”اپٹا“ کا قیام؛ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی جدوجہد کا آغاز اور آگے کا لائحہ عمل

|تحریر:خالد مندوخیل|

پاکستان میں کرونا وبا اور معاشی بحران کی وجہ سے ملک بھر کے دیگر شعبوں کے مزدوروں کی طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی سخت متاثر ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعداد کو پچھلے تین مہینوں سے اور کچھ کو چار مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی ہیں جبکہ کثیر تعداد کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ اس وقت ان اساتذہ کی اکثریت اپنے بچوں اور خاندانوں سمیت گھروں میں فاقوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اس دوران حکومت جہاں ایک طرف ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو کھربوں روپے کے ریلیف پیکیجز سے نواز چکی ہے وہاں دوسری طرف محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں لوگوں کو جھوٹی میڈیا کیمپئین کے ذریعے دھوکا دیا جا رہا ہے جس کا واضح ثبوت نام نہاد ”احساس” پروگرام ہے جس کا بنیادی مقصد عوام کی امداد کی بجائے حکمرانوں کی تشہیر کرنا ہے۔

اس صورتحال میں پچھلے دو مہینوں سے سے مسلسل مزدوروں، کسانوں، اساتذہ اور طلبہ میں بے چینی اور غم و غصہ بڑھ رہا ہے اوردرجنوں کے قریب بڑے احتجاج مختلف سیکٹرز میں ہو چکے ہیں جہاں مزدور اپنی تنخواہوں اور الاؤنسز وغیرہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان حالات میں پرائیویٹ اساتذہ بھی اپنے حق کے لیے احتجاج کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور انہوں نے ملک بھر میں اپنی نمائندہ ایک پرائیویٹ ٹیچرز کا ایسوسی ایشن بنانے کا قدم اٹھایا ہے جس کے ذریعے اب مزید اساتذہ تک رسائی کرنے کی کوشش جاری ہے اور ساتھ ہی اس پلیٹ فارم کے ذریعے کئی شہروں میں احتجاج بھی ریکارڈ کرائے جا چکے ہیں۔

پاکستان بھر میں موجود مزدور نمائندہ تنظیم ’ریڈ ورکرز فرنٹ‘ کے کارکن، پرائیویٹ ٹیچرز اور ”آل پرائیویٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن“ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس جدوجہد کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ ”اپٹا” کے تمام مطالبات کی بھر پور حمایت کرتا ہے لیکن اپنی طرف سے اس بات کی اہمیت پر زور دیتا ہے کہ جدوجہد کے آغاز سے ہی مندرجہ ذیل بہت بنیادی نقطوں کو سمجھنا اور ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔

حکومتی لاک ڈاؤن اور سکولوں کی بندش

اس وقت کرونا وبا ملک بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے پیش نظر حکومت نے جون میں بھی تعلیمی ادارے نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے تو حکومت خود بھی اس فیصلے کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہے، ایک حکومتی دھڑا بیرونی دنیا کو دکھانے کی خاطر لاک ڈاؤن قائم رکھنے کا تاثر دینا چاہتا ہے جبکہ دوسرا دھڑا بڑے کاروبار وں اور بڑی بڑی صنعتوں اور کارخانوں کے مالکان کی نمائندگی کر رہا ہے جو کاروبار اور منافعوں کے راستے میں کسی رکاوٹ کو بالکل بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں چاہے لوگوں کی جان خطرے میں کیوں نہ پڑ جائے۔ یہ بڑے بڑے سرمایہ دار، مل مالکان، صنعتوں اور کارخانوں کے مالک مزدوروں کی تنخواہیں دینے سے بھی انکاری ہیں اور حکومت کو بھی معیشت کی بربادی کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت مزدوروں کو تنخواہیں دلوانے کے لئے ان سرمایہ داروں کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہیں کر رہی بلکہ انہی سرمایہ داروں کو کھربوں روپے کا معاشی ریلیف دے چکی ہے۔

پرائیویٹ اسکول مالکان بھی اساتذہ کی تنخواہیں دینے کی بجائے تعلیمی ادارے کھولنے کے مطالبے پر بضد ہیں۔ اساتذہ ان سے تنخواہیں مانگ رہے ہیں لیکن وہ اساتذہ کی کثیر تعداد کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تا کہ تعلیمی ادارے کھلوا سکیں۔ نجی سکول مالکان سکولوں میں ایس۔او۔پیز(SOPs) کی تیاری کے ڈھکوسلے چھوڑ رہے ہیں لیکن درحقیقت اکثر نجی سکولوں میں بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر بٹھایا جاتا ہے۔ اب ان حالات میں انہیں 4 یا 5 فٹ کے فاصلے پر بھی بٹھایا جائے تو بھی پانچ شفٹوں میں بھی ایک دن میں سب کو نہیں پڑھایا جا سکتا۔ اس لیے اساتذہ کو واضح موقف اختیار کرنا ہوگا کہ ان کا پہلا مطالبہ اپنی تنخواہوں کی ادائیگی ہے اور دوسرا مطالبہ حکومت سے پرائیویٹ اساتذہ کے لیے ریلیف پیکج کا حصول ہے۔اس کے علاوہ حکومت نجی مالکان کو نوٹس جاری کرے کہ جن مالکان نے اساتذہ کی تنخواہیں نہیں دی ہیں یا انہیں نوکری سے برطرف کیا ہے ان کے نجی تعلیمی ادارے ضبط کرکے سرکاری تحویل میں لے لیے جائیں گے۔

