عالمی تناظر 2025ء: نظام کا بحران اور تہہ و بالا ہوتی دنیا

|تحریر: انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل|

ہم دنیا میں تند و تیز تبدیلیوں کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور صدر انتخاب اور اس کی پالیسیوں نے عالمی سیاست، معیشت اور تعلقات میں دیوہیکل عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔

2۔ موجودہ انتشار سرمایہ داری کے بحران کا نتیجہ ہے اور اگرچہ ٹرمپ اس کا موجد نہیں ہے لیکن اس کی حرکتوں نے اس عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا ہے۔ عرصہ دراز سے سطح کے نیچے پنپتے تضادات اب یکدم پھٹ کر نمودار ہو چکے ہیں اور سارا نظام لرز اٹھا ہے۔ دہائیوں سے جاری عالمی لبرل نظام اب ہماری آنکھوں کے سامنے منہدم ہو رہا ہے۔

3۔ عالمی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں بنیادی محرکات پر توجہ دینی ہو گی۔ سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو عرصہ دراز پہلے اپنا تاریخی کردار پورا کر چکا ہے۔ اس کا انحطاطی عہد جنگوں، بحرانوں اور ماحولیاتی بربادیوں کو جنم دے رہا ہے جو طویل عرصے میں پورے سیارے کو ہی تباہ و برباد کر ڈالیں گی۔ اس دستاویز کا مقصد اس بحران کے مرکزی خد و خال کو سمجھنا اور ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی لازمیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ نسل انسانی کی بقاء کے واحد راستے، یعنی اس نظام کے خاتمے کا طریقہ کار واضح کیا جا سکے۔

4۔ حتمی تجزیے میں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے کی عدم صلاحیت تمام بحران کی جڑ ہے۔ معیشت کو قومی ریاست اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت نے جکڑ رکھا ہے۔ دہائیوں سے سرمایہ دار اس بحران کو ٹالنے کے لیے کئی طریقہ کار استعمال کر چکے ہیں؛ پیسوں کی گردش میں اضافہ، عالمی تجارت کا فروغ وغیرہ۔ لیکن اب یہ تمام اقدامات اپنی الٹ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

5۔ ٹرمپ کا انتخاب

6۔ نومبر 2024ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کا منتخب ہونا ایک اہم سیاسی تبدیلی اور بورژوا جمہوریت کے بحران کا اظہار تھا۔ یہ مظہر امریکہ کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہے۔ امریکی حکمران طبقے نے ٹرمپ کا راستہ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن اس کے باوجود ٹرمپ کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔

7۔ اس نتیجے کو روایتی میڈیا اور خاص طور پر لبرل تجزیہ نگاروں اور ”لیفٹ“ کے کچھ حصوں نے امریکہ اور عالمی سیاست میں دائیں بازو کی جانب عوامی رجحان سمجھ لیا ہے۔

8۔ ایسی ”تشریحات“ سطحی اور گمراہ کن ہیں۔ پھر ان کے تحت خطرناک نتائج اخذ ہو تے ہیں۔ مثلاً کہ جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس زیادہ ترقی پسند اور ”جمہوری“ متبادل ہیں، ایک ایسا دعویٰ جو حقائق کے سامنے مکمل طور پر جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے۔

9۔ بائیڈن حکومت مکمل طور پر رجعتی تھی جس کا سب سے واضح اظہار خارجہ پالیسی تھی۔ یاد رہے کہ ”نسل کش جو“ نے نتن یاہو کو بلینک چیک دے رکھا تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کا کھل کر قتل عام کرے۔ اس نے طلبہ اور دیگر کو شدید جبر کا نشانہ بنایا جو اس رجعتی پالیسی کی مخالفت کر رہے تھے۔

10۔ اسی طرح یوکرین میں بھی وہ دانستہ طور پر ایک جنگ چھیڑنے کا ذمہ دار تھا جس کے نتیجے میں خوفناک کشت و خون جاری ہے، کیش میں کئی ارب ڈالر کی رقم اور عسکری امداد کیف میں موجود رجعتی حکومت کو تھما دیے گئے اور روس کے خلاف ایک خطرناک اشتعال انگیز پالیسی جاری رکھی گئی جس سے امریکہ تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔

11۔ انتخابی مہم میں ٹرمپ نے اپنے آپ کو ایک ”پُر امن امیدوار“ بنا کر پیش کیا جو بائیڈن اور اس کے جنگی جنونی ٹولے کا متبادل تھا۔ اس واضح تفریق نے خاص طور پر ان حلقوں میں بہت اثر کیا جہاں قابل ذکر مسلم اور عرب آبادیاں موجود تھیں۔

12۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ رجعتی عناصر کی ایک پرت نے ٹرمپ کی حمایت کی لیکن اس کی وسیع فتح اور آبادی کے تقریباً ہر نسلی گروہ میں اس کے ووٹ بڑھنے کی وضاحت محض ان عناصر کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی ہے۔ درحقیقت کئی ریاستوں میں جن میں ٹرمپ کی اچھی کارکردگی رہی یا اس کا ووٹ بہتر ہوا، ووٹروں نے ساتھ ہی بیلٹ بکسوں پر موجود ترقی پسند اقدامات، جیسے اسقاط حمل کا حق یا کم از کم اجرت میں اضافے کی بھی حمایت کی۔

13۔ ٹرمپ کی فتح کے پیچھے سب سے اہم عنصر اس کی امریکی سماج میں موجود وسیع اور گہرے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کو سمجھنے، اس کا اظہار کرنے اور ان کو متحرک کرنے کی صلاحیت ہے۔

14۔ اس مظہر کی ایک اہم مثال یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر کے چیف ایگزیکٹیو کے لویجی مانجیونی کے ہاتھوں قتل پر عوامی رد عمل ہے۔ اگرچہ یہ عمل ایک بہت بڑا دھچکا تھا لیکن مقتول کی بجائے قاتل کے لیے وسیع پیمانے پر عوامی ہمدردی کا اظہار خود حیران کن تھا۔ مانجیونی کو کئی افراد ایک عوامی ہیرو کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ قابل ذکر طور پر یہ رد عمل محض سیاسی لیفٹ تک محدود ہونے کی بجائے قدامت پرستوں اور ریپبلیکن حامیوں کے ایک حصے میں بھی موجود تھا جس میں ٹرمپ کے حامی بھی شامل تھے۔

15۔ یہ صورتحال ایک معمہ ہے۔ ٹرمپ ارب پتی ہے اور اس کے گرد ارب پتیوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے لیکن اس نے بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ مخالف غم و غصے کا نمائندہ بنا لیا ہے۔ یہ تضاد موجودہ سیاسی موڈ میں موجود انتشار اور مسخ شدہ خیالات کا اظہار ہے۔ بہرحال یہ وسیع پیمانے پر ایک حقیقی نفرت کا اظہار ہے جس میں روایتی ادارے خاص طور پر نشانے پر ہیں؛ بڑے کاروبار، سیاسی اشرافیہ، مجموعی طور پر پوری ریاستی مشینری۔

16۔ اس اسٹیبلشمنٹ مخالف غصے کی بنیاد سرمایہ داری کا بحران ہے۔ 2008ء میں شروع ہونے والا بحران ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے اور اس کے بعد سے یہ غصہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بورژوا جمہوریت کے لیے حمایت دہائیوں میں تعمیر ہوئی تھی اور اس کی بنیاد یہ نظریہ تھا کہ سرمایہ داری محنت کش طبقے کی کچھ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی اہل ہے (صحت، تعلیم، پینشن وغیرہ) اور یہ امید موجود ہوتی تھی کہ ہر نسل کا معیار زندگی پچھلی نسل کے مقابلے میں، تھوڑا یا زیادہ، بہتر ہوتا رہے گا۔

17۔ اب یہ ممکن نہیں ہے۔ امریکہ میں 1970ء میں 30 سالہ افراد میں سے 90 فیصد سے زیادہ کی اجرتیں اسی عمر میں اپنے والدین سے زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ لیکن 2010ء تک یہ شرح 50 فیصد تک گر چکی تھی۔ 2017ء تک صرف 37 فیصد امریکیوں کو یہ امید تھی کہ ان کے بچوں کا مستقبل ان سے بہتر معیار زندگی پر مبنی ہو گا۔

18۔ ادارہ برائے لیبر شماریات کے مطابق 1980ء کی دہائی کے اوائل سے امریکی محنت کش طبقے کی حقیقی اجرتیں منجمد رہی ہیں یا کم ہوئی ہیں۔ اس دوران نوکریاں مختلف ممالک کو آؤٹ سورس ہوتی رہی ہیں۔ اسی طرح اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ دی ہے کہ کم یا درمیانی آمدن کے گھرانوں میں 1970ء کی دہائی کے اختتام سے اجرتوں میں معمولی یا کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ اخراجاتِ زندگی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

19۔ اس کے ساتھ دولت کی خوفناک پولرائزیشن کا عمل جاری ہے۔ ایک طرف مٹھی بھر ارب پتیوں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف محنت کشوں کی ایک بڑھتی تعداد کے ماہانہ اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ ان کو جبری کٹوتیوں کا سامنا ہے، اجرتوں کی قوت خرید کو افراط زر دیمک کی مانند چاٹ رہی ہے، توانائی بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، رہائش کا بحران جاری ہے وغیرہ۔

20۔ میڈیا، سیاست دان، روایتی سیاسی پارٹیاں، پارلیمان، عدلیہ وغیرہ سب کو درست طور پر ایک مٹھی بھر اشرافیہ کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے جو عوامی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بجائے اپنے تنگ نظر مفادات کا تحفظ کرتے رہتے ہیں۔

21۔ 2008ء کے بحران کے بعد تمام ممالک میں خوفناک جبری کٹوتیاں لاگو کی گئیں۔ ماضی کی تمام حاصلات پر خوفناک حملے جاری ہیں۔ عوام نے دیکھا کہ معیار زندگی برباد کیا جا رہا ہے جبکہ بینکوں کو ڈوبنے سے بچایا جا رہا ہے۔ اس سے شدید غم و غصے اور عوامی تحریکوں نے جنم لیا جبکہ سب سے بڑھ کر تمام بورژوا اداروں کی ساکھ کی تاریخی بربادی کا آغاز ہو گیا۔

22۔ پہلی لہر میں اس موڈ کا اظہار 2011ء میں کٹوتیوں کے خلاف عوامی تحریکوں کی شکل میں ہوا، جن کا اظہار لیفٹ میں ہوا۔ پورے یورپ اور امریکہ میں لیفٹ ونگ اسٹیبلشمنٹ مخالف شخصیات اور پارٹیوں کا ابھار ہوا؛ پوڈیموس، سائریزا، جان لوک میلانشوں، جیرمی کوربن، برنی سینڈرز وغیرہ۔ لیکن ان تمام تحریکوں نے اپنے آپ سے وابستہ امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اصلاح پسند سیاست اور اس کے نمائندہ سیاست دانوں کی حدود سب کے سامنے واضح ہو گئیں۔

23۔ لیفٹ کے ان کرداروں کی ناکامی کے نتیجے میں ٹرمپ جیسے رجعتی شعلہ بیانوں کا ابھار شروع ہوا۔

24۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہی عمل جاری و ساری ہے؛ سرمایہ داری کا بحران، محنت کشوں پر تابڑ توڑ حملے، لیفٹ کا دیوالیہ پن اور اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ کی موجودگی میں رائٹ ونگ شعلہ بیانوں کا ابھار۔

25۔ فاشزم یا بوناپارٹ ازم کا خطرہ؟

26۔ ٹرمپ کے انتخاب سے پہلے اس کے خلاف بورژوا میڈیا میں شدید شور شرابے سے ایک وسیع مہم جاری رہی جس میں اسے فاشسٹ قرار دے دیا گیا۔

27۔ مارکسزم ایک سائنس ہے۔ تمام سائنسوں کی طرح اس کی سائنسی اصطلاحات ہیں جن کے مخصوص معنی اور تشریحات ہیں۔ ہمارے لیے ”فاشزم“ جیسے الفاظ کے مخصوص معنی ہیں۔ یہ صرف گالم گلوچ کا ذریعہ یا لیبل نہیں ہیں جنہیں ہر اس شخص یا مظہر پر چسپاں کر دیا جائے جو ہمیں ناپسند ہو۔

28۔ ہمیں سب سے پہلے فاشزم کی درست تشریح درکار ہے۔ مارکسزم میں فاشزم ایک رد انقلابی تحریک ہے، ایک عوامی تحریک جس میں لمپن پرولتاریہ اور غم و غصے سے بپھری پیٹی بورژوازی کی اکثریت ہوتی ہے۔ اسے ایک ہتھوڑے کی طرح استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو پاش پاش کر کے اس کا شیرازہ بکھیر دیا جاتا ہے اور ایک آمرانہ ریاست قائم کر دی جاتی ہے جس میں بورژوازی ریاستی طاقت فاشسٹ افسر شاہی کو منتقل کر دیتی ہے۔

29۔ ایک فاشسٹ ریاست کا خاصہ شدید مرکزیت اور مطلق ریاستی قوت ہوتے ہیں، جس میں بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کا تحفظ کیا جاتا ہے لیکن اس پر ایک بڑی اور طاقتور فاشسٹ افسر شاہی کا مرکزی کنٹرول ہوتا ہے۔ ”قومی سوشلزم کیا ہے؟“ میں ٹراٹسکی تفصیلی بیان کرتا ہے کہ:

30۔ ”جرمن فاشزم اطالوی فاشزم کی طرح پیٹی بورژوازی کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار تک پہنچا ہے۔ اسے ایک ہتھوڑے کی طرح استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی تنظیموں اور جمہوری اداروں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ لیکن اقتدار میں فاشزم کبھی بھی پیٹی بورژوازی کی حکمرانی نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ اجارہ دار سرمائے کی سب سے خوفناک آمریت ہے۔“

31۔ عمومی الفاظ میں یہ فاشزم کے مرکزی خد و خال ہیں۔ اس کا ٹرمپ مظہر کے نظریات اور جوہر سے کیا موازنہ بنتا ہے؟ ہم پہلے ہی ایک ٹرمپ حکومت بھگت چکے ہیں جس پر ڈیموکریٹس اور تمام لبرل اسٹیبلشمنٹ نے واویلا مچا رکھا تھا کہ وہ جمہوریت کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

32۔ ہڑتال اور احتجاج کے حق کو صلب کرنے کے لیے کوئی بڑے اقدامات نہیں کیے گئے، آزاد ٹریڈ یونینز پر پابندی تو دور کی بات ہے۔ انتخابات معمول کے مطابق ہوتے رہے اور ایک عمومی شور شرابے میں منعقد ہونے والے انتخابات میں ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن برسر اقتدار آ گیا۔ پہلی ٹرمپ حکومت کے بارے میں آپ کے جو بھی جذبات ہوں لیکن اس کا کسی قسم کے فاشزم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔

33۔ پھر 1930ء کی دہائی سے سماج میں طاقتوں کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ ماضی میں جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی کسان سماج کا ایک بڑا حصہ ہوتے تھے لیکن آج ان کی تعداد انتہائی قلیل ہو چکی ہے اور جن نوکریوں کو پہلے ”متوسط طبقے“ کی نوکریاں سمجھا جاتا تھا (ریاستی اہلکار، ڈاکٹر، اساتذہ وغیرہ) وہ اب پرولتاریہ حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ اب یہ سیکٹر یونینز میں شامل ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد پیداواری قوتوں میں دیوہیکل ترقی نے محنت کش طبقے کا سماجی حجم دیوہیکل طور پر بڑھا دیا ہے۔

34۔ ٹرمپ ازم، اگر یہ کوئی نظریہ ہے، تو اس کا فاشزم سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ ایک مضبوط ریاست کی خواہش کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کا نظریہ آزاد منڈی سرمایہ داری ہے، جس میں ریاست کا قلیل یا کوئی کردار نہیں ہے (تحفظاتی محصولات کے علاوہ)۔

35۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایک بوناپارٹسٹ حکومت کا سربراہ ہے۔ یہاں پھر ایک مرتبہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ کو ایک آمر بنا کر پیش کیا جائے جو محنت کش طبقے کو کچلنے کے لیے بے چین ہے۔ لیکن اس طرح کا لیبل کچھ بھی بیان نہیں کرتا۔ درحقیقت محنت کش طبقے کو کچلنے کی بجائے ٹرمپ نے بے لگام شعلہ بیانی کے ذریعے اسے راغب اور خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بورژوا سیاست دان ہونے کے ناطے وہ ان مفادات کا امین ہے جو بنیادی طور پر محنت کشوں کے دشمن ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی آمر ہے۔

36۔ موجودہ صورتحال میں ایک یا دوسرے کسی عنصر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جسے بوناپارٹ ازم کا ایک جزو قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسے ہی تبصرے تقریباً کسی بھی حالیہ بورژوا جمہوری حکومت کے بارے میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔

37۔ کسی مظہر کے کچھ عناصر کی موجودگی اس مظہر کے وجود کا ثبوت نہیں ہوتی۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ازم میں بوناپارٹ ازم کے کچھ عناصر موجود ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ میں ایک بوناپارٹسٹ حکومت موجود ہے۔

