سرمایہ داری کی تاریخ کے بدترین بحران کا آغاز

|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: آصف لاشاری|

کروناوبا کے پوری دنیا میں پھیلاؤ نے ایک عالمی کساد بازاری کا آغاز کر دیا ہے۔ حکمران طبقہ معیشت پراس خطرناک دھچکے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں وہ ان تمام اصولوں کو توڑ رہے ہیں جو گزشتہ 80 سالوں سے ان کی پالیسیوں کی بنیاد رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔

بحران کا آغاز

کرونا وبا کے پوری دنیا میں پھیلاؤ نے ایک عالمی کساد بازاری کا آغاز کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔

معاشی اعداد و شمار ہمیشہ واقعات کے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس معیشت کے جو تازہ اعداد و شمار ہیں وہ 2019ء کی آخری سہ ماہی کے ہیں جبکہ اگلے اعداد وشمار اپریل میں جاری ہوں گے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ صورتحال گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے میں مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ بہت سے ادارے بحران کی سطح کو ماپنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کے ماڈلز ماضی کے لیے بنائے گئے تھے اور ان کو نئی ناقابلِ یقین صورتحال سے نبردآزما ہونے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ لیکن پھر بھی اعدادوشمار کے عمومی رجحان پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مورگن سٹینلے کے ایک اندازے کے مطابق امریکی معیشت جنوری سے مارچ کے درمیان 2.4 فیصد سکڑنے کے بعد اس سال اپریل اور جون کے درمیان سالانہ بنیادوں پر 30 فیصد تک سکڑ جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس موسمِ بہار میں بیروزگاری کی شرح 12.8 فیصد ہوگی جو 1948ء سے اب تک ریکارڈ ہونے والی سب سے زیادہ شرح ہے۔ پہلے ہی کروڑوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ امریکہ میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے دوران 30 لاکھ اٹھائیس ہزار لوگوں نے خود کو بے روزگار ظاہر کیا ہے جو کہ خود ایک ریکارڈ ہے۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے اندر 5 لاکھ لوگوں نے یونیورسل کریڈٹ(ریاست کی جانب سے دی جانے والی امداد) کے لیے دعویٰ کیا۔

دی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس نے اب عالمی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کی کمی کا اندازہ لگایا ہے جس میں امریکی جی ڈی پی میں 2.8 فیصد کمی، یورو زون میں 4.7 فیصد کمی اور چین میں محض 2.8 فیصد کے اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ابھرتی معیشتیں کہلائے جانے والے ممالک جن میں سابقہ بہت سارے نو آبادیاتی ممالک شامل ہیں کے لیے 1.1 فیصد کے اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے اور یہ اعداد و شمار بھی اندازوں پر مبنی ہیں اگرچہ انڈیا اور چین کے اندازوں کو پہلے ہی کم کیا گیا ہے۔

”تاہم دوسری ششماہی کی پیش گوئیوں کے بارے میں بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ ہم 2020ء کی دوسری ششماہی میں قرنطینہ کے خاتمے، صارف اور کاروبار کے اعتماد کی بحالی کو فرض کرتے ہوئے گروتھ کی طرف بحالی تصور کر رہے ہیں۔ یہ مفروضے درست ثابت ہوتے ہیں یا غلط یہ دیکھنا باقی ہے اور یوں اس کے نتیجے میں ہماری تمام پیش گوئیوں پر غیر یقینی غالب ہے“۔

اگرچہ انہیں حالات کی سنگینی کا بہت کم ادارک ہے لیکن خزاں تو دور کی بات ہے انہیں اگلے ایک دو ماہ کے بارے میں بھی کچھ اندازہ نہیں ہے۔ وہ 2009ء کو ذہن میں رکھتے ہوئے جی ڈی پی میں کمی کا اندازہ لگا رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں 2020ء کی دوسری ششماہی میں چیزیں معمول کی طرف لوٹ جائیں گی۔ اس سب کا انحصار مستقبل میں ریاستوں کی وبا کی روک تھام کرنے، پابندیوں کو نرم کرنے اور صارفین و کارباروں میں اعتماد پیدا کرنے پر ہوگا۔ اور یہ کوئی معمولی کام نہیں۔

