لاہور:’’کیا انتخابات عوامی مسائل کا حل ہیں؟‘‘ کے عنوان سے تقریب کا انعقاد 

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پروگریسیو یوتھ الائنس|

22 جولائی 2018ء کو ٹاؤن شپ میں پروگریسیو یوتھ الائنس (PYA) اور ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا ’’کیا انتخابات عوامی مسائل کا حل ہیں؟‘‘ تقریب میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی خاصی تعداد موجود تھی اور اس کا مقصد عوام میں ایک بحث کا آغاز کرنا تھا کہ کیا انتخابات نے آج تک کوئی مسئلہ حل کیا ہے یا آگے کر سکتے ہیں۔ سٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری ریڈ ورکرز فرنٹ سے عدیل زیدی نے سنبھالی۔ عدیل زیدی نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب عوام کے لئے ہے اور کوئی بھی شخص آ کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے اور گزارش کی کہ لوگ آ کر اپنی بات رکھیں۔

اہلِ محلہ میں سے پہلے ارشد صاحب نے اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج تک جس کو بھی ووٹ دیا، کسی نے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ بارش ہو جائے تو گلیوں محلوں میں نکلنا محال ہو جاتا اور گھروں میں صاف پانی تک میسر نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی، نون لیگ یا کسی بھی جماعت کا نمائندہ ہمارے مسائل پر بات کرنے نہیں آیا۔5 سال پہلے جس کو ووٹ دیا تھا اس نے آج تک دوبارہ اپنی شکل نہیں دکھائی۔ اس کے بعد ایک نوجوان محمد مزمل نے بات کرتے ہوئے سب سے پہلے PYA اور RWF کا شکریہ ادا کیا کہ یہ پہلی تقریب ہے جس میں ’’لیڈروں‘‘ کی تقریریں سننے کی بجائے عام لوگ بات کر سکتے ہیں۔ مزمل نے کہا کہ الیکشن میں امیر لوگ ہی حصہ لیتے ہیں۔ کسی غریب آدمی کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکے۔ الیکشن کی کمپیئن کے دوران نمائندے مہنگی مہنگی گاڑیوں میں پھرتے ہیں جن کے پٹرول کا خرچ ایک عام آدمی کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہے۔ مزمل نے کہا کہ میں MD-CAT کر رہا ہوں جس میں 50,000 طالب علموں نے درخواست دی ہے جبکہ صرف 4000 سیٹیں ہیں۔ اور اس کے علاوہ ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد بھی بے تحاشہ اخراجات بر داشت کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور نوجوان اسامہ نے کہا کہ غریبوں کے پاس الیکشن لڑ نے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور ہمیں یہ سوال کرنا چاہیے کہ ایک عام آدمی الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لے سکتا اور جب سابقہ امیدوار ووٹ مانگنے آئے تو اس سے پوچھا جائے کہ پچھلے پانچ سال وہ کہاں تھا اور حلقے میں کیوں نہیں آیا اور ان لوگوں کو کس سے خطرہ ہے کہ یہ بلٹ پروف گاڑیوں میں اور گارڈز کے ساتھ گھومتے ہیں۔اگر یہ عوامی نمائندے ہیں تو عوام میں آنے سے ڈر کیسا؟

ریڈورکرز فرنٹ سے شہزاد نے کہا کہ آج عوام کے مسائل پر بات ہورہی ہے اور انتخابات میں حصہ لینے والے لوگوں کے مسائل عوام سے یکسر مختلف ہیں ان کا مسئلہ اپنی لوٹ مار میں اضافہ کرنا اور انتخابی مہم میں اٹھنے والے اخراجات کو دوگنا وصول کرنا ہے۔ امیر لوگوں کی سیاست دھوکے اور فریب کی سیاست ہے جسکا عوام سے کوئی تعلق نہیں عوام کو اپنی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے بعد پروگریسیو یوتھ الائنس سے رائے اسد نے کہا کہ انتخابات محض اقتدار کی بندر بانٹ کا نام ہے۔ جولوگ آکسفورڈ جیسی مہنگی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ ایک غریب طالب علم کیسے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اور جو لوگ پیٹ بھر کر نرم بستر پر سوتے ہیں وہ نہیں جان سکتے کہ غریب لوگ مشکل سے کھانا کھاکر کس طرح تنگ گھروں میں رہتے ہیں۔ آج عوام کی اکثریت الیکشن کے ڈھونگ کو پہچان گئی ہے اور اس سے لا تعلق ہے۔ مزید الیکشن کے بعد جب نواز شریف اور دوسرے کرپٹ لوگ جیل سے باہر آئیں گے اور نئی حکومت کوئی بھی مسئلہ حل کر نے سے قاصر ہوگی بلکہ یہ عوام پر مزید معاشی بوجھ بڑھائے گی تو بے چینی میں اضافہ ہوگا اور لوگ جدوجہد کی طرف بڑھیں گے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہمارے مسائل کی اصل وجہ کیا ہے اور انہیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے محمد عثمان نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ سیاست سرمایہ داروں کے مفادات کی سیاست ہے اور ہر حکومت سرمایہ داروں پر ٹیکس کم کرکے اس کا سارا بوجھ مزدوروں اور غریب عوام پر لاد تی رہی ہے اور تمام پارٹیوں کے منشور میں بھی یہی بات شامل ہے۔مزدوروں اور نوجوانوں کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لیکر ایسا نظام بنانا ہوگا جس کا مقصد منا فع کی بجائے عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کی فراہمی ہو۔ تقریب کے آخری مقرر ریڈ ورکرز فرنٹ کے لاہور منتظم مقصود ہمدانی تھے جنہوں نے کہا کہ آج کی تقریب عوامی سیاست کی جانب پہلا قدم ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے سیاسی جلسوں کے برعکس جن میں سوال اور اختلاف کی کوئی گنجائش اور اجازت نہیں ہوتی۔ آج عوام نے بلا جھجک اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں باقاعدہ میٹنگز کا آغاز کرنا ہوگا جن میں مستقبل کا لائحہ عمل بنایا جاسکے اور اس عوامی جدجہد کو ایک حتمی فتح تک پہنچایاجاسکے۔

Comments are closed.