|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
الاسکا سے آنے والی خبروں نے یورپ کے ہر دارلحکومت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے میں عام عوام کی نہیں بلکہ ان عاقل و بالغ مرد و خواتین کی بات کر رہا ہوں جو اپنے آپ کو ہمارے قائد کہلانا پسند کرتے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
میڈیا میں جس طرح کا غلیظ پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اس سے پہلے میں نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی دوبارہ دیکھنے کی کوئی خواہش ہے۔
تنقید کا شور شرابا قیامت خیز ہے۔ اس ایک واقعے نے جو ہیجان برپاء کر دیا ہے اس سے نام نہاد ”آزاد دنیا کے قائدین“ کی حیران کن پریشانی عیاں ہو رہی ہے جو ایک بدتمیز بچے کی طرح چیخ و پکار رہے ہیں جس سے اس کا پسندیدہ کھلونا چھین لیا گیا ہو۔
محض ایک ہفتہ قبل یہی قائدین ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کو قائل کر لیا ہے کہ سخت پابندیوں کی ایک نئی لہر برپاء کر کے روسی معیشت کو نیست و نابود کر دیا جائے اور یوکرین میں ولادیمیر پیوٹن کے جنگی اہداف دفنا دیے جائیں۔
نیو یارک ٹائمز اخبار پریشان ہے کہ:
”مسٹر ٹرمپ الاسکا میں جس جنگ بندی سے دست بردار ہوا ہے وہ پچھلے مہینے اس کے لیے اتنی اہم تھی کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر روس نے پچاس دنوں میں جنگ بندی نہ کی تو نئی سخت پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ پھر اس نے اس ڈیڈ لائن کو پچھلے جمعے تک توسیع دے دی۔ اب جنگ بندی، ڈیڈ لائن اور پابندیوں کا کوئی منصوبہ نہیں ہے!“
ایسا معلوام ہوتا ہے کہ اچانک ہی قسمت پھوٹ گئی اور سارے منصوبے خال میں مل گئے۔ محض چوبیس گھنٹوں میں ہر چیز اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جب جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار کی برتری کا سبق سب سے زیادہ روشن ہونا چاہیے لیکن موٹی عقل سے لیس ہمارے سیاسی قائدین کے لیے ہر سبق ان کی جہالت میں مزید پختگی کا سامان ہے۔
بحث مباحثے کی بجائے وہ شیخیوں اور دھمکیوں کی ایک نئی منزل پر جا بیٹھے ہیں جہاں سے وہ کریملن میں موجود شخص کی جادوئی چالبازیوں پر اپنے سروں سے بال نوچتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں موجود شخص کی حیران کن ”سادگی“ (یعنی بیوقوفی) کا ماتم کر رہے ہیں۔
آخر امریکہ کے صدر سے ایسی کیا غلطی سرزد ہو چکی ہے؟ اس نے میز پر بیٹھ کر روسی فیڈریشن کے قائد کے ساتھ بات کی ہے۔۔ وہی شخص جس کے حوالے سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ 2022ء میں ”یوکرین پر بلااشتعال ایک خوفناک جنگ مسلط کر چکا ہے“ اور انسانیت کی تاریخ میں موجود ہر جرم کا مرتکب ہوا ہے، جس میں شاید ناشتے میں بچے کھانے کا الزام رہ گیا ہے! (فی الحال تو یہ الزام نہیں لگا لیکن جو حالات چل رہے ہیں ان میں یہ کوئی بعید القیاس نہیں ہے)۔
یہاں ہم کچھ مضحکہ خیز مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز اخبار نے فوری طور پر ”یوکرین پر ٹرمپ پیوٹن کے سامنے جھک گیا“ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔
اس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ:
”الاسکا کی فلائٹ پر صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر اس نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے مذاکرات کے دوران یوکرین جنگ بندی نہ کروائی تو ’میں خوش نہیں ہوں گا‘ اور ’شدید نتائج‘ ہوں گے۔
”چند گھنٹوں بعد وہ ایئر فورس ون پر سوار ہو کر الاسکا سے اپنے مطابق، اہم ترین جنگ بندی کروائے بغیر واپس روانہ ہو گیا۔ لیکن اس نے کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی اور مسٹر پیوٹن سے ملاقات کے حوالے سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میٹنگ کو دس نمبر دوں گا‘۔
”مسٹر ٹرمپ کی پرانتشار صدارت کی تمام تاریخ میں بھی، اینکوریج میں مسٹر پیوٹن کے ساتھ میٹنگ تاریخی قلابازی کی اعلیٰ ترین مثال بن چکی ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے وہ مرکزی ہدف ہی ختم کر دیا جسے حاصل کرنے کے لیے وہ اس ذیلی آرکٹک (subarctic) سربراہی کانفرنس میں پہنچا تھا اور اس نے ہفتہ کے دن انکشاف کیا کہ وہ فوری جنگ بندی حاصل کرنے کی اب کوشش بھی نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس وہ مسٹر پیوٹن کے ترجیحی طریقہ کار پر سجدہ ریز ہو گیا کہ ایک وسیع امن معاہدہ کیا جائے جس میں یوکرین کو اپنی کچھ زمین سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
”اس سارے معاملے کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ مسٹر پیوٹن کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ مزید کسی تادیبی کاروائی کا سامنا نہ کرتے ہوئے اپنے ہمسائے پر لامتناہی جنگ اس وقت تک مسلط رکھی جائے جب تک وقت طلب مذاکرات کے ذریعے ایک وسیع تر معاہدہ نہیں ہو جاتا جس کے امکانات بہت محدود ہیں۔“
اگلے چند گھنٹوں میں ہر اخبار اور ہر ٹی وی پروگرام میں ٹرمپ کی یوکرین کو نام نہاد دھوکہ دہی کا ماتم کیا گیا۔ ان حملوں کی تیزی اور تلخی یقینا تاریخی ہے۔
ٹوری پارٹی کے سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر انتہائی رنگین اور دقیق جملوں کی بوچھاڑ کر دی جو یقینا ایک عالمی سطح کے قابل عزت سفارت کار کے شایان شان ہی تھی!
اس نے الاسکا سربراہی میٹنگ کو ”عالمی سفارت کاری کی غلیظ تاریخ کا سب سے مکروہ اور تعفن زدہ واقعہ“ قرار دیا ہے۔
ہم احترام سے مسٹر جانسن کی اپنی غلاظت سے بھری جھوٹ، فریب اور مکاری کی غلیظ تاریخ کا اپنی صحت پر مضر اثرات کا نوحہ ایک طرف رکھتے ہوئے زیادہ سنجیدہ تجزیہ کاروں سے رجوع کرتے ہیں۔
صدر باراک اوبامہ کی حکومت میں NATO کے سابق سفیر ایوو دالدار (Ivo Daalder) کا کہنا ہے کہ، ”وہ ایک مرتبہ پھر چِت ہو چکا ہے۔ ایک جنگ بندی، شدید معاشی نتائج اور مایوسی کے تمام وعدوں کے باوجود سرخ قالین پر دو اور دس منٹ کافی تھے کہ پیوٹن ٹرمپ کو ایک مرتبہ پھر شیشے میں اتار لے۔ کیا افسوسناک تماشہ ہے۔“
نیو یارک ٹائمز ہرزہ سرائی میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس نے ٹرمپ اور پیوٹن کی میٹنگ کا موازنہ 1938ء میں اڈولف ہٹلر (Adolf Hitler) کو خوش کرنے والی نیویل چیمبرلین (Neville Chamberlain) کی میٹنگ سے کر دیا:
”اُس وقت کی طرح، صدر کی الاسکا میں جمعہ کے دن امریکی پابندیوں کے شکار اور جنگی جرائم کے نتیجے میں ایک عالمی گرفتاری وارنٹ یافتہ مسٹر پیوٹن کے ساتھ دوستانہ ملاقات سے خوفناک ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ ناقدین اس کا موازنہ 1938ء کی میونخ کانفرنس سے کر رہے ہیں جب وزیراعظم نیویل چیمبرلین نے جرمنی کے اڈولف ہٹلر کو خوش کرنے کے لیے چیکو سلواکیہ کا ایک حصہ دے دیا تھا۔“
یہ لوگ کس حد تک پاگل ہو چکے ہیں!