کاروباری حلقوں میں اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ یوروزون میں پی ایم آئی انڈیکس 51.6 سے 31.4 تک گر گیا جو کہ تاریخی طور پر کم ترین ہے۔ 50 سے نیچے کا کوئی بھی عدد معاشی سکڑاؤ کا اشارہ دیتا ہے۔ امریکہ کے لیے پی ایم آئی 40.5 تک گر گیا جو کہ 2009ء کے جیسا کم تو نہیں مگر اسی کے قریب ہے۔ یہ اعداد و شمار جاری کرنے والے IHS Markit کے چیف بزنس اکانومسٹ کے مطابق یورو زون کے جی ڈی پی میں 8 فیصد گراوٹ اور امریکی جی ڈی پی میں 5 فیصد تک گراوٹ متوقع ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ انڈیکس ابھی تک اپنی انتہائی کم سطح تک نہیں پہنچا ہے۔

فرانس کے وزیر خزانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس بحران کا موازنہ صرف 1929ء کی عظیم کساد بازاری سے کیا جا سکتا ہے اور ذہن نشین کرایا کہ فرانس کی صنعت اپنی معمول کی سطح کے صرف 25 فیصد پر کام کر رہی تھی۔ جرمنی کے وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ بحران منڈی کی معیشت کی فعالیت کو جانچ رہا ہے اور تمام مارکیٹیں مکمل طور پر ٹوٹ کر گر رہی ہیں۔

چین سے اعداد و شمار کا آنا بہت مشکل ہے مگر فنانشل ٹائمز انڈیکس کے مطابق چینی معیشت اپنی 2019ء کی سطح کے 75 فیصد پر کام کر رہی ہے جبکہ یہ یکم جنوری کی سطح سے 35 فیصد کم پر آچکی ہے۔ یہ سب اعداد و شمار چینی معیشت کو لگنے والے تباہ کن دھچکے کو ظاہر کرتے ہیں۔

سابقہ نو آبادیاتی ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتیں 83 بلین ڈالر کی اپنی سرمایہ کاری کھو چکی ہیں۔ بہت ساری کرنسیاں فری فال ہیں: میکسیکو کی کرنسی پیسو، جنوبی افریقہ کی رینڈاور برازیل کی کرنسی سمیت یہ سب 20 فیصد تک گر چکی ہیں ہیں جبکہ ترکش لیرا اور انڈونیشین روپیہ 10 فیصد تک گر چکا ہے۔ یہ پچھلے سالوں میں ہونے والی گراوٹوں میں سب سے زیادہ ہے اور ان سب کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کا مطلب بنتا ہے کہ یہ تمام کرنسیاں اپنی قدر کا ایک سے دو تہائی تک کھو چکی ہیں۔

ہیجانی وقتوں کے ہیجانی اقدامات

حکمران طبقہ خوف کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہا ہے اور جس تیزی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اس سے ان کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس بار امریکہ میں ریسکیو پیکج کو تشکیل دینے میں صرف چار ہفتے لگے جبکہ 2008-09 ء میں اس عمل کے لیے چار ماہ سے زیادہ وقت لگ گیا تھا۔ اعلان کردہ معاشی پیکج کا حجم ماضی کے پیکج سے دو گنا زیادہ بڑا ہے۔

مجموعی طور پر امریکہ، یورپی مرکزی بینک، جاپان، جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے مرکزی بینکوں کے لیے 2.2 ٹریلین ڈالرز اور مرکزی حکومتوں کے لیے 4.3 ٹریلین ڈالرز کے امدادی پیکج کے اعلانات کیے ہیں۔ یہ ان ملکوں کے مجموعی جی ڈی پی کے 17 فیصد کے برابر ہے یا عالمی جی ڈی پی کے 7.3 فیصد کے۔

ایسا نہیں ہے کہ صرف معمول سے بڑے پیکجز بنائے جا رہے ہیں بلکہ معیشت میں ریاست کے کردار کے بارے میں وضع کردہ تمام تر قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ یورپی مرکزی بینک کے سابقہ سربراہ ماریو دراغی نے فنانشل ٹائمز میں دلیل دی:

”یہ پہلے ہی واضح ہے کہ عوامی قرضوں میں بہت بڑا اضافہ جواب کا(حل کا) حصہ ہونا چاہیے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے ہونے والا آمدنی میں خسارہ یا خلا کو بھرنے کے لیے اٹھائے جانے والا کوئی بھی قرضہ بالآخر کلی یا جزوی طور پر حکومت کی بیلنس شیٹس میں ڈالا جانا چاہیے۔ ریاستی قرضوں کے پہاڑ ہماری معیشتوں کی مستقل خصوصیات بن جائیں گی اور ان قرضوں کی منسوخی اس کا لازمی جزو ہو گی“۔

