|تحریر: انعم خان|
14 اگست 2021ء کو لاہور میں مینار پاکستان پر نام نہاد آزادی کے مصنوعی جشن کے موقع پر ایک خاتون کی سینکڑوں لوگوں کے ہاتھوں ہراسانی اور بے حرمتی کے اذیت ناک سانحے نے ایک بار پھر”مملکت خداداد“ کے اکثر انسانوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ کیا ہم واقعی انسانی معاشرے میں رہتے ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ ہی متاثرہ کو موردِ الزام ٹھہرانے کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے جس میں جنسی بربریت کا شکار ہونے والی خاتون کی وہاں موجودگی اور اس کے اسباب کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں بھیڑیا صفت حکمران خود مظلوم کو حادثے کا ذمہ دار گردانتے ہوں وہاں کے لوگوں میں ایسے خیالات کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ درحقیقت پاکستان میں ایسی غلیظ سوچ حکمران طبقے کی جانب سے اپنی حکمرانی قائم رکھنے کیلئے باقائدہ پھیلائی گئی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی، نظریاتی اور انتظامی ”قائدین“ کی سوچ کی یہ پستی دراصل ان کے ناکام ہو چکے نظام کی بربادیوں اور تباہ کاریوں کا معذرت خواہانہ اقرار ہے۔ ان کے نظام کے ایک طرف تو نام نہاد مذہبی اور دوسری طرف لبرل معذرت خواہان دونوں ہی اپنے اپنے انداز اور دلیلوں میں اس سماجی بربریت کے نہ ختم ہونے کا اعتراف کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جہاں پسماندہ یعنی مذہبی معذرت خواہان سیدھا کہہ رہے ہیں کہ خاتون گھر سے باہر نکلے گی تو یہ تو ہوگا، وہاں نام نہاد ترقی پسند لبرل خواتین و حضرات ایک طرف ریاست کی موجودگی و عملداری کا مضحکہ خیز رونا رو رہے ہیں تو دوسری جانب سب خواتین کو پاکستان سے باہر نکل جانے کے ”عقلی“ مشورے دے رہے ہیں۔ ان کی عقلِ عظیم کے حساب سے پاکستان سے باہر خواتین کے لیے انتہائی محفوظ حالات ہیں اور ساری خواتین کو باہر رہائش و روزگار سمیت تمام بنیادی انسانی سہولیات ملتی ہیں جس سے وہ یہاں محروم ہیں یعنی پاکستان سے باہر تو جیسے سرمایہ دارانہ درندگی موجود ہی نہیں ہے! مذہبی اشرافیہ و اسٹیبلشمنٹ ایک طرف افغانستان میں ان طالبان کے قبضے پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے جو عورت کو جنسی تسکین کے آلے کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور دوسری طرف اس واقع کی مذمت کا ڈھونگ کرتے ہوئے یہاں اسلامی دہشت گردی کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی ہے جس سے ایسے واقعات کی روک تھام ہوگی۔ گھر کی چار دیواری میں عورت کا ”تحفظ‘‘ بتانے والے ان جنونیوں کے لیے یہ حقائق ہی کافی ہیں کہ نہ صرف خواتین بلکہ بچوں سے جنسی جبر و درندگی کرنے والے 80 سے 90 فیصد مجرمان ان خواتین یا بچوں کے قریبی جاننے والے ہی ہوتے ہیں، یعنی گھروں کی چاردیواریاں کسی طور بھی تحفظ کی علامت تو درکنار بلکہ جنسی جرائم کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔ عورت کا قابلِ تحفظ نجی ملکیت کی ”شے“ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے دونوں بظاہر متحارب دھڑے تمام تروضاحتیں پیش کر رہے ہیں۔