ہم بعد میں ایک مسلسل دہرائے جانے والے الزام پر آئیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کریملن کے رہائشی نے ”چِت“ کر دیا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس نے سابق KGB کے دنوں میں کالا جادو سیکھا تھا جس سے وہ لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر استعمال کرنا جانتا ہے۔
ہم اس آہ و گریا پر واپس آئیں گے اور اس کے جوہر کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں موجود حقائق کو افشاں کریں گے۔ فی الحال ہم الاسکا سربراہی ملاقات کی طرف واپس آتے ہیں۔
ٹرمپ کے اہداف
ڈونلڈ جے ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد یوکرین جنگ کا ایک پُر امن حل تلاش کرنا ہے۔
اب آپ کسی بھی معقول انسان سے ایسی بات کریں گے تو یہی سمجھ آئے گی کہ مذاکرات کے ذریعے امن حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے تو جنگ کے دونوں طرف موجود حریفوں کو ایک ٹیبل پر بیٹھ کر بات چیت کرنی ہو گی۔ اس طرح کے مذاکرات کا مقصد دونوں فریقین کی پوزیشنوں میں وضاحت اور ان کی آگاہی حاصل کرنا ہو گا جس کے بعد ایک بتدریج اور صبر آزماء بحث مباحثے کے ذریعے کسی ایسے نکتے پر پہنچا جائے گا جہاں مشترکہ طور پر ایک منظور شدہ امن معاہدہ ممکن ہو سکے۔
میرا خیال ہے کہ ایک چھ سال کا بچہ بھی اس حوالے سے واضح ہو گا۔ لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر مرکزی یورپی ممالک کے قائدین قطعی طور پر شدید مخالف ہیں۔
ڈونلڈ ٹرپ اور ولادیمیر پیوٹن ایک میز پر بیٹھ گئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہمارے قائدین کا بلڈ پریشر اتنا بڑھا گئی ہے کہ دل کے دورے کا ڈر ہونے لگا ہے!
مذاکرات کے ذریعے امن کی کوشش کو سراہنے کی بجائے یہ تمام قائدین اس کے خلاف منہ سے جھاگ اڑا رہے ہیں۔ لندن سے برلن تک حکمران ایوانوں میں خوف و ہراس اتنا شدید ہے کہ اجتماعی پاگل پن کے دورے کا خدشہ حقیقت بن رہا ہے!
لیکن ایک لمحہ کے لیے ہم سطحی پاگل پن سے نیچے اتر کر اس تمام تر کاوش کے پیچھے منطق کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر جوہر کو پرکھا جائے تو ہمیں مندرجہ ذیل نتائج ملتے ہیں:
1۔ ٹرمپ پیوٹن کے ساتھ شخصی ملاقات پر آمادہ ہو کر اس کے ہاتھوں میں کھیل گیا۔
یہ غلط ہے۔ تمام معلومات کے مطابق یہ روسی نہیں بلکہ امریکی تھے جنہوں نے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ ٹرمپ نے واضح طور پر ویٹکوف کو اس کام کے لیے ماسکو بھیجا تھا۔
2۔ اس ملاقات کا مقصد یوکرین میں امن کے لیے ایک معاہدہ کرنا تھا۔ اس کا پہلا قدم جنگ بندی تھا۔ یہ نہیں ہو سکا۔ کوئی معاہدہ نہیں ہوا، کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی۔ اس لیے یہ ملاقات ایک مکمل ناکامی ہے۔
یہ بھی غلط ہے۔ ملاقات سے پہلے ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ اسے الاسکا میں کوئی معاہدہ حاصل کرنے کی امید نہیں ہے۔ اس ملاقات کا مقصد ایک طویل عرصہ سے منقطع تعلقات کو دوبارہ بحال کرنا، وسیع معاملات پر تبادلہ خیال کرنا جس میں یوکرین بھی شامل ہے اور ایک معاہدہ کی کوشش کرنا کہ مستقبل میں ایسی مزید ملاقاتیں اور مباحثے جاری رہیں۔
یہ تمام اہداف کامیابی سے حاصل کر لیے گئے ہیں۔ اور یہی وہ مسئلہ ہے جس پر یورپی شدید مشتعل اور پریشان ہیں کہ امریکہ اور روس آپس میں قریبی تعلقات استوار کر لیں گے اور درمیان سے ان کا پتا کٹ جائے گا۔
یہ خوف درست بھی ہو سکتا ہے۔
3۔ ولادیمیر پیوٹن کے لیے یہ ملاقات ایک دیوہیکل پروپیگنڈہ فتح تھی جو پہلے پوری دنیا میں تنہاء رہ گیا تھا اور اب امریکی صدر کے ساتھ عالمی سطح پر تمام توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
16اگست کو بی بی سی نیوز نے ایک مضمون شائع کیا کہ، ”پیوٹن کا عالمی سٹیج پر لال قالین سے استقبال کیا گیا“۔ اس میں لکھا ہے کہ:
”جب صدر ولادیمیر پیوٹن جمعہ کے دن عالمی اسٹیج پر واپس جلوہ افروز ہوا تو الاسکا میں بادل چھائے ہوئے تھے۔ جوائنٹ بیس ایلمیندورف رچرڈسن کے ٹارماک پر لال قالین بچھائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظار میں کھڑا تھا۔
”جب پیوٹن قریب پہنچا تو ٹرمپ نے تالیاں بجائیں۔ دونوں قائدین نے گرمجوشی سے ہاتھ ملائے اور مسکرائے۔
”یہ پیوٹن کے لیے ایک شاندار لمحہ تھا۔۔ ایک ایسا قائد جسے تقریباً تمام مغربی اقوام 2022ء میں یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کی پاداش میں فراموش کر چکی ہیں۔ اس کا عالمی سفر زیادہ تر روسی فیڈریشن کے دوست ممالک جیسے شمالی کوریا اور بیلاروس تک محدود رہ گیا ہے۔
”الاسکا سربراہی ملاقات کا منعقد ہونا ہی پیوٹن کی بہت بڑی فتح ہے۔ لیکن یہ خیر مقدم تو کریملن کی تمام توقعات سے بھی بہت آگے جا چکا ہے۔ محض چھ مہینوں میں مغرب کی آنکھوں میں ایک دھتکارے ہوئے شخص سے لے کر آج پیوٹن کا امریکی سرزمین پر ایک شراکت دار اور دوست کے طور پر خیر مقدم ہو رہا ہے۔
”سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ایک غیر طے شدہ منصوبہ کے بغیر پیوٹن نے ایئر بیس تک سفر کے لیے اپنی ماسکو نمبر والی صدارتی ریاستی گاڑی کی بجائے ٹرمپ کی بکتر بند گاڑی کا انتخاب کیا۔
”جب گاڑی سفر پر روانہ ہو رہی تھی تو کیمرے پیوٹن پر مرکوز ہو گئے جو پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہنس رہا تھا۔“
یا خدایا! دو آدمی ایک دوسرے سے ملے اور ہاتھ ملا لیے! قیامت برپاء کیوں نہ ہوئی! اس سے بھی برا ہوا کہ دونوں صدر کی گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے!
