|تحریر: زلمی پاسون|
افغانستان ایک بار پھر عالمی سیاست کے چوراہے پر کھڑا ہے۔ باگرام ایئربیس، جو کبھی امریکی سامراج کا سب سے بڑا عسکری اڈہ تھا، آج پھر عالمی سیاست اور بالخصوص افغانستان کے حوالے سے کشمکش کا مرکز بن گیا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں اس اڈے کی جزوی یا مکمل واپسی کا مطالبہ کیا ہے، جس نے پورے خطے بالخصوص چین، روس، ایران، پاکستان اور خود طالبان حکومت میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
یہ مطالبہ محض ایک فوجی اڈے کی واپسی کا نہیں، بلکہ امریکہ (نسبتاً زوال پذیر سامراج) کی اس کوشش کا اظہار ہے جو اپنے کھوئے ہوئے اثر و رسوخ کو از سرِ نو قائم کرنے کے لیے بے چین ہے۔ گزشتہ دہائی میں عراق اور افغانستان سے پسپائی، یوکرین کی جنگ میں طویل عدم استحکام اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کے بڑھتے اثرات نے واشنگٹن کی سفارتی گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں، بگرام کی واپسی کی بحث کو سمجھنے کے لیے ہمیں امریکہ کے زوال، چین کے ابھار، طالبان کی داخلی سیاست اور خطے کے سامراجی تضادات، سب کو ایک ساتھ دیکھنا ہو گا۔
ٹرمپ اور امریکی مؤقف: بگرام کی جغرافیائی و سامراجی اہمیت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر بگرام ایئر بیس کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے افغانستان کے معاملے پر سخت مؤقف اپنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”امریکہ افغانستان آسانی سے جیت سکتا تھا اگر وہ سیاسی طور پر درست بننے کے خبط میں مبتلا نہ ہوتا۔“ یہ بیان بظاہر داخلی سیاست کے لیے دیا گیا، مگر درحقیقت یہ امریکہ کے بدلتے سامراجی توازن اور زوال پذیر حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔
بگرام ایئر بیس کابل کے شمال میں واقع وہ اڈہ ہے جو 2001ء سے 2021ء تک امریکی فوجی کاروائیوں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کا سب سے بڑا مرکز رہا۔ ٹرمپ کے لیے اس کی جغرافیائی اہمیت غیر معمولی ہے کیونکہ یہ چین کے سنکیانگ علاقے سے محض ایک گھنٹے کی پرواز کے فاصلے پر ہے، یعنی وہ خطہ جہاں چین کے جوہری اور دفاعی اثاثے واقع ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ بگرام کو محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ چین کے خلاف ایک جیو اسٹریٹجک پلیٹ فارم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس اڈے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا جنوبی و وسطی ایشیا میں امریکہ کی کھوئی ہوئی عسکری رسائی کو بحال کرنے کی کنجی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ بار ہا خبردار کر چکا ہے کہ اگر بگرام امریکہ کو واپس نہیں ملا تو افغانستان سنگین نتائج بھگتے گا۔ مگر اس مؤقف کے پیچھے اصل حقیقت ایک نسبتاً زوال پذیر سامراج کی اپنی کھوئی ہوئی گرفت کو بحال کرنے کی کوشش ہے۔
زوال پذیر سامراج کی نئی حکمتِ عملی
افغانستان سے امریکی پسپائی کے بعد وسطی اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے۔ بگرام بیس کی واپسی کا مطالبہ اسی نئی سامراجی کشمکش کا حصہ ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ کو اپنے فوجی قبضوں کی معاشی لاگت کا شدت سے احساس ہوا ہے، مگر وہ چین، روس، ایران اور خطے کی دیگر ابھرتی طاقتوں کے بڑھتے اثر و رسوخ کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ نتیجتاً، امریکی پالیسی اب ایک کم خرچ مگر ان کے مطابق ایک مؤثر سامراجی حکمتِ عملی کی صورت اختیار کر رہی ہے۔
اس حکمتِ عملی کے تین بڑے پہلو ہیں:
اول: محدود فوجی اڈوں کے ذریعے مخالفین پر دباؤ اور سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھنا۔
دوم: ڈالر ڈپلومیسی اور معاشی پابندیوں کے ذریعے مخالف ریاستوں کو قابو میں رکھنا۔
سوم: جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعروں کے ذریعے سامراجی مداخلت کو اخلاقی جواز دینا۔
بگرام بیس انہی تینوں عناصر کو جوڑنے والی ایک علامت بن چکا ہے۔ یہ امریکہ کو عسکری موجودگی کم رکھتے ہوئے بھی سیاسی اثر برقرار رکھنے کا موقع دیتا ہے۔ مگر اب یہ طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہے۔ قطر میں موجود امریکی اڈہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہا، جو واشنگٹن کی کمزور ہوتی گرفت کا واضح ثبوت ہے۔ اسرائیل، جو مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا مرکزی گماشتہ ہے، اب امریکی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل بخوبی سمجھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اب اسرائیل کے بغیر امریکی سامراج کی کوئی بااعتماد گماشتہ ریاست نہیں رہی۔ غزہ میں جاری نسل کشی اور ایران کے خلاف اشتعال انگیزی میں واشنگٹن کی بے بسی اس حقیقت کو مزید عیاں کرتی ہے کہ سامراجی آقا اب اپنے گماشتوں پر بھی قابو نہیں رکھ پا رہا۔