38۔ مسئلہ یہ ہے کہ ”بوناپارٹ ازم“ ایک بڑی لچکدار اصطلاح ہے۔ یہ بہت سے عوامل کا احاطہ کرتی ہے جس میں بوناپارٹ ازم کی کلاسیکی تشریح بھی شامل ہے یعنی تلوار کے ذریعے حاکمیت۔ واشنگٹن میں موجود ٹرمپ حکومت کا اس طرح کا تجزیہ کرنا فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ یہ اپنی تمام تر مخصوص خصوصیات کے باوجود ایک بورژوا جمہوریت ہے۔ ہمارا کام چیزوں پر لیبل چسپاں کرنا نہیں بلکہ عمل کے ارتقاء کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے کے خاصوں کو سمجھنا ہے۔

39۔ عالمی تعلقات میں دیوہیکل تبدیلیاں

40۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی عالمی تعلقات میں ایک دیوہیکل تبدیلی ہے اور اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد 80 سالوں سے قائم لبرل ورلڈ آرڈر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہ عالمی سطح پر امریکہ کے نسبتی زوال اور مخالف سامراجی قوتوں روس اور خاص طور پر امریکہ کے عالمی سطح پر مرکزی حریف چین جیسی مخالف سامراجی قوتوں کی موجودگی کا اعتراف ہے۔

41۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکہ سب سے طاقتور مغربی سامراجی ملک بن کر ابھرا۔ یورپ اور جاپان کو پانچ سالہ جنگ و جدل نے تباہ و برباد کر دیا تھا اور دوسری طرف امریکی GDP پوری دنیا کا 50 فیصد جبکہ مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ عالمی پیداوار کا 60 فیصد تھا۔ عالمی سطح پر ایک ہی سنجیدہ مخالف قوت، سوویت یونین موجود تھی، جو جنگ میں نازی جرمنی کو شکست دے کر اور یورپ میں پیش قدمی کرتے ہوئے مضبوط و توانا ہو کر ابھری تھی۔

42۔ چینی انقلاب نے سٹالنسٹ بلاک کو مزید مضبوط کیا تھا۔ امریکہ نے بھرپور کوشش کرتے ہوئے یورپ اور جاپان کو از سر نو تعمیر کیا تاکہ ”کمیونزم کی پیش قدمی“ کو روکا جا سکے۔ سوویت افسر شاہی کو عالمی انقلاب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور واشنگٹن کے ساتھ ”پرامن بقائے باہمی“ کی مشترکہ مفادات کی پالیسی اپنا لی گئی۔

43۔ پس پھر امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک عمومی عالمی توازن کا دور شرو ع ہوا جسے تاریخ میں ”سرد جنگ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکی اثر و رسوخ کے تحت کچھ بین الاقوامی ادارے تخلیق کیے گئے تاکہ عالمی تعلقات (اقوام متحدہ) اور عالمی معیشت (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بریٹن ووڈز کانفرنس میں بنیاد رکھی گئی) کو منظم رکھا جائے۔ اس استحکام کو بعد از جنگ معاشی ابھار نے مزید تقویت دی، ایک ایسا تاریخی غیر معمولی دور جس میں پیداواری قوتوں اور عالمی منڈی میں دیوہیکل جدت اور وسعت پیدا ہوئی۔

44۔ یہ دور 1989-1991ء تک سٹالنزم کے انہدام اور روس اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی تک جاری رہا۔ ان تاریخی واقعات نے عالمی صورتحال میں ایک نئے معیاری مرحلے کو جنم دیا۔ امریکہ دنیا کی واحد عالمی سامراجی قوت بن گیا جس کا کوئی ثانی، کوئی حریف عالمی سطح پر موجود نہیں تھا۔

45۔ 1991ء میں عراق پر مسلط ہونے والی سامراجی جنگ کو اقوام متحدہ کی آشیر باد حاصل تھی جس کے حق میں روس نے بھی ووٹ دیا تھا اور چین نے ووٹ ڈالنے سے محض پرہیز کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا میں اب امریکی سامراج کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔ معاشی طور پر واشنگٹن نے عالمگیریت اور ”نیو لبرلزم“ کی پالیسی کو مسلسل جاری رکھا؛ امریکی اثر و رسوخ کے تحت عالمی منڈی کا مزید اور مسلسل ادغام اور سماج میں ریاست کے کردار میں مسلسل کمی۔

46۔ لیکن پچھلے 35 سالوں میں امریکی سامراج کا لاثانی تسلط سست روی سے مسلسل زوال پذیر رہا ہے اور اب ایک مرتبہ پھر عالمی تاریخ میں ایک نیا معیاری مرحلہ آ چکا ہے۔

47۔ غرور اور تکبر کے نشے میں چور امریکی سامراج نے عراق اور افغانستان پر فوج کشی کر دی۔ لیکن یہی وہ لمحہ ثابت ہوا جب تاریخ تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ امریکی ناقابل فتح جنگوں میں 15 سال پھنسے رہے جس کی زر اور انسان دونوں شکلوں میں دیوہیکل قیمت ادا کرنی پڑی۔ اگست 2021ء میں اسے افغانستان سے شرمناک پسپائی اختیار کرتے ہوئے انخلاء کرنا پڑا۔

48۔ ان تجربات نے امریکی عوام میں مزید خارجہ عسکری مہم جوئیوں کے لیے ہمت ختم کر دی اور اب امریکی حکمران طبقہ کسی بھی براہ راست بیرونی عسکری مہم جوئی سے گھبراتا ہے۔ نئی علاقائی اور عالمی قوتوں کے ابھار کے ساتھ عالمی طاقتوں کا توازن بھی تبدیل ہو رہا تھا۔ امریکی سامراج نے ان تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس نے طاقتوں کے نئے توازن کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مسلسل نئی جھڑپوں اور جنگوں میں دھنستا چلا گیا جن کو جیتنا اب اس کے بس میں نہیں تھا۔

49۔ ایک کثیر قطبی دنیا؟

50۔ اس وقت پوری دنیا میں عالمی تعلقات شدید عدم استحکام کا شکار ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے طاقتور لیکن نسبتی طور پر زوال پذیر سامراجی قوت امریکہ اور جوان و توانا ابھرتی سامراجی قوت چین کے درمیان عالمی تسلط اور ثر و رسوخ کی لڑائی کا نتیجہ ہے۔ ہم ایک دیوہیکل تبدیلی سے گزر رہے ہیں جس کا موازنہ براعظموں کی ٹیکٹانک پلیٹوں کی نقل و حرکت سے کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں ہر قسم کے دھماکوں کو جنم دیتی ہیں۔ یوکرین جنگ، جہاں امریکہ اور NATO کے لیے ایک شرمناک شکست تیار ہو رہی ہے، اور مشرق وسطیٰ میں جنگ اسی حقیقت کا شاخسانہ ہیں۔

51۔ عالمی تعلقات کے حوالے سے ٹرمپ کا طریقہ کار ایک طرح کا اعتراف ہے کہ اب امریکہ پوری دنیا کا واحد تھانیدار نہیں ہے۔ ٹرمپ اور اس کے قریبی ساتھیوں کا نکتہ نظر یہ ہے کہ امریکی اثر و رسوخ اور مکمل تسلط قائم رکھنے کی قیمت ناقابل برداشت، ناقابل عمل اور کلیدی قومی سیکیورٹی مفادات کے لیے تباہ کن ہو چکی ہے۔

52۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ ایک سامراجی قوت نہیں رہا یا ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کی کچلی عوام کے لیے خوشی کا پروانہ ہیں۔ حقیقت بہت تلخ ہے۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ایک واضح لکیر ہے کہ شمالی امریکہ سے لے کر دیگر دنیا میں کلیدی امریکی قومی سیکیورٹی مفادات کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔

53۔ جب ٹرمپ کہتا ہے کہ امریکہ کو پانامہ کنال اور گرین لینڈ پر ہر صورت کنٹرول چاہیے، تو وہ امریکی سامراجی ضروریات کے بارے میں بتا رہا ہے۔ پانامہ کنال ایک کلیدی تجارتی گزرگاہ ہے جو بحر الکاہل کو خلیج میکسیکو سے جوڑتی ہے اور 40 فیصد امریکی تجارتی کنٹینروں کا یہاں سے گزر ہوتا ہے۔

54۔ جہاں تک گرین لینڈ کا سوال ہے تو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں نے بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کے درمیان آرکٹک کے راستے بحری جہازوں کی آمد و رفت میں قابل ذکر اضافہ کر دیا ہے۔ قطبی برف کے حجم میں کمی کا مطلب سمندر کے نیچے زمین تک آسان رسائی ہے جہاں نایاب زیر زمین دھاتوں کا دیوہیکل ذخیرہ موجود ہے۔ یہ جزیرہ خود بھی انتہائی اہم دھاتوں (نایاب دھاتیں، یورینیم وغیرہ) اور گیس اور تیل کا ذخیرہ رکھتا ہے جن تک رسائی آسان بنتی جا رہی ہے۔ ان تجارتی راستوں اور ذخائر کے لیے امریکہ، روس اور چین کے درمیان مسابقت جاری ہے۔

55۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی امریکی طاقت کی حدود سے آشنائی کی بنیاد پر ہے۔ اس وجہ سے امریکہ کو مہنگی جنگوں (یوکرین، مشرق وسطیٰ) سے معاہدوں کے ذریعے علیحدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اپنی طاقت کو از سر نو تعمیر کیا جائے اور عالمی سطح پر اپنے مرکزی حریف چین پر توجہ مرکوز کی جائے۔

56۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا پورا عہد یا شاید اس سے بھی پہلے سے امریکی سامراج انسانی حقوق، جمہوریت اور ”قوانین کی بنیاد پر نظام“ کے پھیلاؤ، ”قومی سرحدوں کے تحفظ کا مقدس اصول“ وغیرہ کی بنیاد پر اپنی سرگرمیاں کرتا رہا ہے۔

57۔ وہ ”بین الاقوامی عالمی اداروں“ کے ذریعے سرگرمیاں کرتا رہا جو بظاہر غیر جانب دار تھے اور ان میں ہر ملک کی آواز موجود تھی؛ اقوام متحدہ، WTO، IMF وغیرہ۔ لیکن درحقیقت یہ سامراجی مفادات کی ستر پوشی تھی۔ یہ ہمیشہ سے ایک جھوٹ اور فریب تھا۔ امریکہ سامراج کے مفادات کا ان اداروں کے ذریعے اظہار ہوتا تھا۔ اب فرق یہ ہے کہ ٹرمپ اس قسم کا کوئی ڈرامہ رچانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قواعد کا پورا قاعدہ ہی پھاڑنے کے درپے ہے اور حقیقت کو کھلم کھلا اور اعلانیہ بیان کر رہا ہے۔

58۔ کچھ کا استدلال ہے کہ ننگی امریکی جارحیت کے مقابلے میں ایک کثیر قطبی دنیا کا خیال ترقی پسند ہے جس کے ذریعے ممالک زیادہ آزادانہ کردار ادا کر سکیں گے، لہٰذا ہم سب کو اس کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہمیں اس وقت ایک ”کثیر قطبی“ دنیا کے ابتدائی خد و خال نظر آ رہے ہیں؛ سامراجی قوتیں اپنا تسلط اور حلقہ اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے دنیا کی بندر بانٹ کر رہی ہیں اور کمزور ممالک کو ایک یا دوسری قوت کا غلام بننے پر مجبور کر رہی ہیں۔

59۔ امریکی سامراج کا نسبتی زوال

60۔ ہم یہاں واضح کر رہے ہیں کہ جب ہم امریکی سامراج کے زوال کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد نسبتی زوال ہے۔ یعنی ماضی میں دیگر حریف ممالک کے مقابلے میں پوزیشن کا موجودہ زوال۔ تمام زاویوں اور موازنے کے حوالے سے امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے طاقتور اور رجعتی قوت ہے۔

61۔ 1985ء میں امریکہ عالمی GDP کا 36 فیصد حصہ دار تھا۔ اب اس کا حصہ 26 فیصد رہ گیا ہے (2024ء)۔ اسی دوران چین کا عالمی GDP میں حصہ 2.5 فیصد سے بڑھ کر 18.5 فیصد ہو چکا ہے۔ جاپان 1995ء میں اپنی بلند ترین سطح 18 فیصد تک پہنچ گیا تھا لیکن اب منہدم ہو کر محض 5.2 فیصد رہ گیا ہے۔

62۔ امریکہ آج بھی مالیاتی منڈیوں کے ذریعے عالمی معیشت پر تسلط جمائے بیٹھا ہے۔ پوری دنیا میں غیر ملکی کرنسی ذخائر میں آج بھی امریکی ڈالر کا 58 فیصد حصہ موجود ہے (چینی رین میبی صرف 2 فیصد ہے) اگرچہ 2001ء میں یہ 73 فیصد تھا۔ تمام عالمی برآمدی کھاتوں کا 58 فیصد امریکی ڈالر میں ہے۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (سرمائے کی برآمد کی پراکسی) میں مجموعی طور پر امریکہ 454 ٹریلین ڈالر کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ چین (ہانگ کانگ سمیت) 287 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

63۔ ایک ملک کی معاشی قوت ہی اس کو عالمی طاقت بناتی ہے لیکن اس کے ساتھ عسکری قوت بھی لازم ہے۔ امریکہ آج بھی پوری دنیا کے عسکری اخراجات میں سے 40 فیصد اخراجات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ چین 12 فیصد کے ساتھ دوسرے اور روس 4.5 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ عسکری اخراجات کی فہرست میں اگلے دس ممالک کے مجموعی اخراجات کے مقابلے میں اکیلا اخراجات کر رہا ہے!

64۔ بہرحال امریکہ اب دنیا کا واحد طاقتور ترین تھانیدار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ چین کی دیوہیکل معاشی قوت اور اس کی عسکری قوت میں متوازی بڑھوتری پھر روس کی یوکرین جنگ میں عسکری برتری، دونوں نے مل کر ایک قابل ذکر چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ اس لیے تمام اطراف میں امریکی عالمی قوت کی کمزوریاں سفاکی سے ننگی ہو رہی ہیں۔

65۔ روس کا عسکری اثر و رسوخ

66۔ اگرچہ روس چین کی طرح ایک معاشی دیو نہیں ہے لیکن وہ مضبوط معاشی اور تکنیکی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اس بنیاد پر کامیابی سے مغرب کی خوفناک معاشی جارحیت کا مقابلہ کیا جا رہا ہے جو ”پابندیوں“ کی چھتری تلے جاری ہیں۔ پھر یہ سب ایک جنگ کے دوران ہو رہا ہے جس میں مغربی سامراج کے تمام ہتھیاروں کو شکست فاش ہو چکی ہے۔ روس نے ایک طاقتور فوج بنا لی ہے جو تمام یورپی ممالک کی مشترکہ قوتوں کا آسانی سے مقابلہ کر سکتی ہے، ایک طاقتور دفاعی صنعت موجود ہے جو امریکہ اور یورپ دونوں سے زیادہ ٹینک، گولہ بارود، گولیاں، میزائل اور ڈرونز بنا رہی ہے اور سوویت یونین کی میراث دنیا کا سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ اس کے پاس موجود ہے۔

67۔ سوویت یونین کے انہدام اور سابقہ منصوبہ بند معیشت کے اثاثہ جات کی ننگی لوٹ سیل کے بعد روسی حکمران طبقے کو کچھ عرصہ خوش فہمی رہی کہ وہ عالمی اسٹیج پر برابری کی سطح پر اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ انہوں نے NATO میں شمولیت کا خیال بھی پیش کر دیا۔ اس کو فوری طور پر رد کر دیا گیا۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ پوری دنیا پر اس کا مکمل تسلط اور بلا شراکت اثر و رسوخ قائم ہو اور انہیں ایک کمزور اور بحران زدہ روس کو ساتھ بٹھانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

68۔ روس کی رسوائی اس وقت واضح ہو گئی جب پہلے جرمنی اور امریکہ نے روایتی روسی حلقہ اثر میں موجود یوگوسلاویہ کے ٹکڑے کر دیے اور پھر 1999ء میں سربیا پر بے تحاشہ بمباری کی۔ شراب میں ہر وقت دھت اور امریکی سامراج کا کٹھ پتلی یلسن اس غلامانہ تعلق کا علمبردار تھا۔

69۔ لیکن آہستہ آہستہ روس معاشی بحران سے باہر آنا شروع ہوا اور اس کا حکمران طبقہ عالمی سطح پر مزید بے عزتی کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ اس بنیاد پر ایک شاطر بوناپارٹسٹ پیوٹن کا ابھار ہوا جس نے ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔

70۔ انہوں نے NATO کی مشرق کی جانب پیش قدمی کے خلاف مزاحمت کرنی شروع کر دی۔ 1990ء میں روسیوں سے اس اتحاد میں متحد جرمنی کی شمولیت کے بدلے میں وعدہ کیا گیا تھا کہ NATO مشرق کی جانب ایک انچ آگے نہیں بڑھے گا۔