مختصر الفاظ میں سرمایہ داروں کے نمائندوں کے مطابق حکومتوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے تمام تر خساروں کو پورا کرنے کے لیے آ گے بڑھنا چاہیے۔ منڈیوں کے کام کرنے کے عمومی طریقہ کار کو ایک طرف رکھ دیا جائے گا۔ دیوالیہ ہو جانے والی کمپنیوں کو مرکزی حکومتوں کی سبسڈیوں، قرضوں اور یقین دہانیوں سے چالو رکھا جائے گا۔

وہ مزید کہتا ہے:

”جہاں مختلف یورپی ممالک کے صنعتی اور مالیاتی ڈھانچے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، معیشت کی ہر ایک دراڑ تک جلد از جلد پہنچنے کا واحد مؤثر طریقہ یہ ہے کہ تمام مالیاتی نظاموں: بانڈ مارکیٹوں، زیادہ تر بڑی کارپوریشنوں، بینکاری نظاموں اور حتیٰ کہ کچھ ممالک میں باقی ہر ایک کے لیے ڈاک کے نظاموں کو مکمل طور متحرک کیا جائے۔ اور اس سب کو بیوروکریسی کی کسی قسم کی تاخیر کے بغیر جلد از جلد کیا جانا چاہیے۔ بینک بالخصوص پوری معیشت تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ کریڈٹ سہولیات کو کھولتے ہوئے اور فاضل وصولی کی اجازت دیتے ہوئے فوری طور پر رقم کا بندوبست کر سکتے ہیں“۔

حکومتوں کو فوری طور پر کسی قسم کی بیوروکریٹک تاخیر کے بغیر معیشت کی ہر ایک دراڑ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ عشروں تک ہمیں بتایا جاتا رہا کہ حکومتیں ناکارہ اور نا اہل ہیں اور جتنا ممکن ہو سکے ان کو معیشت میں دخل اندازی سے باز رہنا چاہیے۔ اب اچانک نظام کی مکمل تباہی کے خطرے سے دوچار ہونے کے بعد ماریو دراغی اور اس کے بورژوا ساتھی چاہتے ہیں کہ ریاست پچھلے چار عشروں میں متعارف کرائے جانے والے تمام تر قوانین اور ریگولیشنز کو نظر انداز کرتے ہوئے معیشت کے ہر حصے میں دخل اندازی کرے۔ ریاست تیزی سے پورے معاشی نظام کی ضامن بنتی جا رہی ہے۔

مرکزی بینک حکومتی اخراجات کا بوجھ اٹھائیں

ماضی میں معیشت دان مرکزی بینکوں اور حکومت کے درمیان سخت قسم کی علیحدگی پر زور دیا کرتے تھے۔ مرکزی بینکوں کو حکومت سے علیحدہ رکھنے کو یقینی بنانے کے جذبے میں انہوں نے یہ شرط آئین میں متعارف کرا دی جیسا کہ ماستریخت معاہدہ۔یہ سب مرکزی بینکوں کو مالیاتی پالیسی کے اوزار بننے سے روکنے کے لیے کیا گیا اور یہ درحقیقت میعادی مالیاتی پالیسی کے لیے محافظ بن گیا۔ یہ اب اپنے الٹ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

فنانشل ٹائمز میں اپنے آرٹیکل میں فلپ ہلڈیبرینڈ، جو دنیا کی سب سے بڑی ایسٹس مینیجرBlackRock کا وائس چیئرمین ہے،نے اس کے پیچھے توجیہہ بیان کی۔ مرکزی بینک پچھلے بحران سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات اٹھاتے ہیں ان کا اتنا مطلب ہوتا ہے کہ روایتی و غیر روایتی مالیاتی پالیسیوں سے نمٹنے کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔

بجائے اس کے مالیاتی پالیسی کو تمام تر بوجھ اٹھانا چاہیے لیکن اس میں بھی ایک مسئلہ ہے:

”ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو بھاری حکومتی اخراجات بانڈز کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن جائیں گے اور ریاستی قرضوں کی ادائیگی کو مشکل کر دیں گے اور ان کو فنانس کرنا مہنگا ہو جائے گا اور یہ ریاستیقرضہ جات کی بڑی مقدار پیدا کر کے بحران پیدا کرنے کا خطرہ پیدا کر دے گا“۔

”یہی وجہ ہے کہ پالیسی سازوں کو مرکزی بینکوں کی خودمختاری کی کم سادہ سمجھ بوجھ اپنانی ہوگی۔“

”دنیا کے معاشی نظام کی بنیادوں کو درپیش وجودی خطرات سے نمٹنے کے لیے، ایک حقیقی خودمختار مرکزی بینک کو اپنی پالیسی کے دیگر اعضا جیسا کہ ریاست سے کھلم کھلا تعاون کرنے کی اپنی صلاحیت پر مکمل اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے“۔

سادہ الفاظ میں وہ اپنی اس تقریر میں یہ کہہ رہا ہے کہ حکومت لا محدود مقدار میں رقم ادھار نہیں لے سکتی کیونکہ بالآخر ادھار دینے والوں کا اعتماد ختم ہو جائے گا کہ حکومت یہ رقم واپس ادا کر سکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ زیادہ شرحِ سود کا مطالبہ کریں گے اور مزید ادھار لینے کو انتہائی مہنگا یا نا ممکن بنا دیں گے۔اسے حل کرنے کے لیے مرکزی بینکوں کا تعاون درکار ہے،دوسرے الفاظ میں وہ حکومت کو ادھار دیں۔مرکزی بینک ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ نئے پیسے سے۔مختصر یہ کہ مرکزی بینک کو حکومتی اخراجات اٹھانے کے لیے پیسہ چھاپنا پڑے گا۔

80 سالوں سے زیادہ عرصے تک حکمران طبقے نے خود کو اس مخصوص اقدام سے دور کیے رکھا۔کیوں؟ ایک بہت بڑے خطرے کی وجہ سے کہ اس سے ہائپر انفلیشن پیدا ہوگی۔ ان دنوں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کافی سیانے ہو گئے ہیں اور تمام سبق سیکھ چکے ہیں اور اب اس لیے ایسا نہیں ہو گا۔ ایسے ہی جیسے 2008ء میں سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن بہت شیخی بگھار رہا تھا کہ اس نے عروج و زوال کا چکر ختم کر دیا ہے۔
مرکزی بینک پہلے ہی اس پالیسی پر عملدرآمد کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے مرکزی حکومتی قرضے کا 10 فیصد فیڈرل ریزرو کے پاس ہے۔ یورپی مرکزی بینک کو بحران کے بعد کے چند سالوں میں حکومتی قرضوں میں خطرناک اضافے کا سامنا کرنا پڑا جس نے چار سال کے عرصے کے دوران اپنے قومی مرکزی بینکوں کے ذریعے حکومتوں کو 1.9 ٹریلین یوروز کے حکومتی قرضے دیے۔ یہ ریجن میں کل یورو زون حکومتی قرضوں کے 20 فیصد کے قریب ہے۔ اب مرکزی بینک اس کو مزید بڑھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

یورپی مرکزی بینک جسے آئینی طور پر حکومتی خساروں کو مدد فراہم کرنے کا آئینی طور پر مجاز نہیں سمجھا جاتا تھا، اس نے 750 بلین یورو کے بانڈز خریداری کے پروگرام کا اعلان کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ اپنی کسی بھی ماتحت حکومت کو ادھاری لاگت کو کم کرنے کے لیے مدد فراہم کرے گا۔ فیڈرل ریزرو نے لا محدود قسم کی ٹریژری سیکوریٹیز خریدنے کا اعلان کیا ہے اور 350 بلین یوروز کی پہلی قسط پچھلے ہفتے میں خریدی گئی۔ فیڈرل ریزرو کو نہ صرف یہ کہ شارٹ ٹرم حکومتی سیکیورٹیز خریدنے کی بلکہ طویل مدتی سیکیوریٹیز اور ریاستی و میونسپل بانڈز کی خریداری کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ لازمی طور پر مرکزی بینک آنے والے سال میں پوری امریکی حکومت کو مالی امداد فراہم کرنے جائے گا۔ ماضی میں ہمیں اس طرح کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔

ایک قومی بینک

نہ صرف یہ کہ مرکزی بینک حکومتی بجٹ کو فنڈ کرنے کی طرف جائے گا بلکہ یہ کمرشل بینکوں کا کردار بھی خود نبھانے جا رہا ہے۔ قرضوں کی ضمانتوں کا ڈیفالٹ کر جانا، کمپنیوں کا دیوالیہ پن وغیرہ کمرشل بینکوں کی مزید رقم ادھار دینے کی صلاحیت پر (اگر وہ مزید قرضہ دینا بھی چاہیں) بہت دباؤ پیدا کر رہی ہیں۔ اور اس خلا کو حکومتیں اور مرکزی بینک پورا کرنے جا رہے ہیں۔ جرمنی کی حکومت نے اپنے انویسٹمنٹ بینک سے 800 بلین یوروز کے ادھار کی اجازت دے دی ہے۔ دو ٹریلین ڈالر کے امریکی ریسکیو پیکج میں سے 850 بلین ڈالر کاروباروں کو قرض دینے کی امداد کے لیے رکھے گئے ہیں اور اس میں 350 بلین روپے چھوٹے کاروباروں کے لیے بھی شامل ہیں۔مرکزی بینک بھی اپنے اقدامات کو بڑھا رہے ہیں۔

فیڈرل ریزرو نے، قرضوں کی مارکیٹ کے لیے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، کے حل کو نظر میں رکھتے ہوئے اقدامات کے نئے سلسلے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے 250 بلین یورو کی مالیت کے برابر قرضوں کی ضمانتوں کی سیکورٹیز خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کاروباروں کو ادھار دینے کے ایک عام سطح کے پروگرام کی تیاری کر رہا ہے جس کا مقصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں تک پہنچنا ہے۔ یہ سب اس کی یقین دہانی کرانے کے لیے ہے کہ ہر جسامت کے کاروباروں کے لیے غیر محدود کریڈٹ دستیاب ہے۔ جیسا کہ جے پی مورگن میں ایک اہم امریکی معاشی تجزیہ کار کہتا ہے فیڈرل ریزرو اپنے آپ کو مرکزی بینک سے کمرشل بینک میں تبدیل کرتا جا رہا ہے۔

گہرے بحران میں دھنسا ہوا نظام

وہ تمام اقدامات جو حکمران طبقہ اٹھا رہا ہے ان کا مقصد صاف ہے: تمام تر کاروباروں اور محنت کشوں کو وبا کے خاتمے تک مصنوعی طور پر زندہ رکھا جائے لیکن ابھی تک اس بحران کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ یہ ایک ایسے نظام کا خاتمہ ہے جس کی زندگی کو کئی عشروں تک مصنوعی بنیادوں پر برقرار رکھا گیا ہو۔

قرضوں کا پھیلاؤ 09-2008ء میں شروع نہیں ہوا بلکہ یہ اس سے بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ وہ طریقہ جس سے یہ نظام 1970ء کے بحران سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اس طریقہ کارنے ہی آج آنے والے بہت بڑے بحران کے لیے راستہ صاف کیا ہے۔

سستے قرضے زائد پیداواریت کے بحران پر غلبہ پانے کا ایک طریقہ تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی رہیں اور عام لوگ صلاحیت نہ ہونے کے باوجود خریداری کرتے رہیں۔ بالآخر قرضوں کا پھیلاؤ ایک حد تک پہنچ جاتا ہے۔آپ شیطان کو خود سے زیادہ عرصے تک دور نہیں رکھ سکتے۔
ہم نے پچھلے عشرے میں بہت سارے مضامین میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ یہ بحران اس وائرس نے پیدا نہیں کیا اس وائرس نے اس بحران کو صرف تیز کر دیا ہے۔اس بحران نے ان تمام دراڑوں کو واضح کیا ہے جو پہلے سے نظام میں موجود تھیں۔

بہت سارے معیشت دان اور سیاستدان توقع کر رہے ہیں کہ تھوڑے سے تیز زوال کے بعد معیشت بحال ہونا شروع ہو جائے گی۔ اور اگر یہ بحران کچھ عرصہ پہلے آیا ہوتا تو ایسی صورتحال ہوتی کہ نظام نسبتاً زیادہ تیزی سے بحال ہونے کی طرف جاتا۔ تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔جرمنی اور جاپان کی معیشتیں پہلے سے ہی زوال میں تھیں اور اب امریکہ میں ٹرمپ کے ٹیکس چھوٹوں پر مبنی معاشی محرک کے اثرات ختم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

