|تحریر: ٹیڈ گرانٹ، ترجمہ: نبیل خان|
(ٹراٹسکی کی 85 ویں برسی کے موقع پر ہم اپنے قارئین کے لیے 1990ء میں ٹراٹسکی کی شہادت کے پچاس سال پورے ہونے پر کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی یہ خصوصی تحریر ایک دفعہ پھر شائع کر رہے ہیں۔)
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
[ٹیڈ گرانٹ اُس دن کو یاد کرتے ہیں جب وہ اسپتال میں بستر پر لیٹے تھے اور ریڈیو پر ٹراٹسکی کے قتل کی خبر سنائی دی۔]
”وہ زخم آج بھی رِس رہا ہے“
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ دنیا بھر کے تمام ساتھیوں نے کس قدر غصہ، جلال اور بے بسی محسوس کی۔ یہ انیسویں بار تھا جب انہوں نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی اور اس بار وہ کامیاب ہو گئے۔
اُس وقت جنگ کے حالات اتنے بھیانک اور ہولناک تھے کہ ٹراٹسکی کی موت کا وہ اثر نہ ہو سکا جو امن کے زمانے میں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ سٹالن نے اُسی وقت ٹراٹسکی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اُس کا خیال تھا کہ جنگ کے عمومی ہنگامے میں یہ واقعہ نظر انداز ہو جائے گا۔ لیکن یہ واقعہ ہم پر بہت گہرا اثر ڈال گیا اور ہم پہلے سے زیادہ پُرعزم ہو گئے کہ ٹراٹسکی کے کام کو جاری رکھیں، جیسا کہ ہم نے برطانیہ اور بین الاقوامی سطح پر آنے والے برسوں میں کیا۔
ہم نے اُس وقت امریکی سوشلسٹ ورکرز پارٹی پر تھوڑی تنقید کی کہ انہوں نے ٹراٹسکی کی حفاظت بہتر انداز میں نہیں کی، لیکن ظاہر ہے ہم نے یہ تنقید کبھی اعلانیہ نہیں کی۔ آخر اس کا فائدہ ہی کیا تھا جب قتل ہو چکا تھا؟
ہمارا فوری ردِعمل یہ تھا کہ ہم نے سٹالن نوازوں کے جرائم کو بے نقاب کرنے کی ایک مہم شروع کی۔ اُس وقت کے کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ڈیلی ورکر میں جے آر کیمبل نے ٹراٹسکی کے قتل کی خبر کو انتہائی شرمناک انداز میں پیش کیا، گویا ٹراٹسکی کو اُس کے ہی کسی پیروکار نے قتل کیا ہو اور اس میں نہ سٹالن کا کوئی ہاتھ تھا نہ ہی بیوروکریسی کا۔ ہم نے اس جھوٹ کو بے نقاب کیا۔ اُس وقت میں ورکرز انٹرنیشنل لیگ سے وابستہ تھا اور سامراجی جنگ کے خلاف جدوجہد کو منظم کر رہا تھا۔ ہم اس بات کی مہم چلا رہے تھے کہ لیبر پارٹی حکومت میں آئے، اور پھر اگر ضروری ہو، تو ہٹلر کے خلاف ایک انقلابی جنگ چھیڑی جائے مگر اس سے پہلے معیشت کو قومی تحویل میں لیا جائے۔
اگر ٹراٹسکی نہ ہوتے تو ہم اندھوں کی طرح ہوتے۔ وہ کئی لحاظ سے لینن سے بھی عظیم تھے، خاص طور پر اُس نظریاتی کام میں جو انہوں نے 1923ء سے 1940ء کے درمیان کیا، جس نے مارکسزم اور لینن ازم کے خیالات کو مزید گہرائی اور وسعت دی۔ سپین کے واقعات، خاص طور پر 1931ء سے 1937ء تک کی انقلابی تحریک، فرانس، برطانیہ میں عام ہڑتال کے وقت کی صورتحال، چین 1925–27ء کے انقلابات، اور ہٹلر کے خلاف جرمنی میں جدوجہد پر ان کا تجزیہ اُن کے پیروکاروں کو آئندہ آنے والی انقلابی لڑائیوں کے لیے نظریاتی ہتھیار فراہم کرتا رہا۔ سب سے بڑھ کر، اگر ٹراٹسکی نہ ہوتے تو ہمارے پاس سٹالن ازم کا کوئی تجزیہ نہ ہوتا۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل پر ان کی تنقید وقت کے ساتھ درست ثابت ہوتی گئی۔
ہم ایک سلگتے ہوئے افسوس میں مبتلا تھے، کیونکہ شاید ٹراٹسکی کا سب سے بہترین کام اُس کی زندگی کے آخری سال میں ہوا۔ اُن کی کتاب In Defence of Marxism (مارکسزم کے دفاع میں) آج بھی سوویت یونین اور سٹالن ازم کے عمل پر اپنے تجزیے میں بالکل درست ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بیوروکریسی کوئی نئی طبقاتی تشکیل یا نیا نظام نہیں تھی، بلکہ سوشلسٹ راستے سے ایک انحراف تھا، جو سوشلزم کو کبھی لا ہی نہیں سکتی تھی۔ سٹالن پر ان کی شاندار کتاب بھی اسی دور میں لکھی گئی، حالانکہ اسے 1945ء میں شائع کیا گیا۔ سٹالن نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ ٹراٹسکی کے کام کی اشاعت کو جنگ کے خاتمے تک روکے رکھیں۔ یہ تمام تحریریں انقلابی تحریک کو نظریاتی بنیاد فراہم کرتی رہیں۔ اگر ٹراٹسکی مزید پانچ سال زندہ رہتے اور ایسی ہی تحریریں پیش کرتے، تو یہ مزدور تحریک کی نشوونما کے لیے ایک عظیم نعمت ثابت ہوتیں۔
