکل میں دیکھا۔ گوکہ اس نئے سیاسی رجحان نے تحریک کو بڑا نقصان نہیں پہنچایا، مگر اس سیاسی رجحان کی بناوٹ بلا واسطہ پشتون تحفظ موومنٹ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت اب بھی ایک چیز پر اَٹکی ہوئی ہے کہ ہم پشتون قوم کو ایک قوم کی مانند سمجھتے ہیں جس میں سیاسی، مذہبی اور سب سے اہم طبقاتی تقسیم کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ اس موقف کو لے کر پختونخواہ کے اندر جتنی بھی عوامی تحریکیں جیسے اولسی پاسون اُٹھیں، ان میں بالواسطہ پی ٹی ایم کا کریڈٹ بہرحال شامل رہا۔ مگر ایک مجرد نعرے یعنی ”پشتون قوم“، کے اعتبار سے تمام سیاسی رجحانات نے ان عوامی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا اور پشتون تحفظ موومنٹ کے عوامی مینڈیٹ کو اپنی موقع پرستی کے لیے استعمال کیا۔ حالانکہ ان تمام تر عوامی تحریکوں میں وہ تمام سیاسی و مذہبی رجحانات شامل رہے، جن کے ہاتھوں پر پشتون قوم کے خون کے دھبے آج بھی تازہ ہیں۔ لیکن ان تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ان عوامی تحریکوں نے فوجی جرنیلوں کو سابقہ فاٹا میں طالبانائزیشن کو دوبارہ استعمال کرنے سے وقتی طور پر روک لیا ہے۔ مگر پاکستانی جرنیل شاہی کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنی جیبوں کو گرم کرنے کے لیے دہشت گردی کے اس مصنوعی بازار کو کسی نہ کسی طریقے سے گرم رکھیں۔ مگر اب عوام دہشت گردی کے اس کاروبار کو خوب سمجھ گئی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اپنے خطے کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے نہیں دے گی۔

اس تمام بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں قومی جبر کے خلاف جتنی بھی تحریکیں موجود ہیں، ان تحریکوں اور ان کے مسائل کی نوعیت گوکہ ایک دوسرے سے مختلف ہے، مگر ان کا جوہر ایک ہی ہے کہ یہ تمام تر جبر درحقیقت پاکستان میں ایک مظلوم قوم کی حیثیت سے ان پر ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے، کیونکہ ریاستی تذویراتی گہرائی کی پالیسی ہو یا وسائل کی بندر بانٹ ہو، ان تمام تر شاخسانوں کو پورا کرنے کے لیے ریاستی جبر کا ہونا ایک ناگزیر عمل بنتا ہے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ قومی جبر سے نجات حاصل کرنے کا راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قومی سوال کو کس طرح سے حل کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں قومی جبر کے خلاف برسر پیکار تحریکیں یا رجحانات قومی سوال کو حل کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟ اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرنے کی ضرورت ہے۔

قومی سوال کا حل کیسے؟

بحیثیت مارکس وادی ہم مظلوم قومیتوں کے حق خودارادیت سمیت علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں مگر یہ حمایت ہمیشہ غیر مشروط نہیں ہوتی بلکہ اس حمایت کو عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے نقطہ نظر سے دیکھنا مارکس وادیوں کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ قومی سوال کے حل کے حوالے سے جیسا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، کہ دو طریقوں سے قومی سوال کو تاریخی طور پر حل کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اگر قومی سوال کو حل کرنے کی بات کریں، تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کب کا اپنی طبعی زندگی پوری کر چکا ہے اور اس نظام میں مزید اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ عالمی طور پر محنت کش طبقے نے جو حاصلات اپنی جدوجہد کے مرہون منت حاصل کی تھیں، ان کو سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے دوبارہ چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس جبر کے خلاف دنیا بھر میں محنت کش طبقہ سراپا احتجاج ہے اور تحریکوں کا حجم اور شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے اور اب مصنوعی سانسوں پر زندہ ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس نظام کے رکھوالے اب گلوبلائزیشن کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور تحفظاتی پالیسیاں اپنانے پر مصر ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں تجارتی لڑائیاں اور مختلف پراکسی جنگیں لڑنا ایک معمول بن چکا ہے۔

مختصر یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی اس موجودہ صورتحال میں کوئی بھی آزاد قومی ریاست بننے کے امکانات نہ صرف یہ کہ معدوم ہو چکے ہیں بلکہ مکمل طور پر خارج از امکان ہیں۔ اگر کوئی بنتی بھی ہے تو یہ سامراجی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ہوگی اور نہ ہی اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھ پائے گی۔ قومی سوال پر سامراجی آشیرباد کے تحت کرد قومی سوال کو حل کرنے کی محض پُر فریب کوشش کی گئی، لیکن کرد قوم اب بھی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ قومی جدوجہد کے لیے برسر بیکار تحریکوں کے اندر بھی سامراجی کمک کو قطعاً مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان تحریکوں کی قیادتوں کی نام نہاد ”پریکٹیکل سوچ“ بالآخر انہیں سامراجی ممالک سے امداد حاصل کرنے کی طرف ہی لے کر جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بحث کو واپس نظریات کی بحث تک لے جاتے ہیں کہ سامراجی ممالک سے امداد مانگنے کی وجہ سے ان کی نظریاتی زوال پذیری بھی عیاں ہوتی ہے، کہ اب ان کے نظریات میں کوئی بھی ترقی پسندانہ رجحان کا وجود نہیں رہا۔