71۔ 2008ء میں روس نے جارجیا میں ایک چھوٹی اور مؤثر لڑائی لڑ کر اس ملک کی فوج برباد کر دی جسے NATO نے تربیت اور اسلحہ دونوں سے مسلح کیا تھا۔ یہ روس کی پہلی وارننگ تھی کہ اب وہ مغرب کی کسی قسم کی پیش قدمی برداشت نہیں کرے گا۔ شام اور یوکرین کا بھی یہی قضیہ ہے۔ ان ممالک میں امریکی سامراج کے مقابلے میں روسی قوت کا امتحان لیا گیا۔ لیکن اس دوران امریکی نسبتی زوال اگست 2021ء میں افغانستان سے انخلاء میں اور بھی زیادہ واضح ہو چکا تھا۔

72۔ یوکرین پر روسی فوج کشی اس بات کا منطقی انجام تھا کہ مغرب روس کے قومی سکیورٹی خدشات کے حوالے سے بے نیاز تھا جن کے ازالے کے لیے مطالبہ کیا گیا تھا کہ یوکرین غیر جانبدار رہے گا اور NATO مشرق کی جانب مزید پیش قدمی نہیں کرے گا۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اصرار کیا کہ یہ جنگ غیر ضروری تھی اور اگر وہ صدر ہوتا تو ایسا کبھی نہیں ہوتا، تو شاید یہ بات درست تھی۔ امریکی سامراج اور اس کے یورپی اتحادی جانتے تھے کہ یوکرین کی NATO میں شمولیت روسی قومی سیکورٹی مفادات کے لیے ایک سرخ لکیر ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے 2008ء میں یوکرین کو NATO میں شمولیت کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک ننگی جارحیت تھی جس کا منطقی انجام انتہائی تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ یہ وہ آخری قدم تھا جس نے جنگ چھیڑ دی۔

73۔ مغرب اصرار کرتا رہا کہ یوکرین کو ”NATO میں شمولیت کا مکمل اختیار ہے“ جبکہ اس کی غیر جانبدار حیثیت، ملک میں بیرونی عسکری اڈوں پر پابندی اور عسکری اتحادوں میں عدم شمولیت پر نہ صرف اتفاق ہوا تھا بلکہ یوکرینی قرار داد آزادی میں بھی انہیں شامل کیا گیا تھا۔ CIA کا سربراہ ویلیم جے برنز مسلسل خبردار کرتا رہا۔ لیکن بائیڈن حکومت میں جنگی جنونیوں کا ٹولہ خارجہ پالیسی پر قابض تھا اور خود جو بائیڈن تاریخی عظمت کے بخار میں مبتلا تھا۔

74۔ بائیڈن کا خیال تھا کہ یوکرین کو روس کے خلاف چارے کے طور پر استعمال کر کے اسے کمزور اور عالمی سطح پر مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ روس جیسا ملک امریکی سامراج کا ایک حریف ہے اور اسے کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی کہ عالمی سطح پر یہ کہیں بھی امریکی سامراج کو چیلنج کر سکے۔ مارچ 2022ء میں بائیڈن غرور اور تکبر میں پھولا ماسکو میں حکومت کی تبدیلی کی باتیں کر رہا تھا! یورپیوں سمیت وہ مکمل طور پر قائل تھا کہ معاشی پابندیاں اور عسکری تھکاوٹ روس کو انہدام کے دہانے پر پہنچا دے گی۔ انہوں نے روسی معاشی اور عسکری قوتوں کا احاطہ کرنے میں شدید غلطی کی۔ اب امریکی سامراج ایک ناقابل فتح جنگ میں پھنس چکا ہے جو مسلسل اس کا پیسہ اور عسکری وسائل برباد کر رہی ہے۔

75۔ ٹرمپ اب اصرار کر رہا ہے کہ یہ اس کا قصور نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”یہ میری جنگ نہیں ہے۔ یہ جو بائیڈن کی جنگ ہے“۔ اور یہ درست ہے۔ سرمائے کے حکمت کار غلط حساب کتاب کی بنیاد پر غلطیاں کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ جب ٹرمپ کہتا ہے کہ یوکرین کا امریکی ”مرکزی مفادات“ سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ بالکل درست ہے۔ امریکہ کو اس وقت زیادہ بڑا خطرہ ایشیاء اور بحر الکاہل میں ابھرتے چین سے ہے، جس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے مسائل اور بڑھتی معاشی ابتری بھی موجود ہے۔ اس لیے اس کو جلدی پڑی ہوئی ہے کہ کسی طرح امریکہ کو فوراً یوکرین سے باہر نکالے۔ لیکن بائیڈن اور اس کی یورپی کٹھ پتلیوں کے پیدا کردہ مسائل پیروں کی بیڑیاں ثابت ہو رہے ہیں۔

76۔ واشنگٹن، لندن، پیرس اور برلن میں برسر اقتدار خواتین و حضرات نے امن کی جانب ہر قدم کو سبوتاژ کیا ہے۔ اپریل 2022ء میں ترکی میں یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات حتمی مراحل کے قریب تھے اور روسی مطالبات پر عمل درآمد کے نتیجے میں جنگ بندی ہو سکتی تھی۔ بورس جانسن کی شکل میں مغربی سامراج نے مذاکرات کو نظر آتش کر دیا اور زیلنسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ دستخط نہ کرے کیونکہ اسے فتح تک لامتناہی مدد ملتی رہے گی۔

77۔ آج امریکہ کو یوکرین میں شرمناک شکست کا سامنا ہے۔ پابندیوں کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ معاشی انہدام کے برعکس روس کی معاشی شرح نمو اس وقت مغرب سے زیادہ بہتر ہے۔ عالمی تنہائی کا شکار ہونے کے برعکس اس کے چین اور کئی کلیدی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار ہو چکے ہیں جنہیں امریکی حلقہ اثر میں سمجھا جاتا تھا۔ انڈیا، سعودی عرب، ترکی اور دیگر ممالک نے پابندیوں سے بچت میں مدد کی ہے۔

78۔ اس وقت دنیا پر امریکی تسلط کی مخالفت میں چین اور روس دونوں ایک دوسرے کے کافی قریب آ چکے ہیں اور ان کے گرد کئی ممالک کا جمگھٹا لگ گیا ہے۔ جب یوکرین میں امریکہ کو حتمی شکست ہو گی تو پھر اس کو سمجھ آئے گی کہ عالمی تعلقات میں دیوہیکل اور دور رس تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جو ہر جگہ امریکی سامراج کی طاقت کو مزید کمزور کریں گی۔

79۔ یوکرین میں امریکہ اور NATO کی شکست سے پوری دنیا میں ایک طاقتور پیغام جائے گا۔ دنیا کی طاقتور ترین سامراجی قوت ہمیشہ اپنی مرضی نہیں منوا سکتی۔ پھر روس ایک بڑی فوج کے ساتھ جنگ سے فاتح ہو کر نکلے گا جو جدید جنگ کے جدید ترین طریقہ کار کے تجربات اور ایک طاقتور عسکری صنعتی کمپلیکس سے لیس ہو گا۔

80۔ ٹرمپ کی پالیسی سابق امریکی سامراجی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ روس کے خلاف جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور اس لیے امریکہ کو اس دلدل میں سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے ایک اور حساب بھی لگا رکھا ہے کہ اگر روس کے ساتھ ایک معاہدہ ہو جاتا ہے جس میں اس کے قومی سیکیورٹی مفادات (یعنی روسی سامراج کے مفادات) کو تحفظ دیا جائے تو اس کا چین کے ساتھ اتحاد توڑا جا سکتا ہے جو اس وقت عالمی سطح پر امریکی سامراج کا مرکزی حریف ہے۔

81۔ ابھرتی سامراجی قوت چین

82۔ چین تیزی کے ساتھ معاشی طور پر ایک پسماندہ ملک سے ایک طاقتور سرمایہ دار ملک بن چکا ہے۔ جدید تاریخ میں شاید ہی اس تیز تر تبدیلی کی مثال ملتی ہے۔ انتہائی قلیل عرصے میں حیران کن طور پر وہ ایک ایسی پوزیشن پر پہنچ چکا ہے جہاں وہ دیوہیکل امریکی سامراج کو چیلنج کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔

83۔ آج کا چین 1938ء کے کمزور، نیم جاگیردارانہ اور نیم نو آبادیاتی چین سے بہت مختلف ہے۔ درحقیقت آج چین ایک سرمایہ دارانہ ملک ہونے کے ساتھ اب ایک طاقتور سامراجی قوت کے تمام اوصاف سے مزین ہے۔

84۔ اس تبدیلی کو 1949ء میں برپاء ہونے والے چینی انقلاب کے کلیدی کردار کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا جس نے سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا اور ایک قومی منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جو چین کی ایک پسماندہ، نیم نو آبادیاتی قوم سے آج ایک معاشی دیو میں تبدیلی کی بنیادی شرط تھی۔

85۔ عالمی سطح پر دیر سے نمودار ہونے کی وجہ سے اسے اپنی صنعتوں کے لیے خام مال اور توانائی؛ اپنے سرمائے کی سرمایہ کاری؛ اپنی برآمدات اور درآمدات کے لیے تجارتی راستوں اور مصنوعات کے لیے منڈیاں جیتنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ ان تمام شعبوں میں اس نے قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے۔

86۔ چین کے تیس سالہ ابھار کی بنیاد ذرائع پیداوار میں دیوہیکل سرمایہ کاری اور عالمی منڈیوں پر انحصار ہے۔ ابتداء میں اس نے اندرون ملک دیوہیکل سستی محنت کو استعمال کرتے ہوئے عالمی منڈی میں ٹیکسٹائیل اور کھلونوں کی برآمدات شروع کیں۔

87۔ اب چینی معیشت جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک جدید سرمایہ دارانہ معیشت بن چکی ہے جو پوری دنیا میں اس وقت کئی سینکڑوں میں لاثانی ہو چکی ہے (الیکٹرک گاڑیاں اور الیکٹرک بیٹریاں، فوٹو ولٹیک سیل، دوائیوں کا خام مال، کمرشل ڈرونز، 5G سیلولر کمیونیکیشن انفرسٹرکچر، جوہری پاور پلانٹس وغیرہ)۔ یہاں جدت اور سیل دونوں کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔

88۔ چین روبوٹکس میں بھی ایک عالمی لیڈر بن چکا ہے۔ صنعتوں میں روبوٹس کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں چین کا تیسرا نمبر ہے یعنی ہر 10 ہزار مینوفیکچرنگ ملازمین کے ساتھ 470 روبوٹس موجود ہیں حالانکہ مینوفیکچرنگ افرادی قوت کی تعداد 3 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے۔ چین سے آگے جنوبی کوریا (1012) اور سنگاپور (770) ہیں جبکہ جرمنی (429)، جاپان (419) پیچھے اور امریکہ (295) تو بہت ہی پیچھے ہیں۔ یہ اعداد و شمار 2023ء کے ہیں اور چین کا نمبر اس فہرست میں شاید بہتر ہی ہوا ہے کیونکہ 2023ء میں وہ پوری دنیا میں نئے روبوٹس کے استعمال میں 51 فیصد حصہ دار تھا۔

89۔ اگر سرمائے کی برآمدات کا تخمینہ لگایا جائے تو اس وقت امریکہ کے بعد چین کا دوسرا نمبر ہے۔ 2023ء میں امریکہ کل FDI (براہ راست بیرونی سرمایہ کاری) کا 32.8 فیصد بناتا تھا جبکہ چین اور ہانگ کانگ مجموعی طور پر 20.1 فیصد سرمایہ کاری کر رہے تھے۔ اگر کل مجموعی FDI سرمائے کا تخمینہ لگایا جائے تو پوری دنیا میں امریکہ کا اس میں 15.1 فیصد حصہ ہے جبکہ چین اور ہانگ کانگ کا مجموعی 11.3 فیصد حصہ ہے۔

90۔ جس طرح سے سرمایہ داری چین میں بحال ہوئی ہے اس نے ریاست کا معیشت میں کلیدی کردار برقرار رکھا ہے۔ اس نے دانستہ طور پر ٹیکنالوجی کی نگہداشت، فنڈنگ اور ترویج کی پالیسی اپنائے رکھی ہے۔ ”میڈ اِن چائینہ 2025ء“ کا مقصد تھا کہ کلیدی صنعتوں میں ایک دیوہیکل چھلانگ لگائی جائے اور ملک کو مغرب پر منحصر کرنے کی بجائے خود کفیل بنایا جائے۔ چین کا سائنسی و فنی تحقیق کا خرچہ بے تحاشہ بڑھ چکا ہے اور اس وقت تقریباً امریکہ کے برابر پہنچ چکا ہے۔

91۔ اس کامیابی نے دیگر سرمایہ دار ممالک کے ساتھ بڑھتے تضادات اور چپقلش کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں آج امریکہ کے ساتھ ننگی تجارتی جنگ پھٹ پڑی ہے۔

92۔ سوویت یونین کے انہدام اور عالمگیریت کی نئی پالیسی کے تحت نئی منڈیوں تک رسائی کے نتیجے میں مغربی معیشت دان اور سرمایہ کار چین میں سرمایہ دارانہ معیشت کی بڑھوتری کو ایک سنہرا موقع سمجھتے تھے۔

93۔ مغربی سرمایہ کاروں کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ چین میں جلد از جلد فیکٹریاں لگائیں جہاں بظاہر ایک لامتناہی سستی محنت دستیاب تھی۔ 1997-2019ء کے دوران پوری دنیا کا 36 فیصد سرمایہ چین پہنچا۔ یعنی چین میں امریکی سرمائے کا اتنا ادغام تھا کہ ایسا لگتا تھا دونوں جڑواں معیشتیں ہیں۔

94۔ درحقیقت کئی دہائیوں سے چینی معاشی بڑھوتری عالمی معیشت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ 2008ء میں مغربی بورژوازی کو امید تھی کی چین عالمی معیشت کو کساد بازاری سے باہر نکال لے گا۔ لیکن ہم نے اس وقت بھی نشاندہی کی تھی کہ اس صورتحال میں ان کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ خطرہ پنہاں تھا۔

95۔ ناگزیر طور پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس فیکٹریاں سستی اشیاء کے انبار لگا دیں گی جنہیں پھر برآمد کرنا ہو گا کیونکہ چین میں اندرونی مانگ محدود ہے۔ حتمی طور پر اس صورتحال نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیے سنجیدہ مسائل بنا دیے ہیں۔

96۔ ہر چیز اپنے الٹ میں تبدیل ہو گئی۔ ایک سوال مسلسل گھمبیر شکل اختیار کر رہا تھا کہ کون کس کی مدد کرر ہا ہے؟ یہ درست ہے کہ مغربی سرمایہ کار دیوہیکل منافعے لوٹ رہے تھے لیکن چین تیزی سے جدید پیداواری صلاحیت، تکنیکی مہارت، انفراسٹرکچر اور ایک ہنرمند محنت کش طبقہ تعمیر کر رہا تھا۔ خطرے کی یہ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی اور خاص طور پر امریکہ نے اسے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔

97۔ آج چین عالمی پیداکاروں کے لیے ناقابل تلافی سپلائر بن چکا ہے، چاہے وہ آئی فونز کی طرح حتمی صارف اشیاء ہوں یا کلیدی کیپیٹل گڈز اور اجزاء ہوں۔ چین امریکہ کی 36 فیصد درآمدات کا مرکزی سپلائر ہے اور ان اشیاء کی 70 فیصد سے زیادہ مانگ کو پورا کرتا ہے۔

98۔ چین عالمی سطح پر امریکہ کا نظام کے اندر مرکزی حریف بن چکا ہے۔ یہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کی اصل بنیاد ہے۔ یہ عالمی منڈی میں دو سامراجی قوتوں کے درمیان اپنی نسبتی طاقت کو مستحکم کرنے کی جنگ ہے۔

99۔ واشنگٹن نے اس کام کے لیے سخت ترین اقدامات اٹھائے ہیں جن میں جدید ترین مائیکروچپس کی چین کو فروخت پر پابندی اور جدید ترین لتھوگرافی مشینوں کے فروخت پر پابندی سے لے کر ہواوے جیسی کمپنیوں کو کئی ممالک میں 5G انفراسٹرکچر کی بولی لگانے سے روکنا، تک شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دیگر اقدامات مسلسل کیے جا رہے ہیں۔

100۔ لیکن چین کی جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی کو روکنے کی کوشش کا بالکل الٹ نتیجہ نکلا ہے۔ جواب میں چین نے خودکفالت کی دوڑ تیز تر کر دی ہے۔ اگرچہ اسے ابھی بھی کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے جیسے جدید ترین EUV لتھوگرافی مشینوں تک عدم رسائی جن کے ذریعے جدید ترین مائیکرو چپس بنائی جاتی ہیں۔ لیکن چین نے ہنرمندی سے کئی نئے راستے کھولے ہیں۔

