صحت سہولت کارڈ۔۔عوام دشمن سرکار کا نیا فریب

|تحریر: ڈاکٹر یاسر ارشاد|

تحریک انصاف کی قریب ساڑھے تین برس کی حکومت کے دوران زبردست معاشی گراوٹ نے سماج میں ایک شدید اضطراب کو جنم دیا ہے۔ حکومت کے خلاف غم و غصہ ایک حقارت آمیز نفرت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اپوزیشن، حکومت اور جرنیل شاہی کے بیچ اقتدار و اختیار کی رسہ کشی بھی اپنے عروج پر ہے۔ پچھلے ساڑھے تین برس میں اس حکومت نے ثابت کیا ہے کہ یہ پچھلی حکومتوں ہی کی طرح بلکہ شاید ان سے بھی زیادہ ظالم، بے حس، ڈھیٹ، بے شرم، کرپٹ، ملکی و بین الاقوامی سرمایہ داروں کی دلال اور محنت کش عوام کی دشمن ہے۔ کسی بھی سرمایہ دار حکومت کی طرح شاید تحریک انصاف کی بھی خواہش تھی کہ ایک طرف سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ بھی جاری رہے مگر دوسری طرف عوام کو بھی اتنا ریلیف ضرور دیا جائے کہ عوام خاموش رہیں اور حکومت کے خلاف نفرت ایک حد سے زیادہ نہ بڑھ سکے تاکہ حکومت کو استحکام نصیب ہو اور اس کا دورانیہ طویل تر کیا جا سکے۔ لیکن عالمی سرمایہ دارانہ بحران اور پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری میں ایسا ممکن نہیں۔ اب تک محنت کش عوام، کسانوں اور طلبہ پر تاریخ کے بدترین ننگے حملے کیے گئے ہیں۔ کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا جا سکا۔ تحریک انصاف انتخابات سے پہلے کیے گئے کسی وعدے کو پورا نہیں کر سکی۔ حالت یہ ہے کہ حکومت اور اس کے حامیوں کو یہ دعوے یاد کرائے جائیں تو وہ چڑ جاتے ہیں۔ بہت دفعہ کوئی حکومتی حامی عوام کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کو چھیڑنے کی غرض سے بھی طنزیہ لہجے میں ان وعدوں کا ذکر کر دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا اصل مقصد سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا اور عوام کی کھال کھینچنا ہی ہے۔ لیکن سیاسی لیڈر اس عمل کوانتہائی مکاری اور عیاری سے عوام کا مفادبنا کر پیش کرتے ہیں اور اسی فراڈ کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔

صحت کارڈ کا حالیہ منصوبہ بھی اسی بے ایمانی اور عوام دشمنی کا ایک نیا اظہار ہے۔ اس گھناؤنے منصوبے کے بعد ملک میں لاکھوں افراد علاج کی بنیادی ترین سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے، لاکھوں ملازمین کا روزگار ختم ہو جائے گا اور سرکاری ہسپتالوں کو بند کردیا جائے گا جبکہ دوسری جانب انشورنس کمپنیاں، صحت کے شعبے سے متعلقہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور نجی ہسپتال اربوں اور کھربوں روپے کی لوٹ مار کریں گے۔ لیکن سرکاری کمپیئن کے ذریعے عوام سے مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے اور غریب مریضوں کے قتلِ عام کے اس منصوبے کو حکومت کی ایک شاندار کامیابی اور غریب کی ہمدردی کی تاریخی مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس نظام زر میں سماجی گراوٹ اتنی شدید ہو چکی ہے کہ جلاد نما سیاسی لیڈروں کو مسیحا بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور بیماروں سے دوائی اور علاج چھیننے والے فرعون صفت حکمرانوں کو نیک اور غریبوں کا ہمدرد بتایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ اس کارڈ کا تجزیہ محنت کش عوام کے نقطہ نظر سے بھی کیا جائے۔

صحت کارڈ کا حالیہ منصوبہ بھی اسی بے ایمانی اور عوام دشمنی کا ایک نیا اظہار ہے۔ اس گھناؤنے منصوبے کے بعد ملک میں لاکھوں افراد علاج کی بنیادی ترین سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے، لاکھوں ملازمین کا روزگار ختم ہو جائے گا اور سرکاری ہسپتالوں کو بند کردیا جائے گا جبکہ دوسری جانب انشورنس کمپنیاں، صحت کے شعبے سے متعلقہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور نجی ہسپتال اربوں اور کھربوں روپے کی لوٹ مار کریں گے۔