اسی کمزوری کی جھلک پاکستان اور سعودی عرب کے حالیہ دفاعی و مالی معاہدے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ماضی میں امریکہ پاکستان جیسی ریاستوں کی معاشی بقا اور سعودی عرب جیسی ریاستوں کے دفاع کا ضامن تھا۔ معاشی طور پر منحصر ریاستوں کو آئی ایم ایف یا دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکجز دراصل واشنگٹن کے سامراجی کنٹرول کا ہتھیار ہیں۔
لیکن اب امریکی معیشت کے بحران اور داخلی انتشار نے اسے اپنے اتحادیوں کو سہارا دینے سے عاجز کر دیا ہے۔ پاکستان یا سعودی عرب کی معاشی سودے بازی اگر چین کے مفادات سے براہِ راست متصادم نہ ہو تو امریکہ اس پر نہ صرف خاموش رہتا ہے بلکہ بعض اوقات اسے اپنی پالیسی کے لیے مفید سمجھتا ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے مالی بوجھ سے جزوی طور پر نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اب امریکہ کی ترجیح اپنے اتحادیوں کو پالنے یا ان کے مالی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ چین کے اثر و رسوخ کو محدود رکھنے پر ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ معاہدہ اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ واشنگٹن اب اپنی کلائنٹ ریاستوں کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ وہ اپنے معاشی بحران خود سنبھالیں، بشرطیکہ وہ چین مخالف صف میں اپنی وفاداری برقرار رکھیں۔ اس کے باوجود، امریکہ کے بہت سے اتحادی اب دھیرے دھیرے چینی سرمایہ اور اثر کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہے ہیں۔ یہ سامراجی زوال کی وہ شکل ہے جس میں آقا اپنی بقا کے لیے اپنے ہی گماشتوں پر معاشی بوجھ منتقل کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
آخر کار، بگرام بیس پر واپسی کی خواہش اسی عمل کی علامت ہے۔ امریکہ اب اپنی عسکری طاقت کی بجائے سیاسی دباؤ، مالی کنٹرول اور گماشتہ ریاستوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنی کمزور برتری کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ زوال کے اس مرحلے پر سامراج جتنا زیادہ اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے، اتنی ہی تیزی سے اس کے تضادات بے نقاب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر عائد کیے گئے حالیہ ٹیرفس نے اس عمل کو مزید آشکار کر دیا ہے، یہ اقدام دراصل بھارت کو چین کے قریب لے جانے کا باعث بنا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اب امریکی سامراج کے لیے تجارتی دھونس، معاشی پابندیاں اور دباؤ کی پالیسی پہلے جیسی کارآمد نہیں رہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ امریکہ، اگرچہ زوال پذیر اور داخلی تضادات کا شکار ہے، پھر بھی آج کی دنیا میں سب سے طاقتور سامراجی قوت کے طور پر موجود ہے، ایک ایسی طاقت جو اپنے انہدام کو مؤخر تو کر سکتی ہے، مگر روک نہیں سکتی۔
طالبان کا مؤقف: خودمختاری، عوامی حساسیت اور سامراجی توازن کا خوف
طالبان نے امریکی مطالبے کو باضابطہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق: ”بگرام افغانستان کی سرزمین کا حصہ ہے اور کسی غیر ملکی کو نہیں دیا جائے گا۔“ طالبان اس مؤقف کو خودمختاری اور آزادی کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر درحقیقت یہ مؤقف داخلی کمزوریوں، طبقاتی مفادات اور عوامی دباؤ کے درمیان ایک ڈگمگاتا ہوا توازن ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بگرام بیس کے حوالے سے کسی بھی سامراجی مفاہمت سے نہ صرف ان کی سیاسی خودمختاری متاثر ہو گی بلکہ عوامی سطح پر ان کے اقتدار کی ساکھ مزید گر جائے گی۔
دو دہائیوں پر محیط سامراجی قبضے اور جنگ نے افغان سماج میں ایک گہری ضدِ سامراجی حساسیت پیدا کی ہے۔ مگر یہ حساسیت اب صرف بیرونی طاقتوں تک محدود نہیں رہی؛ افغانستان کے محنت کش عوام یہ شعور حاصل کر چکے ہیں کہ طالبان خود انہی سامراجی قوتوں کی پیداوار ہیں جنہوں نے گزشتہ بیس سال تک ملک پر ننگا جبر مسلط رکھا۔ لہٰذا، ان کے لیے سامراج صرف امریکہ یا نیٹو کا نام نہیں، بلکہ وہ داخلی قوتیں بھی ہیں جو انہی سامراجی مفادات کے تحت پروان چڑھیں اور اب ”اسلامی امارت“ کے نام پر اسی جبر و استحصال کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہی تاریخی تجربہ افغان عوام کے شعور میں گہرائی سے پیوست ہو چکا ہے۔
