پی آئی اے فلائٹ PK 8303 حادثہ۔۔ بیگناہوں کے قتل کا ذمہ دارکون؟

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|

کل دوپہر 2 بج کر 25 منٹ پر لاہور سے کراچی جانے والی پی آئی اے کی فلائٹ PK 8303 کا 16 سالہ پرانا A320 Airbus جہاز جناح ائرپورٹ کراچی سے محض چند سو میٹر فاصلے پر واقع ماڈل کالونی میں کریش کر گیا۔ طیارے میں 99 افراد موجودتھے جن میں 91 مسافر اور پائلٹ سمیت 8 افرادکا جہاز کریو شامل تھا۔ کل 68 مرد، 26 خواتین اور 3 بچے شامل تھے۔ 97 کی موت واقع ہو چکی ہے جبکہ دو افراد معجزاتی طور پر بچ گئے ہیں۔ جس جگہ جہاز گرا ہے وہاں پر تقریباً 8 گھروں کے تباہ ہونے اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موجود ہیں۔ کریش کی خبر آتے ہی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر مقامی لوگوں کی بنائی ہوئی ویڈیوز اور پائلٹ کی کنٹرول ٹاور کے ساتھ گفتگو کے آخری لمحات گردش کرنا شروع ہو گئے جن کے مطابق لینڈنگ کے لئے جہاز کے ٹائر نہیں کھل سکے اورآخر میں دونوں انجن بھی بند ہو گئے تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پائلٹ پہلے ایک مرتبہ بند ٹائروں کے ساتھ لینڈنگ کی کوشش کر چکا تھا لیکن آگ سے بچنے کے لیے فیول ختم کرنے کی غرض اور دیگرکچھ وجوہات کی بنا پر جہاز دوبارہ اوپر اٹھا لیا اور ایک پرتبہ پھر لینڈنگ کی کوشش کی گئی جس میں جہاز رن وے سے چند سو میٹر کے فاصلے پر گنجان آباد علاقے میں ایک موبائل ٹاور سے ٹکرانے بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ موقع پر فوری طور پر فوج، رینجرز اور پولیس نے پہنچ کر علاقہ گھیرے میں لے لیا جبکہ رات گئے تک ایدھی اور چھیپا ایمبولینس سروسز زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا کام کرتی رہیں۔ فی الحال لاشوں کی نشاندہی جاری ہے جس کے بعد میتیں لواحقین کو دی جا رہی ہیں جبکہ حادثے کو بہت بڑا سانحہ قرار دیا جا رہا ہے۔
حالیہ چند سالوں میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے 2016ء میں چترال سے اسلام آباد جانے والی فلائٹ PK 661 مارگلہ پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گئی جس میں 42 مسافر اور 5 کاکریو شامل تھے۔ اسی طرح 2006ء میں ایک فوکر F27 ملتان سے ٹیک آف کے بعد آگ کا گولہ بن گیا جس میں 41 مسافر اور 4 کیبن کریو کی موت واقع ہوئی۔ پچھلے 20 سالوں میں نجی مسافر اور فوجی طیارے متعدد مرتبہ کریش ہو چکے ہیں جس سے پاکستانی ایوی ایشن انڈسٹری کی صحت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے جبکہ ان میں سے کسی واقعہ کی تاحال کوئی تحقیقی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی۔
اس المناک سانحے کے آغاز سے ہی پردہ پوشی اور حقائق کو مسخ کرنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔PIA کے چیف ایگزیکٹیو اور حاضر سروس ائر مارشل ارشد ملک کی پریس کانفرنس سے واضح ہو گیا کہ حقائق کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے اور پی آئی اے کی انتظامیہ اس حادثے کی کوئی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہمارے پاس انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور پائلٹ کے دستخط شدہ دستاویز بھی موجود ہیں جن میں جہاز کو فلائٹ کے لئے کلیئر کیا گیا ہے اور سب سے مستند چیک اپ Alpha میں مارچ 2020ء میں جہاز کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نومبر 2020ء تک کلیئر کر دیا تھا۔
