دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا!

|تحریر: خدیجہ ارسلان|

سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے طبقاتی تقسیم کی نمو نے معاشرے میں ایسی سماجی ناہمواریاں پیدا کی ہیں کہ حقیقت نے ایک مضحکہ خیز صورت اختیار کرلی ہے۔ عوام ایک تماشائی کی طرح حکمران طبقے کے داؤ پیچ، بیانات اور کھیل تماشے روز ہی دیکھتے ہیں۔ کبھی الیکشن میں کھڑے لیڈران کی پرجوش تقریریں تو کبھی اچھے مستقبل کے دعوے۔ کبھی بھٹی میں مزدوروں کو جلانے والوں کے منہ سے انقلابی نغمے اور کبھی چیف جسٹس کے ہسپتالوں کے دورے۔ کبھی سبھی لٹیروں کے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات اور کبھی میڈیا والوں کو کوے کو سفید کہنے کی پرجوش کاوشیں۔ یہ سب مسخرہ پن کامیڈی ہی تو ہے لیکن حقیقت کی یہ مضحکہ خیز صورت دراصل سرمایہ داری نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا رد عمل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اتنی سکت نہیں کہ لوگوں کو روٹی یا کوئی آسائش دے سکے۔ ایسے میں اگر کوئی دعویٰ کرے کہ وہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک کر دے گا یا صرف اورنج ٹرین سے آپ کے گھر کاچولہا چلنے لگے گا ،تو عام شخص کے لیے یہ ایک لطیفہ ہی ہوگا۔

حکمران طبقے کی حالت سترہویں صدی میں لکھے ڈان کیخوٹے سے قطعاً مختلف نہیں جو سپین میں معاشرتی تضاد اور ٹوٹ پھوٹ کے بعد اپنے طبقے کی دیوالیہ اقدار کو بچانے کیلئے ایک مریل گھوڑے پر اپنے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے نکلا تھا۔ راستے میں دشمن تو کوئی ملا نہیں لہٰذا پن چکیوں کو ہی دیوہیکل دشمن سمجھ کر ان سے ہی نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی کسی طور ڈان کیخوٹے کے مضحکہ خیز کردار سے چنداں مختلف نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کا بیڑہ اٹھائے ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں اور پھر خود ہی ان سے اعلان جنگ کرتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ڈان کیخوٹے دیانتدار تھا جبکہ یہ بد دیانت اور منافق ہیں۔ حقیقت کی یہ مضحکہ خیز صورتحال ایک ٹریجڈی ہے، ایک المیہ ہے جس میں حکمران صرف نوٹنکی، دھوکے بازی اور عیاری سے عوام کی امیدوں، ان کے اعتبار، ان کی سادگی اور ان کی محنت کا تمسخر اڑاتے ہیں اور پھر یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ اس سارے کھیل میں مظلوم متاثرین شامل ہوکر ان کو داد و تحسین دیں کہ ’’ہاں بھائی اچھا الو بنایا ہمیں! ‘‘

جہاں عوام روزانہ نت نئے پلاٹ ،کہانی اور حکمرانوں کے مسخرانہ کرداروں کے عملی مذاق کا تختہ مشق بنتے ہیں وہاں علم و فن سے وابستہ ادیبوں، کالم نگاروں اور نام نہاد دانشوروں کا ایک گروہ حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے ایسے ایسے منظر نامے پیش کرتے ہیں کہ عوام کی نظریں پھر سے اسی کھیل پرجم جائیں جس سے وہ چھٹکارا چاہتے ہیں۔ ان کھلاڑی لبرل ادیبوں، کالم نگاروں اور دانشوروں کا کام ’ڈسٹرکشن‘ یا ’اِنتشارِ توجہ‘ ہے یعنی عوام کی نظریں کھیل پرہی جمی رہیں اور جو کھیل کے پیش کار اور ہدایت کار ہیں وہ پس پردہ اپنا کھیل جاری رکھیں۔ مثال کے طور پر آج کل عالمی ذرائع ابلاغ میں چرچا ہے کہ ٹرمپ کے بال اورنج ہیں اور اس کے ہاتھ چھوٹے۔ اس کے ناک سکیڑ کر بات کرنے کا انداز مسخرانہ ہے اور اس میں وہ دانشورانہ حکمت نہیں جو امریکہ کے صدر کے شایان شان ہے۔ اس کے اخلاقی عیوب، انوکھا پن، جسمانی نقائص اور بے قاعدگی وغیرہ وغیرہ کی مثالوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی قابل تمسخر اعتراضات ہیں جس کی بنیاد پر اسے صدر نہیں ہونا چاہیے؟ حقیقت میں ٹرمپ ایک ظاہری علامت ہے اس سرمایہ دارانہ نظام کی جس کی جڑیں کھوکھلی ہیں اور یہ نظام گرنے کو تیار کھڑا ہے۔ ایسے میں جو کوششیں بھی حکمران طبقہ اس نظام کوسنبھالنے کی کرتا ہے وہ مضحکہ خیز صورت حال اختیار کرلیتی ہیں۔ ایسے میں لبرل دانشوروں کا کام صرف ایک شخص کا تمسخر اڑا کر دراصل اس نظام کو بچانے کی آہ ہو بکا ہے جواپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے خوبرو چہرے کے پیچھے سفاکانہ کرداراور ہیلری کی متانت کے پیچھے جنگ کی ہولناکیاں چہ معنی نداردکیونکہ میک اپ کی غازت میں حقیقت کو چھپانا ہی ان کادھرم اور پیشہ ہے۔

