|تحریر: روی مستری، ترجمہ: عرفان منصور|
ایک بار پھر، بھارت اور پاکستان جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ کسی بھی جماعت، اس کے پروگرام اور نظریات کی سب سے کڑی آزمائش جنگ اور انقلاب جیسے سوالات پر ہوتی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
صد افسوس کہ اس فیصلہ کن گھڑی میں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) (CPIM) کی قیادت نریندر مودی حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ، اور ’گودی میڈیا‘ کی صف میں جا کھڑی ہوئی، جو سب کے سب ’ارب پتی راج‘ کے نمائندہ ہیں۔
سی پی آئی اور سی پی آئی ایم دونوں نے ایسے بیانات جاری کیے جن میں مودی کے پاکستان پر فوجی حملوں کی کھل کر حمایت کی گئی۔ اپنے بیان میں سی پی آئی نے حکومت ہند سے اپیل کی کہ: ”حکومت فوراً ایک آل پارٹی اجلاس بلائے تاکہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے اور اجتماعی منشا کو تقویت دی جا سکے۔“
یہ بیان آگے جا کر یوں نتیجہ اخذ کرتا ہے:
”آؤ کہ اس لمحے کو اتحاد، قوت اور عدل و انصاف کے لیے غیر متزلزل عزم اور ہندوستانی عوام کی سیکولر اقدار کی پاسداری کے لیے یادگار بنا دیں۔“
گویا، ایک نام نہاد کمیونسٹ پارٹی نے بھارتی سرمایہ داری کی رجعتی حکمران جماعت، بی جے پی کے ساتھ سیاسی اتحاد کا مطالبہ کیا ہے۔
بنیادی ترین بین الاقوامی اصولوں کی کھلے عام خلاف ورزی اور پورے برصغیر کے محنت کشوں کی زندگی کو شدید خطرے میں ڈال کر سی پی آئی نے مودی کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے خلاف جنگی اقدامات کی سیاسی حمایت کی ہے، جسے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
دوسری جانب، سی پی آئی ایم نے پاکستانی سر زمین پر بھارت کے حملوں کو ”محتاط، مرکوز اور غیر اشتعالی“ قرار دیتے ہوئے سراہا؛ یونین حکومت کے اقدامات کی حمایت کا اظہار کیا؛ اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ ”پاکستان پر دباؤ برقرار رکھا جائے تاکہ پہلگام میں معصوم شہریوں کے قتل عام کے ذمہ داروں کو بھارت کے حوالے کیا جائے۔“
گویا یہ کہ بار ہا ہندوتوا (Hindutva) دہشت گرد قوتوں کو مسلمانوں اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کھلی چھوٹ دینے والا، مقبوضہ کشمیر میں رجعتی پالیسی نافذ کر کے مزاحمتی گروہوں کو جنم دینے والا، جن میں ”دی ریزسٹنس فرنٹ“ (The Resistance Front) بھی شامل ہے جس نے یہ حملہ کیا، مودی واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہے!
آخر یہ میدان سجا کیوں؟
درجنوں ہلاکتوں کے بعد، اب ایک غیر یقینی نوعیت کی جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے جس کا سہرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سر لیا ہے۔ تاہم پہلگام حملے کے کسی بھی ذمہ دار کو اب تک بھارت کے حوالے نہیں کیا گیا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ سارا جنگی جنون آخر تھا کس مقصد کے لیے؟
”آپریشن سندور“ کے ذریعے مودی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے، سینہ چوڑا کرنے اور خود کو مردِ آہن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہار میں اہم ریاستی انتخابات سر پر ہیں، جہاں سی پی آئی اور سی پی آئی ایم بھی میدان میں ہیں۔ مودی نے جو حکمتِ عملی اپنائی وہ یہ تھی کہ جنگی طبل بجا کر اپنے ہندو قوم پرست ووٹ بینک کو متحرک کیا جائے۔
یہی تماشا مودی نے 2019ء کے پلوامہ دہشت گرد حملے کے بعد بھی لگایا تھا، جس کے فوراً بعد فوجی حملے کیے گئے اور عام انتخابات سے پہلے قوم پرستی کے جنون کو بھڑکایا گیا۔ اُس وقت غیر مقبول ہو چکی بی جے پی نے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر لیا اور بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد مودی نے محنت کشوں، کسانوں، طلبہ، کشمیریوں اور مسلمانوں پر یلغار شروع کی اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو آمرانہ ہتھکنڈوں سے کچلنا شروع کر دیا۔