ان حالات میں طالبان کے لیے کسی غیر ملکی طاقت کے ساتھ تعلق رکھنا سیاسی خودکشی کے مترادف بن گیا ہے۔ ان کے لیے بگرام کا معاملہ محض ایک فوجی اڈے کا نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی بقا، داخلی اتحاد اور نام نہاد نظریاتی ساکھ کا سوال ہے۔ مگر اس سب کے باوجود طالبان کے ذہنوں پر ایک مستقل خوف سوار ہے کہ کہیں تاریخ خود کو نہ دہرا دے، وہ 2001ء کی طرح اپنی حکومت کے انہدام سے لرزاں ہیں۔ اگرچہ فی الحال ان کے خاتمے کے امکانات محدود ہیں کیونکہ افغانستان کے قریبی سامراجی ممالک خطے میں کسی نئے انتشار یا خانہ جنگی کے حق میں نہیں ہیں، مگر یہ خوف اب طالبان کے تمام فیصلوں کے پسِ منظر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
طالبان کے اندرونی تضادات اور بڑھتے ہوئے بحران
اقتدار میں آنے کے بعد طالبان اب ایک متحد تحریک نہیں رہے۔ ان کے اندر ایک نئی مراعات یافتہ اشرافیہ ابھر چکی ہے جو وزارتوں، مالی وسائل اور بیرونی تعلقات پر قابض ہے۔ یہ طبقہ ”اسلامی امارت“ کے نام پر قائم حکومت کو اپنی مراعات، عیش و عشرت اور اقتدار کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان کے لیے نظریاتی اصول محض نمائشی نعروں تک محدود ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف تحریک کے نچلے درجے کے جنگجو، وہ فوٹ سولجرز جنہوں نے برسوں سامراجی جنگ میں جانیں قربانی کی بھینٹ چڑھائیں، اب شدید محرومی اور مایوسی میں مبتلا ہیں۔ انہیں اقتدار میں کوئی حصہ نہیں دیا گیا، ان کی معیشت بدحال ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس ”جہاد“ کے نام پر انہیں لڑایا گیا تھا، اس کے ثمرات اب چند گنے چنے سرداروں کی تجوریوں میں سمٹ گئے ہیں۔
یہ داخلی طبقاتی تقسیم اب طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ عوامی سطح پر غصہ پہلے ہی پھیل چکا ہے۔ افغانستان کے کروڑوں محنت کش عوام کے لیے آج سب سے اہم سوال روٹی، علاج، تعلیم اور روزگار کا ہے، مگر طالبان کے پاس دینے کو صرف جبر اور قدغن ہے۔ حالیہ انٹرنیٹ بندش پر عوامی ردِعمل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خوف کی دیوار ٹوٹ رہی ہے۔ مختلف شہروں میں بڑھتا ہوا غم و غصہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان کی حکومت عوامی سطح پر اپنی حمایت کھو چکی ہے اور اندازً نوّے فیصد آبادی ان کے اقتدار سے نالاں ہے۔
اسی داخلی دباؤ کے پیشِ نظر طالبان قیادت نے حال ہی میں کندھار میں تین روزہ مشاورتی اجلاس بلایا، جس میں تمام صوبائی گورنرز، ضلعی سربراہان اور فوجی کمانڈر شریک ہوئے۔ بظاہر یہ ایک انتظامی اجلاس تھا، مگر درحقیقت اس کا مقصد امریکہ کے ساتھ ممکنہ خفیہ انٹیلی جنس روابط پر مشاورت تھا۔ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے درمیانے اور نچلے درجے کے کمانڈروں کی رائے معلوم کی تاکہ کسی ممکنہ بغاوت یا دراڑ سے بچا جا سکے۔ کئی کمانڈر کسی بھی بیرونی مفاہمت کے سخت مخالف ہیں، جبکہ کچھ اعتدال پسند رہنما سمجھتے ہیں کہ محدود سطح پر تعاون حکومت کی بقا کے لیے ضروری ہو سکتا ہے۔ یہ اختلاف اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان تحریک کے اندر اب ایک گہری نظریاتی اور طبقاتی تقسیم موجود ہے۔ ایک طرف وہ دھڑے ہیں جو اقتدار کے دوام کے لیے سامراجی سودے بازی پر آمادہ ہیں اور دوسری طرف وہ عناصر جو اب بھی ”اسلامی امارت“ کو خالص نظریاتی مقصد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ طالبان قیادت کو خطرہ ہے کہ اگر نظم و ضبط برقرار نہ رکھا گیا تو وہی خانہ جنگی دوبارہ جنم لے سکتی ہے جو 2001ء سے قبل مختلف دھڑوں کے درمیان دیکھی گئی تھی۔
یوں بگرام ائیر بیس کا تنازع محض خارجہ پالیسی کا سوال نہیں بلکہ طالبان کے اندر ابھرنے والے مراعات یافتہ طبقے، مایوس جنگجوؤں اور بپھرے عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی علامت بن چکا ہے، ایک ایسی خلیج جو کسی بھی وقت پورے نظام کو اندر سے چیر سکتی ہے۔ طالبان کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف خودمختاری اور نظریاتی استقامت کا تاثر قائم رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ دوسری جانب ان کا پورا نظام سامراجی امداد، مالی دباؤ اور داخلی طاقت کے توازن پر قائم ہے۔ یہ تضاد دراصل طالبان کی اس نام نہاد نظریاتی ساخت کی عکاسی کرتا ہے جو کسی حقیقی عوامی یا انقلابی بنیاد پر نہیں بلکہ سامراجی عزائم کے زیرِ سایہ پروان چڑھی تھی۔ ”اسلامی امارت“ کا نعرہ ان کے لیے محض ایک سیاسی پردہ ہے، جس کے پیچھے ایک ایسا اقتدار چھپا ہے جو داخلی تقسیم، عوامی بیزاری اور نظریاتی کھوکھلے پن کا شکار ہے۔
