|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
”مارکسزم کے دفاع میں“ میگزین کا شمارہ نمبر 49 شائع ہو چکا ہے۔ ہم یہاں قائرین کے لیے ایلن ووڈز کا اداریہ شائع کر رہے ہیں جس میں سرمایہ دارانہ نظام کے تنخواہ دار ملازم تاریخ دانوں کی جانب سے دہائیوں سے لکھے جانے والے جھوٹ اور بہتان تراشی کو بے نقاب کرتے ہوئے دوسری عالمی جنگ کی حقیقی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس شمارہ نمبر 49 میں جنگ کے اختتام پر پیدا ہونے والی انقلابی میراث پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور دیگر مضامین جن میں اٹلی میں فاشزم کا خاتمہ، فرانس کی آزادی، بعد از جنگ نیو حقیقت پسند (neorealist) سینما اور عالمی نظام میں تبدیلی پر ٹیڈ گرانٹ کا 1945ء پر مبنی ایک تجزیہ شائع کیا گیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس سال 8 مئی کو VE دن (VE Day) کو اسی برس بیت چکے ہوں گے۔۔ وکٹری ان یورپ ڈے (Victory in Europe Day) جب سرکاری طور پر یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا تھا۔
اس تاریخی واقعہ کے حوالے سے کئی ممالک مختلف قسم کی تقریبات اور جشن منعقد کریں گے۔ ان تمام سرکاری تقریبات میں ایک غیر حاضری نمایاں ہو گی یعنی ہمیشہ کی طرح روس مدعو نہیں ہو گا۔
اس سفاک نظراندازی کی حالیہ مثال آشویتز (Auschwitz) کیمپ کی حالیہ تقریبِ آزادی ہے۔ ابتداء میں BBC نے ہمیں بتایا کہ بدنام زمانہ نازی قتل کیمپ کو گمنام ”اتحادی“ قوتوں نے آزاد کرایا تھا۔ روس یا سوویت یونین کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
سچ یہ ہے کہ 27 جنوری 1945ء کو آشویتز قتل کیمپ کو آزاد کرانے والی قوت سوویت سرخ فوج تھی۔ لیکن ایک بھی روسی نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ یہی ایک واقعہ عقل کے اندھوں کو بتانے کے لیے کافی ہے کہ آج دوسری عالمی جنگ سے متعلق منعقد ہونے والی ہر دھما چوکڑی کا اسی سال پہلے رونما ہونے والے واقعات کے برعکس آج کی سیاست کے ساتھ زیادہ گہرا تعلق ہے۔
کئی دہائیوں سے ہمیں یہی پروپیگنڈہ سکھایا جا رہا ہے کہ ہٹلر کو امریکہ اور برطانیہ نے شکست دی تھی۔ 1945ء سے ہالی وڈ سے بہادری اور شجاعت پر مبنی فلموں کا ایک مسلسل تانتا لگا ہوا ہے جن میں مغربی اتحادی قوتوں کے نام نہاد کارنامے دکھائے جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں امریکی اور برطانوی افواج کی مداخلت کا آغاز موسم گرماء 1944ء میں نارمنڈی (Normandy) میں ڈی ڈے لینڈنگ (D-Day landings) سے ہوا تھا۔
اس سے پہلے سوویت یونین اور ہٹلر کے جرمنی کے درمیان دیوہیکل جنگ و جدل ہوا جس میں یورپ کی پوری پیداواری قوت ہٹلر کی پشت پر موجود تھی۔ اور یہ روس، اگر سچ کہا جائے تو سوویت یونین ہی تھا جس نے اس تاریخی جدوجہد میں سب سے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ جنگ کا زیادہ تر وقت امریکیوں اور برطانیوں نے بے فکری سے خاموش تماشائی بن کر گزارا۔
سوویت یونین اور جنگ
سٹالن کو ایک ”عظیم جنگی قائد“ بنا کر پیش کرنے کی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ درحقیقت یہ سٹالن کی ہی پالیسیاں تھیں جنہوں نے سوویت یونین کو ہٹلر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا اور 1941ء میں تو سوویت یونین کا خاتمہ ہونے لگا تھا۔