چینی معیشت نے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے قرضوں کے پھیلاؤ کے واپسی کے امکانات کے ختم ہونے کے بعد سست روی شروع ہونے کے امکانات دکھائے ہیں۔ٹرمپ کی جانب سے شروع کیے جانے والے تجارتی تنازعات نے عالمی تجارت پر بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں۔اگر کسی جگہ بحالی موجود تھی تو وہ بھی اب ختم ہو گئی ہے۔

اس لیے اب یہ جو اقدامات اٹھائیں گے وہ عارضی نوعیت کے نہیں ہوں گے۔اس کی بجائے اب ریاست کو مستقل بنیادوں پر معیشت کو سپورٹ کرنا پڑے گا،کیونکہ اس وبا کے ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ مجبور ہوں گے کہ ایسا کرتے رہیں۔ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ پیداواری قوتیں نجی ملکیت کی حدود سے کہیں زیادہ پروان چڑھ چکی ہیں۔ سرمایہ داری مزید ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کر سکتی۔اور واحد راستہ جس سے بورژوازی اس نظام کی پیوندکاری کر سکتی ہے یہ ہے کہ وہ ریاست کو پورے نظام کو قبضے میں لینے دے۔

آج کی معیشت کا دو عالمی جنگوں کے دور کی جنگی معیشتوں سے موازنہ مناسب ہے۔آج سرمایہ داری کو 1914 ء سے 1945 ء کے عرصے کے دوران کے بحران جیسے بحران کا سامنا ہے اگرچہ موجودہ بحران اس سے بھی زیادہ گہرا ہونے جا رہا ہے۔

لیکن یہ سب کچھ کسی قیمت کے بغیر نہیں ہوگا۔مزدور تحریک میں موجود سرمایہ داری کے محافظین کی خواہشات کے باوجود مفت میں کچھ نہیں ملتا۔وہ جس پالیسی پر آج عمل پیرا ہیں اسے 2008 ء تک پاگل پن کہا جاتا تھا اور ایسا بغیر کسی وجہ کے نہیں تھا۔ ایسے وقت میں جب پیداواریت جمود کا شکار ہو یا حتیٰ کہ گراوٹ کا شکار ہو نوٹ چھاپنا افراطِ زر کو جنم دے گا۔کسی قسم کے کنٹرول کے بغیر ایسا کرنا ہائپر انفلیشن کو جنم دے گا۔ یہ وینزویلا کے صدر کی معاشی پالیسیوں کی غلطیوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ کچھ ہے جو جرمنی کی حکومت نے 1920ء کے ابتدائی دنوں میں کیا تھا جس سے انقلابی بحران کا جنم ہوا۔

پچھلے عشروں میں اس کا ویسا اثر نہیں ہوا،ایسا اس وجہ سے تھا کہ ایک جانب انہوں نے پیدا کی جانے والی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ کارپوریشنوں کے حوالے کر دیا اور یہ سب حقیقی معیشت تک نہیں پہنچ سکا بلکہ یہ بہت بڑے اثاثہ جاتی بلبلوں کے بننے کی وجہ بنا۔ اس پر مزید یہ کہ مرکزی بینکوں نے جو اقدامات کیے وہ افراطِ زر کا باعث بننے کی بجائے معیشت کو ڈی فلیشن (تفریطِ زر)سے بچا نے کا باعث بنے۔

وہ اب جو کچھ تجویز کر رہے ہیں وہ پیمائش و پیمانے کے حوالے سے بہت دور رس ہے۔مرکزی بینک اور حکومتیں پہلے سے بڑھ کر براہ راست مداخلت کر رہی ہیں۔اس وقت، جیسا کہ وہ بیان کر رہے ہیں، مسئلہ صرف طلب کا نہیں بلکہ بہت سی منڈیوں میں رسد کی بھی شدید کمی ہے۔ وبا کی وجہ سے پیداوار ی صلاحیت تباہ ہوتی جا رہی ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ کتنی واپس بحال ہونے کی طرف جائے گی۔سرمایہ داری ایک پر انتشار نظام ہے جو کبھی بھی منصوبہ بندی اور کنٹرول کی اجازت نہیں دے گا۔بحران کے دنوں میں تو یہ اور بھی ناقابل انتظام ہو جاتا ہے اور بھی پر انتشار و ناقابل پیش گوئی ہو جاتا ہے۔