101۔ یہ درست ہے کہ جدت کے باوجود چینی معیشت میں کئی تضادات موجود ہیں۔ چین میں محنت کی پیداواریت سائنس، صنعت اور ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ یورپ میں ایک طویل عرصے سے یہ منجمد ہے اور امریکہ میں ابھی پچھلے چند سالوں میں ہی اس حوالے سے شرح نمو کچھ بہتر ہوئی ہے۔ لیکن عمومی طور پر چینی محنت کی پیداواریت آج بھی امریکہ سے قابل ذکر طور پر پیچھے ہے۔ اس خلیج کو ختم کرنے میں وقت لگے گا۔

102۔ یہ سمجھنا بھی درست ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں چین کی حیران کن معاشی شرح نمو مسلسل اسی رفتار سے جاری نہیں رہ سکتی۔ یقینا یہ سست روی کا شکار ہو رہی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں چین کی معاشی نمو غیر معمولی 9 فیصد سالانہ تھی جبکہ سب سے زیادہ شرح نمو 14 فیصد تک حاصل کی گئی! 2012-19ء کے دوران یہ شرح نمو 6-7 فیصد رہی۔ اب یہ 5 فیصد ہے۔ لیکن ابھی بھی مجموعی طور پر چینی معیشت مغربی ممالک کی معیشتوں سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

103۔ ظاہر ہے کہ ایک سرمایہ دارانہ معیشت میں بدلنے اور عالمی منڈی میں شدید ادغام کے بعد چین کو بھی ان تمام حوالوں سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی سے ملک کے مختلف علاقوں میں معاشی تعمیر و ترقی کے حوالے سے تضادات موجود ہیں اور عدم مساوات کی خلیج دیوہیکل ہوتی جا رہی ہے۔ مہاجر مزدوروں اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔

104۔ دیوہیکل معاشی بحالی پیکجز اور کینیشئن اقدامات کی وجہ سے قومی قرضہ بے تحاشہ بڑھ چکا ہے۔ 2000ء میں ریاستی قرضہ بمقابلہ GDP کا تناسب 23 فیصد تھا جو 2024ء میں 60.5 فیصد ہو چکا ہے۔ یہ قابل ذکر اضافہ ہے لیکن پھر بھی کئی جدید سرمایہ دار ممالک سے کم ہے۔ لیکن کل قرضہ (ریاستی، کارپوریٹ اور گھریلو) GDP کا 300 فیصد ہو چکا ہے۔

105۔ تحفظاتی پالیسیوں کا اجراء اور عالمی تجارت میں سست روی یقینا چین پر اثر انداز ہوں گے۔ اس بحران سے چھٹکارے کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ اپنی زائد پیداوار کو مزید عالمی منڈی میں انڈیلا جائے جو عالمی سطح پر تناؤ کو مزید بڑھاتے ہوئے پورے نظام کے بحران کو مجموعی طور پر مزید گھمبیر کرتا چلا جائے گا۔

106۔ دو معاشی دیو ایک دیوہیکل لڑائی میں گتھم گتھا ہیں اور واضح سوال یہ ابھرتا ہے کہ کون جیتے گا؟ مغربی پریس میں اخباروں کے کالم چینی معیشت کے منفی تجزیوں اور مستقبل کے حوالے سے سخت وارننگ سے بھرے پڑے ہیں۔

107۔ مغربی پریس مسلسل کوشش کرتا ہے کہ چینی معیشت کی حالت پریشان کن بنا کر دکھائی جائے، یہی کام وہ روسی معیشت کے حوالے سے بھی کرتے ہیں جو بہرحال ابھی بھی سالانہ 4-5 فیصد شرح نمو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ معیشت رات تک منہدم ہو جائے گی۔

108۔ یقینا چین بحران سے بچا ہوا نہیں ہے لیکن اس کے پاس اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ذخائر موجود ہیں اور مغربی پریس کی تمام تر خواہشات اور ہرزہ سرائی کے باوجود اس میں سے کم نقصان کے ساتھ برآمد ہونے کا اچھا امکان موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اگرچہ چین ایک سرمایہ دارانہ ملک ہے لیکن اس میں کچھ مخصوص خصوصیات بھی موجود ہیں۔

109۔ درحقیقت یہ ایسی معیشت ہے جس میں ابھی بھی ریاستی کنٹرول، مداخلت اور منصوبہ بندی کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ اگر امریکہ جیسے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت زیادہ فائدے مند ہے۔

110۔ پھر کئی اہم سیاسی، ثقافتی اور نفسیاتی عناصر موجود ہیں جو عالمی سامراجی قوتوں کے مابین لڑائیوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چینی عوام ماضی میں سامراج کے ہاتھوں غلامی، استحصال اور بے عزتی کی گہری اور تلخ یادیں ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔

111۔ وہ اپنے حکمران طبقے سے جتنی مرضی نفرت کریں لیکن بیرونی سامراجیوں سے ان کی یہ نفرت بہت گہری ہے اور امریکہ کے خلاف لڑائی میں ریاست کے لیے طاقتور حمایت فراہم کر سکتی ہے۔

112۔ امریکہ میں حکمران طبقہ چین کی مسلسل اٹھان کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہے۔ انہوں نے ایک جارحانہ رویہ اپنا رکھا ہے جس کا اظہار ایک طرف ٹرمپ کے اشتعال انگیز محصولات ہیں تو دوسری طرف تائیوان پر مسلسل ہیجان انگیزی ہے۔

113۔ واشنگٹن میں جنگی جنونی مسلسل چین پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ایک باغی جزیرے پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اگرچہ وہ جزیرہ تاریخی طور پر چین کا حصہ ہے۔

114۔ لیکن چینی حکمران طبقہ عرصہ دراز سے سفارت کاری کے صبر آزماء ہنر سے لبریز ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ تائیوان پر فوج کشی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں پتا ہے کہ جلد یا بدیر جزیرہ ان کا حصہ بن جائے گا۔ انہوں نے دہائیوں انتظار کر کے برطانیہ سے ہانگ کانگ کا کنٹرول حاصل کیا۔ اس لیے انہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عسکری آپشن استعمال کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

115۔ صرف واشنگٹن میں موجود جنگی جنونیوں کی کوئی غلطی یا تائیوانی قوم پرستوں کی آزادی کے اعلان کی بیوقوفی انہیں کسی عسکری قدم پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس طرح کے حالات میں بیجنگ میں موجود حضرات کے پاس تمام پتے (Cards) موجود ہوں گے۔

116۔ تائیوان کسی صورت چند میل دور موجود چینی فوج اور بحریہ کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا جبکہ امریکہ کو ایک بہت بڑا سمندر پار کر کے انتہائی خطرناک اور مشکل حالات میں لڑائی لڑنی پڑے گی۔

117۔ بہرحال، ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ خود چین کے ساتھ کوئی عسکری ٹاکرا چاہتا ہے۔ اس کے محبوب ہتھیار اور ہیں؛ کمر توڑ پابندیاں اور بھاری محصولات، تاکہ چین گھٹنے ٹیک دے۔ لیکن چین کا جھکنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، چاہے مقابلہ معاشی ہو یا عسکری۔

118۔ کچھ عرصہ پہلے تک چین اپنی قوت کا اظہار زیادہ تر معاشی طور پر کر رہا تھا لیکن اب وہ اپنی عسکری قوت کو بھی تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ چین نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ عسکری اخراجات میں 7.2 فیصد اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے پاس پہلے ہی دیوہیکل بری فوج (Land army) موجود ہے اور اب وہ ایک متوازی طاقتور اور جدید بحریہ (Navy) تعمیر کر رہا ہے تاکہ سمندروں میں اس کے مفادات کا تحفظ ہو۔

119۔ BBC کے ایک حالیہ مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ چین کی بحریہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بحریہ بن چکی ہے جو امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اس کی عسکری قوتیں پرانی ٹیکنالوجی اور ساز و سامان سے لیس ہیں۔ اسی مضمون میں لکھا گیا ہے کہ:

120۔ ”چین اس وقت مکمل طور پر ’انٹیلی جنٹ‘ جنگی صلاحیت یا دشمن کی فوجی صلاحیتوں کو منتشر کر دینے والی جدید ترین جنگی صلاحیت پروان چڑھانے پر کاربند ہے، خاص طور پر آرٹیفیشیل انٹیلی جنس کے ذریعے۔“

121۔ مضمون میں مزید لکھا ہے کہ:

122۔ ”چینی اکادمی برائے عسکری سائنس کو مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ یہ ہدف ’سول عسکری ادغام‘ کے ذریعے حاصل کرنا لازم ہے۔ یعنی چینی نجی سیکٹر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ملک کی دفاعی صنعت سے منسلک کر دیا جائے۔ مختلف رپورٹیں ہیں کہ چین ابھی سے آرٹیفیشیل انٹیلی جنس کو عسکری روبوٹس اور میزائل گائڈنس سسٹمز، بغیر پائلٹ کے ہوائی جہازوں اور روبوٹک بحری جہازوں میں استعمال کر رہا ہے“۔

123۔ پھر چین کا اس وقت دنیا کا شاید سب سے زیادہ فعال خلائی پروگرام جاری ہے۔ کئی اہداف کے ساتھ چاند پر ایک خلائی اسٹیشن تعمیر کرنے اور مریخ پر مشن بھیجنا بھی اہداف میں شامل ہے۔ سائنسی دلچسپی کے ساتھ ان منصوبوں کا واضح طور پر ایک انتہائی پرعزم فوجی پروگرام سے بھی تعلق بنتا ہے۔

124۔ چین میں سرمایہ داری کی تعمیر و ترقی اب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس سے انکار کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ معروضی طور پر بھی اگر عالمی انقلاب کے ہدف کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کوئی منفی پہلو نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک دیوہیکل محنت کش طبقہ پیدا ہوا ہے جس کا معیار زندگی ایک طویل عرصے میں بہتر سے بہتر ہونے کی طرف گیا ہے۔ یہ ایک جوان، تازہ دم محنت کش طبقہ ہے جس پر ماضی کی شکستوں اور اصلاح پسند تنظیموں کا بوجھ موجود نہیں ہے۔

125۔ نپولین سے ایک مقولہ منسوب کیا جاتا ہے کہ، ”چین ایک سویا ہوا ڈریگن ہے۔ اسے سونے دو کیونکہ اگر یہ جاگ گیا تو پوری دنیا دہل جائے گی“۔ اس نے کہا تھا یا نہیں، بہرحال اس وقت یہ چینی محنت کش طبقے پر مکمل صادق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسے حقیقت کا روپ دھارنے میں کچھ وقت لگے۔ لیکن ایک مرتبہ جب یہ قوت حرکت میں آئے گی تو قیامت خیز دھماکوں کا آغاز ہو گا۔

126۔ طاقتوں کے درمیان توازن

127۔ امریکہ کے نسبتی زوال اور چین کے ابھار نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ اب مختلف ممالک کے پاس دونوں کے درمیان کچھ توازن پیدا کر کے کچھ آزادی کے ساتھ اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کرنے کا خلاء پیدا ہوا ہے۔ کم از کم علاقائی سطح پر اب یہ درست ہے۔ اس میں ترکی، سعودی عرب، انڈیا اور دیگر ممالک مختلف مراحل میں شامل ہیں۔

128۔ 2009ء میں اعلانیہ BRICS کی بنیاد رکھنا چین اور روس کی جانب سے ایک سنجیدہ کوشش تھی کہ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مضبوط، اپنے معاشی مفادات کو محفوظ اور دیگر ممالک کو اپنے حلقہ اثر و رسوخ میں شامل کیا جائے۔

129۔ امریکی سامراج نے جب روس پر وسیع معاشی پابندیاں لگائیں تو یہ عمل تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگا۔ پابندیوں سے بچنے اور ان کو عبور کرنے کے لیے روس نے دیگر ممالک جیسے سعودی عرب، انڈیا، چین اور کئی ممالک کے ساتھ اتحاد بنائے۔

130۔ امریکی طاقت کا پرچار کرنے کے برعکس ان پابندیوں کی ناکامی نے امریکی سامراج کی حدود واضح کر دی ہیں کہ وہ ہر وقت ہر جگہ اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا اور کئی ممالک مالیاتی ترسیلات پر امریکی اجارہ داری کا متبادل ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے۔ BRICS کی ممبرشپ میں نئے ممالک نے شمولیت اختیار کی اور کئی نے شمولیت کی درخواست جمع کرا دی۔

131۔ جب اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو توازن کا احساس قائم رہنا چاہیے۔ یہ تبدیلیاں جتنی بھی اہم ہوں، BRICS تضادات سے بھرپور ہے۔ برازیل BRICS کا ممبر ہونے کے ساتھ مرکوسر (Mercosur) کا بھی حصہ ہے جو جنوبی امریکی آزاد تجارتی بلاک ہے اور اس وقت یورپی یونین کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدہ تشکیل دے رہا ہے۔

132۔ انڈیا بھی اس کا حصہ ہے لیکن مزید ممبرشپ بڑھانے سے بیری ہے کیونکہ اس طرح بلاک میں اس کا اپنا ا ثر و رسوخ کم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس کی امریکہ کے ساتھ ”اسٹریٹیجک شراکت داری“ بھی ہے؛ وہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چین مخالف کواڈ (Quad) سیکیورٹی اور عسکری اتحاد کا بھی حصہ ہے اور اس کی بحریہ باقاعدگی سے امریکہ کے ساتھ عسکری مشقیں کرتی رہتی ہے۔

133۔ یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ انڈیا جیسا ایک ملک، امریکہ کا اتحادی اور چین کا حریف، امریکی پابندیوں کو بائی پاس کرنے میں روس کی مدد کر رہا ہے۔ انڈیا روسی تیل کم قیمت پر خرید کر اپنی ریفائنریوں سے صاف کر کے زیادہ قیمت پر یورپ کو بیچ رہا ہے۔ فی الحال امریکہ نے فیصلہ کر رکھا ہے انڈیا کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا۔

134۔ ابھی تک BRICS ممالک کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے۔ امریکی سامراج کی بدمعاشی اس کے حریفوں کو اکٹھا کر رہی ہے اور دیگر ممالک کو شرکت کی شہہ دے رہی ہے۔

135۔ یورپ میں بحران

136۔ امریکی قوت اور اثر و رسوخ عالمی طور پر نسبتی زوال کا شکار ہے اور دوسری طرف پرانی یورپی سامراجی قوتیں؛ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر، ماضی کے درخشاں دنوں سے آج کمزور ترین پوزیشن پر پہنچ کر ثانوی عالمی قوتیں رہ گئی ہیں۔ یہ قابل ذکر ہے کہ یورپ بطور ایک سامراجی بلاک پچھلی ایک دہائی میں خاص طور پر بہت کمزور ہوا ہے۔ مثلاً وسطی افریقہ اور ساحل میں سلسلہ وار فوجی بغاوتوں نے فرانسیسی سامراج کو باہر نکال دیا ہے اور اس کی جگہ روس نے لے لی ہے۔

137۔ یورپی قوتیں روس کے خلاف یوکرین پراکسی جنگ میں امریکی سامراج کا دم چھلہ بن گئیں جس کا ان کی معیشتوں پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔ 1989-91ء میں سٹالنزم کے انہدام کے بعد جرمنی مشرق کی جانب اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسی پر کاربند رہا ہے اور اس نے روس کے ساتھ انتہائی قریبی معاشی تعلقات استوار کیے تھے۔ جرمن صنعت کو سستی روسی توانائی سپلائی سے بے پناہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ یوکرین جنگ سے پہلے جرمنی کی نصف سے زیادہ گیس، ایک تہائی تیل اور نصف کوئلہ کی درآمدات روس سے آ رہی تھیں۔

138۔ عالمی سطح پر جرمن صنعت کی کامیابی کی یہ ایک کلیدی وجہ تھی جبکہ دیگر میں محنت کی منڈی کی ڈی ریگولیشن (یہ کام سوشل ڈیموکریٹک حکومتوں میں کیا گیا) اور پچھلی صدی کے دوسرے نصف میں صنعت میں کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری شامل ہیں۔ یورپی یونین پر جرمن حکمران طبقے کا تسلط اور چین اور امریکہ کے ساتھ آزاد تجارت نے ایک ایسی تثلیث بنا دی جس نے جرمنی کو 2008ء میں پھٹنے والے معاشی بحران سے بہت حد تک بچا لیا تھا۔

139۔ یورپی یونین کے لیے مجموعی طور پر یہی صورتحال تھی کیونکہ روس اس کا پیٹرولیم (24.8 فیصد)، پائپ لائن گیس (48 فیصد) اور کوئلہ (47.9 فیصد) کا سب سے بڑا سپلائر تھا۔ یوکرین جنگ کے بعد روس پر لگنے والی پابندیوں سے توانائی کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں جن کا افراط زر اور یورپی برآمدات کی مسابقتی صلاحیت پر تباہ کن اثر پڑا۔ حتمی طور پر یورپ کو امریکہ سے زیادہ مہنگی LNG (مائع قدرتی گیس) اور انڈیا کے ذریعے زیادہ مہنگی تیل مصنوعات درآمد کرنی پڑ رہی ہیں۔