خیبر پختونخوا کے بعد معمولی ردو بدل کے ساتھ اس پروگرام کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب میں کمپنیز ایکٹ 2017ء کے تحت پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو منیجمینٹ کمپنی (Punjab Health Initiative management Company) بنائی گئی ہے۔ اور سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی سے ہیلتھ انشورنس کرائی جائے گی۔

یکم جنوری 2022ء کو عمران خان نے اپنے ایک خطاب میں صرف پنجاب میں صحت سہولت کارڈ کی مد میں چار سو چالیس ارب روپے دینے کا اعلان کیا جو تین سال کی مدت میں خرچ کیا جائے گا۔ یہ ایک بہت خطیر رقم ہے اور اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالی سال 22 -2021ء میں پنجاب کا صحت کا سالانہ بجٹ 370 ارب روپے ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صحت سہولت کارڈ شعبہ صحت سے متعلق پنجاب کی تاریخ کا شاید سب سے بڑامنصوبہ ہے۔

اعلان کے مطابق ہیلتھ کارڈ پنجاب کے تین کروڑ خاندانوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے اورفی ہیلتھ کارڈایک خاندان کو دس لاکھ روپے تک کا علاج کرانے کی سہولت دی جائے گی۔ اس طرح سے یہ ایک انشورنس اسکیم ہو گی۔ جو پنجاب کے شہریوں کو بظاہر مفت میں حاصل ہو جائے گی، گو کہ یہ تمام تر پیسے عوام کے ٹیکسوں سے ہی حاصل ہوں گے اور آخر کار نجی ہسپتالوں اور ملحقہ کمپنیوں کی تجوریوں میں جائیں گے۔ پیسے بیماروں کو نقد نہیں دیے جائیں گے بلکہ بیمار ہسپتال والوں کو اپنا ہیلتھ کارڈ دیں گے۔ مریض کا جو بل بنے گا وہ سرکاری ادارے کے پاس جائے گا اور وہ ہی ہسپتال کو آپریشن اور علاج کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک طے شدہ رقم ادا کر دیں گے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ ایک بہت خوشنما اور عوام دوست منصوبہ نظر آتا ہے اور مریض دس لاکھ روپے تک کا علاج کسی بھی نجی ہسپتال سے کروا سکے گا۔ اس تمام تر عمل میں سرکاری ملازمین کو دی جانے والی رشوت اور سفارش سے لے کر نجی ہسپتالوں کے فراڈ اور بے ایمانیوں کے باعث مریض کو سہولت ملتی توکم ہی نظر آتی ہے جبکہ متعلقہ کاروباری افراد خوب لوٹ مار کریں گے۔ اس تمام عمل میں سرکاری ہسپتالوں کے بجٹ بھی ختم کرتے ہوئے بتدریج انہیں بند کر دیا جائے گا یا پھر نجی اداروں کو بیچ دیا جائے گا جس کے بعداس ملک میں جوپانچ سے دس فیصد افراد علاج کی سہولت حاصل کر پاتے تھے وہ بھی اس سے محروم ہو جائیں گے اور صحت کا شعبہ مکمل طور پر پرائیویٹ مافیا کے مگر مچھوں کے کنٹرول میں آ جائے گا۔ اس نجکاری کے عمل سے یقینا لاکھوں مزید افراد قابل علاج بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں جائیں گے جو درحقیقت ان حکمرانوں کی جانب سے غریبوں کے قتلِ عام کا نیا طریقہ ہے۔

حکومت کے جھوٹے دعووں کے مطابق پنجاب کے تین کروڑ خاندانوں کو یہ ہیلتھ کارڈ دینے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر تین کروڑ کو دس لاکھ سے ضرب دیا جائے تو یہ رقم تیس ٹریلین روپے یا تین سو کھرب روپے بنتی ہے جو پنجاب تو دور کی بات پاکستان کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے، مگر رکیے۔ اس کارڈ کے حمایتی آپ کو بتائیں گے کہ تمام لوگ ایک وقت میں بیمار نہیں ہو سکتے۔ ضروری نہیں کہ سب کو بہت مہنگا علاج چاہیے ہو۔ چنانچہ یہ حساب غلط ہے۔ ہم نہایت ادب کے ساتھ انہیں یہ بتائیں گے کہ جناب اگر اس رقم کا دسواں حصہ بھی چاہیے ہوا تو حکومت وہ نہیں دے پائے گی کیونکہ اس کا دسواں حصہ بھی تیس کھرب یعنی تین ہزار ارب روپے بنتا ہے جوپنجاب کے صحت کے بجٹ سے دس گنا زیادہ رقم بنتی ہے۔

ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب ریاست پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران کا شکار ہے تو ایسے میں ہیلتھ کارڈ کے لیے صرف پنجاب میں وہ اضافی چار سوچالیس ارب روپے کہاں سے آئیں گے جن کا حکومت نے اعلان کیا ہے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ عمران خان نے کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے اربوں روپے کے ایک بہت بڑے پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے بعدایک روپیہ بھی کراچی کو نہیں دیا گیا، اس پیکیج کا بھی میڈیا میں بہت پراپیگنڈہ کیا گیا تھا۔ ہیلتھ کارڈ کے لیے کچھ رقم پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کا بجٹ کاٹ کر دی جا رہی ہے۔ آپ پنجاب کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں آپ کو زیادہ تر ادویات نہیں ملیں گی۔ پنجاب کے ٹیچنگ ہسپتال مختلف ٹھیکیداروں، جن میں سیکیورٹی کمپنی اور صفائی کے ٹھیکیدار شامل ہیں، کے بل نہیں دے پا رہے۔ پیسہ ہیلتھ کارڈ کی طرف چلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی رقم کاٹ کر ادھر ڈالی جا رہی ہے۔ ہونا یہ ہے کہ کچھ عرصہ تو یہ نظام چلایا جائے گا۔ نجی ہسپتال اور ملحقہ کمپنیاں بہت پیسہ بنائیں گی، پھر رقم ختم ہو جائے گی اور عوام کو نام نہادسہولیات ملنا بند ہو جائیں گی۔ عین ممکن ہے کہ اس کے بعد حکومت عوام سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ ہیلتھ کارڈ کی انشورنس حاصل کرنے کے لیے کچھ رقم خود ادا کریں، پہلے یہ رقم بہت معمولی ہو سکتی ہے، جس کو بعد میں بڑھایا جا سکتا ہے۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ امریکہ کی طرز پر صحت کی نجکاری کی جائے اور انشورنس کا نظام لایا جائے۔ عمران خان نے ایک بیان میں تحصیل کی سطح پر سرکاری ہسپتال ختم کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ اس بیان پر جب ردعمل آیا تو کہا گیا کہ ہمارا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ دراصل خان صاحب دور دراز کے ان ہسپتالوں کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں جن میں ڈاکٹر نہیں جانا چاہتے۔ اس وضاحت پر بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا کہ ماضی میں حکومتیں دور دراز کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو بہتر تنخواہوں اور مراعات کی پیشکش کر کے کامیابی سے بھیجتی رہی ہیں، کیا آپ دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے؟

صحت کی سہولت بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ اس کو عوام کو فراہم کرنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو امریکی طریقہ کارہے۔ اس میں صحت کے ادارے نجی شعبے کے پاس ہوتے ہیں۔ لوگ ہیلتھ انشورنس کرواتے ہیں اور ساری عمر انشورنس کے اداروں کو پیسے بھرتے رہتے ہیں۔ یہ اتنا مہنگا طریقہ کار ہے کہ زیادہ تر امریکی بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ بیمار نہ پڑ جائیں اور لاکھوں غریب افرادتو اپنا علاج کروا ہی نہیں پاتے۔ دوسرا کیوبا کا سوشلسٹ ماڈل ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت معمولی بیماریوں سے لے کر پیچیدہ ترین بیماریوں تک تمام علاج کی سہولت ریاست مفت فراہم کرتی ہے۔ کیوبا ایک غریب ملک مانا جاتا ہے مگر اس کا صحت کا نظام دنیا بھر میں بہترین اور عوام دوست مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں علاج کی خریدو فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے اور مریضوں کو ادویات سے لے کر کھانا تک ریاست کی جانب سے مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال امریکہ سے غریب لوگ بڑی تعدادمیں کیوبا صرف مفت علاج کروانے کے لیے جاتے ہیں۔

