|تحریر: عرفان منصور|
1945ء میں منظر عام پر آنے والا تمثیلی ناول اینیمل فارم مختلف حوالوں سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ سامراجی طاقتیں اور سرمایہ دار طبقہ اس ناول کو 1917ء میں روس میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب اور اس کے نتیجے میں تعمیر ہونے والی مزدور ریاست کے خلاف پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے تعلیمی اداروں میں یہ ناول ابھی تک انگریزی کے طلبہ کو گریجویشن کی سطح پر نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ بھی سامراجی طاقتوں کا دلال ہے اور یہاں کا نصاب بھی اسی طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ مارکسزم اور مزدور طبقے کے نظریات کے خلاف طلبہ میں زیادہ سے زیادہ زہر بھرا جائے۔ اسی لیے اس ناول کے حوالے سے دیا جانے والا سبق بھی یہی ہوتا ہے کہ انقلاب لانے اور اس کے لیے جوکھم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انقلاب لانے کے بعد پھر کچھ نئے حکمران مسلط ہو جاتے ہیں اور صورتحال پہلے جیسے معمول پر ہی آ جاتی ہے۔ درحقیقت تمام تر تعلیمی نصاب ہی انقلاب دشمن نظریات کے تحت ترتیب دیا جاتا ہے اور تمام طلبہ کو انقلاب سے دور رہنے اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے کیرئیر بنانے کا ہی درس دیا جاتا ہے۔ لیکن سرکاری پراپیگنڈے کے برعکس اس ناول کا اگر گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو یہ ناول انقلاب روس کے بعدحاصل ہونے والی کامیابیوں کے بعد اس عظیم مزدور ریاست کی زوال پذیری پر تنقید کرتا ہے اور اس کو پڑھنے والے میں اس انقلاب کی حاصلات کو محفوظ بنانے کے لیے ایک نیا انقلاب برپا کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔
کسی بھی ادبی شاہکار کی خوبصورتی یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی سماج میں موجود تضادات کو نہ صرف بیان کرے بلکہ ان کا درست حل بھی پیش کرے۔ یہی اس ناول میں بھی نظر آتا ہے اور تمثیل نگاری کے ذریعے وہ نہ صرف سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری پر تنقید کرتا ہے بلکہ اس مزدور ریاست پر بیوروکریسی کی آمرانہ جکڑ کے خلاف ٹراٹسکی کی جدوجہد کو بھی بیان کرتا ہے۔ اس میں حقیقی کرداروں کی جگہ مختلف جانوروں کی تمثیل استعمال کی گئی ہے جس میں نپولین نام کا کردار سٹالن جبکہ سنو بال ٹراٹسکی کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس ناول کے پس منظر میں موجود یہ نظریاتی جدوجہد عام طور پر نصاب میں نہیں پڑھائی جاتی اور انقلاب دشمنی پر مبنی صرف سطحی تجزیہ ہی طلبہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ ناول کے مطابق یہ کہانی ہے ان جانوروں کی کہ جو انسان کے مظالم سے تنگ آ کر اپنی محنت کے استحصال کے خلاف علم حق بلند کرتے ہیں اور استحصال سے پاک، مساوات سے معمور سماج کی تشکیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے فارم سے انسانوں کو نکال باہر کرتے ہیں اور جانوروں کی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ہر ایک جانور وفاداری اور لگن سے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے خون پسینہ ایک کر دیتا ہے مگر جو معروضی دنیا تشکیل پاتی ہے وہ ان کی خواہشوں سے متضاد ہوتی ہے۔ جانور ہی جانور کا استحصال کرنے لگ جاتا ہے اور فقط چہرے بدلتے ہیں مگر جبر سے مکمل آزادی کا خواب بعینہ قائم رہتا ہے۔