140۔ درحقیقت جرمنی میں گیس کا ایک بڑا حصہ آج بھی روس سے ہی آ رہا ہے۔ بس آج کل اس کی شکل LNG ہے اور یہ بہت زیادہ مہنگا ہے۔ جرمن، فرانسیسی اور اطالوی حکمران طبقات نے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی دے ماری ہے اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بائیڈن صدارت میں ہی امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کو تحفظاتی پالیسیوں اور صنعتی سبسڈیوں کے ذریعے شکریے کا تحفہ دے چکا ہے۔

141۔ یورپی اکنامک کمیونٹی اور بعد میں یورپی یونین دوسری عالمی جنگ کے بعد کمزور یورپی سامراجی قوتوں کی طرف سے ایک سنجیدہ کوشش تھی کہ عالمی سیاست اور معیشت میں اپنا وزن قائم رکھا جا سکے۔ عمل میں جرمن سرمائے نے دیگر کمزور معیشتوں پر اپنا تسلط جاری رکھا۔ معاشی بڑھوتری ہوئی، کچھ معاشی انضمام ہوا اور ایک واحد کرنسی بھی بنا لی گئی۔

142۔ لیکن مختلف قومی حکمران طبقات کا وجود قائم رہا اور ان سب کے اپنے اپنے مخصوص مفادات بھی قائم رہے۔ تمام باتوں کے باوجود کوئی مشترکہ معاشی اور خارجہ پالیسی نہیں تھی اور ایک ایسی مشترکہ فوج موجود نہیں تھی جو ان سب کو بزور شمشیر لاگو کرتی۔ اگرچہ جرمن سرمائے کی بنیاد مسابقتی صنعتی برآمدات تھیں اور اس کی دلچسپی مشرق میں تھی، فرانس یورپی یونین سے دیوہیکل زرعی سبسڈیاں لیتا رہا اور اس کے سامراجی مفادات سابق فرانسیسی کالونیوں، زیادہ تر افریقہ سے وابستہ رہے۔

143۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد قرضوں کے بحران نے یورپی یونین کو اس کی حدود تک پہنچا دیا۔ یورپی سنٹرل بینک کے سابق صدر ماریو دراغی کی ایک حالیہ رپورٹ میں یورپی سرمایہ داری کے بحران کا احاطہ خوفناک الفاظ میں کیا گیا ہے لیکن وہ غلط نہیں ہے۔ یورپی یونین اس لیے عالمی سطح پر اپنے سامراجی حریفوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ کوئی ایک واحد معاشی سیاسی اکائی نہیں ہے بلکہ چھوٹی اور درمیانی معیشتوں کا ایک ملغوبہ ہے جن کے اپنے حکمران طبقات، اپنی قومی صنعتیں، اپنے قوانین وغیرہ ہیں۔ یورپی معیشت ایک بیمار معیشت ہے اور پیداواری بڑھوتری میں اس کے حریف اس پر سبقت حاصل کر چکے ہیں۔

144۔ پیداواری قوتیں قومی ریاست کی حدود پھاڑ چکی ہیں اور یہ مسئلہ خاص طور پر چھوٹی لیکن انتہائی ترقی یافتہ یورپی معیشتوں میں سب سے زیادہ واضح ہے۔

145۔ یورپی سامراجی قوتوں کا طویل انحطاط اس وجہ سے چھپا ہوا تھا کہ امریکہ اس کے دفاع کا خرچ برداشت کر رہا تھا اور سیاسی طور پر یورپی یونین کی حمایت کر رہا تھا۔ پوری سرد جنگ کے دوران امریکی سامراج نے اپنے تسلط میں یورپ کو سوویت یونین کے خلاف کھڑا کیے رکھا۔ یہ یورپی سرمایہ داری کے لیے بڑا شاندار انتظام تھا کیونکہ دفاعی اخراجات کا ایک قابل ذکر حصہ بحر اوقیانوس پار اپنے طاقتور کزن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

146۔ اب یہ سارا انتظام قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں امریکی سامراج نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے نسبتی زوال کو تسلیم کرتے ہوئے روس کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا جائے تاکہ عالمی سطح پر اپنے مرکزی حریف چین پر تمام توجہ مرکوز کی جا سکے۔ عالمی سیاست کا مرکز اب بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل منتقل ہو چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منتقلی کا یہ عمل جاری تھا لیکن اب یہ ایک دھماکے کے ساتھ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔

147۔ یہ عالمی تعلقات کے لیے ایک دیوہیکل طوفان ہے جسے اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر امریکہ روس کے ساتھ کوئی سمجھوتا کرنا چاہتا ہے تو یورپی سامراج کی پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی۔ امریکہ اب دوست اور اتحادی نہیں رہا۔ کچھ کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ واشنگٹن اب یورپ کو ایک حریف یا دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔

148۔ کم از کم ٹرمپ نے یہ تو واضح کرر کھا ہے کہ امریکہ اب مزید یورپی دفاع کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ امریکی ”دفاعی چھتری“ کے خاتمے کے بعد یورپی سامراج کی ساری کمزوریاں ننگی ہو چکی ہیں جو دہائیوں سے انحطاط پذیری میں پنپ رہی تھیں۔

149۔ یورپی سرمایہ داری کا بحران سنجیدہ سیاسی اور سماجی بحرانوں سے بھرپور ہے۔ پورے براعظم میں رائٹ ونگ پاپولزم، یورپ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ مخالف قوتوں کا ابھار اس کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یورپی محنت کش طبقہ مضبوط اور غیر شکست خوردہ ہے اور وہ جبری کٹوتیوں اور نوکریوں سے جبری برخاستگی کے نئے دور کا بھرپور مقابلہ کرے گا۔ طبقاتی جدوجہد کا نیا پُر انتشار عہد شروع ہو رہا ہے۔

150۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ

151۔ مشرق وسطیٰ میں موجودہ جنگ کو بھی عالمی صورتحال کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ امریکی سامراج مشرق وسطیٰ میں کمزور ہو چکا ہے جبکہ روس، چین اور ایران مضبوط ہوئے ہیں۔ اسرائیل خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ 7 اکتوبر کا حملہ اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ اس نے صیہونی ریاست کی ناقابل تسخیر ہونے کی دیو مالا کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے جبکہ یہودی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی انتہائی سنجیدہ سوال جنم لے چکے ہیں۔ اس ایک سوال کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی حکمران طبقے کو ہمیشہ عوامی حمایت حاصل رہی ہے۔

152۔ اس واقعے نے سٹالنزم کے انہدام کے بعد ہونے والے اوسلو معاہدوں کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ یہ سارا ڈرامہ پہلے دن سے جھوٹ اور فریب کا پلندہ تھا۔ صیہونی حکمران طبقہ کبھی بھی فلسطینی عوام کو ایک فعال ریاست دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ وہ PA (فلسطینی قومی اتھارٹی) کو فلسطینیوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک کرائے کا تھانیدار سمجھتے ہیں۔ اس سے فتح اور PA کی ساکھ برباد ہو چکی ہے، جنہیں درست طور پر اسرائیل کی کٹھ پتلیاں سمجھا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک وقت میں اسرائیل کی حمایت کے ساتھ حماس کا جنم ہوا جسے فلسطینی قومی حقوق کی جدوجہد کی واحد قوت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

153۔ درحقیقت حماس کے طریقہ کار نے فلسطینیوں کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔

154۔ 2020ء میں ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دباؤ میں ہونے والے ابراہیم معاہدوں کا مقصد اسرائیل کی خطے میں پوزیشن کو مستحکم کرنا اور عرب ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فعال کرنا تھا۔ اس کا مطلب فلسطینی قومی امنگوں کو دفن کرنا تھا جس میں رجعتی عرب ریاستیں بھی بخوشی شامل تھیں۔ 7 اکتوبر کا حملہ اس ساری صورتحال کے خلاف ایک مایوس کن ردعمل تھا۔

155۔ ابتداء میں اس حملے پر فلسطینیوں نے جشن منایا لیکن اس کے انتہائی ہولناک نتائج برآمد ہوئے۔ اس نے شدید عوامی احتجاجوں میں پھنسے نتن یاہو کو ایک شاندار موقع فراہم کر دیا کہ وہ غزہ پر نسل کش جنگ مسلط کر دے۔ ایک سال بعد اسرائیل نے غزہ کو مٹی کی ڈھیری بنا دیا ہے لیکن وہ اپنے اعلان کردہ اہداف میں سے کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہیں کر سکا ہے، جیسے کہ مغویوں کی بازیابی اور حماس کی تباہی۔ اس صورتحال میں لاکھوں اسرائیلی احتجاج کرتے رہے ہیں اور ستمبر 2024ء میں ایک مختصر عام ہڑتال بھی ہوئی ہے۔

156۔ ان احتجاجوں کا کردار فلسطینی امنگوں کی حمایت یا جنگ کی مخالفت کرنا نہیں تھا۔ لیکن ایک جنگ کے دوران وزیراعظم کی اتنی شدید عوامی مخالفت اسرائیلی سماج میں گہرے تضادات کی عکاس ہے۔

157۔ منہدم حمایت نے نتن یاہو کو لبنان اور حزب اللہ پر حملہ کرنے پر مجبور کر دیا جس کے ساتھ ایران سے مسلسل اشتعال انگیزی بھی جاری رہی۔ اپنی سیاسی بقاء کے لیے اس نے مسلسل کر دکھایا ہے کہ وہ ایک علاقائی جنگ سے بالکل نہیں گھبراتا جس کے نتیجے میں امریکہ براہ راست اس کے لیے مداخلت کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

158۔ غزہ میں قتل عام کی وجہ سے رجعتی عرب ریاستوں (سعودی عرب، مصر اور سب سے بڑھ کر اردن) میں انقلابی ابھار کا خطرہ بڑھنے کے باوجود بائیڈن نے واضح کر دیا تھا کہ اس کی اسرائیل کے لیے حمایت ”آہنی“ ہے اور نتن یاہو نے اس بلینک چیک کو بے تحاشہ کیش کرایا ہے جس کا نتیجہ اب پورے خطے میں جنگ کا خطرہ ہے۔ غزہ میں نسل کش قتل عام کے ساتھ اس نے لبنان میں فوج کشی کی، ایران، یمن اور شام کے خلاف فضائی حملے کیے اور پھر شام پر فوج کشی کر دی۔

159۔ شام میں اسد ریاست کا اچانک اور غیر متوقع انہدام ایک مرتبہ پھر خطے میں طاقتوں کا توازن تبدیل کر چکا ہے۔ عالمی معیشت میں ترکی ایک چھوٹی سرمایہ دارانہ قوت ہے لیکن اس کے خطے میں عزائم بہت بڑے ہیں۔ اردوگان نے کامیابی سے امریکی سامراج اور روس کے درمیان لڑائی کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے۔

160۔ ایران اور روس کے ساتھ اردوگان نے 2016ء میں شام پر ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس نے بھانپ لیا کہ دونوں اس وقت اپنے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں (یوکرین جنگ میں روس اور لبنان میں ایران)۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے اردوگان نے ادلیب سے HTS دہشت گردوں کی چڑھائی کی سرپرستی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سب حیران رہ گئے جب اس عمل نے ریاست کو ہی گرا دیا۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ معاشی پابندیوں، کرپشن اور فرقہ پرستی نے ریاست کو اتنا کھوکھلا کر دیا ہے۔ شام کی موجودہ بندر بانٹ پچھلے 100 سالوں میں مسلسل سامراجی مداخلت کا نتیجہ ہے جس کا آغاز سائکس پیکوٹ (Sykes-Picot) معاہدے سے ہوا تھا۔

161۔ حتمی طور پر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک فلسطین کا سوال موجود ہے۔ لیکن یہ کام سرمایہ داری میں نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل میں صیہونی حکمران طبقے کے مفادات (جس کی پشت پناہی دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت کر رہی ہے) میں ایک حقیقی فلسطینی ریاست اور کروڑوں تارکین وطن کی واپسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

162۔ عسکری نکتہ نظر سے فلسطین اسرائیل کو شکست فاش نہیں دے سکتا کیونکہ یہ ایک جدید سرمایہ دارانہ سامراجی قوت ہے جو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی اور لاثانی انٹیلی جنس سروس سے لیس ہے۔ اس کی سرپرستی امریکی سامراج کر رہا ہے۔

163۔ اس لیے فلسطینی مدد کے لیے اور کن قوتوں پر انحصار کر سکتے ہیں؟ رجعتی عرب ریاستوں پر تو کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا جو فلسطینی مسئلے پر لب تو ہلاتے ہیں لیکن عملاً غدار ہیں اور ہر قدم پر اسرائیلی سامراج کی چاپلوسی کرتے ہیں۔

164۔ فلسطینیوں کے حقیقی دوست عرب ممالک کی سڑکوں پر موجود ہیں؛ استحصال زدہ محنت کش، کسان، چھوٹے کاروباری، شہری اور دیہی غرباء۔ لیکن ان کا فوری کام اپنے رجعتی حکمرانوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہاں جاگیرداروں کی زمینوں، بینکاروں کے بینکوں اور سرمایہ داروں کی فیکٹریوں وغیرہ پر قبضہ کر کے سرمایہ داری کے خاتمے کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر عرب انقلاب کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

165۔ اس وقت خطے میں ایک طاقتور محنت کش طبقہ موجود ہے، مصر اور ترکی میں سب سے زیادہ لیکن سعودی عرب، خلیجی ممالک اور اردن میں بھی موجود ہے۔ ان میں سے کسی بھی ایک ملک میں ایک کامیاب بغاوت محنت کش طبقے کو اقتدار تک پہنچا سکتی ہے جس کے ذریعے طاقتوں کا توازن تبدیل ہو جائے گا۔ اس طرح فلسطینی آزادی کے لیے موافق حالات پیدا ہو جائیں گے اور اسرائیل کے خلاف ایک انقلابی جنگ کا راستہ ہموار ہو جائے گا جو پوری صورتحال کا حتمی نتیجہ ہو گا۔

166۔ اسرائیل کی ریاست اور اس کے صیہونی حکمران طبقے کی حتمی شکست کے لیے اسرائیلی سماج میں طبقاتی جنگ کا ابھار ضروری ہے۔ اس وقت بظاہر اسرائیل میں ایک طبقاتی تقسیم ناممکن نظر آ رہی ہے۔ لیکن مسلسل جنگ اور انتشار اسرائیلی عوام کے ایک حصے کو نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرے گا کہ امن کا راستہ فلسطینی قومی سوال کے حل سے ہی گزرتا ہے۔

167۔ سماج کی انقلابی سوشلسٹ تبدیلی کے تناظر کے بغیر سامراجیوں کی کٹھ پتلی رجعتی حکومتیں مسلسل جنگیں لڑتی رہیں گی اور کچھ بھی حل نہیں ہو سکے گا۔ سامراج کی حاکمیت میں عارضی جنگ بندیاں اور امن معاہدے محض نئی جنگوں کی تیاریاں ہوتے ہیں۔ لیکن عمومی عدم استحکام جنگوں کی بنیاد اور ان کا نتیجہ ہوتا ہے جو اگلے دور میں عوام کی انقلابی تحریکوں کا راستہ ہموار کرے گا۔

168۔ فلسطینی انقلاب ایک سوشلسٹ انقلاب کے طور پر اور خطے میں رجعتی ریاستوں کے خلاف غریب محنت کشوں اور کسانوں کی عمومی بغاوت کا حصہ بن کر ہی فاتح ہو گا ورنہ کوئی فتح نہیں ہو گی۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں دیوہیکل وسائل موجود ہیں جن کی بنیاد پر ایک خوشحال اور ترقی یافتہ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس عرب دنیا کی براہ راست سامراجی حکمرانی سے نام نہاد آزادی کے بعد سے آج تک کی تاریخ عوام کی بھاری اکثریت کے لیے ایک بھیانک خواب ہی رہی ہے۔ بورژوازی کوئی بھی ایک بنیادی سوال حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

169۔ اس ساری صورتحال میں سب سے گھٹیا کردار سٹالنسٹوں نے ادا کیا جنہوں نے اپنی بنیاد ”مرحلہ وار انقلاب“ کا جھوٹا نظریہ بنایا جو مصنوعی طور پر محنت کش طبقے کے انقلاب کو نام نہاد بورژوا جمہوری انقلاب سے علیحدہ کر دیتا ہے۔ اس رجعتی نظریے نے یکے بعد دیگرے خوفناک ناکامیوں کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں وہ حالات پیدا ہوئے کہ یکے بعد دیگرے ممالک میں رجعتی جابرانہ آمریتیں اور مذہبی انتہاء پسندی کی جنونیت وجود میں آئی۔ ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب ہی اس پاگل پن کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

170۔ ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی ہمیشہ کے لیے قومی سوال حل کر سکتی ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی یہودیوں سمیت کرد، آرمینی اور دیگر تمام اقوام کو ایسی سوشلسٹ فیڈریشن میں امن اور خوشحالی میں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو گا۔ خطے کا دیوہیکل معاشی امکان ایک مشترکہ سوشلسٹ پیداواری پروگرام میں ہی حقیقت کا روپ دھارے گا۔ بیروزگاری اور غربت قصہ پارینہ بن جائیں گے۔ اس بنیاد پر ہی پرانی قومی اور مذہبی نفرتیں ہمیشہ کے لیے ختم کی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک بھیانک خواب کی یاد کی مانند ماضی میں گم ہو جائیں گی۔

171۔ مشرق وسطیٰ کی عوام کے لیے امید کا یہی ایک راستہ ہے۔

172۔ ہتھیاروں کی دوڑ اور عسکریت پسندی

173۔ تاریخی طور پر مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان طاقتوں کے توازن میں قابل ذکر تبدیلی کو جنگ کے ذریعے حل کیا گیا ہے جس میں بیسویں صدی کی دونوں عالمی جنگیں سرفہرست ہیں۔ آج جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں آنے والے دور میں ایک اعلانیہ عالمی جنگ کے امکانات موجود نہیں ہیں۔

174۔ سرمایہ دار منڈیوں، سرمایہ کاری کے مواقع اور حلقہ اثر و رسوخ پر تسلط کے لیے جنگیں کرتے ہیں۔ آج ایک عالمی جنگ کے نتیجے میں انفراسٹرکچر اور زندگی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی جس سے کسی قوت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ایک پاگل بوناپارٹسٹ حکمران درکار ہو گا جو ایک بڑی جوہری قوت پر قابض ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب محنت کش طبقے کو مسلسل اور فیصلہ کن شکستیں ہوں۔ فی الحال ہمارے سامنے ایسا کوئی تناظر موجود نہیں ہے۔

175۔ لیکن سامراجی قوتوں کے درمیان جنگ میں سیارے کی نئی بندر بانٹ کی تگ و دو کا اظہار ہوتا ہے اور اس وقت یہ صورتحال پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کا اظہار کئی علاقائی جنگوں میں ہو رہا ہے جہاں دیوہیکل تباہی و بربادی کے ساتھ لاکھوں افراد قتل ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا اظہار مسلسل بڑھتے تجارتی اور سفارتی تناؤ میں بھی ہو رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پچھلے سال میں سب سے زیادہ جنگیں ہوئی ہیں۔

176۔ اس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ، مغربی ممالک میں عسکریت پسندی میں اضافہ اور ہر جگہ عسکری قوتوں کی تعمیر نو اور جدت کاری کا دباؤ شروع ہو چکا ہے۔ امریکہ اگلے 30 سالوں میں اوسطاً 1.7 ٹریلین ڈالرز اپنے جوہری ہتھیاروں کی جدت کاری پر خرچے گا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلی مرتبہ جرمنی میں کروز میزائل تعینات کیے جائیں گے۔

177۔ اس وقت تمام NATO ممالک پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں۔ چین نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ عسکری اخراجات میں 7.2 فیصد اضافہ کر رہا ہے۔ جنگ کے نتیجے میں 2024ء میں روسی عسکری اخراجات میں 40 فیصد اضافہ ہوا، جو فیڈرل بجٹ کا 32 فیصد اور GDP کا 6.68 فیصد بنتا ہے۔ 2023ء میں عالمی عسکری اخراجات کا کل تخمینہ 2.44 ٹریلین ڈالر تھا جو 2022ء کے مقابلے میں 6.8 فیصد اضافہ ہے۔ یہ 2009ء سے اب تک سب سے زیادہ اور تاریخ میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔

178۔ یہ حیران کن دیوہیکل اخراجات ہیں جن میں ابھی ضائع شدہ قوت محنت اور ٹیکنالوجی کی جدت کا ذکر نہیں ہے، جسے ضروری سماجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کا کمیونسٹوں کو اپنے پروپیگنڈہ اور تحریک میں پرچار کرنا چاہیے۔

179۔ یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ سرمایہ دار ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ میں اس لیے جت گئے ہیں تاکہ معاشی بڑھوتری کو مہمیز ملے۔ درحقیقت عسکری اخراجات ناگزیر طور پر افراط زر کی وجہ ہیں اور کوئی بھی معاشی فائدہ قلیل مدت اور دیگر سیکٹروں میں کٹوتیوں سے برابر ہو جائے گا۔ طویل مدت میں یہ پیداواری معیشت پر ایک دیوہیکل بوجھ ہے جو قدر زائد کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ درحقیقت یہ سامراجی قوتوں کے درمیان دنیا کی ازسر نو بندر بانٹ کی لڑائی ہے جو عسکری اخراجات کو تیزی سے بڑھا رہی ہے۔ سرمایہ داری سامراجی مرحلے پر ناگزیر طور پر طاقتوں کے درمیان لڑائی اور بالآخر جنگوں کو جنم دیتی ہے۔

180۔ عسکریت پسندی اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد آج کے عہد کا مرکزی سوال بن چکا ہے۔ ہم سامراجی جنگوں اور سامراجیت کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صلح جو ہیں۔ ہم بھرپور زور دیتے ہیں کہ امن کی ضمانت صرف جنگوں کی بنیاد سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

181۔ یورپی سرمایہ داری کی از سر نو مسلح ہونے کی بھاگ دوڑ

182۔ یورپ میں اس وقت عسکری تیاریوں اور اسلحے پر اخراجات روسی سامراج کی قوت کا نتیجہ ہے جو یوکرین جنگ میں فتح کے بعد مضبوط ہوئی ہے، امریکی عسکری امداد ختم ہو رہی ہے اور یورپی قوتوں کی کوشش ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ عالمی سطح پر آج بھی ان کا کوئی کردار ہے۔

183۔ 2024ء میں روسی عسکری اخراجات 13.1 ٹریلین روبلز (145.9 ارب ڈالر) تھے جو قومی GDP کا 6.68 فیصد بنتا ہے۔ یہ پچھلے سال کے مقابلے میں 40 فیصد اضافہ ہے۔ اگر قوت خرید کے حوالے سے مطابقت کی جائے تو یہ 462 ارب ڈالر بنتا ہے۔

184۔ اس دوران یورپ نے 2014ء سے اب تک اپنے عسکری اخراجات میں 50 فیصد اضافہ کیا ہے اور یہ 2024ء میں مجموعی طور پر 457 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ اس حوالے سے روسی اعداد و شمار کی قوت خرید کے حوالے سے مطابقت قائم کرنا درست ہے کیونکہ ہم تخمینہ لگا رہے ہیں کہ ہر ایک ڈالر سے یورپ اور روس میں کتنے ٹینک، توپیں یا گولہ بارود خریدا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر عسکری حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت روس پورے یورپ سے زیادہ خرچہ کر رہا ہے۔

185۔ روس اس وقت امریکہ سمیت تمام NATO سے زیادہ گولہ بارود، راکٹ اور ٹینک بنا رہا ہے۔ NATO انٹیلی جنس کے مطابق روس اس وقت توپوں کا سالانہ 30 لاکھ گولہ بارود بنا رہا ہے۔ امریکہ اور پورا NATO اس وقت 12 لاکھ گولہ بارود بنا سکتا ہے جو روسی اعداد و شمار کا نصف سے بھی کم ہے۔

186۔ پھر یوکرین جنگ نے جنگ لڑنے کا پورا طریقہ کار ہی تبدیل کر دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح جنگ میں نئی ٹیکنالوجی اور تکنیکوں کے تجربات ہوتے ہیں جن کی میدان جنگ میں تیز تر ترویج اور تبدیلی ہوتی ہے۔ مدمقابل افواج مجبور ہوتی ہیں کہ تیزی سے ان کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار اور متبادل تلاش کریں۔ ہم نے بڑی تعداد میں ڈرونز (فضائی، بری اور بحری)، الیکٹرانک جاسوسی اور جامنگ ٹیکنالوجی وغیرہ دیکھی ہیں۔

187۔ اس نئے طریقہ کار سے اس وقت صرف دو افواج روسی اور یوکرینی ہی واقف ہیں۔ ان تمام میدانوں میں مغرب بہت پیچھے ہے۔ یوکرین جنگ نے طاقتوں کا عسکری توازن فیصلہ کن طور پر روس کے حق میں کر دیا ہے۔

188۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ روس کو یورپ یا اس کے کسی بھی حصے پر فوج کشی کا کوئی شوق ہے۔ یہ نام نہاد خطرہ خود حکمران طبقات نے اچھالا ہوا ہے تاکہ اس کی آڑ میں عسکری اخراجات میں دیوہیکل اضافے کا جواز پیش کر سکیں اور عوامی مخالفت سے بچ سکیں۔ روس کا مغربی یوکرین میں فوج کشی کا کوئی ارادہ نہیں ہے، موجودہ روسی عسکری مہم کے مقابلے میں اس پر بے پناہ خرچہ ہو گا اور یہ ایک اعصاب شکن کام ہو گا، NATO ممالک تو بہت دور کی کہانی ہے۔

189۔ یورپی سرمایہ داری کے نکتہ نظر سے خطرہ روسی فوج کشی یا روسی اور یورپی افواج کے درمیان جنگ نہیں ہے۔ یہ دونوں حریفوں کے لیے بہت مہنگا سودا ہو گا۔ پھر دونوں حریفوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جو ساری صورتحال میں ایک انتہائی خطرناک جزو ہے۔

190۔ بحران زدہ یورپی سامراج کو لاحق اصل خطرہ یہ ہے کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت نے تنہاء چھوڑ دیا ہے یا کم از کم اس کی اہمیت بہت کم کر دی ہے جبکہ ساتھ ہی ہمسائے میں ایک طاقتور سامراج بیٹھا ہوا ہے جو موجودہ جنگ سے انتہائی طاقتور ہو کر باہر آ رہا ہے۔

191۔ روس کا دیوہیکل اثر و رسوخ (عسکری اور توانائی وسائل) ہے اور ابھی سے اس کا یورپی سیاست میں طاقتور اظہار ہو رہا ہے۔ ہنگری اور سلواکیہ جیسے ممالک مسلط یورپی قوتوں کی بحر اوقیانوس کی جانب رغبت سے ناطہ توڑ چکے ہیں۔ دیگر میں ابھرتی سیاسی قوتیں بھی، کم یا زیادہ، اسی راہ پر گامزن ہیں (جرمنی، آسٹریا، رومانیہ، چیک جمہوریہ، اٹلی)۔

192۔ یورپی سامراج اس وقت یورپی عوام کی رہائشوں اور زندگیوں کی حفاظت کے برعکس اپنی کارپوریٹ اجارہ داریوں کے منافعوں اور بھیڑیا صفت سرمایہ دار طبقات کے سامراجی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ روس مشرقی اور وسطی یورپ میں جرمن سرمایہ داری کا حریف ہے۔ روس افریقہ میں فرانسیسی سرمایہ داری کا حریف ہے۔

193۔ امریکی سامراج کی چھتر چھایہ ختم ہونے کے بعد یورپی سرمایہ داری کا طویل بحران اسے اپاہج کر دے گا۔ اس کو خطرہ لاحق ہے کہ امریکہ، روس اور چین کے متحارب مفادات اس کے حصے بخرے کر کے ہڑپ کر جائیں گے۔ مرکز گریز رجحانات (Centrifugal tendencies) اور بھی زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں کیونکہ ہر سرمایہ دار طبقہ اپنے مفادات کا ننگا اظہار کرنا شروع ہو چکا ہے۔ یہ بات بعید القیاس نہیں کہ یہ رجحانات یورپی یونین کا خاتمہ کر دیں گے۔

194۔ عالمی معیشت: عالمگیریت سے تجارتی جنگوں اور تحفظاتی پالیسیوں تک کا سفر

195۔ 2 اپریل کو ٹرمپ نے وسیع محصولات مسلط کر دیں اور اس کا عالمی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑا ہے۔ لیکن عالمگیریت میں سست روی اور تحفظاتی پالیسیوں کی جانب رغبت کا عمل کافی عرصہ پہلے شروع ہو چکا تھا۔

196۔ 2008ء کا عالمی معاشی بحران سرمایہ داری کے عمومی بحران میں ایک معیاری تبدیلی تھا۔ اس بحران سے فوری پہلے کے عہد میں عالمی معیشت کی سالانہ شرح نمو 4 فیصد تھی۔ 2008ء کے بحران اور 2020ء کے کورونا وباء بحران کے درمیان یہ شرح نمو 3 فیصد تک محدود رہی۔ ٹرمپ کے محصولات سے پہلے یہ شرح 2 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی تھی جو پچھلی تین دہائیوں میں کم ترین شرح نمو ہے۔

197۔ درحقیقت عالمی معیشت 2008ء کے بعد کبھی بحال نہیں ہوئی۔ اُس وقت فنانس سیکٹر کو بچانے کے لیے بینکوں پر دیوہیکل پیسہ دیوانہ وار نچھاور کیا گیا۔ یورپ میں ریاستوں پر دیوہیکل قومی قرضہ چڑھ گیا، بجٹ خسارے عام ہو گئے اور انہیں مجبوراً سماج پر جبری کٹوتیاں لاگو کرنی پڑیں۔ سرمایہ داری کے عمومی بحران کی ساری قیمت محنت کش طبقہ ادا کر رہا ہے۔

198۔ حکمران طبقہ دیوانگی کی کیفیت میں دیوہیکل مقداری آسانی (Quantitative easing) کی پالیسی پر چل پڑا، یعنی بے تحاشہ پیسہ چھاپ کر معیشت میں پھینکا گیا اور تاریخی طور پر شرح سود صفر یا منفی بھی کر دی گئی۔ اس سے بحالی اس وجہ سے نہیں ہو سکی کیونکہ گھرانے تک قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پیداواری سیکٹروں میں پیداواری سرمایہ کاری کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی اس لیے ساری سرمایہ کاری شیئرز، کریپٹو کرنسی اور اس طرح کے کئی بلبلوں میں جھونک دی گئی۔

199۔ ہر جگہ حکومتوں کی جبری سماجی کٹوتیوں نے 2011ء میں پوری دنیا میں عوامی تحریکوں کو جنم دیا؛ عرب بہار، امریکہ میں آکو پائی وال سٹریٹ تحریک، اسپین میں ’اندیگنا دوس‘ (indignados) تحریک، یونان میں سینتاگما چوک (Syntagma square) تحریک وغیرہ۔

200۔ یہ عوام کا سرمایہ دارانہ نظام پر بڑھتے عدم اعتماد کا اظہار تھا جو محنت کش طبقے پر بینکوں کے بیل آؤٹ کی قیمت لاد رہا تھا اور اس عمل نے تمام بورژوا اداروں کی ساکھ برباد کر دی۔ ہم نے دیکھا کہ شعور میں اس تبدیلی نے 2015ء میں لیفٹ اصلاح پسندی کی ایک نئی قسم کو جنم دیا؛ پوڈیموس، سائریزا، کوربن، میلانشوں، سینڈرز اور لاطینی امریکہ میں ”ترقی پسند حکومتیں“۔

201۔ عوام ان کی جانب اس لیے راغب ہوئے کیونکہ وہ بظاہر جبری کٹوتیوں کے خلاف ریڈیکل مزاحمت کر رہے تھے۔ یہ عمل اس وقت ختم ہو گیا جب اصلاح پسندی کی حدود واضح ہو گئیں، یونان میں سائریزا حکومت کی غداری، سینڈرز کی ہیلری کلنٹن کی حمایت، کوربن ازم کا انہدام اور اسپین میں پوڈیموس ایک مخلوط حکومت کا حصہ بن گئی۔

202۔ سامراج کے زیر تسلط ممالک میں ہم نے دیوہیکل عوامی تحریکیں اور بغاوتیں دیکھیں (پورتو ریکو، ہیتی، ایکواڈور، چلی، سوڈان، کولمبیا وغیرہ)۔ کیٹالونیا میں 2017ء اور 2019ء میں ایک جمہوریہ کی جدوجہد بھی اسی عمومی رجحان کا حصہ تھی۔

203۔ لیکن قیادت کی عدم موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ تمام امکانات کے باوجود کوئی ایک بھی تحریک سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

204۔ 2020ء میں کورونا وباء ایسے وقت میں معیشت کے لیے ایک بیرونی جھٹکا تھا جب ایک نئے بحران کا آغاز ہو رہا تھا (2008ء بحران سے کبھی بحالی نہیں ہو سکی)۔ اس وباء نے عالمی معیشت کو کھائی میں دھکیل دیا۔

205۔ ایک مرتبہ پھر حکمران طبقے نے بوکھلاہٹ میں اقدامات اٹھانے شروع کرد یے تاکہ سماجی زلزلوں سے بچا جا سکے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کشوں کو ریاستوں نے تنخواہیں دیں کہ سکون سے گھر بیٹھو لیکن اس کا نتیجہ ریاستی قرضوں میں دیوہیکل اضافہ تھا جو پہلے ہی پچھلے بحران کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔

206۔ پچھلے 15 سالوں میں عالمی معیشت کا انجن چلانے کی کئی کوششیں ہو چکی ہیں؛ مقداری آسانی کے ذریعے نظام میں بے تحاشہ پیسہ ڈالا گیا، تاریخی کم ترین شرح سود رہی (2009-21ء) اور دیگر کئی ہیجانی اقدامات کیے گئے۔ ان میں سے کوئی ایک قدم بھی معاشی شرح نمو کو آگے نہیں بڑھا سکا ہے۔ سرمایہ داروں پر سالہا سال پیسوں کی بارش کی گئی لیکن انہوں نے نئی پیداواری سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر دیا۔

