ٹرمپ کا خلیجی ممالک کا دورہ اور امریکہ اسرائیل کے بدلتے تعلقات

|تحریر: وکٹر مورے ویڈسو، ترجمہ: عرفان منصور|

بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے قلیل مدتی جنگ بندی کے معاہدے کو توڑے ہوئے دو ماہ گزرنے کے بعد غزہ کی صورتحال تباہ کن حد تک بگڑ چکی ہے۔ اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کے باعث امداد، ادویات اور بنیادی ضروریاتِ زندگی معدوم ہو چکی ہیں اور اسرائیلی فوج کی بے رحم بمباری ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔ بے شمار انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ناکہ بندی ایک وسیع پیمانے پر قحط کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دسیوں ہزار جانیں نگل سکتی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اب غزہ میں ایک نئے زمینی حملے ”آپریشن گیڈیونز چیریٹس“ (Operation Gideon’s Chariots) کے لیے 70 ہزار ریزرو فوجیوں کو بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ نیتن یاہو کا اعلانیہ مقصد یہ ہے کہ غزہ کے بیشتر علاقوں پر مستقل قبضہ کیا جائے اور 20 لاکھ فلسطینیوں کو جبری بے دخل کیا جائے، پہلے انہیں غزہ کے جنوبی ترین حصے میں دھکیلا جائے گا اور بعد ازاں مکمل طور پر انہیں وطن بدر کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ایک نئے ”نکبہ“ سے کسی صورت کم نہیں۔

قتلِ عام میں اس نئی شدت کے ساتھ، نیتن یاہو نے عملاً یرغمالیوں کی واپسی کی کسی بھی کوشش کو خیرباد کہہ دیا ہے اور یوں ان کے لیے موت کے پروانے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس کے سبب اسرائیلی سماج میں نیتن یاہو کے خلاف غصہ اور نفرت بڑھتی جا رہی ہے، جہاں 70 فیصد عوام اس جنگ کے خاتمے کے حامی ہیں، اگر اس کے بدلے میں یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہو۔ مزید یہ کہ 87 فیصد اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو کو 7 اکتوبر کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، جبکہ 72.5 فیصد کا خیال ہے کہ اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اس جنگ کے دباؤ میں سرائیلی سماج کے تار و پود بکھرنے لگے ہیں اور نیتن یاہو اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش میں کنیسٹ (Knesset) کے سب سے انتہا پسند عناصر کا سہارا لے رہا ہے۔

فوجی کشیدگی میں یہ اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل اس خیال کی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ غزہ کو مشرقِ وسطیٰ کے ریویرا (the Riviera of the Middle East) (پُر آسائش سمندری سیاحتی علاقہ) میں تبدیل کیا جائے، ایک تصور جسے وہ اب ”فریڈم زون“ یعنی ”آزادی کا خطہ“ کا نام دے رہا ہے، جس کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر اور اردن کی طرف دھکیلا جائے گا۔ تاہم اب وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ وہ ”اس سفاکانہ تنازع کے خاتمے“ کا خواہاں ہے۔ یہ ایسا مؤقف ہے جو نیتن یاہو کی جنگ کو انجام تک پہنچانے کی ضد کے بالکل برعکس ہے۔

اسی دوران اسرائیل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، ٹرمپ نے آخری امریکی یرغمالی، ایڈن الیگزینڈر، کی رہائی کے لیے براہِ راست حماس سے مذاکرات کیے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب نیتن یاہو باقی ماندہ یرغمالیوں کو بھیڑیوں کے آگے ڈال چکا ہے، یہ ایک زبردست سیاسی تذلیل ہے۔

صورتحال اس قدر سرد مہری کا شکار ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو سے تمام تعلقات منقطع کر دیے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے پانچ محاذوں پر فوجی کاروائیوں میں مصروف نیتن یاہو کے لیے، امریکہ کی طرف سے ملنے والی غیر مشروط حمایت اس پوری پالیسی کا محور رہا ہے، اسی نے اسے اقتدار میں قائم رکھا ہوا ہے۔

لیکن ٹرمپ یہ اشارہ دے رہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراجی مفادات کو صرف اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنے والا، اور اب وہ دیگر ریاستوں کے ساتھ ایسے متعدد معاہدے کر رہا ہے جن میں اسرائیل کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی ہے، جو ٹرمپ کی آمد سے قبل نیتن یاہو کی شدید اور غیر مشروط حمایت پر مبنی تھی۔