لینن کی انقلابی عالمگیریت کی مرکزی پالیسی کو ترک کر کے سٹالن نے بیرونی حکومتوں کے ساتھ ساز باز اور سمجھوتے کرنے شروع کر دیے تاکہ کسی بھی جنگ سے دور رہا جائے۔
لیکن ہمیں ذہن نشین ہونا چاہیے کہ نام نہاد مغربی جمہوریتیں بھی انہی کارستانیوں میں ملوث تھیں اور مسلسل ہٹلر کی چاپلوسی کر رہی تھیں تاکہ وہ مشرق کا رخ کر کے سوویت یونین پر چڑھ دوڑے۔
اس بات کا ادراک ہوتے ہی سٹالن نے نازی جرمنی کے ساتھ ایک عدم جارحیت معاہدہ کر لیا جسے ہٹلر۔سٹالن معاہدہ کہا گیا۔ یہ روس کی جانب سے ایک دفاعی کوشش تھی تاکہ جرمنی روس پر حملہ آور نہ ہو۔
اصولی طور پر ایسی سفارتی کوشش کو قلیل مدت مفادات کے لیے درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس میں سوویت یونین کے لیے کوئی طویل مدت دفاعی تدبیر موجود نہیں تھی جس کو بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے درست ثابت کیا۔
سٹالن کو اپنی اس ”مدبرانہ“ چال پر اتنا اعتماد تھا کہ اس نے حملے کی تیاری کے لیے جرمنی کی مسلسل تیاریوں کی ہر رپورٹ کو نظرانداز کر دیا۔ نتیجتاً حقیقت کی گھڑی میں سوویت یونین ننگی نازی جارحیت کے سامنے بے یار و مددگار اور ہکا بکا کھڑا تھا۔
جب ہٹلر کے جرنیلوں نے روس پر فوج کشی کی مخالفت کی تو اس نے جواب دیا کہ سٹالن کی جانب سے کی جانے والی تطہیر نے سرخ فوج کے تمام قابل جرنیلوں کا صفایا کر دیا ہے۔
اس نے شیخی ماری کہ اسے بس نشانے پر ایک پر زور لات مارنے کی ضرورت ہے اور ساری گلی سڑی عمارت منہدم ہو جائے گی۔ 1941ء کے موسم گرما میں فوج کشی کے بعد چند مہینوں تک ایسا لگتا تھا کہ یہ پیش گوئی اگلے لمحے میں درست ثابت ہو جائے گی۔
جب ہٹلر نے حملہ کیا تو سٹالن کو پہلے یقین ہی نہیں آیا۔ اشتعال انگیزی سے بچنے کے لیے اس نے فوج کو سخت احکامات جاری کیے کہ مزاحمت نہ کی جائے! اس کا نتیجہ ایک عسکری بربادی تھا۔
سوویت جنگی فضائیہ کو ہوا بازی سے پہلے ہی زمین پر نیست و نابود کر دیا گیا۔ لاکھوں سرخ فوج سپاہی کسی بھی مؤثر مزاحمت سے عاری گھیرے میں آ گئے اور قید کر کے قتل کیمپوں میں بھیج دیے گئے جہاں زیادہ تر موت کے گھاٹ اتر گئے۔
سوویت قیادت انتشار کا شکار تھی۔ ابتداء میں سٹالن کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ روپوش ہو گیا۔ اس کے اقدامات مکمل ناکامی اور سوویت یونین سے غداری ثابت ہوئے جس نے یونین کی بقاء کو ہی شدید خطرات سے دوچار کر دیا۔
درحقیقت جنگ سوویت یونین اور کسانوں نے سٹالن حکومت کی مدد سے نہیں بلکہ اس کے برعکس جیتی تھی۔
سوویت یونین متحرک ہوتا ہے
لیکن ہٹلر سے غلطی ہو گئی۔ مغرب میں آسان فتوحات نے اسے اندھا کر دیا اور وہ سوویت یونین کے عسکری امکانات کا درست تجزیہ کرنے میں فاش غلطی کر بیٹھا۔ سٹالن کی مجرمانہ پالیسیوں کے باوجود سوویت یونین تیزی کے ساتھ اپنی قوتیں بحال کرنے اور اپنی صنعتی اور عسکری پیداوار کو از سر نو تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
