|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: ولید خان|
ایک ہفتہ منڈی میں کہرام کے بعد ٹرمپ نے اب فیصلہ کیا ہے کہ پسپائی میں ہی حکمت ہے اور ”جوابی“ محصولات کو فی الحال نافذ کرنا مؤخر کر دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی تجارتی جنگ اپنے جوبن پر ہے اور منڈیاں خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ایک لمحہ سکون کا سانس لینے کے بعد منڈیاں پھر بحران کا شکار ہو گئیں کیونکہ بیوپاریوں کو جلد ہی حقیقت کا ادراک ہو گیا۔ ہاں کچھ محصولات مؤخر ہوئی ہیں لیکن کئی اور ابھی بھی بھرپور نافذ العمل ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے اس رعایت کے بعد منڈی میں ایک خفیف ابھار پیدا ہوا لیکن S&P 500 [امریکی اسٹاک منڈیوں میں 500 سب سے بڑی کمپنیوں کا اسٹاک انڈیکس۔ مترجم] گری ہوئی ہے، تیل کی قیمت 64 ڈالر فی بیرل ہے اور امریکی 10 سالہ ریاستی قرضہ بانڈ ایک مرتبہ پھر 4.3 فیصد کی بلند سطح پر کھڑا ہے۔
تمام درآمدات پر کم از کم 10 فیصد، چین پر 145 فیصد، اسٹیل، ایلومینم، گاڑیوں اور گاڑیوں کے پرزہ جات پر 25 فیصد اور میکسیکو اور کینیڈا (USMCA چھوٹ کے ساتھ) پر 25 فیصد محصولات نافذ ہیں۔ سادہ الفاظ میں ٹرمپ کے صدارتی حلف کے وقت 2 فیصد اوسط امریکی محصولات اب 30 فیصد ہو چکی ہیں۔ یہ پچھلے سو سالوں میں 1930ء کی دہائی کے بعد سب سے بڑی شرح محصولات ہے۔
اس سارے عمل کے نتائج کو سمجھنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ ٹرمپ نے خود اعلان کر رکھا ہے کہ کچھ ”تکلیف“ تو بہرحال ہو گی! دنیا کی سب سے بڑی منڈی نے 30 فیصد محصولات کا اعلان کر دیا ہے اور یہ عالمی تجارت کے لیے ایک دیوہیکل دھچکا ہے۔
اپریل کے پہلے ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں کنٹینر بحری جہازوں کی کل بکنگ میں 49 فیصد کمی واقع ہو چکی تھی۔ امریکہ میں درآمدات کے لیے بکنگ میں 64 فیصد کمی ہو چکی تھی۔ اگرچہ محصولات 90 دن مؤخر کرنے کا اعلان کچھ اثر ڈالے گا لیکن زیادہ تر کمپنیوں کو مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگر وہ کوئی بھی نیا آرڈر دیتی ہیں تو اس کی تکمیل میں 90 سے زیادہ دن ہی لگیں گے۔ اس لیے انہوں نے اپنے نئے آرڈر ہی روک لیے ہیں کہ پہلے پتا تو چلے آخر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
غیر یقینی کی صورتحال ویسے ہی عالمی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے کیونکہ آرڈر اور اس سے بھی زیادہ اہم سرمایہ کاری غیر یقینی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں کون نئی فیکٹری لگائے گا (امریکہ ہو یا کوئی بھی خطہ) جب یہی نہیں معلوم کہ خام مال اور پرزہ جات کہاں سے حاصل کرنے ہیں؟
ٹرمپ تو یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ اس کے محصولات فیکٹریوں کو امریکہ منتقل ہونے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ ایک دیوانے کا خواب ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں صنعت کی تعمیر و ترقی کا عمل ہی وہ قوت رہا ہے جس نے جبری طور پر ہنر مندی میں باریک مہارت اور محنت کی عالمی تقسیم کو مسلسل آگے بڑھایا ہے۔ اس وقت موجودہ جدید ٹیکنالوجی کو پیدا کرنے کے لیے جس قسم کی مہارت، خام مال اور سپلائی چینز درکار ہیں وہ امریکہ جیسے دیوہیکل ہاتھی کے بس کا روگ بھی نہیں ہے۔