ہمارے ہاں بھی کچھ خوش قسمت صحافی ایسے ہیں جنہیں بظاہر فوج کے خلاف لکھنے کی اجازت ہے۔ طنز و مزاح کی آڑ لے کر یہ کالم نگار اپنے لیے ایک ایسی سپیس یا جگہ پیدا کرتے ہیں جس میں قاری کو یہ گمان ہوتا ہے کہ کالم نگار کوان سے ہمدردی ہے۔ بیشتر لیفٹ کے گروہ انہیں اینٹی اسٹیبلیشمنٹ سمجھ کر ان کو انقلابی تک منوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اور ان کو اس قدر کاریگر طنز نگار سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست کو بھی چکمہ دے جاتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ قارئین کے سامنے ان شعبدہ بازوں کی حقیقت بیان کی جائے۔ 

لیکن اس سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ مزاح ہے کیا؟ کیا واقعی ایک تلخ کردار کو مزاحیہ نام دے کر آپ اس کے سفاکانہ کردار کو مندمل کر سکتے ہیں؟ کیا طنز نگاری لفظی بازیگری اور شعبدہ بازی کا نام ہے؟ ادب میں طنزیہ اور مزاحیہ ادب کی حیثیت المیہ اور تنقیدی ادب کے مقابلے میں ثانوی ہے۔ تنقیدی ادب اپنے سنجیدہ عناصر کے باعث ایک ردعمل کو بھی تحریک دے سکتا ہے لیکن طنزیہ اور مزاحیہ ادب اپنی ملائمت کے باعث قابل برداشت ہوتا ہے اور کسی بھی ناگوار ردعمل کو تحریک نہیں دیتا۔ کامیڈی کا بنیادی مقصد سماجی نظام کو تسلیم کرنا اور کروانا ہوتا ہے چنانچہ یہ نہ صرف افراد کو اکٹھا ہونے اور مل جل کر ہنسنے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ ہراس فرد کو نشانہ تمسخر بھی بناتی ہے جو سماجی نظام سے خود کو پوری طرح ہم آہنگ نہیں کر پاتا۔ ارسطو نے ہنسی کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ،’’ ہنسی کسی ایسی کمی یا بدصورتی کو دیکھ کر معرض وجود میں آتی ہے جودرد انگیز نہ ہو۔‘‘ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مزاح کے تبسم میں ترحم شامل ہوتا ہے یعنی جس پر وہ طعن کرتا ہے، اس سے اس کو محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک عام مثال یہ ہے اگر ایک کردار اسٹیج پر اپنے کسی جسمانی نقص کو مذاق بنائے اور دیگر کردار بھی اس نقص پر ہنسی اور ٹھٹا اڑائیں تو دیکھنے والوں میں اس کردار کے لیے ہمدردی اور محبت کے جذبات پیدا ہوجائیں گے۔ لیکن مزاح میں طنز ہی وہ نشتر ہے جو بنیادی طور پرایک ایسے باشعور، حساس اور دردمند انسان کے ذہنی ردعمل کا نتیجہ ہے جس کے ماحول کو ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں نے تختہ مشق بنا لیا ہو۔ طنز زندگی اور ماحول سے برہمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ طنز نگار جس چیز پر ہنستا ہے، اس سے نفرت کرتا ہے اور اسے تبدیل کر دینے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مزاح زندگی اور ماحول سے انس اور مفاہمت کی پیداوار ہے۔ جب معاشرے میں بھوک اور ننگ ہو تو اس میں طنز کو فروغ ملتا ہے۔ اور مروجہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے، نشتریت اور برہمی کے عناصر ابھرتے ہیں۔ ایسے ہی طنز اور سماجی شعور کی مثال ہمیں معروف نثر نگار منشی پریم چند کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ جس میں ان کی نظر اپنے ماحول کی ناہمواریوں پر مرکوز ہے۔ اور وہ ہمیں سماج کے ناسوروں کی طرف متوجہ کرنے کی برابر کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ جزیات نگاری اور ماحول کے افراد سے ہم آہنگی میں استحصال کرنے والوں پر طنز زہر میں ڈبو کر کرنے سے کہیں بھی نہیں چوکتے۔ گؤدان سے ایک معروف اقتباس ان کے طنزیہ انداز کا بہت اچھا نمونہ ہے۔۔ 

