لاہور: ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام اجرتوں میں 100 فیصد اضافے کیلئے احتجاج

 |رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

آئی ایم ایف کی ایماء پر حالیہ دنوں میں حکومت کی طرف سے پٹرول کی قیمتوں میں 60 روپے اور بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 8 رو پے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 10 جون کو 2022-23ء کا مزدور دشمن بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ اس بجٹ کے پیش ہونے سے پہلے ہی حکومت نے عوام پر مہنگائی کے بم گرا دئیے ہیں لیکن تنخواہوں میں اضافے کیلئے کوئی بھی اقدام نہیں کیے گئے جس کے خلاف 4 جون کو شام 5 بجے لاہور پریس کلب پہ مزدوروں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیرِ اہتمام اجرتوں میں 100 فیصد اضافے کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے میں واپڈا اور ریلوے سمیت مختلف اداروں کے محنت کشوں اور تعلیمی اداروں کے طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔ مظاہرین نے مہنگائی کی مذمت کرتے ہوئے شدید نعرہ بازی کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہر پارٹی امریکہ اور آئی ایم ایف کی غلام ہے اور ان کی پالیسیاں مسلط کرتی ہے۔ سامراجی قرضوں کا سارا بوجھ محنت کش عوام پہ ڈالا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام تر قرضے حکمران طبقے کی عیاشیوں پہ خرچ کیے گئے ہیں تو ان کی واپسی بھی انہیں کی جیبوں سے ہونی چاہیے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر آفتاب اشرف بھی اس احتجاج میں موجود تھے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس قدر مہنگائی بڑھ چکی ہے اس حساب سے ہم اگر تنخواہیں ڈبل کرنے کا کہہ رہے ہیں تو اس تناسب سے یہ مطالبہ بھی بہت کم مطالبہ ہے، مہنگائی کے حساب سے تو ہمیں ایک تولہ سونے کے برابر تنخواہوں کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر تنخواہیں دو گنا بھی بڑھ جائیں تو مزدور کی زندگی آسان نہیں ہو جائے گی، بہر حال کچھ نا کچھ وقتی فائدہ ضرور ملے گا۔ یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو ریل کا پہیہ چلاتا ہے، بجلی پیدا کرتا ہے، سڑکیں، ملوں میں کپڑے، یہاں تک کہ سماج میں جو کچھ بھی پیداوار ہورہی وہ مزدور کی محنت سے ہی پیدا ہورہی ہے اور ظلم یہ ہے کہ جو طبقہ یہ سماج چلا رہا وہی بھوک، لاعلاجی اور زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں کے سرمایہ دار، جج، بیوروکریٹ، جرنیل اور حکمران کچھ نہیں کرتے اور عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن جہاں بات محنت کش کی تنخواہوں میں اضافے پر آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں، اور ملک کی معیشت خسارے میں ہے۔ لیکن ہر سال 27 سو ارب روپے معاشی مراعات کی صورت میں اس ملک کے سرمایہ داروں کو دئیے جاتے ہیں اور ہر سال 500 ارب روپے بجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیوں کو دیا جاتا ہے لیکن یہاں کے محنت کشوں کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے محنت کش اب اس ظلم کے خلاف ملک گیر جدوجہد کا آغاز کریں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے اپنے اپ کو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے لیس کریں۔ آخر میں تمام محنت کشوں کو ریڈ ورکرز فرنٹ کا حصہ بننے کی دعوت دی۔

اس احتجاج میں ریلوے کے مزدوروں نے بھی شرکت کی۔ ایک ریلوے مزدور عدنان نے بتایا کہ کس طرح وہ عملہ نہ ہونے کی صورت میں ڈبل ڈبل کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اس سب کے باوجود تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا اور تنخواہ بھی مہینے کے آخر تک ملتی ہے۔ اس گرمی کے موسم میں بھی ان کے پاس پینے کیلئے صاف پانی تک مہیا نہیں جبکہ ریلوے کی نجکاری کے باعث ریلوے مزدوروں کو جبری طور پر نوکریوں سے نکالا بھی جا رہا ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ہمارے لیے تو پٹرول کی قیمت بڑھ چکی ہے لیکن امیروں کو 300 سو لیٹر مفت دیا جاتا ہے۔

