|تحریر: تسبیح خان|
سرمایہ داری کے عروج کے عہد میں حکمران طبقہ اپنے منافعوں کی ہوس میں جدید ٹیکنالوجی اور صنعت کو ترقی دے رہا تھا اور نئی منڈیوں اور خام مال کی تلاش میں دنیا کے مختلف علاقوں کو اپنے زیر تسلط لا کر قبضے بھی کر رہا تھا۔ لیکن آج ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ وار بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ ایک بحران مستقبل میں پہلے کی نسبت بڑے اور شدید ترین بحران کو جنم دیتا ہے۔ اس دوران سرمایہ دار طبقے کی منافع کی ہوس بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے اور سامراجی طاقتیں آج زیر تسلط علاقوں کا بدترین استحصال اور لوٹ مار کر رہی ہیں۔ بالخصوص موجودہ عہد میں چینی سامراج سے لے کر امریکی سامراج تک تمام سامراجی ممالک پسماندہ ممالک کے وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار میں مصروف عمل ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے تمام ضروری خام مال کو استعمال میں لایا جا سکے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بے روزگاری عام ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور زندگی کا معیار مسلسل گر رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف فوجی اور سیاسی اشرافیہ بدستور لوٹ مار میں مصروف ہے۔ پاکستان کی معیشت روزِ اوّل سے ہی IMF جیسے سامراجی اداروں کی مالی امداد، بیرونی سرمایہ کاری اور قرضوں پر انحصار کرتی آئی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی اشرافیہ اپنے ملک کے وسائل اور معدنیات کو بطور رشوت بیرونی سرمایہ داروں اور سامراجی ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پیش کر رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے یوکرینی صدر امریکہ کو جنگ میں الجھانے اور امداد برقرار رکھنے کے لیے کر رہا ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان اپنی جیوپولیٹیکل اہمیت کھو چکا ہے اور امریکہ سے موصول ہونے والے ڈالرز کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں قومی بورژوازی کا وجود بیرونی سرمایہ کاری اور اربوں ڈالر کی امداد سے جڑا ہوا ہے، جس میں یہ طبقہ اپنے حصے کی دولت لوٹتا ہے اور اس کے بدلے میں ملکی وسائل، خام مال اور ہر قسم کے پیداواری ذرائع سامراجی طاقتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
دسمبر 2023ء میں جنرل عاصم منیر کے امریکہ کے دورے میں امریکی ڈیفنس وزارت سے دفاعی تعاون پر بات چیت ہوئی اور ساتھ ہی جنرل عاصم منیر نے امریکہ کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر اس نے نئے قائم شدہ ادارے، ”اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل“ (SIFC) کے ذریعے پاکستان میں موجود قدرتی وسائل میں دلچسپی لینے کی اپیل کی۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی فوج کا سیاست میں عملی کردار رہا ہے اور سارے بڑے فیصلے فوج کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ SIFC جیسے ادارے پہلی بار نہیں بنائے جا رہے کہ جہاں آرمی چیف کو اقتصادی پالیسی میں باقاعدہ مقام دیا گیا ہو۔ اس کی شروعات بہت پہلے ہو چکی ہے جبکہ 2019ء میں وزیراعظم عمران خان کے دور میں بھی اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کو ”نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل“ میں مرکزی حیثیت دی گئی تھی۔ اسی بیانیے کو موجودہ حکومت بھی دہرا رہی ہے۔
SIFCکا ادارہ گزشتہ سال فوج کی نگرانی میں قائم کیا گیا۔ آرمی چیف اس کی سپریم کمیٹی کا رکن ہے، جبکہ عمل درآمد کمیٹی (Implementation Committee) کا ڈائریکٹر جنرل ایک فوجی افسر ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مختلف شعبوں جیسے کان کنی، زراعت، آئی ٹی اور توانائی میں سرمایہ کاری کے لیے بیرونی سرمایہ داروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنا ہے۔
حال ہی میں اسی ادارے کے تحت لایا گیا کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ اور دریائے سندھ سے نکلنے والی چھ نہروں کا مسئلہ اسی سامراجی پالیسی کی بنیاد پر عمل میں لایا جا رہا ہے، جس کے اثرات سندھ اور پنجاب کے مزدوروں اور کسانوں پر مرتب ہوں گے۔ یہاں کا مقتدر طبقہ عام عوام کے استحصال سے منافع کمائے گا۔ پاکستان میں مختلف قوموں کی ملکیت میں قدرتی وسائل کا کل تخمینہ 6 ٹریلین ڈالرز بتایا جاتا ہے جس میں کاپر، سونا، سلفر اور زنک جیسی قیمتی معدنیات شامل ہیں۔
