’’آزاد‘‘ کشمیر: بجلی بلوں کے خلاف ہزاروں خواتین کے احتجاج نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|

10 اکتوبر کا دن نام نہاد آزاد کشمیر کی تمام تر تاریخ کا سب سے غیر معمولی دن تھا جب کشمیر کی محنت کش خواتین نے اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔

چار ماہ سے کشمیر میں جاری عوامی تحریک کو بھی خواتین کی شمولیت نے ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچا دیا۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے چوکوں، چوراہوں اور حتیٰ کہ دیہاتوں نے بھی 10 اکتوبر کو جو مناظر دیکھے کسی کے لیے ان کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔

2 اکتوبر کو کشمیر میں جاری عوامی تحریک کی قیادت کرنے والی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 10 اکتوبر کو خواتین اور بچوں کے احتجاجی پروگرام منعقد کرنے کی کال دی تھی۔ 5 اکتوبر کو ایک روزہ پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی زبردست کامیابی کے بعد خواتین اور بچوں کے احتجاجی پروگرامات کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔ ان پروگرامات کی تیاریوں کے حوالے سے بھی چند ایک ترقی پسند کارکنان اور سرگرم خواتین ہی متحرک تھیں جبکہ اس تحریک کے زیادہ تر متحرک کارکنان اور قیادت کے کچھ حصے بھی دائیں بازو اور رجعتی ملائیت کے پراپیگنڈے کے زیر اثر ان پروگرامات کی مخالفت پر اتر آئے تھے۔ دوسری جانب خواتین کے اجلاس منعقد کرنے میں پہل گامی کرنے والے کارکنان محنت کش خواتین کی اس جدوجہد میں پورے جوش و خروش سے شرکت کرنے کی شدید خواہش کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا تھے۔

درحقیقت کشمیر کی پون صدی کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے احتجاجی پروگرام منعقد کرنے کی کال اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا واقعہ تھا۔

ان احتجاجی پروگراموں کی کال دینے والی قیادت بھی اس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہی تھی اسی لیے جب رجعتی ملاؤں کی جانب سے ان احتجاجوں کی مخالفت میں بیانات سامنے آئے تو نہ صرف زیادہ تر کارکنان بلکہ قیادت کے کچھ حصوں نے بھی خطے کی روایات اور اسی قسم کے دیگر دقیانوسی جواز پیش کرتے ہوئے بالخصوص راولاکوٹ کے مرکزی پروگرام کو ملتوی کرتے ہوئے دیہاتوں کی سطح پر پروگرامات منعقد کرنے کے بیانات دینا شروع کر دیے۔

لیکن گلی محلوں میں 10 اکتوبر کے احتجاج منظم کرنے کے حوالے سے منعقد ہونے والے اجلاسوں میں محنت کش خواتین کی جوش در جوش شرکت نے تمام تر صورتحال کو تبدیل کر دیا۔ ایک بار جب خواتین کو اس بات کا علم ہو گیا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 10 اکتوبر کو خواتین کے احتجاجی پروگرام منظم کرنے کی کال دے رکھی ہے تو انہوں نے اس کا ل کو ان معنوں میں لیا کہ جیسے تحریک میں متحرک مردوں کو خواتین کی مد د کی ضرورت ہے اور یوں ہر چیز کی کایا ہی پلٹ کر رہ گئی۔ گھر گھر ہستی سنبھالنے والی وہ محنت کش خواتین جو اپنی تمام تر زندگی میں صرف ووٹ ڈالنے جیسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتی تھیں، جنہوں نے کبھی کسی سیاسی پارٹی کے انتخابی جلسے میں بھی شرکت نہیں کی تھی انہوں نے اچانک یہ ٹھان لیا کہ وہ 10 اکتوبر کو احتجاجی ریلیوں میں شرکت کریں گی۔ خواتین کے ان احتجاجی پروگراموں کو منعقد کرنے کی تیاری کے لیے بھی محض چار دن کا وقت تھا۔ لیکن یہ چار دن کی محدود سی مہم بھی بقول فیض، صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے، لازم ہے کہ انکار کا کوئی فرمان اترے، جیسا فرمان ثابت ہوا۔