قومی سوال اور انقلابی سوشلزم

قومی سوال کا پہلے والا حل اب چونکہ مکمل طور پر معدوم ہو چکا ہے، لہٰذا ہمیں اپنی تمام تر توانائیوں کو سوشلسٹ انقلاب کے لیے خرچ کرنا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز کے بعد اگر پائیدار طریقے سے قومی سوال کو حل کیا گیا ہے تو وہ 1917ء کا انقلاب روس،ہے جس کے بارے میں اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں قومی سوال کو حل کرنے کا واحد راستہ انقلابی سوشلزم ہی ہے اس کے بغیر باقی تمام راستے ظلم، جبر اور استبداد کی راتوں کو کم کرنے کی بجائے طویل کر تے جائیں گے۔

اس وقت پاکستان میں قومی جبر کے خلاف برسر پیکار تمام تر سیاسی رجحانات اور تحریکیں اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ اور ان تمام تحریکوں یا رجحانات کے پاس آزادی حاصل کرنے کا کوئی ٹھوس سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ تمام تر تحریکیں محض خالص جذبات کے تحت ہی چل رہی ہیں۔ گوکہ جدوجہد کرنا مزاحمت کی زندہ علامت ہوتی ہے مگر جدوجہد کو جدید سائنسی نظریے اور ایک منظم سیاسی پروگرام کے بغیر جاری رکھنا اس تمام تر تحریک کو تین اہم انتہاؤں کی طرف لے جاتا ہے جس میں پہلی انتہا مایوسی ہے، جہاں پر تحریک کی قیادت اپنے ورکرز کو اتنا تھکا دیتی ہے کہ تحریک سے جڑے ہوئے لوگ واضح لائن آف ایکشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسری انتہا موقع پرستی کی ہے۔ جبکہ تیسری اور اہم انتہا ایڈونچرازم یا مہم جوئی کی ہے۔ ان تینوں انتہاؤں تک پہنچنے کی وجوہات محض جدید نظریات اور سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہوتی جس کو بعض اوقات لوگ راکٹ سائنس بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں۔

 

قومی جبر کے خلاف برسر پیکار قومی تحریکوں کو مشورے دینا مارکس وادیوں کا وطیرہ نہیں رہا ہے بلکہ ہم مارکس وادی ہمیشہ ان قومی تحریکوں کی صفوں کے اندر رہ کر قیادت کی کمزوریوں کو درست کرنے کی کوششوں کے ساتھ اس تحریک کو ایک درست لائن دینے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ مگر یہاں پر بھی تنگ نظر قوم پرستوں کی انا آڑے آ جاتی ہے اور وہ مارکس وادیوں کے اوپر یہ الزامات لگاتے ہیں کہ وہ اپنی ریڈی میڈ پروگرام کو تحریکوں کو سمجھے بغیر اُن کے اوپر مسلط کرتے ہیں جو کہ محض الزام تراشی اور ذہنی عیاشی کے مترادف ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان جیسی ریاست کے اندر قومی سوال کو حل کرنے کے لیے بلاواسطہ اس ریاست کی بیخ کُنی کرنی ہوگی، اور مزدور ریاست کے قیام کے ساتھ ہی قومی مسئلہ حل ہوسکے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس ریاست کو کیسے جڑ سے اُکھاڑا جاسکتا ہے؟ ریاست کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے اس ریاست کی کمپوزیشن کو سمجھنا ایک لازمی عنصر ہے۔ جبکہ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ریاست کی جڑیں جہاں پر مضبوط ہیں وہاں کے محنت کش طبقے کو اپنے ساتھ ملائے بغیر ہم اس ریاست کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جبکہ محض ریاست کو منظم طریقے سے پریشرائز کرنے کے لیے کسی بھی قومی تحریک کے ساتھ اپنی قوم کے محنت کشوں کا ساتھ ہونا لازمی ہے۔ مگر یہاں پر پھر سوال یہ ہے کہ اپنی قوم کے محنت کشوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے محض قومیت کے نام پر تجریدی نعروں سے وہ کبھی بھی ان تحریکوں کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ بلکہ کسی بھی قوم کے محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے تحریک کی قیادت کو طبقاتی لائن اپنانی ہوگی جس کی بنیاد پر وہ تحریک کو محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ جس سے یہ تمام قومی تحریکیں اب تک نہ صرف یہ کہ عاری ہیں، بلکہ وہ اپنی متعلقہ اقوام میں محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔ تو ایسے میں وہ اپنی پوری قوم کو اپنے ساتھ کیسے جوڑ پائیں گے؟