نازیوں کی پشت پر پورا یورپ کھڑا تھا۔ انہوں نے پیداوار کو بے تحاشہ بڑھایا اور دیوہیکل تعداد میں ٹینک، بندوقیں اور جنگی ہوائی جہاز بنائے۔ لیکن 1943ء تک سوویت یونین نے واہرماخت (Wehrmacht) دیو سے زیادہ پیداوار کرنی شروع کر دی جس کی بنیاد منصوبہ بند معیشت میں پنہاں دیوہیکل قوتیں تھیں۔
سوویت یونین کا پیدا کردہ سامان اور ہتھیار اولین معیار کے تھے اور جرمن، برطانوی اور امریکی ساز و سامان سے زیادہ بہتر تھے۔ یہیں پر یہ الزام جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایک قومی منصوبہ بند معیشت اعلیٰ معیار کا ساز و سامان پیدا کرنے کی اہل نہیں ہے۔
لیکن جنگ میں حیران کن سوویت کامیابی کی ایک اور وجہ بھی ہے؛ جنگ لڑنے کے لیے سرخ فوج کا عزم و استقلال۔ سوویت محنت کش طبقہ اکتوبر انقلاب کی بچی کچھی حاصلات کے دفاع میں سرشار جنگ لڑ رہا تھا۔
سٹالن اور افسر شاہی کے دیوہیکل جرائم کے باوجود قومی منصوبہ بند معیشت ایک دیوہیکل تاریخی فتح تھی۔ فاشزم کی بربریت کے سامنے سامراجیت اور اجارہ دار سرمایہ داری کا مجتمع شدہ جوہر، یہ وہ سب کچھ تھا جس کے لیے لڑا جا سکتا تھا اور مرا بھی جا سکتا تھا۔
سوویت یونین کے محنت کشوں نے ہولناک سطح پر یہ دونوں کام کیے۔ یہ سوویت محنت کش طبقے اور اس کی سرخ فوج کی قابل ستائش بہادری اور جرات مندی تھی جس نے فیصلہ کن طور پر نازی جرمنی کو شکست فاش کیا۔
مغرب کیوں تاریخ کو مسخ کر کے سوویت یونین کا فیصلہ کن کردار نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ سرخ فوج کی شاندار فتح ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل برتری کی تاریخی اور فیصلہ کن مثال ہے جس کے ذریعے سوویت یونین نے پہلے مصیبتوں کا مقابلہ کیا اور پھر اپنی پیداواری قوتوں کو اورال (Ural) پہاڑی سلسلے کے پرلے طرف لے جا کر از سر نو منظم کیا۔
تباہ کن قربانیوں کی بنیاد پر انہوں نے اکتوبر انقلاب کے تحت بننے والے نئے ملکیتی رشتوں پر ہر شک و شبہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
ایک قومی منصوبہ بند معیشت نے سوویت یونین کو جنگ میں دیوہیکل برتری سے نوازا۔
لیکن اس جنگ کی سوویت یونین کی عوام نے ہولناک قیمت ادا کی۔ پوری جنگ میں 2 کروڑ 70 لاکھ افراد قتل ہوئے جبکہ بڑے پیمانے پر پیداواری قوتیں تباہ و برباد ہو گئیں۔
دوسرے جنگی محاذ کا مطالبہ
جرمن فوج کشی کے بعد سوویتوں نے مسلسل مطالبہ کیا کہ جرمنی کے خلاف ایک نیا محاذ کھولا جائے۔ لیکن چرچل ان کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے کی جلدی میں نہیں تھا۔ اس کی وجہ عسکری نہیں سیاسی تھی۔
سرکاری پروپیگنڈہ کے برعکس دوسری عالمی جنگ میں برطانوی اور امریکی حکمران طبقات کی پالیسیوں اور حکمت عملی کا دار و مدار جمہوریت پسندی یا فاشزم سے نفرت نہیں بلکہ ننگا طبقاتی مفاد تھا۔
جب ہٹلر نے 1941ء میں سوویت یونین پر حملہ کیا تو برطانوی حکمران طبقہ اپنے آپ کو مبارک باد دے رہا تھا۔ انہوں نے تخمینہ لگایا کہ جرمنی فوراً سوویت یونین کو شکست فاش کر دے گا۔ اس عمل میں جرمنی اتنا کمزور ہو جائے گا کہ وہ سکون سے آگے بڑھ کر جرمنی پر کاری وار کرتے ہوئے اپنے دونوں دشمنوں کا خاتمہ کر دیں گے۔