’’یہ تو پانچ ہیں مالک‘‘
’’ پانچ نہیں دس ہیں۔ گھر جا کر گننا‘‘
’’نہیں سرکار، پانچ ہیں‘‘
’’ایک روپیہ نذرانے کا ہوا کہ نہیں؟‘‘
’’ ہاں سرکار‘‘
’’ایک تحریر کا‘‘
’’ ہاں سرکار‘‘
’’ایک کاغذ کا‘‘
’’ہاں سرکار ‘‘
’’ایک دستوری کا‘‘
’’ہاں سرکار‘‘
’’ایک سود کا‘‘
’’ہاں سرکار‘‘
’’پانچ نقد، دس ہوئے کہ نہیں؟‘‘
’’ہاں سرکار، اب یہ پانچ بھی میری طرف سے رکھ لیجئے۔ ‘‘
’’کیسا پاگل ہے‘‘
’’نہیں سرکار، ایک روپیہ چھوٹی ٹھکرائین کا نذرانہ ہے۔ ایک روپیہ بڑی ٹھکرائین کا۔ ایک روپیہ چھوٹی ٹھکرائین کے پان کھانے کو۔ ایک روپیہ بڑی ٹھکرائین کے پان کھانے کو۔ باقی بچا ایک، وہ آپکے کریا کرم کے لیے‘‘۔ 

اس کے برعکس داستان امیر حمزہ اور بوستان خیال کی ظرافت زیادہ تر طفلانہ مذاق کو تسکین پہنچاتی ہے۔ ان داستانوں کے پلاٹ ایک بہت بڑے پیمانے پر آنکھ مچولی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اور ان کے مطالعوں سے جو ہنسی پیدا ہوتی ہے وہ زیادہ تر ہیرو کی لمحاتی فتح یا عیاریوں کی مخصوص چالاکی سے تحریک پاتی ہے۔ ان داستانوں میں عیار پیشہ ور ظریف ہوتے ہیں اور ہنسنا ہنسانا ان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ہنساتا ہے لوگ اس پر ہنستے ہیں اور وہ دوسروں کو بیوقوف بنا کر ان پر خندہ زن ہوتا ہے۔

اسی پس منظر میں اگر مقامی کالم نگاروں کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال واضح ہو تی ہے۔آج کل وسعت اللہ خان کے طنزیہ کالموں کے بہت چرچے ہیں اس لیے اس کی ہی مثال سے شروع کرتے ہیں۔ وسعت اللہ خان کے ایک کالم ’چور لے جائیں تو بھلے لے جائیں ‘جو 5 جون 2018ء کو شائع ہوا، اس سے ایک طنزیہ اقتباس پیش نظر ہے :

’’اگر آپ کا عملی فلسفہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسا طرزِ سیاست ہے جو ’’عوام کے ذریعے میری حکومت میرے لیے‘‘ کے اصول پر قائم ہے تو پھر ایسی جمہوریت کسی کی کٹھ پتلی یا داشتہ ہو یا لولی لنگڑی ہو یا حواس باختہ۔ میرا اس سے کیا لینا دینا۔ بھینس بھینس تجھے چور لے چلے۔ لے چلے تو لے چلے۔ چارہ اور باڑہ تو وہ بھی دیں گے۔ جو سیاستداں اکیس کروڑ کی آبادی میں سے ایسے چار ایمان دار، غیر جانبدار اور بااصول لوگ بروقت نہیں ڈھونڈھ سکتے جو نگراں حکومت چلانے کے اہل ہوں وہ کیسے یہ شور مچانے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم تو جمہوریت چاہتے ہیں مگر ہمیں کوئی روک رہا ہے۔ تو پھر جو روک رہا ہے وہ زیادہ اہل ہوا کہ آپ؟‘‘

