پی آئی اے میں یونین سرگرمیوں پر پابندی‘ نجکاری کی راہ ہموار کرنے کی کوشش!

|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

پاکستان کی مزدور دشمن ریاست نے عالمی یوم مزدور سے ایک روز قبل 30 اپریل کو پی آئی اے کے مزدوروں کے حقوق پر شب خون مارتے ہوئے قومی ائرلائن کی تمام ٹریڈ یونینز (CBAیونین کے علاوہ)، ایسوسی ایشنز اور سوسائٹیوں کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کی منسوخی کا اعلان کر دیا۔ یہ شب خون یکم مئی کی رات پلان کیا گیا جس سے ایک طرف ریاست کی مزدور دشمنی بے نقاب ہوتی ہے تو دوسری طرف حکومت کے نجکاری کے عمل کو تیز ترین کرنے کے عزائم بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ نوٹس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ تمام معاملات CBA یونین کے ساتھ ہی طے پائیں گے اور دیگر ملازمین کو ان کی انفرادی حیثیت میں ڈیل کیا جائے گا اور یہ سب اقدامات اس لئے کئے گئے ہیں تاکہ ائرلائن کو بدمعاش عناصر کے چنگل سے نکالا جا سکے جو عرصہ دراز سے کمپنی کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے پی آئی اے میں چھ ماہ کے لیے لازمی سروس ایکٹ1952ء کا کالا قانون بھی نافذ کردیا ہے جس کے تحت کسی قسم کی یونین سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ نوٹس کے مطابق یہ اقدامات کسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ ان کا مقصد کمپنی کو فعال کرنا ہے۔

یہ درست ہے کہ یہ اقدامات کسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ یہ اقدامات پی آئی اے کے تمام ملازمین اور بحیثیتِ مجموعی پاکستان کے محنت کش طبقے کے خلاف ہیں! جمہوریت کی ڈگڈگی بجانے والی یہ حکومت بھول گئی ہے کہ اکٹھا ہونا اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی انجمن، ایسو سی ایشن یا یونین بنانا نہ صرف مزدور کا بنیادی حق ہے بلکہ آئینِ پاکستان میں بھی اس حق کا ذکر ہے۔ یکم مئی سے ایک دن پہلے پی آئی اے کے ملازمین سے نہ صرف یہ بنیادی حق چھینا گیا ہے بلکہ پورے پاکستان میں قومی اداروں کے مزدوروں کو ڈنکے کی چوٹ پر واضح پیغام دیا گیا ہے کہ تمہاری کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں، تمہیں کوئی تحفظ حاصل نہیں اور اب بدترین نجکاری، کٹوتیوں اور بیروزگاری کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اسی طرح سرمایہ داروں اور نجی شعبے کو واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ کھل کر مزدور طبقے کا خون نچوڑو، تمہاری محافظ ریاست تمہارے ساتھ کھڑی ہے۔

پاکستان ایک طرف اپنے سامراجی آقاؤں کے آگے سرنگوں ہے جن سے قرضہ ہی نجکاری کی شرط پر ملتا ہے جبکہ دوسری طرف بے پناہ مالی ضیاع ہے جو نام نہاد دفاعی بجٹ، سرمایہ دار طبقے کو دی جانے والی معاشی مراعات اور ریاستی گماشتوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ ہمیشہ قومی ائرلائن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اخراجات بہت زیادہ ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ پوری ائرلائن کے ہزاروں مزدوروں کی تنخواہیں اور مراعات ایک طرف تو مٹھی بھر بور ڈ آف ڈائریکٹرز، چیف ایگزیکٹیو، اسٹیشن چیف اور انتظامیہ کی مراعات دوسری طرف! اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ دفاع کے نام پر عوام کا خون چوس چوس کر اب پیٹ نہیں بھرتا، اس لئے اس وقت حاضر سروس ائر مارشل سمیت کم از کم آٹھ ائر فورس افسران پی آئی اے کو صبح شام نچوڑ رہے ہیں۔ نجکاری کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ادارہ منافع بخش نہیں اور کرپشن بہت زیادہ ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ دو چار جہاز رکھنے والی نجی ائر لائنز کیسے منافع بخش ہیں اور جب تمام اکاؤنٹس، قانونی فیصلے اور پالیسی سازی مزدوروں کے بجائے انتظامیہ کے پاس ہے تو پھر اس کرپشن اور مالیاتی نقصان کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ کئی مرتبہ بیرونِ ملک منشیات کی اسمگلنگ سے ملک کا وقار مجروح ہوا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ امیگریشن سے لے کر کسٹمز اور سیکیورٹی کے بیسیوں اداروں کے اہلکاروں کی فوج ظفر موج کی موجودگی اور تلاشی تک، سب تو ریاست کے ہاتھوں میں ہے تو پھر یہ اسمگلنگ کون کروا رہا ہے اور اس سے مال پانی کون بنا رہا ہے؟

فروری 2016ء میں جب ن لیگ کی حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی اور کراچی میں پی آئی اے کے دو محنت کش پرامن احتجاج کے دوران شہید کر دیے گئے تو اس وقت بھی کسی عالم فاضل دانشور، مخیر حضرات کی این جی اوز اور سب سے بڑھ کر عوام کے دکھوں پر ہر شام ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے سیاسی مسخروں میں سے کسی ایک نے بھی ائر لائن مزدوروں کا عملی طور پر ساتھ نہیں دیا بلکہ محض زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کیا۔ اس مرتبہ تو زبانی جمع خرچ کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی! موجودہ CBA یونین کی اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو سانپ سونگھا ہوا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں ویسے ہی کھلم کھلا نجکاری کی حامی ہیں۔

