پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں پھوٹ: وجوہات اور اسباق

|تحریر: زلمی پاسون|

پشتونخوا میپ میں گزشتہ ایک عرصے سے جاری اندرونی لڑائی اور تضادات کا معیاری اظہار اس وقت ہوا جب پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے 19 اگست 2022ء کو افغانستان کے یوم استقلال کے موقع پر اسلام آباد میں موجود طالبان کے زیر قبضہ افغان کونسلیٹ کے دورے کے دوران ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے افغانستان میں بالخصوص اور ڈیورنڈ لائن کے اس پار پشتون سماج میں بالعموم طالبان کوقابل قبول حیثیت دلانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یوں اس مذکورہ پروگرام میں شرکت کو درست ثابت کرنے کیلئے یہ دلیل پیش کی جانے لگی کہ اگر ہم طالبان کو افغانستان میں سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے تو افغانستان ایک بار پھر جنگ و جدل کا مرکز بن سکتا ہے۔

اس کے بعد 7 اکتوبر 2022ء کو کوئٹہ شہر میں شہدائے اکتوبر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے چیئرمین نے طالبان کے حوالے سے اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لئے یہاں تک الفاظ دہرائے کہ”میں طالبان کا وزیر خارجہ ہوں اگر کسی کو میرے مؤقف سے اختلاف ہے تو وہ پارٹی چھوڑ سکتا ہے“۔ جس کے بعد پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کی جانب سے تندوتیز جوابی حملے دیکھنے اور سننے کو ملے اور پارٹی کے چیئرمین نے دو اہم مرکزی عہدیداروں کو پارٹی سے نکال دیا۔ اس ضمن میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے اخباری بیانات کے ذریعے پارٹی کے چیئرمین کے نہ صرف فیصلہ جات کو مسترد کیا بلکہ ان کے سیاسی مؤقف کو پارٹی کے مؤقف کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے ان کا ذاتی مؤقف قرار دیا۔ دریں اثنا پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے 23، 24 نومبر 2022ء کو کوئٹہ کے مضافاتی علاقے کچلاک میں مرکزی کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا جس میں کمیٹی کے دو روزہ اجلاس کے بعد بذریعہ پریس کانفرنس چیئرمین کے تمام فیصلہ جات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 27، 28 دسمبر 2022ء کو کوئٹہ میں مرکزی کانگریس کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جس کے بعد پارٹی کے چیئرمین نے 26 نومبر 2022ء کو پارٹی کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرکزی کمیٹی کے اجلاس کو نہ صرف غیر آئینی قرار دیا بلکہ اس میں شرکت کرنے والے صوبائی و مرکزی عہدیداروں کو ایک بار پھر پارٹی سے نکال دیا جس کے بعد پارٹی کا بحران مزید شدت اختیار کرگیا۔

2 دسمبر کو خان عبدالصمد خان شہید کی 49 ویں برسی کے موقع پر پارٹی کے چیئرمین نے اپنے تقریر کے آخری لمحات میں صرف ایک جملے کے اندر پارٹی سے نکالے گئے تمام رہنماوں پر اپنے کیے گئے فیصلہ جات کی توسیع کروائی۔ پریس کانفرنس اور دو دسمبر کے جلسے کے بعد حزب اختلاف کی جانب سے صرف یہ اخباری بیان سامنے آیا کہ چیئرمین کے تمام تر اختیارات 27، 28 دسمبر 2022ء کی مرکزی کانگریس تک سلب کیے گئے ہیں، لہٰذا تمام قیادت اور کارکنان مرکزی کانگریس کی تیاریوں میں مصروف رہیں۔ اس بحث کو سمجھنے کے لئے ہمیں مذکورہ پارٹی کے تاریخی کردار کے حوالے سے بالخصوص اور ان پارٹیوں کے بننے کے عہد سے لے کر موجودہ عہد تک ایک مختصر مگر ٹھوس جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں یہ سمجھ آ سکے کہ مذکورہ پارٹی سمیت دیگر روایتی پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل کیوں کر رونما ہو رہا ہے۔

پشتونخوا میپ کی بنیاد اور آغاز کا مختصر تاریخی جائزہ

موجودہ پشتونخوا میپ کی بنیاد 1989ء میں ڈالی گئی، جب پشتونخوا نیپ اور مزدور کسان پارٹی کا انضمام ہوا۔ ان انضمام سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ نیپ پختونخواہ کی بنیادیں اس وقت ڈال دی گئی تھیں جب 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبوں کی بحالی ہوئی جس میں پہلی بار بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دیا گیا۔ عبدالصمد خان اچکزئی کی نیپ ولی گروپ سے علیحدگی کی یہ بھی ایک وجہ تھی کہ بلوچستان میں پشتون اکثریتی علاقوں (چیف کمشنر صوبہ) کو نظرانداز کرتے ہوئے بلوچستان میں شامل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اُنہوں نے 1970 ء کے انتخابات میں پشتونخوا نیپ کے نام سے حصہ لیا جس میں اُنہیں محض ایک نشست پر کامیابی ملی۔ یہاں پر نیپ پختونخوا کے قیام اور عبدالصمد خان اچکزئی کی نیپ ولی سے علیحدگی کی وجوہات کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے محض چند امور کے حوالے سے یہاں پر حوالہ دینا ضروری ہے۔

عبدالصمد خان اچکزئی کا بنیادی طور پر سیاست میں عملی کردار تقسیم ہند سے پہلے ہی تھا اور ان کی ہندوستان میں انگریزی سامراج کے خلاف ایک جدوجہد رہی ہے جس سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تقسیم ہند سے پہلے انہوں نے 30 مئی 1938ء کو انجمن وطن بنائی جس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں انتہائی فعال کردار ادا کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد عبدالصمد خان اچکزئی نے 25 اپریل 1954ء کو”ورور پشتون“ سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی، جوکہ بعد میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے وجود میں آنے کے بعد نیپ میں ضم کردی گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی کی سیاست سوویت یونین کی وجہ سے انتہائی ریڈیکل اور متاثر کن تھی جہاں پاکستان بھر کے مظلوم عوام ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی اپنے آغاز سے لے کر انجام تک مختلف پابندیوں کی زد میں رہی اور ان کے اندر تقسیم در تقسیم کا سلسلہ بھی جاری رہا مگر ان تمام تر مشکلات کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی بلاشبہ ایک توانا آواز تھی۔ 1970ء کے انتخابات سے پہلے عبدالصمد خان اچکزئی نے صوبوں کی تشکیل نو پر نیشنل عوامی پارٹی سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے الگ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد عبدالصمد خان اچکزئی نے کھل کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا اور اس بنیاد پر پشتونخواہ نیپ پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی۔ جس میں عبدالصمد خان اچکزئی اور ساتھیوں نے الگ الگ پریس کانفرنسز کرتے ہوئے ایک دوسرے کو پارٹی سے خارج کر دیا تھا۔ 2 دسمبر 1973ء کو عبدالصمد خان اچکزئی کو کوئٹہ شہر میں رات کے اندھیرے میں اُنکے گھر پر بم پھینک کر شہید کر دیا گیا، یوں اس کے بعد عبدالصمد خان اچکزئی کو خان شہید کا لقب دیا گیا۔ اس کی پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری خان عبدالصمد خان شہید کے بیٹے محمود خان اچکزئی کو سونپ دی گئی، جس میں مختلف نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے 1989ء میں مزدور کسان پارٹی اور نیپ پشتونخوا آپس میں ضم ہوکر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی بنی۔ اس سے پہلے 1975ء میں نیشنل عوامی پارٹی پر بھٹو دور میں پابندی لگا دی گئی تھی جس کے بعد 1977ء میں ضیائی مارشل لاء کا آغاز ہوتا ہے جہاں حیدرآباد سازش کیس میں نیشنل عوامی پارٹی کی مقید قیادت کو رہا کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی سے پابندی ہٹا دی گئی مگر اس کے بعد سے لے کر آج تک نہ ہی نیشنل عوامی پارٹی بن پائی اور نہ ہی اس کے بننے کے امکانات موجود ہیں۔