ٹرمپ کا نیتن یاہو کو دیوار سے لگانا

ایسے ہفتے میں جب ڈونلڈ جے۔ٹرمپ خلیجی ممالک کے دورے پر رہا اور سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارت، تیل اور سرمایہ کاری کے بڑے بڑے معاہدے کیے، تو یوں دکھائی دیا کہ نیتن یاہو مکمل طور پر حاشیے پر دکھیل دیا گیا ہے۔

ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ ایک کھرب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے، جس میں سعودی عرب کے سویلین نیو کلیئر پروگرام کے لیے یورینیم افزودگی بھی شامل ہے، ایک ایسا معاہدہ جس سے یقینا یروشلم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہو گی۔ ایسے معاہدے، خصوصاً جو سعودی ایٹمی پروگرام سے متعلق ہوں، ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے مشروط ہوتے تھے۔ لیکن پچھلے ہفتے ہونے والے ان معاہدوں میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں تھی۔

ٹرمپ نے حتیٰ کہ شام کی نئی اسلامی حکومت پر عائد تمام پابندیاں مکمل طور پر اٹھانے پر بھی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ ایک اور گہرا دھچکہ ہے۔ اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) اسد حکومت کے زوال کے بعد سے باقاعدگی سے شامی فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتی رہی ہے، یہاں تک کہ اس کی کاروائیاں گولان کی پہاڑیوں سے آگے شامی سرزمین کے اندر تک پھیل چکی ہیں۔ ٹرمپ کا یہ اقدام اسرائیل کی الجولانی حکومت کو غیر مستحکم رکھنے کی حکمتِ عملی کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کے برعکس، اس قدم سے اسرائیل کے ترک حریف مضبوط ہوں گے، جو دمشق کے نئے حکمرانوں کے بنیادی حامی ہیں۔

یہ تمام ہنگامہ خیز معاہدے مکمل طور پر نیتن یاہو کی موجودگی کے بغیر کیے گئے۔ ان سے قبل حوثیوں کے ساتھ بھی ایک معاہدہ طے پایا، جس کے بارے میں اسرائیل کو ایک بار پھر بے خبر رکھا گیا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے یمن پر حملے بند کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور بدلے میں حوثیوں نے بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی پر اپنے حملے روکنے پر رضامندی دی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں حوثیوں پر اسرائیل کے خلاف حملوں کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی، یعنی اسرائیل کو اس خطرے سے اکیلے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہ معاہدہ اس واقعے کے صرف ایک دن بعد طے پایا جب حوثیوں نے کامیابی سے تل ابیب کے قریب بن گوریون ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کئی بین الاقوامی ایئرلائنز نے ہفتوں تک اسرائیل کے لیے پروازیں معطل کر دیں۔

نیتن یاہو کے لیے شاید سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ ایک جوہری معاہدے پر مذاکرات کر رہا ہے اور عمان میں پانچویں مرحلے کی تیاری جاری ہے۔ حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی تہران کے لیے ایک اور خیرسگالی کا اشارہ ہے، جو اس بات کی گواہی ہے کہ ٹرمپ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سنجیدہ ہے۔

اپنے مخصوص انداز کے مطابق، ٹرمپ نے ایران کے متعلق اپنا بیانیہ مبہم رکھا ہے، مگر سابق سیکیورٹی مشیر مائیک والٹز (Mike Waltz) کے ساتھ ان کا سخت رویہ بہت کچھ کہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق والٹز نے اسرائیلی حکام اور نیتن یاہو کی ایما پر ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جائے لیکن اس کوشش کے نتیجے میں انہیں فوراً عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اگرچہ نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس کی والٹز سے صرف ایک بار بات ہوئی، مگر ٹرمپ اس وضاحت کو قابلِ قبول نہیں سمجھتا۔

صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نیتن یاہو اب وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا جو کبھی اس کے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا تھا: کہ وہ دن بھی آ سکتا ہے جب امریکہ کی عسکری امداد ختم ہو جائے۔ اس نے اپنی کابینہ سے کہا: ”میرا خیال ہے کہ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں ہم خود کو (امریکی عسکری امداد) سے آزاد کر لیں گے۔“