لیکن PIA کا یہ حادثہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں بلکہ طویل عرصے سے چلے آ رہے حکمرانوں اور بد عنوان انتظامیہکے حملوں کا نتیجہ ہے۔ 1990ء کی دہائی سے PIA کی مرحلہ وارنجکاری کی جار ہی ہے اور اس عمل میں حکومت میں آنے والی تمام سیاسی پارٹیاں اور فوجی آمریتیں برابر کی شریک رہی ہیں۔ کارگو، کیٹرنگ، ائر پورٹ لاؤنج اور سروسز اور دیگر شعبوں کو بتدریج ٹھیکوں پر دے دیا گیا ہے۔ ائر لائن کے متعدد مقامی اور عالمی روٹ بیچے جا چکے ہیں اور کئی نجی اور غیر ملکی ائر لائینوں کو ملک کے طول و عرض میں آپریشن کی اجازت دی جا چکی ہے۔ مختلف شعبوں میں ہزاروں ڈیلی ویجز مزدور دیہاڑیوں پر کام کر رہے ہیں جبکہ پچھلے کئی سالوں میں جہازوں کی خریداری، اپ گریڈیشن یا سفری انفراسٹرکچر کی بہتری پر سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ اگر کچھ تھوڑا بہت کام کیا بھی گیا ہے تو وہ صرف کمیشن کھانے اور ٹھیکوں میں خرد برد کے لئے کیا گیا ہے۔ کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب PIA میں دیو ہیکل کرپشن، چوری یا پھر گھپلوں کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت نہ بنیں۔ اس چوری پر سینہ زوری یہ کی جاتی ہے کہ ان تمام مسائل کو بنیاد بنا کر ائر لائن کی نجکاری کا جواز گھڑا جاتا ہے اور نجکاری کے عمل کو پہلے سے زیادہ تیز کر دیا جاتا ہے۔
معاشی حالات کی تباہی اور ریاست کی عمومی ناکامی نے ریاست کوقومی اداروں کی لوٹ مار کے حوالے سے اور زیادہ سفاک بنا دیا ہے۔ 2018ء کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد اس عوام دشمن عمل کو اتنا تیز تر کر دیا گیا ہے اور صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں سے لے کر پی آئی اے اور ریلوے جیسے اہم اداروں کو بربادی کی کھائی میں دھکیلا جا رہا ہے، اسی کا نتیجہ ہر جگہ پہلے سے بڑے حادثات اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی شکل میں سامنے آ رہا ہے لیکن حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس عمل میں عدلیہ سے لے کر فوج تک تمام ریاستی ادارے بھی شامل ہیں جو مختلف احکامات اور عہدوں پر تعیناتی جیسے اہم فیصلوں میں شامل ہیں جن کے نتیجوں میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔۔ پچھلے دو سالوں میں ائر مارشل ارشد ملک سمیت کم از کم 8 حاضر سروس ائر فورس افسران PIA میں کلیدی منصبوں پر براجمان ہیں اورنجکاری سمیت یونین سرگرمیوں پر پابندیوں جیسے مزدور دشمن فیصلے کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ ان پر بد عنوانی کے بھی الزامات ہیں جبکہ اس دوران وہ دو سرکاری محکموں سے تمام تر مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔
اس سال جب فروری میں دو عہدے رکھنے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ائر مارشل ارشد ملک کے حوالے سے سماعتیں ہو رہی تھیں تو آڈیٹر جنرل پاکستان کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کمرشل آڈٹ اینڈ ایوالویشن کراچی کی رپورٹ میں 6 ارب روپے کرپشن کا انکشاف کیا جس میں 70 کروڑ روپیہ IFE Solutions (ان فلائٹ انٹرٹینمنٹ سسٹم) کے لئے اپنے ایک دیرینہ دوست گروپ کیپٹن (ر) خواجہ معزالدین کی ٹینڈر سے دو ماہ قبل رجسٹر ڈ کمپنی M/s Avionics Solutions Private Limited کو نواز نے کا الزام لگایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مراعات، غیر قانونی ادائیگیوں، الاؤنسز اور ڈیپیوٹیشن ادائیگیوں میں کئی سو کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا۔ تمام تر اخباری رپورٹوں اور الزامات کے باوجود سپریم کورٹ نے اس ائر مارشل کو قانونی تحفظ فراہم کیا اور کام جاری رکھنے کے احکامات جاری کیے۔ یاد رہے یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے ایک ہزار کے قریب محنت کشوں کو ادارے سے غیر قانونی طور پر نوکری سے برخواست کر کے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس ادارے کو کامیابی سے چلائیں گے۔ آج اس سب کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے۔
اسی طرح جب سے کورونا وائرس وبا کا مسئلہ شروع ہوا ہے باقی ریاستی اداروں کی طرح ائر لائن انتظامیہ کی نا اہلی اور ملازمین پر جبر کی رپورٹیں سامنے آتی رہی ہیں۔ بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک پھنسے مسافروں کی واپسی کو بنیادبنا کر فلائٹس کو ائر لائن کے تمام ملازمین کی مرضی کے برخلاف بغیر حفاظتی سامان مہیا کیے بحال کر دیا گیا۔ حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی اور وباء کے خوف میں پالپا نے دو دن ہڑتال بھی کی لیکن حفاظتی سامان پورا کرنے اور تمام تر مسائل حل کرنے کے جھوٹے وعدے پر ہڑتال ختم کروا دی گئی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا اس کی تفصیلات پچھلی رپورٹ میں شامل ہیں۔ ملازمین کے ساتھ ساتھ مسافروں کی لوٹ مار کا بھی ایک نیابازار گرم ہوا۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مسافروں سے دوگنا اور کچھ اثناء میں تین گنا کرایہ وصول کیا جا رہا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ کیونکہ یہ خاص فلائٹس ہیں اور سفر کے ایک حصے میں خالی جہاز نے آنا جانا ہوتا ہے اس لئے کرائے بڑھائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیکس دینے والے مسافروں کو سہولت کیوں فراہم نہیں کی جا رہی، حکومت اس مد میں ائر لائن کو اضافی پیسے کیوں نہیں دے رہی جبکہ حکومت کی جانب سے سرمایہ داروں پر ایک ہزار ارب روپیہ نچھاور کیا جا چکا ہے۔آخر یہ سب پیسہ جا کدھر رہا ہے اس وقت بہت بڑے سوالیہ نشان ہیں۔
اس حادثے کے بعد بکاؤ میڈیا میں اس حالیہ سانحہ کو جوازبنا کر ایک مرتبہ پھر قومی ائر لائن کو بیچنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن ریاست تو کئی سالوں سے نجکاری کی کوشش کر رہی ہے جس کی سب سے حالیہ مثال 30 اپریل 2020ء کو ائر لائن پر Essential Services Act لاگو کرنا ہے جس کے تحت CBA کے علاوہ تمام مزدور یونینز اور ایسوسی ایشنز کو کالعدم قرار دے کر ان کے ساتھ تمام معاہدے منسوخ کر دیے گئے اور حکم عدولی کی صورت میں سخت کاروائی کی دھمکی بھی لگائی گئی۔اس ایکٹ کو نافذ کرنے کا مقصد ہی ائر لائن ملازمین کے حقوق سلب کرنا اور نجکاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس وقت ائر لائن میں جبری مشقت کی کیفیت ہے جس میں پائلٹس اور دیگر عملے سے بے پناہ اضافی کام لیا جا رہا ہے اور اطلاعات کے مطابق کچھ سے 18-22 گھنٹے بھی کام لیا جا رہا ہے! یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے طیاروں کو فلائٹ کے لئے انجینئرنگ سے عجلت میں کلیئرنس کروائی جاتی ہے اور کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی فنی خرابی یا ناقص پرزے کی موجودگی کے باوجود کئی سو جانوں کو داؤپر لگا کر فلائٹ کلیئر کر دی گئی۔ ظاہر ہے یہ کام بہت ”اوپر“ سے ہی کروایا جا سکتا ہے جبکہ اس کام میں حالیہ عرصے میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ یعنی کورونا وباء کو بنیاد بناتے ہوئے نجکاری کا حملہ بھی تیز تر کر دیا گیا ہے اور جب تک وباء موجود ہے تو ملازمین کی آواز دبا کرپشن کی نئی داستانیں بھی رقم کی جا رہی ہیں۔