نیپ کی بنیادیں سٹالنسٹ زوال پذیری کے تحت ماسکو سے مسلط کردہ سٹالنسٹ نظریات ہی تھے جو مارکسزم اور لینن ازم کے بنیادی نظریات سے مکمل انحراف تھا۔ خاص طور پر قومی سوال پر سٹالنزم کے مؤقف کا لینن کے نظریات سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کے متضاد تھے۔ لینن جہاں قومی جبر اور استحصال کی شدید مذمت کرتا تھا وہاں پر قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو پرولتاری بین االاقوامیت کے نظریات اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جاری محنت کش طبقے کی جدوجہدوں کے تابع کرنے کی حمایت کرتا تھا۔ انہی نظریات کے تحت روس میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہر طرح کے قومی جبر کا مکمل خاتمہ ہوا اور تمام مظلوم قومیتوں کو آزادی کا سانس نصیب ہوا۔ دوسری جانب سٹالن کے تحت قومی تعصبات کو روس سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں فروغ دیا گیا اور قومی جبر کے خلاف جدوجہدکو نہ صرف پرولتاری بین الاقوامیت سے کاٹ دیا گیا بلکہ قو م پرستی کے فرسودہ نظریات اور سیاست کوغلط طور پر ایک ترقی پسند عمل بنا کر پیش کیا گیا۔ چین میں ماؤ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سٹالنزم کے ہی نظریات کو چینی بیوروکریسی نے اپنا لیا اور انہی نظریات کو اپنے زیر اثر بائیں بازو کی پارٹیوں پر مسلط کیا۔ یہی وجہ تھی کہ سٹالنزم کے تحت یہاں پر نیپ سمیت تمام بائیں بازو کی سٹالنسٹ جماعتیں قومی سوال پر درست لینن اسٹ مؤوقف نہیں رکھ سکیں اور زوال پذیر ہو کر قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہو گئیں۔

بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی اور پنجابی سیاستدانوں نے اپنی راہیں الگ کرتے ہوئے اپنی الگ الگ تنگ نظر سیاست کا پرچار شروع کیا جس کا انجام حکمران طبقے کی گماشتگی پر ہوا۔ مگر اُس عہد کی ایک اہم خاصیت تھی جہاں پر سوویت یونین کی موجودگی کی وجہ سے سیاست کے ہر پہلو پر نظریات کی اہم چھاپ ہوتی تھی چاہے یہ قوم پرستی کی سیاست تھی، ٹریڈیونین یاطلبہ سیاست۔ ہر طرف مفادات اور سمجھوتے سے بالاتر ہوکر سٹالنزم کے مسخ شدہ نظریات کا دور دورہ تھا۔ مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ تمام تر زوال پذیری تیز ترین ہو گئی۔ اس دوران سیاست میں نہ صرف غیر جمہوری قوتوں کو طاقتور ہونے کا موقع ملا بلکہ یہ تمام سیاسی رجحانات مفادات کا شکار ہوکر نظریاتی طور پر زوال پذیر ہونے لگے۔ جرائم، منشیات، قبضہ گروپ اور سمگلنگ سیاسی پارٹیوں میں سرایت کرنے لگی اور بتدریج سیاسی پارٹیاں جرائم پیشہ افراد کے گروہ بن گئے۔ اس دوران یہ تمام پارٹیاں بتدریج حکمران طبقات کے مفادات کی کھل کر ترجمانی کرنے لگیں اور عوامی سیاست سے بیگانہ ہو گئیں۔ ان کی تمام تر اندرونی لڑائیاں بھی جرائم اور لوٹ کے مال کی بندر بانٹ پر ہونے لگیں یا پھر حکمران طبقات اور ریاست کے مختلف دھڑوں کی لڑائی کی عکاسی کرنے لگیں۔ آج یہ زوال پذیری اپنی انتہا تک پہنچ چکی ہے اور پی کے میپ کی موجودہ لڑائی میں بھی یہ عناصر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

انقلاب ثور اور پشتون قوم پرست سیاست

 

1978ء میں افغان سرزمین پر انقلاب ثور کا عظیم واقعہ رونما ہوا تھا۔ اس انقلاب کے حوالے سے بھی پشتون قوم پرستوں کے اندر تذبذب موجود رہا تھا۔ ولی خان کی سربراہی میں پشتون قوم پرستوں نے خلق دھڑے کی کبھی بھی حمایت نہیں کی بلکہ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد ببرک کارمل کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے کے بعد انہوں نے کھل کر ببرک کارمل کا مکمل ساتھ دیا۔ اس حمایت اور اختلاف کی وجوہات طبقاتی تضاد کے ساتھ ساتھ نظریاتی بھی تھی۔ کیونکہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان میں شامل دو دھڑے واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یعنی خلق دھڑے کی اکثریت سماج کے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتی تھی جبکہ پرچم دھڑے کو ایک مغربی صحافی (بیور لے میل نے اپنی کتاب انقلابی افغانستان) میں شاہی کمیونسٹ کہا ہے، جس سے ان کی طبقاتی کمپوزیشن بھی واضح ہوتی ہے۔ دوسری جانب نظریاتی حوالے سے بھی خلق دھڑے کی نسبت پرچم دھڑا ریڈیکل قوم پرستی کا رجحان رکھتا تھا۔

