ٹائٹن آبدوز بمقابلہ تارکین وطن کی کشتی: پانچ امیر ترین جانیں سینکڑوں غریب جانوں پر برتر

|تحریر: بین کری، ترجمہ: جویریہ ملک|

پچھلے دو ہفتوں سے زائد عرصے سے دنیا کو عالمی سطح کے کروڑوں ڈالر آپریشن کا ایک ڈراؤنا تھیٹر شو دکھایا گیا ہے جو ٹائٹن آبدوز کے پانچ مسافروں کی جان بچانے کے لیے جاری تھا لیکن اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ یقینی طور پر شروع سے ہی مر چکے تھے۔ زندگی مقدس ہے: ایک جان بھی بچانے کے لیے کسی بھی پیمانے کے خرچ پر کون اعتراض کر سکتا ہے؟ لیکن اگر تمام زندگیاں مقدس ہیں، تو کچھ زندگیاں واضح طور پر دوسروں سے زیادہ مقدس ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پانچ افراد، بشمول برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ اور برطانوی – پاکستانی کروڑ پتی اور اس کے بیٹے نے بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) کی 3.5 کلومیٹر گہرائی میں موجود ٹائی ٹینک ملبے کو دیکھنے کے لیے رضا کارانہ طور پر موت کے جال میں اترنے کے فی بند 20 لاکھ 50 ہزار ڈالر (7 کروڑ پاکستانی روپے) ادا کیے۔ سفر کے آغاز کے کچھ دیر بعد ہی آبدوز سے رابطہ اور ٹریکنگ عین اس وقت منقطہ ہو ئے جب امریکی بحری فوج کو ایک زوردار دھماکے کی خبر ملی۔

یہ واضح تھا کہ کیا ہوا ہے۔ آبدوز تباہ کن طور پر پھٹ گیا تھا۔ اس کے پانچ مسافر یقینی طور پر مر چکے تھے۔ لیکن ہمیں یہ معلومات اس وقت دی گئی جب چار دن بعد اس کا ملبہ ملا۔ ایسی معلومات یقینی طور پر میڈیا پر چلنے والے تھیڑ شو کی اہمیت کو ختم کر دیتی۔

میڈیا اس خیال کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ان نامور افراد کو ایسا ظالمانہ انجام بھگتنا چاہیے۔ انہوں نے سمندر سے سنائی دینے والی آوازوں، آبدوز کی آکسیجن کی صورتحال، ہر گھنٹے کی صورتحال اور آبدوز میں موجود افراد کے دم گھٹنے، ہائپوتھرمیا اور کوما کے مختلف مراحل پر دن رات قیاس آرائیاں کیں۔ بی بی سی کے رپورٹر کیپ کوڈ (جہاں سے وہ رپورٹنگ کر رہے تھے) پر ’غم کے بادل‘ چھا جانے کے گیت گاتے ہیں۔ حکومتیں، اعلیٰ حکام اور میڈیا سبھی امیر مہم جوؤں اور ان کے خاندانوں کے لیے روتے رہے اور گمشدہ افراد کے مل جانے تک ہر کوشش کرنے کے لیے پُر عزم تھے۔

حکومتوں، بحری فوجوں، کوسٹ گارڈز اور نجی کمپنیوں نے ایک مشترکہ ریسکیو مشن تشکیل دیا۔ امریکی کوسٹ گارڈ، امریکی بحری فوج اور کینیڈین کوسٹ گارڈ پر مشتمل ایک متحدہ کمانڈ تشکیل دی گئی۔ متعدد میری ٹائم اور سب میری ٹائم ماہرین کو اکٹھا کیا گیا۔ متعدد سونار بوائز (پانی کے اندر اشیا یا حرکت کا پتا لگانے والا آلہ) سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ بحری جہازوں اور طیاروں کا ایک بہت بڑا بیڑا اس مشن کے لیے وقف کیا گیا جس میں 3 کینیڈین کوسٹ گارڈ کے جہاز، 1 کینیڈین بحریہ کا دفاعی جہاز، 2 تحقیقی جہاز، 2 کمرشل جہاز، 6 امریکی فوجی طیارے، 2 کینیڈا کے فوجی طیارے، اور متعدد اعلیٰ ٹیکنالوجی والی ریموٹ سے چلنے والی سواریاں (ROVs) شامل تھے۔