یہ سب کچھ امریکی خارجہ پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جہاں پہلے امریکہ، بائیڈن کے دور میں، اور ٹرمپ کے ابتدائی اوقات میں بھی، اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتا رہا، یہاں تک کہ جب ٹرمپ نے غزہ کی نسلی تطہیر کا اپنا منصوبہ پیش کیا، اب وہ اسرائیل کو نقصان پہنچاتے ہوئے خطے میں دیگر قوتوں سے معاہدے کرنے اور نئے اتحادی تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹرمپ کا مقصد

جب ٹرمپ کے غزہ منصوبہ کا اوول آفس (Oval Office) میں پہلی بار اعلان ہوا تب نتن یاہو اور اس کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اگرچہ ٹرمپ کی اسرائیل اور اس کی مسلسل توسیع سے کوئی اصولی مخالفت نہیں، لیکن اس کے اپنے علاقائی مقاصد ہیں جو نتن یاہو کی غیر مشروط حمایت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔

مختصر یہ کہ، ٹرمپ کی حمایت کی اپنی شرائط ہیں اور ان کا انحصار خصوصی طور پر ایران اور بالعموم وسیع تر مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر ہے۔ ٹرمپ پختہ یقین رکھتا ہے کہ دم چھلہ اسرائیل کو ہونا چاہیے امریکہ کا، نہ کہ اس کے الٹ۔

اسی پس منظر میں ہمیں نتن یاہو اور ٹرمپ کے تعلقات کے اچانک خراب ہونے کو سمجھنا ہو گا۔ یہ محض ذاتی اختلاف سے کہیں بڑھ کر، اسرائیل اور امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں مستقبل کے کردار کے حوالے سے مختلف اسٹریٹجک مفادات کا عکاس ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کوئی امن پسند نہیں ہے۔ مگر اس کے حساب کتاب میں مشرقِ وسطیٰ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ اس علاقے میں اس کا مقصد بنیادی طور پر ایسے معاہدے کرنا ہے جو مزید عدم استحکام کو جنم نہ دیں اور امریکی اقتصادی مفادات کو فائدہ پہنچائیں، تاکہ وہ اپنی ملکی ترجیحات اور چین پر توجہ مرکوز کر سکے۔ وہ امریکی افواج کو مشرق وسطیٰ سے نکالنا چاہتا ہے، مگر صورتحال کوبد تر کیے بغیر۔ مگر یہ بول دینے جتنا آسان نہیں ہے۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ غزہ میں جنگ کا یہ تسلسل اردن، خلیجی ممالک، مصر سمیت کئی اور خطوں کے لیے انقلابی نتائج سموئے ہوئے ہے۔

ٹرمپ کی اس سوچ کے پسِ پردہ فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کار فرما نہیں بلکہ یہ ڈر ہے کہ ایک جنونی اور نسل کش اتحادی کی ایک حد سے زیادہ غیر مشروط حمایت امریکہ کو افغانستان اور عراق کی طرح ایک اور فوجی مہم میں الجھا دے گی۔

یہ ٹرمپ اور اسٹیون وٹکوف (Steven Witkoff) تھے جنہوں نے نتن یاہو کا بازو مروڑا کہ وہ مرحلہ وار جنگ بندی پر اتفاق کرے تاکہ بالآخر اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ اگرچہ جنگ بندی کے بعد کا منصوبہ کسی طور واضح نہیں تھا، مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ٹرمپ کے لیے غزہ کی جنگ کا خاتمہ ایک اولین ترجیح تھی۔

نتن یاہو جنگ ختم نہیں کر سکتا تھا کیونکہ جنگ کا خاتمہ اس کے سیاسی کیریئر کے خاتمے اور اپنی بربادی کی نوید تھا۔ اس لیے اس نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد پہلا موقعہ ملتے ہی معاہدہ توڑ دیا۔

اس نے ٹرمپ کے منصوبوں میں رخنہ ڈال دیا۔ ٹرمپ کے لیے یہ واضح اشارہ تھا کہ نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کے لیے اسے بھی نظر انداز کر سکتا ہے۔

