دنیا بھر میں اسلحے کی دوڑ میں شدت، سامراجی جنگوں کو سوشلسٹ انقلاب ہی ختم کرے گا!

|تحریر: راب سیول، ترجمہ: عرفان منصور|

جیسے جیسے دنیا ایک خطرناک جگہ بنتی جا رہی ہے، ویسے ویسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں ہمیں ایک بار پھر ”بم سے محبت“ کا درس دے رہی ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

یوکرین اور نیٹو کے لیے امریکی امداد واپس لینے کے خطرے سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی علیحدگی پسندی کی پالیسی نے یورپی طاقتوں میں گھبراہٹ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

وہ سر کٹے مرغوں کی مانند دوڑ رہے ہیں۔ وہ فکرمند ہیں کہ اگر امریکہ پیچھے ہٹ جاتا ہے تو کون یورپ کا دفاع کرے گا؟ کیا فرانس اور برطانیہ کے جوہری ہتھیار بقیہ براعظم کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا دیگر ممالک کو بھی ایسے ہتھیار تیار کرنے چاہئیں؟

اسلحہ سازی کی اس نئی دوڑ میں، پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹسک (Donald Tusk) نے کہا ہے کہ پولینڈ کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے چاہییں۔ جرمن حکام بھی واضح طور پر سوچ رہے ہیں کہ شاید انہیں بھی یہی راستہ اپنانا چاہیے۔

یقیناً، ایک بار پھر سے ایٹم بم کے لیے اس پرزور تکرار کا بیشتر حصہ محض دعویٰ اور دکھاوا ہے۔ یورپی رہنما، خصوصاً ایمانوئل میکرون، دھاڑتے تو ہیں، مگر کیا پدی کیا پدی کا شوربا۔

تاہم، اس قسم کی بیان بازی کا ایک سنگین پہلو بھی ہے۔ یوکرین میں پیوٹن کی فتح کے ساتھ ابھرتے ہوئے روس سے خوفزدہ یورپی رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ دفاعی اخراجات میں فوری اضافہ ناگزیر ہے۔

سر کیئر اسٹارمر کے بقول: ”روس ہمارے پانیوں میں، ہماری فضاؤں میں اور ہماری سڑکوں پر ایک خطرہ بن چکا ہے۔“

اس بڑھتے ہوئے عسکریت پسندی کے جنون اور ریاستی دفاعی اخراجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ، رائے عامہ کو بھی فلاحی اخراجات اور خدمات میں بے رحم کٹوتیوں کی صورت میں آئندہ آنے والی قربانیوں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

عالمی انتشار

بین الاقوامی سطح پر ایک نیا منظرنامہ ابھر چکا ہے۔ عالمگیریت کی جگہ اب معاشی قوم پرستی نے لے لی ہے۔

یہ منظر نامہ نہایت واضح انداز میں ٹرمپ کی ”سب سے پہلے امریکہ“ پالیسی سے نمایاں ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ باقی سب کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔

ایک ایسے عالم میں جہاں کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ہر ملک محض اپنے مفادات کی حفاظت میں مصروف ہے۔ اس کے نتیجے میں تحفظ پسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور ایک عالمگیر تجارتی جنگ کا خطرہ سر اٹھا رہا ہے۔

یورپی رہنما اس بکھرتے ہوئے بعد از جنگ کے نظام سے کچھ نہ کچھ بچا لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ نے ان پر یہ بات پوری سختی سے واضح کر دی ہے کہ وہ اب امریکی سلامتی کی ضمانت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔

یورپی یونین کے ایک سینئر سفارتکار نے کہا: ”ہمیں اب جاگ جانا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ’یہی سچ ہے‘۔ ہم اکیلے رہ گئے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار کے ’والدین‘ نے ہمیں گھر سے نکال باہر کیا ہے، ہمارا وظیفہ بند کر دیا ہے اور ہمیں عاق کر دیا ہے۔“

عشروں تک امریکی سامراج کی جی حضوری کے بعد، یورپی اقوام اب بدن دریدہ حالت میں ہیں۔

یوکرین کی جنگ میں ان کی غیر مشروط حمایت اچانک ان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ انہوں نے خود کو زیلنسکی کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا کہ اب وہ شکست اور مکمل رسوائی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اس سب کے لیے اس سے زیادہ برا وقت کوئی نہیں تھا۔

وہ فوجی اخراجات میں اضافہ ایسے وقت میں کرنا چاہتے ہیں جب یورپی سرمایہ داری کا بحران مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔

معاشی نمو تقریباً جامد ہے۔ یورپی اتحاد کے مرکز، جرمنی کو کساد بازاری کا سامنا ہے۔ قرضوں کا بھاری پہاڑ یورپی معیشت کے کندھے تڑخا رہا ہے اور یہ بوجھ دن بہ دن ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔

ایسے میں جہاں اربوں یورو ’دفاع‘ پر نچھاور کیے جا رہے ہیں، وہیں سماجی اخراجات میں شدید کٹوتیوں کی بھی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ مگر سماج میں کٹوتیوں کے خلاف پہلے ہی شدید غصے کی لہر موجود ہے۔

زوال اور انحطاط

”امن کے ثمرات“ کی لوریاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اب تو ہر جانب صرف ہتھیاروں کی دوڑ اور عسکریت پسندی کا شور ہی سنائی دے رہا ہے۔

اس جنگی جنون کا سب سے نمایاں نقارچی کیئر اسٹارمر ہے۔ لیبر پارٹی کے رہنما کے سر پر جنون سوار ہے۔ حضور فرماتے ہیں: ”برطانیہ عالمی منظر نامے پر اپنا کردار ادا کرے گا۔ ہم یوکرین کی زمین پر اپنی فوج اتارنے کے لیے تیار ہیں۔“

یہ اس دستارِ سادات کی نمائش ہے جو پہلے ہی تار تار ہو چکی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ برطانیہ کی طاقت گزشتہ سو برس سے زوال پذیر ہے۔ سلطنت کے خاتمے اور عشروں پر محیط معاشی زبوں حالی نے برطانیہ کو عالمی سطح پر ایک تیسرے درجے کی قوت بنا دیا ہے۔

برطانیہ کا نام نہاد ”آزاد“ ایٹمی دفاعی نظام درحقیقت مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔ اس مہنگے نظام کی قابلیت پر اس وقت شدید سوالات اٹھے جب آخری دو تجرباتی ٹرائیڈنٹ میزائل راستے سے بھٹک گئے اور ناکام رہے۔

شرم کا مقام تو یہ ہے کہ برطانیہ کے دو طیارہ بردار بحری جہاز بمشکل ہی کبھی مکمل جنگی طیاروں کے ساتھ سمندر میں اتارے جاتے ہوں۔ برطانوی فوج تعداد کے لحاظ سے گزشتہ دو سو سال کی تاریخ میں سب سے کمزور حالت میں ہے۔ اس ملک کے جرنیل بمشکل ہی ایک مکمل طور پر لیس ڈویژن تیار کر سکتے ہیں، چہ جائے کِہ کوئی بڑی جنگ لڑ سکیں۔

تعجب نہیں کہ اسٹارمر کا خود ساختہ ”رضاکاروں کا اتحاد“ مذاق بن کر رہ گیا ہے، جسے امریکہ کے خصوصی ایلچی وٹکوف (Witkoff) نے ”ششکہ محض ششکہ“ قرار دیا۔ اس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ برطانوی وزیرِاعظم اپنے آپ کو چرچل جیسا رہنما سمجھتے ہیں، مگر درحقیقت وہ ہوا میں ہی شمشیر زنی کر رہے ہیں۔

قرضے اور گھبراہٹ

ٹرمپ کے امریکہ کو یورپی اقوام ایک قابلِ اعتماد اتحادی تصور نہیں کرتیں۔ اسی لیے وہ بوکھلاہٹ میں دوبارہ مسلح ہونے اور ’انکل سام‘ سے خود کو ”آزاد“ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگر اس کام کے لیے چاہیے ہیں وقت اور وسائل، اور اس وقت دونوں ہی ندارد ہیں۔ یہی سبب ہے ساری بد حواسی کا۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یورپ مکمل طور پر امریکی ٹیکنالوجی اور اسلحہ پر انحصار کرتا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یورپی نیٹو اراکین کے درآمد کردہ اسلحہ کا دو تہائی حصہ امریکہ میں تیار کردہ تھا۔ اس انحصار پذیری کا کوئی فوری حل ممکن نہیں۔

ان اندیشوں کے درمیان، یورپی سیکیورٹی اجلاسوں میں ’اتحاد‘ اور اسلحہ سازی کے لیے مزید رقوم کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ یورپی یونین کے رہنماؤں نے دفاعی صنعت میں 150 ارب یورو بطور قرض شامل کرنے کی تجویز دی ہے، لیکن مالی مسائل سے دوچار اٹلی اور اسپین جیسے ممالک میں اس پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

جرمنی نے دفاعی اخراجات میں اضافے کی خاطر اپنی ’قرض بندی‘ کی پالیسی کو معطل کر دیا ہے۔ تاہم، نسبتاً کمزور یورپی قوتیں ہتھیاروں کی اس دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔

اس ممکنہ قرض کو ’فوجی کینشئن ازم‘ (military Keynesianism) سے تعبیر کیا جا رہا ہے، جو جرمنی کو نسبتاً کم قرضے کی شرح کے باعث قلیل مدتی اقتصادی تحرک فراہم کر سکتا ہے۔

ایک فرانسیسی کاروباری نے طنزاً کہا: ”بات واضح ہے، جب جرمن اپنی گاڑیاں نہیں بیچ سکتے، تو اب وہ ٹینک بنائیں گے۔“

لیکن یورپی سطح پر وسیع پیمانے پر قرض لینے کے امکان نے براعظم کے مجموعی قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافہ کر دیا ہے۔

جنگ بمقابلہ فلاح

یہ بات واضح ہے کہ دفاعی اخراجات معیشت کو سہارا دینے کی بجائے بوجھ بن کر رہیں گے، خصوصاً اُن یورپی معیشتوں پر جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں، جن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔

برطانیہ اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 2.32 فیصد دفاع پر خرچ کر رہا ہے جو سالانہ 64.6 ارب یورو بنتا ہے۔

چانسلر ریچل ری ویز (Rachel Reeves) نے ابھی ابھی 2.2 ارب یورو اضافی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے اور مزید 400 ملین یورو اسلحہ ساز صنعت کے لیے مختص کیے ہیں۔ اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ 2027ء تک برطانیہ کے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2.5 فیصد تک پہنچایا جائے گا، جس کے لیے غیر ملکی امداد اور فلاحی بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی۔ اس کا ہدف اگلی پارلیمانی ٹرم میں یہ شرح 3 فیصد تک لے جانے کا ہے۔

جب کہ قومی قرض پہلے ہی جی ڈی پی کے 100 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے، اسٹارمر نے مزید سرکاری قرض لینے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ اس کی بجائے، لیبر پارٹی ٹیکسوں میں اضافے اور کٹوتیوں کے ذریعے ’دفاع‘ کے لیے وسائل مہیا کرے گی۔

حکمران طبقہ اور اس کے ترجمان اس سامراجی منصوبے میں اسٹارمر اینڈ کمپنی کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر، فنانشل ٹائمز کا کالم نگار جانان گنیش (Janan Ganesh) لکھتا ہے: ”یورپ کو جنگی ریاست کی تعمیر کے لیے فلاحی ریاست کو محدود کرنا ہو گا“۔ اس کے مطابق، سماجی اخراجات کی بلند شرح ”گزشتہ صدی کے دوسرے نصف کی غیر معمولی تاریخی صورتِ حال کا نتیجہ تھی، جو اب باقی نہیں رہی۔“

یہ سرمایہ داری کے تحت محنت کش طبقے کا مستقبل آشکار کرتا ہے، یعنی مزید سخت کٹوتیاں اور ظالمانہ حملے۔

اسٹارمر اور ری ویز نے اس کا آغاز بزرگوں کی موسمِ سرما کی ایندھن امداد میں کمی اور معذوروں کے لیے خدمات میں کٹوتی سے کر دیا ہے۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جو معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اندازاً دو لاکھ پچاس ہزار افراد غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیلے جائیں گے۔

یہ اقدامات پہلے ہی عوامی غصے کو جنم دے چکے ہیں۔ لیبر پارٹی کی غریب مخالف جنگ بڑی طبقاتی لڑائیوں کو جنم دینے کے بیج سموئے ہوئے ہے۔

فوجی کینشئن ازم

چور کی مانند رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر، اسٹارمر نے اس اسلحہ سازی کے منصوبے کو خوبصورت لفظوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت پورے ملک میں صنعت کی تعمیرِ نو کی جائے گی اور عوامی سرمایہ کاری کے ذریعے ”اگلی نسل کے لیے بہتر، پائیدار ملازمتیں اور مہارتیں فراہم کی جائیں گی۔“

اسی طرح، فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون میں دلیل دی گئی ہے کہ برطانیہ کی صنعتی حکمتِ عملی کے مرکز میں دفاعی اخراجات ہونے چاہییں اور صنعت کو ”سبز سے جنگی بحری جہازوں کے خاکستری“ رنگ میں تیزی سے منتقل کیا جانا چاہیے۔

تاہم، دفاعی اخراجات میں اضافے کو ’ترقی‘ کے ساتھ جوڑنا سراسر فریب اور دھوکہ ہے۔

اس نام نہاد ’فوجی کینشئن ازم‘ کے حمایتی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریاستی سرمایہ کاری ہی تھی جس نے عظیم کساد بازاری کا خاتمہ کیا۔ کیا جنگوں کے درمیانی وقت میں اسلحہ سازی نے ترقی کو جنم نہیں دیا؟

