ٹیڈ گرانٹ کے دفاع میں

|تحریر: پارس جان|

 

تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ اگر کبھی کسی مخصوص اور تاریخی لازمیت کے حامل سماجی و سیاسی عمل میں تعطل اور انحطاط وقوع پذیر ہوتا بھی ہے تو اسی انحطاط کے متوازی نئے امکانات اور نئی راہیں بھی نمودار ہوتی ہیں۔ان نئی راہوں اور نئے سماجی و سیاسی امکانات کی شناخت، نشاندہی اور پھر تزئین و آرائش ہی کسی بھی فرد، جماعت یا نظریئے کو تاریخی عظمت اور انفرادیت سے نوازتے ہیں۔ اس حوالے سے بیسویں صدی کا مطالعہ حیرت انگیز فکری تنوع کا متقاضی ہے۔

یوں تو ساری انسانی تاریخ بے شمار چونکا دینے والے اور توجہ کے مستحق غیر معمولی واقعات سے عبارت ہے مگر اس ضمن میں بیسویں صدی جتنی وسیع القلب اور فیاض ثابت ہوئی ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سامراجیت کی تشکیل، دو عالمی جنگیں، نیوکلیئر اور خلائی ٹیکنالوجی، ویلفیئر ریاست اور نو آبادیاتی انقلابات ان تمام عوامل نے گزشتہ صدی میں ہر سماج کا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا مگر گزشتہ صدی کی تاریخی اہمیت کو اس صدی میں برپا ہونے والے انقلابات اور ردِ انقلابات کے سائنسی مطالعے کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔

اکتوبر 1917ء میں برپا ہونے والے روسی انقلاب اور بعد ازاں 1949ء کے چینی انقلاب سے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے نظریات کی درستگی تو بہرحال ثابت ہو گئی مگر چونکہ ان کی توقع کے برعکس یہ انقلابات ترقی یافتہ یورپی ممالک کی بجائے پسماندہ ممالک میں رونما ہوئے لہٰذا انہوں نے نئے سیاسی و معاشی تضادات اور تشکیلات کو جنم دیا جن کی درست سمجھ بوجھ میں بڑے بڑے مفکرین و اکابرین کی فکری استطاعت اور عملی صلاحیتیں بھی عاجز ثابت ہوئیں اور بدظنی، بے یقینی اور بے رہروی کی عمومی فضا کو تقویت ملی۔

مزید برآں ان انقلابات کے رد ہو جانے کے بعد تو صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی۔ ان تمام نوخیز سماجی و معاشی اشکال کی تفہیم اور مستقبل کے امکانات کے حوالے سے نئی اور زیادہ بلند پیمانے کی شعوری کاوش اور عملی جدوجہد درکار تھی۔ ایسے میں لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابی ورثے اور سیاسی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے آئندہ انقلابی نسلوں کی راہ کے کانٹے صاف کیے اور ایسی رہنمائی فراہم کی جس کی بنا پر ہم ان تمام پیچیدہ مظاہر کی حرکیات کا درست ادراک حاصل کر کے ہر قسم کی بدظنی اور غیر یقینی پن کی اذیت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کو بلا مبالغہ گزشتہ صدی کے عظیم ترین انقلابی رہنماؤں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

جس طرح روس میں بالشویک انقلاب نے دنیا بھر کی مزدور تحریکوں، ادب اور عمومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے ویسے ہی انقلابِ روس کے قائد لینن کی وفات کے بعد اس انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری نے بھی ساری دنیا کی سیاسی قیادتوں کو اپنے خبط میں مبتلا کر دیا تھا۔ سوویت یونین میں افسر شاہی نے اپنی مراعات کے دفاع کے لیے ہر قسم کی سیاسی مخالفت کا قلع قمع کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا مگر انہی اقدامات کے متوازی 1929ء کے عظیم الجثہ عالمی معاشی زوال کے باوجود روس میں معیشت کے ابھار کا سفر بتدریج جاری رہا اور وہاں عوام الناس کے معیارِ زندگی میں ناقابلِ یقین اضافہ ہوا۔ جس کے باعث اس آمرانہ نظامِ حکومت کے داخلی تضادات وقتی طور پر سست پڑ گئے اور ان کو نظر انداز کیا جانا ممکن ہو گیا۔

لیکن اس آمرانہ نظامِ حکومت کی جکڑ کے باوجود معیشت کی منصوبہ بندی کے معجزات کی دھاک کے باعث بین الاقوامی تعلقات کی جو شکل ابھری، اس نے عالمی سیاست پر بالعموم اور مزدور تحریک پر بالخصوص سوویت افسر شاہی کی سیاسی اتھارٹی کو مستحکم کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انقلابِ روس کے معمار لیون ٹراٹسکی اور ان کے کامریڈز کی تمام تر مزاحمت کے باوجود سوویت یونین کی اس سیاسی شکل (form) کو ہی اصلی سوشلزم سمجھ لیا گیا اور بعد کے تمام تر انقلابات نے اس کی تقلید کی۔

لیون ٹراٹسکی کے لاکھوں انقلابی ساتھیوں کو اس کے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار کر بالآخر 1940ء میں اسے بھی شہید کر دیا گیا۔ یوں جہاں تاریخ کا عظیم ترین انقلاب اپنی تمام تر معاشی فتوحات کے باوجود سیاسی زوال پذیری کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا، وہیں لیون ٹراٹسکی کی تمام تر نظری و سیاسی مزاحمت بھی رائیگاں نہیں گئی اور ٹراٹسکی نے اپنے قتل سے دو سال قبل کمیونسٹ انٹرنیشنل سے مکمل لاتعلقی کرتے ہوئے ایک نئی (چوتھی) انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور اس کے تخلیق کردہ بے پناہ نظریاتی ورثے کی بنیاد پر ٹراٹسکائیٹ تحریک کی تنظیم و تفہیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

مگر یہ سفر اب پہلے سے بھی مشکل ہو گیا تھا اور سوویت یونین کے ہاتھوں ہٹلر کی فسطائیت کو فیصلہ کن شکست گو کہ سوویت یونین کی مزدور ریاست اور سوشلسٹ نظریات کی فتح تھی لیکن اس وقت اس تاریخی کامیابی نے سٹالن اور سوویت بیوروکریسی کی زوال پذیر قیادت کو طوالت بخشی اور مزدور تحریک میں سٹالنزم کے جرائم اور اس کے باعث سوویت یونین کو لاحق خطرات پر تنقیدی بحث مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی۔

اس معروضی دباؤ نے لیون ٹراٹسکی کے شاگردوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ اس عرصے میں کامریڈ ٹیڈگرانٹ بھی اپنے آبائی وطن ساؤتھ افریقہ کو خیر باد کہہ کر یورپ کی مزدور تحریک میں عملاً سرگرم ہو چکے تھے اور اپنے بے مثال نظریاتی و سیاسی معیار اور ولولے کے باعث وہ بہت جلد ٹراٹسکائیٹ تحریک کے سرخیلوں کی فہرست میں شمار ہونے لگے۔ معروضی دباؤ کے باعث جب ٹراٹسکی کے نظریاتی ورثا کے پاؤں لڑکھڑانے لگے اور ٹراٹسکائیٹ تحریک میں موقع پرستی اور الٹرالیفٹ ازم تک ہر قسم کی ترمیم پسندی کے رجحانات وارد ہونے لگے تو ایسے میں ٹیڈ گرانٹ نے ٹراٹسکی ازم کا عظیم پرچم تھاما اور اسے ہمیشہ سربلند رکھا۔ آئندہ عشروں کے واقعات میں صورتحال مزید دشوار ہوتی چلی گئی مگر کامریڈ ٹیڈگرانٹ اور ان کے رفقا ہر نظریاتی اور سیاسی لڑائی میں ہمیشہ سرخرو ہوئے۔ تب سے لے کر 2006 ء میں اپنی وفات تک کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات کی حقیقی تفہیم اور تعمیل کے لیے غیر متزلزل اور ان تھک جدوجہد کی، جس نے اس عظیم انقلابی استاد کو امر کر دیا۔

مگر جہاں تاریخ کے اپنے قوانین اور محرکات ہیں وہیں شاید یہ المیہ بھی تاریخی ارتقا میں قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں عظیم لوگوں کے نظریات اور کردار کو ہمیشہ مسخ کیا جاتا رہا ہے۔ مزدور تحریک اور عمومی سیاست کے تاریخی ارتقا میں یہ قانون سب سے زیادہ واضح اور نمایاں شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اگر ہم بالخصوص مارکسی تحریک کے حوالے سے بات کریں تو اس قانون کا اطلاق اس اضافت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر مارکسی استاد کی کردار کشی اور توڑ مروڑ میں ان کے اور مزدور تحریک کے دشمنوں سے زیادہ ان کے نام لیواؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دشمنوں کے حملوں سے تو ان مارکسی اساتذہ کے حوصلے مزید بلند ہوتے گئے اور مزدور تحریک میں ان کا سیاسی قد بھی بڑھتا گیا مگر نام لیواؤں کی توڑ مروڑ نے مزدور تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جس سے کئی انقلابات ضائع ہوئے اور اس کا خمیازہ محنت کشوں کی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑا۔

جس طرح سوشل ڈیموکریٹوں یعنی پلیخانوف اور کاؤتسکی جیسے شاگردوں نے غیر معمولی حالات میں مارکس اور اینگلز کے نظریات کو اس کے انقلابی جوہر سے علیحدہ کر کے کند کردیا تھا، بالکل ویسے ہی سٹالن اور اس کے حواریوں نے لینن کے نظریاتی ورثے کو اتنا مسخ کیا کہ وہ سٹالنزم کی شکل میں معیاری طور پر اپنے الٹ میں بدل کر ایک ردِ انقلابی اوزار میں تبدیل ہو گیا۔

لیون ٹراٹسکی نے جہاں لینن ازم کی اساس کو محفوظ بنایا وہیں ٹراٹسکائیٹ تحریک کے نوسربازوں نے اسے مضحکہ خیز حد تک مسخ ہی نہیں بلکہ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ ٹیڈ گرانٹ نے تاریخ کے دھارے کے خلاف لڑتے ہوئے ٹراٹسکی ازم کے عظیم ورثے کو اگلی نسل کو منتقل تو کر دیا مگر اب اسے بھی تاریخی ارتقا کے اس المناک قانون کی بھینٹ چڑھنا پڑ رہا ہے اور اس کے نظریات کی بھی بہت بھدی توضیحات پیش کی جاتی ہیں۔ حسبِ روایت اس کے نظریات کی یہ بھونڈی توضیحات جہاں اس کے دشمنوں نے کیں وہیں اس کے شاگردوں میں شامل لکیر کے فقیروں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس لیے حقیقی نظریاتی ورثا کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ٹیڈ گرانٹ کے نظریات کی درست، منطقی اور عملی توضیحات پیش کریں اور اس لازوال مارکسی سرمائے کا دفاع کریں۔

میں ٹیڈ گرانٹ نہیں ہوں

ٹیڈ گرانٹ کے سیاسی ورثے کا اہم ترین حصہ تاریخ کے ہر اہم ترین موڑ پر تخلیق کردہ اس کے تناظر اور انقلابی تنظیم کی حکمتِ عملی کی ترتیب و تدوین پر مشتمل ہے۔ بالخصوص اسے روایتی پارٹیوں میں کام (انٹرازم) کی پالیسی کے ماہر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ہم اس طریقہ کار کی اساس اور حرکیات پر آگے چل کر تفصیل سے بات کریں گے۔ مگر تنظیم کی تعمیر کے اس طریقے کو بنیاد بنا کر ٹیڈ گرانٹ کے کچھ نالائق شاگردوں نے مزدور تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ہر قیمت پر اور ہر قسم کے حالات میں روایتی پارٹیوں میں کام کی پالیسی کو اصول کا درجہ دے کر بے لگام انٹرازم اور موقع پرستی کی روش اپنا لی گئی۔ اس روش نے ان روایتی پارٹیوں میں کام کرنے والے بائیں بازو کے کارکنان کو ان روایتی پارٹیوں کی بورژوا قیادتوں کے دم چھلوں میں تبدیل کر دیا۔ یوں محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں تک رسائی اور اس کی ہراول پرتوں کو مارکسزم کے انقلابی نظریات پر جیتنے کی بجائے آج ان خواتین و حضرات کی اکثریت محنت کش طبقے کے غداروں کے طور پر جانی جاتی ہے اور بدعنوان ٹریڈ یونین اشرافیہ کے علاوہ انہیں مزدور تحریک کی صفوں میں کوئی منہ نہیں لگاتا۔