دوسری جانب نیپ پشتونخواہ نے ایک حد تک انقلاب ثور کی حمایت کی تھی، جس میں بھی مختلف شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص خان عبدالصمد خان شہید کے قتل کے حوالے سے ثور انقلاب کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل ہونے والی سابقہ افغان حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود تھے۔ کیونکہ اس وقت پشتون قوم پرست سیاست میں پشتونستان کا پروگرام سرفہرست تھا، مگر بدقسمتی سے پشتون قوم پرست اس پشتونستان کے پروگرام کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ تذبذب کا شکار تھے بلکہ ان میں جو بھی تضاد تھا وہ بھی انتہائی مبہم تھا۔ یعنی خان عبدالصمد خان شہید نے شہادت سے قبل سردار داؤد خان کی ایما پر چلنے والے پشتونستان کے پروگرام سے اختلاف کیا تھا اور شاید یہی اختلاف ان کے قتل میں اہم محرک ثابت ہوا۔ لیکن اب تک خان شہید کے قتل کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک بیانات سامنے نہیں آئے ہیں، جس طرح شہید عثمان کاکڑ کے قتل کے تمام تر محرکات کو اب تک دانستہ یا غیر دانستہ طور پر چھپایا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ نیپ پشتونخواہ نے سردار داؤد کے اُس عمل کے ری ایکشن میں انقلاب ثور کی حمایت کی ہوگی۔

ڈاکٹر نجیب شہید کی اقتدار سے بے دخلی اور نوزائیدہ پی کے میپ

شہید ڈاکٹر نجیب کی اقتدار سے بے دخلی اور امریکی سامراج، پاکستان اور سعودی عرب کے زیر اہتمام پٹرو ڈالر جہاد کے نتیجے میں مذکورہ تین ممالک کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو کابل پر بٹھا دیا گیا اور افغانستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا گیا۔ مذکورہ پارٹی نے اس عمل کی حمایت کی، حالات کی نزاکت کے تحت وہ آج بھی اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ ضیائی آمریت نے سیاست کے اندر کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا اور اپنی حکمرانی اور لوٹ مار کیلئے پورے سماج کو برباد کر ڈالا۔ افغانستان کے اقتدار پر دہشت گردوں کے بٹھانے کے عمل کی حمایت پارٹی کو نظریاتی حوالے سے اس لیے مہنگی پڑی کیونکہ جس بلیک اکانومی، ڈرگ سمگلنگ اور کلاشنکوف کلچر نے سیاست میں پروان چڑھنا شروع کیا تھا اس نے مزید فروغ پاتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں بالعموم اور سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں بالخصوص مزید فروغ حاصل کیا۔ کراچی میں پشتون، مہاجر، بلوچوں، سندھیوں اور دیگر آباد قومیتوں کے درمیان اس کلاشنکوف کلچر کو ایک طرف پاکستانی ریاست نے متعارف کروایا تھا مگر دوسری جانب سوویت یونین کے انہدام اور نیشنل عوامی پارٹی جیسے سیاسی رجحان کی توٹ پھوٹ نے جن پارٹیوں کو جنم دیا، وہ بھی اس کلچر کو روکنے کے بجائے ان کا حصہ بننے لگیں۔ لہٰذا مختلف اقوام کے درمیان نفرت و تعصب کے بیج بونے میں ریاست کے ساتھ ساتھ وہ بھی شامل رہے۔ موجودہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی اس دور میں اس سیاست کے ایک اہم شریک کے طور پر کردار ادا کیا۔ یوں بلوچستان میں گوکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بلوچ قومی سوال کے سنگ پشتون قومی سوال بھی موجود ہے، مگر دونوں مظلوم اقوام کے اتحاد کا ادراک اس ریاست کو تھا، اسی لئے مظلوم قومیتوں کو ایک پیج پر اکٹھا ہونے کے خلاف ریاست کو اپنے عزائم میں بھرپور کامیابی ملی۔

دوسری طرف افغانستان سے آئے ہوئے پناہ گزین یا افغان مہاجرین کے نام پر بلوچستان میں جو سیاست چل پڑی تھی اس میں پشتون اور بلوچ قوم پرستوں نے افغان مہاجرین کا جس بے دردی سے استحصال کیا وہ بھی تاریخ میں رقم ہے۔ افغان مہاجرین کو اپنی نام نہاد پارلیمانی اکثریت اور اقلیت کے لیے استعمال کیا جانے لگا حالانکہ بلوچ قوم پرست یہ اکثر اوقات بھول جاتے تھے کہ افغانستان کے عوام نے ہر حال میں بلوچ حریت پسندوں کو عوامی سطح پر بھی جگہ دینے میں فراخدلی دکھائی تھی۔ حالانکہ پاکستان کے اندر بالعموم اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص ان افغان مہاجرین نے جو تعمیری کردار ادا کیا وہ خود ایک مثال ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کے برعکس آج تک افغان مہاجرین کی ایسی اندوہناک زندگی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ان قوم پرستوں کے ہوتے ہوئے افغان مہاجرین کو ریاست پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، بلکہ بلوچستان کی پشتون آبادی میں مدرسوں کی بھرمار، جو ضیائی آمریت سے شروع کی گئی تھی، میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ اور ریاست پاکستان کی مقتدر قوتوں نے یہاں سے بیٹھ کر افغانستان کو فتح کرنے اور اس کو اپنا پانچواں صوبہ قرار دینے کی رٹ لگائی۔ یہی صورت حال موجودہ خیبرپختونخوا میں بھی جاری رہی۔ لیکن پشتون قوم پرستوں کو جس طرح کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس میں بالکل ناکام رہے، جس کے خونخوار نتائج کا آج تک پشتون افغان وطن میں سامنا کیا جا رہا ہے۔

پشتون بلوچ تضاد اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی

بلوچستان میں بلوچ اور پشتون آبادی اور ان کا قومی سوال ایک قابل ذکر موضوع ہے۔ مگر یہاں پر ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جو تضاد پنپنے لگا اس کی تاریخ آج تک موجود ہے۔ اس تضاد کو ریاست نے بارہا خونی کھلواڑ میں تبدیل کرنے کی دانستہ کوششیں بھی کیں، اور ایک عرصے تک نفرت اور تعصب پرمبنی سیاست کا طوطی خوب بولتا رہا۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ اس کھلواڑ نے پشتون علاقوں میں ریاستی ایما پر قبائلی تضادات کو بھی خوب ابھارا۔ جہاں پی کے میپ کے چیئرمین کے آبائی علاقے میں قبائلی تنازعات کو آج بھی مثال کے طور پر پیش کیا جا تا ہے۔ پشتون بلوچ تضاد کے حوالے سے جو متضاد قوم پرستی کی سیاست رہی ہے اس نے دونوں مظلوم اقوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے انہیں مزید کُریدا ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے ریاست نے اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کے لئے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ جبکہ راتوں رات نئے نئے ناموں سے اپنے من پسند اور الیکٹیبلز پارلیمانی نمائندگان کو سیاسی ڈھانچوں میں ڈال کر بلوچستان کے حکمران بنایا گیا۔