جنگ بندی کے دوران پیش کیا گیا ٹرمپ کا غزہ پلان بھی دراصل نتن یاہو کے لیے ایک اشارہ تھا کہ وہ اسرائیل کے صہیونی مقاصد کی حمایت تو کرے گا، مگر یہ حمایت امریکی شرائط پر ہو گی۔ جب نتن یاہو نے اپنی انتہائی دائیں بازو کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کے لیے اس سامراجی امن کو توڑا، تو اس نے بالواسطہ ٹرمپ کو بتایا کہ اس کی حکومت کی بقا اور جنگ کا تسلسل امریکی مفادات سے زیادہ اہم ہیں۔

ٹرمپ کو ایسے رویے بالکل بھی پسند نہیں، خاص طور پر اس شخص سے جو خود کو امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی کہلواتا ہو۔ ایک سینئر ٹرمپ اتحادی نے نتن یاہو کے قریبی مشیر روون ڈرمر (Ron Dermer) کو بتایا کہ صدر کو سب سے زیادہ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ لوگ اسے بھولا یا اپنی بساط کا مہرہ سمجھیں، اور وہی کچھ نتن یاہو کر رہا ہے۔

جب ٹرمپ کہتا ہے کہ ’پہلے امریکہ‘ تو اس کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ پہلے امریکہ۔ یہ ناگزیر طور پر نتن یاہو کی سخت گیر ’اسرائیل پہلے‘ (یا درحقیقت ’نتن یاہو پہلے‘) پالیسی کے ساتھ مخاصمت کو جنم دیتی ہے، اور یہ غزہ اور ایران کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک سنگین بحران کا باعث بن سکتی ہے۔

یار و اغیار

ایک قدیم مثل ہے کہ قوموں کے نہ مستقل دوست ہوتے ہیں اور نہ مستقل دشمن، بلکہ مستقل مفادات ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے اس سچائی کو سب سے پہلے یورپ میں ثابت کیا اور اب امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ’خصوصی تعلقات‘ میں بھی۔

حوثیوں کے ساتھ معاہدہ ٹرمپ کی طرف سے دبے دبے لفظوں میں یہ اعتراف ہے کہ امریکی سامراج اب ہر عالمی تنازعے کی نگرانی کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ امریکہ کے بڑھتے ہوئے قومی قرضے اور پھیلتے ہوئے تجارتی خسارے کو دیکھتے ہوئے، ٹرمپ ثانوی محازوں پر کیے گئے ان بے مقصد معاہدوں کو سرے سے ہی ناقابلِ برداشت سمجھتا ہے۔

یہ ٹرمپ کی ”اپنے نقصان گھٹاؤ“ حکمتِ عملی کا مجسم اظہار ہے۔ ماضی میں، فوجی کاروائیوں کو اچانک ختم کرنے کا خیال (جو عملی طور پر شکست تسلیم کرنے کے مترادف تھا) اور ایران کے حمایت یافتہ اہم اسرائیلی مخالف سے مذاکرات کرنے کا تصور ناقابلِ قبول تھا۔ لیکن وقت بدل گیا، جذبات بدل گئے۔

قصہ مختصر، ٹرمپ کے نزدیک یہ مہم بے سود سرمایہ کاری تھی، جو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی، مالی وسائل ضائع کیے اور فوجی طاقت کا ضیاع کیا جو بہتر طور پر اپنے آس پاس کے ملکوں پر رعب ڈالنے اور چین کو روکنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے تھے۔

یورپ میں پرانے عالمی نظام کو ختم کرنے میں ٹرمپ کے کردار پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے، لیکن مشرقِ وسطیٰ بھی اب امریکی مداخلت میں زلزلہ خیز تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکی سامراج اب کوئی مطلق العنان بالا دست قوت نہیں رہا۔ اسے مجبوری کے تحت اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا ہے اور اپنے سب سے بڑے اتحادی کی قیمت پر سودے کرنے پڑے ہیں، سعودی عرب کے ساتھ، ترکی کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر ایران کے ساتھ، جیسا کہ اوباما نے 2015ء میں ایران جوہری معاہدے کے ذریعے کرنے پر خود کو مجبور پایا تھا۔

لیکن امریکی سامراج کو ان تضادات سے نکالنے کی یہ کوششیں، جن میں وہ بری طرح الجھ چکا ہے، کسی بڑے استحکام کا سبب نہیں بنیں گی۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس نتائج برآمد ہوں گے۔