اگر ہم بالخصوص پاکستان میں آج بھی پیپلز پارٹی میں کام کرنے والے ٹیڈگرانٹ کے نام لیواؤں کا تذکرہ کریں تو ہمیں موقع پرستی اور ضمیر فروشی اس انتہا پر نظر آتی ہے کہ جس کی گزشتہ صدی کی تاریخ میں بھی شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ ان موقع پرستوں نے پیپلز پارٹی کے طویل ترین اقتدار کے دورانیوں میں پیپلز پارٹی کی عوام دشمن قیادت کی ہر پالیسی کا مجرمانہ دفاع کیا، وزرا کی کاسہ لیسی کی اور اس کے عوض اقتدار کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور اپنے ہر مزدور دشمن اقدام کو جواز فراہم کرنے کے لیے ٹیڈ گرانٹ کے چند ایک مضامین اور انٹرویوز کے جملوں اور کلمات کو ایسے ہی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جیسے بدکردار ملاں اپنے جرائم کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہبی احکامات و تعلیمات کی من چاہی توڑ مروڑ کرتے ہیں۔ اور جب ان بدعنوان عناصر کی زبان سے ٹیڈ گرانٹ کا نام فوارے کی طرح پھوٹتا ہے تو بائیں بازو کے وہ تمام فرقہ پرور اور اصلاح پسند رجحانات جن کے خلاف ٹیڈ نے ساری زندگی استقامت کے ساتھ ناقابلِ مصالحت جنگ کی، انہیں ٹیڈ گرانٹ پر کیچڑ اچھالنے، اس کا تمسخر اڑانے اور لعن طعن کرنے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ہے۔

حقیقت میں ٹیڈ گرانٹ کے تجویز کردہ انٹرازم کے طریقہ کار کا اس بدقماش اور بدتراز ہوس طریقہِ کار سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ٹیڈ گرانٹ نے جتنا فرقہ پرور رجحانات کے خلاف مزدور تحریک کے عمومی دھارے سے جڑے رہنے کی پالیسی کا دفاع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ مزدور تحریک کی بورژوا، اصلاح پسند اور بدعنوان قیادت کو ننگا کرنے اور ان میں محنت کشوں کی خوش فہمیوں کو دور کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کیں۔ وہ قیادت کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے مزدور تحریک کے بائیں بازو کی تعمیر و تخلیق پر نہیں بلکہ قیادت کی پالیسیوں پر تند و تیز حملے کرتے ہوئے آزادانہ مارکسی رجحان کی تخلیق کے لیے انٹرازم کی پالیسی کی وکالت کرتا تھا، ایسا رجحان جو بعد ازاں وسیع تر سماجی بنیادوں پر استوار عوامی کمیونسٹ پارٹی کی شکل اختیار کر سکے۔

اس کے نزدیک یہ لڑائی صراطِ مستقیم کی طرز پر بتدریج مقداری پیش رفت سے عبارت نہیں تھی بلکہ متضاد بڑھوتری اور بورژوا قیادتوں سے مسلسل لڑائیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے عبارت تھی۔ اسی پالیسی کی وجہ سے ٹیڈگرانٹ اور اس کے رفقا کو برطانوی لیبر پارٹی سے بے دخل بھی کیا گیا۔

پاکستان میں پیپلز پارٹی میں انٹرازم کرنے والے سیاسی رجحانات کے طریقوں اور ٹیڈ گرانٹ کے طریقہِ کار میں کوئی قدر بھی مشترک نہیں ہے۔ ان کے لیے ٹیڈ گرانٹ کا دو ٹوک اور واضح پیغام یہی ہو سکتا ہے کہ ’اگر تم لوگ ٹیڈگرانٹ کے شاگرد ہو تو میں ٹیڈگرانٹ ہر گز نہیں ہوں‘۔

بدعنوانی محض مالیاتی یا فوری معاشی استفادے تک محدودنہیں ہوتی بلکہ بدعنوانی کی سب سے غلیظ شکل نام نہاد عملیت پسندی اور ’حقیقت پسندی‘ کے دباؤ میں نظریاتی سمجھوتہ ہے جس سے سینکڑوں یا ہزاروں محنت کش براہِ راست اور لاکھوں کروڑوں بالواسطہ متاثرہوتے ہیں اور جو سرمایہ دارانہ نظام میں بالآخر اخلاقی زوال پذیری سے ہوتا ہوا معاشی بدعنوانی پر ہی منتج ہوتا ہے۔

کج فہمی کی آغوش میں بدعنوانی پرورش پاتی ہے۔ ایسے میں بورژوا قیادتوں کی مجرمانہ پالیسیوں کے وہ معذرت خواہان جو براہِ راست وظیفہ خوار نہیں بھی ہوتے اور ان قیادتوں کے ہر اقدام کا معروضی جوازپیش کر کے ان پر بائیں بازو کا غلاف چڑھانے میں لگے رہتے ہیں، وہ دراصل معصومیت کی آڑ میں کسی زیادہ بڑی واردات کے مناسب موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مناسب مواقع میں تاخیر کی صورت میں ان کا ہیجان بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور یہ پہلے سے بھی زیادہ دیدہ دلیری اور دانشورانہ چابک دستی سے ہر حد پار کرتے ہوئے بورژوا قیادت کے گوبر کو بھی حلوہ ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں۔ اور پھر یہ بظاہر بغیر تنخواہ کے خدمت گار موقع ملتے ہی کھلم کھلا سودے بازی کرنے والوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی اس ضمیر فروشی سے ان کے ساتھ ساتھ ان نظریات کی بھی رسوائی ہوتی ہے جن کی یہ نمائندگی کاناٹک کرتے ہیں۔

جدلیات دان

ٹیڈگرانٹ کے نظریات کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ جہاں ایک طرف کچھ موقع پرستوں نے ان نظریات سے رجوع ہی اس لیے کیا تا کہ مخصوص اور منفرد پہچان بنا کر بورژوا قیادت کی زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کی جا سکے، وہیں بہت سے لوگ ٹیڈ کی تعلیمات کی غلط توضیح اور تفہیم کا شکار ہوئے اور بالآخر کاسہ لیسی ہی ان کامقدر ٹھہری۔ آخر الذکر لوگ وہ تھے جو ٹیڈ گرانٹ کے طریقہ کار کے بنیادی جوہر سے ہمیشہ لا علم ہی رہے اور ان کے خیال میں ٹیڈگرانٹ نے کوئی ایسا تریاق ایجاد کر لیا تھا جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھا۔ وہ شاید یہ سمجھتے تھے کہ ٹیڈ گرانٹ نے تاریخ کے مطالعے یا تجربے سے انٹرازم نام کا ایسا ازلی اور ابدی نسخہ تجویز کر دیا تھا جس کے بغیر انقلابی پارٹی کسی بھی معروض میں تعمیر نہیں کی جا سکتی۔

ٹیڈگرانٹ ایک اٹل اور غیر متزلزل مارکس وادی تھا اور وہ اس قسم کے میکانکی طرزِ فکر کا کبھی متحمل نہیں ہوا، جس میں کوئی مجرد فارمولہ ٹھوس مادی حقیقت پر من مرضی سے مسلط کر دیا جائے۔

ٹیڈ کا طریقہ کار صوابدیدی نہیں جدلیاتی تھا اور وہ مستقل مزاج مادیت پسند تھا۔ اس کے نزدیک مارکسزم ایک سائنس ہے جو ٹھوس معروضی صورتحال کے درست تجزیئے کا بہترین اوزار ہے اور اسی سائنسی تجزیئے کی بنا پر ہی انقلابی حکمتِ عملی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ وہ تمام مارکسی اساتذہ کی طرح نظریات پر چٹان سے بھی زیادہ سخت اور حکمتِ عملی کے سوال پر انتہائی لچکدار تھا۔

انٹرازم کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کے خیال میں نظریاتی سے زیادہ حکمتِ عملی کا سوال تھا تا کہ مخصوص حالات میں زیادہ سے زیادہ انقلابی پروپیگنڈا کرتے ہوئے مارکسی کیڈرز پر مشتمل ایک مارکسی پارٹی کا ایمبریو تخلیق کیا جا سکے۔

تغیر جدلیات کا بنیادی جوہر ہے اور ہر ممکنہ تبدیلی کا تناظر تخلیق کرنا اور ہر تبدیل شدہ صورتحال میں اس کے مطابق مارکسی کیڈرز کی تربیت کرنا ہی ایک مارکسی قیادت کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے۔ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے یہ فریضہ بخوبی نبھایا۔

اپنی 96سالہ طویل زندگی کا تین چوتھائی حصہ اس نے سیاسی سرگرمی میں گزارا۔ پونی صدی پر محیط یہ طویل انقلابی سفر انسانی تاریخ کے متلاطم ترین دور میں طے کیا گیا۔ ٹیڈ گرانٹ نے مزدور تحریک کے بے شمار نشیب و فراز دیکھے اور ہر ٹھوس صورتحال کے مطابق اپنی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کو مزید وسعت اور فعالیت بخشی۔ اس نے جہاں لیبرپارٹی میں کام کیا، وہیں مخصوص حالات میں ریوولوشنری کمیونسٹ پارٹی بھی بنائی۔ اگر کوئی کہے کہ کامریڈ ٹیڈگرانٹ روایتی پارٹیوں کو ناقابلِ تغیر اور ان کے اندر ہی کام کو ازلی اور ابدی انقلابی پالیسی سمجھتے تھے، تو گویا ٹیڈ گرانٹ کوئی مارکس وادی نہیں بلکہ صوفی یا مجاور تھے اور ظاہر ہے کہ یہ بیان اس عظیم انقلابی استاد کے خلاف کسی فردِجرم سے کم نہیں ہے۔ کسی ایک آرٹیکل یا انٹرویو کو یاد کر کے ٹیڈگرانٹ کے عمومی میتھڈ کو نہیں سمجھاجا سکتا، اس کے لیے اس کی تعلیمات اور جدوجہد، غرضیکہ اس کے نظریاتی و سیاسی ورثے اور تناظر اور حکمتِ عملی کو الگ الگ نہیں بلکہ باہمی طور پر مربوط ایک نامیاتی کل کے طور پر سمجھنا ہوگا۔

پرولتاری بونا پارٹزم

ٹیڈ گرانٹ کے نظریاتی ورثے کے نامیاتی کل کے ایک سب سے اہم اور لازمی جزو یعنی مارکسی نظریہِ ریاست کی تشریح اور فروغ کو یہاں ایک مثال کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔

ریاست کا سوال بلاشبہ مارکسزم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ سوویت یونین میں افسر شاہی کے سیاسی اقتدار کے باعث ریاست کا مارکسی نظریہ جو انقلابی کارکنوں کے نزدیک بظاہر بہت سادہ اور عام فہم معلوم پڑتا ہے، انتہائی پیچیدہ اور وضاحت طلب شکل اختیار کر گیا اور اس کی توضیحات پر مزدور تحریک میں شدید تضادات نے جنم لیا۔سوویت یونین کی افسر شاہانہ سیاسی زوال پذیری کے ناقدین اس بات پر تو متفق تھے کہ سووویت یونین میں کلاسیکل سوشلسٹ ریاست یعنی پرولتاریہ کی آمریت تو ہر گز نہیں ہے۔ لیکن ریاست کی یہ نئی سیاسی شکل دراصل اپنے جوہر میں ہے کیا، اس سوال پر بہت سے انقلابی رہنما ابہام کا شکارہو گئے۔

تاریخ مارکس وادیوں کے لیے کوئی معینہ نصاب نہیں ہوتی بلکہ سماجی تضادات ذرائع پیداوار کی ترقی کے زیرِ اثر نت نئی صورتوں میں نمودار ہوتے رہتے ہیں اور ان نئی صورتوں کے زیرِ اثر نئی سیاسی تشکیلات بھی ناگزیر ہوتی ہیں۔ ان نئی تشکیلات کی طرف دو ممکنہ رویے جنم لیتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ان نئی تشکیلات کو خارج از نصاب قرار دے کر ان کو ایک معروضی حقیقت کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا جائے اور ان پر ماضی کے رٹے رٹائے فارمولے اور تعریفیں لاگو کردی جائیں۔ ان فارمولوں کا حلقہِ اثر بہت متنوع ہو سکتا ہے لیکن ان کا عمومی کردار بہرحال قدامت پرستانہ اور مابعد الطبیعاتی ہی ہوتا ہے۔ دوسرا رویہ سائنسی اپروچ کا حامل ہوتا ہے، جس میں ان نئی تشکیلات پر مجرد فارمولے لاگو کرنے کی بجائے ان کے وجود کے ٹھوس خواص اور داخلی تعلقات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اپنے سیاسی نقطہِ نظر اور حکمتِ عملی کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر نئی تشکیل کے بیج بہرحال ماضی میں ہی پیوست ہوتے ہیں، اس کی حرکیات کے درست سائنسی مطالعے کی بنا پر اس کی آئندہ ممکنہ اشکال کی پیش بینی بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ معروضی حقیقت اور انسانی فکر کی ترقی کے عمومی جدلیاتی قوانین ہیں۔

سوویت یونین کے اس غیر متوقع سیاسی ارتقا نے ’ریاستی سرمایہ داری‘ جیسے میکانکی تصورات کو فروغ دیا لیکن لیون ٹراٹسکی جہاں ایک طرف افسرشاہی کی غداری کے خلاف برسرِ پیکار تھا وہیں اس نے اپنی تمام تر توانائیاں سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کے دفاع پر لگا دیں اور اس نے واشگاف مؤقف اختیار کیا کہ سوویت یونین میں اگرچہ پرولتاریہ کی آمریت نہیں ہے بلکہ افسر شاہانہ سٹالنسٹ زوال پذیری کا شکار کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے لیکن سوویت یونین کی ریاست پھر بھی ایک مزدور ریاست ہی ہے، اس نے اسے ایک مسخ شدہ مزدور ریاست قرار دیا۔

صوری منطق (Formal Logic) والوں کو یہ بیانیہ قدرے متضاد محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جو ٹراٹسکی کے سیاسی قد و قامت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن سوویت یونین کی اس تشریح کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، ٹراٹسکی کے اس مؤقف پر یہ طفلانہ تنقید بھی کرتے ہیں کہ ٹراٹسکی چونکہ خود اس انقلاب کا قائد بھی تھا، اسی وجہ سے اس کی اس انقلاب سے جذباتی وابستگی تھی جس کے باعث وہ یہ تسلیم ہی نہیں کر سکا کہ وہاں سرمایہ داری واپس آ چکی ہے۔ اس کے بالکل برعکس لیون ٹراٹسکی کی عظمت ہی یہ تھی کہ وہ اس ریاستی مشینری کے براہِ راست جبر کا شکار ہونے کے باوجود، اسکے بچے کھچے انقلابی مضمرات کا ہر قیمت پر دفاع کرتا رہا۔ وہی ریاست جو اس کے خون کی پیاسی تھی اور بعدازاں اسی نے اسے شہید بھی کیا، اس کی طرف پیٹی بورژوا ردِ عمل کی بجائے وہ اپنے سائنسی شعور سے دستبردار نہیں ہوا۔ لیکن اس کی شہادت کے بعد یہ بحث ختم ہونے کی بجائے اور بھی شدت اختیار کر گئی اور لیون ٹراٹسکی کے نظریات کی بیخ کنی کے خلاف ٹیڈگرانٹ نے شاندار مزاحمت کو تا دمِ مرگ جاری رکھا۔

لیون ٹراٹسکی کی شہادت کے بعد ’ریاستی سرمایہ داری‘ کے نظریئے کا سب سے بڑا وکیل ٹونی کلف تھا۔ اس نے 1943ء میں فرضی نام سے لکھے گئے ایک مضمون ’انتظامی انقلاب‘ میں نازی جرمنی کی فسطائیت کو بھی ریاستی سرمایہ داری ہی کی ایک شکل قرار دیا۔ اس کے خیال میں مالیاتی سرمائے کی اجارہ داری جہاں ایک طرف سرمایہ داری کی آخری شکل ہے، وہیں اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ ذرائع پیداوار اب سوشلزم کے لیے پک کر تیار ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بورژوازی واپس آزادانہ مقابلے کی سرمایہ داری کی طرف مراجعت کے بغیر اجارہ دارانہ سرمایہ داری سے سوشلزم کی طرف عبوری مرحلے کو منجمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ وہ ریاستی سرمایہ داری کی مختلف اشکال یعنی فسطائیت اور سوویت افسرشاہی، کو بورژوازی کی اسی مکارانہ کاوش سے تعبیر کرتا ہے۔

ٹیڈ نے اس بیہودہ نظریئے کے لایعنی پن کو اجاگر کیا اور یہ دکھایا کہ یہ جرمن فاشزم اور سوویت ریاست کے مابین معیاری اور فیصلہ کن امتیاز کو شناخت کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظریئے کے ماننے والے جنگ کے دوران نام نہاد ’غیر جانبداری‘ کے انتہائی بھونڈے تعصب کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکے۔

ظاہر ہے کہ اگر دونوں ممالک میں ہی سرمایہ داری ہے اور دونوں ہی انسان دشمن نظام ہیں تو کسی ایک کا دفاع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عین اس وقت جب سوویت یونین کے مزدور اپنے انقلاب کی حاصلات کے دفاع کے لیے جی جان سے لڑ رہے تھے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں، یہ صاحبان لاتعلقی کے واہمے میں مبتلا تھے۔ اور صرف اسی وجہ سے ان کے نزدیک سوویت یونین کا انہدام، جس نے مزدور تحریکوں کی پسپائی کے طویل تاریک دور کا آغاز کیا، محض ایک غیر اہم واقعہ تھا اور کوئی بنیادی معیاری تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی۔ بعد ازاں ٹونی کلف نے ’سٹالنسٹ روس کی فطرت‘ نامی مشہور کتاب لکھی جس میں اس نے مختلف اوقات میں ٹراٹسکی کی سوویت ریاست کی توضیحات میں مبینہ تضادات کو بھانپ لیا اور یہی نہیں بلکہ بعد ازاں یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ ٹراٹسکی اس سوال پر ابہام کا شکار تھا اور اپنے آخری ایام میں ’ریاستی سرمایہ داری‘ کے نظریئے پر ایمان لانے ہی والا تھا لیکن ’خدا‘ کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔

ٹیڈ گرانٹ نے بڑی مہارت سے اس نقطہِ نظر کے قدامت پسندانہ کردار کو بے نقاب کیا۔ اس نے اس سوچ کو رد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ریاستی سرمایہ داری کی مذکورہ بالا تعریف کی رو سے ریاستی سرمایہ داری سامراجیت کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر سیاسی مرحلہ ہو گا جس سے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کو بالخصوص ہر قیمت پر گزرنا ہو گا یعنی ایسی سرمایہ داری جس میں ریاست خود ایک طبقہ بن چکی ہو۔ اس نے اس موضوع پر بہت سے مضامین لکھے اور اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’روس انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘ میں بھی اس سوال کا مفصل جائزہ لیا۔

ٹیڈ گرانٹ نے ٹراٹسکی کے ہی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ریاست اپنی کسی بھی شکل میں کسی طبقے کے ہاتھ میں ’جبر کے آلے‘ سے بڑھ کر خود طبقہ نہیں بن سکتی۔ سوویت افسر شاہی کی قدرِ زائد کے بڑے حصے کو ہڑپ کر جانے اور ذرائع پیداوار پر تصرف کے باوجود وہ ذرائع پیداوار کی مالک نہیں بن جاتی۔ ملکیت اور وراثت لازم و ملزوم ہیں اور مالکانہ حقوق کا سرمایہ دارانہ مفہوم خرید و فروخت کی آزادی سے براہِ راست منسلک ہے جیسا کہ مزدور اپنی قوتِ محنت کو فروخت کرنے میں ’آزاد‘ تصور کیا جاتا ہے۔ وراثتی حقوق کے حصول کے لیے افسرشاہی کی تمام تر خواہش کے باوجود فی الوقت عالمی تعلقات (سرد جنگ) اور معاشی مسابقت کے باعث ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت کا دفاع کرنا افسر شاہی کی مجبوری ہے لیکن مستقبل میں پرولتاریہ کے سیاسی ابھار کی عدم موجودگی کی صورت میں یہ صورتحال اپنے الٹ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اور ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر سوویت یونین میں سرمایہ داری ٹونی کلف کے بقول 1928ء میں ہی آ چکی تھی تو 1917ء اور 1927ء کے دوران سوویت یونین میں کونسا نظام رائج تھا اور سب سے بڑھ کر 1929ء کی عالمی کساد بازاری سے سوویت یونین کیونکر محفوظ رہا۔ گویا ریاستی سرمایہ داری، سرمایہ داری کی ایسی شکل تھی جس میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے تمام تر تضادات پر قابو پا لیا تھا۔

اس طرح تو ہمیں اسے ایک ترقی پسندانہ نظام قرار دینا پڑے گا اور اگر یہ ترقی پسندانہ نظام تھا تو ٹونی کلف اور اس کے ہمنوا اس کی مخالفت کیوں کر رہے تھے۔ ٹیڈ نے وضاحت کی کہ ٹونی کلف نے مارکس کے بنیادی نظریئے کو ہی سر کے بل کھڑا کردیا ہے کیونکہ مارکسزم ذرائع پیداوار کی ترقی کی بنیاد پر ریاستی و ثقافتی ڈھانچے کی تعیین کا نظریہ ہے۔ یوں ٹونی کلف نے ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت سے کاٹ کر سوویت یونین کے ریاستی ڈھانچے کو ایک خالی خولی تجرید میں بدل کر رکھ دیا۔

ٹیڈ نے ٹھوس مادی ترقی اور محنت کش طبقے کے شعور میں اس کے انعکاس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ دکھایا کہ سوویت یونین میں افسرشاہی کا کردار وہی ہے جو انقلابِ فرانس میں تھرمیڈورین رجعت نے ادا کیا تھا۔

انقلابِ فرانس کے زوال کے دنوں میں جس طرح نپولین بونا پارٹ نے اقتدارپر قبضہ کر کے بادشاہت اور اسکی بہت سی باقیات کو دوبارہ انقلاب پر مسلط کر دیا تھا لیکن ملکیتی رشتے بورژوا ہی رہے تھے اور بعد ازاں فرانس میں 1820ء کی دہائی کے واقعات اور 1848ء کے انقلاب سے لے کرجمہوریہ کی تشکیل تک سیاسی اشکال تبدیل ہوتی رہیں لیکن سماجی نظام سرمایہ دارانہ ہی رہا، ایسے ہی سٹالنسٹ روس قدرِ زائد کے افسر شاہی کے ہاتھوں ضیاع کے باوجود مزدور ریاست ہی ہے۔

مارکس نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی کلیت میں ایک سماجی نظام ہے، اس لیے اسے محض سیاسی بالائی ڈھانچے کی اشکال سے نہیں سمجھا جا سکتا۔

مارکس کی یہ بات مزدور ریاست کے لیے بھی درست ہے۔ جیسے پاکستان میں ضیا اور مشرف کی آمریتیں اور پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی جمہوریتیں سب ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن کوئی پاگل ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ بھٹو یا ضیائی دور میں پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام نہیں تھا۔

ٹیڈ نے ٹراٹسکی کے نقطہِ نظر کو مزید وسعت دی اور سوویت بیوروکریسی کی آمریت کو پرولتاری بونا پارٹزم کا نام دیا اور وضاحت کی کہ لینن کی وفات سے قبل اکتوبر انقلاب کی تشکیل کردہ مزدور ریاست ایک نسبتاً صحت مند ریاست تھی اور بعد ازاں جہاں ریاستی اشرافیہ نے اپنی مراعات میں اضافے کے لیے اجتماعی ملکیت کا تحفظ جاری رکھا، وہیں مخصوص عوامل کے زیرِ اثر اس طبقے سے بھی بالاتر اور متصادم ہو گئی جس کی وہ نمائندہ تھی۔ لیکن چین سمیت کیوبا سے لے کر مشرقی یورپ کے تمام تر انقلابات نے سوویت یونین کے اسی ارتقا پذیر ماڈل کی تقلید کی اور یوں یہ ریاستیں اپنے آغاز سے ہی مسخ شدہ مزدور ریاستیں یا پرولتاری بونا پارٹسٹ ریاستیں تھیں جن میں محنت کش طبقے کی شعوری سیاسی مداخلت کے بغیر ہی منصوبہ بند معیشت رائج کی گئی۔ ٹیڈ کی ان توضیحات کے علاوہ ان تمام ریاستوں کی کوئی بھی دوسری تشریح معاملات کو سہل بنانے کی بجائے گتھی کو مزید الجھانے کا ہی سبب بنتی ہے۔