اور چار دن بعد آبدوز کے آخری معلوم مقام سے چند سو میٹر دور ایک ملبے کا ڈھیر ملا۔

اگر آپ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ہیں توآپ کی جان اتنی قیمتی ہے۔ یہاں تک کہ جب انہیں یقین ہو کہ آپ مر چکے ہیں تب بھی آپ کی تلاش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جاتی۔

غریبوں کی جانوں کی قیمت کیا ہے؟

ٹائٹن آبدوز کے مسافروں کے نام اور سوانح عمریوں پر اتنے بڑے پیمانے پر بحث کی گئی ہے کہ انہیں دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نام ہر گھر میں جانے جاتے ہیں: برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، اوشن گیٹ کے سی ای او سٹاکٹن رش، گہرے سمندر کے متلاشی پال ہنری نارجیولیٹ اور پاکستان کے بڑے امیر ترین افراد میں سے ایک شہزادہ داؤد اور اس کا بیٹا سلیمان داؤد۔ جبکہ اس آبدوز کے لاپتہ ہونے سے صرف ایک ہفتہ قبل ہی ایک ماہی گیر کشتی میں بند 300 دیگر پاکستانی شہری لاپتہ ہوئے تھے جو بحیرہ روم (Mediterranean) میں سینکڑوں دیگرافراد کے ساتھ ڈوب گئے تھے۔

Stockton Rush Image OceanGate Wikimedia Commons

اوشن گیٹ کمپنی کے سی ای او سٹاکٹن رش کو میڈیا کے مسلسل پرچار کی بدولت ہر شخص جانتا ہے۔

ان غریب انسانوں کو گھومنے پھرنے کے شوق نے نہیں بلکہ حالات کی تنگی نے ایک غیر محفوظ کشتی میں سفر کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستانی شہریوں میں سے زیادہ تر پنجاب کے دیہی علاقوں اور آزاد کشمیر سے آئے تھے۔ جو لوگ اسے اچھی طرح جانتے ہیں وہ کشمیر کو ایک قدرتی جنت کے طور پر بیان کرتے ہیں: اس کے سفید برف کی چوٹیوں والے پہاڑ، اس کی گہری سرسبز و شاداب وادیاں اور اس کی خوبصورت جھیلیں۔ ایک شخص کے جنت سے بھاگنے کی کیا وجہ ہے؟ غربت اور بھوک۔

عالمی میڈیا میں ایک بھی نام یا سوانح عمری کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ کیا ان کی زندگیاں ہمیش ہارڈنگ یا شہزادہ داؤد کی زندگیوں جیسی قیمتی نہیں تھیں؟ بظاہر نہیں۔

10 جون کو ایک بحری جہاز لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوا جس میں 800 مرد، خواتین اور بچے سوار تھے۔ لیکن 13 جون کو صبح 11 بجے، یونانی ساحل کے پاس جہاز سے مدد کی درخواستیں بھیجی گئیں۔

اور کیا جواب آیا؟ ان کی زندگیوں کی کیا قیمت تھی؟

کیا یونانی اور اطالوی کوسٹ گارڈزنے یورپ کی بحریہ کے ساتھ مل کر ان کی مدد کے لیے ایک متحدہ کمانڈ تشکیل دی؟ کیا میڈیا نے ان غریبوں کے لیے آواز بلند کی؟ کیا ایک درجن ہوائی جہاز اور بحری جہاز اکھٹے کیے گئے؟

مدد کی اپیل کے 11 گھنٹے بعد تک کچھ نہیں کیا گیا تھا۔

آخر کار، رات 10 بجے ایک ہی یونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز نے جائے وقوعہ پر حاضری دی۔ اس وقت تک کشتی میں سوار 6 افراد پانی کی کمی سے مر چکے تھے۔ اور جب وہ پہنچے تو انہوں نے کیا کیا؟ کیا وہ اعلیٰ ٹیکنالوجی والے طبی آلات سے لیس تھے؟ جیسے ٹائٹن آبدوز کی تلاش والے کینیڈا کے جہاز میں تعینات کیے گئے تھے؟