مغربی دنیا کے قائدین کے لیے محشر برپاء ہو چکا ہے۔ دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک کے قائدین کی ملاقات ہو چکی ہے اور تمام تر اشاریے یہی ہیں کہ دونوں کے آپس میں شاندار تعلقات ہیں۔
اب یہ تو کسی کتاب میں نہیں لکھا تھا! پس ثابت ہوا جو یورپی ایک طویل عرصہ سے بتا رہے ہیں۔ یہ ملاقات ایک خطرناک خیال تھا اور اسے کبھی ہونا ہی نہیں چاہیے تھا! درحقیقت کسی بھی مغربی قائد کو کبھی بھی کسی بھی موقع پر روسیوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔
یقینا ولادیمیر پیوٹن نے ایک شاندار پروپیگنڈہ فتح حاصل کی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ پیوٹن ”عالمی سطح پر تنہاء“ تھا، جھوٹ ہے۔ درحقیقت اس وقت روس کے پوری دنیا میں یوکرین جنگ سے پہلے سے بھی زیادہ اتحادی موجود ہیں۔ روس کا یورپ کی سامراجی قوتوں اور شمالی امریکہ، یعنی عالمی سطح پر مٹھی بھر ممالک نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ لیکن اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ پاگل پن بھی کب تک جاری رہے گا۔
یہ بھی سچ نہیں ہے کہ اس سربراہی میٹنگ سے ٹرمپ کو کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت اسے پیوٹن سے زیادہ ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اس ملاقات کو منعقد کر کے (ہم زور دے رہے ہیں کہ یہ ملاقات پیوٹن نے نہیں، ٹرمپ نے منظم کی ہے) اس نے کامیابی سے اپنے آپ کو ایک غلیظ گٹر سے باہر نکال لیا ہے جہاں وہ یورپی قائدین اور واشنگٹن میں موجود جنگی جنونی اتحادیوں اور لنڈسے گراہم (Lindsey Graham) کے گھٹیا مشوروں کی وجہ سے پھنس گیا تھا۔
انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹرمپ پر دباؤ بڑھایا کہ وہ روس کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کرے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ روس کے ساتھ مذاکراتی امن کی کوششوں کو مکمل طور پر سبوتاژ کر دیتا۔
درحقیقت یورپیوں کی یہی کوشش تھی۔ لیکن ٹرمپ کو ادراک ہو گیا کہ مزید پابندیوں کے نتیجے میں روس مغربی مطالبات تو کیا مانے گا، الٹا امریکہ اور اس کی اپنی پوزیشن برباد ہو جائے گی اور اس نے اس سارے عمل کی سرکوبی کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
درحقیقت یہ ایک شاندار چال ہے جس کے ذریعے ٹرمپ نے وعدہ کردہ پابندیوں کو مستقبل قریب کے لیے ٹال دیا ہے، سینیٹ میں جنگی جنونی ناقدین کو غیر مسلح کر دیا ہے اور یورپیوں اور یوکرینیوں کو ایک مشکل پوزیشن میں پھنسا دیا ہے۔ یہ سب کچھ کامیابی سے حاصل ہو چکا ہے۔ اس لیے یہ ایک ناکامی نہیں بلکہ شاندار کامیابی ہے۔
4۔ ڈونلڈ ٹرمپ ”سادہ“ (یعنی بیوقوف) ہے اور پیوٹن اسے آسانی سے انگلیوں پر نچا لیتا ہے کیونکہ وہ ایک سابق KGB ایجنٹ ہے، اثر انداز ہونے کے کالے علوم پر دسترس رکھتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا امریکی صدر پر ایک پُر اسرار غیر معمولی اثر و رسوخ ہے۔
آج تک کبھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ آخر وہ کیا ”پُر اسرار غیر معمولی اثر و رسوخ“ ہے اگرچہ مضامین اور ٹی وی پر اس کا مسلسل حوالہ دیا جاتا ہے۔
بہرحال یہ واضح ہے کہ اس قسم کی وضاحت کوئی وضاحت نہیں ہے! آج تک کسی نے یہ نہیں بیان کیا کہ یہ پُر اسرار طاقت کہاں سے ظہور پذیر ہوئی، کیسے وجود میں آئی یا پھر یہ ہے کیا۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ روسی قائد کی طرف سے پیش کردہ دلائل سے قائل ہو گیا ہو؟ عمومی سوچ یہ ہے کہ ایسی کوئی دلیل وجود ہی نہیں رکھتی اور اس لیے کوئی اور وضاحت لازم ہے۔
درحقیقت، اور ہم یہ واضح کریں گے، پیوٹن کے پاس بہت ٹھوس دلائل موجود ہیں اور ان دلائل کو موجود حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے اور اس طرح کوئی بھی انسان جو شدید متعصب اور پہلے سے فیصلہ کر کے نہ بیٹھا ہو، اسے قائل کیا جا سکتا ہے۔
مذاکرات کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ”آزاد دنیا“ کے قائدین کو اس طرح کے مذاکرات نامنظور ہیں۔
وہ پہلے سے مطالبات کی فہرست بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں جن سے متعلق انہیں معلوم ہے کہ روسی انہیں کبھی بھی نہیں مانیں گے۔ انہیں بھرپور امید تھی کہ ٹرمپ یہی فہرست لے کر ملاقات میں پہنچ جائے گا اور ساتھ ہی ایک الٹی میٹم بھی داغ دے گا، جس کے نتیجے میں مذاکرات کی ناکامی اور جنگ کی طوالت یقینی ہو جائے گی۔
یوکرین جنگ کو روکنا کیسے ممکن ہے، درحقیقت امریکہ اور روس کے درمیان ایک پراکسی جنگ، اگر جنگ میں ملوث دونوں فریقین آپس میں بات نہیں کریں گے۔ یہ ایسا معمہ ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ درحقیقت بغیر بات چیت کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔
یورپیوں اور ولودیمیر زیلنسکی کی پالیسی ہی یہ ہے کہ امریکیوں اور روسیوں کے درمیان ہر رابطے کو سبوتاژ کر دیا جائے تاکہ ان کے درمیان امن کے حوالے سے کوئی مذاکرات نہ ہو سکیں۔
ایک مرتبہ ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ہمیں جنگ کی صورتحال اور اس سفاک سفارت کاری سے مکمل آگاہی ہو جائے گی جو ”ایک منصفانہ اور دیرپاء امن“ کی لفاظی کی آڑ میں جنگ کو لامتناہی طوالت دینا چاہتی ہے۔
ایک مرتبہ پھر ”روسی اسکینڈل“
”روسی اسکینڈل“ ایک مرتبہ پھر زندہ ہو کر قبر سے باہر آ چکا ہے۔ 2016ء میں امریکی ایجنسیوں نے روس پر الزام لگایا تھا کہ وہ امریکی انتخابی عمل میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یہ الزام ”روسی اسکینڈل“ کی بنیاد تھا۔
میڈیا میں شدید شور شرابے کے ساتھ ایک مہم لانچ کی گئی جس کا واضح ہدف ٹرمپ کی صدارت تک رسائی کو ہر ممکن روکنا تھا۔ عرصہ دراز پہلے ان الزامات کو غلط ثابت کیا جا چکا ہے۔
ٹرمپ نے کئی مرتبہ روسی اہلکاروں سے کسی بھی قسم کے غیر موزوں روابط کی متعدد مرتبہ تردید کی ہے۔ ماسکو نے بھی امریکی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کی ہے۔
رابرٹ مویلر ایک خصوصی وکیل تھا جسے انتخابی عمل میں مداخلت کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ 2019ء میں امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے اس کی رپورٹ شائع کی تھی کہ دورانِ تحقیقات ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ روس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کوئی ساز باز موجود تھی۔