ٹیڈ گرانٹ نے شاندار طریقے سے ثابت کیا کہ ٹونی کلف نے سائنسی تجزیئے سے نتائج برآمد نہیں کیے بلکہ پہلے سے طے کردہ نتائج کی بنا پر تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ٹونی کلف کی کتاب ’سٹالنسٹ روس کی فطرت‘ میں سوویت یونین کے سوال پر ٹراٹسکی کو ابہام کا شکار ثابت کرنے کے لیے ٹراٹسکی کی 1928ء کی تحریروں اور اس کی آخری تصنیف ’سٹالن‘ کے مختلف اقتباسات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے، یہ نری اصطفائیت پسندی ہے جس کا مارکسزم کے جدلیاتی میتھڈ سے کوئی تعلق نہیں۔

یہاں ہم ان تمام اقتباسات کو نقل تو نہیں کر سکتے لیکن ٹیڈ نے ان کے تمام لغو پہلوؤں کو بطور احسن بے نقاب کیا ہے۔ مثال کے طور پر کلف کے نقل کردہ ٹراٹسکی کی آخری تصنیف ’سٹالن‘ کے اقتباس سے اگلے ہی اقتباس کو نقل کر کے ٹیڈ نے ٹونی کلف کے تجزیئے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس نے دکھایاہے کہ کس طرح سیاق و سباق کے بغیر نقل کردہ اقتباس کا تصنیف کے اصلی جوہر سے وہی تعلق ہے جو کسی فلم کا اسی سے اخذ کردہ کسی تصویر سے ہو سکتا ہے۔

مزید برآں یہ یاد رہے کہ ٹونی کلف ریاستی سرمایہ داری کے نظریئے کا بانی نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی طور پر بالغ ہونے سے قبل ہی یہ نظریہ تخلیق کیا جا چکا تھا اور ٹراٹسکی کے بعد ٹیڈ نے بھی یہ اپنے میتھڈ کے ذریعے دکھایا کہ اس نظریئے کے خالق جدلیات کی ابجد سے بھی ناواقف تھے اور وہ صوری منطق کے تحت سماجی و سیاسی مظاہر کو بھی سیاہ یا سفید میں دیکھنے کے عادی تھے اور ’غیر الف‘ کی بجائے ’ب‘ کو ’الف‘ کا الٹ سمجھ بیٹھے تھے۔ یعنی دنیا میں دو ہی ممکنہ نظام ہیں اگرسوویت یونین میں سوشلزم نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ پھر سرمایہ داری ہی ہو گی اور چونکہ ٹھوس شواہد اس کی نفی کرتے ہیں تو ایک نئی سرمایہ داری یعنی ریاستی سرمایہ داری دریافت کر لی گئی۔ ٹونی کلف بھی اپنے ان اساتذہ کا سچا مقلد ثابت ہوا۔ یہ لوگ تغیر و تبدل کے عبوری مراحل جو بے پناہ امکانات سے مزین ہوتے ہیں، ان کو سمجھنے کے اہل اس لیے نہیں تھے کیونکہ یہ صرف فوری (immediate) کیفیت کو ہی مکمل حقیقت مان کر تاریخی عمل کے کل (whole)سے کبھی آشنا نہیں ہو سکے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ گہرے پانیوں میں کبھی اترے ہی نہیں، ہمیشہ سطح پر ہی تیرتے رہے۔

اس ایک مثال سے ٹیڈ کے سیاسی معیار اور جدلیاتی میتھڈ پر اس کی پکڑ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انقلابِ چین، انڈیا کے انقلاب کا تناظر، عالمی مالیاتی بحران، جنگ، ٹراٹسکائیٹ تحریک اور دیگر تمام اہم امور پر کتب اور مضامین کی شکل میں ٹیڈ نے بیش قیمت خزانہ چھوڑا ہے، ہم یہاں ان سب کو بطور مثال پیش نہیں کر سکتے اور اپنے اصلی مدعے یعنی انٹرازم کی طرف چلتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ ٹیڈ کے نام پر ضمیر کی سودے بازی میں ملوث افراد اور گروپس اس کے میتھڈ اور مواد (content) سے کتنے نا بلد نہیں۔

انٹر ازم

ٹیڈ انٹر ازم کا خالق نہیں ہے، اس سے قبل لیون ٹراٹسکی خود یورپ اور بالخصوص برطانیہ کے کامریڈوں کو اس حکمتِ عملی کی تاکید کر چکا تھا لیکن ٹیڈ نے اس پالیسی کو مزید نکھارا مگر اس کے نالائق شاگردوں کے برخلاف اس کے نزدیک انٹرازم کا سوال ٹراٹسکی کی طرح کبھی بنیادی قانون کا درجہ نہیں رکھتا تھا۔ اس کے جعلی نام لیوا اپنے تمام تر پینتروں کو منوانے کے لیے اس کے لکھے گئے شاندار مضمون ’انٹرازم کے مسائل‘ کا سہارا لیتے ہیں، کچھ کے لیے تو یہ مضمون کسی آسمانی صحیفے سے کم نہیں۔ آئیے ہم اسی مضمون کے تنقیدی جائزے سے ہی ان ضمیر فروشوں کو جواب دیتے ہیں اور ہم کوشش کریں گے کہ خود کم ہی بولیں اور ٹیڈ کو خود اپنے ان نالائق شاگردوں کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کرنے دیں۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے ہمیں ٹیڈ کے مذکورہ بالا میتھڈ کو ضرور ذہن نشیں رکھنا ہو گا، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اوپر تفصیل سے اس میتھڈ کی نشاندہی اور وضاحت کر دی ہے۔ در حقیقت یہ مختصر مگر جامع مضمون جدلیاتی مادیت کا شاہکار ہے۔

اس کی پہلی لائن ہی ان مریدین کے چھکے چھڑا دینے کے لیے کافی ہے۔”نہ صرف نئے ممبران کے استفادے کے لیے بلکہ بنیادی کیڈرز کے نظریات کو مستحکم اور تازہ دم کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ مختلف ارتقائی مراحل پر اصولوں، پالیسیوں اور تحریک کی حکمتِ عملی کا دوبارہ عمیق معائنہ کیا جائے اور ازسرِ نو جائزہ لیا جائے“۔ اگلے اقتباس میں وہ کہتا ہے کہ ”لچکدار حکمتِ عملی کے بغیر ان قوتوں کو جیتنا اور تیار کرنا نا ممکن ہے جنہیں انقلابی پارٹی کی تعمیر سے قبل جیتنا لازم ہے“۔ یعنی اصول اور پالیسیاں مقدس نہیں ہوتے بلکہ معروضی تبدیلی کے ہر مرحلے پر ان کا جائزہ لینا ’لازم‘ ہے۔ ٹیڈ نے ’لازم‘ اور ’ناممکن‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی انہیں کسی بھی صورت میں ایک تبدیل شدہ صورتحال میں بغیر پرکھے لاگو نہیں کیا جا سکتا اور اگر یہ متبدل کیفیت میں غیر موزوں ہیں تو ان کو ترک کرنے اور حالات سے ہم آہنگ کرنے میں لمحہ بھر کی بھی ہچکچاہٹ کی گنجائش نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ انٹرازم کا آغاز خود ٹراٹسکی نے کیا۔ ٹیڈ نے وہ حالات بیان کیے ہیں جن میں ٹراٹسکی نے اس پالیسی کی شروعات کی۔ لیکن یہ پالیسی ٹراٹسکی کی ذہنی اختراع نہیں تھی بلکہ ماضی کے عملی تجربات کی عکاس تھی۔ ”1914-20ء میں سوشل ڈیموکریسی کی انقلابات سے غداری نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کو جنم دیا جسے عالمی انقلاب کے اوزار کے طور پر تخلیق کیا گیا۔ انقلاب کی زوال پذیری اور اس کے نتیجے میں سٹالنزم کی غداری کے زیرِ اثر عالمی پرولتاریہ بدظنی کا شکار ہو گیا۔ تاہم انقلابی تحریک کے کیڈرز کا سوشل ڈیموکریسی اور سٹالنزم کے کردار کو سمجھنا الگ بات ہے اور عوام، حتیٰ کہ فعال ایڈوانس پرتوں کے لیے بھی یہ اور ہی معاملہ ہے جو عموماً تجربے سے ہی سیکھتے ہیں۔۔۔تاریخی طور پر مارکسی تحریک پسپا ہوئی ہے اور خود مزدور تحریک کے اندر بھی رائے عامہ کے بہتے دھارے سے کٹ گئی۔ یہ وہ حالات تھے جن میں ٹراٹسکی نے انٹرازم کا سوال اٹھایا“۔

ٹیڈ نے ان حالات کی واضح منظر کشی کی ہے جن میں ٹراٹسکی نے انٹرازم کا آغاز کیا۔ اب انٹرازم کب اور کہاں کرنا ہے، یہ بھی ٹراٹسکی کے لیے کوئی اصولی مسئلہ نہیں تھا۔ جب اور جہاں بھی اسے لگا کہ محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں کو حقیقی انقلابی مارکسی تناظر پر جیتا جا سکتا ہے، اس نے وہیں انٹرازم کی تلقین کی۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1932ء میں برطانوی کمیونسٹ پارٹی نے جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹوں کے ساتھ متحدہ محاذ کی پالیسی کے دفاع کی پاداش میں ٹراٹسکائیٹس کو جبری طور پر بے دخل کر دیا تھا، انہوں نے اپنا الگ اخبار بھی شائع کیا مگر اسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ گویا ان حالات میں ٹراٹسکائیٹس کے لیے انٹرازم کوئی مرغوب اور پسندیدہ آپشن نہیں تھی بلکہ شاید حالات کے جبر نے انہیں یہ راستہ اختیار کرنے پر مائل کیا۔

پھر اس عشرے میں اس سوال کی طرف ٹراٹسکی کا رویہ غور طلب تھا۔ انٹرازم کی پالیسی کے ارتقا پر بات کرتے ہوئے ٹیڈ لکھتا ہے، ”سب سے پہلے انڈیپنڈینٹ لیبر پارٹی (ILP) میں کام کے حوالے سے یہ مدعا اٹھایا گیا۔ 1929-31ء کی لیبر حکومت اور اس عہد کے تباہ کن معاشی بحران اور جرمنی میں فاشزم کے ابھار جیسے عالمی واقعات کے باعث تحریک کی زیادہ تر پرتوں میں اصلاح پسندی پر اعتماد متزلزل ہو چکا تھا۔ پژمردگی اور میکڈونلڈ حکومت کی پسپائی کی مخالفت لیبر پارٹی میں ILP کی صفوں میں مجتمع ہو رہی تھی۔۔۔اس کا مطلب تھا کہ ILPمیں منظم لاکھوں محنت کش انقلاب کی سمت یعنی اصلاح پسندی سے دور اور مارکسزم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس وقت ان کے نظریات نصف اصلاح پسند اور نصف انقلابی یعنی ملغوبہ تھے۔ انہیں انقلابی پروگرام پر جیتا جا سکتا تھا یا پھر وہ سٹالنسٹ بگاڑ سے بیزار ہو کر واپس اصلاح پسندی میں جا کر بیدلی کا شکار ہو جاتے۔ یہ طے ہونا ابھی باقی تھا۔۔۔آئندہ عرصے میں قیادت کے ابہام اور ہیجان کے باعث ایک سنجیدہ قوت کے طور پرILPتحلیل ہونا شروع ہو گئی۔ 1935ء تک مزدور تحریک 1931ء کی تباہی سے باہر آنا شروع ہو گئی تھی۔ILPکے زوال کے باعث اب وہاں جمود کا شکار پرتیں ہی بچی تھیں اور ان میں کام کرنے سے فائدہ کم اور نقصان ہی تھا لہٰذا ان حالات میں ٹراٹسکی نے لیبر پارٹی میں کام کا سوال اٹھایا۔ مقامی انتخابات میں جیت، ہڑتالیں اور خانہ جنگی کے خطرات ان سب عوامل نے مل کر لیبر پارٹی کے بہترین عناصر کو انقلابی نظریات کی طرف متوجہ کر دیا“۔ بین السطور ٹیڈ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ جہاں محنت کشوں تک انقلابی نظریات پہنچانے کی گنجائش ہو، وہیں کام کیا جانا چاہیے۔

