”اپنے لوگ“

|تحریر: صبغت وائیں |

بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ”وہ“ ”ان“ کے ”اپنے لوگ“ ہیں اس لیے ہم کو ان کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ادھر ہم ہیں کہ سوچے جا رہے ہیں کہ جن کو بھگتتے ہوئے ہم کو تیس بتیس سال ہو چکے ہیں، ان کو اب لاتعلق ہونے کا سندیس مل رہا ہے۔

سب سے پہلے جنرل ضیا کے دور میں ہمیں حکم ملا تھا کہ یہ افغان ہمارے ”اپنے لوگ“ ہیں، کیوں کہ یہ برادر اسلامی ملک سے آئے ہیں، اور دوسرے یہ کہ مسلمان ساری دنیا میں ایک جسم کی مانند ہیں، ایک انگ میں درد ہو تو سارا جسم دکھتا ہے وغیرہ۔۔۔اس کے بعد ہم نے بدلتے زمانوں کے ساتھ ”بیانیہ“ (وہ سوچ جو حکمران چاہتے ہیں کہ عوام خود اپنی سوچ مان کر سوچے) تبدیل ہوتے دیکھا۔ ڈالر جہاد کے بعد افغانوں کو ”نمک حرام“ اور پھر ”غدار“ اور اس کے بعد ”افغان“ کا مطلب ہی ”پاکستان دشمن“ کے طور پر بدلتے دیکھا۔ اگرچہ اس کے باوجود ہمارے بچے قتل کرنے والے ”اپنے لوگ“ ہیں یا ان کو قتل کرنے والے، اس بارے میں ہمیں تذبذب کی کیفیت میں ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔

اشرف غنی تو امریکہ کاگماشتہ تھا، ہم بھی مانتے ہیں، تین دن نہیں نکالے اور بھاگ گیا، لیکن یہ جو ”اپنے لوگ“ ہیں، کیا کلاشنکوف سے حکومت کریں گے؟ ”اپنے لوگوں“ پر حکومت کرنے کے لیے راکٹ لانچر اور کلاشنکوف کیوں؟ اب تو امریکہ وہاں نہیں ہے۔ چلیں دیکھتے ہیں یہ ”اپنے لوگ“ کیسے حکومت چلاتے ہیں، اور کیسے الیکشن کرواتے ہیں۔

کل جب میں نے یہ لکھا تھا کہ یہ ”وہ“ والے تلبان تو واقعی نہیں ہیں، لیکن اب افغانستان کے عوام بھی ”وہ“ والے نہیں ہیں۔ یہ عوام نہ صرف یہ کہ معیار میں 1996ء سے چھبیس سال آگے ہیں، بلکہ مقدار میں بھی پہلے سے اس قدر زیادہ ہیں، کہ آپ اس مقداری تبدیلی کو بجائے خود ایک تبدیل شدہ معیار کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اور یہ تبدیل شدہ معیار اپنا آپ دکھا کر رہے گا۔ کل تک ہمارے سامنے تھوڑی مختلف تصویر تھی، لیکن آج افغانستان کے جھنڈے کو لے کر افغان عوام میں جو غم و غصہ پایا جا رہا ہے، اور افغان عوام کے اندر جو بغاوت کی چنگاریاں نظر آ رہی ہیں، جو بتا رہی ہیں کہ نہ ہم ”وہ“ ہیں اور نہ ہی ”یہ“ ہمارے ”اپنے لوگ“ ہیں۔ یہ واقعات یقیناً کل کے تجزیے اور ہماری امید کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور یہ مارکسسٹ تناظر کی فتح ہے۔