اس نئی راہ کی کھلے عام مخالفت کرتے ہوئے، طویل عرصے سے امریکہ کا ایک کلیدی اسٹریٹیجک اثاثہ رہنے والا اسرائیل، اب واشنگٹن کے لیے ایک بوجھ بننے کے خطرے سے دوچار ہے۔

نتن یاہو کی بے تابانہ تگ و دو

مگر نتن یاہو اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔ اس کی حکمتِ عملی ایک طرف تو یہ ہے کہ وہ نسل کشی پر مبنی فوجی مہم میں وقفے کے دوران ممکنہ قانونی کاروائیوں سے خود کو محفوظ رکھے۔ 7 اکتوبر سے پہلے ہی، ’قطر گیٹ‘ اور دیگر متعدد کرپشن کے مقدمات اس کے لیے مستقل خطرے کی گھنٹی بنے ہوئے تھے، جن کے باعث اس کا اقتدار ختم ہو سکتا تھا۔ اسرائیل میں اس دوران عوامی احتجاجوں کی لہر نے بھی جنم لیا، جس میں خود اسرائیلی حکمران طبقے کا ایک بااثر دھڑا اس کے خلاف صف آرا تھا۔

نیتن یاہو اس عدالتی جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اُس نے ایک اہم عدالتی سماعت سے چند گھنٹے قبل جنگ بندی توڑ دی، تاکہ عدالت میں پیشی کو غیر معینہ مدت تک مؤخر کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

علاوہ ازیں، گزشتہ چند ماہ کے دوران نیتن یاہو اسرائیلی خفیہ ایجنسی شین بیت کے سربراہ رونن بار (Ronen Bar) کے ساتھ کھلے تصادم میں مصروف رہا ہے۔ رونن بار نے سرعام نیتن یاہو پر قانون شکنی کا الزام عائد کیا، یہ کہتے ہوئے کہ وزیراعظم نے شین بیت کو حکومت مخالف مظاہروں کی نگرانی اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا، نیز اس نے بار کو ہدایت دی کہ وہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے بجائے براہِ راست اسی کے احکامات پر عمل کرے۔

یہ کوئی معمولی الزام نہیں ہے، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ غزہ کی جنگ نے ریاستی اداروں کو متحد کرنے کے بجائے خود حکمران طبقے کی مختلف پرتوں کو ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔ اس اندرونی ٹکراؤ نے اسرائیلی نظامِ حکومت کو کمزور کر دیا ہے اور آنے والے وقت میں بڑے سیاسی اور سماجی بحرانوں کی زمین ہموار کر دی ہے۔

نتن یاہو کو بخوبی اندازہ تھا کہ بار کے الزامات ایک بڑے مقدمے کا مرکز بن سکتے ہیں، اس لیے اُس نے سخت اور شدید جوابی حملہ کیا۔ آخر کار، اس دباؤ کے نتیجے میں بار کو پیچھے ہٹنا پڑا، جس سے اُن کے الزامات کے فوری قانونی اثرات زائل ہو گئے اور کوئی باضابطہ قانونی کاروائی عمل میں نہ آ سکی۔

اسی دوران، نتن یاہو کی سیاسی اتحادی حکومت دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کی حمایت پر قائم ہے، جن میں وزیر خزانہ بیزالیل سموتریچ (Bezalel Smotrich)اور وزیر برائے قومی سلامتی اِیتمار بن گویر (Itamar Ben-Gvir) شامل ہیں۔ یہ شدت پسند افراد فلسطینیوں کی نسلی تطہیر اور غزہ و مغربی کنارے پر مستقل قبضہ یعنی ’صیہونی منصوبے‘ کی تکمیل کو اسرائیل کا واحد مقصد سمجھتے ہیں۔

اگرچہ نتن یاہو ٹرمپ کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر سکتا، لیکن وہ مسلسل اپنی سیاسی تقدیر کو بن گویر اور سموتریچ کے ساتھ منسلک کرتا جا رہا ہے۔ مارچ میں جنگ کا دوبارہ آغاز نہ صرف اس کے قانونی مسائل سے نکلنے کا ایک ذریعہ تھا، بلکہ یہی واحد راستہ تھا جس کے ذریعے وہ کنیسٹ میں نیا بجٹ منظور کروا سکتا تھا۔ اگر وہ بن گویر اور سموتریچ کو جنگ دوبارہ شروع کر کے دوبارہ اپنے ساتھ نہ ملاتا، تو بجٹ منظور نہ ہوتا اور پارلیمان خود بخود تحلیل ہو جاتی، جس کے نتیجے میں نئے انتخابات لازم ہو جاتے اور یہ نتن یاہو کے تابوت میں آخری کیل ہوتا۔