ٹیڈ کے نزدیک انٹرازم کے لیے تنظیم کی عددی قوتوں اور حکمتِ عملی میں توازن بھی بنیادی اہمیت رکھتا تھا۔ وہ ’مقدار کی معیار میں اور اس کے الٹ تبدیلی‘ کے اصول کے تحت حکمتِ عملی مرتب کرتا تھا۔ جبکہ اس کے ناقدین اور مریدین دونوں اس بنیادی نوعیت کے نقطے کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی مضمون میں وہ کہتا ہے کہ ”چوتھی انٹرنیشنل کے فرقہ پرست اس سوال کو انتہائی سادہ بنا کر ایسے پیش کرتے ہیں کہ سوشل ڈیموکریسی اور سٹالنزم محنت کش طبقے سے غداری کرچکے ہیں لہٰذا محنت کش طبقے کی آزادانہ الگ پارٹی فوری طور پر بنانی ہو گی۔ وہ انقلابی پارٹی کی آزادی کو ایک اصول کے طور پیش کرتے ہیں، پارٹی چاہے دو لوگوں پر مشتمل ہو یا دو لاکھ لوگوں پر“۔ ٹیڈ مزدور تحریک کو ویسے پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ تاریخی ارتقا سے برآمد ہوئی ہے۔” تاہم وہ (عوام) مزدور تحریک کے عمومی دھارے سے باہر کسی چھوٹی سی تنظیم کو نہیں سنیں گے“۔

ظاہر ہے کہ وہ یہاں فرقہ پرور گروہوں سے مخاطب ہے جو ہر وقت پارٹی بنانے کے لیے اتاولے رہتے ہیں، یہ مضمون دراصل انہی کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ کسی بھی شخصیت، جماعت، ادب پارے اور سیاسی و سماجی مظہر کی طرح کسی مخصوص تحریر کو بھی اس کے پسِ منظر اور محرکات سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ بالخصوص کسی مناظرے (polemic) کے دوران لکھی گئی تحریر اس بحث کے تسلسل سے کاٹ دی جائے تو وہ سمجھ سے بالاتر ہو جائے گی۔

موقع پرستوں نے ٹیڈ کے انٹرازم پر اصرار (emphasize) کو اس تسلسل سے کاٹ کر ہی دیکھا ہے۔ ہم آگے چل کر دکھائیں گے کہ اس نے موقع پرستوں کو کس طرح آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس کے لیے بنیادی مسئلہ مشکل ترین معروض میں تنظیم کی تعمیر تھا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ”ہم ابھی جتنے ہیں، تاریخی تقاضوں کے مقابلے میں بہت کم اور مٹھی بھر ہیں۔ ہمارا کام ان مٹھی بھر لوگوں کو ایک ایسے مربوط اور منظم گروپ میں بدلنا ہے جو عوامی تحریک میں بنیادیں رکھتا ہو۔ اور پھر ایک کیڈر تنظیم کو وسیع تر گروپس میں ڈھالتے ہوئے ایک عوامی تنظیم کو تعمیر کرنا ہو گا۔ اب یہ کیسے کرنا ہے، یہی وہ حکمتِ عملی کا سوال ہے جسے اس تنظیم کو اس مرحلے پر حل کرنا ہے“۔

کیا شاندار میتھڈ ہے۔ گویا دیگر معروضی عوامل کے ساتھ ساتھ تنظیم کی قوتوں کا مٹھی بھر یا انتہائی کم ہونا بھی انٹرازم کی وجوہات میں سے ایک تھا۔ اور اگر انٹرازم کے ذریعے یا اس کے علاوہ ایسا گروپ تعمیر کر لیا گیا ہو جو عوامی تحریک میں بھی کچھ نہ کچھ بنیادیں رکھتا ہو تو اصل مقصد یعنی انقلابی پارٹی کی طرف پیش رفت میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ دیگر معروضی عوامل اس کے لیے سازگار ہوں۔ یہاں کوئی قدرے ’سیانا کوا‘ یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ جب ٹیڈ گرانٹ نے 8000 کی تنظیم ’ملیٹینٹ‘ تعمیر کر لی تھی تو پھر بھی وہ لیبرپارٹی چھوڑنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوا۔ اس کا جواب اس وقت کے معروضی حالات اور خصوصاً سوویت یونین کے انہدام کے تناظر اور اس کے بعد چھا جانے والی مایوسی کی فضا میں تلاش کرنا چاہیے۔ اس وقت پارٹی میں کام کے لیے جتنا ناسازگار ماحول تھا، اس سے بڑھ کر آزادانہ کام کی گنجائش ناپید ہو چکی تھی۔

روایتی پارٹیاں

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ انٹرازم کا سوال زیرِ بحث لاتے ہوئے ہم نے ابھی تک روایتی پارٹیوں کے ریڈی میڈ تصور کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ اور یہی اس ساری بحث کا سب سے اہم اور مرکزی نقطہ ہے۔ اور قارئین کو شاید یہ پڑھ کر حیرت بھی ہو گی کہ مذکورہ مضمون میں، جو 1959ء میں لکھا گیا تھا، ٹیڈ گرانٹ نے شاید ایک بار بھی ’روایتی پارٹی‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ ہاں البتہ ’روایات اور عادات‘ وغیرہ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ اور تراکیب استعمال کی گئی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں انٹرازم اور روایتی پارٹی کے تصورات کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان دونوں اصطلاحات کے بنیادی جوہر سے یکسر لاعلمی کی غمازی ہے۔

یہاں تو بدقسمتی سے ٹراٹسکائیٹ تحریک میں کیڈرز کے نام پر ایسے طوطے تیار کیے گئے تھے جو رٹے رٹائے جملے ہر وقت دہراتے رہتے تھے، بہت سوں کو تو سمجھ آ گئی ہے لیکن کئی بوزنے آج بھی انہی جملوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ان سے پوچھا جائے کہ انقلابی تنظیم کیسے بنائی جائے تو یہ فرفر شروع ہو جائیں گے کہ ’روایتی پارٹی میں انٹرازم کرتے ہوئے‘۔ گویا کہ فرض کر لیا گیا ہے کہ روایتی پارٹی کسی بھی سماج کی بنیادی سیاسی اکائیوں میں سے ایک ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی سے بھی سوال کریں کہ میاں اگر روایتی پارٹی نہ ہو تو پھر؟ تو پہلے تو وہ ششدر رہ جائے گا کہ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ کسی سماج میں روایتی پارٹی ہی نہ ہو۔ گویا اس کے نزدیک روایتی پارٹی انسانی معاشرے کے لیے سورج، ہوا، پانی جیسی ہی ناگزیر چیز ہے۔ جب وہ اس سکتے سے باہر آئے گا تو جو بھی جواب دے گا اس کا مفہوم کچھ ایسا ہو گا کہ پھر ایسی کوئی پارٹی بنانی پڑے گی، یعنی ڈھیلے ڈھالے ڈھانچوں کی کوئی ایسی پارٹی بنائی جائے جو بعد میں روایت کے درجے پر فائز ہو اور آگے چل کر اس میں انٹرازم کیا جا سکے۔

کچھ سہل پسند ٹراٹسکائیٹ اسی مغالطے میں عوامی ورکرز پارٹی میں بھی ’خدمات‘ سرانجام دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔کچھ لوگ تو بلا جھجک روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو بطور مثال ایسے پیش کر دیتے ہیں جیسا کہ وہ کوئی روایتی پارٹی تھی اور اسے اسی مقصد کے لیے لینن اور پلیخانوف نے شعوری طور پر تخلیق کیا تھا اور بعد ازاں لینن اس میں انٹرازم کرتا رہا۔

عملیت پسند ٹراٹسکائیٹس کے طفلانہ پن کی اس طرح کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ راقم کے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی کچھ ہوا۔ ایک بار جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک نوجوان نے بظاہر ازراہِ تفنن راقم سے پوچھ لیا کہ انقلاب کے بعد JKNSF کا کیا ہو گا۔ تو میں نے برجستہ کہا کہ اس کی ضرورت شاید نہ رہے۔ تو وہ نوجوان تھرا کر رہ گیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ وہ یہ سوال مذاق میں نہیں پوچھ رہا تھا۔ المختصر یہ کہ یہ لوگ بغیر روایتی پارٹی کے انٹرازم تو کیا سماج کا بھی تصور نہیں کر سکتے۔ حقیقت میں آج بھی ایسے بہت سے سماج ہیں جہاں ایسی کوئی پارٹی نہیں جو محنت کشوں کی روایتی پارٹی کہلا سکے۔

امریکہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں گورے وڈال کے بقول ایک ہی پارٹی ہے جس کے دو رائٹ ونگ ہیں۔ البتہ ہر سماج جہاں روایتی پارٹیاں نہ ہوں وہاں سماج کی اپنی کچھ روایات ضرور ہوتی ہیں جنہیں نظر انداز ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ روایتی پارٹیاں شروع سے نہیں تھیں بلکہ یہ معیارِ زندگی کی بہتری کی اجتماعی جدوجہد کے آلے کے طور پر محنت کش طبقے نے لاشعوری طور پر جدوجہد کے مخصوص مرحلوں پر تخلیق کیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں یا کمیونسٹ پارٹیاں شعوری طور پر بطور روایت تخلیق نہیں کی گئی تھیں بلکہ اپنے تاریخی فرائض ادا نہ کرسکنے کے باعث محنت کش طبقے کے لاشعور میں گزشتہ نسلوں کی جدوجہدوں اور حاصلات کی یاد بن کر نقش ہو گئیں۔ اور اگر یہ ہمیشہ سے نہیں تھیں تو ظاہر ہے کہ یہ ہمیشہ رہیں گی بھی نہیں۔ سوشل ڈیموکریسی جیسے تاریخ کے مخصوص عہد کی پیداوار تھی، ویسے ہی روایتی پارٹیاں بطور روایت تاریخ کے مخصوص عہد میں نمودار ہوئیں۔ ٹیڈ گرانٹ نے اس مخصوص عہد کی بہترین وضاحت پیش کی ہے۔

لیون ٹراٹسکی نے انٹرازم کی تلقین تو کی تھی مگر اس کے ہاں روایتی پارٹی کا تصور شاید بہت ہی خام شکل میں ملتا ہو۔ حتیٰ کہ لیبر پارٹی کو بھی اس نے مجرد کیٹیگری کے طور پر روایتی پارٹی قرار نہیں دیا تھا بلکہ اس کے اندر ابھرنے والے ٹھوس امکانات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان سے مستفید ہونے کی تاکید کی تھی۔

اسی طرح دوسری عالمی جنگ سے قبل ٹیڈ نے بھی اس اصطلاح کو ان معنوں میں کہیں استعمال نہیں کیا بلکہ ایک آزادانہ پارٹی بنانے کی کوشش کی۔ لیکن جنگ کے خاتمے پر صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور لیبرپارٹی میں کام کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچی۔ اس کے بعد کا عہد ایک تاریخی استثنا ہے جس میں جہاں سٹالنزم کو معاشی اور سیاسی عروج حاصل ہوا وہیں سرمایہ داری نے بھی اپنی تاریخ کا سب سے بڑا عروج دیکھا۔ دوسری طرف چین کے انقلاب کی کامیابی نے نو آبادیات میں بھی انقلابی سرکشیوں کی راہ ہموار کر دی۔ سٹالنزم کے اثرات کو معتدل کرنے کے لیے اور مقامی پرولتاریہ کی تحریکوں کے دباؤ میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں اصلاحات کرنے پر مجبور ہوئیں اور ہمیں یورپ میں ویلفیئر ریاست کا تصور حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے نظر آیا۔ یورپ کے علاوہ بھی جہاں جہاں تحریکیں اور انقلابات ہوئے، کچھ نہ کچھ اصلاحات دیکھنے میں آئیں۔ برطانیہ میں ان حالات میں بننے والی لیبر پارٹی کی حکومت 1929-31ء کی حکومت سے یکسر مختلف تھی اور پہلی دفعہ اس نے اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنایا۔ گویا ہر جگہ معیارِ زندگی میں خاطر خواہ مثبت تبدیلیاں ہوئیں اور یہ عہد قدرے طوالت بھی اختیار کر گیا۔ ایسے میں ٹیڈ ہی وہ شخص تھا جس نے صورتحال کا درست تناظر تخلیق کیا، اسی تناظر کے ساتھ جوڑ کر ہی روایتی پارٹی کا تصور سمجھا جا سکتا ہے۔