قومی ریاست پیداواری قوتوں کی تعمیر و ترقی کی راہ میں ایک مسلسل رکاوٹ ہے اور اس حقیقت پر متعدد مرتبہ تمام مارکسی اساتذہ نے بحث مباحثہ کیا ہے۔۔ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی۔
ہم یہاں تنگ باڈی والے ہوائی جہازوں کے لیے جنرل الیکٹرک کے شہرہ آفاق انجن CFM56 کی ایک مثال دیتے ہیں۔ اس کی اسمبلی اوہایو اور فرانس میں موجود دو فیکٹریوں میں ہوتی ہے۔ اوہایو فیکٹری بوئنگ ہوائی جہاز ساز کمپنی اور فرانس فیکٹری ائر بس ہوائی جہاز ساز کمپنی کو انجن فراہم کرتی ہے۔ لیکن ان دونوں فیکٹریوں کو انجن کی اسمبلی کے لیے درکار پرزہ جات دو حصوں میں تقسیم ہیں جن میں سے آدھے امریکہ اور آدھے فرانس میں بنتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں پیداواری عمل کی تکمیل سے پہلے آخری مرحلے کے لیے پوری دنیا میں ایک ہی پیداواری اسمبلی لائن موجود ہے۔
اگر جنرل الیکٹرک 10 فیصد محصولات سے بچنا چاہتی ہے تو اسے امریکہ میں ایک اور فیکٹری لگانی پڑے گی اور جب یورپ جوابی کاروائی کرے گا تو فرانس میں بھی ایک نئی فیکٹری لگانی پڑے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کام میں بے تحاشہ پیسہ لگے گا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ابھی یہ تکمیل سے پہلے آخری مرحلے کی بات ہو رہی ہے۔ اس مرحلے کے لیے درکار انتہائی ماہرانہ پیداوار کے حامل پرزہ جات پر بھی اضافی محصولات لگ سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے کئی کے چند ایک سپلائرز ہی موجود ہیں جو مشرقی ایشیاء، یورپ یا امریکہ میں واقع ہیں۔
ایک اور مثال ASML ہے جو دنیا کی سب سے جدید ترین لتھوگرافی مشینیں بناتی ہے۔ یہ پوری دنیا میں تقریباً 5 ہزار سپلائرز کے ساتھ کام کرتی ہے تاکہ یہ انتہائی پیچیدہ مشین بن سکے۔ ظاہر ہے کہ ان سپلائرز کے پیچھے پھر اپنے سپلائرز بھی بیٹھے ہوئے ہیں یعنی خام مال سے لے کر پرزہ جات اور پھر پرزہ جات سے لے کر مکمل مشین تک ہزاروں کی تعداد میں سپلائرز اور سپلائی چینز کی انتہائی پیچیدہ کڑیاں موجود ہیں۔ ان سپلائی چینز کو توڑنے کا نتیجہ ان مشینوں کی لاگت میں اضافہ حتیٰ کہ انہیں بنانا ہی ناممکن کر دینا ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کار ساز صنعت سے بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں ٹرانسمیشن سے لے کر گیئر باکس اور انجن تک انتہائی پیچیدہ ماہرانہ پرزہ جات استعمال ہوتے ہیں جن کا انتہائی بلند معیار ہے۔ ایک کار ساز کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ نئے سپلائرز کے معیار کو پرکھنے کے لیے کئی مہینے درکار ہیں تاکہ جو بھی مال تیار ہو وہ معیاری اور ضرورت کے عین مطابق ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے جب اپنی پسپائی کا اعلان کیا تو ساتھ یہ بھی کہا کہ، ”لوگ کچھ پریشان ہو گئے تھے۔۔ آپ سمجھیں کہ وہ بدحواس ہی ہو گئے تھے“۔ اگرچہ منڈیوں کے کئی بیوپاری جیسے ٹرمپ اور اس کے ہیج فنڈ (Hedge fund) منیجر مشیر [ہیج فنڈ: سرمایہ کاری کا ایک ذخیرہ فنڈ جس کے پاس پیچیدہ سرمایہ کاری اور خطرات مولنے کے لیے فوری کیش اثاثے موجود ہوتے ہیں تاکہ سرمایہ پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرتے ہوئے منڈی کے خطرات سے خود کو محفوظ رکھا جائے۔ مترجم] غالباً جدید صنعتی پیداوار کی پیچیدگیوں سے نابلد ہیں لیکن بہرحال ان پر حقیقت آشکار ہو رہی ہے اور اس لیے وہ کچھ ”بدحواس“ ہو رہے ہیں۔
چین کے ساتھ تجارتی جنگ عالمی معیشت کے لیے ایک ایٹم بم ثابت ہو گا۔ اس وقت 125 فیصد محصولات دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑی تجارتی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ چینی حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اب محصولات میں مزید اضافہ نہیں کریں گے کیونکہ ”معاشی طور پر یہ ایک لایعنی قدم ہو گا اور عالمی معیشت کی تاریخ میں یہ ایک مذاق بن کر رہ جائے گا“۔
یہ محصولات کئی امریکی مینوفیکچروں کے لیے موت کا پروانہ ہیں جو چینی پرزہ جات پر منحصر ہیں۔ گولڈمین ساکس کا تخمینہ ہے کہ چین سے ایک تہائی امریکی درآمدات کی پیداوار میں چین کو مکمل اجارہ داری (منڈی کا 70 فیصد) حاصل ہے۔ اگر یہ ناممکن نہیں تو یقینا انتہائی مشکل ہو گا کہ درکار پیداواری قوت اور معیار والے متبادل سپلائرز فوری طور پر دستیاب ہو جائیں۔
امریکی معیشت تیزی سے کساد بازاری کی جانب رواں دواں ہے۔ اس کا ایک اشاریہ مشین اوزار بنانے والی ہاس آٹومیشن (Haas Automation) ہے جس نے حالیہ رپورٹ میں اندرونی اور بیرونی مانگ میں ڈرامائی کمی بیان کی ہے۔ عام طور پر کساد بازاری کا سب سے پہلا شکار سرمایہ کاری ہوتی ہے۔
یورپی حکومتیں بھی شدید خوفزدہ ہیں کیونکہ اس جنگ کے یورپ پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں امریکہ کو برآمد کرنے والے مال پر 10 فیصد اور اہم دھاتوں، گاڑیوں اور گاڑی پرزہ جات پر 25 فیصد محصولات کے ساتھ ایک شدید مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اب انہیں امریکی منڈی کا متبادل تلاش کرنا ہو گا۔ ماضی میں اسٹیل اور الیکٹرک گاڑیوں کی طرح اب ممکن ہے کہ چینی ساز و سامان یورپی منڈیوں کو لبا لب بھر دے گا۔
کچھ عجلت کے ساتھ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وون در لین نے چینی وزیراعظم لی چیانگ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چینیوں سے عہد لینے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ ”یورپ کے ساتھ تعاون“ سے عالمی منڈیوں میں انتشار کو روکا جائے گا۔ لیکن چینی حکومت نے اس فون کال کے حوالے سے مؤقف پیش کیا ہے کہ آزاد تجارت لازم ہے اور یورپی یونین کی الیکٹرک گاڑیوں پر لاگو کیے جانے والے محصولات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ: ”تحفظاتی پالیسیوں کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ آزادی اور تعاون ہی سب کے لیے بہترین راستہ ہے۔“
