کوئٹہ: خود مختاری کے نام پر نجکاری‘ بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ملازمین اور طلبہ سراپا احتجاج

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے آرگنائزر کریم پرہر احتجاجی کیمپ میں خطاب کرتے ہوئے

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے انتظامیہ کے ناروا رویے کیخلاف ایپکا،لیبر یونین اور طلبہ کا احتجاجی کیمپ کوئٹہ کی یخ بستہ ہواؤں اور شدید سردی کے باوجود یونیورسٹی کے باہر جاری ہے، جس میں یونیورسٹی سے منسلک مزدور، کلریکل سٹاف، طلبہ، ڈاکٹرز اور دیگر افراد روزانہ کی بنیاد پر شرکت کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس احتجاجی کیمپ کا دوسرا ہفتہ ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے نمائندہ وفد نے بھی احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور احتجاجی محنت کشوں اور طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

احتجاجی کیمپ کا مقصد ”بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز ترمیمی بل 2019ء“ کے منظور ہونے کے بعد تعلیمی ادارے میں 13سو کے قریب ملازمین اور ڈاکٹرز کے مستقبل کے غیر یقینی جبکہ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے غریب عوام پر طبی تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف اقدامات ہیں۔ اس ترمیمی بل 2019ء کا مسودہ ”بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز ایکٹ 2017ء“ کے مختلف سیکشنز میں تبدیلی کرکے سامنے لایا گیا ہے، اس ترمیمی بل کے چیدہ چیدہ نکات میں حالیہ نو تعمیر شدہ ”لورالائی میڈیکل کالج، خضدار میڈیکل کالج، تربت میڈیکل کالج“ کو مکمل حیثیت سے بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز میں انضمام کر کے مذکورہ بالا ادارے کا حصہ شمار کیا جائیگا۔ جبکہ یونیورسٹی کو آج تک کسی نئی آسامی، انفراسٹرکچر،یا دیگر تکنیکی آلات خریدنے کے بجائے صرف برائے نام یونیورسٹی کا نام دیا گیا۔

اس پورے ایکٹ میں یونیورسٹی میں کام کرنے والے ملازمین بشمولِ ڈاکٹرز کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی ان کی سروسز، پنشن، اور روزگار کے تحفظ کا ضمانت کے حوالے سے کوئی وضاحت موجود ہے۔ اسی وجہ سے بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز کے ملازمین اپنے روزگار کے غیر یقینی ہونے کی وجہ سے برسرِ احتجاج ہیں۔ جبکہ بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نجکاری کی طرف لے جایا جارہا ہے جس کی مثال یونیورسٹی کے فیسوں میں حالیہ اضافہ جبکہ بورڈ آف گورنرز اور آٹونومس باڈی کے قیام کا ممکنہ منصوبہ نجکاری کے عمل کو مزید تقویت دیتی ہے۔

ریڈورکرزفرنٹ بلوچستان کے آرگنائزر کریم پرہر نے احتجاجی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورے ملک میں تعلیم و صحت کے ادارے آئی ایم ایف کے قرضے کی بدولت نجکاری کا سامنا کررہے ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب اور پشتونخواہ میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے احتجاجی تحریک کیوجہ سے دونوں صوبوں میں صحت کے اداروں کو نام نہاد ایم ٹی آئی ایکٹ کی منظوری کو روک دیا گیا۔ مگر اس وقت پورے ملک میں اگر کوئی طبقہ آئی ایم ایف سے زیادہ متاثر ہورہا ہے تو وہ محنت کش طبقہ ہے۔ اس لیے ہم بارہا یہ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں محنت کش طبقے کو اتحاد اور اتفاق کرنا ہوگا، جس کے لیے ہم نے بلوچستان سمیت ملک بھر میں محنت کش طبقے کی اپنے طاقت کے اظہار کے لیے ملک گیر عام ہڑتال کا نعرہ دیا تھا، جس کو عملی بنانے کے لیے محنت کش طبقے کو متحد ہونا ہوگا۔کریم پرہر نے بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز کے ملازمین، جن میں ڈاکٹرز، نرسز، کلیریکل سٹاف اور دیگر محنت کشوں کو حمایت کا مکمل یقین دلایا۔

Comments are closed.