مندرجہ بالا اقتباس میں عیارانہ مسخرہ پن انہیں مزاح سے اس قدر دور کردیتا ہے کہ مزاح کے نقطہ نظر سے ان کی پیدا کردہ ظرافت کا معیار نہایت پست ہو جاتا ہے۔ طبقاتی ناہمواریوں پر پردہ ڈال کر اور چھپا کر کچھ سطحی ناہمواریاں پیدا کرکے مزاح پیدا کرنے کی کاوش داستان امیر حمزہ کے عمرو عیار اور بوستان خیال کے سلطان ابو الحسن جوہر اور ان کے رفقائے کارسے قطعاً مختلف نہیں جو اپنی چالاکیوں اور کرتبوں سے ان داستانوں کی صبرآزما طوالت کو قابل برداشت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظالم اور تعفن زدہ نظام کی باقیات کو مزاح کے چھینٹوں سے معطر کرنے کی کوشش صرف وہی رد انقلابی کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنی روح فاؤسٹ(Faust) کی طرح مفیسٹوفیلیس (شیطان) کے پاس گروی رکھی ہو۔ یہاں طنزوہ سیاستدانوں پر کررہے ہیں لیکن کس کے حق میں؟ ان کی ہمدردیاں بیک وقت اس نظام کے تمام اہم ستونوں سے ہیں کہ آپس کی چپقلش میں کون جیت رہا ہے اور کون ہاررہا ہے۔ لیکن اس تمام منظر نامے میں عوام کے لیے ریاستی اداروں اور طاقتوروں سے مرعوبیت کی دعوت ہے۔ اس میں ظالم ریاستی کرداروں کو بہتر طور پر ظلم کرنے کی رعایت ہے اور قاری کے لئے رنج اور ذلت کی دوزخ۔ 

مزاح نگاری کا ایک کارآمد حربہ زبان و بیان کی بازی گری ہے۔ لفظی شعبدہ بازیوں اور تحریر و تقریر کی قلابازیوں سے ارتقائی منازل ایسے طے ہوں کے نہ معلوم پڑے کہ کون چت گرا اور کون پٹ۔ کالم نگاروں کے ایک سرخیل محمدحنیف بھی اس میں خاصا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ایک کالم ’دہشت گردی اور وردی‘ سے اقتباس، فرماتے ہیں : ’’دفاعی تجزیہ نگاروں سے اس لئے ڈر لگتا ہے کہ اس ملک کے دفاع کے لئے ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج موجود ہے۔ اب اگر اس فوج نے اپنے دفاع کے لیے سوٹڈ بوٹڈ چیتے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر چھوڑ رکھے ہیں تو ان سے تو خوف آنا ہی چاہئے۔‘‘ 

یہاں کالم نگار اس مزاح نگار کی مانند ہے کہ جن افراد یا اداروں کا وہ مضحکہ اڑاتا ہے ان کے ساتھ ایک ذہنی کھیل میں شریک ہو جاتا ہے اور اس سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔ اس ذہنی کھیل میں وہ دو طاقتوروں کے تضاد میں کبھی ایک سے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی دوسرے سے۔ اسی کالم کے اخیر میں وہ ایک سٹرامین یا جھوٹا گواہ بھی لاکھڑا کرتا ہے جوقاری کو تمام مسائل سے مکتی دلا کر سب کچھ ماننے پر تیار کرتا ہے۔ لفظی قلابازیوں سے کردار تبدیل ہوتے ہیں اور طنز کو استعاروں، علامتوں، مبہم اشاروں نے اتنے نقاب پہنا دئیے ہیں کہ صرف وہی لوگ جنہیں اس ماحول کی معطر تنہائی تک رسائی حاصل ہے، پوری طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ پیش خدمت ہے اس کالم کا آخری پیرا:

’’ دفاعی تجزیہ نگار بننے کا پہلا ہنر یہ ہے کہ کسی کو بات پوری کرنے نہ دو تو میرے کان میں بھی جانی پہچانی آوازوں میں ڈانٹ پڑنے لگی کہ سارا قصور ضیاء بیگ اور مشرف کا کیسے ہو سکتا ہے طالبان کس نے بنائے تھے؟ بینظیر بھٹو نے؟ مان لیا بینظیر نے بنائے تھے۔ یہ بھی اب تقریباً ثابت کر دیا گیا کہ اس کو مارا بھی طالبان نے تھا تو ہو سکتا ہے کہ وردی پہن کر منع ہوکہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے۔ لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ اپنے سویلین بھائیوں اور بہنوں کے انجام سے ہی کچھ سیکھ لیا جائے۔‘‘ 