اگر ٹراٹسکی جنگ کے بعد کے دور تک زندہ رہتے، تو بھی شاید واقعات کے عمومی رخ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آتی، ایک طرف سٹالن ازم کی فتح اور دوسری طرف سرمایہ داری کا احیاء، یہ سب سٹالن ازم اور اصلاح پسندی کی اُن پالیسیوں کا نتیجہ تھا جنہوں نے اُس انقلاب کو روکے رکھا جس کی اُمید ٹراٹسکی کر رہے تھے۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک میں اگر نام نہاد کمیونسٹ پارٹیاں واقعی انقلابی ہوتیں، تو وہ پورے یورپ میں انقلاب برپا کر سکتیں تھیں اور مزدور طبقے کے مسائل کو، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ کے لیے حل کر سکتی تھیں۔
لیکن اگر ٹراٹسکی زندہ رہتے تو وہ مزدور طبقے کو زیادہ بہتر نظریاتی ہتھیار فراہم کرتے۔ اُن تباہ کن غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا جو اُن لوگوں نے کیں جو خود کو ٹراٹسکی کا حامی کہتے تھے، لیکن درحقیقت انہوں نے اُس کے خیالات کو بُری طرح مسخ کیا۔
اگر ٹراٹسکی موجود ہوتے، تو اُس وقت اور بعد کے برسوں میں تحریک کو اتنے زیادہ نقصانات نہ اٹھانے پڑتے، کیونکہ وہ تحریک کو براہِ راست راہنمائی فراہم کرتے۔ وہ یقینا ہمارے تجزیے کی تائید کرتے کہ سرمایہ داری، کم از کم صنعتی ممالک میں، وقتی طور پر مستحکم ہو گی، اور سٹالن ازم مشرقی یورپ اور سوویت یونین میں بھی ایک وقتی دور کے لیے مضبوط ہو گا، ایک ایسا دور جو اب گزر چکا ہے۔
یہ خیالات مکمل طور پر درست ثابت ہو چکے ہیں اور آنے والی دہائی (نوّے کی دہائی) میں جو جدوجہد کا نیا دور کھلنے والا ہے، اُس میں یہ نظریات اور بھی زیادہ درست ثابت ہوں گے۔ خاص طور پر سوویت یونین سے آنے والی خبریں، گورباچوف کی جانب سے کھلے طور پر سرمایہ داری کی طرف واپسی کی جو ردّ انقلابی تحریک چل رہی ہے، یہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سٹالن ازم اور دنیا میں جاری عمل پر ٹراٹسکی کا تجزیہ کس قدر درست تھا۔
جیسا کہ ٹراٹسکی نے پیش گوئی کی تھی کہ، بیوروکریسی اپنی مراعات برقرار رکھنے کے لیے مجبور ہے کہ وہ خود کو سرمایہ دار بنائیں اور کھلے عام ردِ انقلاب کے حلیف بن جائیں۔
وہ لوگ بُش، Thatcher اور Kohl جیسے افراد سے مدد اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بالکل بیزاری ہوتی ہے کہ گورباچوف کس طرح سامراجیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ آنے والے دور میں سرمایہ داری زوال، بیماری اور انتشار کی طرف جائے گی، بالکل ویسے ہی جیسے سٹالن ازم مشرقی یورپ اور سوویت یونین میں پہلے ہی تحلیل ہو چکا ہے۔
پچھلے پچاس سالوں میں ہم نے ٹراٹسکی کے نظریات کو مضبوط کیا، ان کا دفاع کیا اور انہیں گہرائی بخشی ہے، اور ایک ایسی تحریک قائم کی ہے جو برطانیہ اور بین الاقوامی سطح پر لیبر پارٹی، مزدور یونینوں اور معاشرے کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ ہم ٹراٹسکی کے نظریات کی مکمل تائید اور تصدیق کا راستہ تیار کریں گے۔
اب بھی جب کوئی ٹراٹسکی کے قتل کے بارے میں سوچتا ہے تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
اُس نے کتنی عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اُس کا خاندان قتل کیا گیا، اُس کے ساتھی، پرانے بالشویک، مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔ سٹالن نواز اور اصلاح پسند رد عمل کو ایک فتح حاصل ہوئی۔ ٹراٹسکی نے ان سب آزمائشوں کو برداشت کیا، مگر اس سے وہ اپنی ضروری محنت کرنے سے باز نہیں آئے، تاکہ تحریک کی ترقی کے لیے کارکنان کو تیار کر سکیں۔ ہم ان کے نظریات کی بنیاد پر، انہیں مزید آگے بڑھاتے اور گہرائی بخشتے ہوئے، فتح کی جانب بڑھیں گے۔