ہم مارکس وادیوں کا فریضہ کھوکھلی مذمت سے شور ڈالنا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا کام مذمت اور مزاحمت کو منظم کرنے سے پہلے مادی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی بھی سماجی مسئلے کی وجوہات کا تعین کرنا ہوتا ہے تاکہ اس مذمت اور مزاحمت کو منظم کرنے کا کام ٹھوس سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ نجی ملکیت پر تعمیر ہونے والے معاشی و سماجی نظام کے طبقاتی ڈھانچے نے مردانہ تسلط یعنی پدرشاہی کے خاندانی ڈھانچے کو تشکیل دیا ہے تاکہ دولت کی وراثتی منتقلی کے لیے اولاد کی درست شناخت کو یقینی بنایا جائے۔ اس عمل نے عورت کے ”غیر‘‘مردوں سے تحفظ کے سوال کو جنم دیا، جس کے سبب اس کی حیثیت انسان سے گر کر ملکیت میں رکھی جانے والی کسی بھی دولت نما ”شے“ کے مترادف ہوگئی جس کا ”تحفظ“ لازمی ہوتا ہے۔ دولت کے ارتکا ز کی بنیاد پر بڑھتی طبقاتی تفریق کے انتہائی مرحلے یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں مرادانہ تسلط پر مبنی صنفی جبر بھی اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ اسی تحفظ کے نام پر پنپنے والی معاشرے کی صنفی تقسیم کا آغازپیدائش کے دن سے ہی ہوجاتا ہے جس میں چھوٹے بچے اور بچیوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھ کر ان کی بنیادی تربیت کا آغاز کیا جاتا ہے۔ یہ صنفی تقسیم نہ صرف مرد و زن میں جنسی ہیجان کو بڑھاوا دینے کا باعث بنتی ہے بلکہ مصنوعی ہونے کے سبب منفی اندا زمیں متضاد کردار ادا کرتی ہے جس میں ایک دوسرے کو جاننے کی خواہش وحشت پر مبنی ہیجان کی صورتحال اختیار کر لیتی ہے جس کے نتائج ایسے بھیانک واقعات کی صورت میں مسلسل نظر آتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ ہر روز چھوٹے بڑے شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں ہونے والے ہراسانی کے ان غیر مشہور واقعات کی صورت میں لگایا جا سکتا ہے جہاں مرد حضرات جاتے جاتے عورت کے جسم کو ہاتھ لگا کر نکل جاتے ہیں اور اس میں تسکین محسوس کرتے ہیں۔ گلی، محلوں، سڑکوں اور چوکوں پر ہونے والی ہراسانی میں گزرتی خواتین کو گھورنا، ان پر اوچھے فقرے کسنا، ان کے جسم کے اعضاء کو گالی کی صورت بکنا اور اگر کبھی خاتون کسی بھی وجہ سے تھوڑی مزاحمت اور غصے کا اظہار کرے تو اس کا ”اپنا“ بن کر جم غفیر کی صورت اس کی مدد میں اس فرد کو پکڑکر مارنا پیٹنا، جبکہ آپ خود وہاں کھڑے یہی حرکت کر رہے ہوں، شامل ہیں۔ یہ سب معمول بنتا جا رہا ہے اور یہ صنفی گھٹن کی سماجی بیماری کا ادنیٰ درجے کا اظہار ہے جس کی انتہائیں ہمیں جسمانی تشدد، تیز اب گردی، ریپ اور گینگ ریپ کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ جب یہ بچانے والے نام نہاد ”اپنے“ سینکڑوں کی تعداد میں ٹوٹ پڑیں تو بدنامِ زمانہ لاہور شہر جیسے روح کو چھلنی کر دینے والے واقعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں موجود اِکا دُکا واقعی بچانے کی کوشش کرنے والے ناکام ہوکر منظر پر واضح نہیں ہو پاتے۔
ہر لمحہ بڑھتا معاشی دباؤ، خاندانی نظام اور انسانی رشتوں کی لگاتار ٹوٹ پھوٹ جلتی پر تیل کا کردار ادا کررہی ہے۔ معاشرے کا مردانہ غلبہ، نجی ملکیت اور دولت کی طاقت پر مبنی معاشی نظام کو چلانے کا سماجی اوزار ہے، جس کی موجودگی میں مرد و خواتین دونوں ہی اس پدرشاہی کے تسلط کو چلانے کے پابند ہیں۔ فیمینسٹوں کے اسرار کے برعکس پدرشاہی مردوں کی کوئی شعوری منشاء نہیں ہے بلکہ یہ پدرشاہی کی وحشت اور درندگی معاشرے کے مرد و زن دونوں کے لیے زہر قاتل ہے جس کا حل نام نہاد ”وومن ہوڈ“ کے نام پر صنفی تقسیم کو بڑھاوا دے کر نہیں بلکہ اس کے خلاف معاشرے کی اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔
انسانی معاشرے کی اکثریت پر مبنی محنت کش طبقے کی طاقت ہی اس وحشت کے خاتمے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا آغازپدرشاہی پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ممکن ہے۔ اسی بنیاد پر ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ عورت کی اپنے عذابوں سے نجات کا راستہ صنفی نہیں بلکہ طبقاتی جدوجہد ہے جس کی منز ل نہ صرف پدر شاہی کے ناسور بلکہ لسانی، قومی، مذہبی اور علاقائی سمیت ہر طرح کے انسان دشمن تعصبات کی بنیاد پر قائم سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلزم کی تعمیر ہے جس میں انسان کی تمام مادی ضروریات کی قلت کا خاتمہ کیا جائے گا جو قلت پر مبنی نفسیات کے خاتمے کی بنیاد بنے گی۔ تشخص کا بحران، دھوکہ دہی، لالچ اور ایک دوسرے کو شکست دے کر آگے بڑھنے والی مقابلہ بازی کی نفسیات کے خاتمے کے لیے راہیں ہموار کرے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب خطے کا ایک ہمسایہ ملک لبرل سرمایہ داری کے خدا امریکی سامراج کی ناکامی کی صورت میں طالبان کی درندگی کی زد میں آ یا ہو ا ہے اور یہاں کے دیسی لبرل اپنے خوف کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، وہاں کے عوام ان لبرلوں کے تمام تر تجزیوں کے برعکس دیگر سامراجی ریاستوں کی گود لی ہوئی طالبان نامی پستی اور پسماندگی کے خلاف جرات مندانہ جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں صنفی جبر اور درندگی کے خلاف پیدا ہونے والا غصہ بھی دیگر مسائل کے ہمراہ اپنی راہیں اور درست قیادت تلاش کر رہا ہے۔ خطے کے دونوں پسماندہ ترین ممالک کے محنت کش عوام کے ذہنوں میں آج پورے نظام کے خؒاف شدید ترین نفرت موجود ہے اور اب وہ اس نظام کی بنیادوں پر سوال اٹھانا شروع کر رہے ہیں۔ اسی ملک میں محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہونے والی حالیہ ملک گیر جدوجہد میں موجود محنت کش خواتین کے پر وقار کردار کو بھی دیکھا گیا ہے۔ ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ایسی ریاست سے امید کرنا جس نے باقائدہ طور پر ایسی غلیظ سوچ کو پروان چڑھایا ہو اور جس کی حکمرانی کی بنیادیں ہی ایسی غلیظ سوچ پر کھڑی ہوں، جس کا سربراہ اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ پتلا خود خواتین کو ہی ایسے حادثات کا ذمہ دار گردانتا پھر رہا ہو، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے اور یہ امید پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے نام نہاد لبرلزو رجعتی صاحبان کی جانب سے ملک سے فرار ہونے والے مشورے سے بھی زیادہ مضحکہ خیزہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے محنت کشوں اور طلبہ کوخود اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ جس میں ہراسانی کے ناسور کے لیے نہ صرف تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں بلکہ گلی محلے کی سطح پر طلبہ، محنت کشوں اور عوامی نمائندگان پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ پہلے ہی اینٹی ہراسمنٹ مہم کا آ غاز کر چکے ہیں۔
اس ملک میں جہاں حقیقی خوشی اور سکون مہیا کرنے والے اجتماعی تہوار معاشی تنگ دستیوں کے باعث ناپید ہو چکے ہیں، جہاں سالگرہ، شادیاں اور عیدیں، یہاں تک کہ موت بھی اضافی خرچے کی صورت میں معاشی دباؤ اور نفسیاتی تناؤ کو بڑھانے کا باعث ہوں، وہاں 14 اگست، مینارِ پاکستان، آزادی اور بیہودہ حب الوطنی کے گرد عوام بھڑاس ہی نکال پاتے ہیں، جو اس جھوٹ پر مبنی تہوار کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔ تعفن زدہ نظام میں اظہار کرتی ثقافتی زوال پذیری میں جنم لینے والے سانحات اور المیوں پر اپنی دکانیں چمکانے والا این جی او ز مافیا بھی اب تیزی سے بے نقاب ہو رہا ہے اور ایسے سانحات اور حالات کی موجودگی ہی ان کے وجود کو جواز فراہم کرتی ہے۔ حالات اور سماج کی انقلابی تبدیلی ان کا بھی خاتمہ کرتے ہوئے ایک حقیقی صنفی ہم آہنگی کا آغاز کرے گی کیونکہ سوشلزم صرف عورت ہی نہیں بلکہ انسانیت کے تحفظ کا عملی جواب بن گیا ہے۔