پہلے ہی ٹوائلٹ پیپر،میڈیکل کے آلات اور خوراک جیسی چیزوں میں افراطِ زر ہے۔ایسا دوسرے شعبوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جن کو پیداواری رکاوٹ کا سامنا ہے یا جو کھپت کی اشکال میں تبدیلی لا رہے ہیں۔حالات مزید خراب ہونے کی طرف ہی جائیں گے۔

قیمت کون چکائے گا؟

کھرب پتی رچرڈ برنسن نے ریاست سے اپنی ائیر لائن کمپنی ”ورجن اٹلانٹک“ کے لیے بیل آؤٹ کا مطالبہ کیا اور اسی وقت اس نے اپنے ملازمین کو بغیر اجرت کے چھٹیوں پر جانے کا بھی کہا۔

بالآخر کسی نہ کسی کو تو اس کی قیمت چکانی ہے۔ ہر جگہ بورژوازی ان معنوں میں سوشلسٹ بن گئی ہے کہ وہ چاہتی ہے ریاست ان کو بیل آؤٹ کرے۔ لیکن وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر اس سب کا بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیں گے اور انہیں قیمت ادا کرنے پر مجبور کریں گے۔ ائیر لائنوں کے اقدامات میں بورژوازی کے رویوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کھرب پتی رچرڈ برنسن نے ریاست سے اپنی ائیر لائن کمپنی ”ورجن اٹلانٹک“ کے لیے بیل آؤٹ کا مطالبہ کیا اور اسی وقت اس نے اپنے ملازمین کو بغیر اجرت کے چھٹیوں پر جانے کا بھی کہا۔ ’ورجن اٹلانٹک‘ کے اجرتوں کے بل کی لاگت 40لاکھ یورو فی ہفتہ کے لگ بھگ ہو گی جس کا مطلب ہے کہ برانسن صرف چار بلین یوروز کے ساتھ بیس سالوں تک ریاستی مدد کے بغیر ان بلوں کو ادا کر سکتا ہے۔

اگر وہ قرضوں کو پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے کا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں تو یہ فقط افراطِ زر کو جنم دینے کا باعث ہوگا جو پھر محنت کشوں کی اجرتوں اور نسبتاً خوشحال مزدوروں کی بچتوں کو کاٹنے کی طرف جائے گا۔ بورژوازی مشکلات سے آگاہ ہے۔ انہوں نے کارپوریٹ بیل آؤٹ پر ہونے والی تمام خطرناک تنقید کو چپ کرانے کے لیے بارہ سو ڈالر کا ایک چیک امریکہ کے تمام شہریوں کے لیے جاری کیا ہے۔ جیسا کہ وال سٹریٹ جنرل نے پچھلے ہفتے لکھا:

”کانگریس میں شامل کچھ لوگ صنعتوں کی امداد کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والے عام امریکیوں کو نقد ادائیگیوں کو یقینی بنانے پر زور دے رہے ہیں۔اور منگل کے دن صدر ٹرمپ کی حمایت کے بعد اس خیال نے بہت تقویت پکڑ لی ہے۔ایسی ادائیگیاں عوامی مقبولیت حاصل کریں گی اور کاروباروں کی امداد کی پالیسی پر تنقید ختم کرنے میں مدد دیں گی“۔

یہ آج تو اس تنقید کو ختم کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن آنے والے دو ایک سالوں میں ان بیل آؤٹس کے لیے کٹوتیوں کے پیکجز کے لیے دلائل دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔

بِن بارنیک نے تنبیہ کی کہ وہ حیران تھا کہ 09-2008ء کے بیل آؤٹس نے عوامی تحریکوں اور شدید ردِ عمل کو جنم کیوں نہیں دیا۔ لیکن ردعمل پیدا ہوا تھا گو کہیہ تھوڑا دیر سے ضرور ہوا۔ گزرے چند سال بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش کے سالوں میں سے تھے۔ موجودہ بحران جلتی پر تیل کا کام دے گا۔بورژوازی نظام کی پیوندکاری کے لیے جو بھی اقدامات اٹھائے گی وہ طبقاتی جدوجہد کی نئی لہروں کو جنم دیں گے۔

Comments are closed.