ان حاصلات سے اصلاح پسندی میں اور اصلاح پسند پارٹیوں میں محنت کش طبقے کا اعتماد بہت زیادہ مستحکم ہوا اور یہی اعتماد اس نے اپنی آئندہ نسل کو منتقل کر دیا۔ ٹیڈ نے ان پارٹیوں کے لیے روایتی پارٹیوں کی اصطلاح استعمال کی۔ لیکن ظاہر ہے کہ ٹیڈ جو کہ جدلیات پر عبور رکھتا تھا، بخوبی واقف تھا کہ جس عہد میں یہ پارٹیاں بن رہی ہیں، اس عہد کے خاتمے کے دوران یا اس کے بعد یہ اپنے منطقی انجام کو بھی پہنچ جائیں گی۔ اس عہد کی طوالت میں فرسٹریشن کے باعث انقلابی رجحانات دائیں سے بائیں اور موقع پرستی اور الٹرالیفٹ ازم میں ہچکولے کھاتے رہے، جس کے باعث ٹیڈ مسلسل لیبر پارٹی میں بالخصوص اور دیگر روایتی پارٹیوں میں بالعموم کام کی ضرورت کو اس ہیجان سے بچنے کے واحد حل کے طور پر پیش کرتا رہا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ عہد کچھ نئے خصائص کے ساتھ مزید طویل ہو گیا۔ تاہم اس عہد کو اپنے سے پہلے تمام ادوار کی طرح بہرحال ختم ہونا ہی تھا۔

عہد کی تبدیلی

روایتی پارٹیوں میں کام کا طریقہ کار اس مخصوص عہد میں درست بھی تھا اور بہت مؤثر بھی ثابت ہوا۔ ٹیڈ کو یقین تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور ویلفیئر ریاست کے غبارے سے جلد یا بدیر ضرور ہوا نکلے گی اور ایسے میں محنت کش طبقے کی جیتی گئی ساری حاصلات خطرے میں ہوں گی۔ ان حالات میں محنت کش طبقہ ناگزیر طور پر پہلے انہی پارٹیوں کا دروازہ کھٹکھٹائے گا جہاں سے اسے ماضی میں کچھ حاصلاحات میسر آئی تھیں۔ لہٰذا ہمیں اس وقت تک تحمل سے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے انقلابی قوتوں کا ابتدائی سرکل تخلیق کرنا ہو گا اور بحران یا ردِ اصلاحات کے عمومی دور میں ان پارٹیوں کا طبقاتی کردار واضح ہو جائے گا اوریہ پارٹیاں حکومت میں آ کر محنت کش طبقے پر حملہ آور ہوں گی۔ اس عبوری دور میں سماج میں موجود طبقاتی کشمکش کے دباؤ میں پارٹی کے اندر بھی دائیں اور بائیں کی تقسیم واضح ہو جائے گی اور ہمیں اپنی قوتوں کی بنیاد پر پارٹی کی بورژوا قیادت کے خلاف ”لیفٹ اپوزیشن“ بنا کر محنت کش طبقے کا اعتماد جیتنا ہو گا۔ ایک واضح سوشلسٹ انقلابی پروگرام کے اوپر پارٹی کو اندر سے توڑتے ہوئے ایک آزادانہ عوامی انقلابی پارٹی تخلیق کرنا آسان ہو جائے گا۔

یہ ایک پورا سائنسی لائحہ عمل تھا جس کو ایک عقیدے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا۔ حتمی مقصد بہرحال ایک عوامی انقلابی پارٹی کی تعمیر ہی تھا اور ٹیڈ کو روایتی پارٹیوں کے ردِ انقلابی کردار کے بارے میں رتی بھر بھی شائبہ نہیں تھا۔اس نے یہ ضرور اصرار کیا کہ اس مخصوص عہد میں محنت کش طبقہ تحریک کے پہلے مرحلے پر ان روایتی پارٹیوں کے دروازے کھٹکھٹائے گا لیکن اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ ہمیشہ اسی عمل کو دہراتا رہے گا۔ مارکس اور لینن کی طرح اسے کامل یقین تھا کہ محنت کش عوام تجربات سے سیکھتے ہیں اور روایتی پارٹیوں کی ایک یا دو رجعتی اور ردِ اصلاحاتی حکومتوں کے تلخ تجربات سے محنت کش طبقہ انقلابی نتائج اخذ کرے گا اور پارٹی میں موجود انقلابیوں کا کام روایتی پارٹیوں کی بورژوا قیادتوں میں محنت کش طبقے کی خوش فہمیوں کو تقویت دینا نہیں بلکہ ان کا صفایا کرتے ہوئے تاریخ کے اس ناگزیر عبوری مرحلے کے دورانیے کو مختصر ترین بنانا ہو گا۔

آئندہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں محنت کش طبقے کو ان روایتی پارٹیوں کی کئی حکومتوں کے تجربے ہوئے اور ان کا معیارِ زندگی مسلسل نیچے ہی گرتا رہا۔ یہ عہد سوشل ڈیموکریسی کی شکست و ریخت کا عہد ثابت ہوا۔ تمام سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں نیو لبرل پالیسیاں مسلط کرتی رہیں۔ دراصل اس عرصے میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور بقا کی ذمہ داری روایتی بورژوا پارٹیوں کی بجائے سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کی بورژوا قیادت نے اپنے کاندھوں پر اٹھالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پارٹیوں کی سماجی بنیادیں اور بالخصوص محنت کش طبقے میں ان کی حمایت بتدریج سکڑتی چلی گئی اور درمیانے طبقے کے کیریئر اسٹ ان پارٹیوں کی مقامی تنظیموں پر حاوی ہو گئے۔ یوں ان پارٹیوں کا داخلی ڈھانچہ اور عمومی سیاسی کردار اپنی نفی میں بدل گیا۔

ماضی میں محنت کش طبقہ جب اپنی تقدیر بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں اترتا تھا تو ان روایتی پارٹیوں کے ذریعے اپنا سیاسی اظہار کرتا تھا مگر اب محنت کش طبقے نے نئے راستوں کی تلاش شروع کی۔ لیکن جب وہ تحریک کے حتمی مقاصد کی تکمیل میں ناکام ہوتا اور اس نئے عہد کے عمومی کردار کے باعث مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر پاتا تو مایوسی میں تھکاوٹ کا شکار ہو کر سستانے کے لیے یا تو پھر ان پارٹیوں کی خاموش حمایت تک خود کو محدود کر لیتا یا پھر سیاسی گوشہ نشینی اختیار کر لیتا اور اس مایوسی کے دورانیوں میں پھر دائیں بازو کی رجعتی پارٹیوں کی انتخابی فتوحات کی راہ ہموار ہو جاتی۔ یہ ایک بالکل مختلف عہد تھا جس میں روایتی پارٹیوں کا وجود تو برقرار رہا مگر محنت کش طبقے کے ساتھ ان کے تعلقات ماضی کے برعکس انقلابی کردار سے یکسر محروم ہو تے گئے۔

پیپلز پارٹی میں کام کی غیر مشروط حمایت کرنے والے دولے شاہ کے چوہے ٹیڈ کے سارے تھیسز کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ ٹیڈ کے بقول روایتی پارٹی اس وقت تک روایت ہی رہتی ہے جب تک کہ کوئی متبادل انقلابی پارٹی (جو ہر صورت میں روایتی پارٹی کے اندر سے ہی ابھرے گی) کسی انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے اس کی جگہ نہ لے لے۔ یہ سراسر غیر جدلیاتی نقطہ نظر ہے جو مقدار اور معیار کے بنیادی جدلیاتی قانون کے برعکس ہے۔ اگر ردِ اصلاحاتی دور میں بار بار روایتی پارٹیوں کو اقتدار دلانے کے بعد محنت کش طبقہ مسلسل اور بتدریج ان سے مایوس ہوتا رہتا ہے، تو ان کے شعور میں آنے والی یہ مقداری تبدیلیاں بہرحال اس پورے عمل کی نفی کی طرف بڑھیں گی۔ اس کا فیصلہ کن سیاسی اظہار کسی تحریک کی صورت میں ہی ہوگا مگر مارکس وادیوں کو محنت کشوں کے سماجی معمولات کی بنیاد پر اس کا تناظر تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ ’وقت آنے پر خودہی پتہ چل جائے گا کہ فلاں پارٹی آج بھی روایت ہے یا نہیں‘ تناظر کی سائنس کے طور پر مارکسزم کی تضحیک ہے۔

اس تبدیل شدہ عہد میں مارکس وادیوں کے لیے ان پارٹیوں میں پڑے رہنا ان پارٹیوں کی بورژوا قیادت اور ان کے پیٹی بورژوا دلالوں کے دم چھلے بننے کے مترادف تھا۔ اس عہد میں بہترین حکمتِ عملی یہ ہو سکتی تھی کہ طلبہ اور محنت کشوں کی خود رو تحریکوں اور مزاحمتوں کی طرف رجوع کرتے ہوئے آزادانہ کام کو فروغ دیا جائے۔ یہ پالیسی ٹیڈ کے طریقہ کار کے برعکس نہیں تھی بلکہ اس کے عین مطابق تھی۔ ٹیڈ کو بھی جب ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اس نے تمام قوتوں کو انٹرازم کی بجائے آزادانہ کام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

ٹیڈ لکھتا ہے کہ ”اور یہاں ازلی اور ابدی استصنام (once-and-for-all fetishes)کے برعکس محض حکمتِ عملی کے طور پر حکمتِ عملی کا سوال اپنی پوری اہمیت کے ساتھ اجاگر ہوتا ہے۔ لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینز کے لیڈر سرمایہ دار طبقے کے اتحادی بن گئے تھے اور بعد میں چرچل کی حکومت کا بھی حصہ بن گئے۔ مزدور تنظیمیں زندہ اور فعال تنظیموں کے طور پر ماند پڑ گئیں۔ بعد میں جب روس جنگ میں داخل ہوا تو کمیونسٹ پارٹی سب سے بڑی ہڑتال توڑنے والی تنظیم بن گئی۔ اس سے آزادانہ کام کے شاندار مواقع پیداہوئے۔ برطانیہ میں ٹراٹسکائیٹس کو سب سے زیادہ کامیابیاں اسی عرصے میں ملیں۔ 1944ء میں ٹراٹسکائیٹس قوتوں کے ملاپ سے ریوولوشنری کمیونسٹ پارٹی (RCP) بنائی گئی“۔ یہاں یہ بات بہرحال ذہن نشین کرنی ہو گی کہ یہ پارٹی فرقہ پرستانہ بنیادوں پر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ معروضی حالات میں شاید اس کے علاوہ کچھ اور ممکن ہی نہیں تھا جیسا کہ آگے چل کر اسی اقتباس میں ٹیڈ فرقہ پرستوں کو اس کا بھرپور جواب بھی دیتا ہے۔ لیکن آج 1940ء کی دہائی کے برعکس ایک بالکل نیا عہد ہے اور اس عہد میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کے تاریخی عروج اور محنت کش طبقے کے حق میں اصلاحات کا کوئی تناظر نہیں ہے۔ یہ روایتی پارٹیوں کی بقا یا نئی روایتی پارٹیوں کی تخلیق کا عہد نہیں ہے، یہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عشروں پر محیط مسلسل مزاحمت اور جدوجہدوں کا عہد ہے۔

لیبر پارٹی اور پیپلز پارٹی

1968-69ء میں طویل عرصے کی سیاسی گوشہ نشینی کے بعد محنت کش طبقے نے دوبارہ انگڑائی لینا شروع کی تو فرانس اور دیگر بہت سے ممالک کے اپنے محنت کش بہن بھائیوں کی طرح پاکستان کے نو آموز پرولتاریہ کی قیادت میں یہاں کے عوام نے بھی فوجی آمریت کے خلاف شاندار انقلابی تحریک برپا کی۔ یہ تحریک جمہوری مطالبات سے آگے بڑھی اور اس نے ملکیتی رشتوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت پاکستان کا سارا سٹالنسٹ اور ماؤاسٹ بایاں بازو جمہوریت سے آگے دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس سوشلسٹ تحریک کی قیادت کرنے کی بجائے یہ خواتین و حضرات کسی’ترقی پسند‘ بورژوا کی راہ دیکھ رہے تھے۔

