|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، آر سی آئی کا پاکستانی سیکشن|
ریاستی جبر کے باوجود پورے گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے کئی شہروں میں عوامی ایکشن کمیٹی اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبران کی رہائی کے لیے احتجاجات کیے جا چکے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
جمعہ اور ہفتے کے روز گلگت بلتستان کے کئی اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس میں محنت کشوں کی بھی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جس کے رد عمل میں ریاست نے ہنزا اور گلگت میں مظاہرین پر ایک بار پھر جھوٹے کیس بنا دیے۔ ان کا گناہ محض یہ تھا کہ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین احسان علی ایڈووکیٹ اور دوسرے ساتھیوں کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس نے احتجاج کرنے والوں میں سے بھی کچھ افراد کو حراست میں لے لیا اور کچھ افراد کے گھروں پہ چھاپے مارے گئے۔
یکجہتی کے مظاہروں پر پولیس کا جبر
دنیور (Danyor) جو کہ گلگت کے بگل میں ہی ایک شہر ہے جہاں پر عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک احتجاج منعقد کروایا گیا، اس احتجاج میں نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی تھی۔ جوں ہی یہ احتجاج اپنے اختتام کو پہنچا، پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لینا شروع کر دیا۔ گلگت، ہنزا، نگر، سکردو اور گلگت بلتستان کے دوسرے شہروں میں بھی احتجاج ریکارڈ کروائے گئے۔ گلگت میں اس کمپیئن کے منتظمین کی جانب سے اس پیغام کو پھیلانے کے لیے ٹریڈ یونین تنظیموں کے ساتھ میٹنگز بھی کی گئیں۔ انہوں نے دہشتگردی، غداری اور بغاوت جیسے مقدمات کی دھمکیوں کے باوجود مستقبل میں مزید ایسے اجلاس کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
کچھ رپورٹس کے مطابق گرفتار کیے جانے کامریڈز کو حوالات میں پولیس کی جانب سے جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ معمول کی بات ہے کہ تفتیش کے دوران پولیس کی جانب سے ملزم پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے تاکہ اسے کورٹ کے سامنے اقرارِ جرم کے لیے مجبور کیا جا سکے۔ اس لیے جب بھی کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے کورٹ کے سامنے پیش کر کے حراست میں لیا جاتا ہے، جبکہ ملزم کے وکلاء اس کی ضمانت کے لیے مضبوط دلائل سامنے رکھتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں گرفتا ہونیو الے تمام قائدین کو اس بنیادی حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ گلگت کی گماشتہ عدالت نے دوسری جانب سے کسی بھی سنوائی کے بغیر اسیران کو دو ہفتے کے لیے اپنی حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان کامریڈز پر تشدد کی رپورٹس کا مطلب ہے کہ یہ ریاستی اہلکار ان قائدین کے عزم کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
پاکستان اور گلگت بلتستان کے حکمرانوں کے مقاصد ان کے بیانات سے بالکل واضح ہیں۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے مقامی اسمبلی میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایسے لوگوں کو پھانسی پہ لٹکانا چاہیے۔ گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ اور دوسرے وزیروں نے ملزمان پر بغاوت کا الزمان لگایا اور ان پر بالکل اسی طرز پر تشدد جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔
یہ گلگت بلتستان کے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس طرح بڑھتی ہوئی عوامی تحریک سے خوفزدہ ہیں۔ کئی سالوں سے یہ حکمران طبقہ قوانین کے ذریعے عوامی تحریک کو کچلنے پر تلا ہوا ہے، لیکن وہ اپنے ہر ایک قدم پر ناکام ہوا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی، آٹے پر لاگو سبسڈیز کے خاتمے کے خلاف اور محنت کش عوام کے دوسرے مطالبات کی لڑائی میں ایک تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ گلگت بلتستان کو حکومت نے پچھلے دس سالوں میں اس تحریک پر مسلسل حملے کیے ہیں۔ لیکن احسان علی ایڈووکیٹ کی قیادت میں یہ تحریک گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں بھی پھیلی اور اس تحریک نے ہزاروں لوگوں کو گلگت بلتستان سمیت اسلام آباد میں براجمان ان کے آقاؤں کے منہ سے اپنے بنیادی حقوق چھیننے کے لیے منظم اور متحرک کیا۔

حکمران طبقے کے تمام حملوں کے باجود، گزشتہ برس فروری میں، یہ تحریک ایک بار پھر کامیاب ہوئی تھی جب پورے گلگت بلتستان میں ہزاروں عوام متحرک ہوئے تھے اور انہوں نے احسان علی کی سربراہی میں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت میں گلگت میں کامیاب دھرنا دیا تھا۔ پچھلے سال عوامی ایکشن کمیٹی نے آٹے کی قیمتوں کی سبسڈی کے ساتھ ساتھ مقامی عوام کے لیے روزگار، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مطالبات سامنے رکھے تھے جس کی بناء پر عوامی ایکشن کمیٹی کو قوی عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی۔
اب اس تحریک کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ قائدین کی گرفتاریاں اس وقت عمل میں لائی گئیں جب گلگت بلتستان میں 24 اور 25 مئی کو منعقد ہونے والے عوامی جلسے (عظیم الشان جرگہ) کا اعلان کیا گیا تاکہ اس تحریک کو آگے بڑھایا جائے اور حکمرانوں سے وہ حقوق لیے جائیں جن کا انہوں نے وعدہ کیا تھا، لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا، اور اس اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی اسمبلی میں مجوزہ منرلز بِل کے خلاف بھی اس تحریک کو آگے بڑھایا جا سکے۔ پچھلے سال کی طرح حکمران ایک دفعہ پھر اس تحریک کو ہر طرح کے جبر کے ذریعے کچلنا چاہتا ہے۔ لیکن عوام کے درمیان عوامی ایکشن کمیٹی کی حمایت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ عوام کا جم غفیر گرفتار ہونے والے قائدین کی حمایت میں باہر نکل رہا ہے۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں گلگت بلتستان کے طلبہ کی جانب سے، جو ان شہروں میں زیر تعلیم ہیں، اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈز کی جانب سے احتجاج منظم کیے گئے۔
کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرین پر پولیس کا جبر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ریاست اس تحریک کو کچلنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے اور ان سب آوازوں کو دبانا چاہتی ہے جو عوامی ایکشن کمیٹی کی حمایت میں اٹھ رہی ہیں۔ اتوار کو جب گلگت بلتستان کے طلبہ جیسے ہی پریس کلب کے باہر جمع ہونا شروع ہوئے تو پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لینا شروع کر دیا اور مظاہرین میں سے 25 افراد کو حراست میں لے کر قریبی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ لیکن دوسرے مظاہرین نے ہمت نہیں ہاری اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کے ساتھ کراچی پولیس اسٹیشن کے باہر اپنا احتجاج جاری رکھا۔ نتیجتاً، گرفتار شدگان کو رہا کیا گیا، جس کے بعد وہ ایک بار پھر عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین کی رہائی کے لیے اور ریاستی جبر کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گئے۔