1917ء میں لینن او رٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا تھا جس کے بعد بننے والی مزدور ریاست نے ہر شخص کوروٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کے ساتھ علاج، تعلیم اور تمام بنیادی سہولیات مفت قرار دے دی تھیں۔ انسانی تاریخ کی تیز ترین ترقی کا سفر شروع ہوا تھا اور کچھ ہی عرصے میں روس تاریخی پسماندگی سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا تھا۔ انقلاب کے بعد قیادت میں ایک نئی نظریاتی جنگ کا بھی آغاز ہو گیا تھا جس میں لینن اور ٹراٹسکی انقلاب کو محفوظ بنانے کے لیے اسے دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلانا چاہتے تھے جبکہ سٹالن کی قیادت میں دوسرا دھڑا ”ایک ملک میں انقلاب“ کا غلط نظریہ مسلط کر رہا تھا۔ لینن کی وفات اور معروضی حالات کی وجہ سے سٹالن کا دھڑا کامیاب ہوا اور ٹراٹسکی کو پہلے جلا وطن کیا گیا اور پھر اس کا قتل کروا دیا گیا۔ اس دوران انقلاب کی زوال پذیری کا عمل شروع ہو گیا جس کے خلاف ٹراٹسکی مرتے دم تک جدوجہد کرتا رہا۔ سٹالنسٹ زوال پذیری کے دوران سوویت یونین کا کردار ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کا بن چکا تھا جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظتیں اور استحصال تو ختم ہو چکا تھا لیکن مزدور جمہوریت نہ ہونے کے باعث بیوروکریسی کی آمریت اور جبر بڑھتا جا رہا تھا۔ ٹراٹسکی نے اس انقلاب کو محفوظ بنانے کے لیے اس بیوروکریسی کے خلاف ایک سیاسی انقلاب کی جدوجہد کو منظم کرنے کی کوشش کی اور اس کی نظریاتی بنیادیں بھی فراہم کیں لیکن معروضی حالات کے باعث وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس مسخ شدہ مزدور ریاست کا انجام ٹراٹسکی کی پیشگوئی کے عین مطابق 1990ء میں اس کے انہدام پر منتج ہوا اور مزدور طبقے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پس منظر کو جاننے والے اس ناول کاصحیح لطف لے سکتے ہیں کیونکہ انقلاب دشمن قوتیں اس ناول کو ہر ایک انقلاب کا تمثیلی روپ قرار دیتی ہیں مگر یہ ناول اپنی کہانی، پلاٹ اور تمثیلوں میں 1917 ء کے بالشویک انقلاب کا قصہ گو ہے۔ یہ ناول بہت سے اہم سوالوں کو جنم دیتا ہے کہ کیا یہ ناول سوشلزم کے خلاف لکھا گیا؟ کیا ہر سوشلسٹ انقلاب کا نتیجہ یہی نکلے گا؟ کیا یہ سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے لکھا گیا؟ یہ ناول سوویت یونین کے سماج کے کون سے تضادات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے؟ کیا یہ معروضی حقیقت کا آئینہ دار ہے بھی کہ نہیں؟ مگر ان سب سوالوں کو ٹٹولنے سے پہلے ضروری ہے کہ مصنف جارج آرویل کی نظریاتی اساس پر مختصراً بات کر لی جائے۔
آرویل: ایک کامریڈ یا لبرل؟
بیسویں صدی کے آغاز میں پیدا ہونے والا یہ برطانوی مصنف سوشلسٹ نظریات سے متاثر تو ہوا ہی مگر اپنی زندگی میں نظریاتی طور پر کنفیوژن کا شکار رہا جس کا اظہار اس کی عملی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔
آرویل 1937ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”دی روڈ ٹو ویگن پیئر“ (The Road to Wigan Pier) میں جب برطانوی سماج میں بڑھتی غربت، بے روزگاری اور دیگر مسائل کا احوال رقم کرتا ہے تو سوشلزم کو ہی واحد ذریعہ نجات قرار دیتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ہی 1926ء کی برطانیہ میں عام ہڑتال کی ناکامی اور 1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں جرمنی، اٹلی اور سپین میں انقلابات کی شکستوں اور سٹالن اسٹ غداریوں کے سبب سوشلزم اور خصوصاً سوویت یونین میں اس کا یقین کچھ متزلزل بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ اس کا کمیونزم کے نظریات پر مکمل عبور نہ ہونا ہی ہو سکتا ہے۔ وہ بورژوا اور پرولتاریہ کی بجائے ”لوٹنے والے اور لوٹے جانے والے“ کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے اور برطانیہ میں مڈل کلاس، خوانچہ فروش اور کلرک کے طبقاتی کردار کو سمجھنے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے۔ 1936ء میں وہ سپین کی انقلابی خانہ جنگی میں فاشزم کے خلاف مسلح جدوجہد میں شریک ہوتا ہے، جس دوران وہ اپنی ڈائری بھی لکھتا ہے جو ”اسپین میں خانہ جنگی“ یا Homage to Catalonia کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب پر انگریزی فلم ”Land and Freedom“ بھی بن چکی ہے۔ اس انقلاب کے دوران ہی آرویل لیفٹ اپوزیشن اور ٹراٹسکی ازم سے آشنا ہوتا ہے اور اسی جنگ میں ہی وہ سوویت بیوروکریسی اور سٹالن ازم کے رد انقلابی کردار کو قریب سے دیکھتا ہے، جس کا اظہار اینیمل فارم کی تمثیل نگاری میں جگہ پاتا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں نظریاتی طور پر زوال پذیر آرویل تنقید کا توازن کھو دیتا ہے اور سوویت یونین کی مسخ شدہ مزدور ریاست کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے مغرب سے تبدیلی کی امیدیں جوڑ لیتا ہے اور سرمایہ دار طبقے کے دلال دانشور برٹرینڈ رسل و دیگر کے ساتھ مل کر 1950ء میں قائم ہونے والی Congress For Cultural Freedom کے لیے کام کا آغاز کرتا ہے مگر اس کے قیام سے قبل ہی وفات پا جاتا ہے۔ اسی دوران ہی آرویل اپنے کام کو سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہونے کی کھلی اجازت دیتا ہے مگر اس سب کے باوجود وہ سرمایہ داری کے حق میں نہیں بولتا اور محنت کش طبقے میں اپنے یقین کا مجرد اظہار کرتا رہتا ہے جو کہ اس کے آخری ناول ’1984ء‘ میں بھی نظر آتا ہے۔ تاریخ یقینا آرویل سے ہمیشہ اس بارے میں باز پرس کرتی رہے گی مگر اس سے زیادہ ان منافق کرداروں کو کٹہرے میں لائے گی جنہوں نے انسانی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب کو مسخ کر دیا کہ جن کا تمثیلی بیان اینیمل فارم کی بنیاد بنتا ہے۔
آرویل اور اسٹالنزم
1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد، روس کی تاریخی پسماندگی، کمتر افزودگی اور عالمی تنہائی کے سبب جب بیورو کریسی نے اسٹالن کی قیادت میں مزدور ریاست کا خون چوسنے کے لیے پنجے گاڑے تو ان کے خلاف بولنے والا سب سے بڑا نام لیون ٹراٹسکی تھا کہ جس نے افسر شاہانہ ٹولے کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز کیا، عالمی انقلاب اور مزدور ریاست سے وفادار رہا اور اسی سبب اسٹالن اور اس کے ٹولے کو کھٹکنے لگا اور اس کو غدار کہہ کر پہلے ملک بدر کیا گیا اور پھر قتل بھی کروا دیا گیا۔ اینیمل فارم کے اہم کردار نپولین اور سنو بال، اسٹالن اور ٹراٹسکی کی ہی بازگشت سناتے ہیں کہ جہاں نپولین غیر اہم ہو کر بھی اپنے پالتو کتوں اور وظیفہ خوار سوروں کے سبب فارم پر حاوی ہو جاتا ہے اور انقلاب کے رہنما کا کردار نبھانے کی بجائے سوروں اور کتوں کے ساتھ مل کر طفیلیے کا کردار اپنا لیتا ہے اور سنو بال کی تنو مند، کچی اور مخلص آواز کو دبا دیتا ہے اور فارم سے بھگا دیتا ہے۔ آرویل اپنے اس تمثیلی بیان میں تکے نہیں لگاتا ہے بلکہ جانتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ سنو بال کے انخلا کے بعد آمریت کا قیام، جمہوریت کا خاتمہ اور پروپیگنڈا کا استعمال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ ناول ایک فرضی کہانی یاقصہ نہیں بلکہ زندہ سوویت سماج کی کہانی ہے۔
بیوروکریسی کا نوحہ