ایک اورحکومتی نا اہلی جو حادثے کا باعث بنی وہ ائر پورٹس کے آس پاس رہائشی اور کمرشل عمارات ہیں۔ پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی ائر پورٹ، ریلوے یا کوئی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جاتا ہے تو اس کے ارد گرد ایک مخصوص حد تک زمین متعین کی جاتی ہے جسے حفاظتی معاملات کے پیشِ نظر خالی رکھا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کا شائد منفرد ملک ہے جس میں ہر ائر پورٹ کے پاس اراضی پر تعمیرات کرنے کے لئے سب سے پہلے ڈیفنس اور دیگر قبضہ مافیا پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی سرپرستی میں مختلف گروہ ان اراضیوں پر چھوٹی چھوٹی آبادیاں بنا کر غریب عوام کو لوٹنے کا ایک اور بازار گرم رکھتے ہیں۔ کئی اطلاعات ہیں کہ فلائٹ PK 8303 لینڈنگ کے لئے اپنی دوسری کوشش میں رن وے سے محض چند سو میٹر یا کچھ سیکنڈ دور رہ گئی تھی اور اگر آبادیاں موجود نہ ہوتیں تو شائد جہاز کو ایمرجنسی لینڈنگ کا موقع مل جاتا۔ اس کرپشن میں تمام متعلقہ ریاستی ادارے شامل ہیں اور انہیں سزا دینے کا کوئی نظام اس ملک میں موجود نہیں۔
ائر مارشل ارشد ملک نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اس سانحے کی تمام تر ”آزاد اور شفاف“ تحقیقات Safety Investigation Board (SIB)سے کروائی جائیں گی جن میں PIA اور CAA کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ SIB سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ماتحت کام کرتا ہے جس کی سرپرستی Cabinet Secretariat (Aviation Division) کرتا ہے جو وزیرِ اعظم کو رپورٹ کرتا ہے۔ CAA میں پہلے ہی حاضر سروس ائر فورس افسران ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبران ہیں۔ اسی طرح PIA بھی Aviation Division کے ماتحت کام کر رہا ہے۔ یعنی مجرم ہی جرم کی تحقیق کریں گے اور فیصلہ کریں گے کہ مجرم کون ہے! اس حوالے سے پالپا نے مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات میں National Transport Safety Board اور International Federation of Airline Pilots Association کے ممبران بھی شامل کئے جائیں کیونکہ انہیں درست طور پر اندازہ ہے کہ معاملات کس طرف لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے یہ خیال درست ہے کہ موجودہ ائر مارشل کے ماتحتوں کی ایوی ایشن سے متعلق ہر محکمے میں موجودگی کی وجہ سے آزاد اور شفاف تحقیقات کرائی ہی نہیں جا سکتیں۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعظم کے حکم پر جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں تمام ممبران حاضر سروس ائر فورس افسران ہیں۔ یعنی یہاں بھی جس فرد پر حتمی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے ہی ماتحت تحقیقات کریں گے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب ذرائع ابلاغ پر خبریں گرم ہیں کہ ائر لائن کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے متعدد مرتبہ انتظامیہ کو خطوط لکھے تھے کہ جہاز کا انجن کمزور ہے اور اس میں مسائل موجود ہیں۔لیکن اصل حقائق کا سامنے آنا ممکن نہیں لگتا اور پہلے بہت سے حادثوں کی طرح اس کو بھی دبا دیا جائے گا جس کے نتیجے میں اس سے بھی بڑے حادثے جنم لیں گے۔