آج صبح اٹھتے ہی میری نظر ایک ویڈیو پر پڑی جس کو دیکھ کر غصے سے یوں سمجھیں کہ بلڈ پریشر ہائی ہو گیا۔ وہ ایک خاتون ڈاکٹر عائشہ کی ویڈیو تھی جو کہ اپنے پیارے وطن پاکستان کا یومِ آزادی منانے وطن کے ایک مقدس مقام مینارِ پاکستان پر ”اپنے لوگوں“ سے ملنے کے لیے گئی۔ وہاں اس کو ”اپنے لوگوں“ کے ایک جمِ غفیر نے گھیرے میں لے لیا۔ پھر ان”اپنے لوگوں“ نے اس خاتون کو ”مالِ غنیمت“ سمجھ کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی کہ کسی کا ہاتھ اس تبرک کو چھوئے بنا نہ رہ جائے۔ ایک ”اپنے لوگ“ نے سبز ہلالی پرچم جیسا سبز لباس پہن کر آنے والی کا آدھا پرچم محبت سے لیا تو باقی ”اپنے لوگوں“ نے پرچم کی برکت کے حصول کے لیے ”لِیر لیر“ آپس میں انصاف سے تقسیم کرنا بہتر سمجھا، باقی بچے ”اپنے لوگوں“ نے باقی ماندہ پرچم پر اکتفا ہی کافی سمجھتے ہوئے قناعت کر لی۔ اب ان فاتح ”اپنے لوگوں“ نے اس شمشیرِ بے نیام کو ڈھائی سے پونے تین گھنٹے سارے گریٹر اقبال پارک میں گھما کر بے شرمی کا ننگا ناچ ناچا اور اس پر بھی بس نہیں کی گئی، بلکہ دو دو چار چار مل کر اس کو سروں سے اوپر اچھالتے اور پکڑ کر شوق پورا کرتے، کہ اتنے میں ”اپنے لوگوں“ کا کوئی دوسرا گروہ ان سے اس شکار کو یوں چھین لے جاتا جیسے افغان قبائلی لوگ بُزکشی کا کھیل کھیلتے ہیں، پھر کوئی تیسرا گروہ۔

لیکن جن باتوں کو پڑھ کر خون مزید کھول اٹھا وہ پے در پے ایسے کمنٹ تھے جو کہ دنیا کے کسی اور ملک میں، اور کسی بھی قوم میں ناممکن ہیں، سوائے ہمارے ان ”اپنے لوگوں“ کے۔ کمنٹس تو بہت سے ہیں۔ ان میں سے کچھ:

گوشت کھلا پڑا ہو گا تو نچے گا ہی

ایسی جگہ گئی ہی کیوں؟ (تلوار اور دستے والی بات)

تلبان ہوتے تو ایسی نوبت بھلا آ سکتی تھی؟ (جی ہاں، وہ گھر سے ہی نہ نکلتی)

یہ بھارتی ایجنٹ تھی انڈیا کا جھنڈا لہرانے گئی تھی، ”اپنے لوگوں“ نے پاکستان کو بہت بڑے خطرے سے بچا لیا

یہ تو ٹک ٹاکر تھی

اس کی یہ ویڈیو دیکھیں (ایک لڑکی باغ میں کسی سے بغل گیر ہو رہی ہے) اگر اس سے ہو سکتی ہے تو سب کا دل تو چاہے گا

یہ شریف عورت نہیں ہے اس کی شکل دیکھیں، اس کے بال دیکھیں

یہ ”میرا جسم میری مرضی“ کا نتیجہ ہے۔ اب ہمارا ہاتھ اور ہماری مرضی ہو گی

لڑکیوں کے لیے سبق ہے گھروں میں رہیں

عورت جب حدود کراس کرتی ہے تو ایسا ہی انجام ہوتا ہے۔ درست ہوا

یہ اسلامی معاشرہ ہے اس کو ”ایسے“ کپڑے پہن کر آنا ہی نہیں چاہیے تھا


غرض سینکڑوں کمنٹس ہیں، جن کو دیکھ کر ہی بندہ سمجھ جاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک افسوس کر رہا ہے کہ وہ اس جگہ کیوں نہیں تھا، وہ بھی ”اپنے لوگوں“ کا کچھ ہاتھ بٹا دیتا۔

مجھے اس پر کچھ خاص نہیں کہنا لیکن مجھے اس پر ایک اور ویڈیو ضرور یاد آ گئی ہے، جو کہ مائیکل جیکسن کے ایک ورلڈ ٹؤر کی تھی، جس میں اس نے ملکوں ملک جا کر گانے گائے تھے۔