افغانستان اور سرمایہ داری کا زوال: علاقائی سامراجی تضادات کا نیا مرحلہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران روس، چین، ایران اور پاکستان نے ایک مشترکہ ملاقات میں بگرام ایئر بیس کے معاملے پر اعلامیہ جاری کیا، جس میں امریکہ کی ممکنہ فوجی واپسی کی مخالفت کی گئی۔ ان ممالک کا مؤقف تھا کہ افغانستان میں کسی بھی بیرونی فوج کی موجودگی سے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور دہشت گردی کے خطرات دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں۔ ایران کے لیے افغانستان ایک حفاظتی بفر زون ہے۔ تہران امریکی فوج کی موجودگی کو اپنی مشرقی سرحدوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اسی لیے طالبان حکومت سے عملی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ امریکی مداخلت کی صورت میں فوری ردعمل دیا جا سکے۔ اسی طرح چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں طالبان کے ساتھ محدود تعلقات برقرار رکھنے میں اس لیے دلچسپی رکھتی ہیں کہ وہ داعش، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور ازبک جہادی تنظیموں جیسے گروہوں کے پھیلاؤ کو طالبان کے ذریعے قابو میں رکھ سکیں۔ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ طالبان سے رابطہ رکھ کر وہ ان گروہوں کے اثر کو افغانستان کی سرزمین تک محدود رکھ سکتے ہیں۔
روس نے طالبان سے سفارتی روابط قائم کیے تاکہ افغانستان کو نیٹو کے اثر سے مکمل طور پر دور رکھا جا سکے۔ روس کی ترجیح وسطی ایشیا کے سابق سوویت خطے میں استحکام اور امریکی اثر کو محدود رکھنا ہے۔ چین کے لیے افغانستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا اہم سنگم ہے اور وہ طالبان کے ساتھ سرمایہ کاری کے تعلقات بڑھا رہا ہے، مگر سیاسی استحکام پر اب بھی عدم اعتماد رکھتا ہے۔ پاکستان اس تمام عمل میں سب سے زیادہ متذبذب ملک ہے۔ بظاہر وہ امریکی موجودگی کے خلاف مؤقف اپناتا ہے، مگر عملاً اسے اپنے لیے ایک حفاظتی توازن سمجھتا ہے۔ پاکستانی ریاست ایک طرف چینی سرمایہ دار بلاک کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے، مگر دوسری طرف واشنگٹن سے اپنے مالی تعلقات اور قرضوں کے جال سے نکلنے کی سکت نہیں رکھتی۔ یہی دوہری پالیسی اسے مسلسل بحران میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اور طالبان کے تعلقات میں بارہا کوششوں کے باوجود سرد مہری برقرار ہے، کیونکہ طالبان اب 2020ء یا 2018ء والے طالبان نہیں رہے۔ ان کے پاس ایک ریاستی ڈھانچے کا اقتدار ہے اور پاکستان انہیں مزید اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ البتہ طالبان کے اندر کندہار دھڑا پاکستان کے ساتھ کچھ ہمدردیاں رکھتا ہے اور اگر اندرونی اختلافات مزید شدت اختیار کرتے ہیں تو یہی دھڑے بندیاں سامراجی قوتوں کے لیے مداخلت کے نئے دروازے کھول سکتی ہیں۔
دوسری طرف بھارت نے طالبان سے تعلقات کے نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ طالبان کے وزیر خارجہ امیر متقی کو اکتوبر 2025ء میں نئی دہلی کے دورے کی اجازت ملی ہے، جو بھارت کے لیے ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ افغان سرزمین اس کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو، خصوصاً کشمیر کے مسئلے پر یا کسی پاکستانی پراکسی سرگرمی کے طور پر۔ تاریخی طور پر بھارت طالبان کو پاکستانی پراکسی کے طور پر دیکھتا تھا، مگر اب وہ افغانستان میں اپنے معاشی اور سفارتی مفادات کے تحفظ کے لیے براہِ راست طالبان حکومت سے رابطہ قائم کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی خود اس امر کی غماز ہے کہ سرمایہ داری کے زوال کے اس عہد میں سامراجی مفادات نظریاتی وابستگیوں کی بجائے عملی اور تزویراتی ضرورتوں کے تابع ہو چکے ہیں۔
سامراجی پالیسیوں کی نئی صورتیں: عسکری قبضے سے مالیاتی و تکنیکی تسلط تک
امریکہ کا انخلا کسی شکست کا اختتام نہیں بلکہ سامراجی پالیسی کی ایک نئی اور زیادہ پیچیدہ صورت ہے۔ واشنگٹن نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ روایتی عسکری قبضہ اب ممکن نہیں۔ اس لیے اس نے ایک ہائبرڈ سامراجی حکمتِ عملی اپنائی ہے، جو مالیاتی، سفارتی، تکنیکی اور سکیورٹی جال کے امتزاج پر مبنی ہے۔ اس نئی پالیسی کے تحت وہ براہِ راست جنگوں کی بجائے قرضوں، تجارتی انحصار، ڈیجیٹل مالیاتی کنٹرول اور علاقائی پابندیوں کے ذریعے اپنے مفادات مسلط کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اقوامِ متحدہ کے مالیاتی ادارے، SWIFT نظام اور ڈالر پر انحصار اب امریکی سامراج کے وہ ہتھیار ہیں جن سے وہ افغانستان اور وسطی ایشیا کو اپنے اثر میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہ اقدامات بظاہر ترقی اور استحکام کے لیے کیے جاتے ہیں، مگر درحقیقت ان کا مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو محدود کرنا، روس کی توانائی معیشت کو دباؤ میں رکھنا اور عالمی منڈیوں پر امریکی اجارہ داری برقرار رکھنا ہے۔ یوں امریکہ نے اپنی عسکری شکل کھو کر مالیاتی و تکنیکی قبضے کی نئی صورت اختیار کر لی ہے۔ امریکی سامراج کے نکتہ نظر سے یہ پالیسی ایک ایسا قبضہ ہے جو بندوق سے زیادہ خاموش، دیرپا اور خطرناک ہے، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اب امریکی زیر عتاب ممالک کے پاس چینی سامراجی بلاک کی شکل میں ایک حد تک متبادل موجود ہے۔