انتہائی دقیانوسی قبائلی روایات کی ہر بیڑی توڑتے ہوئے ہزاروں خواتین کشمیر کے ہر گلی کوچے میں نکل آئیں۔ پکھر، بن بہک، کھائیگلہ، علی سوجل، نیلم، کوئیاں، جنڈالی، مرکز بنجونسہ، میرال گلہ بنجونسہ، چہڑھ، راولاکوٹ، تھوراڑ، شوکت آباد، بنگوئیں، ہجیرہ، تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ، ککوٹہ، نکیال، کوٹلی، ناڑ، سہنسہ، بھمبر،باغ، ریڑہ، میرپور اور مظفرآباد سمیت کئی دیگر شہروں اور دیہاتوں میں خواتین اور بچوں کی احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد ہوئے۔ اس کے علاوہ کراچی اور راولپنڈی میں بھی اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کیلئے احتجاج منعقد ہوئے۔

حکومت نے ان احتجاجی پروگرامات کی تیاریوں سے خوفزدہ ہو کر تمام سکولوں اور کالجز کو نوٹس بھیج دیے تھے کہ اساتذہ بچوں کو ان ریلیوں میں شرکت سے روکیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو رجسٹریشن ختم کر دینے کے دھمکیاں تک لگائی گئی تھیں۔ اس کے باوجود پر عزم خواتین نے اپنے بچوں کو سکولوں سے چھٹی کرائی اور انہیں اپنے ساتھ احتجاجی پروگرامات میں لے آئیں۔ ان احتجاجوں میں شریک ہونے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو نہ صرف کہنہ روایات، سماجی اقدار، رجعتی ملائیت بلکہ اپنے گھر والوں سے بھی بغاوت کر کے آئی تھیں۔ انتہائی عمر رسیدہ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نے بھی ان ریلیوں میں شرکت کی۔

ہزاروں خواتین کی اس احتجاجی تحریک میں عملی شمولیت سے کشمیر کے حکمران طبقات کے ایوانوں میں بھونچال آچکا ہے اور حکمران طبقات نے تحریک کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ خواتین کے صرف ایک احتجاج نے حکمرانوں کی تمام تر رعونت کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ کل تک جو حکمران اس تحریک کو سازشی عناصر کی کارستانی قرار دے رہے تھے وہی حکمران خواتین کی صرف ایک للکار سے خوفزدہ ہو کر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔

چار ماہ سے زائد عرصے سے جاری اس تحریک میں خواتین کی شمولیت کے پہلے قدم نے ہی اس تحریک کو پہلی کامیابی دلو ادی ہے اور 10 اکتوبر کو خواتین کے احتجاج ختم ہوتے ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر کی نامزد کردہ وزرا کی کمیٹی نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو باقاعدہ مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ خواتین کے یہ احتجاج نہ صرف تحریک کے حوالے سے ایک فیصلہ کن عنصر ثابت ہوئے بلکہ یہ مستقبل کی انقلابی تحریکوں کے حوالے سے بھی انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ احتجاج کشمیر کی خواتین کی تاریخی عمل میں مداخلت کا ایک پرزور اعلان تھے۔

موجودہ تحریک جزوی یا کلی طور پر کامیابی حاصل کرتی ہے یا کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتی دونوں صورتوں میں کشمیر میں احتجاجی تحریکوں کا یہ عمل مزید آگے کی جانب ہی جائے گا اور خواتین بھی آنے والے وقت میں ہر تحریک کا ایک سرگرم حصہ بنتی جائیں گی۔ ہزاروں محنت کش خواتین کی تحریک میں شمولیت اس بات کا اعلان ہے کہ اس خطے میں ایک انقلابی عہد کا آغاز ہو چکا ہے اور اب یہ عمل برق رفتاری سے آگے کی جانب پیش رفت بھی کرے گا اور مزید علاقوں تک وسعت اختیار کرتا جائے گا۔ ہر فتح اور عارضی شکست سے سیکھتے ہوئے اس خطے کے محنت کش زیادہ با شعور ہوتے جائیں گے اور جلد ہی یہ نتائج اخذ کر لیں گے کہ ان کے مسائل کا حل سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا مکمل خاتمے کرنے سے ممکن ہے۔

عوامی تحریک زندہ باد!
کشمیر کی محنت کش خواتین زندہ باد!

Comments are closed.