اس حادثے نے واضح کر دیا ہے کہ اس ملک کے حکمران عوام کی جانوں کے تحفظ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ آنے والے عرصے میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ پہلے ہی کرونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کھولنا حکومت سمیت تمام ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔ عوام کو گھروں میں راشن مہیا کرنے کی بجائے انہیں سڑکوں پر لانا حکومت کی نا اہلی تھی۔ اب اس کے بعد حادثات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس میں یہ حادثہ بہت سے حادثوں میں سے ایک ہے۔درحقیقت یہ پورا نظام ہی اوپر سے نیچے تک گل سڑ چکا ہے اور اس میں کسی قسم کی بہتری یا انصاف کی امید نہیں کی جا سکتی۔ نجکاری، لوٹ مار اور مزدور دشمنی کی کوئی ایک داستان نہیں ہے بلکہ تمام قومی اداروں میں مزدوروں کا قتلِ عام سفاکی سے جاری ہے۔ ہر سال کئی سو واپڈا لائن مین ناقص حفاظتی سامان کی وجہ سے بجلی کی تاروں سے جھول جاتے ہیں۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے پاکستان ریلوے کی تاریخ میں سب سے زیادہ حادثے رونما ہو رہے ہیں (2 حادثات ہفتہ وار)۔ شعبہِ صحت تباہ وبرباد ہو چکا ہے جبکہ تعلیم عام عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہے۔ صرف نظامِ آب و نکاس کی دگرگوں حالت کی وجہ سے لاکھوں افراد بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ اس سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام اداروں اور محکموں میں فیصلے کرنے والے وہ ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں اور وہ اپنی لوٹ مار میں ملوث ہیں۔
اس حادثے کے بعد حکومت نے پہلے ہی کوڑیوں کا مول لگا کر مرنے والوں کے لواحقین کو 10 لاکھ روپیہ اور 5 لاکھ روپیہ زخمیوں کو دینے کا اعلان کر دیا ہے جو کسی بھی انسانی زندگی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ دکھ کی اس گھڑی میں ائر لائن کے ملازمین اور پاکستانی عوام کے ساتھ برابر کا شریک ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ:

1۔ ائر لائن چیف، بورڈ آف ڈائریکٹرز، وزیرِ ایوی ایشن، CAA چیف اور متعلقہ سیکرٹری فوری طور پر مستعفی ہو کر اپنے آپ کو تحقیقا ت کے لئے پیش کریں اور اس کے ساتھ ہی ان تمام پر کرپشن تحقیقات کا فوری طور پرآغاز کیا جائے۔
2۔ حادثے کی تحقیقات ائرلائن کے متعلقہ ملازمین سے کرائی جائیں اور اگر ضرورت پڑے تو عالمی ٹیکنیکل اداروں کی خدمات لی جائیں۔
3۔ نجکاری کا عمل فوری طور پر بند کیا جائے،لازمی سروسز ایکٹ کا نفاذ ختم کیا جائے اور یونین سرگرمی پر پابندی ختم کی جائے، ائر لائن کے ٹھیکوں پر دیے گئے تمام شعبے واپس لئے جائیں اور بلا معاوضہ تمام نجی ائرلائنز کو قومیا کر قومی ائر لائن کا حصہ بنا دیا جائے۔
4۔ ائر لائن کے تمام کھاتے کھول کر عوام کو پیش کئے جائیں اور ماضی اور حال میں کرپشن کرنے والے تمام افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
5۔ اس حادثے کی ذمہ داری کا بروقت تعین کیا جائے اور ذمہ داران کو سزائے موت دی جائے۔
6۔ مرنے والوں اور زخمیوں کے خاندانوں کی تمام تر ضروریاتِ زندگی کی ذمہ داری اور کفالت ریاست کا فرض ہے اور اس کا فی الفور اعلان کیا جائے۔
7۔ ائر پورٹس سے ملحقہ تمام رہائشی اور کمرشل عمارات ختم کی جائیں اور ان زمینوں پر قبضے کرنے والوں اور ان پر تعمیرات کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

Tags: ×

Comments are closed.