ایک اور اہم نقطہ پر بات کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، وہ ہے ”مظلوم اقوام کا اتحاد“۔ یہ خوش آئند بات ہے، مگر یہ نعرہ بھی دیگر نعروں کی طرح محض تجریدی نعرہ ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر مظلوم اقوام کے درمیان اتحاد بھی واضح طبقاتی موقف کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اپنی زوال پذیر اور خصی شکل میں پورے ملک میں لاگو ہے۔ اس نظام نے جہاں مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ مار میں اضافہ کیا ہے وہیں دوسری جانب انہی مظلوم اقوام کے اندر محنت کش طبقے کی تعداد میں نہ صرف یہ کہ اضافہ کیا ہے بلکہ جدید قسم کے صنعتی پرولتاریہ کو بھی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا مظلوم اقوام کا آپسی اتحاد بھی طبقاتی بنیادوں پر ہوسکتا ہے۔ اسی لیے تو آج تک لاکھ کوششوں اور ”اتحاد“ کے تجریدی نعروں کے باوجود بھی مظلوم اقوام متحد نہیں ہو پائیں۔

آخر میں ایک اور نعرے کے حوالے سے بات کرنا اہم ہے؛ وہ نعرہ پشتون، بلوچ، سندھی اور کشمیری اقوام کو متحد کرنے کے لیے اُن کے درمیان کھینچی گئی لکیروں کو ختم کرنے کا ہے۔ یہ نعرہ بھی اوپر مذکورہ دیگر نعروں کی طرح مجرد نعرہ ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیادیں نہیں ہیں۔ ہم مثال کے طور پر ”لر او بر یو افغان“ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے اور پشتون قوم کو متحد کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی موجودہ دونوں ریاستوں کو ختم کرنا پڑے گا۔ جوکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت کسی بھی تحریک کی قوت اور کمپوزیشن ہی نہیں ہے کہ وہ اس نعرے کو عملی جامہ پہنائیں۔ بلکہ اس نعرے کو عملی جامہ پہنانا یہاں پر محنت کش طبقے کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جمہوری مسئلے کو محض انقلابی طریقے سے ہی حل کر سکتا ہے۔

ان تمام تر معروضی حالات کے اندر مارکس وادیوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی انقلابی تنظیم کی تعمیر پر فوکس کریں۔ تنظیم بنانے کے عمل میں ااندرونی اور بیرونی اداروں کے درمیان بیلنس رکھتے ہوئے اپنے نظریات کی ترویج کریں اور انقلابی تنظیم کے طویل سفر کو جتنا ہو سکتا ہے مختصر کرنے کی کوشش کریں۔ جبکہ خطے یا ملک میں جتنی بھی قومی تحریکیں ہوتی ہیں ان کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق اظہار یکجہتی کریں، اور ان تحریکوں کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے احتجاجوں اور دھرنوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ جبکہ قیادت کی کمزوریوں کو دوستانہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے بڑھ کر اگر مارکس وادی کسی بھی قومی تحریک کا حصہ بن جاتے ہوئے اُس بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں، اور انقلابی تنظیم کی تعمیر کے عمل کو ترک کر دیتے ہیں تو یہ زہر قاتل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ ظلم، جبر، بربریت، استبداد اور استحصال کا خاتمہ اس نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے اور اس نظام کے خاتمے کے لیے انقلابی تنظیم کی تعمیر کا سلسلہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسان کے لیے آکسیجن۔

اگر ہم سرمایہ داری کو ختم کرتے ہیں اور یہاں پر ایک مزدور ریاست کا قیام میں عمل میں لاتے ہیں تو یہاں پر مظلوم اقوام کے اوپر ظلم کرنے، ان کے وسائل کی لوٹ مار کرنے، ان کے اوپر جبر کرنے کا کوئی بھی سوال کسی بھی حوالے سے پیدا نہیں ہوتا۔ رسمی منطق کے ذریعے ہم یہ بات رکھ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بحال اور فعال رکھنے کے لیے وسائل کی لوٹ مار کرنا اور مظلوم قومیتوں پر جبر کرنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ مگر جوں ہی یہاں پر سرمایہ داری ختم ہو جاتی ہے تو یہاں پر وسائل کی لوٹ مار اور مظلوم اقوام کے اوپر جبر کی ہر قسم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور صحیح معنوں میں انسان دوست معاشرے کی تعمیر کے سفر کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا ہم ان تمام تر نوجوانوں، طلبہ، کسانوں اور محنت کش ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آئیں ظلم، جبر، بربریت، استبداد اور استحصال کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔ انقلابی سوشلزم کی قوتوں کو بنانے اور بڑھانے کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔

تمام سیاسی اسیران کو بازیاب کیا جائے!
جمہوری آزادیوں پر قدغن نامنظور!
قومی جبر مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.