مگر اس حالیہ مختصر جنگ کے بعد مودی ایک کمزور تر چہرے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ بھارتی تسلط کے تحت ایک انتہائی فوجی نگرانی والے علاقے میں ہونے والا یہ حملہ بذاتِ خود، بھارت کے لیے ایک ذلت آمیز واقعہ تھا۔ اب امریکی سامراج کے سبب مودی کو سرِ عام پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مودی کا ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر تو پچھلے برس کے عام انتخابات میں ہی دھندلا چکا تھا، جب وہ اپنی پارلیمانی اکثریت سے محروم ہوا اور اگلے ہفتے، بھارت بھر میں محنت کشوں اور کسانوں کی ایک ملک گیر عام ہڑتال ہونے جا رہی ہے، یہ عظیم طاقت اس کمزور ہوتے ہوئے اقتدار پر ایک اور کاری ضرب لگا سکتی ہے۔
ایسے حالات میں، جب کہ بین الاقوامیت اور طبقاتی جدوجہد کی پالیسی کی ازحد ضرورت ہے، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم نے کیا کیا؟ کیا ان ’کمیونسٹ‘ جماعتوں نے کمیونسٹ راستہ اپناتے ہوئے کمزور پڑتے مودی کو مزید بے نقاب کرتے ہوئے عوام کے غصے کا رُخ اس مجرمانہ حکومت کی طرف موڑنے کی ادنیٰ سی بھی کوشش کی ہے؟
اس کے برعکس، یہ نام نہاد ’کمیونسٹ پارٹیاں‘ مودی کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئیں اور حکمران طبقے کے جنگی جنون کے نعرے کی گونج کو مزید وسعت دی۔
اصلی دہشت گرد کون ہیں؟
یہ حکومت باقاعدگی سے آر ایس ایس کے فاشسٹ غنڈوں کو منظم کرتی ہے، جو گرجا گھروں اور مساجد کو تباہ کرتے ہیں اور دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں، محنت کشوں، کسانوں اور غریبوں میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں اور یہ سب کچھ مودی کی خاموش آشیرباد سے ہوتا ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر، بھارتی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ریاستی پشت پناہی میں کینیڈا کی سر زمین پر ایک کینیڈین شہری کا قتل کیا اور امریکہ میں ایک قتل کی کوشش کی۔
حملے کے بعد، بھارت بھر میں کشمیریوں پر حملے کیے گئے، انہیں ہراساں کیا گیا، بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا گیا، ان کی ملازمتیں چھین لی گئیں، انہیں ٹیکسیوں سے نکالا گیا، یہاں تک کہ ان کے گھروں کو بھی بموں سے جلایا گیا۔ عام کشمیریوں کی اس حملے کی مذمت کرنے اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر زخمیوں کی مدد کرنے کا صلہ انہیں یہ دیا گیا۔
کشمیری آج بھی بھارتی تسلط کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے ہیں، انہیں حقِ خود ارادیت سے محروم رکھا گیا ہے اور ریاستِ کی جانب سے روزانہ ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ مگر سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کی طرف سے اس پر ایک لفظ تک نہیں کہا گیا!
ہم دہشت گردی کی کسی صورت حمایت نہیں کرتے۔ مگر اگر کسی قوم کو حقِ خود ارادیت اور جمہوری حقوق سے محروم رکھا جائے اور اس پر وحشیانہ قبضہ قائم رکھا جائے، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونا ناگزیر ہیں۔
آگ لگانے والے سے آگ بجھانے کی توقع نہیں رکھی جاتی۔ کمیونسٹوں کو دو ٹوک الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سرچشمہ خود بھارتی ریاست ہے جو سرمایہ دارانہ طاقتوں میں سب سے زیادہ جارحانہ اور سامراجی عزائم سے لیس ہے اور اپنی زہریلی ہندوتوا بیان بازی کے ساتھ مودی اس ریاست کا سربراہ ہے۔
کیا پاکستان مغرب کا آلہ کار ہے؟
سی پی آئی کی جانب سے ایک اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان مغربی طاقتوں اور امریکی سامراج کا آلہ کار ہے؛ جب کہ بھارت، جو ماضی میں سوویت یونین کا اتحادی رہا اور غیر جانبداری تحریک (non-aligned movement) کا حصہ رہا، نسبتاً زیادہ ترقی پسند ملک ہے۔
یہ دعویٰ اتنا بھی سچا نہیں ہے۔ پاکستان ایک شدید مقروض ملک ہے، جہاں روزمرہ اخراجات کا تقریباً دو تہائی صرف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ مغربی قرض دہندگان کو IMF کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان چین کا بھی مقروض ہے اور پاکستان کے بیرونی قرضے میں لگ بھگ بائیس فی صد قرضہ چائنہ کا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان 81 فیصد اسلحہ چین سے خریدتا ہے، جب کہ گزشتہ دو دہائیوں سے رفتہ رفتہ امریکہ، جو کبھی پاکستان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ تھا، اس نہج پر پہنچ آیا ہے کہ اب کوئی اسلحہ فراہم نہیں کرتا۔