ٹیڈ پاکستان کے عوام کی اس شاندار انقلابی کاوش سے بے پناہ متاثر تو ہوا مگر اس نے بھانپ لیا کہ بائیں بازو کی تاریخی غداری کے باعث اب محنت کش طبقے کے لاشعور پر پیپلز پارٹی نے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں اور تھوڑی بہت حاصلات کی وجہ سے عوام بھٹو کو مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں۔

بائیں بازو کے اس خصی پن نے ایک تاریخی المیے کو جنم دیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے نسبتاً بائیں بازو کے پروگرام پر پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر اس تاریخی خلا کوپُر کر دیا۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کی ہوس میں ہی یہ خطرناک کھیل کھیل رہا تھا، وہ مارشل لا کا سول ایڈمنسٹریٹر بنا اور اس کی یہ مہم جوئی ملک کے دولخت ہونے کا ایک اہم سبب بھی بنی مگر اس عبوری دور کے بعد جب اسے باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملا تو اس وقت معیشت کے سابقہ ابھار کے باعث اور عوامی تحریک کے دباؤ کے تحت اسے دنیا بھر کی بورژوا قیادتوں کی طرح یہاں بھی کچھ اصلاحات کرنے کی گنجائش مل گئی۔ چند ادھوری اور منافقانہ زرعی اصلاحات اور کچھ نجی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے کر اور محنت کش طبقے، طلبہ اور کسانوں کو تھوڑی بہت مراعات دے کر بھٹو نے سرمایہ دارانہ نظام کو بچا لیا۔

ٹیڈ پاکستان کے عوام کی اس شاندار انقلابی کاوش سے بے پناہ متاثر تو ہوا مگر اس نے بھانپ لیا کہ بائیں بازو کی تاریخی غداری کے باعث اب محنت کش طبقے کے لاشعور پر پیپلز پارٹی نے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں اور تھوڑی بہت حاصلات کی وجہ سے عوام بھٹو کو مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں۔ بعد ازاں بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد یہ پراسیس اور بھی شدت اختیار کر گیا اور اس پراسیس کو عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کے ساتھ جوڑتے ہوئے ٹیڈ نے پیپلز پارٹی کو پاکستان کے محنت کش عوام کی روایتی پارٹی قرار دے کر یہاں اپنے کامریڈز کو اس پارٹی میں کام کرنے کی تلقین کی۔لیکن اس کے ساتھ ہی ٹیڈ نے سخت تنبیہہ بھی کی اور واضح کیا کہ پسماندہ اور ترقی پذیر سماجوں کی سیاسی صورتحال اور سیاسی پارٹیوں کے ڈھانچے ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہیں اور ان پسماندہ سماجوں میں پارٹیوں میں نام نہاد جمہوریت بھی موجود نہیں اور شخصیات کا کردار مبالغہ آمیز حد تک زیادہ ہے۔ اسی طرح لیبر پارٹی کو منظم مزدور یونینوں نے براہ راست عمل کے ذریعے تشکیل دیا تھا اور بعد میں بھی یہ مزدور یونینیں لیبر پارٹی کو منظم انداز میں کنٹرول کرتی رہیں جبکہ پیپلز پارٹی کا ایسا کوئی پس منظر نہیں اور یہ ایک عوامی تحریک کے ذریعے سیاسی منظر نامے پر ابھری تھی اور روایتی ٹریڈ یونین میں اس کی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں۔ اس حوالے سے لیبر پارٹی میں کام کے طریقہ کار کو من و عن بغیر کسی سمجھ بوجھ کہ یہاں پر لاگو کرنا نا سمجھی ہوگی۔

اس راہنمائی کے تحت یہاں ٹراٹسکائیٹس نے ایک نئی شروعات کرنی تھی۔ دو یا تین لوگوں پر مشتمل ایک شفاف پارٹی کا اعلان کر کے ذہنی تسکین تو حاصل کی جا سکتی تھی مگر حقیقی مارکسی کیڈر عوام کی جدوجہدوں میں مداخلت سے ہی جیتے اور تیار کیے جا سکتے تھے۔

ٹیڈ کا تناظر درست ثابت ہوا اور عوام نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے آمریت کے خلاف سنجیدہ لڑائی لڑی۔ پیپلز پارٹی میں کام کے ذریعے مستقبل کی پارٹی کا ابتدائی سرکل تشکیل بھی دے دیا گیا۔ مگر پیپلز پارٹی لیبر پارٹی کی طرز کی کوئی باقاعدہ منظم سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کبھی بن ہی نہیں سکی لہٰذا اس میں کلاسیکل انٹرازم کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اعصاب شکن کام سے تھکاوٹ کا شکار ہو کر مقامی قیادت نے پارٹی کی نچلی پرتوں کی بجائے اوپر سے انٹرازم کرنے کی کوشش کی۔ ذاتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر پارٹی کا ٹکٹ حاصل کیا گیا اور مشرف دور میں ایک انتخابی کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مگر بعض اوقات کامیابیاں ناکامیوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ اس طریقے سے پارٹی میں مداخلت نے بدترین موقع پرستی اور گماشتگی کی راہ ہموار کی اور پارٹی میں کام کرنے والے لوگوں نے شاید یہ سمجھ لیا کہ قیادت کی ناراضگی مول لیے بغیر ہی انٹرازم کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل کی قیادت کی ہدایات پر جب مقامی قیادت نے موقع پرستی کے اس بے قابو ہوتے ہوئے رجحان کی سرکوبی کرنے کی کوشش کی تو انٹرازم کرنے والوں نے اپنی روش بدلنے سے انکار کر دیا اور تنظیم دولخت ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب 2008ء کے مالیاتی بحران نے ساری دنیا کی معیشت اور سیاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹیڈ کے میتھڈ کے مطابق حکمتِ عملی کا از سرِ نو جائزہ لیا جاتا مگر سائنسی طرزِ عمل کی بجائے جذباتیت پر مبنی ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ’غداروں‘ کو نیچا دکھانے کے لیے پارٹی میں ان کے متبادل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں سنجیدہ مارکسی کیڈرز کی بجائے پارٹی میں مقامی قیادتوں کے ’بغل بچے‘ تیار ہوتے رہے اور یوں زوال کا یہ سفر برق رفتار ہو گیا۔

آج یہ تیار شدہ بغل بچے پرانے ’غداروں‘ کے ساتھ اتحاد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ہم مارکس وادی جب اس تبدیل شدہ عہد میں اس حکمتِ عملی کی محدودیت کا پردہ فاش کرتے ہیں اور موقع پرستوں کو بے نقاب کرتے ہیں تو ہمیں مہم جو اور ٹیڈ کے نظریات سے انحراف کے طعنے دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل انٹرازم بھی نہیں کر رہے، سیدھی سیدھی موقع پرستی اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پیپلزپارٹی میں نہ تو اب محنت کش طبقہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی کارکنوں کی ایسی انقلابی یا ترقی پسند پرت موجود ہے جسے انقلابی نظریات پر جیتا جا سکے۔ انتخابات قریب ہیں اور ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت بالخصوص بلاول بھٹو اصلاح پسندانہ نعرے بازی کر رہا ہے اور ان موقع پرستوں کو لگتا ہے کہ پارٹی کی موجودہ کیفیت میں بلاول کو بائیں بازو کے دکھاوے کے لیے پھر ان کی خدمات کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سب موقع پرستوں کو ایک چھتری تلے جمع کر کے اس صورتحال سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

1943ء میں جب ILP نے دوبارہ لیبرپارٹی سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا تو ٹیڈ نے ’ILP کانفرنس اور بائیں بازو کے فرائض‘ کے عنوان سے شاندار مضمون تحریر کیا۔ ٹیڈ کے الفاظ ملاحظہ کریں ”وابستگی یا الحاق(affliation)یا عدم وابستگی کا سوال انقلابیوں کے لیے کوئی اصولی سوال نہیں ہے بلکہ حکمتِ عملی کا سوال ہے۔ ہاں ٹراٹسکی نے جنگ سے کچھ عرصہ قبل ILPکو نصیحت کی تھی کہ وہ لیبر پارٹی کے ساتھ دوبارہ وابستہ ہونے کی کوشش کریں۔ لیکن اصل چیز  میتھڈ ہے۔ ایک انقلابی پارٹی لیبرپارٹی سے عوامی سیاست کے اظہار کے طور پر وابستہ ہو سکتی تھی اور وابستہ ہو گی چاہے اس کے لیڈر دائیں بازو سے یارانے ختم کرنے سے انکار ہی کیوں نہ کر دیں۔ لیکن اس کی بنیادی شرط یہ ہو گی کہ ان کو پارٹی کی قیادت اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی مکمل آزادی میسر ہو اور ساتھ ہی انہیں محنت کشوں کو اپنے درست نظریات پر جیتنے کے مواقع بھی میسر ہوں۔ چاہے دائیں بازو سے مفاہمت ختم ہو جائے یا کسی سیاسی بھیس میں پارٹی کی قیادت دائیں بازو کی حمایت جاری رکھے، لیبر پارٹی کی قیادت کا کردار ہرگز تبدیل نہیں ہو جاتا۔ وہ کلاسیکی معنوں میں سرمایہ دار طبقے کے ایجنٹ اور اوزار، یعنی سرمایہ دار طبقے کے لیبر لیفٹیننٹ ہی رہیں گے۔ در حقیقت انقلابی قوتوں کا سب سے بڑا امتحان اور مشکل کام عین اس وقت نہیں ہوتا جب لیبر قیادت کھلم کھلا سرمایہ داروں کے ساتھ کھڑی ہو بلکہ عین اس وقت میں ہوتا ہے جب بظاہر وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ان حالات میں قیادت کو ننگا کرنے کا فریضہ جہاں بہت نازک ہوتا ہے وہیں مشکلات سے بھرپور بھی ہوتا ہے۔ ان تھک تنقید اور قیادت کو ننگا کرنا اس لیے بھی بہت اہم فریضہ ہوتا ہے تا کہ عوام اصلاح پسندی کی دلدل میں غرق نہ ہو جائیں۔ یہ ILP کی قیادت کبھی نہیں کرے گی اور نہ وہ کر سکتی ہے۔۔۔ILPکی قیادت ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے لیبر پارٹی میں متحرک ہوگی لیکن محنت کش طبقے کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ مزدور افسر شاہی کے نقطہ نظر سے تا کہ پارٹی میں سٹالنزم اور انقلابی سوشلزم کے در آنے کے تمام تر امکانات کے خلاف وہ بائیں بازوکی مفید ڈھال کے طور پر استعمال ہوسکیں یا عوام کی ان پالیسیوں سے مزاحمت اور انقلابی سیاست کی طرف ہرجست کو ناکام بنا سکیں“۔

ٹیڈ کے نزدیک انٹرازم وہ پل صراط تھی جس کے ایک طرف الٹرالیفٹ ازم اور دوسری طرف موقع پرستی کی دلدل تھی۔جو لوگ انٹرازم کے حوالے سے فرقہ پرستوں کے خلاف ٹیڈ کی تحریروں کا ورد کرتے رہتے ہیں، انہیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ ٹیڈ موقع پرستوں سے کیسے پیش آتا تھا۔ وہ بے لاگ، دو ٹوک اور بے رحم تنقیدکے نشتر سے ان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتا تھا۔ بالخصوص انٹرازم کی آڑ میں کیریئر ازم کرنے والوں کے ساتھ اس کا رویہ سفاک حد تک معاندانہ ہوتا تھا۔

جب ILP کے کامریڈز کو انٹرازم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں جانے کا موقع ملا تو ان میں سے کچھ لوگ موقع پرستی کی دلدل میں جا گرے۔ ایسے ہی ایک لیڈر کی پارلیمنٹ میں تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ بالا مضمون میں ٹیڈ نے اس کے ساتھ حساب یوں چکتا کیاہے”یہاں ان چند الفاظ میں ILPکا مکمل جوہر عیاں ہے۔ جیسے ایک سائنسدان کسی بھی قبل ازتاریخ جانور کی چند ہڈیوں سے پورے جاندار اور اس کے ڈھانچے کو سمجھ لیتا ہے، ایسے ہی ایک مارکس وادی چند ایسے جملوں سے پارٹی کے ڈھانچے اور پالیسی کو سمجھ لیتا ہے۔ اس طرح کے جملوں یا تقریر پر بات کرنا انتہائی مثبت معنوں میں ہتک آمیز ہوتا ہے۔ میکسٹن دعویٰ کرتا ہے کہ وہ انقلابی سوشلزم کا علمبردار ہے۔ پھر بھی محنت کشوں کے انقلابی غصے کو ابھارنے اور استحصال زدگان کی استحصالیوں کے خلاف ترقی پسند نفرت کو بتدریج بڑھانے اور گہرا کرنے کی بجائے، وہ استحصال زدگان کی استحصالیوں کے خلاف نفرت کو کم کرنے کے لیے ’اچھے اخلاق‘ اور رحمدلی کے واسطے دیتا ہے۔ ذرا سوچیں کوئی بھی شخص اتنی متلی آمیز اور رجعتی جذباتیت سے لبریز تقریر کیسے کر سکتا ہے۔۔۔یہ ایک چکلے کے دلال کو یہ لیکچر دینے کے مترادف ہے کہ وہ اپنے شکار کے ساتھ زیادہ نرم اور انسانی رویہ اپنائے کیونکہ اپنی بیوی اور خاندان سے ذاتی تعلقات میں وہ بہرحال ایک اخلاقی ضابطہ ملحوظِ خاطر رکھتا ہے“۔

ہم عصر تحریکیں اور اسباق

موقع پرست بضد ہیں کہ ہر محنت کش تحریک کو لازماً روایتی پارٹی میں ہی اپنا اظہار کرنا ہے۔ لیکن عہدِ حاضر کے تمام تجربات اس کے برعکس ہیں۔ اس وقت بھی جب ہم یہ مضمون تحریر کر رہے ہیں تو نام نہاد آزاد کشمیر میں آٹے کی سبسڈی کے خاتمے اور مہنگی بجلی کے خلاف ایک تاریخ ساز عوامی جدوجہد جاری ہے۔ کچھ تخمینوں کے مطابق اس وقت اس تحریک میں کشمیر کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی سرگرم ہے۔ سوائے سرمایہ داروں، افسرشاہی اور ریاستی اہلکاروں کے سبھی تحریک کا حصہ ہیں۔ طلبہ، تاجر، محنت کش اور بالخصوص خواتین اور بچوں کی شمولیت نے اس تحریک کو ایک تاریخی انفرادیت سے نوازا ہے۔ یہ تحریک بلاشبہ انقلابی کردار کی حامل ہے اور پاکستان بھر کے عوام کے لیے جدوجہد کی نئی راہیں متعین کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس تحریک نے بھی اپنے آغاز میں روایتی پارٹی کی دہلیز پر ماتھا ٹیکا؟ ہر گز نہیں بلکہ پیپلز پارٹی نے تو اپنے کارکنان پر ان احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرنے پر باقاعدہ پابندی عائد کر دی تھی۔

کشمیر میں پیپلز پارٹی میں انٹرازم کرنے والے تو مبینہ طور پر اس پارٹی میں اس لیے تھے کہ جب تحریک وہاں آ کر سر بسجود ہو گی تو وہ اسے دبوچ لیں گے لیکن تحریک نے پیپلز پارٹی کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔

کشمیر میں پیپلز پارٹی میں انٹرازم کرنے والے تو مبینہ طور پر اس پارٹی میں اس لیے تھے کہ جب تحریک وہاں آ کر سر بسجود ہو گی تو وہ اسے دبوچ لیں گے لیکن تحریک نے پیپلز پارٹی کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ان میں سے کچھ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کشمیر میں روایت نہیں ہے بلکہ پاکستان میں اور بالخصوص سندھ اور پنجاب میں روایت ہے۔ تو ان سے سوال کرنا تو بنتا ہے کہ سرکار پھر آپ کشمیر کی پیپلز پارٹی میں کیا بیچ رہے ہیں۔ اور پنجاب میں بھی ہم گزشتہ کچھ عرصے سے محکمہ صحت اور تعلیم اور دیگر شعبوں کے سرکاری ملازمین کی تحریکیں دیکھ رہے ہیں، ہم نے تو آج تک کسی بھی ہزاروں ملازمین کی ریلی میں پیپلز پارٹی کا جھنڈا تک نہیں دیکھا، الٹا کچھ ریلیوں میں تو پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی بورژوا پارٹی کے لیڈر کو تقریر تک کرنے نہیں دی گئی۔

جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو وہاں کے الیکٹرک اور پی آئی اے کی تحریک کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکرز اور اساتذہ کی چھوٹی چھوٹی تحریکوں کے علاوہ کافی طویل عرصے سے کوئی قابلِ ذکر تحریک دیکھنے میں نہیں آئی۔ مگر ان مذکورہ تحریکوں میں بھی پیپلز پارٹی کا کردار انتہائی وحشیانہ ہوتا ہے۔ پی آئی اے کے دو محنت کشوں کو تو کراچی ایئر پورٹ پر گولی چلا کر شہید کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پریس کلب اور گورنر ہاؤس پر مظاہرین، حتیٰ کہ خواتین پر بھی لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال معمول کی بات ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سندھ میں جب کوئی بڑی انقلابی بغاوت ہوگی تو اس کا اظہار پیپلز پارٹی میں ہوگا، وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ سندھ میں جہاں گزشتہ لگ بھگ 15 سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وہاں پیپلز پارٹی سٹیٹس کو کا مستند حصہ بن چکی ہے، وہاں پارٹی کے ذریعے نہیں بلکہ پارٹی کے خلاف تحریک کا ابھرنا زیادہ منطقی اور قرینِ قیاس ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ کشمیر میں تو اصل روایت جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر قوم پرست تنظیمیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ زیادہ تر قوم پرست تنظیمیں حالیہ تحریک کا حصہ ہیں مگر تحریک نے ان تنظیموں کے ذریعے سے اپنا اظہار نہیں کیا بلکہ ان سے بالاتر مقامی ایکشن کمیٹیاں تحریک کی اصل روح ہیں۔

گلگت میں بھی اس تحریک کی طرز پر ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے اور وہاں بھی تحریک نت نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی طرح گزشتہ پانچ چھ سال سے ہم پشتون عوام کی ایک شاندار مزاحمتی تحریک دیکھ رہے ہیں۔ یار لوگوں کی رائے میں اے این پی کی شکل میں پشتونخواہ میں ایک روایتی پارٹی موجود ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ کئی عشروں پر محیط ریاستی جبر کے خلاف اٹھنے والی بغاوت نے پی ٹی ایم کے نام سے ایک نئے پلیٹ فارم کو تخلیق کیا۔ درحقیقت یہ تحریک صرف ریاستی جبر سے ہی نہیں بلکہ روایتی سیاست سے بھی عوامی بیزاری کا نتیجہ ہے۔

اسی طرح کچھ لوگوں کے نزدیک بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آج بھی بلوچ طلبہ اور عوام کی روایتی تنظیم ہے اور بلوچستان میں ہر تحریک ناگزیر طور پر اسی نام سے ہی آگے بڑھے گی۔ مگر ہم گزشتہ ایک ماہ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا شاندار لانگ مارچ دیکھ رہے ہیں جس نے بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی بیداری کی لہر کو جنم دیا ہے۔اس تحریک نے بھی روایت سے ہٹ کر اپنا راستہ خود بنایا ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان مظلوم اقوام کا جیل خانہ ہے اور ہر قوم کی اپنی سیاسی روایات یا پارٹیاں موجود ہیں لہٰذا ان تنظیموں سے ہٹ کر کوئی ملک گیر پلیٹ فارم تخلیق کرنا ریاستی بیانیے کی تائید ہے، وہ خود ان تحریکوں کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ مارکسزم کی بجائے پوسٹ ماڈرنسٹ اپروچ کے حامل ہیں کیونکہ پوسٹ ماڈرنسٹ بھی مختلف مظاہر میں محض فرق (difference) کو اجاگر کرتے ہیں اور اشتراک(unity) کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں۔

دراصل ان تمام تحریکوں کا مدعا، مقصد اور منزل ایک ہی ہے اور ریاست خود ان تحریکوں کے آپس میں جڑ جانے کے امکان سے خوفزدہ ہے۔ ایسے میں ان تمام تحریکوں کو اپنے اپنے روایتی خول میں محدود کرنے کا بیانیہ ہی ریاستی مؤقف کی تاکید ہے۔ یہ تحریکیں آگے چل کر خود نامیاتی جڑت کی ضرورت کو محسوس کریں گی۔ جیسے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو تمام مظلوم عوام سے ہمدردی مل رہی ہے، اس لیے انہوں نے ملک گیر شٹرڈاؤن کی کال کے لیے تمام مظلوم عوام سے حمایت کی اپیل بھی کی ہے۔ اور جب محنت کش طبقہ ان تحریکوں سے جڑے گا تو وہ قومی تفریق اور علاقائیت پرستی پر کاری ضرب لگائے گا۔

تحریکوں کا یہ رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ اب یہ ایک عالمگیر مظہر بن چکا ہے۔ ہم بین الاقوامی سطح پر انقلابات کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں پہلے ہی ہم دنیا کے ہر خطے میں شاندار عوامی تحریکیں دیکھ چکے ہیں اور ہر جگہ پر تحریکوں نے روایات کو مسترد کیا ہے۔ البتہ ہم نے جیریمی کاربن کے گرد لیبرپارٹی میں ایک بڑا سیاسی ابھار ضرور دیکھا تھا، جو ایک استثنائی صورتحال تھی۔ مستثنیات بہرحال ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اب ہم برطانوی محنت کشوں کے شعور میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں اور برطانیہ بہت تیزی سے بڑی عوامی بغاوت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اس عہد میں دائیں اور بائیں دونوں طرف نئی سیاسی تشکیلات ناگزیر ہیں۔ لیکن عمومی تناظر عالمی معیشت کے زوال کا ہی ہے لہٰذا اب ہر جگہ پر ابھرنے والے یہ سیاسی بلبلے زیادہ پائیدار نہیں ہو سکیں گے اور ایک کے بعد دوسری تحریک عوام کے شعور کی پیش رفت کی غمازی کرے گی۔ ایسے میں باقاعدہ روایتی پارٹیوں کی از سرِ نو تشکیل خارج از امکان ہے۔

آج کی نوجوان نسل اپنی سرشت میں روایت پرست نہیں بلکہ روایت شکن ہے۔ یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں لاکھوں نوجوان دوبارہ کمیونزم کے نظریات کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ ایسے میں استصنامی حکمتِ عملی کی بجائے لینن، ٹراٹسکی اور ٹیڈ کے میتھڈ کے مطابق انتہائی لچکدار طریقہِ کار اختیار کرتے ہوئے جرات کے ساتھ عوام کے سامنے کمیونسٹ متبادل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ انٹرازم کا نہیں بلکہ ہر انقلابی امکان کی طرف رجوع (orientation) کرتے ہوئے تحریکوں کے ہراول کو جیتنے کے لیے موافق معروض ہے۔ روایات سے ہٹ کر آزادانہ انقلابی کام کے لیے شاید ہی تاریخ میں حالات کبھی اتنے سازگار رہے ہوں۔ آزادانہ کام کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ فوراً ہی انقلابی پارٹی کا اعلان کر دیا جائے۔ ہرجگہ پر اپنی قوتوں کو مدِ نظررکھتے ہوئے اپنے واضح متبادل پروگرام اور بینر کے ساتھ تحریکوں میں مداخلت کرنی ہو گی اور تحریکوں میں اس مداخلت سے منسلک طلبہ اور محنت کشوں میں آزادانہ فرنٹس تعمیر کرتے ہوئے مستقبل کی انقلابی پارٹی کی مضبوط بنیادیں استوار کرنی ہوں گی اور جب ہم سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں میں داخل ہوں گے اور مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے درست انقلابی پروگرام کے ساتھ مارکسزم کا علم بلند کرتے رہیں گے تو ایک ایسی انقلابی مارکسی پارٹی کی تعمیر کا خواب ضرور شرمندہ ِ تعبیر ہو گا جو سماج کو اس بند گلی سے نکال کر انسانیت کی نجات کی ضمانت فراہم کرے گی۔

Comments are closed.