سانحۂ ساہیوال: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں!

|تحریر: آصف لاشاری|

گذشتہ روز انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سانحۂ ساہیوال کا فیصلہ سنا دیا اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ سانحۂ ساہیوال کے مقتولین ’شک‘ کی بنا پر دن دیہاڑے بھون دیے گئے تھے جبکہ ان کے قاتلوں کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا گیا۔ ہم ایسے نظام میں زندہ ہیں جہاں شک کا نتیجہ بھی انسان کے طبقاتی کردار کے ساتھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ شک کا نتیجہ ہمیشہ امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے حق میں اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے خلاف جاتا ہے۔ سانحۂ ساہیوال کیس کا فیصلہ وہی ہوا جس کی ہر صاحبِ شعور شخص کو توقع تھی۔ لوگوں کی اکثریت ہر گزرت دن اور واقعات کے ساتھ اس نظام کی حقیقت سے روشناس ہو رہی ہے اس لیے لوگوں کی اکثریت کے لیے یہ فیصلہ کسی تعجب کا باعث نہیں بنا بلکہ لوگ یہی کہتے ہوئے دیکھے گئے کہ ہم جانتے تھے یہی ہونا تھا۔ رحیم یار خان میں پولیس تشدد سے جاں بحق ہونے والے صلاح الدین کے قاتلوں کو بھی اسی طرح چند دن پہلے چھوڑ دیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا پر خبر چل رہی تھی کہ مقتولین کے ورثا، جو کہ اس کیس کے مدعی بھی تھے، نے اس فیصلے پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی۔ یاد رہے کہ مقتولین کے ورثا نے ہی سیکورٹی خطرات اور دھمکیوں کے پیشِ نظر اس کیس کو ساہیوال سے لاہور منتقل کروایا تھا۔ کوئی بھی باشعور شخص اس پسِ منظر میں مقتولین کے ورثا کے عدالتی فیصلے پر مکمل اطمینان کو سمجھ سکتا ہے۔ مقتولین کے ورثا جو میڈیا کے وقتی شور اور سیاسی دلالوں کے بیانات سے انصاف کے حصول کی توقع کر رہے تھے، انہیں اس نظام اور اس کے طاقتور مقتدر اداروں کی اصلیت اور درندگی کا بہت جلد اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ایسے میں انہوں نے مزید بچوں کو یتیم کرانے یا غائب کر دیے جانے سے دیت لے کر یا بغیر دیت لیے چپ کر جانے میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔ اسی طرح عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان بھی بیوی بچوں والے ہیں اور ان کی بھی ضروریات ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے بچوں کی بڑی سے بڑی گاڑی لینے کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی تکمیل کرنی ہوتی ہے، کسی پوش علاقے میں عالیشان گھر بھی ضروری ہے، اور ویسے بھی اس بڑھتی مہنگائی میں جہاں ایک محنت کش کا گزارا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو معزز جج صاحبان کے لیے ’گزر بسر‘ کتنی مشکل ہوچکی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اس لیے وہ بھی چند لاکھ روپے لے کر کیس کا فیصلہ کر دینے کو ہی عافیت جانتے ہیں۔ انصاف کی دیوی سے ان کو بھی کوئی لگاؤ نہیں اور وہ ویسے بھی اندھی ہوتی ہے مگر بس کمزور اور عام لوگوں کے لیے۔

جہاں تک سانحہ ساہیوال میں مارے جانے والوں کی بات ہے، وہ عام انسان تھے ان کا مارا جانا یا زندہ رہنا ایک جیسا ہی ہے۔ ویسے بھی خاص لوگوں کی نظروں میں عام لوگوں کی اوقات کیڑوں مکوڑوں جیسی ہی ہے۔ یہاں تو یہ ’اتفاقاً‘ یا ’ارادتاً‘ حساس اداروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ اسی دن وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر بے نام موت مر جاتے۔ جہاں تک چھوٹے معصوم بچے منیب کا تعلق ہے اس کو تو بس ٹانگ میں ایک آدھ گولی لگی تھی وہ معذور ہو کر بھی محنت مزدوری کر کے اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ ویسے بھی غیر اہم عام انسانوں کی خاطر ملک و قوم کی حفاظت کرنے والے حساس اداروں کے اہم اہلکاروں یا افسران کو سزا دینا انتہائی ناانصافی ہوتی۔