207۔ کلیدی مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں کو ایک منڈی چاہیے جس میں وہ اپنی مصنوعات بیچ سکیں تاکہ منافع بٹورا جائے۔ قرضوں کا دیوہیکل بوجھ گھرانوں اور کاروباروں کو کھپت بڑھانے سے روک رہا ہے۔

208۔ دنیا کا مجموعی گھریلو، ریاستی اور کارپوریٹ قرضہ 313 ٹریلین ڈالر یا عالمی GDP کا 330 فیصد ہو چکا ہے۔ ایک دہائی پہلے یہ 210 ٹریلین تھا۔

209۔ قرضہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ نظام کی حدود کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے اور اب یہ مزید کسی بھی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ریاستی قرضوں اور شرح سود کی موجودہ بلند شرح نے کئی ممالک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ کئی مزید ممالک دیوالیہ ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔

210۔ وباء کا شعور پر بھی بہت دور رس اثر پڑا ہے۔ نجی منافع کا نظام سرمایہ داری کسی میڈیکل ایمرجنسی سے نمٹ نہیں سکتا اور دوا ساز کمپنیوں کے لیے انسانی زندگیوں سے پہلے منافع اہم ہے۔

211۔ 1990ء اور 2000ء کی دہائیوں میں عالمی معیشت میں ایک مخصوص قسم کی بڑھوتری ہوئی اگرچہ یہ شرح نمو دوسری عالمی جنگ کے بعد 1948-73ء کے دورانیے سے کافی کم تھی جب پیداواری قوتوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا۔ اس پر ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ 2008ء تک معاشی نمو کا دور قرضوں کے پھیلاؤ اور ”عالمگیریت“ کا مرہون منت تھا۔ اس سے نظام جزوی طور پر کچھ عرصہ کے لیے اپنی حدود سے تجاوز کر گیا۔ عالمگیریت کے نتیجے میں عالمی تجارت پھیلی، محصولات میں کمی ہوئی، مصنوعات سستی ہوئیں اور سامراج کے زیر تسلط ممالک میں نئی منڈیاں کھلیں اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔

212۔ اب یہ تمام عناصر اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ قرضوں کا پھیلاؤ اور پیسے کی گردش قرضوں کے پہاڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔

213۔ عالمگیریت (عالمی تجارت میں وسعت) روس میں سٹالنزم کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور عالمی منڈی میں شمولیت کے بعد پورے عہد میں معاشی شرح نمو کا ایک کلیدی جزو تھا۔ اس کے برعکس آج تمام بڑے تجارتی بلاکوں (چین، یورپی یونین اور امریکہ) کے درمیان محصولات کی بھرمار اور تجارتی جنگوں میں شدت پیدا ہو چکی ہے جن میں ہر کوئی اپنی معیشت دوسرے کی قیمت پر بچانے کے چکر میں ہے۔

214۔ 1991ء میں عالمی تجارت عالمی GDP کا 35 فیصد تھی۔ 1974ء سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ پھر اس میں تیز تر بڑھوتری ہوئی اور 2008ء میں یہ شرح 61 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد سے یہ یہیں منجمد ہے۔

215۔ محصولات کی حالیہ بھرمار سے پہلے IMF نے عالمی تجارت میں درمیانی مدت کے لیے محض 3.2 فیصد سالانہ بڑھوتری کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ شرح نمو 2000-19ء کے دوران ہونے والی 4.9 فیصد کی شرح نمو سے کہیں کم ہے۔ عالمی تجارت اب معاشی بڑھوتری کا ماضی کی طرح ایک جزو نہیں رہی۔ اب پورا عمل اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

216۔ تحفظاتی پالیسیوں کی طرف رجحان سرمایہ داری کے بحران کا اظہار ہے اور پچھلے کافی عرصے سے پنپ رہا ہے۔ 2023ء میں پوری دنیا میں حکومتوں نے 2 ہزار 500 تحفظاتی اقدامات کیے (ٹیکس چھوٹیں، ٹارگٹ سبسڈیاں اور تجارتی رکاوٹیں) جو پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھے۔

217۔ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران امریکہ نے چین کے ساتھ یورپی یونین کے خلاف بھی جارحانہ تحفظاتی پالیسی اپنائے رکھی جسے بعد میں بائیڈن نے بھی جاری رکھا۔ بائیڈن نے چند قوانین (CHIPS، نام نہاد افراط زر میں کمی کے ایکٹ وغیرہ) اور اقدامات متعارف کرائے جن کا مقصد باقی دنیا سے آنے والی درآمدات کی قیمت پر فوائد اٹھانا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد تحفظاتی پالیسیوں کی جانب رجحان تیز تر ہو گیا ہے اور اب اعلانیہ تجارتی جنگ ہو رہی ہے۔

218۔ ٹرمپ محصولات

219۔ ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسی کی جانب تیز رغبت اور چین کے ساتھ اعلانیہ تجارتی جنگ امریکی سرمایہ داری کے بحران کا اظہار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی پیداواری کمپنیاں عالمی منڈی میں ریاستی امداد کے بغیر مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس کے ساتھ تحفظاتی پالیسیاں حریف سرمایہ دار ممالک کو طاقت فراہم کرتی ہیں کہ دیگر ممالک بحران کی قیمت ادا کریں۔ ”سب سے پہلے امریکہ“ کا لازمی مطلب ”باقی سب آخر میں“ ہے۔

220۔ وسیع پیمانے پر تحفظاتی اقدامات اٹھا کر ٹرمپ کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 1) درآمدات پر جرمانہ تاکہ پیداواری نوکریاں امریکہ واپس آئیں۔ 2) چین کے معاشی حریف کے طور پر ابھار کو روکنا۔ 3) محصولات سے حاصل کردہ پیسوں سے امریکی بجٹ خسارہ پورا کرنا تاکہ ٹیکس کٹوتیوں کو جاری رکھا جا سکے۔ 4) محصولات کو دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات میں سودے بازی کے لیے استعمال کرنا تاکہ سیاسی اور معاشی مقاصد حاصل کیے جائیں۔

221۔ یہ درست ہے کہ کچھ کمپنیوں نے امریکہ میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے تاکہ محصولات سے بچ کر امریکی منڈی تک رسائی جاری رہے (دنیا کی سب سے بڑی کھپت منڈی)۔ لیکن نئی فیکٹریاں لگانا ایک پورا عمل ہے جس کے لیے وقت درکار ہے اور نئی نوکریاں قلیل مدت میں سپلائی چینز پر محصولات کی نظر ہو جائیں گی۔

222۔ آج عالمگیریت کے 30 سال بعد سپلائی چینز انتہائی طویل ہیں جن میں مختلف ممالک پیداواری عمل کے مختلف حصوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا میں کار ساز صنعت شدید مدغم ہے جس کے اجزاء سرحدوں کو کئی مرتبہ پار کرنے کے بعد مختلف ممالک میں جڑ کر حتمی پروڈکٹ بنتے ہیں۔ سپلائی چینز کو چھوٹا کرنے کی کسی بھی کوشش کا معیشت پر فوری تباہ کن اثر پڑے گا جس کے نتیجے میں مصنوعات زیادہ مہنگی یا کچھ اثناء میں قلت کا شکار ہو جائیں گی۔ ٹرمپ محصولات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس وجہ سے پیدا ہونے والی بے یقینی کا سرمایہ کاری کے فیصلوں پر بھی بہت زیادہ منفی اثر پڑ رہا ہے۔

223۔ امریکی اور چینی معیشتیں آپس میں شدید مدغم اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ امریکہ کے لیے چین کے علاوہ اور کوئی متبادل پیداکار ملک موجود نہیں ہے، چینی مصنوعات سستی اور شاندار معیار کی حامل ہیں۔ انہیں امریکی منڈی سے ختم کرنے کی کوشش جیسے کہ ٹرمپ کر رہا ہے، اگر یہ کامیاب ہو سکیں تو امریکی پیداوار میں بحالی سے پہلے ہی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔

224۔ اس تعلق کو توڑنے کی کوئی بھی کوشش مجموعی طور پر عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ 1929ء کے بعد یہ تحفظاتی پالیسیوں کا عمومی رجحان تھا جس نے عالمی معیشت کو بحران سے کساد بازاری میں دھکیل دیا تھا۔ عالمی تجارت 1929-33ء کے دوران 25 فیصد گر گئی اور اس کی ایک بڑی وجہ تجارتی رکاوٹوں میں اضافہ تھا۔

225۔ ایک پورے عہد میں عالمگیریت نے سرمایہ دارانہ نظام کو جزوی اور عارضی طور پر قومی ریاست کی حدود سے تجاوز کرنے کا راستہ فراہم کیا۔ تحفظاتی پالیسیاں ایک کوشش ہے کہ پیداواری قوتوں کو ایک مرتبہ پھر قومی ریاست کی حدود میں قید کر دیا جائے تاکہ امریکی سامراج کا دیگر ممالک پر تسلط ایک مرتبہ پھر قائم ہو جائے۔ ٹراٹسکی نے 1930ء کی دہائی میں خبردار کیا تھا کہ:

226۔ ”بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف پوری ذہنی توانائی لگائی جا رہی ہے کہ کسی طرح مگرمچھ کو واپس مرغی کے انڈے میں ڈال دیا جائے۔ جدید ترین معاشی قوم پرستی اپنے ہی رجعتی کردار کی وجہ سے برباد ہے؛ یہ انسان کی پیداواری قوتوں کو مسخ اور کم کرتی ہے“ (قوم پرستی اور معاشی زندگی، 1934ء)۔

227۔ توقعات کے مطابق ہر جگہ ٹریڈ یونین قیادت تحفظاتی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنے حکمران طبقے کا دم چھلہ بن گئی ہے تاکہ اپنے ممالک میں ”نوکریوں کا تحفظ کیا جا سکے“۔ کمیونسٹوں کو ہر صورت ایک بین الاقوامیت پسند آزادانہ طبقاتی نکتہ نظر کا دفاع کرنا ہے۔ دیگر ممالک کے محنت کشوں کے برعکس محنت کشوں کے حقیقی دشمن حکمران طبقات ہیں جن میں ان کا اپنے ملک کا حکمران طبقہ سرفہرست ہے۔

228۔ فیکٹری بندشوں کے نتیجے میں ہمیں ضبطگیوں کا نعرہ بلند کرنا چاہیے۔ نجی کمپنیوں کو مزید بیل آؤٹ پیکج دینے کے برعکس ہمارا مطالبہ ہے کہ کمپنیوں کے کھاتے کھولے جائیں اور انہیں محنت کشوں کے کنٹرول میں قومیایہ جائے۔ اگر فیکٹریاں سرمایہ داری میں منافع کے لیے کام نہیں کر سکتیں تو انہیں ایک جمہوری پیداواری منصوبے کے تحت ضبط، از سر نو منظم اور سماجی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ آزاد تجارت اور تحفظاتی پالیسیاں دونوں محنت کش طبقے کے مفاد میں نہیں ہیں۔ یہ دو مختلف معاشی پالیسیاں ہیں جن کے ذریعے حکمران طبقہ سرمایہ دارانہ بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارا متبادل ان کو پیدا کرنے والے نظام کو ختم کرنا ہے۔

229۔ بورژوا اداروں کی ساکھ کا بحران

230۔ سرمایہ داری اب ایک ایسا معاشی نظام بن چکی ہے جو پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے کے قابل نہیں رہا اور اس لیے اب نئی نسل کا معیار زندگی بھی بہتر کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس بحران نے تمام بورژوا سیاسی اداروں کی ساکھ کو گہرے اور مسلسل بڑھتے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

231۔ دولت کی انتہائی غلیظ پولرائزیشن ہو چکی ہے جس میں مٹھی بھر ارب پتیوں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور محنت کشوں کی ایک بڑھتی تعداد روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ان کو جبری کٹوتیوں، مسلسل افراط زر کی موجودگی میں قوت خرید میں کمی، توانائی بلوں میں اضافہ، رہائشی بحران وغیرہ جیسی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔

232۔ میڈیا، سیاست دان، روایتی سیاسی پارٹیاں، پارلیمنٹ، عدلیہ وغیرہ سب کو ایک قلیل مراعات یافتہ اشرافیہ کا محافظ سمجھا جاتا ہے جو تمام فیصلے اکثریت کی ضروریات کے برعکس اپنے تنگ نظر مفادات کے لیے کرتے ہیں۔

233۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ حکمران طبقہ عام حالات میں انہی اداروں کے ذریعے حکمرانی کرتا ہے جنہیں عمومی طور پر قبول کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ ”اکثریت کی امنگوں“ کے امین ہیں۔ اب سماج کی ہر پرت میں ان پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

234۔ بورژوا جمہوریت کے عمومی طریقہ کار کے برعکس، جس کا کام طبقاتی تضادات کو نرم اور منظم کرنا ہوتا ہے، اب اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے براہ راست متحرک ہونے کے خیال کو زیادہ تقویت مل رہی ہے۔ لی مونڈ (Le Monde) جریدے میں ایک مضمون میں فرانس کے میکرون کو خبردار کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ ممبران پارلیمان کے ساتھ پارٹی کو حکومت بنانے سے روک کر اس نے خطرہ مول لیا ہے کہ اب عوام یہ نتیجہ اخذ کرے گی کہ انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ امریکہ میں چار میں سے ایک فرد کا خیال ہے کہ ملک کو ”بچانے“ کے لیے سیاسی تشدد جائز ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں یہ 15 فیصد زیادہ کا اضافہ ہے۔

235۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف شعلہ بیانوں کا ابھار بورژوا جمہوریت اور اس کے اداروں میں عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ ماضی میں جب ایک رائٹ ونگ حکومت بدنام ہو جاتی تھی تو اس کی جگہ ایک سوشل ڈیموکریٹ ”لیفٹ“ حکومت لے لیتی تھی اور جب وہ بدنام ہو جاتی تھی تو اس کی جگہ ایک قدامت پرست حکومت لے لیتی تھی۔ اب یہ خود کار عمل بیکار ہو چکا ہے۔

236۔ اس کی جگہ لیفٹ اور رائٹ کے درمیان شدید جھول نے لے لی ہے جس کو میڈیا بڑھتی ہوئی ”سیاسی انتہاء پسندی“ کہہ رہا ہے۔ لیکن سیاسی انتہاؤں کا طاقتور ہونا سماجی اور سیاسی پولرائزیشن کا محض اظہار ہے جو پھر تیز ہوتی طبقاتی جدوجہد کا اظہار ہے۔ اس وقت حکمران طبقہ شدید خوفزدہ ہے کہ معتدل سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے۔ وہ ہر طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے اس عمل کو روکنا چاہتے ہیں لیکن اب یہ ان کے بس میں نہیں رہا۔

237۔ اس کی وجہ جاننا مشکل نہیں ہے۔ آج لیفٹ اور رائٹ حکومتیں بنیادی طور پر ایک ہی پالیسی، یعنی کٹوتیوں کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اس نے سیاست کو عمومی طور پر بدنام کر دیا ہے، ووٹ نہ ڈالنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور ہر قسم کا تیسرا متبادل ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس کی عام طور پر بہت عارضی حیثیت ہوتی ہے۔ رائٹ ونگ شعلہ بیان موجودہ اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ کو استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ سرکاری ”لیفٹ“ کوئی بھی حقیقی متبادل پیش کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

238۔ لبرل سرمایہ دار اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ”فاشزم کا خطرہ“ اور ”انتہائی دائیں بازو کا خطرہ“ کا شور شرابہ کم تر برائی کے لیے حمایت حاصل کرنے کا طریقہ کار ہے۔ یہ خیال ہے کہ ”ہم سب کو جمہوریت کی حفاظت کے لیے متحد“ ہونا چاہیے، کہ ہمیں ”جمہوریہ کا دفاع“ کرنا چاہیے۔ یہ ایسا وقت ہے جب زیادہ تر ممالک میں لبرلز اقتدار میں موجود ہیں اور محنت کش طبقے پر خوفناک حملے کر رہے ہیں، عسکریت پسندی کو ابھار رہے ہیں اور جمہوری حقوق پر حملے کر رہے ہیں۔

239۔ اس لیے ٹرمپ کو ایک ”فاشسٹ“ یا ”آمر“ کہا جاتا ہے جب وہ فلسطین کی حمایت کرنے والے غیر ملکی شہریو ں کو ملک بدر کر دیتا ہے۔ ہم پھر ان یورپی حکومتوں کو کیا کہیں جو فلسطینی حمایت میں ہونے والے احتجاجوں پر پابندی لگاتے ہیں اور ان پر خوفناک تشدد کرتے ہیں؟ ہم کیا کہیں جب جرمنی اور فرانس میں غیر ملکی شہریوں کو فلسطین کی حمایت کرنے کی سزا گرفتاری اور ملک بدری کے ذریعے دی جا رہی ہے؟

240۔ لبرل عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے مکمل طور پر غیر جمہوری اقدامات اٹھا رہے ہیں تاکہ جن سیاست دانوں کو وہ پسند نہیں کرتے (جیسے فرانس میں لی پین) یا جیسے رومانیہ میں انتخابات کو منسوخ کر دیا گیا جب انہیں نتائج پسند نہیں آئے! اور پھر وہ منہ پھلا کر ”جمہوریت کے دفاع میں اتحاد“ اور ”انتہائی دائیں بازو کے خلاف حصار“ بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔

241۔ یہ ایک مجرمانہ پالیسی ہے جو رائٹ ونگ شعلہ بیانوں کی حمایت میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ انہیں یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ”دیکھا، رائٹ اور لیفٹ، سب ایک ہے“۔

242۔ کمیونسٹ ہمیشہ محنت کش طبقے اور جمہوری حقوق کے مخالف کسی بھی رجعتی قدم کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب سمجھنا فاش غلطی ہو گی کہ ہم کسی بھی حوالے سے ”جمہوریت“ کی عمومی حمایت کرتے ہیں (جس کا مطلب سرمایہ دارانہ ریاست کی حمایت ہے) یا ہم اپنے جھنڈے لبرلز کے ساتھ ملا لیں جب وہ رائٹ ونگ شعلہ بیانوں پر حملے کر رہے ہوں۔

243۔ درحقیقت رائٹ ونگ شعلہ بیانوں کی اپیل حقیقت کے سامنے کھڑی ہو کر ہمیشہ اپنا منافقانہ چہرہ ننگا کر لے گی۔ امریکہ میں ٹرمپ اقتدار میں ہے۔ اس نے کئی وعدے کر رکھے ہیں۔ وہ کروڑوں افراد کی امید بنا ہوا ہے جو سمجھتے ہیں کہ وہ واقعی ”امریکہ کو دوبارہ عظیم“ بنا دے گا۔ لیکن یہ ایک سراب ہے۔ محنت کشوں کے لیے امریکہ کو عظیم بنانے کا مطلب باعزت، اچھی اجرت والی نوکریاں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی اجرتوں پر پورا مہینہ آرام سے گزار سکتے ہیں اور اس کام کے لیے انہیں دو یا تین نوکریاں یا خون کا عطیہ نہیں دینا پڑے گا۔

244۔ امریکہ میں کروڑوں افراد کو یہ خوش فہمی ہے کہ ٹرمپ دوسری عالمی جنگ کے بعد والے ”اچھے دن“ واپس لے آئے گا۔ اگر کچھ اٹل ہے تو وہ یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ سرمایہ داری کے بحران کا مطلب یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سنہرا دور یا 1920ء کا خوشحال ہیجانی کا دور اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔

245۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ مختصر مدت کے لیے ان میں سے کچھ اقدامات، جیسے محصولات جو دیگر ممالک کی قیمت پر امریکہ میں صنعتی ترقی کو مہمیز فراہم کرتے ہیں، کا کچھ مثبت اثر ہو۔ کئی افراد ٹرمپ کو کچھ عرصے کے لیے مزید آزمانے پر رضامند ہوں گے۔ وہ یہ دلیل بھی دے سکتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ ہے، ”خفیہ ریاست“، جو اسے اپنی پالیسیاں لاگو نہیں کرنے دے رہی۔

246۔ لیکن جب ایک مرتبہ حقیقت آشکار ہو گی اور یہ سراب ہوا ہو جائے گا تو اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ جس نے ٹرمپ کو اقتدار دلایا ہے وہ تیزی سے سیاست کی دوسری انتہاء کو پہنچ جائے گا۔ ہم لیفٹ کی جانب تیز ترین اور متشدد جھکاؤ دیکھیں گے۔

247۔ ٹراٹسکی کا ایک مضمون ہے ”اگر امریکہ کمیونسٹ ہو جائے“ جس میں اس نے امریکی طبیعت کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ”توانا اور پرتشدد“ ہے۔ ”ایک طرف کا انتخاب اور کچھ سر توڑے بغیر ایک بڑی تبدیلی کرنا امریکی روایت کے خلاف ہو گا۔“

248۔ امریکی محنت کش ایک عملی انسان ہے اور ٹھوس نتائج مانگتا ہے۔ وہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے متحرک ہونے کو تیار ہے۔ 1934ء میں منیاپولیس ٹیمسٹرز (Minneapolis Teamsters) کی عظیم ہڑتال کا قائد فاریل ڈوبز تیزی کے ساتھ ریپبلیکن سے سیدھا ٹراٹسکائٹ بن گیا تھا۔ ہڑتال کو بیان کرتے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔ اس کی نظر میں ٹراٹسکائٹ وہ واحد لوگ تھے جو محنت کشوں کو درپیش مسائل کا سب سے زیادہ عملی اور مؤثر حل پیش کر رہے تھے۔

249۔ دھماکہ خیز صورتحال، نوجوانوں کی ریڈکلائزیشن

250۔ درحقیقت عالمی صورتحال انقلابی امکانات سے حاملہ ہے۔ 2019-20ء کی باغیانہ لہر کو کورونا وباء کے لاک ڈاؤن نے کاٹ دیا تھا لیکن جن حالات نے اسے جنم دیا تھا وہ ختم نہیں ہوئے ہیں۔ 2022ء میں سری لنکا کی بغاوت نے صدر کا تختہ الٹ دیا اور عوام صدارتی محل پر قابض ہو گئے۔ فرانس میں پینشن مخالف رد اصلاحات کے خلاف 2023ء میں دیوہیکل عوامی ہڑتال ہوئی جس نے حکومت کو دیوار سے لگا دیا۔ 2024ء میں کینیا کے عوام نوجوانوں کی قیادت میں پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوئے اور حکومت کو فنانس بل واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ بنگلہ دیش میں نوجوان طلبہ کی ایک تحریک نے شدید ترین جبر کو برداشت کرتے ہوئے ایک قومی بغاوت کی قیادت کرتے ہوئے نفرت زدہ حسینہ حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

251۔ ان تمام تحریکوں کا خاصہ نوجوانوں کا قائدانہ کردار ہے۔ 30 سال کی عمر سے کم ہر نوجوان نے اپنی ساری سیاسی شعوری زندگی 2008ء کے بحران، کورونا وباء، یوکرین جنگ اور غزہ میں نسل کش قتل عام میں گزاری ہے۔

252۔ حال میں ہم نے ترکی، سربیا اور یونان میں عوامی تحریکیں دیکھی ہیں۔ یونان میں ٹیمپی ریلوے حادثے کو چھپانے کی کوشش کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں ایک دیوہیکل عام ہڑتال ہوئی اور آمریت کے خاتمے کے بعد ملک کے سب سے بڑے احتجاج ہوئے۔ عام ہڑتال کا دیوہیکل کردار، جس میں محنت کش طبقے کے علاوہ سماج کی دیگر پرتیں بھی شامل تھیں (چھوٹے دکاندار وغیرہ) بتاتی ہیں کہ جدید سرمایہ دارانہ سماج میں طاقتوں کا حقیقی توازن کیا ہے۔ جب محنت کش متحرک ہوتے ہیں تو وہ اپنے پیچھے تمام مظلوم پرتیں کھینچ لاتے ہیں۔

253۔ سربیا میں نوی ساد میں اسٹیشن کی کانوپی گرنے پر بننے والی احتجاجی تحریک نے ایک انقلابی بحران برپاء کر دیا۔ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑے احتجاج منظم ہوئے۔ طلبہ نے اس تحریک میں یونیورسٹیوں پر قبضے اور طلبہ اسمبلیوں کو منظم کرتے ہوئے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ احتجاجوں نے حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ طلبہ دانستہ طور پر تحریک کو محنت کش طبقے اور عوام تک زبوروفی یعنی قصبوں، شہروں اور فیکٹریوں میں عوامی اسمبلیاں بنا کر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

254۔ ان دونوں تحریکوں نے موجودہ صورتحال کی دو کلیدی خصوصیات کی نشاندہی کی ہے؛ ایک طرف محنت کش طبقے کی دیوہیکل قوت کے امکانات اور سماج میں اس کا بھاری حجم اور دوسری طرف موضوعی عنصر کی شدید کمزوری۔

255۔ اس کے ساتھ نوجوانوں کی پرتیں جمہوری حقوق، تشدد اور امتیازی سلوک کے خلاف خواتین کی تحریکوں (میکسیکو، اسپین)، اسقاط حمل کے حق یا اس کے تحفظ میں (ارجنٹینا، چلی، آئرلینڈ، پولینڈ)، ہم جنس پرست شادیوں کے حق (آئرلینڈ)، پولیس جبر کے خلاف سیاہ فاموں کی تحریک (امریکہ، برطانیہ) وغیرہ، ان تمام تحریکوں سے ریڈیکلائز ہوئی ہیں۔

256۔ نوجوانوں کی اس نسل کے لیے ماحولیاتی بحران بھی ایک ریڈکلائز کرنے والا عنصر بن گیا ہے۔ نوجوان درست طور پر سمجھتے ہیں کہ اگر حالات میں ریڈیکل تبدیلی نہ ہوئی تو دنیا پر زندگی کو ہی خطرہ لاحق ہے اور یہ نظام اس کا ذمہ دار ہے۔

257۔ غزہ میں نسل کش قتل عام پر سامراج کی منافقت اور دوہرے معیار، نام نہاد ”عالمی قوانین“ اور فلسطینی یکجہتی تحریک پر پولیس تشدد نے سرمایہ دارانہ ریاست، سرمایہ دارانہ میڈیا اور عالمی اداروں کے حوالے سے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

258۔ نوجوانوں کی ایک بڑھتی تعداد اپنی شناخت کمیونسٹ نظریات سے جوڑ رہی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سب سے ریڈیکل نظریات ہیں۔ یہ اکثریت میں نہیں ہیں، نوجوانوں میں بھی اکثریت میں نہیں ہیں لیکن یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔

259۔ سٹالنزم کا انہدام 35 سال پرانا ہو چکا ہے۔ اس نسل کے لیے حکمران طبقے کا ”سوشلزم ایک ناکامی ہے“ پروپیگنڈہ بے معنی ہے۔ اس وقت ان کو سب سے بڑی لاحق پریشانی سرمایہ داری کی ناکامی ہے جس کے ہاتھوں وہ روزانہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں!

260۔ قیادت کا بحران

261۔ پوری دنیا اس وقت بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران یکے بعد دیگرے انقلابی تحریکوں کو جنم دے رہا ہے۔ دہائیوں دنیا کو تراشنے خراشنے والا لبرل نظام ہماری آنکھوں کے سامنے منہدم ہو رہا ہے۔ تحفظاتی پالیسیاں اور تجارتی جنگیں دیوہیکل معاشی انتشار پیدا کر رہی ہیں۔

262۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا آنے والے عرصے میں انقلابی تحریکوں کا ابھار ہو گا۔ یہ اٹل ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیاان کا انجام محنت کش طبقے کی فتح ہو گا؟

263۔ ہم نے پچھلے 15 سالوں میں کئی انقلابی تحریکیں اور بغاوتیں دیکھی ہیں۔ انہوں نے متحرک عوام کی دیوہیکل انقلابی قوت اور طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے شدید جبر، ایمرجنسی کے اعلانات، معلومات کے بلیک آؤٹ اور جابر ترین حکومتوں کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ لیکن حتمی طور پر ان میں سے کسی کا انجام اقتدار پر محنت کشوں کا قبضہ نہیں ہوا۔

264۔ ہر موقع پر ایک انقلابی قیادت کا فقدان تھا جو تحریک کو منطقی انجام سے ہمکنار کرتی۔ 2011ء کا عرب انقلاب جابر بوناپارٹسٹ حکومتوں کے قیام پر منتج ہوا (مصر، تیونس) یا اس سے بھی زیادہ ہولناک خانہ جنگیاں مقدر بنیں (لیبیا، شام)۔ چلی کا انقلاب بورژوا آئین و قوانین کی محفوظ گلی میں ڈال دیا گیا۔ سوڈانی انقلاب کا اختتام ایک انتہائی رجعتی خانہ جنگی میں ہوا۔

265۔ ٹراٹسکی نے ”عبوری پروگرام“ میں لکھا تھا کہ ”انسانیت کا تاریخی بحران انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ گیا ہے“۔ اس کے الفاظ آج پہلے سے بھی زیادہ درست ہیں۔ اگر تاریخی فرائض سے موازنہ کیا جائے تو موضوعی عنصر، یعنی انقلابی کیڈرز کی بنیادوں پر کھڑی ایک تنظیم جس کی محنت کش طبقے میں جڑیں ہوں، انتہائی کمزور ہے۔ دہائیوں سے ہم بہاؤ کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ہمیں طاقتور معروضی حالات نے پیچھے دھکیلا ہے۔

266۔ اس کا ناگزیر مطلب یہ ہے کہ قلیل مدت میں مستقبل کے انقلابی بحرانوں کا فوری حل موجود نہیں ہے۔ اس لیے اتار چڑھاؤ، پیش قدمی اور پسپائی کا ایک طویل دور ہمارے سامنے ہے۔ لیکن ان تمام عوامل میں محنت کش طبقہ سیکھے گا اور اس کا ہر اول دستہ مضبوط ہو گا۔ بالآخر تاریخ کا دھارا ہمارے حق میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے اور اب ہم اس کے بہاؤ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے ساتھ تیر رہے ہیں۔

267۔ ہمارا کام محنت کش طبقے کے ساتھ شامل ہو کر سوشلسٹ انقلاب کے مکمل پروگرام کو سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتوں کی ادھوری خواہشات کے ساتھ جوڑتے ہوئے بنیادی انقلابی تبدیلی کی کاوش کرنا ہے۔

268۔ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا 2024ء میں قیام ایک اہم قدم تھا اور ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ایک عالمی تنظیم جس کی مضبوط بنیادیں مارکسزم کے نظریات ہیں۔ حالیہ دور میں ہماری تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ہمیں توازن کا احساس برقرار رکھنا ہے، ہماری قوتیں ابھی مستقبل کے فرائض سر انجام دینے کے لیے ناکافی ہیں۔

269۔ موضوعی عنصر کی کمزوری کا ناگزیر مطلب یہ ہے کہ اگلے دور میں عوام کی ریڈیکلائزیشن کا اظہار نئی لیفٹ اصلاح پسند شکلوں اور قائدین میں ہو گا۔ ان میں سے کچھ بہت ریڈیکل زبان بھی استعمال کریں گے لیکن ان سب کو اصلاح پسندی کی بنیادی حدود کا سامنا ہو گا؛ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور اقتدار پر محنت کشوں کے قبضے کا سوال اٹھانے کی نااہلی۔ اس لیے دھوکہ اور فریب اصلاح پسندی میں ناگزیر ہے۔ لیکن کچھ عرصے کے لیے ان میں سے کچھ اشکال اور قائدین عوام میں بہت زیادہ جوش و جذبہ ابھاریں گے اور حمایت حاصل کریں گے۔

270۔ ہر جگہ تنظیم کی تعمیر کے حوالے سے ایک مخصوص عجلت کا احساس ہونا چاہیے۔ عوامی تحریکوں کے ابھار میں سو، ہزار یا دس ہزار ممبران کا ہونا ایک جیسا نہیں ہے۔ وینزویلا میں انقلاب کے آغاز میں 1 ہزار کا تربیت یافتہ کیڈر یا برطانیہ میں جب کوربن نے لیبر پارٹی کی قیادت جیتی تھی تو اس وقت 5 ہزار کیڈرز کی موجودگی جن کی محنت کش طبقے میں جڑیں موجود ہوتیں، پوری صورتحال کو تبدیل کر سکتے تھے۔ کم از کم ایک درست پالیسی اور عوام کو اپروچ کرنے کے ایک درست طریقہ کار کے نتیجے میں وہ محنت کش تحریک میں خاطر خواہ حجم حاصل کر کے دیگر پرتوں کے لیے ایک اہم حوالہ بن سکتے تھے۔

271۔ درست حالات میں اور واقعات کی تپش میں ایک چھوٹی تنظیم بھی ایک بڑی تنظیم میں تبدیل ہو کر عوام کی قیادت حاصل کر سکتی ہے۔ یہ ہمارا مستقبل ہے۔ اس وقت ہمارا کام صبر کے ساتھ ریکروٹمنٹ کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر کیڈرز اور خاص طور پر محنت کش طبقے اور نوجوان طلبہ کی سیاسی تعلیم و تربیت کا کام کرنا ہے۔

272۔ ایک تنظیم جس کی عوام میں مضبوط جڑیں ہوں اور مارکسی نظریات سے لیس ہو وہ تیزی کے ساتھ صورتحال میں رونما ہونے والے تیز طرار پیچ و خم میں ثابت قدم رہ سکتی ہے۔ لیکن انقلاب پھٹنے کے بعد ایک انقلابی قیادت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ یہ کام انقلاب سے پہلے ہی ہو سکتا ہے۔ یہ آج سب سے اہم درپیش فریضہ ہے۔ ہماری کامیابی یا ناکامی پر ساری صورتحال کا دارومدار ہے۔ ہمارے تمام کاموں، قربانیوں اور کوششوں کے پیچھے یہی مرکزی قوت ہونی چاہیے۔ درکار ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ ہی ہم فاتح ہو سکتے ہیں اور ہوں گے۔

1مئی 2025ء، لندن۔

Comments are closed.