نہیں، ان کی موجودگی کا مقصد کہیں زیادہ مذموم تھا۔ ان کی اپنی رپورٹ کے مطابق (جو ثابت ہو گیا ہے کہ جھوٹ سے بھری ہوئی تھی) انہوں نے مشکل میں پھنسی کشتی کا دور ہی سے ”محتاط طریقے سے مشاہدہ“ کیا۔ اگر ہم یونانی کوسٹ گارڈز کے بارے میں زندہ بچ جانے والوں کی گواہی پر یقین کریں تو (اور ہم یقینی طور پر ایسا کرنے کی طرف مائل ہیں) ایسا لگتا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے کشتی کو خود روکا تھا، مسافروں کی جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ اسے پُر تشدد طریقے سے واپس اطالوی پانیوں میں دھکیلنے کے لیے۔ تاکہ وہ کسی اور کا مسئلہ بن جائیں۔

لیکن ان کے اس عمل نے کشتی کو وہاں سے نکالنے کے بجائے اسے ڈبو دیا، جس سے 700 جانیں ایک تاریک قبر میں پہنچ گئیں، جو کسی کا مسئلہ نہیں تھا۔ یا صرف سوگوار رشتہ داروں کا مسئلہ تھا۔ میڈیا نے اس واقعے کو دن کے عام واقعات کی طرح نوٹ کیا اور سب نے مشترکہ طور پر اسے اہمیت دینے سے انکار کر دیا۔

ساری زندگیاں مقدس ہیں۔ لیکن یہ زندگیاں نہیں۔

یونان کی حکمران نیو ڈیموکریسی پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے اس واقعہ کے تناظر میں کہا، یہ محض ”مہاجر“ تھے اور ہم ”زیادہ مہاجرین برداشت نہیں کر سکتے“۔ برطانوی ہوم سکریٹری سویلا بریورمین کے الفاظ میں یہ ”بیرونی حملے“ ہیں اور ان کے ساتھ سلوک بھی حملہ آوروں جیسا ہی کیا جاتا ہے۔ جیسے برطانوی حکومت کی طرف سے انہیں پسپا کرنے کے لیے فوجی بحری جہازوں کے استعمال کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔

ہر سال بحیرہ روم میں 2 ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہوتی ہیں، 2014ء سے اب تک 25 ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ یہ تعداد 100 سال پہلے ٹائی ٹینک حادثے میں ہلاک ہونے والی جانوں کی تعداد سے ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں 17 گنا زیادہ ہے۔ شاید آنے والی دہائیوں میں ان کی قبریں بھی دولت مند لذت کے متلاشیوں کے لیے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جائیں؟

یہ فرق ہے ایک امیر کی زندگی اور غریب کی زندگی کی قیمت میں۔

اگر کوئی اعتراض کرے کہ ہم یہاں یونانی کوسٹ گارڈ اور نیو ڈیموکرسی پارٹی کے نسل پرست سیاست دانوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں ان کے برادر حکمران بھی امیروں کی زندگیوں کو اتنا ہی مقدس اور غریبوں کی زندگیوں کو اتنا ہی فالتو سمجھتے ہیں۔

ثبوت کے طور پر ہم حالیہ ایک اور سانحہ کا حوالہ دیتے ہیں۔

جب ایمانوئل میکرون نے ٹائٹن آبدوز کی گم شدگی کی خبر سنی تو اس نے بغیر وقت ضائع کیے ذاتی طور پر 279 فٹ لمبے فرانسیسی تحقیقی جہاز ’لاٹالانٹے‘، جو 20 ہزار فٹ تک غوطہ خوری کرنے کے قابل جدید ترین ریموٹ سے چلنے والی مشینری سے لیس ہے، کو بحر او قیانوس روانہ ہونے کا آرڈر دیا۔ وہ ایسی حد تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرط یہ کہ واقعہ اس کے دل کو متاثر کرے۔

