پاکستان: تعلیمی محرومی اور بے روزگاری کی ذلت، کیا نوجوانوں کا کوئی مستقبل ہے؟

|تحریر: خالد قیام|

نوجوانوں کو اس ملک کی آبادی کا 65 فیصد بتایا جاتا ہے اور جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد کتنی ہے؟ اس کیلئے بھی تین سال پہلے کے ایک سروے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جس کے مطابق یہ تعداد ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے جب کہ صرف پچھلے دو سال میں لاکھوں طلبہ اور بچے تعلیم چھوڑ کر محنت کی منڈی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں 77 فیصد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ لیبر مارکیٹ میں بھی چائلڈ لیبر کی تعداد میں پچھلے ایک سال میں تاریخی اضافہ رپورٹ کیا گیا۔

ایک طرف تعلیم کو درمیان میں چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں نکلنے والے نوجوان ہیں جبکہ دوسری طرف وہ نوجوان جو کچھ نہ کچھ مالی استطاعت رکھتے ہوئے تعلیم مکمل کرپاتے ہیں اور ڈگریاں لے کر روزگار ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے جو بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں نوجوانوں کا اس ملک میں کس طرح کا مستقبل انتظار کر رہا ہے؟ کیا آنے والے وقت میں اس نظام میں نوجوانوں کیلئے تعلیم اور روزگار کے مواقع اور امکانات ہیں یا صرف ایک تاریک مستقبل ہی ان کا منتظر ہے؟ اس کیلئے ہمیں مختلف پہلووں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

آبادی کے تناسب سے نوجوانوں کی تعداد 14 کروڑ سے کچھ اوپر بنتی ہے جن میں نصف نوجوان 15 سال سے 29 سال کی عمر کے ہیں جبکہ باقی نصف اس سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں پاکستان کی مجموعی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے چھ گنا اضافے کے ساتھ 22 کروڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح آج بھی زبردست تیزی کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سالانہ 50 لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر پاکستان سکول سے باہر بچوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 5 تا 16 سال کی عمر کے تین کروڑ کے قریب بچے سکول جا ہی نہیں پاتے۔ بہ الفاظ دیگر اس عمر کے 42 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ دوسری طرف سکول جاتے بچوں کی آدھی تعداد سیکنڈری سکول تک پہنچتے پہنچتے ڈراپ ہو جاتی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پرائمری لیول پر ڈھائی کروڑ سے کچھ اوپر بچے سکول میں داخل ہوتے ہیں مگر سیکنڈری لیول تک یہ تعداد 36 لاکھ تک گِر جاتی ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ آگے ہائیر ایجوکیشن تک پاکستان کے 14 کروڑ نوجوانوں میں سے بمشکل پانچ سے چھ فیصد رسائی حاصل کرتے ہیں۔ 15 سے 29 سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا بھی 41.6 فیصد ہے جبکہ 40 لاکھ نوجوان ہرسال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 39 فیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں، دو فیصد مردوں اور خواتین کو روزگار کی تلاش ہے جبکہ 57 فیصد بے روزگار ملازمت کی تلاش ہی نہیں کرتے کیونکہ انہیں روزگار ملنے کی کوئی امید ہی نہیں ہوتی۔

اب سوال یہ ہے کہ اس نظام میں ان نوجوانوں کو دینے کیلئے کیا ہے؟ چاہے وہ ڈگری ہولڈرز ہیں یا غیر تعلیم یافتہ نوجوان۔ کیا لیبر مارکیٹ میں ان نوجوانوں کو ایک باعزت روزگار فراہم کرنے کی گنجائش ہے؟ جبکہ پہلے ہی سے ایک سال میں ڈھائی کروڑ لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونے پڑے اور آج بھی ملک بھر میں لاکھوں محنت کش بے روزگاری اور جبری برطرفیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کو سمجھنے کیلئے شائد زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہر طالبعلم، نوجوان اور عام آدمی اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر باآسانی بتا سکتا ہے کہ اس ملک میں دو وقت کی روٹی کی خاطر ایک چھوٹے موٹے روزگار یا نوکری کے حصول کیلئے ایک نوجوان کو کن کن مشکلات و مراحل اور کن ذہنی کیفیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت نوجوان اس ملک میں اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید خوف اور غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا ہیں۔ دن بہ دن تعلیم، علاج اور روزگار عام لوگوں کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کے روشن مستقبل کے خوابوں کو اس نظام کے بحران اور دہشت نے تاریک مستقبل کے سمندر میں ڈبو دیا ہے جہاں اب دور دور تک کوئی روشنی نظر نہیں آرہی۔

یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں ڈپریشن، سٹریس اور خودکشی کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر گھنٹے میں ایک انسان خودکشی کرلیتا ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن میں مبتلا ہے جس میں نوجوانوں کی خاصی تعداد شامل ہے۔ نوجوانوں میں خودکشی کی چند اہم وجوہات میں بے روزگاری کو سرفہرست بتایا جاتا ہے۔ پاکستان میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کامستقبل موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے یہی ہے۔ مگر حکمران طبقے کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں اس ملک میں بھی جنت نما زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بچپن سے مہنگے نجی اداروں میں پڑھتے ہیں جن کی صرف فیسیں ایک غریب محنت کش کی تنخواہ سے دوگنا ہوتی ہیں مگر حکمران اشرافیہ، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی عوام سے لوٹی ہوئی دولت پر ان اخراجات کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کے تو صرف کتے، گھوڑے اور مرغے محنت کش طبقے کے انسانوں سے ہزار گنا پرآسائش زندگیاں گزارتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مغربی ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے حکمرانوں کے بچے دو کام سیکھ کر واپس آتے ہیں؛ سیاست دانوں کے بچے سیاست اور سرمایہ داروں کے بچے کاروبار، اور پھر واپس آکر اول الذکر محنت کشوں پر حکمرانی کرتے ہیں جبکہ بعد الذکر محنت کشوں کا استحصال۔ پھر اس کے بعد ان سب کی باقی زندگیاں مشرق اور مغرب کے چکروں میں کٹ جاتی ہیں۔ مگر محنت کش طبقے کے طلبہ اور نوجوان اپنے اس وطن میں بھی زندگی بھر خاک چھاننے پر مجبور ہوتے ہیں۔

نوجوانوں پر بے شک سب راستے بند ہیں؛ مگر صرف سرمایہ دارانہ نظام میں۔ ایک راستہ ان کے پاس ہے اور وہ ہے متحد ہوکر اس نظام کو بدلنے کا راستہ! یہ نوجوان صرف اس وقت تک کمزور ہیں جب تک وہ اس نظام کے خلاف متحد ہوکر لڑیں گے نہیں۔

 

مگر کیا محنت کش طبقے کے طلبہ اور نوجوانوں کیلئے واقعی سب راستے بند ہیں؟ کیا سچ میں اس جبر سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے؟ کیا محنت کش طبقے کے نوجوانوں کو ہمیشہ کیلئے تعلیم، علاج، روزگار، خوشی، جمہوری و سیاسی حقوق سے محروم رکھا جائے گا؟ کیا اس کو بدلنے کی کوئی راہ نہیں؟ کیا 14 کروڑ تازہ دم نوجوان کمزور ہیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ نوجوانوں پر بے شک سب راستے بند ہیں؛ مگر صرف سرمایہ دارانہ نظام میں۔ ایک راستہ ان کے پاس ہے اور وہ ہے متحد ہوکر اس نظام کو بدلنے کا راستہ! یہ نوجوان صرف اس وقت تک کمزور ہیں جب تک وہ اس نظام کے خلاف متحد ہوکر لڑیں گے نہیں۔ اس نظام نے نوجوانوں کو مقابلے میں لگاکر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے اور ایک دوسرے سے بیگانہ کر دیا ہے۔ اس جنگ میں اپنی ذات تک محدود رہ کر ہم بے شک کمزور ہیں، مگر متحد ہوکر لڑیں گے تو ہم اپنے دشمنوں سے طاقتور ہیں۔ ہم نے اس استحصالی نظام کی ناکامی کو اپنی ناکامی سمجھ رکھا ہے۔ ہم جب اس احساس سے نکل کر اس نظام کی ناکامی کی ذمہ داری اور الزام اپنی ذات پر لگانے کی بجائے نظام کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے تو پھر یقیناً اس نظام کو بدلا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں نوجوانوں کیلئے یہی ایک راستہ ہے۔ یہ راستہ اس ملک میں طلبہ سیاست اور جدوجہد، طلبہ یونین اور انقلابی نظریات کی شاندار تاریخ کے پیچ و خم سے ہوکر آیا ہے اور یہی راستہ اس ملک کے نوجوانوں کیلئے آگے جانے کا، اس نظام کو، اس سماج کو اور اپنی قسمت کو بدلنے کا راستہ ہے۔ یہ انقلاب کا راستہ ہے۔

Comments are closed.