کوئٹہ، بہاولپور، لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں بھی میں احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے، جن میں نوجوانوں اور محنت کشوں نے بھرپور شرکت کر کے ریاستی جبر کے خلاف اور بنیادی جمہوری مطالبات کے لیے بھرپور نعرے بازی کی۔ آنے والے دنوں میں ”آزاد“ کشمیر کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جہاں پہلے سے ہی گرفتار ہونے والے قائدین کے لیے قوی حمایت موجود ہے۔

گلگت بلتستان پر جبر
اس تحریک نے نہ صرف گلگت بلتستان میں بنیادی جمہوری حقوق کی کمی کو ظاہر کیا ہے، جہاں پر لوگوں نے صرف سستے آٹے کے مطالبے، روزگار، تعلیم اور صحت مناسب سہولیات کے لیے بد ترین ریاستی جبر کا سامنا کیا ہے، بلکہ وہاں پر پاکستانی ریاست کی جانب سے جاری قومی جبر کو بھی ننگا کیا ہے۔
گلگت بلتستان، انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے ایک متنازعہ علاقہ ہے اور دونوں ممالک کے حکمرانوں اس خطے پر اپنے سامراجی عزائم ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام نے ان دونوں سامراجی طاقتوں کی آپسی دشمنی کی بابت بہت مصیبتیں جھیلی ہیں اور پاکستان اور انڈیا کی حالیہ جنگ نے بھی ان مصیبتوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔

ایک طرف ہندوستانی حکمران طبقہ اپنے زیر تسلط کشمیر میں لوگوں پر جبر کر رہا ہے، جہاں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تحفظاتی فوج موجود ہے اور جہاں عوام کے بنیادی حقوق بھی کچلے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی حکمران بھی کشمیریوں اور گلگت بلتستان کے عوام پر ریاستی جبر ڈھا رہے ہیں اور اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں۔ گلگت بلتستان کبھی بھی پاکستان کی ریاست کے ساتھ الحاق میں نہیں رہا ہے، اس کے باوجود اس کے وسائل کی وسیع لوٹ مار کے لیے انہیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے آگے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس طرح نہ صرف مقامی لوگوں کو ان کی زندگی گزارنے کے ناقص وسائل اور زمینوں سے محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ وہاں کے ایکو سسٹم کو بھی برباد کر رہا ہے جو کہ پہلے سے موسمیاتی تبدیلی کے باعث تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس کے باوجود دیوہیکل کمپنیاں گلگت بلتستان کے وسائل کو لوٹنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہیں، جبکہ عوام شدید غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خطہ سامراجی حریفوں کے درمیان جنگوں میں بھی غیر محفوظ رہا ہے جو اسے جنگوں اور افواج کی تعیناتی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آخر کار یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے معاشی بحران، جنگوں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو جھیلا ہے۔ لیکن جب بھی وہ ناانصافی اور اپنے خطے کی تباہی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، تو انہیں شدید جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں ’قومی‘ مفاد کے تحفظ کے نام پر خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے۔
خطے میں قائم مسلسل جنگی صورتحال عوام کے لیے اپنے حقوق کے لیے عوامی تحریک کو منظم کرنا خاصہ مشکل بنا دیتی ہے۔ حکمران طبقہ جبر کو قائم رکھنے، عوام کو تقسیم کرنے اور ان پر اپنے تسلط کو مضبوط رکھنے کے لیے لوگوں میں قومی اور مذہبی تفریق کو بھی استعمال کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عوامی ایکشن کمیٹی اور اس کے گرد ابھرنے والی عوامی تحریک نے پاکستان کے حکمران طبقے کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
سوشلسٹ انقلاب کے لیے لڑو!