ان وسائل کو لوٹنے کے لیے حکومت معدنیات و مائنز بِل 2025ء کے نام سے ایک قانون لا رہی ہے، جس کے تحت تمام قدرتی وسائل کا اختیار SIFC جیسے فوجی ادارے کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ ہم اس بل کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور محکوم اقوام کے وسائل کی لوٹ مار اور محنت کش طبقے کے خلاف ہر قانون کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔
SIFCکے تحت ”گرین پاکستان“ اور ”کارپوریٹ فارمنگ“ جیسے سامراجی منصوبے اور دریائے سندھ سے نہروں کی تعمیر کی پالیسی کسان دشمن ہے اور ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر وسائل کی لوٹ مار کی اس مزدور دشمن پالیسی کو پاکستان کے معاشی بحران کا حل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اسی مقصد کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کے سرمایہ داروں کے وفد کو 6 اپریل کو اسلام آباد میں بلایا گیا تھا۔
ایسے فورمز پر وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں موجود وسائل کی مدد سے ہم IMF کے قرضوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرضے عوام نے لیے یا عوام پر خرچ ہوئے؟ ہرگز نہیں! یہ قرضے فوجی اور ریاستی اشرافیہ نے لیے اور انہوں نے ان قرضوں کو اپنی عیاشیوں اور اسلحہ کی خریداری پر خرچ کیا اور اب ان کی ادائیگی محکوم قوموں کے وسائل اور محنت کش عوام کے ٹیکسوں سے کی جا رہی ہے۔
اب سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بیرونی سرمایہ کاری واقعی پاکستان کے معاشی مسائل کا حل ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام اپنی فطری عمر گزار چکا ہے۔ یہ نظام بحرانوں کا شکار ہے اور صرف عوام کے استحصال پر قائم ہے۔ سرمایہ داروں کا منافع محنت کش عوام کے خون سے حاصل ہوتا ہے۔ پسماندہ ممالک میں بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر قدرتی وسائل کو خام مال کی شکل میں لوٹ لیا جاتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں تیار شدہ مصنوعات کی فروخت کرنے سے سرمایہ دار طبقہ منافع بٹورتا رہتا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کے تحت تاریخ کی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی گئی جس میں تیس ارب ڈالر سے زائد رقم یہاں لائی گئی لیکن اس کے نتیجے میں ملک کی معیشت ترقی کرنے کی بجائے دیوالیہ ہونے کی جانب گئی جبکہ بیروزگاری اور مہنگائی نئی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ اس منصوبے سے چینی سرمایہ کاروں اور مقامی حکمران طبقے نے اربوں ڈالر کمائے لیکن عوام کو مزید بدحال اور برباد کر دیا گیا۔
پاکستان جیسے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا مقصد مقامی قدرتی وسائل کو سستے داموں حاصل کرنا اور انہیں ترقی یافتہ ممالک میں تیار شدہ مصنوعات کی شکل میں بیچنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل کی لوٹ مار سے بیرونی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کو مقامی وسائل کے ذریعے منافع میں بدلتے ہیں، لیکن اس منافع کا بیشتر حصہ ان ممالک سے باہر منتقل کر دیا جاتا ہے، جس سے مقامی معیشت کو فائدہ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں محنت کش طبقہ مزید استحصال کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت فوجی و سویلین اشرافیہ اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر عوام کے وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معیشت زیادہ تر خام مال کی فراہمی تک محدود رہتی ہے اور ترقی کی حقیقی بنیاد نہیں بن پاتی۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ بیرونی سرمایہ کاری اکثر قرضوں کے ذریعے کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے اوپر مزید قرضوں کا بوجھ آ جاتا ہے۔ یہ قرضے عوامی بہبود کے منصوبوں پر خرچ نہیں ہوتے، بلکہ فوجی و سویلین اشرافیہ ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
SIFCدراصل نیو لبرل ازم کا وہ چہرہ ہے جس میں ریاست مزدوروں کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ اور مقامی کمیونٹیز کے مفادات کو قربان کر کے سرمایہ داروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتی ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ اور دریائے سندھ سے نکالی جانے والی چھ نہروں کا منصوبہ اسی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے، جو زراعت کو چند کارپوریٹ اداروں کے حوالے کر کے چھوٹے کسانوں کو ان کی زمینوں، پانی اور دیگر وسائل سے بے دخل کرے گا۔