ہم جس نظام کے اندر رہے ہیں اس کے اندر کروڑوں عام انسانوں اور ان کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ طبقاتی استحصال و اجرتی غلامی پر مبنی موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت، برابری، انصاف، انسانی حقوق، اخلاقیات وغیرہ کی چیخ و پکار کا مقصد بھی اسی تلخ حقیقت کی پردہ پوشی کرنا ہے۔ جب نظام کے اندر سماج کو ترقی دینے کی صلاحیت کسی قدر موجود ہو تب تو شاید اس طرح کے لیکچرز سے کچھ عرصے کے لیے لوگوں کو بیوقوف یا کم علم رکھا جا سکتا ہے لیکن ایسے عہد میں جب نظام زوال پذیر ہو کر ٹوٹ کر بکھر رہا ہو ایسے عہد میں اس طرح کی بکواسیات ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ کروڑوں عام لوگ اپنے ذاتی تجربے سے روز بروز ان تلخ حقائق سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ موجود نظام کے اندر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ در حقیقت سرمایہ دارانہ ریاست کا حقیقی کردار ہی محنت کش عوام پر جبر کو قائم رکھنا اور سرمایہ دار طبقے کی دولت، جائیداد اور ان کی مراعات کا تحفظ کرنا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور زوال پذیری کا شکار ہو کر پوری دنیا میں عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کو دس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر سرمایہ داری ابھی تک اس بحران سے باہر نہیں نکل سکی اور اب ایک اور بڑے معاشی بحران کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر قائم ریاستیں اس نظام کی بوسیدگی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام سماجوں کے اندر بحرانی کیفیت ہے۔ پوری دنیا میں حکمران طبقہ اپنی اپنی ریاستوں کو چلانے میں ناکام ہو رہا ہے اور خوف اور تذبذب کا شکار ہے۔ عالمی تعلقات مستقل تغیر کی کیفیت میں ہیں۔ موجودہ نظام دنیا بھر میں لوگوں کو روزگار، علاج، تعلیم، خوراک اور پر امن زندگی دینے کی صلاحیت سے قاصر ہو چکا ہے اور نظام کے بحران کا بوجھ دنیا بھر میں عام محنت کش انسانوں کے کندھوں پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ تقریباً دنیا کے ہر سماج میں عوام سے بنیادی سہولیات چھینی جا رہی ہیں۔ عوام پر ہونے والے اخراجات میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں اور دن بدن عام لوگوں پر نئے نئے ٹیکسز نافذ کیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس نظام کے خلاف محنت کش عوام کی تحریکیں ابھر رہی ہیں جو اس نظام کو چیلنج کر رہی ہیں اور ایک بار پھر انقلاب اور انقلابی قیادت کا سوال ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت لبنان، چلی، ایکواڈور، کیٹالونیا، ہانگ کانگ اور لبنان انقلابی ابھار کی لپیٹ میں ہیں۔

پاکستان بھی اس وقت شدید ترین معاشی و سیاسی بحران کا شکار ہے۔ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف کے نسخۂ کیمیا پر عملدرآمد کرتے ہوئے مزید معاشی و سیاسی بحرانوں کو پیدا کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے نجکاری کی پالیسی کے ذریعے لاکھوں لوگوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں،سبسڈیوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، امیر طبقے کو مکمل استثنا دیتے ہوئے محنت کش عوام پر بھاری ٹیکسز نافذ کیے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی حالیہ لاڈلی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی سابقہ لاڈلی جماعتوں سے بھی زیادہ بری طرح سے ناکام ہوئی ہے اور اس کی مڈل کلاس میں موجود تھوڑی سی حمایت بھی ختم ہونے کی طرف گئی ہے۔ ملکی سیاسی بحران اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس وقت پاکستان کے حکمران طبقے کے پاس کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں بچی جس کو استعمال کرتے ہوئے نظام کو چلایا جا سکے۔ ملکی معاشی و سیاسی بحران تیزی سے ریاستی بحران کو بڑھا رہا ہے اور ریاستی اداروں کے اندر اور دیگر اداروں کے ساتھ تضادات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ریاستی ادارے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ریاستی ادارے جتنا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں اتنا ہی ان کے جبر اور بوکھلاہٹ کے اندر بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر حکمران طبقے کی گرفت دن بدن کمزور ہو رہی ہے اور محنت کش عوام کی نجکاری و دیگر مسائل کے گرد تحریکیں ان کی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر واپسی کا اعلان کر رہی ہیں۔ سانحۂ ساہیوال جیسے واقعات کا خاتمہ اس ظالمانہ نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔ جب تک یہ زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے سانحۂ ساہیوال جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ یہ نظام صرف یہاں ہی نہیں پوری دنیا میں جنگوں،خانہ جنگیوں، سماجی عدم استحکام اور بربریت کو جنم دے رہا ہے اس لیے آج اس نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اس کو ختم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں جبر و تشدد کا شکار عام محنت کش لوگ ہی طبقاتی استحصال و جبر و تشدد پر مبنی اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور ایک منصفانہ غیر طبقاتی معاشرے کو قائم کر سکتے ہیں۔

Comments are closed.