پاکستان کا سماج اور خواتین: یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر!

|تحریر: انعم خان|

خواتین کے لیے اپنی سماجی و ثقافتی پسماندگی کے لیے پہچانا جانے والا پاکستانی معاشرہ گزشتہ چند ماہ سے ایک اور ہی منظر دکھا رہا ہے۔ محنت کش و سرکاری ملازمین کی صورت میں، غریب عوام کی مختلف پرتوں اور پاکستان کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والی مظلوم اقوام کی خواتین اپنے معاشی و سیاسی مطالبات کے حصول کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کا نہ صرف حصہ بن رہی ہیں بلکہ ان تحریکوں میں ہراول کردار ادا کرتے ہوئے تحریکوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔

جس طرح عرب بہار سے قبل مصر کی عوام کے بارے میں عام رائے یہی ہوتی تھی کہ یہ کبھی مزاحمت نہیں کرسکتے، لیکن مصری انقلاب کے بعد دنیا بھر کی عوامی تحریکوں میں ”مصریوں کی طرح چلو“(Walk like an Egyptian!) کا نعرہ زبان زد عام ہوا گیا تھا، اسی طرح پاکستان کا معاشرہ جو کہ خواتین کے حوالے سے صنفی و معاشی جبر اور نابرابری میں دنیا بھر میں زیادہ تر سر فہرست رہتا تھا اور ہے، یہاں کی خواتین کے بارے میں عمومی رائے یہی تھی کہ یہ غیر سیاسی ہیں یا انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں سے پیار ہے۔ یہاں ان پر جبر اتنا زیادہ ہے کہ یہ خواتین جبر کی زنجیروں کے خلاف کبھی کچھ نہیں کرسکتیں۔ خاص طور پر لبرل و این جی اوٹیک مافیا نے خواتین کے جبر کی دکانداری کرکے اربوں روپے کمائے ہیں اور یہ آج بھی ان کی مظلومیت کا رونا رو کر اپنی دکانیں چلائے رکھنے کی ناکام کاوشیں کر رہے ہیں۔ لیکن سماجی کُل کا حصہ ہونے کی حیثیت سے مزاحمتی جدوجہد کا حصہ بن کر اب خواتین بے باکی اور جر ات کا استعارہ بن رہی ہیں۔

چند ماہ قبل اکتوبر 2023ء میں اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) کے پلیٹ فارم سے لیو انکیشمنٹ اور سرکاری سکولز کی نجکاری کے خلاف پنجاب بھر کے لاکھوں محنت کشوں نے شاندار احتجاجی تحریک چلائی، جس میں سرکاری ملازمین نے ریاست کی جانب سے شدید جبر اور گرفتاریوں کا سامنا کیا۔ اس سب عمل میں محنت کشوں کی ملک گیر انقلابی اور سوشلسٹ تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کے کامریڈز بھی ان جر اتمند محنت کشوں کے ہمراہ ان تمام صعوبتوں کا سامنا کرتے رہے۔ خاص کر ریاستی جبر نے تحریک کو معیاری جست فراہم کی اور پہلی مرتبہ وہاڑی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال، ڈیرہ غازی خان جیسے پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں محنت کش ملازمین نے احتجاجی دھرنے دیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے سکولوں کی نجکاری کے خلاف وہاں کے طلبہ اور ان کے والدین نے بھی پہلی بار احتجاج کرتے ہوئے اساتذہ، جن میں ایک بڑی تعداد خواتین اساتذہ کی تھی، کے ساتھ مل کر سکولز کی تالہ بندی کی۔ پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی صورت میں محنت کش خواتین تو پہلے بھی احتجاجی عمل کا حصہ رہی ہیں، لیکن اس تحریک نے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اساتذہ خاص کر فی میل ٹیچرز کو احتجاجی دھارے کا حصہ بنایا، جس میں انتہائی جراتمند، ترو تازہ اور باشعور نوجوان خواتین ان شہروں کی شاہراہوں پر قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں۔ قیادت کی سمجھوتے بازی کے کارن تحریک اپنے فوری اہداف حاصل کرنے میں تو کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اس نے نوجوان محنت کشوں میں بغاوت کا جو بیج بو دیا ہے وہ بڑی تیزی سے پھل پھول رہا ہے جو بہت جلد ہی ایک بار پھر پہلے سے کہیں بڑے پیمانے پر اپنا اظہار کرے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ مفت بجلی کے حصول کے لیے پاکستانی مقبوضہ کشمیرمیں عوامی ایکشن کمیٹیوں کے تحت احتجاجی تحریک اب بھی جاری ہے۔ اس خطے کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں کے بازاروں میں عام حالات میں خواتین کے گزرنے کے لیے بھی الگ گلیاں اور راستے بنے ہوئے ہیں، لیکن اس اہم ترین عوامی مطالبے کے گرد بننے والی تحریک نے قیادت میں موجود چند قدامت پرست صاحبان کی خواہشات کے برعکس کشمیر کی خواتین کو تحریک کا حصہ بنا دیا ہے اور اب یہ عمل خود تحریک کے معیار کو آگے بڑھانے کا موجب بن چکا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ نے بھی اپنے آغاز میں خواتین کے حوالے سے اس ملک کے پسماندہ ترین علاقوں سے بہت قلیل تعداد میں ہی سہی لیکن خاص کر ان ماؤں اور خواتین کو شائد پہلی دفعہ کسی عوامی اکٹھ میں آنے پر مجبور کیا تھا جن کے گھر کے افراد جبری گمشدگی کا شکار تھے۔