مارکسزم کے نظریے کے مطابق ریاست ایک نیوٹرل ادارہ نہیں بلکہ حکمران طبقے کے مفادات کا آلہ ہے۔ پاکستان میں ریاستی ادارے اس وقت مقامی وسائل کو سرمایہ داروں کے لیے قابلِ خرید مال بنا رہے ہیں۔
مختصراً مارکسی نقطہ نظر سے بیرونی سرمایہ کاری کبھی بھی پسماندہ ممالک کے معاشی مسائل کا حل نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف سامراجی طاقتوں کے مفادات کو فروغ دیتی ہے اور مقامی محنت کش طبقے کو مزید استحصال کا شکار بناتی ہے۔ اس کا واحد حل عوامی وسائل کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت میں لینا اور محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے، جہاں وسائل اور پیداوار کا کنٹرول عوام کے ہاتھ میں ہو۔
مارکسی استاد لیون ٹراٹسکی نے اس طبقاتی شکل کو بہترین انداز میں واضح کیا ہے۔ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ:
”پسماندہ ممالک میں جمہوری انقلاب کی ذمہ داری کبھی بھی قومی بورژوازی کی رہنمائی میں پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ پسماندہ ممالک میں قومی بورژوازی کا اُبھار ایک فطری اور سماجی ارتقا کے سلسلے میں نہیں ہوا بلکہ اس کا وجود بلاواسطہ بیرونی سرمایہ کاری سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ طبقہ پسماندہ ممالک میں بطور ایک اجنبی طبقے کے سامنے آیا ہے اور اس کا وجود عوام دشمنی پر مبنی ہے۔ قومی بورژوازی کی ترقی کا ہر ایک مرحلہ اس کو بیرونی سرمائے سے جوڑتا ہے جس کی یہ دلالی کرتے ہیں اور جس کے ذریعے یہ اپنے حصے کی دولت سمیٹتے ہیں۔“
وہیں پر ان پسماندہ ممالک کا پیٹی بورژوا طبقہ، جو تجارت اور دستکاری سے جُڑا ہوا ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے بیرونی سرمائے کی اس غیر مساوی جدوجہد کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی طبقاتی حیثیت کھو دیتا ہے اور معاشی لحاظ سے یہ طبقہ پنڈولم کی طرح کبھی ایک سرے اور کبھی دوسرے سرے پر گرتا رہتا ہے، یعنی کبھی پرولتاریہ اور کبھی بورژوا طبقے کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ اس پیٹی بورژوا مڈل کلاس طبقے کی کوئی آزادانہ سیاسی حیثیت نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس چھوٹے اور درمیانے کسان شدید پسماندگی اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بغاوتوں کے بھی اہل ہوتے ہیں، لیکن ان بغاوتوں کو فیصلہ کن مرحلے تک لے جانے کے لیے زیادہ ایڈوانس اور مرکزی کردار کے حامل طبقے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان بغاوتوں کی قیادت کر سکے۔ اس لیڈرشپ کی ذمہ داری استعماری یا نیم استعماری ممالک کے مزدور طبقے کے کندھوں پر ہے، جو ان مقامی بغاوتوں کو سرمایہ داری کے خاتمے تک لے جائے اور پورے نظام کے خلاف ایک منظم جدوجہد کرے، کیونکہ یہی مزدور طبقہ ہی ہوتا ہے جو بیرونی سرمائے کے ساتھ ساتھ اپنی قومی بورژوازی کے خلاف بھی جدوجہد میں صف اول پر ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل اقلیت یعنی سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت میں ہوتے ہیں اور ان وسائل کا سارا منافع صرف اس چھوٹے سرمایہ دار طبقے کو جاتا ہے۔ محنت کش عوام کے لیے اس میں کوئی حق نہیں دیا جاتا جس کا اصل ذمہ دار طبقاتی بنیادوں پر قائم یہ معاشی نظام ہے۔ اس معاشی نظام کے اندر رہتے ہوئے محنت کش طبقے کا وسائل پر اختیار کا نعرہ ایک خواب ہے، اور اس نظام میں اگر آپ بیرونی سرمایہ کاری سے نجات حاصل کر بھی لیں تو وسائل پھر سے ایک چھوٹے طبقے کے قبضے میں آ جائیں گے، وہ طبقہ قومی بورژوازی ہے۔
اس قومی بورژوازی کا کردار بھی وہی ہوتا ہے جو بیرونی سرمایہ داروں کا ہوتا ہے؛ بورژوازی بھی وسائل کو اپنے ذاتی مفادات اور منافع کے لیے استعمال کرتی ہے، اسی طرح محنت کش عوام کا استحصال اور دولت کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہونا ویسے ہی برقرار رہتا ہے، جس طرح سامراجی طاقتوں کی موجودگی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے وسائل پر حقیقی اختیار اور حقِ ملکیت حاصل کرنے کے لیے ان وسائل کو سرمایہ داروں کی نجی ملکیت سے نکال کر محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں دینا چاہیے۔ اس کے لیے عوام کو اس طبقاتی سرمایہ داری کے نظام کو ختم کر کے ایک ایسا سماج قائم کرنا ہو گا جہاں وسائل عوام کی اجتماعی ملکیت میں ہوں۔
سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی بورژوازی کے حوالے سے ہمارے مارکسی اساتذہ بالخصوص لینن اور ٹراٹسکی کا مؤقف یہاں پر نقل کرنا بہت ضروری ہے۔
لینن کا مؤقف
لینن کمپراڈور بورژوازی کو سامراجی نظام کا ایک مقامی دلال طبقہ قرار دیتا ہے، جو سامراجی قوتوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ لینن کے مطابق، یہ طبقہ سامراجیت کے خلاف جدوجہد میں عوام کا اتحادی نہیں بلکہ دشمن ہوتا ہے۔
لینن نے اپنی تصنیف ”سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل“ (Imperialism: The Highest Stage of Capitalism) میں واضح کیا ہے کہ:
”سامراجیت مقامی بورژوازی کو مکمل طور پر آزاد ترقی کی راہ پر نہیں چھوڑتی، بلکہ اس کا ایک خاص حصہ کمپراڈور بورژوازی کی شکل میں اپنے تابع بنا لیتا ہے، جو قومی معیشت کو بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کے ماتحت رکھتا ہے۔“
ٹراٹسکی کا مؤقف
لیون ٹراٹسکی کمپراڈور بورژوازی کو نہ صرف سامراجی طاقتوں کی توسیع کا ذریعہ سمجھتا ہے بلکہ اسے پسماندہ ممالک میں جمہوری انقلاب کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ بھی قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق، یہ طبقہ مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں کو کچلنے میں سامراج کا آلہ کار بن جاتا ہے۔
ٹراٹسکی کی تصنیف ”انقلابِ مسلسل“ (Permanent Revolution) کی تھیوری میں وہ کہتا ہے:
”پسماندہ ممالک میں قومی بورژوازی چونکہ سامراج کے ساتھ معاشی اور سیاسی طور پر جڑی ہوتی ہے، اس لیے وہ نہ تو جاگیرداری کا خاتمہ کر سکتی ہے، نہ ہی حقیقی قومی آزادی دے سکتی ہے۔ یہ صرف مزدور طبقہ ہے جو ان تاریخی فرائض کو انجام دے سکتا ہے۔“
اس لیے اس بیرونی سرمایہ کاری اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے لیے ضروری ہے کہ اس جدوجہد کو مزید وسعت دے کر اس طبقاتی نظام کے خلاف منظم کیا جائے، کیونکہ اس طبقاتی نظام کو عوامی طاقت سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد ہی وسائل پر محنت کش طبقے کا اختیار حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس جدوجہد میں قومی بورژوازی کے کردار کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے؛ پسماندہ ممالک کی قومی بورژوازی ایک درمیانی حیثیت رکھتی ہے اور یہ طبقہ اس سرمائے کے ساتھ مضبوطی سے جُڑا ہوا ہے۔ اس جدوجہد کو بیرونی سرمایہ کاری کے خلاف ایک حقیقی مزاحمت میں بدلنے کے لیے محنت کش طبقے کو منظم ہونے کی ضرورت ہے۔
جس طرح کارل مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ داری اپنی قبر خود کھودتی ہے، اپنی قبر کھودنے کے لیے سرمایہ داری نے پسماندہ ممالک میں پرولتاریہ طبقے کو جنم دیا ہے، جس کا وجود اس نظام کے استحصال کا شکار ہے اور جس کے مفادات اس نظام سے متصادم ہیں، اس لیے استعماری قوتوں، مقامی اور بیرونی سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ پسماندہ ممالک کی قومی بورژوازی کے خلاف منظم جدوجہد کرنے کے اہل محض ایک طبقہ ہے، وہ ہے یہاں کا مزدور طبقہ۔
اس طبقے کو ہی ایک انقلابی تبدیلی کے لیے منظم کر کے سامراجی طاقتوں اور ان کی دلال قومی بورژوازی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ملکی مشینری کا کنٹرول اس مزدور طبقے کے ہاتھوں میں دے کر ہی وسائل پر اختیار اور حقیقی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ بنیادوں پر قائم سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پسماندہ یا سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں حقیقی تبدیلی صرف مزدور طبقے کی قیادت میں آ سکتی ہے، جو نہ صرف مقامی بورژوازی کے خلاف بلکہ سامراجی طاقتوں کے خلاف بھی صف اول پر جدوجہد کرنے اور اس کے خاتمے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس وقت تک وسائل پر عوامی اختیار ممکن نہیں جب تک یہ وسائل چند سرمایہ داروں کی نجی ملکیت میں ہوں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان وسائل کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکال کر محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں دیا جائے۔ یہی سوشلسٹ سماج کی بنیاد ہے، جہاں محنت کش طبقے اور محکوم قوموں کی اصل آزادی ممکن ہے۔