لیکن نیو یارک ٹائمز نے شائع کیا کہ:
”مسٹر ٹرمپ عرصہ دراز سے مسٹر پیوٹن کی تعریف اور اس کی پوزیشنوں پر ہمدردی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ 2018ء میں ہلسنکی میں منعقد ہونے والی ان کی سب سے یادگار ملاقات میں مسٹر ٹرمپ نے (پوری دنیا کے سامنے) مسٹر پیوٹن کی تردید کو قبول کر لیا تھا کہ روس 2016ء کے امریکی انتخابات میں ملوث نہیں ہے۔ یعنی انہوں نے ایک سابق KGB افسر کی تردید کو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحقیقات پر فوقیت دی تھی۔“
یہ بات اپنی جگہ لیکن سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ سچ کون بول رہا تھا؟ ولادیمیر پیوٹن یا امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں؟
انتخابات سے کئی مہینوں پہلے، امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے متفقہ طور پر نتیجہ اخذ کیا تھا کہ روس کی خواہش ہے نہ قابلیت کہ وہ انتخابی عمل میں مداخلت کرے۔
لیکن ٹرمپ کی فتح کے فوری بعد دسمبر 2016ء میں اوبامہ حکومت نے ایک اور رپورٹ شائع کروائی جس میں پچھلی رپورٹ کی تردید کر دی گئی۔
وہ کلیدی انٹیلی جنس کہ روس نے انتخابی عمل میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی، اسے روک کر خفیہ کر دیا گیا۔
حال میں نئی قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹر (DNI) تلسی گابارڈ 2016ء میں ”ٹاپ سیکرٹ“ قرار دی جانے والی ای میلز کو منظر عام پر لائی ہے جن میں سابق DNI قائد جیمز کلیپر نے زبردستی ان خدشات کو دبانے کی کوشش کی جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو زبردستی روس کے ساتھ جوڑنے اور 2016ء میں انتخابی مہم میں مداخلت کے حوالے سے الزامات پر ابھرے تھے۔
سابق انٹیلی جنس کمیونٹی (IC) سربراہان کی رپورٹوں کے مطابق روس کی 2016ء میں مداخلت ایک سفید جھوٹ تھا۔
لیکن آج بھی نام نہاد سنجیدہ صحافی اسی جھوٹ کو دہرانے پر مصر ہیں اور اسے ایک ناقابل تردید حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور یہ کام بغیر کسی شرم و حیا کے آنکھیں دکھا کر کیا جا رہا ہے۔
وہ مشہور مقولہ تو یاد ہو گا: حقائق کو ایک اچھی کہانی کیوں برباد کرنے دیں؟
امریکی دھمکیوں کا پردہ چاک
اب ہم اس ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ کیسے بیان کریں؟ یہ کوئی ایسا مشکل سوال بھی نہیں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جب الاسکا مذاکرات میں شرکت کرنے جا رہا تھا تو وہ کسی مضبوط پوزیشن کے بجائے بہت کمزور پوزیشن پر تھا۔ اس نے مذاکرات سے پہلے روسیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی کمر توڑ پابندیوں سے ہر قسم کے سنگین نتائج کی دھمکیاں لگائیں۔ مغربی قائدین کو یقین تھا کہ ان دھمکیوں سے روس کی ٹانگیں کانپ جائیں گی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس ملاقات سے پہلے ٹرمپ کو معلومات مل چکی تھیں کہ اس کی نئی پابندیوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ روسی تیل اور گیس کے سب سے بڑے خریداروں چین اور انڈیا نے سیدھا جواب دے دیا کہ وہ روس یا کسی بھی اور ملک کے ساتھ کسی قسم کی آزادانہ تجارت کے حق میں کوئی رکاوٹ یا مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔
اس لیے پابندیوں کی دھمکیاں لاگو ہونے سے پہلے ہی بخارات بن کر اڑ گئیں۔ وائٹ ہاؤس میں موجود آدمی کو اس کا بخوبی اندازہ تھا کیونکہ بہرحال وہ بھی ایک منجھا ہوا کاروباری ہے۔ اسے جوئے کے بنیادی اصولوں کی سمجھ بوجھ ہے۔
ایک جوئے میں اگر آپ کا مخالف شدت سے شرائط لگاتا جا رہا ہے لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس کمزور پتے ہیں تو آپ پھر اس کے پتے کھلوائیں گے۔ اگر آپ کا اندازہ درست ہے اور مخالف کے پتے کمزور ہیں تو آپ جمع شدہ پیسے جیت جاتے ہیں۔
سیاست اور سفارت کاری کی دنیا میں کبھی بھی شیخی نہیں بگھارنی چاہیے اگر آپ ٹھوس عمل کے ذریعے اپنی باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ آپ کے پاس پتے واقعی مضبوط ہیں تو پھر پتے کھلنے پر آپ کو شرمناک شکست ہو گی۔
پچھلے کئی مہینوں سے عالمی سطح پر جوئے کا ایک پیچیدہ کھیل کھیلا جا رہا تھا اور بالآخر امریکہ اور یورپ کو اپنے پتے دکھانے پڑے۔
اب یہاں حقیقی قوتوں کا توازن واضح ہو گیا ہے۔ یہ ٹرمپ اور پیوٹن دونوں کو واضح تھا۔ اس لیے پیوٹن نے کسی قسم کی کوئی مراعات نہیں دیں اور ٹرمپ نے بھی اس سارے معاملے کو حقیقت جان کر قبول کر لیا۔
اگر جوئے کی ایک اصطلاح استعمال کی جائے تو پیوٹن کے پاس تمام پتے تھے جبکہ ٹرمپ خالی ہاتھ بیٹھا تھا۔ اس حقیقت کو اپنی کلیت میں واضح کرنے کے لیے آپ کو کسی قسم کے پُر اسرار اثر و رسوخ کی نشاندہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جنگ بندی کا فراڈ
چیخ و پکار اور سینہ کوبی کی واحد بنیاد یہ ہے کہ الاسکا میں کسی جنگ بندی پر معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ اس مطالبے کو زیلنسکی اور یورپی قائدین مسلسل رٹو طوطوں کی طرح پچھلے چند مہینوں سے دہرائے چلے آ رہے ہیں۔
سربراہی ملاقات سے پہلے یورپ کے چوٹی کے سفارت کار کاجا کالاس نے کہا تھا کہ یوکرین میں جنگ ختم کرنے کے لیے معنی خیز مذاکرات اسی وقت ہو سکتے ہیں جب ”جنگ بندی یا جارحیت میں واضح کمی ہو“۔
اب سب کچھ بدل چکا ہے۔
پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایک مکمل، یقینا طویل، امن کا عمل ہی جنگ کو ختم کرنے کا ”بہترین طریقہ“ ہے جس کے دوران جنگ جاری رہے گی۔ اس کا کہنا تھا کہ عارضی جنگ بندیاں ”اکثر اوقات ناکام ہو جاتی ہیں“۔
اس کا کیا مطلب ہے؟
سطح پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بندی ایک معقول مطالبہ ہے اور امن کی جانب پہلا قدم ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک سفاک چال ہے جس کا مقصد جنگ کو طول دینا ہے اور سب سے بڑھ کر امریکیوں کو جنگ کی دلدل میں گھسیٹنا ہے تاکہ وہ اس میں سے کبھی نکل نہ سکیں۔
اس مطالبے کے ساتھ ایک اور مطالبہ جوڑ دیا جاتا ہے کہ جنگ بندی کے نتیجے میں امریکہ یوکرین کے لیے ”سیکورٹی ضمانتیں“ دے۔
اس کا کیا مطلب ہے؟