لیکن گوادر بلوچستان میں ماہی گیر محنت کشوں اور عوام کو صاف پانی کی فراہمی جیسے مطالبات کے گرد بننے والی احتجاجی تحریک میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خواتین شامل ہوئی تھیں اور انہیں منظم کرنے میں مائی جیونی نامی بزرگ خاتون نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اوراب تازہ ترین شاندار مثال جس نے ریاست کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا وہ بلوچستان سے جبری گمشدیوں اور ماورائے عدالت قتل وغارت کے خلاف شروع ہونے والی بلوچ عوام کی سیاسی مزاحمت پر مشتمل تحریک ہے جس کی قیادت دو نوجوان خواتین کررہی ہیں۔

ان کے بلند حوصلوں اور بے باکی نے نہ صرف اس جابر ریاست بلکہ بلوچستان کے سیاسی و مالیاتی مالک سرداروں اور روایتی قوم پرست قیادتوں کی دکانیں بھی بند کر کے رکھ دی ہیں۔ اگیگا پاکستان و لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مرکزی رہنما محترمہ رخسانہ انور نے سوشل میڈیا پوسٹ میں بڑی خوبصورتی سے خواتین کے متعلق اس بدلتی صورتحال کا احاطہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ”معزز بھائیوں سے گزارش ہے کہ کسی کو بزدلی کا طعنہ دینے کے لیے دوپٹہ اوڑھنے اور چوڑی پہننے کی مثال نہ دیں، کیونکہ دوپٹہ اوڑھنے والیاں (خواتین) جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں!“۔

یہ تمام تر صورتحال، محض نہ صرف خواتین کے اندر، ان کے اپنے متعلق پائی جانے والی آراء میں تبدیلی کا اظہار ہے بلکہ یہ مجموعی سماجی ڈھانچے کے شعور کی تبدیلی کا اہم ترین اظہار ہے جوکہ حالات کے سبب تیزی سے انقلابی تحریک کے معرکے کی جانب گامزن ہے۔ سوائے کمیونسٹوں کے جو کہ گزشتہ کئی سالوں سے اس عمل کی نہ صرف پیش بینی کر رہے تھے بلکہ اس کی تیاری بھی کرتے چلے آرہے ہیں، کسی نے بھی اس سیاسی و سماجی عمل کی پیش بینی نہیں کی تھی۔

عورت مارچ کے سالانہ جلسے جن میں اپر مڈل کلاس کے نسوانیت پرست ’’وومن ہوڈ“ کو ”سیلیبریٹ“ کر کے باقی سال غائب رہتے ہیں، ان کے برعکس پاکستان میں چلنے والی ان تمام تحریکوں کا کردار اور مطالبات واضح طبقاتی تفریق کے حامل ہیں۔ اسلام آباد میں لگنے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ کے شرکاء کی اکثریت بلوچستان کے غریب ترین لوگوں پر مشتمل نظر آئی جنہیں اس تحریک نے اپنے پیاروں کے لیے آواز اٹھانے کا حوصلہ بخشا ہے۔

اسی طرح کشمیر کی مفت بجلی کا مطالبہ تو ویسے ہی واضح طور پر طبقاتی مطالبہ ہے جس کا امیر کشمیریوں اور وہاں کی حکمران اشرافیہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پنجاب کی تحریک تو تھی ہی محنت کش ملازمین کی تحریک۔ان تمام تحریکوں میں صنفی تقسیم کی بجائے بطور سماجی کُل کا حصہ عام خواتین، نہ صرف لڑتے ہوئے بلکہ اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ مل کر تحریک کی قیادت کرتے ہوئے نظر آئی ہیں۔ پاکستان کے مختلف خطوں میں جہاں ایک طرف مزاحمت اور عوام و محنت کشوں کی جانب سے اپنے غصب کردہ حقوق کے حصول کے لیے حقیقی سیاست کا عمل جاری ہے وہیں اسی خطے کے حکمران عوام کا پیٹ کاٹ کر 57 ارب سے زائد کا خرچہ کرکے الیکشن کی ڈرامے بازی کا ناٹک بھی رچا رہے ہیں جس کے متعلق بھی اتنی غیر یقینی قائم کی گئی ہے کہ آئے روز کسی نہ کسی بات سے اسے ملتوی ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