واضح طور پر چینی مینوفیکچرنگ کو اپنی مصنوعات کے لیے منڈیاں تلاش کرنی پڑیں گی۔ چینی حکومت کو یہ عمل یقینی بنانا ہو گا تاکہ وہ خود کساد بازاری کا شکار نہ ہو اور امریکہ کے خلاف مستحکم اور مضبوط رہے۔
سادہ الفاظ میں بحران کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔ پوری دنیا کے محنت کش اس وقت خوف اور سحر میں عالمی حکمران طبقات کو عالمی معیشت تباہ و برباد کرتے دیکھ رہے ہوں گے۔
ٹرمپ وعدہ کر رہا ہے کہ وہ وقت کا پہیہ واپس 1950ء یا 1960ء کی دہائیوں کی جانب موڑ دے گا جب امریکی معیشت خوشحال تھی، دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہی تھی اور محنت کش زیادہ بہتر حالات اور اجرتوں پر برسر روزگار تھے۔ ظاہر ہے کہ لبرلز مطالبہ کر رہے ہیں کہ گھڑی بس پچھلے سال تک ہی واپس گھمائی جائے۔ ”کاش ٹرمپ یا AfD یا فاراج یا لی پین نہ ہوتے“۔ ”کاش سب متفق ہو جائیں کہ تحفظاتی پالیسیاں غلط ہیں“۔
اگرچہ آنے والے عرصے میں محصولات کم یا زیادہ ہوتے رہیں گے لیکن عمل کی عمومی راہ کا کافی عرصے سے تعین ہو چکا ہے۔ بائیڈن اور اوبامہ دونوں نے تحفظاتی پالیسیاں نافذ کیں۔ 2009ء میں اوبامہ نے اپنا امریکی بحالی کا اور از سر نو سرمایہ کاری ایکٹ متعارف کرایا جس کے ساتھ ”امریکی خریدو“ نعرہ لگایا گیا اور بائیڈن نے افراط زر میں کمی کا ایکٹ (Inflation Reduction Act) نافذ کیا۔ ٹرمپ اس کھیل کو محض عروج پر لے گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت اس وقت بستر مرگ پر ہے اور دنیا کی کوئی حکومت اس عمل کو نہیں روک سکتی۔ اگر وہ ہمیں سماجی اخراجات میں جبری کٹوتیوں کا نیا دور برداشت کرنے کا نہیں کہتے تو پھر وہ تحفظاتی پالیسیوں کا چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں شاید کچھ وقتی سہولت فراہم ہو جائے لیکن اس کی قیمت عالمی سطح پر بحران میں مزید شدت ہے۔
پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ حکومتیں اس وقت محنت کشوں پر دیوہیکل حملے کر رہی ہیں اور طبقاتی جنگ ایک مرتبہ پھر سر فہرست آ چکی ہے۔ ایک عالمی تجارتی جنگ کا ناگزیر نتیجہ دیوہیکل بیروزگاری اور افراط زر ہے۔ اگر محنت کش طبقہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو طبقاتی جنگ اور جدوجہد ناگزیر ہے۔
اس وقت لیبر تحریک کے قائدین کے ذہنوں میں گڈمڈ سوال آزاد تجارت یا تحفظاتی پالیسیوں کے متعلق ہے، اگرچہ اصل سوال یہ نہیں ہے۔ دیوہیکل بحران کی موجودگی میں ان میں سے کوئی ایک آپشن آگے بڑھنے کا قدم نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو سرمایہ داری میں ممکنات تک ہی محدود رکھیں گے تو پھر تباہی و بربادی اور مفلسی ہمارا مقدر ہے۔ جدوجہد کو سوشلسٹ مطالبات کے ذریعے ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے جس کا آغاز ان فیکٹریوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے کر کیا جا سکتا ہے جن کی بندش کا خطرہ درپیش ہے۔ لیبر قیادت سوشلزم سے غداری کر چکی ہے لیکن بحران نے ایک مرتبہ پھر یہ سوال سرفہرست لا کھڑا کیا ہے۔