محمد حنیف کے کالموں میں ظرافت کا استعمال اسی طور ہے کہ کسی طفلانہ کہانی میں مختلف کرداروں سے اخلاقی سبق حاصل کیا جا سکے۔ برے انجام سے بچنے کے لیے حکمرانوں کو تنبیہ کہ اپنی روش بدلیں، کچھ رحم کریں، کچھ اپنے پچھلوں کے اعمال سے سیکھیں اور قاری اور عوام پر دیا کریں۔ مفاہمت کے رس سے گھلی ان کی تحریریں جراحی طلب نظام کی ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے تدبیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔

سماجی شعور اور حقیقت ان تمام مزاح نگاروں کے نقطہ نظر سے بہت آگے کھڑی ہے۔ پی ٹی ایم اور دوسری مزدور تحریکوں نے اس منجمد معاشرے میں جو زلزلے پیدا کیے ہیں اس کے تھپیڑے نہ تو یہ نیولبرل آرڈر کے پیروکار مزاح نگاری اور انجام کے واسطے دے کر بچا سکتے ہیں اور نہ ہی طنز نگاری کی آڑ لیکر۔

یہاں ڈان کیخوٹے کا ہی ایک پس منظر ان مزاح نگاروں اور ان کے تشہیر کنندگان کے لئے موزوں ہوگا۔ ’’تمہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ جب معزز لوگوں کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا (جو تقریباً سارا سال ہی ہوتا ہے) تو وہ اپنا وقت بہادر سورماؤں کی شجاعت کے قصے پڑھ کر گزارتے ہیں۔ اب وہ یہ کام انتہائی خوشی سے کرتا تھا۔ اور آخر کار اس سلسلے میں اس نے تمام دیہاتی مشاغل کو خیرباد کہہ دیا۔ اور یہاں تک کہ اپنے بارے میں خیال کرنا چھوڑ دیا۔‘‘ 

حکمران طبقے اور ان کے جتھے داروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا انجام آن پہنچا ہے اور پرانی گلی سڑی اقدار اور رسم و رواج کا اب اس معاشرے میں کوئی کردار نہیں۔ غریب محنت کش، جنہیں اشرافیہ جاہل سمجھتی ہے، اصل حقیقت جانتے ہیں اسی لیے حکمران طبقے کی چکمہ دینے کی صلاحیت ہو یا عیارانہ مسخرہ پن وہ اسے ایک پورے طبقے کا پاگل پن ہی سمجھتے ہیں جس کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ پال لافارج (Paul Lafargue) اپنی تحریر’ری مینی سینس آف مارکس‘ (Reminiscence of Marx) میں لکھتا ہے کہ’’ ہر حکمران طبقہ اپنے بارے میں ایک ہی طرح کے دھوکے میں ہوتا ہے۔ اپنے خیالوں میں وہ فاتح اور ہیرو ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ انتہائی گھٹیا کاروبار زندگی میں ملوث ہوتے ہیں۔‘‘ 

مزاح نگاروں کے بے ڈول اور بے ڈھنگے کردار ہوں یا عیارانہ کرتب،’حقیقت‘ ان تمام حکومتی گماشتوں کے شعور سے بہت آگے کھڑی ہے۔ آخری کوشش کے طور پر کچھ ریاستی دلالوں نے محنت کشوں کے عظیم انقلابِ روس کی تذلیل کو مزاح کا رنگ دے کر نواز شریف کو محنت کشوں کا کامریڈ اور انقلابی لیڈر پیش کیا ہے۔ یہ تمسخر، یہ تذلیل اس جسمانی اور ذہنی دکھ اور تکلیف جومحنت کش اس سرمایہ دارانہ نظام میں ہر روز اٹھاتا ہے اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کہ یہ اپنے پست ذوق مزاح سے محنت کشوں کی عظیم روایات کا صرف مذاق ہی اڑا سکتے ہیں۔ سرمایہ داری کے خلاف آخری جنگ میں جب یہ محنت کش اتریں گے تو ان ریاستی دلالوں کے مضحکہ خیز کرداروں کو روند کر ہی ایک اجلی اور روشن صبح کا آغاز کریں گے۔ 

Comments are closed.