اس کے برعکس، بھارت اب زیادہ تر فوجی ساز و سامان مغربی طاقتوں سے خرید رہا ہے اور جنگ شروع ہونے کے اسی ہفتے میں ہی برطانیہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔
مغربی سرمایہ دار، بھارت کو تجارتی معاہدوں، سرمایہ کاری اور اپنی منڈیوں تک رسائی کے لیے لبھانے میں مصروف ہیں، کیونکہ بھارت اب دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے اور جلد جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔
سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کی قیادت کی جانب سے بار بار دہرائی جانے والی پرانی مرحلہ واریت کی تھیوری، کہ بھارت ایک پسماندہ، محکوم ملک ہے اور ہمیں سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھنے سے پہلے جدید قوم بننے کا انتظار کرنا ہو گا، شروع سے نہ صرف جھوٹ پر مبنی تھی بلکہ آج تو بالکل کھوکھلی نظر آتی ہے۔
بھارتی سرمایہ داری کی بڑھتی ہوئی طاقت، بھارتی کمیونسٹوں پر اس ذمہ داری میں مزید اضافہ کر دیتی ہے کہ وہ قومی شاونزم کے خلاف اعلانِ جنگ کریں اور بین الاقوامیت کے اصولوں کا بے باکی سے دفاع کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی اور بھارتی محنت کشوں کا اتحاد اور محکوم اقوام کے حقوق کی غیر مشروط حمایت، یہ سب مارکسزم کے بنیادی ستون ہیں۔
جیسا کہ عظیم کمیونسٹ شہید کارل لیبنخت نے کہا تھا: ”اصل دشمن اپنے گھر میں ہے!“
پاکستان میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور جرنیل شاہی کو اکھاڑ پھینکنا وہاں کے کمیونسٹوں کا فریضہ ہے۔ ہم پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھیوں پر فخر کرتے ہیں، جنہوں نے اس حوالے سے ایک اصولی بین الاقوامی مؤقف اختیار کیا ہے۔ یہ انڈیا کے کمیونسٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حکمران طبقے سے لڑیں اور اس جنگ میں اپنے حکمران طبقے کے خلاف بے خوف جدوجہد کے ذریعے یہی کام بھارت کے انقلابی کمیونسٹوں نے بھی انجام دیا ہے۔
آئین کا دفاع
ایک اور عام دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کبھی بھارت کے آئین کے خلاف نہیں جا سکتیں، کیونکہ یہ آئین ”سوشلزم، سیکولرازم اور جمہوریت“ کے اصولوں کا دعویدار ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا آئین 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر مبنی ہے، جسے برطانوی راج نے تشکیل دیا تھا! اس میں نوآبادیاتی دور کے کئی دفعات اور قوانین آج بھی شامل ہیں، جن میں غداری کے وہ قوانین بھی شامل ہیں جو آزادی کے متوالوں کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کے کارکنان بخوبی جانتے ہوں گے کہ انہی قوانین کو ان کی اپنی صفوں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا ہے۔ 2016ء میں JNU کے صدر اور اُس وقت سی پی آئی کے رکن کنہیا کمار پر ملک دشمنی کے بے بنیاد الزامات کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ آئین ہمیشہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو یہ آزادی دیتا آیا ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں کے استحصال کے ذریعے بے تحاشا دولت اکٹھی کریں۔ اسی آئین کے تحت ملک کا ایک فیصد طبقہ 40 فیصد سے زائد دولت پر قابض ہے، جب کہ 12 کروڑ 90 لاکھ لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
آئین میں جو بھی خوش کن الفاظ درج ہوں، وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ بھارت ایک طاقتور سرمایہ دار ریاست ہے۔ جیسا کہ لینن نے بہت پہلے لکھا تھا:
”ریاست طبقاتی حاکمیت کا ایک آلہ ہے، ایک طبقے کے دوسرے پر ظلم و جبر کا ذریعہ؛ یہ ’نظم‘ کا ایسا ادارہ ہے جو طبقاتی کشمکش کو معتدل کرنے کے نام پر اس ظلم کو قانونی حیثیت دے کر برقرار رکھتا ہے۔“
مگر سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کی قیادت اس طبقاتی جبر کے آلہ کو تقدیس کا درجہ دے چکی ہے، جسے مزدوروں اور غریبوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے! بھارت کی ’آئینی جمہوری ریاست‘ کا دفاع نہیں کرنا بلکہ اسے مسمار کرنا ہے، جیسا کہ لینن نے ”ریاست اور انقلاب“ میں لکھا:
”1852ء سے 1891ء تک، یعنی چالیس سال تک، مارکس اور اینگلز نے پرولتاریہ کو یہ تعلیم دی کہ اسے ریاستی مشینری کو توڑنا ہو گا۔ مگر 1899ء میں، کاؤتسکی نے، جب مارکسزم کے ساتھ موقع پرستوں کی مکمل غداری سامنے آئی، تو اس سوال کو کہ کیا ریاستی مشینری کو توڑنا ضروری ہے، چالاکی سے اس سوال میں بدل دیا کہ اسے کن ٹھوس شکلوں میں توڑا جائے گا؛ اور پھر اس ’ناقابلِ تردید‘ (مگر بانجھ) اور تنگ نظر سچائی میں پناہ ڈھونڈی کہ ٹھوس شکلیں پہلے سے معلوم نہیں ہو سکتیں!!“
لینن کا اُن نام نہاد ’مارکس وادیوں‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا جو پہلی عالمی جنگ کے دوران ’مارکسسٹ‘ لگنے والے دلائل کا سہارا لے کر اپنی قوم پرستی اور سرمایہ دار طبقے کی حمایت کا جواز پیش کر رہے تھے۔ جرمن سوشل شاونسٹوں نے روسی زار شاہی کے جبر کا حوالہ دے کر جرمن سرمایہ دار طبقے کی حمایت کی، برطانوی شاونسٹوں نے ’چھوٹی قوموں‘ جیسے بیلجیم کے دفاع کا بہانہ بنا کر برطانوی حکمران طبقے کے جنگ میں کودنے کو درست قرار دیا اور فرانسیسی سوشلسٹوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے ’ترقی پسند، جمہوری، جمہوریہ ریپبلیکن‘ دستور کا ’پروشیائی عسکریت پسندی‘ کے خلاف دفاع کر رہے ہیں۔
سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کی قیادت آج وہی پرانے دلائل دہرا رہی ہے جو کاؤتسکی جیسے غداروں اور دیگر سوشلسٹ ڈیموکریٹس نے سو سال قبل طبقاتی مفاہمت اور قومی شاونسزم کو چھپانے کے لیے استعمال کیے تھے۔
لینن کی جانب لوٹ آؤ
1916ء میں لینن نے دوسری کمیونسٹ انٹرنیشنل کے انہدام پر، جس کے رہنماؤں نے اپنے اپنے حکمران طبقات کی جنگی یلغار کی حمایت کی، لکھا:
”موقع پرستی اور سوشل شاونزم کا سیاسی جوہر ایک ہی ہے، یعنی طبقاتی مفاہمت، پرولتاریہ کی آمریت سے انکار، انقلابی اقدام سے انکار، بورژوا قانونیّت کی غیر مشروط قبولیت، سرمایہ دار طبقے پر اعتماد اور پرولتاریہ پر عدم اعتماد۔“ (ولادیمیر لینن، Lenin’s Writings on Imperialist War (Wellred Books)، ص: 140)
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ الفاظ سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کی قیادت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ ان رہنماؤں کو بھارتی مزدور طبقے پر کوئی اعتماد نہیں۔ وہ کبھی سوشلسٹ انقلاب کی بات نہیں کرتے اور سارا وقت لبرل بلکہ دائیں بازو کی ہندوتوا جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی تلاش میں گزارتے ہیں تاکہ بھارت کی بورژوا ’جمہوری‘ ریاست کا دفاع کیا جا سکے۔
ہم، انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کے تمام سنجیدہ کارکنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لینن کی طرف واپس رجوع کریں، خاص طور پر لینن کی جنگ اور ریاست پر تحریروں کی طرف، جو آپ کی قیادت کی مکمل غداری کو بے نقاب کرتی ہیں۔
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ جمعرات، 15 مئی (شام 7:30 بجے IST) منعقد ہونے والے آل انڈیا مباحثے میں شریک ہوں۔ اس میں ہم اس تنازعہ پر ایک درست، بین الاقوامی اور مارکسی مؤقف پیش کریں گے، بھلے ہی اس بار یہ تنازعہ کھلی جنگ میں نہ بدلا ہو، مگر جب تک برصغیر سے سرمایہ داری کا خاتمہ نہ ہو گا، یہ خطرہ منڈلاتا رہے گا۔
بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جلد ہی یہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ پیداواری قوتوں کی ترقی نے ایک عظیم مزدور طبقے کو جنم دیا ہے، جو اٹھے گا اور نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا۔
گزشتہ دہائی نے ہمیں یہ جھلک دکھا دی ہے کہ مظلوم بھارتی عوام میں کیا صلاحیت ہے۔ جس چیز کا فقدان ہے، وہ انقلابی قیادت ہے جو اس طاقت کو انجام تک پہنچا سکے۔
مودی حکومت مردہ باد، جو بھارت میں دہشت گردی کی اصل علامت ہے!
برصغیر کے مزدوروں کا اتحاد زندہ باد!
قومی شاونسزم مردہ باد!
کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے!
بین الاقوامیت کے لیے!
لینن کی جانب واپسی!
جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کے لیے!
انقلاب زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ! تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہاں ہے!