اس وقت جنگ میں روس واضح طور پر فاتح ہے اور یوکرین کی حالت بہت خراب ہے۔ اس صورتحال میں جنگ بندی کا مطلب یوکرین کو کچھ سانس لینے کا موقع دینا ہے جسے NATO استعمال کرتے ہوئے یوکرین کی برباد قوتوں کو از سر نو تعمیر اور مسلح کرے گا تاکہ روسیوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھولا جائے۔
ایسی جنگ بندی یوکرینی کسی بھی وقت توڑ سکتے ہیں جب انہیں لگے کہ ایسا کرنا سود مند ہے اور اس کا سارا الزام روسیوں کی چوکھٹ پر پھینک دیا جائے گا۔
اس دوران نام نہاد ”پُر عزم کا اتحاد“ فوری طور پر ”جنگ بندی کے دفاع“ کے لیے NATO افواج کو یوکرین بھیج دے گا لیکن درحقیقت یہ روس کے ساتھ براہ راست جنگ کی تیاری ہو گی۔
زیلنسکی اس حوالے سے بضد ہے کہ: ”سکیورٹی کی ٹھوس اور طویل ضمانت ہونی چاہیے جس میں یورپ اور امریکہ دونوں موجود ہوں۔“
لیکن اس منصوبہ بندی میں ایک مسئلہ ہے۔ سرگرم امریکی حمایت کے بغیر کامیابی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ اگر امریکی اتنے بیوقوف ثابت ہوں کہ کیف حکومت اور یورپ کا مطالبہ پورا کر دیں، یعنی امریکی سکیورٹی ضمانت کی فراہمی، تو پھر یوکرینی فوری طور پر امریکہ کو مدد کے لیے جنگ میں گھسیٹیں گے۔ اس طرح امریکہ پھر ایک اور ناقابل فتح مہنگی اور خونی ”لامتناہی جنگ“ میں پھنس جائے گا۔
ٹرمپ ہر صورت ایسی صورتحال سے بچنا چاہتا ہے اور اس کا اظہار اس کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے بھی ہوتا ہے جن میں وہ عارضی جنگ بندی کی بجائے امن مذاکرات کی باتیں کر رہا ہے۔
اس کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ جانتا ہے کہ یورپی اور زیلنسکی اس کے لیے ایک دلدل تیار کر کے بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ کسی قسم کی جنگ بندی کا ذکر نہیں کر رہا اور تمام تر دعووں کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ وہ پہلے سے یوکرین کو انکار کردہ تمام سکیورٹی ضمانتوں میں سے کسی ایک پر بھی پیچھے ہٹے گا۔
ساری دنیا کے سامنے اعلانیہ جنگ بندی کے مطالبہ سے انحراف نے یورپی اور یوکرینی جنگی جنونیوں میں ایک صدمہ اور شدید خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جنگ کو طوالت دینے کے لیے اپنی چیخ و پکار کم کر دیں گے۔ ہم اگلے چند مہینوں میں اس مہم کو اور زیادہ وسیع اور شدید ہوتا دیکھیں گے۔
ایک ”بھرپور“ مطالبہ؟
پیوٹن کئی مرتبہ وضاحت کر چکا ہے کہ ایک وسیع تر امن معاہدہ اسی صورت میں ممکن ہے جب NATO واپس اپنی 1997ء والی پوزیشن پر چلا جائے گا، یوکرین اتحاد میں شامل نہیں ہو گا اور کیف مشرق میں اپنی زمین چھوڑنے کے ساتھ اپنی افواج کا حجم بھی خاطر خواہ طور پر چھوٹا کرے گا۔
ان مطالبات کو مغربی تجزیہ کار مسلسل (اور مجرمانہ طور پر) ”بھرپور“ قرار دے رہے ہیں حالانکہ مستقبل میں روس کی سکیورٹی کے لیے یہ مطالبات کم سے کم ہیں تاکہ NATO یوکرین کو اس کی سرحد پر ایک طاقتور جوہری قوت نہ بنا دے۔
اس سوال کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ اگر روس اصرار کرے کہ امریکہ کے ساتھ میکسیکو کی سرحد پر فوجی اڈے بنا کر ان میں جوہری ہتھیار تعینات کرنے ہیں تو ہمارے خیال میں امریکہ فوری، براہ راست اور ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ایسا نہ ہو۔
کسی کو اب بھی اعتراض ہو گا کہ یہ ”بھرپور“ اقدامات ہیں یا پھر فوری طور پر امریکی دفاعی ضروریات کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو جائز سمجھا جائے گا؟ یہ سوال اپنے آپ میں ہی جواب ہے۔
میدانِ جنگ فیصلہ کن ہے
حالیہ عرصے میں ساری توجہ سفارت کاری اور مذاکرات کے میدان میں مسلسل پینتروں اور الٹے سیدھے اقدامات پر مرکوز ہے۔ اس نے یوکرین جنگ میں زمین پر حقیقی صورتحال سے توجہ ہٹا دی ہے۔
ایک دلیل پیش کی جاتی ہے کہ یہ جنگ اب ایک ڈیڈ لاک میں پھنس گئی ہے جہاں متحارب قوتیں متوازن ہیں اور سرحدیں عرصہ ہو گیا منجمد ہیں۔ یہ سب سفید جھوٹ ہے۔
جنگی سرحد مسلسل مشرق سے مغرب کی جانب حرکت میں ہے۔ روسی افواج مسلسل آگے بڑھتے ہوئے یکے بعد دیگرے مضبوط علاقوں کو فتح کر رہی ہیں اور یوکرینی افواج کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہیں۔
اگلا ہدف اہم تزویراتی شہر پوکروفسک ہے جس کا یوکرینی ہر ممکن دفاع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کئی کمک بھیجی ہیں۔ افرادی قوتوں میں کمی کی وجہ سے انہیں دیگر سیکٹروں سے سپاہیوں کو نکال کر یہاں بھیجنا پڑا ہے اور اب یہ تمام سیکٹر شدید کمزور ہونے کے بعد ممکنہ حملوں کی زد میں ہیں۔
جو بھی ہو پوکروفسک ہر طرف سے گھیرا جا چکا ہے اور اس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یوکرینی افواج کی ایک بڑی تعداد تنہاء ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں اسے یقینی شکست کا سامنا ہے۔
اگر منطق کی بات کی جائے تو یہی موقع ہے کہ قائدین افواج کو پسپائی کا فوری حکم دے دیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ زیلنسکی اور یوکرینی چیف کمانڈر سیرسکی کو پسپائی کے حکم کا کچھ پتا نہیں ہے اور وہ ان بدقسمت افراد کو موت کے گھاٹ اترنے دیں گے۔
اس لیے مستقبل قریب میں پوکروفسک کی شکست ناگزیر ہے۔ یہ یوکرین کے لیے انتہائی ہولناک صورتحال ہے کیونکہ اس کے بعد پورے ڈونباس میں یوکرینی دفاع منہدم ہو جائے گا۔
اب پہلی مرتبہ مغربی پریس جس میں یوکرین کا حامی ڈیلی ٹیلی گراف بھی شامل ہے، ایسے مضامین شائع کر رہا ہے جن میں یوکرینی شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے افسران اور سپاہیوں کے انٹرویو شائع کیے ہیں جن کے مطابق مورال خوفناک حد تک گر چکا ہے، سپاہی جوک در جوک پیچھے ہٹ رہے ہیں اور نوجوانوں میں افواج میں شمولیت اور واضح طور پر ایک شکست خوردہ جنگ لڑنے کے حوالے سے عمومی نفرت پائی جاتی ہے۔
اس صورتحال کا یوکرینی قیادت اور ان کے لندن، پیرس اور واشنگٹن میں موجود اتحادیوں کو بخوبی اندازہ ہے۔
کیونکہ یوکرین کے لیے جنگی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں اس لیے ایسا لگتا ہے کہ کیف میں موجود افراد اور سب سے بڑھ کر ان کے یورپی اتحادیوں نے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ سفارت کاری کے میدان میں میدانِ جنگ کی تمام شکستوں کو فتوحات میں تبدیل کر دیں گے۔
لیکن یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جنگ میں سفارت کاری کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہوتی ہے۔ جنگ کا فیصلہ بحث مباحثے کے برعکس بندوق کی گولی سے کیا جاتا ہے۔