تنظیم سازی

پاکستان میں اول تو محنت کشوں کی مضبوط ٹریڈ یونینز موجود نہیں ہیں مگر جہاں ہیں بھی وہاں سالوں سے اس پر مزدوروں کا خون چوسنے اور ان کے خون پسینے کا سودا کرنے والی نام نہاد مزدور قیادتیں براجمان ہوتی ہیں جو روز روز مزدوروں کے حقوق کا سودا کرنے میں لمحہ بھر کیلئے بھی نہیں ہچکچاتے۔ لیکن پرائیویٹ اساتذہ تو محنت کش طبقہ کا وہ حصہ ہیں جن کی اب تک سرے سے کوئی یونین موجود ہی نہیں تھی۔

جب کبھی یونین بنانے کی کوشش کی گئی تو مالکان نے نوکری سے برطرف کرنے، تنخواہ بند کرنے اور دیگر اس طرح کے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے کر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔
مگر وہ نسبتاً عام حالات تھے جہاں واقعی اساتذہ کو تنخواہ نہ ملنے یا نوکری سے برطرف کئے جانے کا خوف ضرور ہوتا تھا لیکن آج تو وہ کسی قسم کی آواز اٹھائے بغیر بھی نوکریوں اور تنخواہوں سے محروم کیے جارہے ہیں اس لیے اب آواز اٹھانے اور نہ اٹھانے کی سزا جب برابر ہے تو پھر آواز اٹھانا ہی بہتر قدم بن جاتا ہے اور اسی کا اظہار ہم ”اپٹا“ نامی تنظیم کے قیام کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ابھی تنظیم کاری کا آغاز ہے اس کو ملک بھر کے اساتذہ تک پہنچانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے اور ہر ضلع اور ہر صوبے میں مضبوط تنظیمی ڈھانچے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں تنظیم کو اپنے طبقے کے مطالبات اور پروگرام پر انتہائی واضع ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنے مطالبات کو نجی مالکان اور سرمایہ داروں کے مطالبات کے ساتھ خلط ملط کرنے کی غلطی زبردست ناکامی کا باعث بنے گی۔ اس لئے تمام گروپس میں، ہر ریجن میں، ہر میٹنگ میں، ہر محلے اور ہر ضلع میں روبہ تخلیق تنظیمی ڈھانچوں کے اندر اپنے مطالبات اور لائحہ عمل پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ایک واضح اور مکمل پروگرام کو سامنے لاکر تمام ممبران تک تحریری شکل میں پہنچانا ضروری ہے۔

مطالبات

یاد رہے کہ موجودہ بحران میں اساتذہ کو اس بات کا احساس ضرور ہوا ہے کہ ان کا ایک نمائندہ پلیٹ فارم ہونا چاہیے اور بحران انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ لیکن اس یونین کو مستقل طور پر قائم رکھنے اور مضبوط بنانے کے لئے مندرجہ ذیل مطالبات پر مبنی ایک درست پروگرام کا ہونا ضروری ہے۔

1۔ پرائیویٹ سکول مالکان اساتذہ کی تمام تر بقایا تنخواہیں فی الفور ادا کریں۔

2۔ لاک ڈاؤن کے دوران برطرف کیے گئے اساتذہ کو فی الفور بحال کیا جائے اور مالکان کے خلاف بغیر نوٹس اور تنخواہوں کی ادائیگی کے اساتذہ کو فارغ کرنے پر کاروائی کی جائے جس میں بطور سزا نجی ادارے کی ضبطی بھی شامل ہو۔

3۔ حکومت مالکان کو اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم جاری کرے اور اس سلسلے میں حکومت پرائیوٹ اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں کے لئے ایک تعلیمی پیکج کا اعلان بھی کرے۔

4۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے عرصے میں والدین سے فیس بٹورنے پر پابندی لگائی جائے اور ہم والدین سے پرائیویٹ اساتذہ کی جدوجہد کی حمایت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔

5۔ پرائیویٹ ٹیچرز کو بھی ایک صنعتی مزدور کا درجہ دیا جائے اور یونین سازی کے حق کے ساتھ ساتھ تمام جمہوری وسیاسی حقوق دیئے جائیں۔

6۔ پرائیویٹ اساتذہ کو سال میں کم از کم ایک سے ڈیڑھ مہینہ تنخواہ سمیت چھٹیاں دی جائیں۔

7۔ تمام نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تذلیل اور خواتین ٹیچرز کا استحصال اور جنسی ہراسمنٹ کا خاتمہ کیا جائے۔

8۔ تمام پرائیویٹ اساتذہ کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے۔

9۔ حکومت تعلیمی بجٹ میں کم از کم دس گنا اضافہ کرے اور زیادہ سے زیادہ سرکاری تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ اساتذہ کو وہاں اپنی خدمات سرانجام دینے کا موقع مل سکے۔

10۔ ملک بھر کے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر نیشنلائز کیا جائے تاکہ والدین اور اساتذہ کو نجی مالکان کی لوٹ مار اور استحصال سے نجات مل سکے۔

11۔ ہر سطح پر پر مفت اور معیاری تعلیم دی جائے اور نوجوانوں کو یا تو روزگار دیا جائے یا پھر بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔

12۔ پاکستان میں مزدور وں، کسانوں، طلبہ، اساتذہ اور نوجوانوں کی جڑت اور طبقاتی اتحاد قائم کیا جائے تا کہ اپنی جدوجہد کو مشترکہ بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکے۔

مندرجہ بالا مطالبات کو لیکر جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے،مزید برآں اس میں مزید مطالبات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ وقت ہے اپنے حق کیلئے پرعزم ہوکر ایک انقلابی جدوجہد کرنے اور اپنی نسل اور اپنے طبقے کے بہتر مستقبل لئے متحرک ہونے کا۔

Comments are closed.