لیکن جب نومبر 2021ء کی ایک سرد رات کو فرانسیسی ساحل سے محض 15 میل دور انگلش چینل میں ایک کشتی سے مدد کی کال موصول ہوئی تو فرانسیسی کوسٹ گارڈ نے کیا کیا؟ انہوں نے اسے نظر انداز کیا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ انہوں نے برطانوی کوسٹ گارڈ سے جھوٹ بولا کہ وہ اس علاقے میں ریسکیو جہاز نہیں بھیج سکے کیونکہ وہ دوسرے ”اہم“ کاموں میں مصروف تھا۔ ایسا نہیں تھا۔

27 لوگوں کی زندگیاں ختم ہو گئیں۔

ٹائی ٹینک کے سو سال

مرنے والوں کے احترام میں ہم ٹائٹن کے پھٹنے کی ستم ظریفی پرزیادہ بات نہیں کرنا چاہتے، جس نے ٹائی ٹینک کے 1500 بدقسمت مسافروں کی اجتماعی قبر میں مزید پانچ کا اضافہ کیا۔ لیکن ٹائی ٹینک کے ڈوبنے اور آج کی دنیا کے بارے میں چند الفاظ کہنا ضروری ہے۔

Titanic Image public domain

ٹائٹن کے مسافروں کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ موت کے جال میں داخل ہو رہے ہیں، ٹائٹن پر سوار ہونے کی ٹکٹ کے پہلے صفحہ پر تین بار لفظ ”موت“ شامل تھا۔ افسوسناک طور پر پانچ مسافر اوشن گیٹ (آبدوز بنانے والی کمپنی) کے لاگت میں کمی اور منافع کے حصول کے اقدامات کا شکار ہو گئے۔

کمپنی نے تجرباتی کاربن – فائبر – ٹائٹینیم فریم کی مہنگی جانچ اور سرٹیفیکیشن کا عمل میں جمع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور درحقیقت، کمپنی کے اپنے میرین آپریشنز کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لوچریج نے 2018ء میں کرافٹ کے غیر محفوظ ہونے پر ایک رپورٹ لکھی جس کے نتیجے میں وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

اس کے برعکس ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بتایا گیا کہ وہ ایک نہ ڈوبنے والے جہاز پر سوار ہو رہے ہیں۔ 111 سال پہلے ڈوبنے والے ٹائی ٹینک کی کہانی اپنے اندروہی اخلاقی منافقت، امیروں کی فکر اور غریبوں کی زندگیوں کے لیے حقارت کے وہی تضادات مرتکز کرتی ہے جس کا اظہار آج ہم سرمایہ داری کے تحت بہت سے واقعات میں دیکھ رہے ہیں۔

ٹائی ٹینک کی کہانی مشہور ہے۔ 14 اپریل 1912 کو، ٹائی ٹینک اپنے پہلے بحر اوقیانوس کے سفر پر ایک آئس برگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا اور اپنے ساتھ 2200 میں سے 1500 مسافروں کو بھی لے گیا۔

ٹائی ٹینک اپنے امیر ترین مسافروں کے ذوق کو پورا کرنے کے لیے لیس تھا: اس میں ایک ریسٹورنٹ، ایک بہترین لاؤنج، اور یہاں تک کہ مشہور گرینڈ سیڑھیاں بھی تھیں۔

لیکن اس میں تیسرے درجے کے مسافر بھی تھے، جن میں سے بہت سے آئرش تارکین وطن تھے۔ انہیں خصوصی کمپارٹمنٹس میں جگہ دی گئی تھی جو ڈیکوں کے نیچے سلاخوں والے دروازوں کے پیچھے تھے تاکہ وہ پہلے درجے کے مسافروں کے ساتھ بات چیت نہ کر سکیں۔ اول الذکر کو بیماری پھیلانے والے سمجھا جاتا تھا۔ جب جہاز ڈوبنے لگا تو بعض عینی شاہدین کے مطابق وہ دروازے بند ہی رہے۔ جس طرح دو ہفتے قبل لیبیا سے اٹلی کے اس عبرتناک سفر کے دوران سینکڑوں پاکستانی خواتین اور بچوں کو کشتی کے ٹرالر میں بند ہی رکھا گیا تھا۔

پہلے درجے کے 39 فیصد مسافر ہلاک ہوئے۔ تیسرے درجے کے 76 فیصد مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور 98 فیصد تیسرے درجے کے مرد مسافر ہلاک ہوئے۔ زندہ بچ جانے والی میری ڈیوس ولبرن کے الفاظ میں، ”مرنے والے بچوں کو بازوؤں میں پکڑے پانی میں اوپر آئے۔ غریب لوگوں کو موقع ہی نہیں ملا۔“