لیکن برطانوی اور امریکی حکمران طبقات کے منصوبوں میں بنیادی خامیاں موجود تھیں۔ نازی جرمنی سے شکست خوردہ ہونے کے برعکس سوویت یونین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہٹلر کی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دی۔
برطانوی اور امریکی سامراجیوں کے مفادات یکسر مختلف اور متضاد تھے۔ ڈی ڈے (D-day) کے سوال پر چرچل اور روزویلٹ کے درمیان اختلافات اس تناؤ کا اظہار ہیں۔
امریکی سامراج ہٹلر کو فاتح نہیں دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے بعد یورپ میں امریکہ کا ایک طاقتور مخالف پیدا ہو جاتا۔ دوسری طرف امریکی سامراج کا مفاد یہ تھا کہ برطانیہ اور اس کی سلطنت جنگ کے دوران کمزور ہو تاکہ جرمنی اور جاپان کی شکست کے بعد امریکہ عالمی سطح پر اس کا متبادل بن کر اپنا کردار ادا کرے۔
اگرچہ واشنگٹن سرکاری طور پر لندن کا اتحادی تھا لیکن وہ ہر لمحہ جنگ کو استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کی عالمی سطح پر پوزیشن کو کمزور کر رہا تھا اور خاص طور پر افریقہ اور انڈیا میں اس کی گرفت توڑنے کا خواہش مند تھا۔
چرچل اتحادی جنگ کو بحیرہ روم تک محدود رکھنا چاہتا تھا، اس کی ایک وجہ سویز کنال (Suez Canal) کی راہداری اور برطانوی ہندوستان تک رسائی پر ایک نظر رکھنا تھا اور دوسری وجہ بلقان پر حملہ آوری کی خواہش تھی تاکہ سرخ فوج کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔
سادہ الفاظ میں اس کی منصوبہ بندی کی بنیاد برطانوی سامراجی مفادات اور برطانوی سلطنت کے دفاع پر مبنی تھی۔ اس کے ساتھ چرچل ابھی تک پُر امید تھا کہ روس اور جرمنی آپس میں لڑ کر تھک ٹوٹ جائیں گے اور مشرق میں ایک جمود پیدا ہو جائے گا۔
بالآخر مشرق میں رونما ہونے والے واقعات نے انہیں متحرک ہونے پر مجبور کر دیا۔
اطالوی تماشہ
روزویلٹ بضد تھا کہ دوسرا محاذ فرانس میں کھولا جائے۔ لیکن چرچل مسلسل تاخیر پر اصرار کر رہا تھا۔ اس بنیاد پر لندن اور واشنگٹن کے درمیان شدید چپقلش جاری تھی۔
سرخ فوج واہرماخت کے ساتھ کرسک (Kursk) میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی اور برطانوی اور امریکی سکون سے سسلی (Sicily) کے ساحلوں پر سستا رہے تھے۔
درحقیقت اٹلی پر فوج کشی مرکزی عسکری لڑائی سے دھیان ہٹانے کی کوشش تھی۔ نازی جرمنی کی زیادہ تر جنگ مشرقی محاذ پر تھی جہاں سرخ فوج کو تقریباً 200 جرمن ڈویژنوں ]ایک ڈویژن میں 10 ہزار سے 25 ہزار فوجی اور تقریباً 8-7 ہزار سپورٹ عملہ موجود ہوتا ہے۔ پھر یہ برگیڈ، آرٹلری، انفنٹری وغیرہ میں منظم ہوتے ہیں۔ کئی ڈویژن مل کر ایک کور بنتے ہیں۔ مترجم[ کا سامنا تھا۔ اس کے برعکس سسلی میں عظیم برطانیہ اور امریکہ کی افواج کو محض دو جرمن ڈویژنوں کا سامنا تھا۔
مسولینی دن رات ہٹلر کی منتیں کرتا رہا کہ مجھے کچھ کمک بھیج دو۔ لیکن ہٹلر کی تمام تر توجہ مشرقی محاذ پر مرکوز تھی۔ بہرحال چرچل کا استدلال کہ اٹلی ”یورپ کا نرم گوشہ ہے“ غلط ثابت ہوا۔
امریکی جرنیلوں کے تذبذب نے ہٹلر کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ اطالوی محاذ کو مضبوط کرتے ہوئے مونٹے کیسینو (Monte Cassino) کی خونی جنگ کا سامان پیدا کر دے۔