وہاں دنیا کے مختلف ملکوں میں جیکسن کا ہر جگہ تاریخی استقبال کیا گیا، اس کے وہ مداح واقعتاً پاگل ہوئے پھر رہے تھے جو کہ دنیا کے مختلف کونوں سے ہونے کی وجہ سے کسی بھی صورت اس کے ”اپنے لوگ“ نہیں کہے جا سکتے تھے۔ لیکن وہ اپنے اس فنکار کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جس نے رنگ و نسل کی تفریق کے خلاف ”وی آر دا ورلڈ“، ”ارتھ سانگ“، ”آر وہائٹ“ جیسے شاندار گانے لکھے، گائے اور پرفارم کیے تھے، دیوانے ہوئے جا رہے تھے اور اس کو اپنا جان اور مان رہے تھے۔ ایم ٹی وی ایک ماہ تک اس کے اشتہار دکھاتا رہا۔

اس ویڈیو میں کیا تھا جو مجھے آج یاد آیا؟ وہ یہ تھا کہ ہزاروں، اور کئی جگہ اگر مبالغہ نہ ہو تو شاید لاکھوں کا مجمع تھا۔ اور مجمع بھی وہ جو کہ سو فیصد جوانوں اور نوجوانوں کا تھا۔ جس میں لڑکیاں بھی تھیں اور لڑکے بھی تھے۔ اور لڑکیاں ہمارے وزیرِ اعظم کے معتوب کردہ لباسوں سے بھی آگے کے لباسوں میں ملبوس تھیں۔ لیکن وہ سب اس ایک فن کار کی جھلک دیکھنے اور اس کا فن دیکھنے کے لیے اکٹھے تھے اور ان کا مقصد ان کو دیکھنے سے عیاں ہوتا تھا۔

اس ہجوم میں بہت سی لڑکیاں بے ہوش ہو رہی تھیں۔ شاید شدت جذبات سے یا پھر گرمی یا حبس وغیرہ سے، مجھے تفصیل نہیں معلوم، لیکن نظر آ رہا تھا کہ یہ لڑکی بے ہوش ہو کر گری کہ گری۔ لیکن کمال یہ تھا کہ لوگ اس کو گرنے سے پہلے تھام لیتے اور فوراً اس کو چار پانچ لوگ پکڑ کر سروں سے اوپر اٹھا کر آگے کر دیتے، لیکن اس کھیل میں لڑکی لوگوں کے سروں کے اوپر سے لاکھوں کے مجمعے میں سے چند منٹوں میں ہال سے باہر ریسکیو والوں کے پاس ابتدائی طبی امداد کے لیے پہنچ جاتی۔

ان دو واقعات میں دو تہذیبوں دو ثقافتوں کا ہی نہیں، دو طرح کے عوام کا اور دو طرح کے سماجوں کا بھی فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں سرمایہ داری درآمد کی گئی تھی۔ یورپ کے جس محنت کش طبقے کا شعور ہم بلند تر دیکھتے ہیں، وہ سینکڑوں انقلابات کا اور ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ہاں ”چاہیئے“ کی تجرید پر ہی سارا زور لگا دیا جاتا ہے۔ ہمیں یوں کرنا چاہیئے، ہمیں اس طرح کا ہونا چاہیئے، ہمیں یہ ہونا چاہیئے، وہ ہونا چاہیئے۔ بس کام ختم۔

آج کا موضوع چوں کہ ذرا مختلف ہے اس لیے بات یہیں ختم کرتے ہیں۔ ان الفاظ کو دیکھتے ہوئے جو اوپر لکھے ہیں۔ اور اس کے ساتھ آج کی دنیا کے اور خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے حالات دیکھ کر اینگلز کی ایک بات ایک آفاقی حقیقت کے طور پر ابھر کر آسمان پر لکھی نظر آتی ہے۔ کہ دنیا کو دو میں سے ایک راستہ چننا ہو گا۔ سوشلزم یا پھر بربریت۔ اور وہ سچ ہوتا نظر آتا ہے۔ اب ساری دنیا کے پاس سوائے سوشلزم کے اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ باقی رہی بات بربریت کی، تو وہ ہے تو بالکل سامنے ہی، لیکن زیادہ سامنے اور زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے آنکھوں سے اکثر اوجھل رہتی ہے۔

Comments are closed.