سفارت کاری عسکری حکمت عملی کو نہیں چلاتی بلکہ یہ عسکری صورتحال ہے، جو بالآخر سفارت کاری کے جوہر اور نتائج کو واضح کرتی ہے۔
یقینا وہ وقت آن پہنچا ہے کہ روسیوں کے ساتھ اب معنی خیز مذاکرات کیے جائیں جو یوکرین جنگ میں واضح طور پر فاتح ہو کر کسی صورت اپنے مرکزی مطالبات پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
درحقیقت، الاسکا میں ملاقات کے نتائج کچھ بھی ہوں (یا نہ ہوں) یا ایسی کوئی اور بھی ملاقات ہو، بالآخر یہ میدان جنگ ہی ہے جو سفارت کاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقی فیصلہ کرے گا۔
لیکن سفارت کاری بلاشبہ ایک کردار ادا کر سکتی ہے اور جنگ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے پر یہ بھی واضح ہو جائے گا۔ موجودہ صورتحال میں یوکرینی قیادت کا کسی معنی خیز مذاکرات میں حصہ بننے سے انکار کا مطلب ہی یہ ہے کہ جنگ خود ہی تمام فیصلے کروا دے گی۔
سب کچھ یا کچھ بھی نہیں؟
ایک مرتبہ کسی نے کہا تھا کہ برا امن یا اچھی جنگ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یقینا یہ ضرورت سے زیادہ سادہ تشریح ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں ٹرمپ درست ہے جب وہ کہتا ہے کہ بہتر ہے یوکرینی امن کے لیے کچھ زمین قربان کر دیں ورنہ وہ ایک ناقابل فتح جنگ میں سب کچھ ہار بیٹھیں گے۔
ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ میدان جنگ میں ہار کر ایک شکست خوردہ قوم کو فاتح کی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے اور یہ تاریخ کی گواہی ہے۔
اگر آج آپ عام یوکرینیوں سے بات کریں تو وہ کسی بھی قیمت پر امن کے لیے تیار ہیں۔ موجودہ تباہی و بربادی سے کچھ بھی بہتر ہے۔
لیکن ایک عجیب و غریب منطق (اگر اسے منطق کہا جا سکتا ہے) کے تحت ولودیمیر زیلنسکی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے مطالبہ کر رہا ہے کہ یوکرینی آخری وقت تک جنگ لڑیں۔
اسے شاید سب سے بہتر پتا ہے کہ اس منطق کے تحت اس کا ملک مکمل طور پر شکست خوردہ ہو جائے گا اور یقینی طور پر یوکرین ایک الگ قومی ریاست کے طور پر ختم ہو جائے گا۔
اس کا حل بہت سادہ ہے۔ کوئی سمجھوتہ نہیں! مذاکرات نہ کرو! آخری وقت تک لڑو! فتح یا موت! اس ساری سوچ کی منطق واضح ہے؛ سب کچھ یا کچھ بھی نہیں!
اکثر اوقات کی طرح نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ یوکرینی عوام کے لیے تو ایسا ہی ہو گا لیکن شاید زیلنسکی کے لیے ایسا نہ ہو۔ اس کو اس وقت یوکرین کی شکست سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس وقت اسے یوکرین پر مکمل کنٹرول قائم رکھنے سے غرض ہے۔ اسے اچھی طرح ادراک ہے کہ جس لمحہ جنگ ختم ہوئی اس کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ انتخابات منعقد کرنا ناگزیر ہو گا اور نتائج کا پہلے سے سب کو معلوم ہے۔
انتخابات جو بھی جیتے، مگر اس کا نام زیلنسکی نہیں ہو گا۔ اس وقت وہ شدید عوامی نفرت کا شکار ہے اور اس کی حمایت ہر روز اور ہر شکست کے ساتھ برباد ہو رہی ہے۔
اس سے نفرت کی ایک اور وجہ مسلسل بڑھتے شکوک و شبہات ہیں کہ اس کی حکومت کرپشن میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے دیوہیکل پیسے کسی نشان کے بغیر غائب ہو چکے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر پیسہ سرحد پر تعینات سپاہیوں کے لیے تھا جن تک یہ کبھی نہیں پہنچا۔ اس کے برعکس یہ میدان جنگ سے دور بہت دور اشرافیہ اور ان کے سیاسی نمائندوں کے بیرون ممالک میں موجود خفیہ بینک اکاؤنٹس میں پہنچ چکا ہے۔
یہ پیسہ وہاں پڑا رہے گا اور پھر ایک دن مخصوص سیاسی اور عسکری قائدین روسی پیش قدمی سے بھاگتے ہوئے مغرب میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچ جائیں گے، جہاں ان کا بطور سورماء استقبال ہو گا، کسی کاریبین جزیرے پر یہ سب سُکھ چین سے بیٹھ کر اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے اپنے بارے میں نئی اور جھوٹی کہانیاں بنائیں گے۔ اس وقت یہ سارا پیسہ ان کی مٹھی میں ہو گا۔ اس دوران پورے ملک کی عوام اپنے ملک کے سلگتے کھنڈرات میں زندہ رہنے کی تگ و دو میں برباد ہوتی رہے گی۔
زیلنسکی کے مطالبات
اس دوران کیف میں مسلسل اصرار ہو رہا ہے کہ یوکرین کے بغیر کوئی بھی معاہدہ ناممکن ہے۔ ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے! زیلسنکی کی موجودگی لازم ہے!
لیکن زیلنسکی موجود نہیں تھا۔ وہ اس لیے موجود نہیں تھا کیونکہ وہ مدعو نہیں تھا۔ وہ کیوں مدعو نہیں تھا؟ کیونکہ ٹرمپ کی ٹیم جانتی ہے کہ اس کی موجودگی کا واحد مقصد امن کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹ ڈالنا ہے۔
اب وہ واشنگٹن میں ہے اور اس کے ساتھ تمام یورپی قائدین بھی موجود ہیں۔ وہ ٹرمپ کو اپنے مطالبات پیش کریں گے۔ اور یہ مطالبات کیا ہیں؟
روسی جیت رہے ہیں۔ رہنے دو! وہ فوری طور پر ہتھیار ڈالیں اور تمام مفتوحہ علاقوں سے نکل جائیں، یعنی ڈونباس کے ساتھ ساتھ کریمیا سے بھی۔ یہ زیلنسکی کے ”امن“ مطالبات ہیں۔ اگر معاملات اتنے سنجیدہ نہ ہوتے تو انتہائی مضحکہ خیز ہوتے۔
سب کو معلوم ہے کہ یہ دیوانے کا خواب ہے۔ اس کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ خود فریبی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ تمام مرکزی یورپی قائدین اس پاگل پن کی سو فیصد حمایت کر رہے ہیں۔
فتح تک جنگ جاری رکھنے کی پالیسی، جبکہ فتح ہی ناممکن ہے، اسے کسی طرح یوکرینی عوام کے مفادات کا تحفظ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ یوکرین کے ساتھ سفاک غداری ہے۔
یورپی قائدین یوکرینی خون کے آخری قطرے تک لڑنے کو تیار ہیں۔ ظاہر ہے کہ میدان جنگ میں وہ خود موجود نہیں ہیں۔ کنارے پر کھڑے ہو کر وہ یوکرینیوں کو اپنے سے بہت زیادہ طاقتور دشمن سے لڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں، جس کا انہیں پتا ہے کہ صرف ایک ہی نتیجہ ہو گا، یعنی یوکرین کی تباہی و بربادی۔
اصولوں کا پابند انسان
برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر ایک ہی وقت میں دو اطراف میں منہ کر کے کھڑا ہونے کا ماہر ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ان اعصاب شکن قلا بازیوں سے چکرا کر وہ بے ہوش کیوں نہیں ہو جاتا!