نظریاتی زوال پذیری کی وجہ سے پشتون و بلوچ قوم پرست سیاست کو مصنوعی سانس بحال کرنے کیلئے یہ تضاد کارآمد ثابت ہورہا تھا اور ایک وقت تک بالخصوص نوزائیدہ پڑھے لکھے درمیانے طبقے میں اس نام نہاد تضاد کو تھوڑی بہت حمایت ملنے لگی تھی۔ مگر حالات کے تھپیڑوں نے اس مصنوعی تضادات کی ہوا نکالتے ہوئے اس تضاد کو دفنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیونکہ بلوچستان میں عوامی سطح پر پشتون اور بلوچ اقوام کے درمیان تضاد کو کبھی بھی عوامی حمایت نہیں ملی اور نہ ہی ان تضادات کی کوئی عوامی بنیاد رہی ہے۔ بلکہ یہ دونوں اطراف، یعنی بلوچ اور پشتون قوم پرست حکمرانوں کی جانب سے مصنوعی طور پر بنایا جارہا ہے تاکہ ان کی عیاشی اور مفاد پرستی کی دکان بند نہ ہونے پائے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں، اور ان تمام مصنوعی و فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر انسان دوستی پر مشتمل ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جہاں حکمران طبقے کے پھیلائے گئے مصنوعی تعصبات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انسان دوستی کی یادیں تازہ کر دی گئیں۔ ان برادر اقوام کے اندر جو تعلق لمبے عرصے سے آ رہا ہے اس کو یہاں سیاسی شعبدہ باز قوتیں کبھی بھی ختم نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ریاست کی دانستہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان بھر میں موجود اقوام بالخصوص مظلوم قومیتوں کے درمیان لسانی، قومی اور دیگر تضادات کو پیدا کیا جائے تاکہ جو اس وقت سطح پر موجود معاشی دیوالیہ پن کی تلوار لٹک رہی ہے اورفوجی اشرافیہ و حکمران طبقے کی نااہلی، عیاشی، کرپشن، محنت کش طبقے کی زبوں حالی عام بحث کا موضوع بن چکی ہے اس سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ اسی کے ساتھ ہی ریاستی بحران اور اسٹیبلشمنٹ کی آپسی نورا کشتی کو چھپانے کے لئے ایسے غلیظ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جس کی حالیہ مثال سندھ میں پشتون، سندھی اقوام کو دست و گریبان کرنے کا ایک ٹریلر چلایا گیا تھا۔ مگر عوامی سطح پر حکمران طبقے کی اس چالبازی کو محنت کش عوام نے نہ صرف یہ کہ مسترد کردیا بلکہ خوب ننگا بھی کیا۔

بلوچستان میں بلا کسی شک و شبہ کے پشتون بلوچ اقوام سمیت دیگر چھوٹی چھوٹی قومیتیں اور کمیونٹیز آباد ہیں اور دو بڑی اقوام یعنی پشتون و بلوچ اقوام کا الگ الگ انتظامی یونٹس میں رہنا یا پھر ملکی سطح پر ایک متحدہ یونٹ تشکیل دینا ان کا جمہوری حق ہے مگر اس حق کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی مقتدر قوتوں سے چھیننے کی جسارت کرناہوگی نہ کہ کسی دوسرے مظلوم کو مورد الزام ٹھہرانے یا ان سے حق طلب کرنے کی غلیظ سیاست کرنا۔ اس عمل کی بنیاد میں وہی تعصب اور نفرت موجود ہے جس کی بنیاد پر بلوچستان میں دو متضاد سیاسی رجحانات کا تاریخی کردار رہا ہے۔ گوکہ کئی بار بلوچستان کی حکومتوں میں قوم پرست ہونے کے باوجود بھی اس ضمن میں کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا نہ ہی کوئی قرارداد پیش کی گئی، صرف لفاظی کی حد تک یہ ساری بحث موجود ہے۔ اس طرح یہ سیاسی شعبدہ باز ایک طرف اپنی تجوریاں بھر رہیں اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاست کو مضبوط کر رہے ہیں۔ مگر عوامی سطح پر اس پراپیگنڈے کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے بلکہ جب بھی اس طرح کے متضاد بیانات یا لفاظی کی جاتی ہے تو عوام کی طرف سے ان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ان کے عزائم کو بھرپور طریقے سے ننگا کر دیا جاتا ہے۔

موقع پرست سیاست اور 2013ء کے انتخابات

پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری بارنسبتاً صاف و شفاف انتخابات 1970ء میں ہوئے تھے جہاں میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کو واضح اکثریت ملی تھی۔ اس کے بعد عام انتخابات میں اپنے من پسند افراد کو برسر اقتدار لانے کے لئے اسٹیبلیشمنٹ کا ہی مکمل کنٹرول رہا۔ اب اس پیمانے پر اگر ہم پاکستان میں ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیں تو مختلف اوقات میں راتوں رات نئی پارٹیاں بنتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جبکہ جن پارٹیوں کو اقتدار دینا مقصود ہو، انہیں مختلف نام نہاد اتحادوں کے اندر اکٹھا کرواتے ہوئے اقتدار سونپ دیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر عام انتخابات میں کامیابی کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی عوامی حمایت سے جوڑنا سراسر بیوقوفی ہے۔ گوکہ تھوڑی بہت حمایت تو ہر سیاسی جماعت کو ان کے پروگرام کی بنیاد اور دیگر سیاسی رجحانات سے نفرت کی وجہ سے ملتی ہے مگر جو حمایت درحقیقت بورژوا جمہوریت کے اندر پارٹیوں کو ملتی ہے وہ بھی نایاب ہو چکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں رائج تمام سیاسی پارٹیاں ہوا میں معلق ہیں۔ اس بنیاد پر اب تو یہ زبان زد عام ہے کہ پاکستان میں اقتدار کی چابی راولپنڈی کے فوجی ہیڈ کوارٹر سے ہی ملتی ہے۔