اس وقت کرونا وائرس پوری شدت سے پاکستانی سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر یہاں کی بانجھ ریاست اور اس کے خصی سرمایہ دار طفیلیے ثابت کر رہے ہیں کہ اس وباء اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے نمٹنا ان کے بس میں نہیں۔ کسی اور ادارے کو تو بنیادی حفاظتی سامان پہنچانا دور کی بات یہاں شعبہئ صحت کو بھی حفاظتی سامان نہیں دیا جا رہا۔ اس حوالے سے پی آئی اے کی پائلٹ ایسوسی ایشن ’پالپا‘ نے اپریل کے آغاز میں دود ن کی ہڑتال بھی کی تھی۔ اگر باقی روایتی ٹریڈ یونین قیادتیں بھی ساتھ دیتیں تو حالات مختلف ہو سکتے تھے لیکن بہرحال ہڑتال حفاظتی سامان کے وعدوں پر ختم کرا دی گئی۔ لیکن مہیا گیا سامان انتہائی ناقص ہے۔ ائر لائن مزدوروں میں اضطراب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔پھر ائر لائن کی عمومی پروازیں بند ہونے کی وجہ سے ائر لائن شدید خسارے کا شکار ہے جس کے حوالے سے دیگر ممالک کی طرز پر ابھی تک ریاستِ پاکستان نے کسی امدادی پیکج کا اعلان نہیں کیا۔ یعنی کرونا وائرس اور ہولناک معاشی مسائل کی آڑ لیتے ہوئے ہزاروں مزدوروں کو بیروزگار اور ائرلائن بیچنے کی بھیانک سازش کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ ائرلائن میں سب سے پہلے مزدوروں اور خاص کر کلیدی کردار کے حامل پائلٹس کو بے دست وپا کر دیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس تمام تر کاروائی کا کلید ی نشانہ پالپا تھی تو شاید یہ مبالغہ آرائی نہ ہو۔ دوسری طرف پالپا سمیت ڈی نوٹیفائی ہونے والی یونینز اور ایسو سی ایشن کی انتہائی ”دانا“ قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ مزدور تحریک کی تاریخ سے کون سی ایسی مثال موجود ہے جس کی بنیاد پر اس ریاستی ادارے سے دادرسی کی امید کی جا رہی ہے۔ عدالتوں نے جس طرح سے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی شاندار نجکاری مخالف تحریک کو عدالتی فیصلوں کی گھمن گھیریوں میں ڈال کر زائل کیا اور شعبہ صحت کے محنت کشوں کو بغیر حفاظتی سامان جس طرح جبری مشقت کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے، یہ ایک مثال ہی اس سرمایہ داروں کے گماشتہ ادارے کے اصل کردار کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔

پی آئی اے کا ادارہ محنت کش چلاتے ہیں اور اگر ان کے ہاتھ رک جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس ادارے کو نہیں چلا سکتی۔ اس قوت کا اظہار 2فروری 2016ء کے دن شروع ہونے والی پی آئی اے کی نجکاری مخالف ہڑتال میں ہوا تھا جب آٹھ دن تک پی آئی اے کی ایک پرواز بھی نہ اڑ سکی۔

ائر لائن مزدوروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سرمایہ داری کا وہ ”اچھا دور“ اب ختم ہو چکا ہے جس میں مزدوروں کو حکمران طبقے کی میز سے چند نوالے میسر آ جاتے تھے۔ یہ ایک نئی دنیا ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اور کرونا وائرس کی وبا نے اس زوال پذیری کو تیز تر کر دیا ہے۔ اس نظام کی وفادار کسی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم اور کسی بھی ریاستی ادارے سے بہتری کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ مزدور طبقہ صرف اپنی قوتوں پر اور اپنی تنظیموں پر اعتماد کر سکتا ہے۔ اگر آج پی آئی اے کے مزدور متحد ہوں جائیں تو پھر ایمرجنسی کے نفاذ کا یہ نوٹس محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ پی آئی اے کا ادارہ محنت کش چلاتے ہیں اور اگر ان کے ہاتھ رک جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس ادارے کو نہیں چلا سکتی چاہے وہ کتنی ہی ”خاکی“ کیوں نہ ہو۔ اس قوت کا اظہار 2فروری 2016ء کے دن شروع ہونے والی پی آئی اے کی نجکاری مخالف ہڑتال میں ہوا تھا جب آٹھ دن تک پی آئی اے کی ایک پرواز بھی نہ اڑ سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج پھر اس قوت کو عمل میں لایاجائے۔ پی آئی اے کے مزدوروں کو دیگر قومی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں کے ساتھ فوری جڑت بناتے ہوئے ان عوام دشمن اور مزدور دشمن اقدامات کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ پی آئی اے کے مزدوروں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ موجودہ ہنگامی حالات میں مزدور طبقے کے جمہوری حقوق پر سب سے پہلا سفاکانہ حملہ پی آئی اے کے ادارے سے شروع ہو ا ہے اور اس حملے کا مقابلہ کرنا پی آئی اے کے محنت کشوں کا صرف سیاسی ومعاشی ہی نہیں بلکہ طبقاتی فریضہ بن چکا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اس گھناؤنی مزدور دشمن سازش کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور پی آئی اے کے محنت کشوں کی تمام مزدور تنظیموں کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام مزدور دشمن اقدامات کے خلاف جدوجہد میں پی آئی اے ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کرتا ہے۔

Comments are closed.