اس کا سادہ اور واضح جواب ہے، نہیں! کساد بازاری کا خاتمہ دوسری عالمی جنگ کی تیاری اور خود جنگ کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ لیکن اس جنگ نے یورپی طاقتوں اور ان کی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

معاشی نقطہ نظر سے، جنگ کا اثر ایک گہری گراوٹ کی مانند ہوتا ہے، جہاں سرمائے اور اشیاء کی وسیع پیمانے پر تباہی، بعد میں معیشت کی بحالی کی راہ ہموار کرتی ہے۔

امریکی سامراج، جس کی معیشت کو جنگ سے کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا، نے مارشل پلان کے ذریعے جنگ کے بعد کی تعمیر نو میں مالی معاونت کی۔

تاہم، عالمی معیشت کی بحالی کی اصل قوت محرکہ وہ فیصلہ تھا جو بریٹن ووڈز (Bretton Woods) میں کیا گیا، جس کے تحت ان تجارتی رکاوٹوں کو ختم کیا گیا جنہوں نے 1930ء کی دہائی میں عالمی تجارت کے انہدام کو جنم دیا تھا۔ یہی فیصلہ اقتصادی توسیع اور سرمایہ کاری میں اضافے کا ذریعہ بنا۔

’مستقل اسلحہ جاتی معیشت‘

اس دور میں بائیں بازو کے کچھ افراد کینشئن ازم کے دباؤ میں آ گئے اور ریاستی اخراجات کو سرمایہ داری کے بحرانوں کا حل سمجھنے لگے۔

مثال کے طور پر، سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے ٹونی کلف (Tony Cliff) نے ’مستقل اسلحہ جاتی معیشت‘ کا نظریہ پیش کیا تاکہ وہ بعد از جنگ معاشی خوشحالی کی وضاحت کر سکے۔ اس نے اسی نظریے کو استعمال کرتے ہوئے یہ ’وضاحت‘ بھی کی کہ سوویت یونین میں معاشی اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ کیوں نظر نہیں آتا، جسے وہ ’ریاستی سرمایہ دارانہ‘ معیشت قرار دیتا تھا۔

تاہم، سوویت یونین میں یہ اُتار چڑھاؤ اس لیے نہیں تھا کہ وہ ’ریاستی سرمایہ داری‘ تھا، بلکہ اس کی وجہ قومی سطح پر ایک منصوبہ بند معیشت تھی، جو منڈی کے قوانین کی پابند نہیں تھی۔

ٹونی کلف نے وضاحت کی: ”سرمایہ دارانہ بحرانوں کی بنیادی وجہ پیداوار کی صلاحیت کے مقابلے میں عوام کی قوتِ خرید کا کم ہونا ہے۔“

اسی بنیاد پر، وہ سمجھتا تھا کہ ریاست کی جانب سے ’مستقل‘ دفاعی اخراجات اس زائد پیداوار کو جذب کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جس سے معیشت میں استحکام اور ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔

لیکن یہ دراصل کینشئن ازم ہی ہے، یعنی ریاستی خسارے کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کا منصوبہ۔ یہی دلیل آج کے بائیں بازو کے اصلاح پسند لوگ بھی دیتے ہیں۔

عظیم کساد بازاری کے دوران لکھ رہے کینز (Keynes) نے یہ تجویز کیا تھا کہ ریاست کو چاہیے کہ بیروزگاروں کو گڑھے کھودنے اور پھر انہیں دوبارہ بھرنے کا معاوضہ دے۔

اس کے مطابق، مزدوروں کی اجرت سے پیدا ہونے والی اضافی قوتِ خرید مزید طلب پیدا کرے گی، جس سے پیداوار اور سرمایہ کاری کو تحریک ملے گی اور یوں معیشت ترقی کرے گی۔

فوجی اخراجات کو بھی اسی نظریے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ یہاں مزدور گڑھے نہیں کھودتے، بلکہ سرمایہ دار قبریں کھودتے ہیں۔

مگر کینشئن نظریہ دان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سرمایہ داری محض طلب پیدا کرنے کا نام نہیں، بلکہ منافع بخش پیداوار، سرمایہ کاری اور منڈیوں کے قیام کا نظام ہے۔

آج زائد پیداوار کا اظہار ’اضافی صلاحیت‘ یا ’زائد صلاحیت‘ کی صورت میں ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ جب سرمایہ داری اپنے عروج پر ہوتی ہے، تب بھی وہ اپنی دستیاب پیداواری صلاحیت کا صرف 80 فیصد ہی منافع بخش طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ کساد بازاری کے دوران یہ شرح گر کر تقریباً 60 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ داری بطور نظام اپنی حدود کو پہنچ چکی ہے۔