کچھ بدخواہ اس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اصولوں سے عاری انسان ہے۔ یہ غلط ہے۔ لیکن یہ درست ضرور ہے کہ وہ ہر چیز میں انتہائی لچک کا قائل ہے جس میں سرفہرست سچائی ہے! اس کا نعرہ ہے: اگر آپ کو میرے اصول پسند نہیں تو میں انہیں تبدیل کر دیتا ہوں!
بہرحال کچھ ایسی چیزیں ضرور ہیں جن پر اسے کامل یقین ہے۔ مثلاً وہ ایک شدید محب وطن ہے۔ وہ جس قوم سے محبت کرتا ہے اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے اور اس کی وفاداری پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔
بدقسمتی سے وہ قوم برطانیہ نہیں ہے۔ وہ یوکرین ہے!
وہ حیران کن حد تک ولودیمیر زیلنسکی کی جدوجہد کا حامی ہے اور اس کے ساتھ کئی گھنٹے فون پر لگا رہتا ہے جس سے اس کے پاس اپنے ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں بچتا جو تیزی سے قرضوں، غفلت اور غربت کے سمندر میں ڈوب رہا ہے۔
ہمیں ہمیشہ لگتا تھا کہ سر کیئر سٹارمر میں کوئی انسانی جذبات موجود نہیں ہیں اور اس کا کوئی دوست بھی نہیں ہے۔ لیکن ہم غلط تھے۔ جب بھی اس کا جگری دوست کیف سے آتا ہے تو وہ بھاگ کر ٹی وی کیمروں کے سامنے نمبر دس ڈاؤننگ سٹریٹ کی سیڑھیوں پر اس سے گرمجوشی سے بغل گیر ہو جاتا ہے۔
اس لیے اسے سخت خجالت ہوئی جب بحر اوقیانوس کے پار عظیم سفید فام قائد نے زیلنکسی کو الاسکا ملاقات میں مدعو نہیں کیا۔
اب یہاں ایک مسئلہ تھا۔ نظر آ رہا تھا کہ وہ بہت پریشان ہے لیکن وہ خوفزدہ بھی تھا کہ وائٹ ہاؤس میں موجود شخص اس سے ناراض نہ ہو جائے اور پھر اس کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ”خاص تعلق“ خراب نہ ہو جائے۔
اس لیے اس نے اپنے اعلامیے میں صدر ٹرمپ کی شان میں اچھل اچھل کر قصیدے پڑھے کہ آپ کی کاوشیں ہمیں یوکرین میں جنگ بندی کے بالکل قریب لے آئی ہیں۔ پھر اس نے یہ بھی کہا کہ بہرحال ”اگلے اقدامات میں زیلسنکی کی شمولیت لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر امن کا فیصلہ نہیں ہو سکتا“۔
ایک امریکی صدر کا روس کے ساتھ بیٹھ کر امن مذاکرات کرنے کا خیال ہی ان قائدین کی پوشاک گیلی کر دیتا ہے۔ لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی حل موجود نہیں۔
ان کی تمام تجاویز کا ایک ہی مطلب ہے جو وہ مسلسل طوطے کی طرح دہراتے ہیں کہ موجودہ طریقہ کار جاری رکھو۔ روس کے خلاف اور شدید پابندیاں لگا دو۔ یوکرین کو مزید اربوں ڈالر بھیجو (یعنی ولودیمیر زیلنسکی کو)۔ کیف کو اور ہتھیار بھیجو تاکہ روس کے خلاف جنگ کا خاتمہ ہو۔
یہ چوں چوں کا مربہ وہی واہیات باتیں دہراتا رہتا ہے جن کا سر ہے نہ پیر، جیسے مسلسل ایک ہی راگ الاپ الاپ کر یہ بکواس حقیقت کا روپ دھار لے گی۔
سٹارمر کا کہنا ہے کہ وہ ”کسی بھی معاہدے میں امریکہ کی یورپ کے ساتھ مل کر یوکرین کو مضبوط سکیورٹی کی ضمانت فراہم کرنے کے حوالے سے بات سننے کو تیار ہے۔ یہ اہم پیش رفت ہے اور پیوٹن کی مزید کچھ حاصل کرنے کی خواہش کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ بنے گی“۔
لیکن ”اس دوران، جب تک وہ اپنا ظالمانہ حملہ نہیں روکتا، ہم اس کی جنگی مشین کے پیچ اور زیادہ پابندیوں کے ساتھ کستے رہیں گے جو پہلے ہی روسی معیشت اور اس کی عوام کو سزا دے رہے ہیں“۔
آخر میں وہ خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ:
”یوکرین کی آخری حد تک غیر متزلزل حمایت جاری رکھیں گے۔“
یہ باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن سٹارمر جیسے لوگ کبھی بھی لمحہ توقف کر کے یہ نہیں سوچتے کہ حقیقت کیا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ روس پر تقریباً ایک دہائی سے شدید ترین پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔
وہ بھول جاتے ہیں کہ ان پابندیوں کا مقصد روسی معیشت کی تباہی و بربادی اور ماسکو کو NATO کی تمام شرائط ماننے پر مجبور کرنا تھا۔
لیکن یہ تمام خواہشات جلد ہی راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ روسی معیشت کی بربادی تو دور کی بات ہے، معیشت تمام پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ خوشحال بھی ہوئی ہے اور اس وقت مغرب میں موجود تمام مایوس کن معاشی حالات کے برعکس زیادہ شرح نمو حاصل کر رہی ہے۔
درحقیقت ان پابندیوں کا یورپی اور امریکی معیشتوں پر روسی معیشت سے زیادہ تباہ کن اثر پڑا ہے۔ روس سے شرطیہ سستے تیل اور گیس کی عدم فراہمی سے افراط زر بے قابو ہو چکی ہے (اگرچہ اس تلخ حقیقت کا اب کہیں ذکر نہیں ہوتا)۔
چلو! سب بھول جاؤ۔ بس طوطے کی طرح وہی ناکام حکمت عملی دہراتے رہو جس نے تباہی و بربادی، موت اور مایوسی کے علاوہ یوکرین کو کچھ نہیں دیا اور ساتھ میں یورپ کی معیشت بھی برباد کر دی ہے۔
بغیر ہدف کام جاری رکھو اور امید رکھو کہ آخر میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے جو بھی نام دیں، بہرحال یہ کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اس سے تو ذہن میں ناول نگار چارلس ڈکنز کا مشہور زمانہ کردار مسٹر مکاؤبر ذہن میں آتا ہے جس کا مشہور مقولہ تھا کہ: ”مجھے یقین ہے کہ کچھ اچھا ہو گا۔“
اس امید پر ایک ہی عمل مسلسل دہرانا کہ نتائج مختلف ہوں گے، پاگل پن کی انتہاء ہے۔ لیکن یورپی ڈونلڈ ٹرمپ کو بالکل یہی کام کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
خطرے کی گھنٹیاں
اس لیے تمام قائدین بہت خوفزدہ تھے کہ زیلنسکی کو واشنگٹن میں امریکی صدر سے ملاقات کے لیے طلب کر لیا گیا ہے۔ خطروں کی گھنٹیاں پوری شدت سے بجنے لگیں۔
فروری میں ان کے سورماء اور ٹرمپ کی اوول آفس میں ملاقات کا بھوت آج تک ان پر منڈلا رہا ہے۔
انہیں فوری طورپر خطرہ لاحق ہو گیا کیونکہ زیلسنکی کو اتنی ہی سفارت کاری آتی ہے جتنا ایک بندر کو وائلن بجانا آتا ہے۔
ان کی نظروں میں فوراً خوفناک مناظر گھومنے لگے کہ ایک مرتبہ پھر ٹرمپ بدقسمت یوکرینی کا قیمہ بنا دے گا اور اس سے ایک لفظ بھی نہیں بولا جائے گا۔
ایسی تباہی سے ہر ممکن بچنا لازم ہے!