اس ضمن میں 2013ء کے عام انتخابات میں پی کے میپ کو اُن کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کی 14 اور قومی اسمبلی کی 4 نشستوں پر کامیابی ملی جس کے بعد ساڑھے چار سال تک صوبائی حکومت میں رہے جبکہ پارٹی کے چیئرمین کا بھائی گورنر رہا۔ یہ وفاقی حکومت میں مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی اتحادی رہے گوکہ وفاقی سطح پر انہیں کوئی وزارت نہیں ملی۔ ایوان بالا میں مذکورہ پارٹی کے وقتاً فوقتاً تین سے چار سینیٹرز بھی رہے۔ اس دوران اقتدار کی رسہ کشی اور مفادات اور مراعات کی بندربانٹ نے پارٹی کی تنظیم کی بیخ کنی کی بنیاد رکھی جہاں 2015ء میں پارٹی کے طلبہ ونگ میں واضح دھڑے بندیاں ہونے لگیں جبکہ پارٹی کی بالائی قیادت میں بھی دراڑیں پڑنے لگیں، جس کا اظہار طلبہ ونگ اور پارٹی کے اندرونی اداروں میں خلفشار کی شکل میں ہونے لگا۔ پارٹی کے بالائی اداروں کے اجلاس کے انعقاد کا مکمل خاتمہ ہونے لگا اور تمام تنظیمی ذیلی ادارے بھی اس ضمن میں متاثر ہونے لگے جہاں پر صوبائی وزرا نے پارٹی کے اداروں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنی لابیاں تشکیل دے کر من مانیاں شروع کر دیں، جس سے اختلافات مزید شدت اختیار کرنے لگے۔ جبکہ پارٹی کے اندر اقتدار کی رسہ کشی کا بنیادی اختلاف صوبے کے گورنر کی تعیناتی کی شکل میں ہونے لگا جہاں پر پارٹی چیئرمین کے بھائی کو پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل پر فوقیت دیتے ہوئے اس کی یکطرفہ طور پر نامزدگی ہوئی۔ یہیں سے پارٹی کے اندر اختلافات طوالت اختیار کرتے ہوئے پارٹی دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہوتی گئی۔ جہاں ایک دھڑا اقتدار کی ہوس میں مصروف عمل تھا جبکہ دوسرا دھڑا اقتدار کی آسائش سے محروم رہا۔ یہی بنیادی اختلاف تھا جس کی وجہ سے پارٹی کے اختلافات کا مزید عملی اظہار 2018ء کے عام انتخابات میں ہوا جہاں پارٹی کے امیدواروں کے لیے تنظیمی اداروں کی غیر فعالیت اور پارٹی کے امیدواروں کے لیے انتخابی کمپئین میں حصہ نہ لینا معمول بن گیا تھا۔ جبکہ کئی امیدواروں کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا ہونا پڑا جس کے بعد اختلافات میں مزید شدت آگئی اور پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کو فارغ کردیا گیا۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں محض کوئٹہ سے ایک ہی صوبائی نشست پر کامیابی ملی حالانکہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ظہور کے بعد پارٹی نے کوشش کی تھی کہ وہ اپنے اندرونی تضادات کو مبہم کرنے اور انتخابی حلقوں میں کامیابی سمیٹنے کے لیے مکمل طور پر پشتون تحفظ موومنٹ میں کُھل کر شامل ہوا جائے۔ یہاں تک کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو اپنی ہی پارٹی کا تسلسل قرار دینے لگے، مگر وہ ایک الگ بحث ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کا ابھار کیونکر ہوا مگر ایک ہی جملے میں اگر ہم پی ٹی ایم کے ظہور کو بیان کریں تو سابقہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں جاری ریاستی دہشت گردی، قومی جبر، لوٹ مار اور ریاستی سرپرستی میں ٹی ٹی پی کے قبضے پر پشتون قوم پرست پارٹیوں کی خاموشی نے جس خلا کو جنم دیا، اسے پشتون تحفظ موومنٹ نے پُر کیا۔

واپس اپنی بحث کی طرف آتے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں ناکامی کے بعد پارٹی کے اندرونی تضادات گوکہ سطح پر نمایاں نہیں تھے مگر اندرونی طور پر پرانے پانچ سالہ اقتدار کے نتیجے میں مفاد لینے اور مفاد نہ ملنے یا نہ لینے والوں کے درمیان واضح پھوٹ بنتی گئی جس کا اظہار پارٹی کے تنظیمی اداروں کی غیر فعالیت کی شکل میں بھی ہونے لگا تھا۔ صرف الیکشن کمیشن کے برائے نام انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کانگریس کرنا ضروری تھا اس لیے کانگریس کرنے سے پارٹی کے تضادات کی اختلافات نہ یہ کہ حل ہوتے تھے، بلکہ وہ پھوٹ مزید واضح ہونے لگتی تھی اور دو متضاد لابیاں موجود تھیں جس کا اظہار وقت کے ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ میں بھی ہونے لگا۔ جبکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی پارٹی کے اندرونی تضادات کی وجہ سے خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ حتمی طور پر اس طرح کی پارلیمانی سیاسی رجحان کے لیے انتخابی کامیابیاں ہی سب کچھ ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس عوامی مسائل اور قومی سوال کے حل پر کوئی سنجیدگی ہی موجودنہیں رہی۔ مختصر یہ کہ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز 2013ء کے انتخابات میں جیت کے بعد ہی شروع ہوا، اس سے پہلے کوئی سیاسی اور نظریاتی اختلاف نہیں تھا بلکہ اختلافات کا بنیادی مرکزہ محض اقتدار میں حصہ داری اور محرومی ہی تھی۔ اب اختلاف کو جس طرح پیش کیا جا رہا ہے گویا یہ نظریاتی اختلاف ہے، اس سے ہم بحیثیت مارکس وادی اتفاق نہیں کرتے۔ کیونکہ ہم واضح کرتے چلیں کہ یہ دونوں دھڑے نظریاتی حوالے سے بالخصوص افغانستان میں نام نہاد مجاہدین کی حکومت کو تسلیم کرنے اور 2001ء میں نام نہاد وار آن ٹیرر میں امریکی سامراج کو خوش آمدید کرنے میں ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود تھے اور انہوں نے افغانستان میں امریکی سامراج کو خوش آمدید کرنے کے لیے عوامی اجتماعات منعقد کیے۔ ان کا بیانیہ یہ رہا کہ افغانستان پر قابض طالبان امریکی سامراج کی ہی پیداوار ہیں اور ان کو ختم کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ یہاں پر پارٹی کے بنیادی نظریات (سامراج مخالف کردار) سے انحراف پر دونوں متفق رہے ہیں اور آج بھی دونوں دھڑوں کے افغانستان پر بنیادی موقف میں تبدیلی آچکی ہے۔ پارٹی کے چیئرمین کا موقف انتہائی موقع پرستی اور مفاد پرستی پر مبنی ہے جو کہ طالبان کو افغانستان میں تمام تر صورتحال سے بالاتر ایک قوت اور سٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور طالبان کے دفاع میں جس مؤقف کو پیش کرتا ہے وہ بلاواسطہ پاکستانی ریاست کے ایک دھڑے کا ہی بیانیہ ہے۔ جبکہ دوسرے دھڑے کا موقف یہ ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کو بین الاقوامی قوتوں کے تسلیم کرنے کی شرط پر وہ بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔

ان سب حقائق سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پارٹی کے اندر سیاسی، نظریاتی اور تنظیم میں اختلافات سے ہٹ کر اختلافات محض اقتدار سے فیض یابی اور محرومی ہے۔ لیکن ان دونوں دھڑوں میں ایک واضح اور بنیادی فرق موجود ہے کہ جو حزب اختلاف کا دھڑا ہے وہ انتہائی سنجیدہ سیاسی کارکنان کی ایک کھیپ پر مشتمل ہے اور دوسرے دھڑے کی نسبت ایک حد تک پارٹی کے نظریات اور پروگرام کا دفاع کرتے ہیں۔ مگر دوسری جانب جو موقع پرست اور مفاد پرست دھڑا ہے انہیں محض اقتدار کی ہوس کے ساتھ مراعات کی بھی فکر ہے اور مراعات حاصل کرنے کے لیے وہ ہر قسم کی سودا کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ لیکن ایک چیز جو دونوں دھڑوں میں مشترک ہے وہ قیادت کا فقدان ہے۔

شہید عثمان کاکڑ کا واقعہ

مذکورہ بالا بحث جو کہ آج تک چل رہی ہے اس کا معیاری اظہار عثمان کاکڑ، جو کہ سابق سینیٹر اور پارٹی کا صوبائی صدر تھا، کے پُراسرار قتل کے بعد ہوا۔ عثمان کاکڑ کا جنازہ، جو کہ بلوچستان کی تاریخ میں ایک بڑا جنازہ تھا، کے موقع پر پارٹی چیئرمین نے بنوں میں جرگے کے انعقاد کے دوران اپنا آئندہ کا پروگرام دینے کا اعلان کیا تھا۔ بنوں جرگے کے اعلامیے میں یہ واضح ذکر تھا کہ افغانستان میں آباد تمام قومیتوں کی مشترکہ حکومت کو تسلیم اور بزور طاقت کسی بھی قوت کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح افغانستان میں تمام جمہوری اقدار کی پاسداری کا ذکر بھی موجود تھا۔ مگر اگست 2022ء میں افغان کونسلیٹ کا دورہ کرنے کے بعد پارٹی چیئرمین کے بیانات جب آنے لگے تو اس پر اختلافات مزید شدت اختیار کرتے گئے، بالخصوص مختلف اجتماعات میں پارٹی کے رہنماؤں کی تقاریر میں دو واضح اور متضاد بیانیے موجود ہوتے تھے۔ پارٹی چیئرمین کے بیانیے کو پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے اخباری و سوشل میڈیا بیانات کے ذریعے یکسر مسترد کیا گیا۔ پارٹی کے بیانیے سے انحراف کا واضح اظہار شہید عثمان کاکڑ کی پہلی برسی کے بعد کھل کر ہونے لگا اور پارٹی کے درمیان دھڑے بندیوں کا بھی کھل کر اظہار ہوا۔

پارٹی چیئرمین کے مطابق: ”افغانستان میں طالبان نہ صرف ایک قوت ہیں بلکہ اس قوت کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لائیں“، اور دو دسمبر کو ہونے والے اجتماع میں مختلف مذہبی حوالوں کے ذریعے خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کو پاسداری کرنے کی اپیل کی گئی۔ بالآخر پارٹی کے تضادات کے حوالے سے صرف ایک جملہ کہتے ہوئے اپنے فیصلہ جات کی توسیع لی۔ جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ پارٹی کے اندر پھوٹ مکمل شکل اختیار کر چکی ہے اور 27، 28 دسمبر کو پارٹی کے دوسرے دھڑے کی کانگریس ہوگی جس کے بعد پارٹی کے نام، جھنڈے، رجسٹریشن اور دیگر انفراسٹرکچر پر لڑائی کھلے گی۔ جس پر الیکشن کمیشن اور عدالتوں سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے کہ پارٹی کا نام اور دیگر چیزیں کس دھڑے کے پاس چلی جائیں گی۔ اس کا فیصلہ بھی جلد ہوگا۔

قوم پرستی کے نظریات؛ متروکیت اور محدودیت

قوم پرستی کے نظریات سرمایہ داری کے جوبن میں کافی حد تک ترقی پسندی کے حامل تھے۔ سوویت یونین میں سٹالنسٹ زوال پزیری کے دوران بھی قوم پرستی کے فرسودہ نظریات میں بائیں بازو کی سوچ کی آمیزش ہوتی تھی اور اسی بنیاد پرمظلوم قومیتوں کی نہ صرف آپس میں جڑت ہوتی تھی بلکہ ان کا حاکم اقوام کے ترقی پسندوں اور محنت کشوں سے بھی ایک سنجیدہ سیاسی تعلق ہوا کرتا تھا۔