عروج و زوال

مارکس نے وضاحت کی: ”سرمائے کی زائد پیداوار کا مطلب اگر کچھ ہے تو ذرائع پیداوار کی زیادتی ہے۔۔۔

”سرمایہ اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا سرمائے کی زائد پیداوار دراصل اشیاء کی زائد پیداوار ہی ہے۔“

مارکس نے بیان کیا کہ سرمایہ دار طبقہ اس زائد پیداوار کے بحران پر عارضی طور پر قابو کیسے پاتا ہے، وہ محنت کش طبقے کی محنت سے پیدا ہونے والی قدرِ زائد کو لے کر دوبارہ پیداوار میں لگا دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو زائد پیداوار کا مستقل بحران پہلے دن سے ہی قائم ہو جائے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی عمل پیداواری صلاحیت کو مسلسل بڑھاتا چلا جاتا ہے، جس سے زائد پیداوار کا تضاد مزید شدید ہوتا جاتا ہے۔

سرمایہ داری اپنے معاشی بحرانوں کے ذریعے اس ’اضافی صلاحیت‘ کو ختم کرتی ہے، موجودہ ذرائع پیداوار کی قدر کو گھٹاتی ہے اور یوں منافع کو بحال کر کے ایک نئے عروج کی راہ ہموار کرتی ہے۔

1950ء اور 60 کی دہائیوں میں سرمایہ داری نے محض ایک عام عروج نہیں دیکھا بلکہ ایک طویل مدتی ترقی کا دور گزارا۔ اس عرصے میں اگرچہ بعض زوال بھی آئے، مگر مجموعی ترقی کا رجحان اتنا غالب تھا کہ یہ زوال نمایاں نہ ہو سکے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ مضبوط ترقی اس وقت واقع ہوئی جب دفاعی اخراجات حقیقت میں کم ہو رہے تھے جو کہ ٹونی کلف کے ’مستقل اسلحہ جاتی معیشت‘ کے نظریے کی تردید ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بعد از جنگ خوشحالی کے دوران وہ معیشتیں سب سے بہتر کارکردگی دکھا سکیں جنہوں نے دفاع پر کم خرچ کیا، جیسے کہ جرمنی اور جاپان، انہوں نے اس سرمائے کو پیداواری صنعت میں لگایا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ معیشتیں سبقت لے گئیں۔

دوسری طرف، جرمن اسلحہ ساز کمپنیاں عالمی سطح پر اسلحے کی فروخت سے بھی فائدہ اٹھا رہی تھیں، جو جرمن سرمایہ داری کے لیے ایک اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا، نہ کہ معیشت پر بوجھ۔

جنگی معیشت

جب پوری معیشت جنگ کے گرد گھومنے لگے تو کیا ہوتا ہے؟

جرمن سرمایہ داری ہٹلر کے دور میں ایک مکمل جنگی معیشت بن چکی تھی۔ 1939ء تک جرمنی کی اقتصادی پیداوار کا تقریباً 68 فیصد حصہ عسکری پیداوار پر مشتمل تھا۔ لیکن معاشی لحاظ سے یہ ایک غیر مستحکم اور غیر پائیدار نظام تھا۔

اس تمام عرصے کے دوران جرمن سرمایہ داری تباہی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ ہٹلر اور اس کی حکومت کے سامنے دو راستے تھے؛ جنگ چھیڑ دی جائے یا مکمل تباہی کا سامنا کیا جائے۔

آخرکار ہٹلر نے جنگ کا راستہ اختیار کیا اور یورپ کے بیشتر حصے کو فتح کر کے منظم انداز میں اس کے وسائل کو لوٹا اور یوں جرمن معیشت کو عارضی طور پر بحران سے بچا لیا۔ بڑے پیمانے پر تیار کردہ ہتھیاروں کو مؤثر طور پر استعمال میں لایا گیا، جس سے جرمن سامراج کی دولت میں اضافہ ہوا۔

اس لحاظ سے، معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلحہ جاتی معیشت نے جرمن سرمایہ داروں کو وقتی طور پر نفع بخش سرمایہ کاری کا موقع دیا، جب تک کہ ہٹلر کو شکست نہ ہو گئی!