اس لیے انہوں نے فوراً سامان باندھا اور واشنگٹن کے لیے جو پہلی فلائٹ ملی اس پر چڑھ دوڑے، پورا ٹولہ، جس فلائٹ پر جو سیٹ ملی بھاگا چلا آیا!
جرمن چانسلر فریڈرک مرز، فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون، برطانوی صدر کیئر سٹارمر، اطالوی وزیراعظم جیارجیا میلونی، یورپی کمیشن کی صدر اورسولا وون در لین اور NATO سیکرٹری جنرل مارک روتے، سب اس انتہائی اہم مشن کے لیے متحرک ہو گئے!
ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ اس انٹرویو میں شامل ہوں تاکہ ننھا منا ولودیمیر شیر کی کچھار میں اکیلا نہ ہو۔ وہ اس پر کڑی نظر رکھیں گے اور جہاں ضرورت محسوس ہو مداخلت کریں گے تاکہ وہ پچھلی مرتبہ کی طرح اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی نہ مار دے۔
یقینا ان کی کوشش تھی کہ امریکی صدر پر شدید دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان کے مطالبات مان لے، اینکوریج کا تمام بحث مباحثہ بھلا دے، ولادیمیر پیوٹن سے تمام تعلقات توڑ دے اور بائیڈن کی سابقہ پالیسی پر عمل پیرا ہو جائے۔
یعنی روس پر مزید پابندیاں لگائے، کیف کو درکار تمام عسکری اور مالیاتی مدد فراہم کرے اور یہ کام اس وقت تک جاری رہے ”جب تک ضرورت ہے“۔
یہ مضمون لکھنے کے وقت ابھی تک ملاقات منعقد نہیں ہوئی ہے۔ جو معلومات مجھے حاصل ہیں، ان سے لگتا ہے کہ ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات میں یورپ سے بن بلائے مہمان شامل نہیں ہوں گے، اگرچہ کیا ہو گا، ابھی دیکھنا باقی ہے۔
یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ سب کا مل کر ٹرمپ پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ کار کارگر ہو گا یا نہیں۔ ٹرمپ ایسا شخص نہیں ہے جو کسی بھی قسم کا دباؤ پسند کرتا ہے۔
پھر یہ زبان زد عام ہے کہ وہ زیلنسکی سے نفرت کرتا ہے اور یورپی قائدین کے حوالے سے اس کا رویہ انتہائی تحقیر آمیز ہے۔ اس کے برعکس وہ ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بڑا خوش و خرم رہتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے لیے ذاتی تعلقات کی کلیدی اہمیت ہے۔
کیا ٹرمپ سے کچھ مراعات حاصل ہوں گی؟ کیونکہ ٹرمپ انتہائی متلون مزاج اور تند و تیز کردار کا مالک ہے اس لیے کچھ بھی بعید القیاس سمجھا نہیں جا سکتا۔
لیکن ابتدائی اشاریے کچھ اور بتا رہے ہیں۔ میڈیا خبروں سے واضح ہے کہ وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ یوکرین کو NATO ممبرشپ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور کریمیا کا خیال اپنے دل سے نکال دیا جائے۔ ان دو نکات پر وہ فوری طور پر زیلنسکی سے متصادم ہو جائے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ زیلنسکی کی ہر بات ایک طویل عرصہ سے مانی جا رہی ہے (اور یہ غلطی یورپی بھی مسلسل کر رہے ہیں) اور اب وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ مانگے گا اسے فوری طور پر بغیر کسی سوال کے حاصل ہو جائے گا۔ اس لیے وہ نامیاتی طور پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے قاصر ہے۔
اس لیے یورپی قائدین کی جانب سے لانچ کردہ سفارتی جارحیت کا حال ٹائٹینک جیسا ہو سکتا ہے، یعنی ایک دیوہیکل سمندری برف کے تودے سے ٹکراؤ کے بعد سمندر کی تہہ اس کا مقدر بنی۔
لیکن کوئی بھی فرد پہلے سے نہیں بتا سکتا کہ جوئے کا یہ خطرناک کھیل آخر کہاں ختم ہو گا۔
امریکہ میں جنگی جنونیوں کو الاسکا ملاقات سے شدید دھچکا لگا ہے۔
ٹرمپ کی حیران کن چال نے اس کے کچھ امریکی ناقدین کو بھی ششدر کر دیا ہے۔ جنوبی کیرولینا کا ریپبلیکن سنیٹر لنڈسے گراہم جو روس کے خلاف اپنے الفاظ میں ”ہڈیاں توڑ پابندیوں“ کے ایک ہولناک منصوبے کا حکمت کار اور یوکرین جنگ پر شدید جنگی جنونی ہے، جمعہ کی رات فاکس نیوز پر کہہ رہا تھا کہ:
”میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں اس سے پہلے کبھی بھی اتنا پُر امید نہیں تھا کہ اس جنگ کا ایک پُر معزز اور منصفانہ اختتام ہو سکتا ہے“۔
فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ پر اندرون ملک دباؤ کچھ کم ہوا ہے۔ ایسا کب تک رہے گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔
جنگی جنونیوں کے منصوبے خاک ہو چکے ہیں۔ اس کا اظہار یورپیوں کے غم وغصے اور پاگل پن سے ہو رہا ہے۔
اب آگے کیا ہو گا، اس کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ اس کے الفاظ جو بھی ہوں، سنیٹر گراہم اور اس کا ٹولہ اپنے خیالات نہیں بدلے گا اور جب بھی موقع ملا تو روس کے خلاف اپنی مہم پھر سرگرم کر دے گا۔
لیکن جو بھی ہو، میدان جنگ پر حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی اور یہی فیصلہ کن عنصر ہے۔
پابندیوں اور امریکہ کے دیوہیکل اسلحہ ذخائر کا یوکرین میں روسی پیش قدمی پر رتی برابر اثر نہیں پڑا ہے۔
عالمی سفارت کاری کی پوری غلیظ تاریخ میں ایسی سفاک منافقت کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
دانستہ طور پر جنگ کو طویل کر کے کئی ہزار مردوں، خواتین اور بچوں کی موت اور یوکرینی سماج کی تباہی و بربادی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں لکھوں: شرم کرو! لیکن ان حرام خوروں کو شرم کا مطلب کیا معلوم۔ یہ غلیظ منافق پوری اقوام کا ڈیتھ وارنٹ لمحہ توقف کیے بغیر دستخط کر دیتے ہیں اور پھر رات کو آرام سے اپنے گرم بستروں پر جا کر سو جاتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح یہ غریب عوام ہے جو اس تمام کھلواڑ کی قیمت ادا کرتی ہے۔ یورپی محنت کش طبقہ ان لامتناہی جنگو ں کی قیمت افراط زر، توانائی کے بڑھتے بلوں، اسلحہ کے اخراجات میں اضافوں، بے تحاشہ ٹیکسوں، گرتے معیار زندگی اور صحت، تعلیم اور سماجی اخراجات میں شدید کٹوتیوں کی شکل میں ادا کرے گا۔
لیکن سب سے خوفناک قیمت یوکرین کے غریب، تباہ حال اور بدقسمت مرد و زن اور بچے ادا کریں گے۔ ان کا بل خون میں لکھا جائے گا۔
اس تمام تباہی و بربادی اور بربریت کی ذمہ داری انہی قائدین پر عائد ہوتی ہے جو منافقت سے اپنے آپ کو ”یوکرین کا محافظ“ قرار دیتے ہیں۔
لندن، 18 اگست 2025ء۔