پاکستان سٹیل ملز کے محنت کش ایک بار پھر سڑکوں پر

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

پاکستان سٹیل مل کے ملازمین کئی ماہ سے تنخواہیں کی ادائیگی نہ ہونے کے خلاف ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔ کراچی سے سٹیل مل ملازمین کا ٹرین مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے جہاں گذشتہ روز نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا گیا اور اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا گیا۔ اس سے قبل جب یہ ٹرین مارچ لاہور پہنچا تو لاہور ریلوے اسٹیشن پر محنت کشوں اور ٹریڈ یونیز نمائندگان کی ایک بڑٰی تعداد نے ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن نجکاری مخالف نعروں سے گونجتا رہا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کےکارکنان نے بھی اس استقبال میں بھرپور شرکت کی۔

پاکستان سٹیل مل کا سنگِ بنیاد 30 دسمبر 1973ء میں کراچی میں رکھا گیا اور آج تک پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی کمپلیکس ہے جو کہ روس کی معاونت کے ساتھ سرکاری تحویل میں تعمیر کیا گیا۔ پچیس ہزار ایکڑ پر محیط یہ دیو ہیکل ادارہ پچھلے کئی سال سے سرکاری معاونت نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے اور جون 2015ء سے مکمل طور پر بند پڑا ہے۔ اس کے بند ہونے پر حکومت نے سٹیل مل کو اٹھارہ ارب کا قرضہ منظور کیا جو کہ چھوٹی چھوٹی اقساط میں ادا ہونے کی وجہ سے اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ اس کے علاوہ سٹیل مل کا ایک ٹریننگ سنٹر بھی تھا جس کو 2005ء میں بند کردیا گیا اور اس کے بعد آنے والے ملازمین کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی گئی۔ اس ٹریننگ سنٹر کے علاوہ روس میں سپیشل ٹریننگ بھی کروائی جاتی تھی جس کو 1985ء میں ہی بند کردیا گیا تھا۔ اس میں اس چیز کو بھی مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومتِ پاکستان نے نجکاری کی پالیسی کی طرف اقدامات بھی 1985ء میں ہی اٹھانے شروع کیئے تھے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ 2020ء تک تمام تربیت یافتہ عملہ ریٹائر ہو جائے گا اور کام میں بہتری کی امیدیں مزید کم ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ 2003ء میں منیجمنٹ نے خراب خام مال استعمال کیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مشینری برباد ہو گئی جس کو بعد میں ٹھیک بھی نہیں کرایا گیاجبکہ اس وقت بھی اس خام مال کو صاف کر کے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ابھی بھی اگر سٹیل مل کو گیس مہیا کی جائے تو رولینگ ملز کو چلایا جا سکتا ہے اور گیس کی بندش کی وجہ سترہ ارب کا بل تھاجو کہ عدم ادائیگی کی وجہ سے اب چونتیس ارب پر جا چکا ہے جبکہ کے الیکٹرک (K-Electric) کو جو کہ ایک نجی کمپنی ہے، کا بل 200 ارب ہونے کے باوجود گیس کی ترسیل جاری رکھی جا رہی ہے۔

اس کے بند ہونے کی سرکاری وجہ تو اس کے منافع بخش نہ ہونے اور ادارے میں کرپشن کی موجودگی کی بتائی جاتی ہے۔ اس ادارے میں کرپشن کرنے والے بھی ہمیشہ سے حکمران جماعتوں کی طرف سے نامزد کیئے گئے اعلیٰ افسران ہی رہے ہیں۔ دوسری طرف میٹرو بس اور اورنج لائین کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سریا موجودہ حکمرانوں کی نجی فونڈریوں سے لایا جا رہا ہے جو کہ حکمران جماعت کے سربراہان کی ملکیت ہیں۔ اس سریا کے استعمال سے بے پناہ منافع بھی کمایا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کے لئے اس مل کی زمینیں کروڑوں کی مالیت رکھتی ہیں اور اس تمام عرصے میں اس عظیم عوامی ادارے کے ملازمین کو نجکاری کے ذریعہ چلانے کے مختلف سبز باغ دکھا کر خاموش رکھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔لیکن کئی سالوں سے سٹیل مل کو چلانے میں حکومت مکمل طور سے ناکام نظر آ رہی ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ اس ادارے کے ہزاروں ملازمین کو کئی کئی ماہ تنخواہیں بھی نہیں ملتیں اور جب ملتی ہیں تو چند ایک ماہ سے زیادہ کی تنخواہ نہیں ملتی۔اس کے علاوہ ریٹارڈ ملازمین کے واجبات بھی ادا نہیں کیئے جا رہے۔ ملازمین کے2009ء سے لے کر ابھی تک سکیل اپ گریڈنہیں کیئے گئے جس وجہ سے دیگر سرکاری اداروں کے مقابلے سٹیل مل کے ورکرز کی تنخواہیں 115 فیصد کم ہیں۔ ملازمین نے سی بی اے کو بھی بدل کر دیکھ لیا اور تمام سیاسی جماعتوں سے بھی آس لگا کر دیکھ کیا ہے لیکن کوئی فرق نہیں پڑ رہا اور ملازمین فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔

ان تمام حالات سے تنگ آ کر اب ملازمین احتجاج کا راستہ اپنا رہے ہیں، اور اس سلسلے میں محنت کشوں کا ایک وفد اسلام آباد میں احتجاج کے لئے پہنچا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کیا جائے گا۔ ملازمین کے مطالبات تنخواہوں کی ماہانہ بنیاد پر ادائیگی یقینی بنانا، طبی سہولیات کی بحالی، ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی فوری ادائیگی، پاکستان سٹیل مل کی بندش کے ذمہ داروں کا احتساب اور بحالی اور نجکاری کی پالیسی کو فی الفور ختم کرنا ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ پاکستان سٹیل مل کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ ہے اور ان کی اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے۔

Comments are closed.