حقیقت یہ ہے کہ دفاعی اخراجات معیشت پر ایک بہت بڑا بوجھ ہوتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے خود کو دنیا کا ’نگہبان‘ مقرر کر لیا۔ اس کردار میں امریکی سامراج نے کوریا، ویتنام، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں جنگوں کا آغاز کیا۔ لیکن یہ جنگیں امریکی معیشت پر ایک زبردست بوجھ بن گئیں، جنہوں نے امریکہ کے تجارتی و مالیاتی منافع کو خسارے میں بدل دیا۔

مزید برآں، امریکی فوجی اخراجات کے مہنگائی پر اثرات نے ڈالر کی قدر کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں 1971ء میں بریٹن ووڈز کے مالیاتی نظام کا انہدام ہوا اور اس کے جھٹکے پوری دنیا کی معیشت نے محسوس کیے۔

سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور امریکہ دونوں ایک اسلحہ کی دوڑ میں شامل تھے۔ لیکن یہ ہتھیار عملاً صرف لوہے کا کباڑ خانہ تھے۔ یہ اخراجات معیشت کو بڑھانے کی بجائے ایک بوجھ بن گئے۔

اس نے سوویت معیشت کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اگرچہ اصل وجہ بیوروکریٹک بدنظمی تھی، جس نے منصوبہ بند معیشت کا گلا گھونٹ دیا۔

گردش، ارتکاز اور بڑھوتری

مارکس نے وضاحت کی تھی کہ ہر شے کی دو قدریں ہوتی ہیں؛ ایک قدرِ استعمال اور دوسری قدرِ تبادلہ۔ سگریٹ کی قدرِ استعمال یہ ہے کہ، صحت کے لیے نقصان دہ ہونے کے باوجود، اسے پیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہتھیاروں کی قدرِ استعمال یہ ہے کہ انہیں چلایا جائے، یعنی جنگ میں استعمال کیا جائے۔

لیکن بیشتر اسلحہ جات، خاص طور پر ایٹمی ہتھیار، صرف گوداموں میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں، اس غیر متحرک حالت میں ان کی قدر پرانی اور بیکار کاروں کے ایک کباڑ خانے جیسی ہوتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ یوکرین کی جنگ کے باعث ان ذخائر میں بتدریج کمی آئی ہے اور یقیناً اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے سرکاری ٹھیکے ایک منافع بخش ذریعہ ہیں۔ لیکن یہ بات اسلحے کی معیشت میں مجموعی نوعیت کو تبدیل نہیں کرتی۔

دیگر سرمایہ دارانہ کمپنیوں کی طرح اسلحہ ساز ادارے بھی ریاست سے اوسط شرحِ منافع، بلکہ اس سے زیادہ کی توقع رکھتے ہیں۔

ان ہتھیاروں کی خریداری کے لیے ریاست جن وسائل پر انحصار کرتی ہے وہ بالآخر ٹیکس ہوتے ہیں، جو محنت کشوں کی اجرتوں سے آتے ہیں یا سرمایہ داروں کے منافع سے؛ یعنی اس دولت سے جو حقیقی پیداوار کے ذریعے پیدا کی گئی ہوتی ہے۔

لہٰذا عسکری اخراجات، بالآخر، معیشت کے بقیہ پیداواری شعبوں میں پیدا کی گئی قدر سے آتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں، اسلحے پر خرچ کی جانے والی دولت معاشی لحاظ سے ایک غیر پیداواری خرچ ہے؛ ایسا خرچ جو سرمایہ دار کے ہاتھوں ذرائع پیداوار اور قوتِ محنت میں لگا کر منافع کمانے کے بجائے، معیشت کے وسائل کو سرمائے کی گردش اور ارتکاز کے عمل سے کاٹ دیتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقہ سرمایہ داروں کے ذریعے استحصال کا شکار ہوتا ہے تاکہ قدرِ زائد پیدا کی جا سکے۔ یہ قدرِ زائد سرمایہ داروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے، جو اسے دوبارہ صنعت میں سرمایہ کاری کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ یہی سرمایہ دارانہ ارتکاز یا نئی پیداوار کا عمل ہے۔

مارکس نے اس عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ معیشت کو دو شعبوں میں تقسیم کیا:

’شعبہ اول‘، ذرائع پیداوار کی پیداوار؛ اور ’شعبہ دوم‘، اشیائے صرف کی پیداوار۔

سرمایہ داری کے خود کو برقرار رکھنے اور پھیلانے کے لیے دونوں شعبے یکساں طور پر ضروری ہیں۔

تاہم، پیداوار کے دوران حاصل شدہ قدرِ زائد کا ایک حصہ دوبارہ سرمایہ کاری میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ سرمایہ دار طبقے کی جانب سے آمدنی کے طور پر خرچ کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ پرتعیش اشیاء کی خریداری میں۔ قدر کا یہ حصہ سرمایہ داری کے پیداواری چکر کا حصہ نہیں بنتا۔