اٹلی میں آپریشنوں میں مزید پیچیدگی یہ پیدا ہو گئی کہ 1943ء میں مسولینی کا تختہ الٹنے کے بعد طاقتور مزاحمتی تحریک اطالوی کمیونسٹوں کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔
برطانیہ اور امریکہ پریشان تھے کہ مسلح مزاحمت کار اتحادی قوتوں کے پہنچنے سے پہلے اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔ ان کے خیال میں یہ بہتر تھا کہ نازی مسلح مزاحمت کاروں کے ساتھ لڑائی لڑیں اور انہیں کمزور کر دیں۔
اس لیے جب اتحادی اٹلی میں جرمنوں سے جنگ کر رہے تھے تو دونوں حریفوں کے درمیان ایک غیر اعلانیہ اور خاموش سمجھوتہ تھا کہ جب مشترکہ طبقاتی دشمن کو روکنے کا وقت آئے گا تو یہ دشمن درحقیقت اطالوی محنت کش طبقہ ہو گا۔
اس لیے جنگ کے عروج پر بھی طبقاتی سوال، انقلاب کا خوف حکمران طبقے کے لیے ہمیشہ سرفہرست رہتا ہے۔ سرگرم جنگ کے اختتام پر تو یہ سوال اور بھی سنجیدہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس دوران مشرقی محاذ پر صورتحال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو رہی تھی۔
سٹالن گراڈ اور کرسک
ایک شدید اعصاب شکن لڑائی کے بعد جنوری 1943ء کے اختتام پر سٹالن گراڈ میں جرمن مزاحمت منہدم ہو گئی۔ ہٹلر نے حکم دے رکھا تھا کہ چھٹی فوج ”موت تک لڑے گی“۔ اس کے غصے کی انتہا نہ رہی جب جنرل پالس (Paulus) نے سرخ فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
چرچل جیسے پاگل کمیونسٹ مخالف کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ سرخ فوج نے سٹالن گراڈ میں ”جرمن فوج کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے“۔
لیکن ان تعریفی کلمات کے پیچھے برطانوی قیادت کا مثانہ ڈھیلا پڑ چکا تھا۔۔ خوف و ہراس ہر لمحہ مسلسل بڑھ رہا تھا۔
سٹالن گراڈ مہم کے اختتام پر جرمنی کے 4 لاکھ 9 ہزار فوجی قتل اور 91 ہزار قیدی ہو چکے تھے۔ اس کمر توڑ شکست کے بعد اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن شکست 1943ء کے موسم گرماء میں کرسک کی جنگ میں واقع ہوئی۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ٹینک جنگ جس میں 10 ہزار 900 ٹینک، 26 لاکھ سپاہی اور 5 ہزار جنگی ہوائی جہاز شامل تھے۔ یہ شاید پوری عالمی جنگ کا سب سے فیصلہ کن معرکہ تھا۔
سٹالن گراڈ اور کرسک میں سوویت فتوحات نے سرخ فوج کی ڈرامائی پیش قدمی کا وہ راستہ کھولا جس کے سامنے برطانیہ اور امریکہ متحرک ہونے پر مجبور ہو گئے۔
ڈی ڈے کی دوڑیں
1943ء کے اختتام تک امریکیوں کو واضح ہو چکا تھا کہ سوویت یونین مشرقی محاذ پر جیت رہا ہے اور اگر کچھ نہ کیا گیا تو سرخ فوج پورا یورپ ہڑپ کر جائے گی۔
چرچل کو مجبوراً امریکی صدر کے مطالبات کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ پھر بھی دوسرے محاذ کا آغاز 1944ء میں موسم بہار تک ملتوی کر دیا گیا۔
1944ء کے موسم گرما میں جب سرخ فوج برلن کو پیروں تلے روند رہی تھی تو اس وقت عجلت میں نارمنڈی میں ایک دوسرا محاذ کھولا گیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو سرخ فوج سے انگلش چینل کے ساحلوں پر ملاقات ہوتی [انگلش چینل: جنوبی برطانیہ اور شمالی فرانس کے درمیان بحیرہ اوقیانوس کا ایک حصہ جہاں برطانوی اور یورپی ساحلوں کے درمیان فاصلہ محض 33 کلو میٹر رہ جاتا ہے۔ مترجم]۔
