افسانہ:قانون کے لمبے ہاتھ

|تحریر:آفتاب اشرف|

شہر کے وسط میں واقع ایک سرکاری ہائی سکول کی عمارت منہدم ہو گئی۔ آٹھ بچے جاں بحق اور متعدد زخمی۔ عمارت ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بنی تھی۔۔۔ ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔

پورے شہر میں ہاہا کار مچ گئی۔ انتظامی افسران کی دوڑیں لگ گئیں۔ بڑے بڑے سیاستدانوں نے غم سے نڈھال والدین کے پاس جا کر تعزیت کرتے ہوئے ذمہ داران کیخلاف سخت کاروائی کرنے کا یقین دلایا۔ سول سوسائٹی کی خواتین نے بچوں کی یاد میں پریس کلب کے سامنے خوب موم بتیاں جلائیں۔ اپوزیشن والوں نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مولوی حضرات نے اسے اسلام سے دوری کا نتیجہ قرار دیا۔ ٹاک شوز کرنے والے اینکرز کی ریٹنگ آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ عدلیہ نے بیان دیا کہ مجرم چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں،بچ نہیں سکیں گے۔ دھوم دھڑکے کے ساتھ ایک انکوائری کمیٹی بٹھائی گئی۔ کئی ریٹائرڈ جج صاحبان اور بے داغ شہرت رکھنے والے اعلیٰ افسران کو کمیٹی میں لیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی کمیٹی کو اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ کاروائی کا آغاز ہو گیا۔۔۔۔

ایک سال بعد کمیٹی کی رپورٹ آئی۔ رپورٹ کے مطابق عمارت کا انہدام بچوں کے دھما چوکڑی مچانے سے ہوا تھااور یہ والدین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے بچوں کو تمیز سکھاتے۔۔۔

اس وقت تک معاملہ ویسے ہی ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔رپورٹ کو کسی خبر نامے میں جگہ نہیں ملی۔کسی کو اس کی پروا بھی نہیں تھی سوائے ایک شخص کے۔۔۔

وہ شخص عمارت بنانے والا ٹھیکیدار تھا۔اگلے ہی دن اس نے ایک نیا سرکاری ٹھیکہ لینے کے لیے درخواست متعلقہ محکمے کو جمع کرا دی۔درخواست کے ساتھ کمیٹی کی رپورٹ کی ایک فوٹو کاپی بھی لگی ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’آپ فکر ہی نہ کریں سر۔۔ہم فوری ایکشن لے رہے ہیں۔ کل تک آپ کو اچھی خبر ملے گی۔۔‘‘فون کا ریسیور رکھنے کے بعداس نے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا اور گھنٹی بجا کر باہر کھڑے کانسٹیبل کو بلایا۔

’’جی سر۔۔‘‘

’’اے ایس آئی صادق سے کہو کہ ایس ایچ او صاحب بلا رہے ہیں۔۔‘‘اس نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔

تھوڑی دیر بعد صادق نے کمرے میں آ کر اسے سیلوٹ کیا۔

’’بیٹھ جاؤ۔۔‘‘ اس نے دھوئیں کا مرغولہ چھوڑتے ہوئے کہا۔

’’ سر ،آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔۔خیریت تو ہے؟‘‘صادق نے چاپلوسانہ لہجے میں پوچھا ۔

’’ارے وہی منسٹر صاحب کی بیٹی کی کار چوری ہو جانے والا معاملہ۔صبح سے کال پر کال آ رہی ہے۔کل تک کچھ نہیں ہوا تو سمجھو ٹرانسفر پکی۔۔۔ پتہ نہیں کون حرامزدہ لے اڑا ہے۔ علاقے کے سارے موالیوں کو تو ہم جانتے ہیں۔ان میں سے تو کوئی نہیں۔ کوئی نیا بندہ لگتا ہے۔کتے کے پلے کو اتنی بھی عقل نہیں کہ کس پر ہاتھ ڈالنا ہے اور کس پر نہیں۔۔۔‘‘

’’جی سر ،صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔‘‘صادق نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’بہر حال جو بھی ہے ہمیں کل تک یہ معاملہ نپٹانا ہے۔کچھ بھی کرو۔۔مجھے یہ بندہ چائیے۔۔۔‘‘اس نے بیزاری سے صادق کو گھورتے ہوئے کہا۔

’’سر، ویسے یہ منسٹر صاحب اربوں پتی آدمی ہیں۔سمجھ نہیں آتی کہ ایک معمولی گاڑی کے پیچھے اتنا طوفان کیوں کھڑا کر رکھا ہے؟؟‘‘

’’او میرے بھولے بادشاہ۔۔یہ پیسوں کا مسئلہ نہیں ۔انا کا مسئلہ ہے۔دن دیہاڑے کوئی منسٹر صاحب کی بیٹی کی گاڑی لے اڑے اور پکڑا بھی نہ جائے ۔۔ یہ تو پھر ٹھیک بات نہیں نا۔۔۔‘‘اس نے ایش ٹرے میں سگریٹ مسلتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’سر،اگر یہی بات ہے تو میرے پاس ایک آسان حل ہے مسئلے کا۔۔‘‘صادق کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

’’اور وہ کیا ہے؟‘‘

’’سر،وہ آپ کو یاد ہے نا کہ ہفتہ پہلے ہم نے دو مشتبہ جیب کترے پکڑے تھے علاقے کی مین مارکیٹ سے۔ یہی کوئی پندرہ سولہ سال کی عمر کے تھے۔ دونوں ابھی تک حوالات میں ہیں۔ کوئی پتہ کرنے تک نہیں آیا ان کا۔بہت غریب گھروں کے لگتے ہیں۔کوئی آگے پیچھے نہیں ہے۔۔۔‘‘

’’تو پھر۔۔‘‘اس نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔اسے اندازہ تھا کہ صادق کیا کہنا چاہ رہا ہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے منہ سے کھل کر بات کرے۔

’’سر جی،سادی سی بات ہے۔۔بھوکے ننگے ہیں۔اگر ابھی چور نہیں بھی ہیں تو بڑے ہو کر انہوں نے وارداتیں ہی کرنی ہیں۔اس سے اچھا نہیں ہے کہ ہمارے افسر کے کسی کام آ جائیں۔ میری مانیں توان دونوں کو آج ہی فل فرائی کر دیں۔ کل رپورٹ دے دیں گے کہ یہی دونوں وہ مطلوبہ کار چور تھے۔ پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے۔ان کا تو کوئی والی وارث ہے نہیں ۔۔کس نے پوچھنا ہے۔۔۔‘‘صادق دانت نکالتے ہوئے بولا۔

’’لیکن گاڑی کہاں سے لائیں گے؟‘‘

’’سر،یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔کہہ دیں گے کہ نہیں برآمد ہو سکی۔ تفتیش کا موقع ہی نہیں ملا۔ بیچ دی ہو گی سالوں نے سپیئر پارٹس کی بلیک مارکیٹ میں۔۔ ہزار بہانے ہیں۔ اصل میں تو منسٹر صاحب کی انا کو ہی ٹھنڈ پہنچانی ہے نا۔۔ تو یہ ہو جائے گا۔گاڑی کی تو انہیں خود پروا نہیں ہونی۔۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے پھر۔۔سار امعاملہ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔۔‘‘اس نے تھوڑے توقف کے بعد کہا’’اور ہاں۔۔ جگہ کا انتخاب دیکھ بھال کر کرنا اورمارنے سے پہلے کلمے ضرور پڑھوا لینا دونوں سے۔۔۔‘‘

اگلی صبح منسٹر صاحب نے ناشتے کی میز پر بڑے فخر سے اپنی لاڈلی بیٹی کو اخبار کی ایک سرخی دکھائی۔۔۔
وزیر قانون کی بیٹی کی کار چرانے سمیت متعدد وارداتوں میں ملوث دو عادی کار چور پولیس مقابلے میں ہلاک ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مل کے گیٹ پر سینکڑوں مزدور اکٹھے تھے۔ انہیں پچھلے تین مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی تھی اور اب نوبت فاقوں تک آ چکی تھی۔ انہوں نے کئی بار مل انتظامیہ سے رحم کھانے کی درخواست کی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بالآخر آج صبح انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کام پر نہیں جائیں گے اور مل کے گیٹ پر دھرنا دیں گے۔کئی گھنٹے گزر چکے تھے مگر مل انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی ان سے بات کرنے نہیں آیا تھا۔مزدوروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔بھوک ،غصہ اور جھنجھلاہٹ ان کے اعصاب پر چھانے لگے۔ مل مالک اور ا نتظامیہ کیخلاف نعرے بازی ہونے لگی ۔چند ایک جوشیلے نوجوانوں نے بند گیٹ کو پیٹنا شروع کر دیا۔پچھلی صفوں سے مل کے احاطے میں کچھ پتھر بھی پھینکے گئے۔

بیس منٹ کے اندر اندر علاقے کی فضا ہوٹروں کی آواز سے گونج اٹھی۔ پولیس کی بھاری نفری نے مزدوروں کو گھیرے میں لے لیا۔ ان کے ساتھ علاقہ مجسٹریٹ اور مقامی لیبر افسر بھی تھا۔

’’یہ کیا بدمعاشی پھیلا رکھی ہے تم لوگوں نے؟‘‘مجسٹریٹ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا۔ شائد اسے گھر سے اٹھ کر آنا پڑا تھا۔

’’مائی باپ۔۔ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔ مل والوں نے پچھلے تین مہینوں سے تنخواہ نہیں دی۔ ہمارے بچے بھوکے ہیں صاحب۔ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔۔‘‘ایک مزدور نے آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

’’تنخواہ نہ ملنے کا یہ مطلب ہے کہ تم غنڈہ گردی کرو، مل کے گیٹ پر پتھر مارو۔۔ مالکوں کو دھمکیاں لگاؤ؟‘‘مجسٹریٹ کا پارہ اور چڑھ گیا۔

’’تم لوگوں نے قانونی راستہ اختیار کیوں نہیں کیا؟ اگر واقعی تمہارے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی تو تم مجھے درخواست دیتے۔۔ ۔ کوئی وکیل کرتے ،لیبر کورٹ میں کیس دائر کرتے۔ اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے سے تو کام نہیں بنے گا۔‘‘ لیبر افسر نے مدقوق چہروں میں دھنسی زرد آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

’’حضور معافی دے دیں۔۔۔چند لڑکوں سے جذبات میں آ کر غلطی ہو گئی۔۔ ہم بہت مجبور ہیں صاحب۔تین مہینوں کی نہیں تو ایک مہینے کی ہی تنخواہ دلوا دیں۔ ہمارے گھروں کا چولہا تو جلے۔۔‘‘ایک ادھیڑ عمر ورکر نے لیبر افسر اور مجسٹریٹ کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

’’جب فیکٹری مالک کے پاس پیسے ہوں گے تو مل جائے گی تم لوگوں کو بھی تنخواہ۔۔۔ویسے بھی تم لوگوں کے نکمے پن کی وجہ سے ہی مل نقصان میں جا رہی ہو گی۔ اب تھوڑا صبر سے کام لو۔ انسان میں کوئی برداشت بھی ہونی چاہئے۔۔۔‘‘ لیبر افسر بولا۔

’’چلو شاباش۔۔ اٹھو سارے یہاں سے۔ دو منٹ میں گیٹ خالی کرو۔ بندہ نہ نظر آئے مجھے کوئی یہاں پر۔۔۔‘‘ ایس ایچ او نے قصہ مختصر کرنا مناسب سمجھا۔ اپنے صاحب کا موڈ بھانپ کر اس کے پیچھے کھڑے دو سپاہیوں نے اپنی رائفلیں سیدھی کر لیں۔

مزدوروں میں بھگدڑ سی مچ گئی۔گیٹ خالی ہونے لگا۔ سہمے ہوئے چہروں کو دیکھ کر ایس ایچ او کے سیاہ ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی۔

’’اور جس نے شرافت سے کام کر نا ہے۔۔ آ جائے کل۔ جسے نہیں وارے کھاتا ،وہ دفع ہو جائے۔‘‘ مجسٹریٹ چلایا ’’اگر دوبارہ کسی نے بدمعاشی کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس ٹول پلازے سے چلی ہی تھی کہ ایک سفید رنگ کے ڈبل کیبن ڈالے نے اس کا راستہ روک لیا۔ شلوار قمیص میں ملبوس تین افراد تیزی سے ڈالے سے اترے اور بس کی جانب بڑھے۔ ان میں سے ایک نے ڈرائیور کو اپنا کارڈ دکھاتے ہوئے دروازہ کھولنے کا کہا۔ سہمے ہوئے ڈرائیور نے جلدی سے بٹن دبا دیا۔ دو افراد بس پر چڑھے اور ایک ایک مسافر کو بغور دیکھنے لگے۔ بیچ کی سیٹوں پر بیٹھے ایک نوجوان نے گھبرا کر آگے پیچھے دیکھا جیسے بھاگنے کا راستہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کا رنگ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔

’’یہی ہے وہ۔۔۔‘‘ ان میں سے ایک اس نوجوان کو دیکھ کر چلایا۔ دوسرے نے بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر اسے دبوچ لیا۔

’’اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ۔۔‘‘

نوجوان نے بمشکل اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر شناختی کارڈ نکالا۔ اس کے ہاتھوں میں لرزش نمایاں تھی۔

شناختی کارڈ دیکھتے ہی دونوں افراد نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا۔

’’اپنا سامان لو اور چپ چاپ ہمارے ساتھ چلو۔۔۔‘‘ایک نے سرد لہجے میں کہا۔

نوجوان بیٹھا رہا۔ وہ اتنا خوفزدہ تھا کہ اسے شاید سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا کہا جا رہا ہے۔

اس پر ان میں سے ایک نے پستول نکال لیا اور دوسرے نے اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ تمام مسافر ہکا بکا یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے۔ بس کے دروازے کے قریب پہنچ کر جیسے نوجوان کو اچانک ہوش آ گیا۔ اس نے مضبوطی کے ساتھ دروازے کی ریلنگ کو پکڑ لیا اور زور سے چلایا۔

’’پلیز میری مدد کرو۔۔تم سب کو خدا کا واسطہ ۔یہ لوگ مجھے مار دیں گے۔۔۔‘‘

اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا۔سب ہی کو اپنی جان پیاری تھی۔ وہ اسے لے گئے۔ بس کا دروازہ بند ہوا ۔ ڈرائیور نے انجن سٹارٹ کر دیا۔

بس چلنا شروع ہوئی تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ سرگوشیوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسافر نے راز دارانہ انداز میں دوسرے سے پوچھا۔

’’کچھ اندازہ ہے کہ کیا معاملہ تھا؟‘‘

’’کوئی قانون توڑا ہو گا شاید۔۔‘‘

’’مگر کونسا؟؟؟‘‘پہلے والے نے تجسس سے پوچھا۔

دوسرے والے نے محتاط نظروں سے آس پاس دیکھا اور پھر نیچی آواز میں بولا۔

’’ ضرور سچ بولتا ہو گا یہ۔۔۔۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر میں جرائم کی شرح ریکارڈ سطح کو چھو رہی تھی۔ ڈکیتی، عصمت دری،بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، لینڈ گریبنگ، بلیک مارکیٹنگ، کرپشن، غرض کوئی ایسا جرم نہ تھا جو شہر میں نہ ہوتا ہو۔ ہر طرف بڑے بڑے مافیاؤں کا راج تھا۔ صورتحال اتنی بگڑی کہ بالآخر حکام بالا کو اس کا نوٹس لینا ہی پڑا۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ حکومت شہر پر قانون کی رٹ قائم کر کے ہی دم لے گی۔ شہر کے تمام انتظامی و پولیس افسران کو تبدیل کر دیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے گئے۔ حساس اداروں نے تمام بڑے جرائم پیشہ گروہوں پر درجنوں رپورٹس مرتب کیں۔ حکومتی نمائندے روز ٹی وی پر آ کر عوام کو یقین دلاتے کہ بس اب ان مجرموں کے دن گنے جا چکے ہیں اور بہت جلد شہر میں امن کا بول بالا ہو گا۔ یہ دعویٰ اتنی مرتبہ دہرایا گیا کہ عوام کو بھی کچھ کچھ اس پر یقین آ گیا۔

ایک بہت بڑے کریک ڈاؤن کا پلان تیار ہوا۔اس سلسلے میں سینکڑوں میٹنگز ہوئیں۔ درجنوں وفود کو کرائم فائیٹنگ کی خصوصی جانکاری حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا۔ بے تحاشہ نت نیا اسلحہ خریدا گیا۔ اس سب کا خرچہ اٹھانے کے لئے عوام پر ایک نیا’امن ٹیکس‘ بھی لگا دیا گیا۔ بالآخر’ آپریشن ردالجرائم‘ کے آغاز سے پہلے کا دن آن پہنچا۔ پورے شہر کی مسجدوں میں آپریشن کی کامیابی کے لئے قران خوانی اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا گیا۔ٹی وی پر درجنوں ٹاک شوز میں نامور تجزیہ نگاروں نے آپریشن کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ شام ڈھلے وزیر اعظم نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ستاروں سے مزین کندھوں اور فیتوں سے سجے سینوں کے بیچ بیٹھ کر عوام کو یقین دلایا کہ آنے والی صبح ان کے روشن مستقبل کا پیغام لے کر آئے گی۔شہر کے لوگوں نے بھی رات گئے تک گھی کے چراغ جلا کر خوشیاں منائیں۔ آخر کار سب ایک روشن مستقبل کا سپنا آنکھوں میں سجائے محو خواب ہو گئے۔

اگلی صبح منہ اندھیرے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر کی ہیرا منڈی پر چھاپہ مار کر دس طوائفوں کو ان کے دلالوں سمیت گرفتار کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں کلاس چل رہی تھی۔ایک لڑکا کھڑا ہو کر چارلس ڈکنز کا انقلاب فرانس کے پس منظر میں لکھا گیا ناول’دو شہروں کی کہانی‘ پڑھ رہا تھا۔ باقی سب اس کے الفاظ میں کھوئے ہوئے تھے۔ پڑھتے پڑھتے وہ اچانک رک گیا۔ پروفیسر صاحب نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

’’سر۔۔یہ پچھلی چند سطور کا مطلب کچھ ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا۔‘‘ لڑکے نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔

’’ڈکنز کہہ رہا ہے کہ جب فرانس میں اس نوجوان کے ہاتھ پیر کاٹے گئے،اس کی زبان کھینچی گئی اور اس کی لاش کو سر عام جلایا گیا،کیونکہ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے پاس سے گزرتے پادریوں کے ایک گروہ کو جھک کر سلام نہیں کیا تھا اور یہ قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔۔۔ تو اس وقت فرانس اور ناروے کے جنگلوں میں وہ درخت جوان ہو رہے تھے جن کی لکڑی سے تقدیر کے ترکھان نے ایک مخصوص مشین تیار کرنی تھی۔۔۔‘‘ پروفیسر صاحب نے وضاحت کی۔

’’کیسی مشین سر؟‘‘ایک لڑکی نے معصومیت سے پوچھا۔

’’ ایک ہولناک مشین ۔۔۔گلوٹین نام تھا اس کا۔ انقلاب میں سر قلم کئے گئے تھے اس سے۔۔۔‘‘پروفیسر صاحب نرمی سے بولے۔

’’کن کے سر قلم کئے گئے تھے سر؟‘‘ ناول پڑھنے والے لڑکے کی آواز میں شدید تجسس تھا۔

’’جاگیر داروں کے، نوابوں کے، پادریوں کے، ساہوکاروں کے، شاہی خاندان کے۔۔۔ ملکہ کا سر،بادشاہ کا سر۔ بس یوں سمجھو کہ کسی ظالم کا سر اس کے کندھوں پر نہیں رہا تھا۔‘‘

’’سر۔۔ ہمارے ملک کے جنگلوں میں بھی کوئی ایسے درخت ہیںیا نہیں؟؟‘‘دوسرے صف میں بیٹھے ایک لڑکے نے شرارتی لہجے میں سوال کیا۔

’’ایسے درخت تو ہر جنگل میں ہوتے ہیں بیٹا۔۔‘‘ پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا’’بس دیکھنا یہ ہے کہ ان کی لکڑی کا درست استعمال کب ہوتا ہے۔۔۔‘‘

Comments are closed.