واپڈا سے آئے ملازمین کا کہنا تھا کہ نجکاری کے اس مسئلے سے واپڈا کے ملازمین پر بھی سختیاں حد سے بڑھ گئی ہیں اور پارٹ ٹائم جاب کرنے والے واپڈا کے مالی اور سوئیپر کے عملے کو کئی سال ڈیوٹی کرنے بعد بھی مستقل نہیں کیا جا رہا اور ان کے سر پر روزگار چھن جانے کی تلوار مستقل لٹک رہی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کے رہنما مقصود ہمدانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی غلام حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 60 روپے اضافہ کیا ہے اور اس کے ساتھ بجلی کی قیمت میں 8روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ آنے والے وقت میں گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا لیکن جج، بیوروکریٹ، سرمایہ داروں اور جرنیلوں کو دیا جانا والا مفت پٹرول ختم نہیں کیا جاتا اور سارے ٹیکس صرف محنت کش طبقے پر ہی لگائے جاتے ہیں جبکہ سرمایہ داروں پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جاتا بلکہ اس کے الٹ ان کو بجلی اور پٹرول جیسی دوسری مراعات مفت دی جاتی ہیں۔ مزدور جو اپنا خون پسینہ بہا کر ملک چلا رہا ہے اس پر مہنگائی کے بم گرائے جا رہے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کے غلام حکمران عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ بھی ان کی عیاشیوں پر لگتا ہے۔ تو ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ قرضہ یہاں کے مزدور طبقے نے نہ لیا ہے اور نہ ہی ان کے اوپر یہ رقم خرچ ہوئی ہے۔ لہٰذا اس کی واپسی بھی ان کی جیبوں سے ہو اور مہنگائی اور قرضے کا سارا بوجھ ان پر ڈالا جائے۔

ترقی پسند طلبہ اور نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان بھی اس احتجا ج میں شریک تھے۔ پی وائی اے لاہور کے کارکن باسط کا کہنا تھا کہ چند روز پہلے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 50 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے جو اس بجٹ میں منظور کر لیا جائے گا۔ اس میں یونیورسٹیوں کے بجٹ کو 60 ارب سے کم کر کے 30 ارب کر دیا جائے گا۔ جبکہ یونیورسٹیوں کی جانب سے 120 ارب کی سمری بھیجی گئی تھی اور اس طرح یہ مہنگائی کے تناسب سے 80 فیصد کی کٹوتی ہے۔ اس طرح تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے بجٹ میں اضافہ کرنے کی بجائے اس میں کٹوتی کی جا رہی ہے جس سے محنت کشوں کے بچوں کو تعلیم سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اب تعلیم بھی صرف یہاں کے سرمایہ داروں اور جرنیلوں اور حکمران طبقے کے دیگر حصوں کے بچوں تک محدود کی جارہی ہے۔ جس پر پروگریسو یوتھ الائنس نے ملک بھر میں اس کے خلاف کمپئین کا اعلان بھی کیا ہے۔ آخر میں انہوں نے طلبہ کو اس جدوجہد میں شریک ہونے کی دعوت دی۔

ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حکمران ملک کی معاشی بدحالی کا بہانہ بنا کر محنت کشوں پہ حملے کر رہے ہیں۔ اگر ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے تو سرمایہ داروں کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیوں وغیرہ کو ختم کرکے، دفاعی بجٹ میں کٹوتیاں کرکے، ججوں، بیوروکریٹوں اور جرنیلوں کی تجوریوں سے پیسہ نکال کراس بحران پہ قابو پایا جائے۔ لیکن یہ مزدور دشمن حکمران مہنگائی کے بم گرا کر بحران کا ملبہ عوام پر ڈال رہے ہیں۔ اس لیے ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ ملک بھر کے تمام محنت کشوں و ملازمین کی تنخواہوں میں فوری طور پر 100 فیصد اضافہ کیا جائے۔

یہ احتجاج 100 فیصد تنخواہوں میں اضافے کے لیے ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے کیے جانے والے ملک گیر احتجاجوں کے سلسلے کا حصہ تھا۔ شرکاء نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی اس کوشش کو بہت سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے پاکستان میں یونین قیادتوں سمیت کوئی بھی محنت کشوں کی بات نہیں کر رہا ہے۔ ایسے وقت میں ریڈ ورکرز فرنٹ کا یہ احتجاج قابلِ تحسین ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آخری احتجاج نہیں ہے۔ محنت کشوں کے تمام مسائل کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی۔

Comments are closed.