چنانچہ، بن گویر اور سموتریچ اب نیتن یاہو کے ’شاہ گر‘ بن چکے ہیں، اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ اب اسرائیلی میڈیا میں کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ جنگ کا مقصد اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرانا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی رہا ہے، بلکہ غزہ پر قبضہ کرنا ہے۔ حال ہی میں سموتریچ نے کہا: ”چند مہینوں کے اندر غزہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔“ جہاں تک ٹرمپ کے اس ابتدائی منصوبے کا تعلق ہے کہ غزہ کو غیر آباد کر کے لاکھوں افراد کو زبردستی بے دخل کیا جائے، سموتریچ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس منصوبے پر عمل نہیں کرتی تو اسے ”وجود رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔“

نیتن یاہو یرغمالیوں کے ہر اُس ممکنہ تبادلے کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے پر تُلا ہوا ہے جو ٹرمپ کے خلیجی دورے کے نتیجے میں سامنے آ سکتا ہے۔ ٹرمپ کے حکم پر نہ چاہتے ہوئے بھی ایک اسرائیلی وفد کو دوحہ بھیجنے سے قبل، نیتن یاہو نے اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا کہ حماس مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے اور پھر غزہ کی حکومت سے دستبردار ہو۔

کہا جا رہا ہے کہ پیر کے روز آئی ڈی ایف (IDF) کے زخمی سپاہیوں سے ملاقات کے دوران نیتن یاہو نے کہا، ”چند دنوں میں غزہ میں وہ کچھ ہونے والا ہے جو تم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا“، اور مزید کہا کہ اسرائیل ”ہمیشہ کے لیے“ غزہ پر قابض ہو جائے گا۔

اسرائیلی حکومت کے عزائم واضح ہیں۔ نیتن یاہو کسی بھی قیمت پر غزہ میں آخری حد تک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ راستہ نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو مزید گہرا کرے گا، بلکہ خود اسرائیل کے اندر بھی بحران کی آگ کو ہوا ملے گی۔

اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اب کھلے عام اس بات پر سنگین شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آیا اسرائیل اس جنگ کے ایک اور طویل مرحلے کو برقرار رکھنے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ آئی ڈی ایف کے مطابق، ”اگر طلب کیے گئے افراد میں سے 60 تا 70 فیصد بھی ڈیوٹی پر حاضر ہو جائیں تو یہ خوش نصیبی ہو گی۔“

یہ شرح جنگ کے آغاز پر 120 فیصد تھی، یعنی جتنے ریزرو فوجیوں کو طلب کیا گیا تھا، اس سے بھی زیادہ رضاکارانہ طور پر جنگ میں شامل ہونے کے لیے سامنے آ رہے تھے۔ اس کے بعد یہ شرح رواں سال کے آغاز میں 80 فیصد تک گر گئی، اور اب مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔

یہ جنگ اب اسرائیلی سرمایہ دارانہ نظام کے بخیے اکھیڑ رہی ہے۔ سیاسی، عسکری، معاشی اور سماجی تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ نیتن یاہو کے ہاتھوں نسل کشی کا سلسلہ طول پکڑنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے لیے طویل المدتی نتائج مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ صیہونی حکمران طبقے کے لیے کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکی۔

حماس کو نیست و نابود کرنا ایک خیالی ہدف ہے، جسے نیتن یاہو بخوبی جانتا ہے، لیکن اسے چالاکی سے اپنی حکومت بچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگرچہ حماس نے اپنے کئی رہنما کھو دیے ہیں، مگر اس جنگ نے فلسطینی نوجوانوں کو غیر معمولی حد تک ریڈیکل بنا دیا ہے جو اب اس تنظیم کی صفوں کو از سرِ نو بھرنے کے لیے تیار ہیں۔