گلگت بلتستان سمیت پورے خطے کے عوام کی آزادی کے لیے اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ان سارے مسائل کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کریں جو کہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ گلگت بلتستان اور پورے پاکستان میں موجود انقلابی کمیونسٹ پارٹی اسی پروگرام کے تحت کام کر رہی ہے اور اسی مقصد کے لیے اپنی قوتیں تعمیر کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں بھی خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے پچھلے سال کی طرحِ اس سال بھی گلگت بلتستان میں یومِ مئی کی روایت کو دہرایا ہے، جہاں یکم مئی کو گلگت شہر کے مرکز میں ریلی اور احتجاج منعقد کیا گیا، جس میں محنت کشوں اور طلبہ نے انقلابی جذبات کے ساتھ شرکت کی۔

2023ء میں بھی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈز نے قراقرم یونیورسٹی، جو اس خطے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، میں ہزاروں کی تعداد میں ایک طلبہ تحریک کی بھی قیادت کی تھی۔ فیسوں کی اضافے کے خلاف چلنے والی تحریک کو طلبہ کی جانب سے بے تحاشا حمایت ملی اور یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو گئی، جبکہ کئی طلبہ قائدین کو یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا اور ان کے خلاف سخت اقدامات بھی کیے گئے۔
بالکل اسی طرح ہنزا اور کئی دوسری جگہوں پر بھی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈز بہت سی تحریکوں اور احتجاجوں میں شامل ہوتے رہے ہیں اور کچھ میں قائدانہ کردار بھی ادا کرتے آئے ہیں۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈز نے گلگت بلتستان میں ینگ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے ملازمین کی تحریکوں میں بھی اپنا بنیادی کردار ادا کیا ہے اور حکومت کو مطالبات ماننے پر مجبور کیا ہے۔
پچھلے مہینے ضلع دیامر (Diamer) میں ایک تحریک ابھری جس میں ایک دیوہیکل ڈیم کی تعمیر سے ہزاروں متاثرین احتجاج کر رہے تھے اور معاوضے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کامریڈ احسان علی کو اس احتجاجی ریلی سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی، انہوں نے عوامی ایکشن کمیٹی اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے مظاہرین کی حمایت کی۔ بعد ازاں، حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہوئی۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے نہ صرف عوام کے بنیادی حقوق کے لیے بلکہ قومی جبر کے خلاف لڑنے کے لیے بھی ایک واضح پروگرام سامنے رکھا ہے۔ یہ پروگرام محنت کش طبقے کے اتحاد اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی پر مبنی ہے، جس نے گلگت بلتستان سمیت پاکستان بھر میں محنت کش عوام کی زندگی کو برباد کر رکھا ہے۔

پاکستان کا ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب نہ صرف اس خوبصورت اور زرخیز خطے کی تباہی کا خاتمہ کرے گا بلکہ قومی جبر کی زنجیروں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کاٹ پھینکے گا۔ برصغیر کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی پورے خطے میں امن اور خوشحالی کی ضامن ہو گی، جو جنگوں اور عام عوام اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والے سیاسی کارکنوں پر جبر ڈھانے والے ظالم حکمرانوں کا خاتمہ کرے گی۔
یہی وہ مقصد ہے جس کی پاداش میں گلگت بلتستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے قائدین کو پاکستان کے حکمران طبقے کی جانب سے جیل بھیجا گیا۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے لڑا اور مرا بھی جا سکتا ہے۔
ریاستی جبر کے باوجود ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم انقلابی کمیونزم کے قوتیں تعمیر کریں گے۔ ہم اس پیغام کو گلگت بلتستان اور پاکستان کے محنت کشوں اور انقلابیوں تک لے کر جائیں گے۔ ہم اپنے ساتھیوں کو بازیاب کرانے کے کمپیئن بھی جاری رکھیں گے۔
ہم عوامی ایکشن کمیٹی اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے گرفتار ہونے والے قائدین کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف تمام مجرمانہ مقدمات کو فی الفور ختم کیا جائے، اور عوامی ایکشن کمیٹی پر جاری جبر کو ختم کیا جائے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ احسان علی کا نام ’فورتھ شیڈول‘ کی دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کیا جائے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات کو فی الفور پورا کیا جائے اور بلا تاخیر ان کی تکمیل کو عمل میں لایا جائے۔
ہم دنیا بھر میں دوسری ممالک کے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے احتجاج منعقد کیے اور اس مشکل وقت اپنے ساتھیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ کمپیئن کامیاب ہو گی اور مسلسل احتجاج کے ساتھ ہمارے ساتھی اور عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت رہا ہو جائے گی۔ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ کمپیئن گلگت بلتستان اور پاکستان میں انقلابی کمیونزم کی قوتوں میں اضافہ کرے کی اور اسے شکتی بخشے گی۔
تمام تر جبر اور مشکلات کے باوجود کامریڈز سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے پُر عزم ہیں تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کرسکیں۔
انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل زندہ باد!
کمیونزم زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!