تیسرے درجے کے مسافروں کو ٹائی ٹینک کے مالکان نے جہاز کے ہولڈ میں دھکیل دیا تھا، تو کیا مؤخر الذکر کی اخلاقیات آج کے انسانی سمگلروں کے مقابلے میں اونچی یا نیچی تھیں؟ اب یورپی اور یونانی حکام سمگلروں کو الزام دے رہے ہیں، جو اپنے ہاتھوں پر خون کے دھبے چھپانے کی بھونڈی کوشش ہے۔

ٹائی ٹینک کے بارے میں ایک اور حقیقت، جو جہاز کے ڈوبنے کے بارے میں جیمز کیمرون کی فلم دیکھنے والی جانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ جہاز میں اپنے 2200 مسافروں کو بچانے کے لیے لائف بوٹس موجود ہی نہیں تھیں جس سے سینکڑوں غریب مسافر ڈوب گئے۔

جو بات لوگ نہیں جانتے وہ اس کمی کی وجہ ہے۔ یہ لاگت میں کمی کا اقدام نہیں تھا بلکہ پہلے درجے کے مسافروں کے لیے ایک اچھا نظارہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ تمام مسافروں کو بچانے کے لیے کافی لائف بوٹس رکھنے سے اوپری ڈیکوں پرنظارہ خراب ہو جاتا۔ کیا اس سے وہ خطرناک، آتش گیر چادر یاد نہیں آتی جس سے گرینفیل ٹاور کو چھپایا گیا تھا تاکہ لندن میں کنسنگٹن کے دوسرے امیر ترین رہائشیوں کا نظارہ خراب نہ ہو؟ وہی آتش گیر چادر جس کی وجہ سے 2017ء میں 74 جانیں ضائع ہوئیں۔

نہ ختم ہونے والی وحشت

دو سانحات – بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم میں – دونوں خوفناک کہانیاں ہیں۔ تاہم، دونوں میں سے صرف ایک میں ملوث جانوں کو بچانے کے لائق سمجھا گیا۔ یہ ہمارے حکمران طبقے کی ’اخلاقیات‘ ہیں۔ وہ اپنے کسی کو بچانے کے لیے زمین کے کسی کونے یا یا سمندر کی گہرائی تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن محنت کش طبقے، غریبوں اور سب سے بڑھ کر تارکین وطن کو ایک عذاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں یہ زیادہ سے زیادہ استحصال کے لیے موجود خام مال ہیں یا محض اضافی آبادی کے طور پر غیر اہم زندگیاں۔

Coast guard search Image U.S. Coast Guard District 1 Wikimedia Commons

حکمران اپنے کسی کو بچانے کے لیے زمین کے کسی کونے یا یا سمندر کی گہرائی تک پہنچ جائیں گے۔

آج کا ’جمہوری‘، ’مہذب‘ حکمران طبقہ ایک صدی پہلے اپنے آبا و اجداد جیسی اخلاقیات کا حامل ہے، جنہوں نے غریب آئرش تارکین وطن کو بحر اوقیانوس کی تہہ تک ڈوبنے دیا۔ جہاں مالتھس نے دو صدیاں پہلے بیماری اور بھوک کے سماجی فوائد کی تعریف کی تھی، آج ہمارے سیاست دان رات بھر ہنس رہے ہیں اور پارٹیاں منا رہے ہیں، جب کہ ان کی ’ہرڈ امیونٹی‘ پالیسیوں نے کرونا وبا کو محنت کش طبقے میں پھیلنے کا موقع دیا۔

یہ بات لاکھوں لوگ سمجھتے ہیں۔ آپ اسے ٹائٹن آبدوز کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس، کام کی جگہ پر ہونے والی بحثوں، بارز اور ریسٹورنٹس میں دیکھ سکتے ہیں۔ سیکھا ہوا سبق بالکل سادہ ہے: زندہ رہو یا مر جاؤ، حکمران طبقے کو ہماری کوئی پرواہ نہیں ہے۔

Comments are closed.