فوجی اخراجات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جیسے کہ تعیشات۔ یہ معاشی لحاظ سے غیر پیداواری ہوتے ہیں؛ ایسی دولت جو آمدنی کے طور پر خرچ کی جاتی ہے، نہ کہ پیداوار میں دوبارہ لگائی جائے اور یوں یہ سرمایہ دارانہ گردش اور پیداوار کے عمل کا حصہ نہیں بنتی۔

معروف بالشویک رہنما نکولائی بخارن (Nikolai Bukharin) نے اس صورت حال کی وضاحت کچھ یوں کی:

”جنگی پیداوار کی نوعیت (سرمایہ دارانہ پیداوار سے) بالکل مختلف ہوتی ہے، یعنی ایک توپ خود کو پیداوار کے نئے چکر کے کسی جزو میں تبدیل نہیں کرتی؛ بارود ہوا میں اُڑا دیا جاتا ہے اور اگلے چکر میں کسی نئے گولے کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتا۔“ (بخارن، تبدیلی کے دور کی معاشیات، صفحہ 44)

یہی صورت حال اُس زندہ محنت کی بھی ہے جو جنگ میں ضائع ہو جاتی ہے۔ فوجی پیداوار کے عمل میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ محنت کشوں کے برعکس، اُنہیں قدرِ زائد پیدا کرنے کے لیے پیداواری طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔

بوخارن نے وضاحت کی کہ، ”فوج، جو ایک طاقتور طلب (demand) مہیا کرتی ہے، یعنی جسے سہارا دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بدلے میں کوئی مساوی کام فراہم نہیں کرتی۔ نتیجتاً، یہ پیداوار نہیں کرتی بلکہ محرومی پیدا کرتی ہے۔“ (ایضاً، صفحہ 45)

دوسرے الفاظ میں، فوج پیدا نہیں کرتی بلکہ صرف کھپت کرتی ہے۔

چنانچہ، سرمایہ دارانہ نظام میں مجموعی سطح پر عسکری اخراجات غیر پیداواری ہوتے ہیں۔ یہ معیشت پر بوجھ بنتے ہیں۔

اسی وجہ سے دفاعی اخراجات معیشت میں مہنگائی کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں۔

یہ خرچ دراصل ایک ایسی صورتِ حال کو جنم دیتا ہے جسے مارکس نے ’فرضی سرمایہ‘ قرار دیا تھا؛ ایسا سرمایہ جو معیشت میں گردش تو کرتا ہے (مثلاً اسلحہ ساز اداروں کے منافعے کی صورت میں)، مگر حقیقی اشیاء کی شکل میں اس کا کوئی متبادل وجود نہیں ہوتا۔

ریاستی افواج اور اسلحہ ساز کمپنیاں بالآخر انہی اقتصادی وسائل کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوتی ہیں جنہیں معیشت کے دیگر پیداواری شعبے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے طلب میں تو اضافہ ہوتا ہے، لیکن رسد میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

اسی لیے دفاعی اخراجات، کینز کے خیالی ”گڑھا کھودنے والے مزدور“ کی مانند دیگر تمام غیر پیداواری ریاستی اخراجات کی طرح، مہنگائی کے رجحان کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

روٹی نہیں بندوق

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، سرمایہ دار حکومتیں دفاعی اخراجات میں کمی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ سرد جنگ کے خاتمے پر ’امن کے ثمرات‘ کا جو نعرہ آیا، اس کا مطلب تھا کہ دفاع پر کم خرچ کیا جا سکتا ہے اور باقی چیزوں پر زیادہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ دور اب ختم ہو چکا ہے۔

اسٹارمر اور ری ویز کے ”برطانیہ کو ایک دفاعی صنعتی طاقت بنانے“ کے خیالی دعوؤں کے باوجود، برطانیہ کی دفاعی صنعت اتنی چھوٹی ہے کہ وہ قومی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتی۔

وزارت دفاع کے مطابق، اسلحہ پر خرچ براہ راست تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار مستقل ملازمتیں دیے ہوئے ہے۔ اگر سپلائی چینز کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ نو ہزار تک پہنچ جاتی ہے، جو ورک فورس کا صرف 0.83 فیصد ہے۔

یہ یقین کرنا کہ برطانیہ اس کم سطح سے ایک فوجی صنعتی سپر پاور میں تبدیل ہو سکتا ہے، محض خیالی بات ہے۔

آج، برطانیہ کے پاس دنیا کا چھٹا سب سے بڑا فوجی بجٹ ہے، جسے وہ برطانیہ کے سامراجیت پر مبنی ماضی کی میراث کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اسٹارمر اس میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ معاشرے کے سب سے زیادہ حساس طبقات پر حملہ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ وہ ”روٹی نہیں بندوق“ کی پالیسی کا حامی ہے۔