چین کا افغانستان سے تعلق بظاہر سیکیورٹی کے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ تعلق کہیں زیادہ وسیع اور گہرا ہے۔ چین طالبان کے ساتھ روابط محض داعش یا ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ جیسے گروہوں کے خطرے کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں رکھتا، بلکہ وہ افغانستان کو وسائل کی لوٹ مار، محدود منڈی اور اپنے سامراجی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کے لیے ایک اہم مرکز سمجھتا ہے۔ افغانستان کے معدنی ذخائر، خصوصاً لیتھیم، تانبا، کوبالٹ اور نایاب ارضی عناصر، چین کے صنعتی و تکنیکی منصوبوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ بیجنگ طالبان حکومت کے ساتھ ان وسائل تک رسائی کے لیے طویل مدتی معاہدے کر رہا ہے، جن کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنا چاہتا ہے بلکہ خطے میں سیاسی اثر بھی مستحکم کر رہا ہے۔ یوں طالبان حکومت کے ساتھ چین کے تعلقات صرف سیکیورٹی نہیں بلکہ سرمایہ داری کے بحران میں سامراجی توسیع کے ایک نئے ماڈل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک ایسا ماڈل جو امریکی جارحیت سے مختلف ضرور ہے، مگر اپنی بنیاد میں اتنا ہی استحصالی ہے۔
روس، ایران اور پاکستان اپنے داخلی بحرانوں اور جغرافیائی دباؤ کے سبب ان سامراجی بلاکوں کے درمیان توازن کی کوشش میں ہیں، مگر یہ توازن درحقیقت کسی متبادل راستے کا نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داری کے انہدامی عمل میں ان کی مجبوریوں کا اظہار ہے۔ یہ تمام تضادات کسی گریٹ گیم کا تسلسل نہیں بلکہ سرمایہ داری کے زوال کی عملی شکل ہیں، جہاں طاقتوں کی رقابتیں ترقی یا استحکام کی بجائے محض بقا کی جنگ بن چکی ہیں۔ افغانستان اس جنگ کا عکاس ہے۔ ایک ایسی سرزمین جو کبھی عسکری قبضے کے نیچے تھی اور اب مالیاتی غلامی کے نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔
سامراج کی نئی ہائبرڈ حکمتِ عملی اور بگرام ائیر بیس کا سوال
افغانستان سے امریکی انخلا ایک شرمناک ناکامی تھی، جو سرمایہ داری کے زوال، داخلی و خارجی تضادات اور امریکی محنت کش طبقے کے دباؤ کے نتیجے میں ناگزیر ہو گئی تھی۔ امریکی فوجی مہم ناکامی سے دوچار ہوئی اور طویل مدتی قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا، جبکہ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے امریکہ میں اقتصادی مشکلات شدت اختیار کر چکی تھیں اور عالمی و ملکی سیاسی و مالی دباؤ نے واشنگٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا۔ البتہ یہ انخلا امریکی سامراج کی حکمت عملی کے خاتمے کا مطلب نہیں تھا، کیونکہ امریکہ نے اپنے اثر و رسوخ کو مالیاتی، تکنیکی اور سفارتی جال کے ذریعے برقرار رکھنے کی کوشش کی تاکہ خطے میں اپنا تسلط اور عالمی اجارہ داری قائم رہے۔ ٹرمپ کے مطابق، بائیڈن کے دور میں یہ انخلا ایک شرمناک اور بدانتظامی سے بھرا عمل تھا اور وہ بار ہا کہتا رہا کہ افغانستان سے فوجی انخلا جلد بازی میں اور غیر منظم طریقے سے کیا گیا، جس سے امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کو نقصان پہنچا اور طالبان کے لیے آسانی پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے اسے اپنے MAGA مؤقف کے تناظر میں چین اور روس کے سامنے امریکی کمزوری کے طور پر پیش کیا اور اسے امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔
اسی تناظر میں بگرام ایئر بیس کا معاملہ اب صرف فوجی ضرورت نہیں بلکہ سامراجی رقابت کا ایک علامتی میدان بن گیا ہے۔ ٹرمپ کی MAGA پالیسی کے تحت، امریکہ بگرام بیس کو چین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ بیجنگ محتاط رہے اور افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری و اثر و رسوخ کو محدود رکھے۔ ٹرمپ کھلے عام کہتا ہے کہ چین بگرام بیس کی اہمیت کو استعمال کر رہا ہے اور یہ امریکی سامراج کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یوں بگرام بیس کا مطالبہ محض فوجی یا داخلی تحفظ کی بنیاد پر نہیں بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ تضادات، امریکی سیاسی مہمات اور چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ بگرام ایئر بیس کا مسئلہ اسی حکمتِ عملی کی واضح جھلک ہے۔ واشنگٹن اس بیس کو مکمل طور پر ترک نہیں کرنا چاہتا بلکہ اسے علاقائی انسداد دہشت گردی یا لاجسٹک امداد کے عنوان سے فعال رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ وہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے سیاسی و تزویراتی نقشے پر براہِ راست اثر انداز رہ سکے۔