یہاں کے پیپلز پارٹی سے لے کر پی ٹی آئی اور ن لیگ سمیت تمام درندہ صفت حکمران اب اتنے سمجھدار تو ہو ہی گئے ہیں کہ اس بار وہ لوگوں سے مخاطب ہونے کی بجائے براہ راست انہی ریاستی قوتوں کو اپنی وفاداری کے پیغامات دے رہے ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار سے نوازنا ہے۔

مارکیٹ گرم ہے اور مقابلہ سخت ہے کہ اس باربھی صرف محنت کش عوام کے لیے مشکل معاشی فیصلے کرنے یعنی مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری اور غربت جیسے تحفے عوام میں بانٹنے اور بدلے میں اپنی مراعات سمیٹنے جیسے ”فرائض“ کی ادائیگی کس پارٹی کے حصے میں آتی ہے۔ لیکن یہ حکمران اور ان کے حواری مالکان جواباً عوام سے آنے والے وقت میں ملنے والے مزاحمت اور احتجاجوں کے مزید تحائف سے سخت اُلجھن کا شکار بھی ہیں کہ جنہیں کنٹرول کرنے کی سکت ان میں نہیں ہے۔ اگرچہ حکمرانوں نے ان تمام عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے لیکن تحریکوں کی نامیاتی بڑھوتری کا عمل وقت کے ساتھ حکمرانوں کے تمام ہتھکنڈوں کو اپنی الٹ میں تبدیل کرتا جارہا ہے۔ان تحریکوں میں خاص کر خواتین کی شمولیت انہیں مربوط، منظم اور مضبوط کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صنفی جبر اور تقسیم کا سلسلہ بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ سال 2023ء میں ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ ورلڈ جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک کی فہرست میں اس حوالے سے 142 ویں نمبر پر آتا ہے اور یہ صنفی تفریق 2006 ء کے بعد سے اب تک کی بدترین تفریق ہے۔جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر روز صرف پنجاب میں اوسطاً کم از کم بارہ خواتین کا ریپ کیا جاتا ہے۔

فرائیڈے ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف جنوری 2023 ء سے اپریل تک خواتین پر تشدد کے دس ہزار تین سو پینسٹھ کیس ریکارڈ پر آئے ہیں۔یہاں ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون کا ریپ کیا جاتا ہے جبکہ سزا پانے والوں کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔

لیکن واضح رہے کہ ریکارڈ پر آنے والے صنفی جرائم تو اس نوعیت کے کل جرائم کا محض چھوٹا سا ایک حصہ ہیں۔ خواتین پر ہونے والا خوفناک جبر تو پھر بھی اس معاشرے میں نظر آجاتا ہے جوکہ طبقاتی تقسیم کے سبب جنم لینے والی پدرشاہی کا شاخسانہ ہے، لیکن اسی پد رشاہانہ جبر کا شکار خود مرد اور خاص کر محنت کش طبقے کے ہمارے مرد ساتھی بھی ہیں، اور جبر کی یہ شکل تو زیادہ کھل کر نظر بھی نہیں آتی۔ جس طرح خواتین کو گھریلو چار دیواری کی غلامی کا شکار بننا پڑتا ہے وہیں مردوں پر ان خواتین، بچوں اور خاندان کا پیٹ پالنے کا معاشی جبر بھی بدترین شکل میں نہ صرف موجود ہے بلکہ ملکی معاشی دیوالیے کی وجہ سے معاشی تنگدستی میں اضافے کے سبب دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

یوں جہاں ایک طرف خواتین پر صنفی جبر بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب مردوں پر کمانے کا دباؤ اور بیوی بچوں سمیت پورے خاندان کی خودکشیوں کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

مہنگے ترین الیکشنز کے ناٹک کے بعد برسراقتدار حکمران سوائے معاشی حملے اور ریاستی جبر تیز کرنے کے اور کوئی نیت چاہیں بھی تورکھ نہیں سکتے۔ لیکن کشمیر سے بلوچستان، گلگت سے پنجاب تک بننے والی تحریکیں، وہ ٹیزر ہیں جن کے ٹریلر اور پھر پوری فلم بھی چلنے کو تیار ہے۔ ان تحریکوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے اور خاص کر اس ملک و سماج کو چلانے والی قوت یعنی محنت کش طبقہ جوکہ اس نظام کو بدلنے کی صلاحیت رکھنے والا واحد طبقہ ہے، اس کی قیادت میں یہاں کی مظلوم اقوام،کسان،نوجوان اور خواتین نہ صرف اپنے تمام حقوق و آزادی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ مل جل کر ایک غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج تعمیر کرتے ہوئے ایک اعلیٰ ترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے مسلح ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنا ہو گی اور یہی 8 مارچ2024 ء،محنت کش خواتین کے عالمی دن کا پیغام ہے۔

Comments are closed.