جو لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے، ان میں بی اے ای سسٹمز (BAE Systems) جیسے ادارے شامل ہیں، جو ملک کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے سوداگر ہیں اور 2015ء سے اب تک اپنے شیئر ہولڈرز کو 9.8 ارب پاؤنڈ دے چکے ہیں۔

یہ کنٹریکٹرز اور باقی فوجی صنعتی کمپلیکس بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز ہیں۔ خون چوسنے والی جونکیں، جو ٹیکس دہندگان کے پیسے پر پل رہی ہیں۔

دوسری طرف یورپ میں سیاست دان دوبارہ مسلح ہونے کے لیے ریاستی قرضے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، موجودہ عوامی قرض کی بلند سطحوں کو دیکھتے ہوئے، اس کا مطلب ہو گا کہ سود بہت زیادہ ہو گا اور حکومتوں پر دباؤ ہو گا کہ وہ دیگر اخراجات میں کمی کریں۔

حکمران طبقات ہر جگہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ عسکریت پسندی اور سرمایہ دارانہ بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کی کمر پر ڈالا جائے۔

کتابیں، نہ کہ بم!

محنت کش طبقے کے لیے، سرمایہ داری کی بنیاد پر اگر کوئی راستہ ہے تو وہ صرف کٹوتیوں، جنگوں اور عدم تحفظ کا راستہ ہے۔

ہم بھرپور طریقے سے عسکریت پسندی کے ابھار کے خلاف ہیں۔ بطور کمیونسٹ، ہمارا مقصد سرمایہ داروں اور ان کے چمچوں کے بددیانت مفادات اور منافقت کو بے نقاب کرنا ہے، جن کا مقصد ہمیں دھوکہ دینا ہے۔

بدقسمتی سے، ٹریڈ یونین رہنماؤں نے سرمایہ داروں کے جھوٹ کو قبول کر لیا ہے۔ وہ دفاعی اخراجات میں اضافے کی حمایت کرتے ہیں تاکہ برطانوی محنت کشوں کے لیے مزید روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ محنت کشوں کو دوسرے محنت کشوں کو ہی مارنے کے لیے ہتھیار کیوں بنانے پڑیں؟ ہم سماجی طور پر مفید مال اور سروسز کیوں پیدا نہیں کر سکتے، جیسے کہ 1970ء کی دہائی میں لوکاس ایرو اسپیس (Lucas Aerospace) کے محنت کشوں نے تجویز کیا تھا؟

یہ سچ ہے۔ مثال کے طور پر، بارو ان فرنیس شپ یارڈ (Barrow-in-Furness shipyard) فی الحال جوہری آبدوزیں بنانے کے لیے حکومتی معاہدوں پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن 1960ء کی دہائی کے اوائل میں، اس کا سب سے منافع بخش کام برطانوی ریل کے لیے انجن بنانا تھا، جو معاشرے کے لیے ایک بہت سود مند کام تھا۔

سرمایہ داری نے ہر چیز کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔

جیسا کہ کامن ویلتھ تھنک ٹینک کے سینئر محقق خم روگیلی (Khem Rogaly) نے وضاحت کی کہ: ”پالیسیوں نے کمیونٹیز کو فوجی معاہدوں پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ عوامی خدمات اور شہری صنعت سے سرمائے کا انخلا ہو چکا ہے۔“

یہ ترقی سرمایہ داری کی انارکی کی عکاسی کرتی ہے، جو اپنے گھر میں تعمیرِ نو کی بجائے بیرون ملک سکولوں اور سپتالوں پر بمباری کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔

سرمایہ داروں اور سامراجیوں کا آقا صرف لالچ اور منافع ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔

ہمیں اس سرمایہ دارانہ پاگل پن کی مخالفت کرنی ہو گی۔ ہم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی طرف جانے کی مخالفت کرتے ہیں، جسے اسٹارمر کی لیبر اور دنیا بھر کی سرمایہ دارانہ حکومتیں فروغ دیتی ہیں۔

عسکری پروگرام کی بجائے، ہم سماجی طور پر مفید عوامی کاموں کے پروگرام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں صحت، نہ کہ جنگ! کتابیں، نہ کہ بم!

ہم سوشلسٹ منصوبہ بند پیداوار کے حامی ہیں، جہاں معاشرتی وسائل کو سب کے فائدے کے لیے عقلی طور پر استعمال کیا جائے۔

صرف ارب پتیوں اور ان کے چمچوں کی ملکیت کو چھین کر ہی ہم اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں اور ایک ایسی دنیا پیدا کر سکتے ہیں جو تنازعات، افراتفری اور بحران سے آزاد ہو۔

اس کا مطلب عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے سوا اور کچھ نہیں۔

Comments are closed.