دوسری طرف روس، چین، ایران اور پاکستان کی جانب سے بگرام بیس کی مخالفت سطحی طور پر امریکی تسلط کے خلاف دکھائی دیتی ہے، مگر درحقیقت یہ خود ان کے سامراجی مفادات کے تحفظ کی کوشش ہے۔ روس وسطی ایشیا میں اپنے فوجی و سیاسی اثر کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے راستوں کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ ایران اپنی مشرقی سرحدی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر امریکی واپسی کو خطرہ سمجھتا ہے۔ پاکستان اپنی تزویراتی گہرائی کے نظریے کو امریکی موجودگی سے غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ یوں بگرام بیس محض ایک فوجی تنصیب نہیں بلکہ عالمی سامراجی رقابت کے نئے مرحلے کی علامت ہے، جہاں ہر طاقت امریکی انخلا کے بیانیے کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کر رہی ہے۔
یہ تمام ریاستیں چاہے وہ واشنگٹن کے مخالف کیمپ میں ہوں یا اس کے اتحادی، ایک ہی سرمایہ دارانہ زوال کے ڈھانچے کے اندر موجود ہیں۔ امریکی مالیاتی تسلط، چینی سرمایہ کاری کی توسیع، روسی سکیورٹی مفاہمتیں اور ایرانی و پاکستانی تزویراتی توازن، سب اسی زوال پذیر نظام کے مختلف چہرے ہیں، جو افغانستان کو اپنے سامراجی توازن کی تجربہ گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ یوں بگرام بیس کی بحث اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ سامراجی قبضہ اب بندوق سے نہیں بلکہ قرض، سرمایہ، ٹیکنالوجی اور سفارت کے پیچیدہ جالوں سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اور یہی سرمایہ داری کے بحران کی سب سے خطرناک اور پوشیدہ شکل ہے۔
افغانستان: سامراجی کھلواڑ کی سر زمین
افغانستان کی تاریخ دراصل عالمی سامراجی طاقتوں کے درمیان جاری ایک نہ ختم ہونے والے شطرنج کے کھیل کی کہانی ہے۔ انیسویں صدی میں برطانوی سامراج نے روسی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اسے بفر زون بنایا۔ سوویت دور میں اسے انقلابی خطرے کے طور پر پیش کیا گیا اور امریکی سامراج نے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں اپنی عسکری بالادستی کے لیے استعمال کیا۔ مگر ہر دور میں مشترکہ حقیقت ایک ہی رہی کہ افغانستان کی زمین، عوام اور وسائل کو عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لیے قربان گاہ بنایا۔
امریکی قبضے کے بیس سالوں میں افغانستان کو ترقی تعلیم یا استحکام نہیں ملا بلکہ سامراجی سرمایہ داری کے تضادات مزید گہرے ہوئے۔ جنگی ٹھیکیداروں، این جی او معیشت اور کرپٹ ریاستی ڈھانچے نے عوام کی محنت اور وسائل کو لوٹ کر بیرونی کمپنیوں کے منافع میں بدلا۔ نتیجتاً آج افغانستان کا معاشی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ، ادارے غیر فعال اور معاشرتی ساخت شدید عدم توازن کا شکار ہے۔ سامراجی طاقتوں کے لیے افغانستان کبھی انسانی ہمدردی یا امن کا مسئلہ نہیں رہا۔ ان کے لیے یہ ایک جغرافیائی چوک پوائنٹ، معدنی وسائل کا منبع اور وسط ایشیا و مشرق وسطیٰ کے بیچ اثر و رسوخ کا پل رہا ہے۔ بگرام ائیر بیس کی حالیہ بحث اسی تسلسل کی ایک نئی قسط ہے جس میں امریکہ اپنے زوال کے باوجود خطے میں اثر برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہے جبکہ چین روس اور ایران اپنے اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کے دفاع میں اس کے مقابل کھڑے ہیں۔
طالبان جو بظاہر ”سامراجی قبضے کے خلاف مزاحمت“ کے نام پر ابھرے خود اب انہی قوتوں کے کھیل میں ایک مہرے ہیں۔ وہ نہ تو افغانستان کی حقیقی خودمختاری کی نمائندگی کرتے ہیں، نہ ہی عوامی مفادات کی۔ ان کی حکومت عالمی منڈی کے دباؤ، سرحد پار تجارت اور سامراجی امداد کے توازن پر قائم ہے اور یہی توازن ہر لمحہ ٹوٹنے کے قریب ہے۔ درحقیقت افغانستان اس وقت صرف ایک ریاستی بحران نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی و تاریخی تضاد سے گزر رہا ہے۔ یہاں کی زمین سامراجی مداخلتوں، طبقاتی جبر اور مذہبی اقتدار کے امتزاج سے بنے اس بحران کا گواہ بن چکی ہے جس نے پورے خطے کو غیر مستحکم کر رکھا ہے۔ مگر ہر بحران اپنے اندر نئی قوت تخلیق بھی رکھتا ہے اور یہی قوت افغانستان کے محنت کش عوام میں پنپ رہی ہے جو اب بتدریج اپنی بقا اور نجات کی راہیں خود تراشنے لگے ہیں۔
طالبان کے ”استحکام“ کی حقیقت اور پروپیگنڈا