سامراجی اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے ایک نیا منصوبہ ”آپریشن رینکلن“ (Operation Rankin) تیار کیا جس میں جرمنی کے انہدام یا ہتھیار ڈالنے پر فوجیں فوری طور پر جرمنی میں اتاری جانی تھیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ سرخ فوج سے پہلے ہم نے ہر حال میں برلن پہنچنا ہے۔
روزویلٹ نے اپنے اسٹاف چیفوں سے مطالبہ کیا کہ، ”ہمیں برلن تک پہنچنا ہے۔ سوویتیں شہر کے مشرق سے تمام علاقہ اپنے پاس رکھیں۔ لیکن برلن امریکہ کے پاس ہونا چاہیے۔“
لیکن صورتحال مختلف ثابت ہوئی۔ برطانوی اور امریکی افواج جرمنی کی سرحد تک پہنچیں اور وہیں روک دی گئیں۔ دوسری طرف سرخ فوج نے جنگوں کی تاریخ میں سب سے تیز ترین اور حیران کن پیش قدمی کر کے تاریخ رقم کر دی۔
25اپریل 1945ء کے دن سرخ فوج برلن کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔
جنگ کا اختتام
آخری وقت تک ہٹلر غیر فعال حتیٰ کہ نیست و نابود افواج اور خیالی ہوائی جہازوں اور ڈویژنوں کی نقل و حرکت کے احکامات جاری کرتا رہا۔ لیکن بالآخر خداؤں نے اپنا منہ موڑ لیا۔ اس نے 30 اپریل کو خودکشی کر لی۔ اس کی لاش پر پیٹرول چھڑک کر اسے راکھ کر دیا گیا۔
لاش کو آگ لگنے کے ساتھ برلن کا دل روسی بندوقوں کی گھن گرج سے لرز اٹھا۔ 2 مئی کو رائخ ستاگ [جرمن پارلیمنٹ۔ مترجم] پر سوویت جھنڈا لہرا دیا گیا۔ اگلے دن سوویت افواج جرمن دارالحکومت پر مکمل قبضہ کر چکی تھیں۔ پانچ دن بعد جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔
چرچل نے سوویت حکومت کو لکھا کہ سرخ فوج کی کامیابیوں کو ”جتنا سراہا جائے کم ہے“ اور مستقبل کی نسلیں ہمیشہ ان کی احسان مند رہیں گی ”جس طرح ہم ہیں جو ان فخریہ لمحات کے عینی شاہد ہیں۔“
لیکن ان الفاظ سے منافقت کی بو آتی ہے۔ درحقیقت چرچل سوویت فتح پر جل کٹ مرا تھا۔ اس نے فوراً ایک نئی جنگ کی منصوبہ بندی شروع کر دی؛ سوویت یونین کے خلاف نام نہاد سرد جنگ۔
اس حقیقت کا چرچا نہیں ہے کہ جاپان کی شکست درحقیقت منچوریا (Manchuria) میں سوویت یونین کی فیصلہ کن فتح کا نتیجہ تھی۔ ایک برق رفتار حملے میں جاپانی افواج کو شکست فاش کرنے کے بعد سرخ فوج تیزی سے منچوریا پار کرتے ہوئے جاپان کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی۔
6اگست 1945ء کو تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایٹم بم ہیروشیما کے وسط میں گرایا گیا جس کے تین دن بعد دوسرا بم ناگاساکی میں گرایا گیا۔ 2 لاکھ 46 ہزار افراد چشم زدن میں قتل ہو گئے۔ ان بموں کا مقصد جاپان کی کمر توڑنا نہیں تھا جو پہلے ہی گھٹنوں کے بل گرا امن کی بھیک مانگ رہا تھا۔ ان بموں کا مقصد سوویت یونین کو خبردار کرنا تھا کہ اب مزید پیش قدمی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر امریکی یہ کام نہ کرتے تو دنیا میں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں تھی جو جاپان پر سرخ فوج کا قبضہ روک پاتی۔
یہ امریکی سامراج اور سوویت یونین کے درمیان جنگ کا پہلا اظہار تھا جو 1945ء کے بعد کئی دہائیاں جاری رہی۔ سرد جنگ کے بیج بڑی محنت سے بوئے جا رہے تھے۔
نیا عالمی نظام
اپنے قتل سے کچھ عرصہ پہلے ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ سوویت یونین کا سٹالن ازم کے تحت جنگ میں بچ جانا ناممکن ہو گا۔ لیکن نپولین نے کہا تھا کہ جنگ تمام سوالوں میں سب سے پیچیدہ سوال ہے۔
ٹراٹسکی کا تجزیہ تاریخ نے غلط ثابت کر دیا۔ لیکن اگر کوئی دنیا کا عظیم ترین ذہن بھی موجود ہوتا تو وہ دوسری عالمی جنگ کا مخصوص ارتقا نہ دیکھ پاتا۔ درحقیقت سٹالن، ہٹلر، روزویلٹ اور چرچل، تمام کے تجزیے غلط ثابت ہوئے اور تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔
سوویت یونین کی جنگ میں حیران کن اور شاندار فتح نے پوری صورتحال تبدیل کر کے رکھ دی۔ اس کے بعد پورے ایک عہد تک سٹالن ازم مضبوط اور پائیدار رہا۔
اس دوران پورے یورپ میں انقلابی لہر پھیل رہی تھی۔ یہ سٹالنسٹوں اور اصلاح پسندوں کی غداریاں تھیں جنہوں نے کئی ممالک میں محنت کشوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکے رکھا۔ یہ وہ ساری صورتحال تھی جس میں جنگ کے بعد سرمایہ داری کو بحال ہونے کا موقع ملا۔
لیکن سب سے فیصلہ کن معاملہ یہ تھا کہ امریکی سامراج کو یورپ اور جاپان میں سرمایہ داری کو کھڑا رکھنے کے لیے مداخلت کرنی پڑی۔ کمیونزم سے خوفزدہ امریکی سامراجیوں کو پوری سرمایہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑا۔
امریکہ کو کبھی یورپ اور جاپان کی طرز پر بمباری کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس نے ان کی پیداوار اور معیشتیں نیست و نابود کر دی تھیں۔ جنگ کے اختتام پر دنیا کا دو تہائی سونا قلعہ ناکس (Fort Knox) میں موجود تھا۔ عالمی منڈی میں سونے اور ڈالر کی ساکھ برابر ہو چکی تھی۔
اس دیوہیکل معاشی قوت نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ مارشل پلان کے تحت یورپ کی مدد کی جائے۔ اس سے وہ مادی حالات پیدا ہوئے جن کا نتیجہ ایک معاشی ابھار اور سماجی اور سیاسی توازن کا از سر نو انتظام تھا۔
ان حالات میں پوری دنیا پر دو دیو چھائے ہوئے تھے؛ امریکی سامراج اور سٹالنسٹ سوویت یونین۔ یہ عہد سرد جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ پوری دنیا میں دہائیوں قائم رہا۔ میگزین ”مارکسزم کے دفاع میں“ کا یہ شمارہ ان حالات کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کرتا ہے۔
ایک مرتبہ پھر تاریخ کا عظیم پہیہ گھوم رہا ہے۔ دیوہیکل امریکی سامراج کو ایک مرتبہ پھر روس کی بحالی کا سامنا ہے جو 1990ء کی دہائی میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد معاشی انہدام کا شکار ہو گیا تھا اور اب دو دہائیوں بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو چکا ہے۔ دوسری طرف انتہائی طاقتور صنعتی معیشت اور ابھرتا سامراج چین، امریکہ کو للکار رہا ہے۔
پرانا استحکام برباد ہو چکا ہے۔ نئے تضادات تیزی سے پختہ ہو رہے ہیں۔ تاریخ کا ایک نیا اور پرانتشار عہد شروع ہو چکا ہے۔ اس عہد میں کئی شکستیں اور کئی پسپائیاں ہوں گی لیکن اس طوفانی تند و تیز عہد کے اندر طبقاتی جدوجہد میں شدید حالات پیدا ہوں گے۔ جلد یا بدیر ایک کے بعد دوسرے ملک میں سوشلسٹ انقلاب سر فہرست ہو گا!