”بین الاقوامیت کی بجائے قومیت، مساوات کی بجائے عدم مساوات اور امتیاز، مزدور حاکمیت کی بجائے غلامی اور تفریق، جمہوریتوں میں بہبود اور برابری کے تعلقات کی بجائے فوجی جبر اور فوج، صنعت، زراعت، پولیس اور سول سروس میں مراعات یافتہ عیش کرتا بیوروکریسی کا نظام“۔۔۔ کیا یہ الفاظ نپولین کے مسند نشین ہونے کے بعد ابھرنے والے فارم کی بہترین عکاسی نہیں کر رہے؟ مگر یہ الفاظ ٹیڈ گرانٹ کے ہیں جو اس نے اسٹالنزم کو بیان کرتے ہوئے لکھے۔ فارم کے سور اور کتے تمثیل ہیں سوویت حکومت میں ابھرنے والی بیوروکریسی کی کہ جس نے مراعات پر قابض ہونے کے بعد اپنا قبلہ مزدور جمہوریت اور عالمی انقلاب سے موڑ لیا اور سرمایہ دارانہ ریاستوں کی شکل میں موجود مسٹر جونز کا ڈر ابھار کر مراعات کو محفوظ کرتے چلے گئے اور جب ان کی مراعات پر سوال کیا جاتا تو جہاں ایک طرف جبر کا راستہ اپناتے تو دوسری طرف مزدور ریاست اور ”عظیم“ اسٹالن کے ناقابل غلط کردار کے گن گانے لگ جاتے۔ یہ تو صرف ایک تمثیل ہے اگر ناول پڑھا جائے تو ”ڈسپلن، کامریڈ، ڈسپلن“، حکمت عملیاں، ترانے کی تبدیلی، طبقات کے خاتمے کا اعلان، انسانوں سے تجارت، خوراک کی مسلسل کمی، جسمانی اور ذہنی مشقت کا فرق اور اس جیسی دسیوں تمثیلیں ہیں جو کہ سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کے باعث ہونے والی تمام تر ترقی کے باوجود جمہوری آزادی پر لگنے والی قدغنوں کی حقیقت کا بیان ہیں اور ناول کو تاریخی حقیقت کا روپ بخشتی ہیں۔
خوش کن شماریات اور خوش کن خوراک کا تضاد
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ سوویت یونین نے منصوبہ بند معیشت کے باعث انسانی تاریخ کی تیز ترین ترقی حاصل کی جو کوئی بھی سرمایہ دارانہ ریاست آج تک حاصل نہیں کر سکی۔ کروڑوں لوگوں کو بھوک اور غربت سے نکالا، دنیا کے سب سے زیادہ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان پیدا کیے اور خلا میں پہلا انسان بھیجا۔ اسی طرح خواتین اور مظلوم قومیتوں کو دہرے جبر سے نجات دلائی اور انہیں سماج کی ترقی میں شریک کرتے ہوئے قومی اور صنفی جبر کا مکمل خاتمہ کیا۔ ان تمام حاصلات کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں خاص طور پر دوسری عالمی جنگ میں دنیا کو فاشزم سے نجات دلانے کا سہرا سوویت یونین کی مزدور ریاست کو ہی جاتا ہے جس میں کروڑوں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے لیکن انسانیت کے مستقبل کو اس عفریت سے محفوظ بنایا۔ سوویت یونین کی بیوروکریٹک زوال پذیری اور سٹالنزم کے جرائم پر تنقید کرتے ہوئے اکثر ان حقائق کو فراموش کر دیا جاتا ہے جو درحقیقت سامراجی طاقتوں کا وطیرہ ہے لیکن ٹراٹسکی نے سٹالن اور بیوروکریسی کے خلاف نظریاتی جنگ کے دوران بھی ہمیشہ مزدور ریاست کی حاصلات کا دفاع کیا اور سرمایہ داری کے مقابلے میں ہر محاذ پر اس مسخ شدہ مزدور ریاست کی فوقیت کو بیان کیا۔ لیکن دوسری جانب اس کی خامیوں کی بھی کبھی پردہ پوشی نہیں کی اور پوری دیانتداری سے ان کی تشخیص کی اور اس کے حل کی بھی جدوجہد کی۔ اس ناول میں بھی ان خامیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ نظر آتا ہے کہ جانوروں میں پیدا ہونے والا افسر شاہانہ طفیلیہ گروہ اپنی مراعات میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جاتا ہے اور اپنی مراعات میں مسلسل اضافے کے لیے دیگر جانوروں کی خوراک کو کم کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کو سخت سردی میں ونڈ مل پر کام کرواتا ہے اور کبھی بھی ان کے سامنے درست اعداد و شمار نہیں لائے جاتے بلکہ ہمیشہ یہ بتایا جاتا ہے کہ فصلوں میں اتنے سو گنا مزید اضافہ ہو چکا ہے مگر ان کو ابھی کم خوراک پر ہی کام کرنا پڑے گا۔ مگر بے چارے جانور اس خواہش میں کھلتے رہتے ہیں کہ کبھی تو ان کے سامنے ان خوش کن اعداد و شمار کی بجائے اچھی اور خوش کن خوراک پیش کی جائے گی مگر افسوس کہ دلی دور است!