افغانستان کی موجودہ معیشت بظاہر ایک استحکام کی تصویر پیش کرتی ہے مگر درحقیقت یہ مکمل طور پر بیرونی امداد اور ڈالر کی عارضی گردش پر قائم ہے۔ 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بین الاقوامی انسانی امداد، غیر ملکی ترسیلات اور غیر رسمی مالی نیٹ ورکس نے مالیاتی نظام کو سہارا دیا۔ اس کی بدولت افغانی کرنسی کسی حد تک مستحکم رہی اور ضروری درآمدات جاری رہ سکیں۔ لیکن یہ استحکام حقیقی نہیں بلکہ محض ایک مصنوعی سانس ہے جو سامراجی سرمائے اور انسانی ہمدردی کے فنڈز نے فراہم کی ہے۔
طالبان کے سوشل میڈیا اور سرکاری پروپیگنڈا مشینری کے مطابق افغانستان میں امن خوشحالی اور خود انحصاری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ ان کی الیکٹرانک میڈیا ٹیمیں اور آن لائن اکاؤنٹس روزانہ اسلامی نظام کی برکتوں کی خبریں پھیلاتے ہیں مگر زمینی حقائق ان بیانات کی تردید کرتے ہیں۔ شہروں میں روزگار کے مواقع ختم ہو چکے ہیں، دیہی علاقوں میں خشک سالی اور متبادل روزگار کی عدم موجودگی میں افیون پر پابندی نے لاکھوں کسانوں کو تباہ کر دیا ہے اور خواتین کے روزگار پر پابندی نے پورے طبقہ محنت کو شدید بحران میں دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کی دو تہائی آبادی آج بھی زراعت پر انحصار کرتی ہے مگر خشک سالی، موسمیاتی تبدیلی اور فرسودہ زرعی ڈھانچے نے اس معیشت کو مفلوج کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک کے معدنی وسائل جیسے لیتھیئم، تانبہ، سونا اور ریئر ارتھ میٹلز غیر شفاف معاہدوں اور کرپشن کے سبب بین الاقوامی کمپنیوں کے مفادات کے تابع ہو چکے ہیں۔ طالبان حکومت نے ان وسائل پر عوامی ملکیت کی بجائے نجی اور غیر ملکی کنٹرول کو ترجیح دی ہے جس سے ملک کے اندر طبقاتی خلیج مزید بڑھ گئی ہے۔ تجارت کے اعتبار سے افغانستان اب بھی مکمل طور پر درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ایندھن، خوراک، مشینری اور بنیادی سامان بیرون ملک سے آتا ہے جبکہ برآمدات زیادہ تر خشک میوہ جات اور زعفران جیسی محدود زرعی مصنوعات تک محدود ہیں۔ تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے ترسیلات زر اور امدادی فنڈز کے بغیر پورا کرنا ممکن ہی نہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جو طالبان کے پروپیگنڈا سے سب سے زیادہ متصادم ہے۔ سوشل میڈیا پر دکھایا جانے والا پُرامن اور خوشحال افغانستان دراصل بھوک، بیروزگاری اور خوف کی دبیز چادر کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ چار کروڑ سے زائد محنت کش عوام کے لیے سب سے بڑا سوال آج روٹی، چھت اور علاج کا ہے مگر طالبان کے پاس انہیں دینے کے لیے جبر کے سوا کچھ نہیں۔ حالیہ تین دن کی انٹرنیٹ بندش پر عوامی غیض و غضب ناقابل کنٹرول رہا جس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کی نوے فیصد سے زائد آبادی طالبان کے جبر اور ناکامی سے نالاں ہے۔

لہٰذا، طالبان کا اسلامی استحکام محض ایک سیاسی فریب ہے، ایک ایسی مصنوعی خاموشی جو خوف، فاقہ اور ریاستی جبر پر قائم ہے۔ اگر طالبان امریکہ یا کسی بھی سامراجی قوت کے ساتھ نئی سودے بازی میں جاتے ہیں تو یہ ان کی نام نہاد لیگیسی کو مزید کمزور کر دے گی کیونکہ عوام اب اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل نہ طالبان کے مذہبی نعروں میں ہے، نہ امریکی ڈالر میں۔ یہی بڑھتا ہوا عوامی شعور اور غصہ مستقبل میں ایک انقلابی تحرک کی صورت اختیار کر سکتا ہے جو طالبان کی تمام تر داخلی و خارجی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔
افغان محنت کش عوام کی ممکنہ اُٹھان اور عالمی یکجہتی کا منظر
افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک مکمل سماجی، اقتصادی اور سیاسی بحران کی عکاسی کرتی ہے۔ طالبان کے جبر، بیرونی سامراجی دباؤ اور داخلی طبقاتی تضادات نے ملک کی اکثریتی عوام کو شدید محرومی اور مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ مگر تاریخ یہ بھی دکھاتی ہے کہ جب محنت کش عوام اپنے بنیادی حقوق، روزگار، روٹی اور آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ خطے اور عالمی سطح پر بھی سامراجی طاقتوں کے دباؤ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ کیونکہ افغان محنت کش عوام کی ممکنہ اُٹھان اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ نہ صرف طالبان کی داخلی اشرافیہ کو بے نقاب کرے گی، بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں محنت کش طبقے کو بھی تحریک دے گی کہ وہ اپنے استحصالی حکمرانوں، سامراجی طاقتوں اور طبقاتی جبر کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ یہی وہ تاریخی موقع ہے جہاں افغانستان کے اندر محنت کشوں کی جدوجہد عالمی محنت کش طبقے کے ساتھ ربط پیدا کر سکتی ہے۔