آج کے موجودہ دور میں جہاں قومی جبراور استحصال کئی گنا بڑھ چکا ہے وہاں قوم پرستی کے نظریات حکمران طبقے اور سامراجی طاقتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ ان میں ترقی پسندی کے معمولی سے بھی عنصر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اپنی الٹ میں تبدیل ہو کر تنگ نظر قوم پرستی درحقیقت شاونزم اور نسل پرستی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آج کل تو عالمی سطح پر سرمایہ داری کی زوال پذیری اور بوسیدگی کی وجہ سے نام نہاد عالمگیریت کے داعی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، فاشسٹ رجحانات کا حامل سابق برازیلین صدر بولسینارو، انڈیا کا وزیراعظم نریندر مودی اور سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سمیت دیگر فاشسٹ رجحانات کی حامل سیاسی شخصیات قوم پرستی کی دلدل میں گر چکے ہیں۔ ان چاروں سیاسی شخصیات سمیت اس وقت عالمی سطح پر ایسی کئی نامی گرامی عوام دشمن سیاسی شخصیات ہیں جن کا نعرہ عالمگیریت کے برعکس قوم پرستی بن چکا ہے اور اپنے اس تنگ نظر نسل پرست اور قوم پرستانہ نقطہ نظر کیلئے وہ اپنے ملک سمیت خطے یا دیگر ممالک میں محنت کش طبقے کو تباہی کے دلدل میں گھسیٹ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں پر ایک اہم اور دلچسپ بحث سامنے آتی ہے کہ اگر قوم پرستی کے نظریات بوسیدہ یا زوال پذیر ہوچکے ہیں تو قوم پرستی کے نظریات کی حامل جماعتوں کے اتنے بڑے بڑے عوامی احتجاجات یا جلسے کیونکر ہوتے ہیں؟ اس سوال کے دو اہم جوابات ہیں، پہلے تو عام لوگ ریاست کے ہر قسم کے جبر سے نفرت اور اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے ایسے عوامی اجتماعات میں شرکت کرکے اپنا غم و غصہ نکالنے کی کوشش میں مگن ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب انقلابی متبادل کی عدم موجودگی کے باعث قومی جبر کے خلاف فطری جذبات کی بنیاد پر بعض اہم ایشوز پر انہیں عوامی حمایت مل جاتی ہے مگر نظریات کی بوسیدگی اور غیر واضح لائحہ عمل سے وہ بڑی بڑی تحریکوں کو زائل کر دیتے ہیں۔ جس کی واضح مثال پشتون تحفظ موومنٹ ہے۔ گوکہ پشتون تحفظ موومنٹ نے ریاستی جبر کے خلاف کھل اس وقت کر آواز اٹھائی جب پاکستان میں ریاستی دہشت گردی اور اس کے پروردہ ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنا تو درکنار سوچنا بھی ایک جرم سمجھا جاتا تھا۔ مگر عوامی طاقت کے بلبوتے پر ریاستی اداروں کی جانب سے قائم کردہ خوف اور ڈر کی فضا کو توڑنے، ریاستی جبر کو ننگا کرنے اور لوگوں کی وسیع پرتوں تک ریاستی جرائم کا پردہ فاش کرنے میں ایک معیاری اورجرات مند آواز کا کردار ادا کیا۔ مگر پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت پر تنقید کرنا کیوں ضروری ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت پر تنقید کرنے سے ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم پی ٹی ایم کے مطالبات کی حمایت اور ریاستی جبر کی مذمت سے کبھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ بلکہ تنقید کا مطلب ان کی غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ عوامی تحریکوں کا گلا گھونٹنے کی نشاندہی کرنا ہے۔ پی ٹی ایم کی قیادت نے شروع دن سے جس طرح مصالحانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی، سب سے پہلے تو یہ ان کی نظریاتی محدودیت ہی ہے، دوسری جانب اس مصالحانہ کردار سے ان تمام تر ریاستی جرائم کا دوبارہ آغاز ہونے لگا جو کہ پی ٹی ایم کے اُبھار کے وقت ایک حد تک ختم ہو چکے تھے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے پاس نظریاتی اور سیاسی لائحہ عمل کی محدودیت نے تحریک کو طاقتور کرنے کی بجائے کمزور کیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سٹیج کو موقع پرست پشتون قوم پرستوں نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہوئے یہ جرم کیا کہ اُنہوں نے اپنی سیاست کو بچانے کے لیے پی ٹی ایم کو وسعت دینے کی بجائے محدود کردیا۔ آج بھی پشتون قوم پرست اپنی موقع پرستی کے لئے پی ٹی ایم کی مخالفت اور حمایت کر رہے ہیں جس سے پی ٹی ایم کو کافی زیادہ نقصان پہنچا۔ حالانکہ خیبرپختونخوا میں حالیہ مختلف ریاستی دہشت گردی مخالف اجتماعات میں ان قوم پرستوں کو عوام نے مسترد کیا لیکن پی ٹی ایم کی قیادت ان کوعوام پر مسلط کر رہی ہے جو کہ پی ٹی ایم کی قیادت کی نظریاتی کمزوری اور محدودیت ہے۔

آخری اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ ہر جگہ پر بڑے بڑے عوامی اجتماعات منعقد کر رہی ہے، گوکہ یہ جدوجہد ریاستی پالیسیوں سے نفرت اور مزاحمت کی علامت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان احتجاجوں اور مظاہروں کی حتمی منزل کیا ہے۔ یہی سوال آج پاکستان میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے سامنے بھی موجود ہے جن کے پاس معاشی و سیاسی بحران کا کوئی حل موجود نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ درست نظریہ اور سیاسی لائحہ عمل ہی وہ اوزار ہے جو کہ کسی بھی تحریک کو اپنے حتمی منزل تک پہنچا سکتا ہے جس کا اس وقت قوم پرستی کے نظریات کے اندر کوئی وجود نہیں ہے۔

انقلابی مارکسزم

لینن جہاں قومی جبر اور استحصال کی شدید مذمت کرتا تھا وہاں پر قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو پرولتاری بین االاقوامیت کے نظریات اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جاری محنت کش طبقے کی جدوجہدوں کے تابع کرنے کی حمایت کرتا تھا۔

مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ قومی جبر اور استحصال کا خاتمہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر اکھاڑ بھینکے گا۔ اکثر و بیشتر اوقات یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مارکس وادی ہمیشہ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسئلہ کو سرمایہ داری کا پیداکردہ سمجھتے ہوئے انہیں سرمایہ داری کے گرانے سے ہی منسلک کرتے ہیں۔ جس سے وہ کسی بھی ریاست یا بالخصوص پاکستان میں ہونے والے قومی جبر اور سول و فوجی اشرافیہ کے مظالم کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے مکمل برعکس ہیں۔ مارکس وادیوں نے ہمیشہ ہر جبر کی نہ صرف مذمت کی ہے، بلکہ جبر کے خلاف کسی بھی جدوجہد میں اپنی بساط سے زیادہ عملی حصہ لیا ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے تک جبر، ظلم، بربریت اور استحصال کے خلاف ہر جدوجہد میں شامل رہیں گے۔

مگر ہم چند سادہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔ کیا سرمایہ داری کے خاتمے کے بغیر مختلف ممالک میں منقسم بلوچ، پشتون، کُرد اور دیگر مظلوم اقوام کو یکجا کیا جا سکتا ہے؟ قومی جبر کا ایک اہم عنصر سامراجی ممالک کی جانب سے مظلوم اقوام کے وسائل کی بے دردی سے جاری لوٹ مار ہے اور یہ بے دریغ لوٹ ماران کی طاقت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اگر سرمایہ داری کا خاتمہ ہو جائے اور سرمایہ داری نہ رہے تو وسائل کی لوٹ مار کون اور کیونکر کرے گا؟ جب ذاتی ملکیت ہی نہ رہے تو جرنیلوں، کرنلوں، ججوں اور سول اشرافیہ کو لوٹ مار کرنے کی ضرورت کیوں پڑے گی؟ کیا کوئی بھی انقلابی تحریک بغیر کسی انقلابی نظریات کے انقلابی ہو سکتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے کسی بھی باشعور سیاسی کارکن کو تمام تر زمینی حقائق کی روشنی میں جرات کرنی ہوگی اور جب تک ان سوالات کے جوابات وہ نہیں ڈھونڈ لیتا، تب تک وہ نہ صرف اندھی تقلید کا پیروکار ہوگا، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ محض اپنی توانائی کو ضائع کرنے اور موقع پرستی کے عزائم سے بھرپور قوم پرست قیادت کا آلہ کار ہی بنے گا۔

لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ مارکسزم پر تنقید کرنے سے پہلے ان کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ بالخصوص سرمایہ دارانہ نظام کے موجودہ بحران سمیت عالمی طور پر جبر اور استحصال کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم پرستی کے خمار میں مخمور نوجوانوں کو یہ ادراک حاصل ہوجائے کہ قومی سوال کا حل کیونکر اس نظام کے گرانے کے ساتھ منسلک ہے۔ اس ضمن میں تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے صرف چند مثالوں پر اکتفا کرنا ہوگا۔ کُرد اور آئرش قومی سوال چند ایسی تازہ مثالیں ہیں جن سے ہم سرمایہ دارانہ نظام کی محدودیت کو سمجھنے کے بعد فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مارکسزم کا قومی سوال پر مؤقف بالآخر کیوں درست اور سچا ہے۔ مختصر یہ کہ قومی سوال کا حل تاریخی طور پر دو ہی طریقوں سے ہوا ہے، اول تو سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز میں جب یہ نظام ترقی پسندانہ کردار رکھتا تھا تب یورپ اور امریکہ سمیت چند ممالک میں اس نے قومی سوال کوکسی حد تک حل کیا تھا جبکہ دوسرا 1917ء کے بالشویک انقلاب میں جو کہ آج کے عہد کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اب سرمایہ داری کے اندر اتنی سکت نہیں رہی جس کے ذریعے وہ جمہوری سوالات کو حل کرسکے بلکہ الٹا اس وقت سرمایہ دارانہ نظام جمہوری حقوق سمیت بنیادی انسانی حقوق چھیننے پر تلا ہوا ہے جس کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔

مارکسزم کے نظریات آج کے دور کے جدید اور سائنسی نظریات ہیں جن سے نہ صرف ہم سماج کی تشریح کر سکتے ہیں بلکہ سماجی تضادات کو سمجھتے ہوئے انہیں حل کرنے اور ایک متبادل سماج تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے بھی ہیں۔ ہم اُن تمام سیاسی کارکنوں، طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں جوکہ ظلم، جبر، استحصال اور بربریت کے ہر نشان کو مٹانا چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اور مارکسزم کا علَم اٹھائیں تاکہ ظلم، جبر اور استحصال سے پاک معاشرے کی تعمیر کو جلد ممکن بنایا جا سکے۔

موجودہ حالات اور پی کے میپ

پی کے میپ جس عہد میں بنی تھی وہ عہد بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا عہد تھا۔ تب ایک طرف سوویت یونین کا انہدام ہوا تھا جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج ایک بدمعاش اور غنڈے کی طرح ایک قوت بن گیا تھا۔ اس کے اثرات عالمی سطح پر تمام سیاسی رجحانات یعنی طلبہ سیاست، مزدور سیاست اور بالعموم سماجی حالات پر پڑے۔ سیاست کو نظریات سے الگ کر کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور سرمائے کی بھرمار نے عام سیاسی کارکنوں کو اپنی ہی پارٹیوں سے بدظن کرتے ہوئے مایوسی کے دلدل میں پھینک دیا۔ یہ سلسلہ کم و بیش 2001ء تک جاری رہا اور پھر امریکی سامراج نے ایک بار پھر افغانستان، عراق، مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے فوجی مداخلت یا دیگر طریقہ کار اپنانے میں پھرتی دکھائی۔ لیکن امریکی سامراج کی کھوکھ سے 2008ء میں شروع ہونے والے سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور دیوالیہ پن نے عالمی سطح پر ہر حوالے سے ایک نئی شفٹ دی اور اب امریکی سامراج شدید کمزوری اور زوال پذیری کا شکار ہے۔ 2011ء میں عرب بہار اور اس کے بعد سے لے کر اب تک عالمی سطح پر دیگر ممالک میں احتجاجی اور انقلابی تحریکیں چلیں۔ پاکستان میں بھی سطح پر خاموشی کے باوجود چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے نئے عہد کے آغاز کے واضح آثار عیاں ہونے لگے۔ اس دوران پورے ملک میں مزدوروں کے بڑے برے اجتماعات اور ہڑتالیں دیکھنے میں آئیں، بالخصوس بلوچستان کے مختلف اداروں اور صنعتوں کے مزدوروں نے بہت شاندار جدوجہدیں کیں اور کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی یا گروپ نے مزدور تحریک کا ساتھ دیا اور نہ ہی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی۔ اس دوران ریاستی جبر کے خلاف مظلوم قومیتوں کی جانب سے بھی بہت بڑی عوامی تحریکیں ابھریں لیکن حادثاتی قیادتیں انہیں بھی قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کی جانب لے جانے کی کوشش کرنے لگیں۔ اس تمام عمل میں مزدوروں اور مظلوم قومیتوں کے جبر کا شکار عوام نے تمام پرانی قیادتوں اور عوام دشمن نظریات کو رد کر دیا ہے اور وہ ایسے انقلابی نظریات اور قیادت کی تلاش کر رہے ہیں جو انہیں سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور قومی جبر سے چھٹکارا دلا سکے۔

ایسے میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دونوں دھڑوں کے پاس وہ کونسی جادو کی چھڑی ہے کہ جس کے ذریعے وہ خود کو پشتون قوم کی نمائندہ جماعت ثابت کر پائے گی۔ ایک طرف ان کا نظریہ بوسیدگی کا شکار ہوکر متروک ہو چکا ہے جبکہ دوسری جانب ان کے نظریے سے انہوں نے خود وقتافوقتا انحراف کیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان رائج الوقت سیاسی رجحانات کے پاس عوام کو درپیش مسائل کے لئے کوئی منظم پروگرام اور لائحہ عمل نہیں۔

یقینا اس وقت قومی جبر اور استحصال کے خلاف مختلف سیاسی رجحانات اور مزدور تنظیموں کی جدوجہدیں موجود ہیں مگر زیادہ تر اس جبر اور استحصال کو عالمی نظام سے کاٹ کر دیکھتے ہیں جوکہ بنیادی مسئلہ ہے۔ قومی جبر یا سامراجی عزائم کے شکار عوام کو ان کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور عوامی حمایت کو محض یہ نام د یا جاتا ہے کہ ہم الیکشن میں زیادہ سیٹیں جیتیں۔ اگر اس پیمانے کو ہم سیاسی پارٹی کی عوامی حمایت کا پیمانہ بناتے ہیں تو اس وقت بلوچستان کی سطح پر باپ پارٹی بڑی عوامی پارٹی ہے۔ لہٰذا اس وقت ہر طرف حقیقی عوامی سیاست کا خلا موجود ہے مگر اس سیاسی خلا کو کس طرح پُر کرنا ہے اس کا فیصلہ ایک درست اور سائنسی نظریے اور پروگرام پر منحصر ہے۔ مسائل کی جڑ بلاواسطہ نظام زر ہی ہے جب تک یہ نظام زر رہے گا تب تک ظلم و جبر اور استحصال کی فضا برقرار رہے گی۔ اس ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف سیاسی طور پر درست جدوجہد کے ساتھ ساتھ مفاد پرستی کے خلاف بھی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک انقلابی متبادل نہ صرف ان مفاد پرست ٹولوں کا مکمل صفایا کرے گا بلکہ اس نظامِ زر سے بھی نجات دلائے گاجو کہ دنیا کے تمام محنت کشوں کے خون اور پسینے پر پل رہا ہے۔

Comments are closed.