یہی حقیقت نیتن یاہو کے اپنے مطالبات میں بھی جھلکتی ہے، جو کسی بھی ممکنہ جنگ بندی کے لیے حماس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کی شناخت ظاہر کرے۔ گویا حماس کا ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہے اور وہ کسی حد تک ایک ایسی مزاحمتی تحریک بن چکی ہے جس کی کوئی مرکزی قیادت باقی نہیں رہی اور جس پر حملہ کرنے کے لیے اب کوئی واضح ہدف موجود نہیں۔

اسرائیل اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر دن بدن زیادہ بے نقاب اور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ نسل کشی نے اسرائیل کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کر دیا ہے۔ صیہونی حکمران طبقہ ہمیشہ سے اس فریب پر اپنی سماجی حمایت تعمیر کرتا آیا ہے کہ وہ اسرائیلی عوام کو ”تحفظ“ فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن وہ تحفظ دینے کی بجائے اسرائیلی عوام کی زندگیوں کو اضطراب اور بے یقینی میں جھونک رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ایک لاکھ اسرائیلی ذہنی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

جبکہ ٹرمپ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی اور سمت میں منصوبہ بندی میں مصروف ہے، نتن یاہو بے چینی سے اس تصور کو فروغ دے رہا ہے کہ اسرائیل مسلسل جنگ میں مبتلا رہتے ہوئے بھی ایک عسکری ریاست کے طور پر زندہ رہ سکتا ہے اور ترقی کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ثابت ہو رہی ہے، تشدد اور جارحیت نے خود اسرائیل کے اندر عدم استحکام کے ایک بے قابو بحران کے دروازے کھول دیے ہیں۔

یہاں تک کہ اسرائیلی فوج کے بعض اعلیٰ افسران بھی اس بات سے خوفزدہ ہو رہے ہیں کہ یہ صورتحال اسرائیل کو کس انجام پر پہنچائے گی۔ ہارتص (Haaretz) پوڈکاسٹ میں ایک سینئر سیکیورٹی تجزیہ کار، ایموس ہارل (Amos Harel) کے مطابق، ”بہت سے اسرائیلی، خاص طور پر آئی ڈی ایف کے اعلیٰ حکام، درحقیقت امید کر رہے ہیں کہ صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ دوبارہ مداخلت کریں گے اور کسی نہ کسی طرح کا معاہدہ طے پا جائے گا۔“

افق پر موجود بحران

ٹرمپ خلیجی ممالک کا دورہ مکمل کر کے سعودی عرب، امارات اور قطر کے ساتھ سینکڑوں ارب ڈالر کے معاہدے کر کے لوٹے گا۔ لیکن سب سے بڑا معاہدہ یعنی مشرقِ وسطیٰ میں امن، اس کی پہنچ سے باہر ہی رہے گا۔

نیتن یاہو کی نظر غزہ کے مکمل قبضے پر ہے۔ ایسے وقت میں جب قحط روز بروز شدت اختیار کر رہا ہے، اس نوعیت کی کاروائی ایک بار پھر اسرائیل کی نسل کشی کو دنیا کے سامنے نمایاں کر دے گی۔ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں زبردستی کی جانے والی نسلی تطہیر کی نئی اور ہولناک تصاویر نہ صرف ٹرمپ پر دباؤ بڑھائیں گی بلکہ دنیا بھر میں فلسطین تحریک کو دوبارہ جلا بخش سکتی ہیں۔

عالمی تعلقات اور خطے کی طاقت کے توازن میں ہونے والی تبدیلیاں مشرقِ وسطیٰ میں کسی صورت بھی استحکام کاپیش خیمہ نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی سودے بازی کی سیاست، نیتن یاہو کی بے تابی سے معمور حکمت عملی اور دنیا بھر کی سرمایہ دار حکومتوں کی موجودہ نظام کو قائم رکھنے کی کوششیں سرمایہ داری کے مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتیں۔

غزہ کے متعلق، ٹرمپ کے دیے گئے امن اور ”آزادی“ کے وعدے وقت کا پہیہ واپس نہیں گھما سکتے۔ وہ چاہے تو نیتن یاہو پر دباؤ بڑھا لے، یہاں تک کہ اسرائیل کی امداد روکنے کی دھمکی بھی دے دے، مگر مشرقِ وسطیٰ کے تضادات کی اس الجھی ہوئی گتھی کو سرمایہ دارانہ نظام میں سلجھانا ممکن نہیں۔

Comments are closed.