آج دنیا کے محنت کش عوام فلسطین کی مظلومیت، مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی، مزدوروں کی استحصال زدہ زندگی اور سامراجی جارحیت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ جس طرح عالمی محنت کش طبقہ فلسطین کے محنت کش عوام کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہے، اگر افغانستان میں محنت کش عوام اپنے حکمران طبقے کے خلاف اٹھتے ہیں تو عالمی محنت کش طبقہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے افغان محنت کش عوام کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرے گا، ہر مظلوم اور محکوم طبقے کی جدوجہد کو مضبوط کرنے اور سامراجی استحصالی طاقتوں کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کرے گا۔
افغان محنت کش عوام کی جدوجہد اب صرف ملکی نہیں بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف بھی ایک اہم قدم بن سکتی ہے۔ افغانستان سے اٹھنے والی ہر آواز، ہر احتجاج اور ہر تحریک نہ صرف طالبان کے داخلی تضادات کو بے نقاب کرے گی بلکہ خطے اور دنیا کے دیگر مظلوم محنت کشوں کے لیے بھی ایک روشن پیغام بن سکتی ہے جو آزادی، مساوات اور بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کا ایک عالمی سلسلہ ہے۔ فلسطین سے لے کر افغانستان تک، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیا کے محنت کش جب اپنے ظلم و جبر کے خلاف متحد ہوں گے، تو سامراجی طاقتیں اور مقامی اشرافیہ دونوں لرز اٹھیں گے۔
ڈیورنڈ لائن کے اس پار ابھری پشتون تحفظ موومنٹ اگرچہ اس وقت اپنی ابتدائی شدت سے پیچھے ہٹی ہوئی نظر آتی ہے، مگر یہ کسی انجام کا نہیں بلکہ ایک نئے فکری ارتقا کا مرحلہ ہے۔ تحریکوں کی عمومی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ اس وقت وقتی پسپائی اختیار کرتی ہیں جب وہ اپنی جدوجہد کو کسی واضح پروگرام کی بنیاد پر منظم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ پی ٹی ایم بھی اب اپنے انہی تجربات سے سیکھنے کے عمل میں ہے۔ ماضی میں اس نے کسی حد تک امریکی سامراج اور لبرل سیاست پر انحصار کیا، لیکن اب یہ شعور ابھر رہا ہے کہ حقیقی آزادی نہ سامراج سے ہو کر گزرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی گماشتے سے۔ یہی بدلتی ہوئی فکری سمت ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب پی ٹی ایم نے حال ہی میں کشمیر میں جاری عوامی اور احتجاجی تحریک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا، یہ اس بات کا مظہر ہے کہ تحریک اب قومی تنگ نظری سے آگے بڑھ کر خطے کے دیگر محکوم عوام کی جدوجہد کو بھی اپنی جدوجہد کا حصہ سمجھنے لگی ہے۔ واحد راستہ یہی ہے کہ یہ تحریک اپنی کمزوریوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے اس خطے کے محنت کش عوام کے ساتھ خود کو جوڑے اور سامراجیت کی ہر شکل، چاہے وہ طالبان کی ”اسلامی امارت“ ہو یا ٹی ٹی پی کی بنیاد پرست دہشتگردی، پر محنت کش طبقے کے نکتہ نظر سے ایک واضح، طبقاتی اور انقلابی مؤقف اپنائے۔ اسی مؤقف کی بنیاد پر ہی یہ تحریک ڈیورنڈ لائن کے اُس پار کے محنت کش عوام کو اپنے ساتھ حقیقی معنوں میں جوڑ سکتی ہے، کیونکہ قومی یا لسانی شناخت کی حدود سے ماورا ہو کر ہی ایک انقلابی وحدت ممکن ہے۔ بالآخر نجات کی واحد راہ اس خطے کے تمام محکوم و محنت کش عوام کی مشترکہ طبقاتی جڑت اور جدوجہد میں مضمر ہے، ایسی جڑت جو سامراج، بنیاد پرستی اور استحصالی ریاستی ڈھانچوں کے خلاف متحد ہو کر ایک نئے سماجی و سیاسی افق کی تعمیر کرے۔
موجودہ عہد میں ہمارے پاس یہ ایک ایسا لمحہ تاریخی ہے، جہاں سرمایہ داری کی عالمگیریت کی بدولت محنت کش طبقہ اب اپنے قومی اور عالمی دشمنوں کے سامنے مشترکہ طاقت کے طور پر کھڑا ہو سکتا ہے، تمام مصنوعی لکیروں اور فرقہ وارانہ دیواروں کو توڑ کر، سامراجی استحصالی نظام کے خلاف ایک نئی جدوجہد کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ افغان عوام کی جدوجہد اور خطے و عالمی محنت کش طبقے کی یکجہتی، ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہوئے، سرمایہ داری کے زوال اور سامراجی قبضے کے خلاف حقیقی آزادی کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ نتیجتاً افغانستان کی موجودہ جدوجہد، خطے اور عالمی محنت کش طبقے کے اتحاد کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ لمحہ تب ہی حقیقی طاقت بنے گا جب افغان عوام اپنی بقا، انصاف اور آزادی کے لیے اٹھیں اور عالمی محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی میں قدم بڑھائیں۔ یہی وہ بیج ہے جو نہ صرف طالبان یا امریکی سامراج بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیر بنیادوں کو ہلا سکتا ہے اور ایک حقیقی انقلابی متبادل کی تشکیل کی طرف لے جا سکتا ہے۔