اعترافات و تصلیبات
جھوٹے اعداد و شمار، افسر شاہانہ زندگی اور عام ورکر کی زندگی میں بڑھتے فرق کی وجہ سے سماجی بے چینی میں اضافہ ہونا لازمی امر تھا مگر اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ منصوبہ بند معیشت کا عرق نچوڑنے والی افسر شاہی خود کو کسی بھی صورت اس صورتحال کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتی تھی کیوں کہ وہ تو شب و روز، تندہی سے منصوبے بنا رہی تھی اوربے انتہا ذہنی مشقت کی دیوہیکل ذمہ داری اپنے سر لے چکی تھی تو اس صورت حال میں سارا ملبہ آ گرا غداروں پر۔ فارم میں موجود ہر وہ جانور جو سوال کرتا یا نپولین کے خلاف اظہارِ رائے کرتا وہ غدار نکلتا، جو سنو بال یا انسانوں کا ایجنٹ نکلتا اور سوویت سماج میں ہزاروں لوگ رفتہ رفتہ ایسے نکلنے لگے کہ جو دشمن کے پروپیگنڈے کا انتہائی اہم حصہ تھے اور بہت سارے لوگ ایسے تھے جو کہ خفیہ پولیس کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اور سائبیریا کی جنت نما دنیا سے ڈر کر خود ہی غداری کا الزام اپنے سر لے لیتے یا خود کشی کر لیتے اور ان میں نچلے درجے کی بیورو کریسی کے وہ لوگ بھی شامل تھے جو اپنی کوڑھ مغزی یا انقلاب سے بے وفائی کے سبب کریملن کے آقاؤں کی محنتِ شاقہ کو بے ثمر کر دیتے تھے اورانہی کے سبب سوویت یونین کے محنت کش ان ثمرات سے ابھی تک محروم رہے جو سالوں پہلے مل جانے چاہیے تھے۔
کیا یہ ناول سوشلزم کے خلاف ہے؟
اس ناول میں بہت کچھ ایسا ہے کہ جو اختصار کے ساتھ بیان ہونے کے باوجود انتہائی شدید تضادات اور افسر شاہی کے کرتوتوں کا منہ چڑاتا ہے مگر ان سب کے باوجود جانوروں میں افسر شاہی کے ابھار کے اسباب پر یہ ناول خاموش نظر آتا ہے اور اس کے علاوہ اس ناول کا سوشلزم کا نقطہ نظر بھی تاریخی تناظر کی بجائے ایک اخلاقی پیرائے میں ملبوس نظر آتا ہے۔ اس ناول کو جہاں سوویت یونین کی طرف سے بے پناہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں مغرب کی طرف سے سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کیا گیا مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ ناول واقعی سوشلزم کے خلاف تھا؟ ٹی ایس ایلیٹ اس ناول پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ناول کمیونزم کے خاتمے کے لیے کوئی اور راستہ دکھانے کی بجائے مزید کمیونزم کا ابلاغ کرتا ہے۔ اور یہ بات واقعتاً درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ ناول سوشلزم کے خلاف نہیں بلکہ اسٹالنزم کے کالے کرتوتوں اور انقلاب دشمنی کا تمثیلی اظہار ہے اور اس کی ادبی سچائی مصنف کے اپنے نظریات سے آزادانہ طور پر بیوروکریسی کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف لوٹنے کی نہیں بلکہ اس افسر شاہانہ رجعت کو ایک انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینک کر ایک مزدور جمہوریت کے قیام کی وکالت کرتی ہے۔ اس کا اظہار جارج آرویل کے 1948ء میں لکھے گئے ایک اور ناول ”1984ء“ کے کردار ونسٹن اسمتھ کے ذریعے ان الفاظ میں بھی ہوتا ہے: ”صرف محنت کش طبقہ ہی ایک مطلق العنان حاکم پارٹی کو ریزہ ریزہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ طبقہ تب ہی بغاوت کرے گا جب اس کو اپنی طاقت کا شعور ہو گا اور یہ اپنی طاقت کا شعور بغاوت کر کے ہی حاصل کر سکتا ہے۔“

















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance