سری لنکا: ناقابلِ برداشت حالات کے خلاف عوامی بغاوت کا آغاز

|تحریر: بین کری، ترجمہ: یار یوسفزئی|

سری لنکا اپنی حالیہ تاریخ کے بد ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے، جس کے نتیجے میں 31 مارچ کو صدر کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج دیکھنے کو ملے اور دارالحکومت کولمبو بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ملک کو دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔ عوام بڑھتی ہوئی قیمتوں، 13 گھنٹوں کی بجلی لوڈ شیڈنگ اور بنیادی دوائیوں، گیس اور خوراک کی کمی کے باعث اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ سری لنکا کی صورتحال اپنی نوعیت میں کوئی انوکھی نہیں ہے۔ یہ محض سرمایہ داری کے اس عالمگیر بحران کا شدید اظہار ہے جو غریب ممالک کو کچل رہا ہے۔ سری لنکا میں نظر آنے والا سماجی انتشار آنے والے عرصے میں دنیا بھر کے اندر دیکھنے کو ملے گا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

سماجی دھماکہ

حالیہ ہفتوں میں مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے بغیر خود رو طور پر احتجاجوں کا سلسلہ دیکھنے کو ملا ہے، جو تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بد تر ہوتے حالاتِ زندگی کے خلاف ہیں، جہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ 4 گھنٹوں سے بڑھ کر 7 گھنٹوں پر چلی گئی اور اب 13 گھنٹوں تک پہنچ چکی ہے۔ عوام کے حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔

31 مارچ بروزِ جمعرات، دارالحکومت کولمبو کے مختلف اضلاع میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاجوں کا آغاز پرامن طور پر ہوا جن میں مرد و خواتین شامل تھیں اور حتیٰ کہ بعض خواتین نے اپنے بچوں کو بھی گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ وہ موم بتیاں اور ہاتھ سے لکھے گئے پلے کارڈز لے کر نکلے اور صدر گوٹابیا راجاپکشا کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔

پلے کارڈز سے ان کے شدید طبقاتی غصّے کی جھلک دکھائی دی جو سرمایہ دارانہ بحران کے باعث اذیتوں میں دھکیلے گئے ہیں؛ پلے کارڈز پر لکھا تھا ”بہت ہوگیا“، ”ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کرنا بند کرو!“ اپنی گود میں نومولود بچے کو اٹھائے ہوئے ایک خاتون کے پلے کارڈ پر لکھا تھا ”ہمارے بھی بچے ہیں۔“

چور حکمران اشرافیہ

چور حکمران اشرافیہ بالخصوص عوامی نفرت کے نشانے پر رہی۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا ”ہمارے لوگ بہتر زندگی کے مستحق ہیں، چوری شدہ پیسے کو ان کے بیچ تقسیم کرو،“ جبکہ ایک دوسرے پلے کارڈ پر یہ لکھا تھا ”تیل کی قیمت پینڈورا ڈالروں کے ذریعے ادا کرو“، جو راجاپکشا خاندان کے افراد کی جانب اشارہ تھا، جن کے بارے پینڈورا پیپرز میں لاکھوں ڈالر بیرونِ ملک اکاؤنٹس میں جمع کرنے کا انکشاف کیا گیا تھا۔

ایک اور پلے کارڈ پر ”برمودا ٹرائی اینگل“ لکھا تھا، جس کے تینوں کونوں پر ”جی آر“، ”ایم آر“ اور ”بی آر“ لکھا تھا۔ اس سے ملکی پیسوں کی پراسرار گمشدگی مراد تھی، جس میں صدر گوٹا راجاپکشا اور اس کے دو بھائی مہیندا راجاپکشا (2005ء سے 2015ء تک صدر رہنے والا اور موجودہ وزیراعظم) اور باسیل راجاپکشا (وزیرِ خزانہ، جسے تمام حکومتی معاہدوں میں دس فیصد حصہ لینے پر ”مسٹر ٹین پرسنٹ“ بھی کہا جاتا ہے) ملوث تھے۔

Nandasena Gotabaya Rajapaksa Image Ministério da Defesa Flickr

احتجاجوں میں اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھے گئے الفاظ سے حکمرانوں کے خلاف شدید غصہ نظر آ رہا تھا۔ بالخصوص گوتا راجا پکشا کی کرپشن پر لعن طعن کی جا رہی تھی۔

جب ہزاروں مظاہرین صدر کی رہائش گاہ کی جانب بڑھنے لگے تو پولیس نے تشدد کا آغاز کیا اور لوگوں کے اوپر واٹر کینن، آنسو گیس اور گولیوں کا استعمال کیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔

ہزار سے اوپر لوگوں نے صدر گوٹا کی رہائش کی جانب جانے والے جوبلی پوسٹ جنکشن کو بلاک کیا اور صدر کے مستعفی ہونے کے نعرے لگائے۔ اس دوران، دیگر ہزاروں افراد نے اس کی رہائش گاہ کے باہر ہی احتجاج کیا۔ وہاں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گاڑیاں بھر بھر کر پولیس بھیجی گئی، جبکہ یہ افواہیں گردش کرنے لگیں (جن کو حکومت تب سے مسترد کر رہی ہے) کہ راجاپکشا خاندان کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے لیے دو پرائیویٹ جیٹ تیار کھڑے تھے۔

حکومت نے مظاہروں کا جواب وسیع پیمانے پر کرفیو نافذ کر کے، جبر اور گرفتاریاں کر کے دیا، اور احتجاجوں کی یہ کہہ کر مذمت کی کہ اس کے پیچھے ”انتہا پسند اشتعال انگیز“ افراد کا ہاتھ ہے۔ ایک وزیر نے تو مظاہرین کو ”دہشتگرد“ تک کہہ دیا۔ اس حکمران ظالم اشرافیہ کی تاریخ خون سے رنگی پڑی ہے، جنہوں نے 2009ء میں تامل تحریک کو کچل دیا تھا، اور اب بھی جبر استعمال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مظاہرین کو تشدد پر اکسانے کے لیے بلاشبہ ان کے بیچ حکومتی ایجنٹ بھیجے گئے تھے تاکہ جبر کو جواز فراہم کیا جا سکے، مگر عوام کے صبر کی بھی انتہا ہو گئی ہے۔ زندگی ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ جبر نئی تحریکوں کو روک پائے گا۔

ناقابلِ برداشت اذیتیں

حالیہ سماجی دھماکے سے پہلے عوام کے حالاتِ زندگی کئی مہینوں سے بد تر ہوتے جا رہے تھے۔ ملک کے دیوالیہ پن کی جانب بڑھنے سے زندگی ناقابلِ برداشت ہو گئی ہے۔ اس سال سری لنکا کو قرض اور سود کی مد میں 7 ارب ڈالر کی ادائیگی کا سامنا ہے، جس میں 1 ارب ڈالر جولائی میں ادا کرنے ہوں گے۔ مگر غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر (فارن ریزرو) میں فقط 50 کروڑ ڈالر ہونے کے باعث حکومت اپنے قرضوں کی ادائیگی کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہے۔

اس صورتحال کے نتیجے میں ملکی درآمدات کے اوپر پابندیاں عائد ہو چکی ہیں، جس کی ادائیگی کی اہلیت حکومت تیزی سے کھو رہی ہے۔ تیل، گیس، ملک پاؤڈر، کاغذ اور سیمنٹ جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی قلت ہے۔ ہسپتالوں کی صورتحال بھی انتہائی خطرناک ہوتی جا رہی ہے جہاں اہم دوائیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اور ملک میں تیل کی کمی کے باعث بجلی کی لوڈ شیڈنگ طویل سے طویل تر ہوتی چلی جا رہی ہے، جسے قحط سالی نے مزید شدید کیا، جس کے باعث ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں سے بجلی کٹ چکی ہے۔ جمعرات کو 13 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ دیکھنے کو ملی!

بنیادی ضروری اشیاء کی قلت کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افراطِ زر 18.7 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ البتہ اشیائے خورد و نوش کا افراطِ زر 30.2 فیصد ہے جبکہ پٹرول کی قیمتیں جنوری کے بعد سے دگنی ہو گئی ہیں۔ لوگ گاڑیوں کی ٹنکی بھرنے کے لیے پٹرول سٹیشن کی قطاروں میں کئی دنوں تک کھڑے رہتے ہیں، جنہیں تیل کے فقدان کے باعث آخر میں خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔ بجلی جانے کی صورت میں کئی افراد موم بتیاں خریدنے کی سکت تک نہیں رکھتے، کیونکہ موم بتیوں کے ایک پیکٹ کی قیمت 500 سری لنکن روپے تک جا پہنچی ہے!

یہ صورتحال عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور مزید بد تر ہوتی جا رہی ہے۔

سالوں سے پنپنے والا بحران

یہ ایک ایسا بحران ہے جو سالوں سے پنپ رہا تھا، اور سری لنکا کی موجودہ صورتحال در حقیقت اس بحران کا شدید اظہار ہے جو دنیا بھر کے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ آج قومی مقابلہ بازی نے بڑھتی ہوئی تحفظاتی پالیسیوں کو جنم دے کر ”عالمگیریت“ کو پیچھے دھکیل دیا ہے، جس کے پیشِ نظر امیر ممالک نے اپنا سرمایہ ملک میں واپس لانا شروع کر دیا ہے، اور سامراجی ممالک میں مرکزی بینک شرحِ سود بڑھا کر افراطِ زر کو قابو کرنے کی کوشش میں ہیں، جبکہ غریب ممالک افراطِ زر اور ناقابلِ واپسی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، جیسا کہ ہم نے ایک اور مضمون میں وضاحت کی ہے۔ اس کے نتیجے میں انقلابی واقعات بھی پنپ رہے ہیں، کسی ایک یا دو ممالک میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر۔

2020ء کے دوران امیر ممالک حکومتی اخراجات کے ذریعے بحران کے بدترین اثرات سے خود کو کسی حد تک بچانے میں کامیاب رہے۔ البتہ غریب ممالک ایسا کرنے کے اہل بالکل نہیں تھے۔ 2020ء میں کرونا وباء کے بعد شدید ہونے والے بحران نے سری لنکا کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اجرتوں میں اوسطاً 35 فیصد گراوٹ آئی۔ اس کی غیر ملکی آمدنی کے سب سے اہم ذرائع، یعنی سیاحت اور ترسیلاتِ زر، ماند پڑ گئے کیونکہ سیاحوں کا آنا جانا تھم گیا اور محنت کش بیرونی ممالک سے واپس لوٹ آئے۔ سیاحت کا شعبہ پہلے سے ہی 2019ء میں کولمبو کے اندر ایسٹر بم دھماکوں کے واقعے کے بعد متاثر ہو گیا تھا۔

market Image McKay Savage Wikimedia Commons

یہ ایک ایسا بحران ہے جو سالوں سے پنپ رہا تھا، اور سری لنکا کی موجودہ صورتحال در حقیقت اس بحران کا شدید اظہار ہے جو دنیا بھر کے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

اس کے نتیجے میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہونے لگے۔ اس کے باوجود حکومت نے فرمانبرداری کے ساتھ بیرونی قرضوں کی ادائیگی مسلسل جاری رکھی، جس سے ذخائر مزید متاثر ہوئے۔ ان حکومتی ذخائر کے متاثر ہونے کے بعد کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے سری لنکا کو ”جنک“ قرار دیا (جس کا مطلب ہے کسی ملک کے بارے میں یہ توقع کرنا کہ وہ قرضے واپس نہیں کر پائے گا)۔ اچانک سری لنکا کو قرضے ملنا بند ہو گئے۔ وہ نئے قرضے لے کر پرانے قرضوں اور سود کی ادائیگی کرتا تھا، اور ایسا ہونے سے اس کی زندگی کا اہم ذریعہ بند ہو گیا۔

یقینی دیوالیہ پن کا سامنا ہوتے ہوئے بھی راجاپکشا خاندان کی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ خواہش رہی کہ قرضوں کی بروقت ادائیگی کی جائے، جسے دیکھ کر سرمایہ دارانہ تجزیہ کار بھی حیرت میں پڑ گئے:

”وہ قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں حیران کن رضامندی رکھتے ہیں،“ ایک سرمایہ کار بینک کے سینئیر تجزیہ کار نے فنانشل ٹائمز کو کہا۔ ”مگر میں اس بارے میں انتہائی حیران ہوں کہ وہ ایسا کیوں چاہیں گے۔ وہ تقریباً دیوالیہ ہیں۔۔۔وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے قیمتی ذخائر ضائع کر رہے ہیں۔ یہ ناگزیر چیز کو مؤخر کرنے کے مترادف ہے۔“

جلتی پر تیل چھڑکتی حکومت

صدر گوٹابیا راجاپکشا اور اس کے خاندان کی نا اہل حکومت نے بلاشبہ بحران کو مزید شدید کیا ہے۔ موجودہ حکومت 2019ء اور 2020ء کے انتخابات کے بعد اقتدار میں آئی۔ انہوں نے 2019ء میں کولمبو کے اندر ہونے والے دہشتگرد حملوں پر سیاست کر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے ”ملک بچانے“، ”سنہالہ بدھ اسٹ لوگوں کا دفاع کرنے“ اور بم دھماکوں میں ملوث مجرموں کو سزا دینے کی بیان بازی کی بنیاد پر سری لنکن حکمران طبقے کی غیر مقبول ہوتی ہوئی روایتی پارٹی، یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (یو این پی)، کے خلاف مہم چلائی۔ انہوں نے عوام کے اس خوف کو استعمال کیا کہ ملکی صورتحال کہیں 2009ء تک ہونے والے تشدد، خونریزی اور خانہ جنگی کی جانب واپس نہ چلی جائے۔

راجاپکشا خاندان سری لنکن سرمایہ دار طبقے کی اکثریت کی حمایت کے بلبوتے پر اقتدار میں آیا، اور انہوں نے جلد ہی 2019ء میں سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ دے کر احسان کا بدلہ چکایا۔ اس کا نتیجہ حکومتی آمدنی میں راتوں رات 33 فیصد کمی کی صورت نکلا۔۔۔جس کے بعد سری لنکا کی تاریخ کے سب سے گہرے بحران کا آغاز ہوا!

اور کرونا وباء کے عرصے میں اس حکومت نے مسائل کو مزید شدید کیا۔ انہوں نے دیوہیکل پیمانے پر پیسے چھاپ کر حکومتی اخراجات پورا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے فقط 2021ء میں 1.2 کھرب سری لنکن روپے چھاپے، جو جی ڈی پی کا 12 سے 15 فیصد بنتا ہے، اور اس سال وہ اس سے بھی زیادہ پیسے چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کھاد کی درآمدات میں ہونے والے بڑے فراڈ کے باعث چاول کی پچھلی کاشت متاثر ہوئی ہے؛ اور مصنوعی طریقوں سے کرنسی کے قدر میں اضافہ کرنے کی کوششوں کے باعث بلیک مارکیٹ میں اضافہ ہوا ہے۔

جیسا کہ دنیا کے کئی سارے ممالک میں دیکھنے کو ملا ہے، حکمران طبقے کا بحران سرمایہ داری کے بحران کا نتیجہ ہے۔ مگر یہ بحران میں شدت پیدا کرنے والا عنصر بھی بن سکتا ہے، اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ عوام کے بیچ حکمران خاندان کے خلاف شدید غصّہ پایا جا رہا ہے۔ بہرحال، اگر راجاپکشا خاندان کا اقتدار ختم بھی کیا جائے، پھر بھی سرمایہ داری کی بنیاد پر عوام کی پریشان کن اذیتوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔

سامراجیت

اب سری لنکا کی حکومت عالمی قرض دہندگان کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کو بچائیں۔ نئے قرضوں کی تلاش میں اسے نئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔

سری لنکا بیرونی سرمائے کا میدان ہے۔ اس کے اوپر چین، انڈیا اور مغربی ممالک کے قرضے ہیں، اور قرضوں کی واپس ادائیگی کے سلسلے میں اس نے مختلف سامراجی کھلاڑیوں کو اپنے انفراسٹرکچر کے اہم حصے حوالے کیے ہیں۔ 2017ء میں، یو این پی حکومت نے سٹریٹیجک اہمیت کی حامل ہمبن توتا کی بین الاقوامی بندرگاہ چین کو 99 سال کے لیے لیز پر دے دی۔ یہ بندرگاہ سری لنکا کے جنوبی ساحل پر واقع ہے اور اسی لیے کولمبو کی بندرگاہ کی نسبت عالمی تجارتی راستوں کے زیادہ قریب ہے۔ چین نے کولمبو میں دیوہیکل پورٹ سٹی تعمیر کرنے اور خصوصی معاشی زون (ایس ای زی) کی ملکیت بھی لے لی ہے۔

اس دوران، 2021ء میں انڈین اڈانی گروپ نے کولمبو کی بندرگاہ کے اہم حصے میں سب سے زیادہ شیئر خرید لیے، جو چین کے ایس ای زی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے؛ جبکہ امریکی سرمایہ داروں نے یوگادنوانی پاور پلانٹ کی ملکیت حاصل کی، جو ملک کا سب سے بڑا پاور پلانٹ ہے۔

sri lanka india Image MEAphotogallery Flickr

سری لنکا بیرونی سرمائے کا میدان ہے۔ اس کے اوپر چین، انڈیا اور مغربی ممالک کے قرضے ہیں۔

چنانچہ سری لنکا متعدد مخالف اور بڑی سرمایہ دارانہ قوتوں کا میدان ہے، جس کا وہ مقروض بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت خود کو بچانے کے لیے کس کی جانب رُخ کرے گی؟ وہ جس کی طرف بھی رُخ کرے، بدلے میں مطالبہ کیا جائے گا کہ ان کے سرمایہ داروں کو سب سے پہلے قرض کی واپس ادائیگی کی جائے۔ اس وجہ سے سری لنکن حکومت الجھن کا شکار ہے، اسی لیے وہ آئی ایم ایف کی طرف جانے سے بھی ہچکچا رہی ہے۔

جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے سری لنکا کی صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا: ”زامبیا میں 15 ارب ڈالر کے قرض کے شرائط و ضوابط کے حوالے سے بات چیت کی جا رہی ہے تاکہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جا سکے، وہاں یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ حکومت چین سے قرض لینے کی خواہشمند تھی۔“

بہرحال سری لنکا شدید بے چینی کا شکار ہے، اور اب بیل آؤٹ پیکیجز کے لیے آئی ایم ایف، انڈیا اور چین کی جانب رُخ کر رہا ہے۔

ان خونخوار سرمایہ دار ٹولوں کا سری لنکا کے عوام کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں سے مختلف حکمرانوں کی مدد سے سری لنکا کا خون چوس کر اس کی رگوں کو خالی کر دیا ہے۔ اب وہ ”نجات دہندگان“ کے طور پر آ رہے ہیں، مگر جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا، ان کی مدد کے اور نتائج بھی ہوتے ہیں۔

البتہ سرمایہ داروں کے ان تمام ٹولوں کی ترجیح یہ ہے کہ انقلاب کی راہ روکیں۔ سری لنکا میں پائے جانے والے عناصر کسی نہ کسی حد تک خطے بھر میں موجود ہیں۔ سری لنکا میں ہونے والا انقلابی دھماکہ انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر عوام کو متاثر کرے گا۔ انڈیا کی حکومت نے ابھی سے 1 ارب ڈالر کا قرضہ دے دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یقیناً سماجی دھماکے کو روکنا ہے۔ حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے بھی اسی وجہ سے 25 کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔

صدمے میں مبتلا سیاسی پارٹیاں

حالیہ سماجی دھماکے نے تمام سیاسی پارٹیوں کو صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی عوام کے غم و غصّے کا اس سطح پر پھٹ جانے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں جنتا ویمکتی پیرامونا (جے وی پی)، جو ماضی میں بائیں بازو کی پارٹی کے طور پر مشہور رہی ہے، کے جلسوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ حیران کن بات نہیں ہے؛ عوام بے تابی سے متبادل کی تلاش میں ہیں، اور اس صورتحال میں دائیں اور بائیں بازو کی جانب جھکاؤ دیکھنے کو ملے گا۔

مگر جے وی پی کی توجہ کا مرکز صدارتی انتخابات ہیں۔۔۔جو تین سال بعد ہوں گے۔ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے تین سال انتظار نہیں کر سکتے! عوام کو درپیش مسائل کے لیے ایک انقلابی حل کی ضرورت ہے۔

جے وی پی کا منشور انتہائی معتدل ہے۔ وہ سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کرنا چاہتے، جو سری لنکن عوام کے مسائل کی جڑ ہے۔ اور موجودہ بحران کی شدت کے پیشِ نظر، جہاں راجاپکشا خاندان تیزی سے غیر مقبول ہو رہا ہے، حکمران طبقے کی بعض پرتیں عوام کے غصے پر قابو پانے کے لیے اس پارٹی کو دیکھ رہی ہیں۔

ٹریڈ یونینز بھی عوامی غصے کو راستہ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر وہ موجودہ صورتحال کے فرائض سے واقف ہوتے تو وہ حکومت گرانے کی خاطر غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی کال دیتے؛ ہر کارخانے اور محلے میں عوامی کمیٹیاں بنانے کی بات کرتے؛ اور اس حکومت کو گرانے تک لڑائی جاری رکھتے تاکہ سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے مزدور حکومت قائم کر سکیں۔ سری لنکا میں برپا ہونے والا انقلاب جنوبی ایشیا اور باقی دنیا کی اذیتوں میں مبتلا عوام کے لیے طاقت کا سرچشمہ بن سکتا ہے۔

البتہ، منظم اور باشعور انقلابی قیادت کے بغیر عوامی تحریک پسٹن باکس کے بغیر بھاپ کے مترادف ہوتی ہے؛ یہ پروان چڑھے گی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی بنیادی تبدیلی حاصل کیے بغیر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔ فرانس میں پیلی واسکٹ کی تحریک بالآخر ماند پڑ گئی۔ قزاقستان کی حکومت نے تحریک دبانے کے لیے روس کی مدد طلب کی تھی۔ موجودہ حکومت طوفان گزر جانے کا انتظار کرے گی جب عوام اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے، اور تب وہ جبر کا آغاز کرے گی۔

بہرحال، سرمایہ دارانہ بحران کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ حالیہ تحریک کے پیچھے کارفرما عناصر اپنی جگہ پر موجود رہیں گے، اور اس قسم کے احتجاجوں کی مسلسل لہریں دیکھنے کو ملیں گی۔ سری لنکا کا محنت کش طبقہ عوام کو درکار قیادت کا فریضہ پورا کر سکتا ہے، مگر تمام بڑی عوامی تنظیمیں، بالخصوص ٹریڈ یونینز، مگر جے وی پی جیسی قوتیں اس فریضے کو پورا کرنے سے پیچھے ہٹی ہوئی ہیں۔ نتیجتاً، محنت کشوں کی اکثریت فطری طور پر سیاسی پارٹیوں سے نفرت کرتے ہوئے ان سے دور ہوئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نمائندگی ان میں سے کوئی بھی نہیں کر رہا۔ اور یہ ساری پارٹیاں اس تحریک کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ اس قسم کی تحریک ممکن ہے۔ اس حوالے سے سری لنکا کی حالیہ تحریک نے مظلوم محنت کش عوام کے غم و غصّے کے اوپر روشنی ڈالی ہے، جو کسی نہ کسی شکل میں تمام ممالک کے اندر موجود ہے۔

ضرورت ایک نئی قسم کی قیادت کی ہے؛ ایک ایسی انقلابی پارٹی جو عوامی تحریک کو منظم کرنے کی اہل ہو، جس کا پروگرام سرمایہ داری کی بجائے سوشلسٹ طرزِ پیداوار کا نفاذ کرنا ہو۔

Comments are closed.