صحت کارڈ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں آپریشن اور ہسپتال میں داخل مریضوں کے علاج کی سہولت تو مل سکے گی مگر آؤٹ ڈور میں چیک اپ کی سہولت نہیں ہو گی۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ نوے فیصد مریض تو آؤٹ ڈور میں چیک اپ کروانے والے ہوتے ہیں۔ ایک اہم خدشہ یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی طرف سے جعلی علاج معالجے کے بلز کو کیسے اور کیوں کر کنٹرول کیا جا سکے گا۔ چنانچہ بدعنوانی اور لوٹ مار کے نئے دریچے کھل جائیں گے۔ حکومت اس وقت پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کررہی ہے۔ یہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی طرف پہلا مگر سب سے اہم قدم ہے۔ ہسپتال کے ملازمین کی تنخواہوں اور سہولیات پر کاری ضرب لگے گی اور مستقل ملازمت کا حق ختم ہو کر رہ جائے گا۔ علاوہ ازیں، حکومت ہسپتالوں کے بجٹ کو بھی بتدریج ختم کر سکے گی۔

صحت کی سہولت بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ اس کو عوام کو فراہم کرنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو امریکی طریقہ کارہے۔ اس میں صحت کے ادارے نجی شعبے کے پاس ہوتے ہیں۔ لوگ ہیلتھ انشورنس کرواتے ہیں اور ساری عمر انشورنس کے اداروں کو پیسے بھرتے رہتے ہیں۔ یہ اتنا مہنگا طریقہ کار ہے کہ زیادہ تر امریکی بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ بیمار نہ پڑ جائیں اور لاکھوں غریب افرادتو اپنا علاج کروا ہی نہیں پاتے۔ دوسرا کیوبا کا سوشلسٹ ماڈل ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت معمولی بیماریوں سے لے کر پیچیدہ ترین بیماریوں تک تمام علاج کی سہولت ریاست مفت فراہم کرتی ہے۔ کیوبا ایک غریب ملک مانا جاتا ہے مگر اس کا صحت کا نظام دنیا بھر میں بہترین اور عوام دوست مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں علاج کی خریدو فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے اور مریضوں کو ادویات سے لے کر کھانا تک ریاست کی جانب سے مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال امریکہ سے غریب لوگ بڑی تعدادمیں کیوبا صرف مفت علاج کروانے کے لیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں صحت کا نظام پہلے ریاستی کنٹرول میں تھا لیکن ایک طویل عرصے سے نجکاری کا عمل جاری ہے جو اب انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ 60 اور 70ء کی دہائی میں اُبھرنے والی مزدور تحریکوں کے دباؤ کے تحت صحت کے شعبے کے لیے بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا گیا تھا جس کے تحت بہت سے سرکاری ہسپتال اور دیگر ادارے وجود میں آئے تھے جن سے عوام کو کچھ سہولیات ملی تھیں۔ لیکن اس کے بعد سے صحت کے بجٹ کے تناسب میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور حکمران اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کے لیے زیادہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ اسی دوران پرائیویٹ اداروں کو بھی لوٹ مار کی کھلی اجازت دی جا چکی ہے اور ان کے لیے کسی بھی قسم کی ریٹ لسٹ یا ریگولیشن موجود نہیں جس کے باعث وہ لاکھوں مریضوں کے زخموں کاگھناؤنا دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گھٹیا درجے کے پرائیویٹ ہسپتالوں سے لے کر فائیو سٹار ہوٹلز سے بھی زیادہ پر تعیش نجی ہسپتال موجود ہیں جو اپنی اپنی بساط کے مطابق صحت کی سہولیات کا بیوپار کر رہے ہیں۔ صحت کی سہولیات پہلے ہی عوام کی اکثریت کی دسترس سے باہر ہو رہی ہیں۔ ایسے میں شعبہ صحت کی نجکاری سے معاملات مزید خراب اور دلخراش ہو جائیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ علاج کی مفت اور معیاری سہولیات ہر انسان کا بنیادی حق ہیں۔ محنت کش عوام کو یہ حق اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کبھی نہیں مل سکے گا۔ اس کے حصول کے لیے سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرنا پڑے گی جو محنت کش عوام کے لیے ایک ناختم ہونے والی وحشت ہے اور ایک عذاب مسلسل کی طرح ان کی زندگیاں تاراج کر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام سے نجات کے لیے جدوجہد کرنا ہمارا فریضہ ہے وہیں حکمران طبقے کے فریبوں اور ہتھکنڈوں کو ننگا کرنا اور اس کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنا بھی ہم پر فرض ہے۔

Comments are closed.