اپریل تھیسس

[تحریر: وِلادیمیر لینن، ترجمہ: صبغت وائیں]
اس مضمون میں لینن کے معروف ’’اپریل تھیسِس‘‘ کو پیش کیا گیا ہے جو کہ لینن نے مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں (پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کی دو میٹنگوں میں 4 اپریل 1917ء کو پڑھے تھے۔

*******************

تعارف
چونکہ میں 3 اپریل کی رات تک پیٹروگراڈ نہیں پہنچا تھا اور نا کافی تیاری کی وجہ سے میں 4 اپریل کی میٹنگ میں یقیناً انقلابی پرولتاریوں کی رپورٹ میں صرف اپنا نکتۂ نظر ہی دے پایا۔
میرے لئے ا س تھیسس کو تحریری شکل دیناہی ایک ایسا کام تھا جو میری، اور میرے ’’نیک نیت‘‘ مخالفین کی، مشکلوں کو آسان کر سکتا تھا۔ میں نے انہیں پڑھا اور ان کا متن کامریڈ ثِریتلی کے حوالے کر دیا۔ میں نے انہیں دو مرتبہ انتہائی دھیرے دھیرے پڑھ کے سنایا: پہلے تو بالشویکوں کی ایک میٹنگ میں، اور اس کے بعد منشویک اور بالشویک دونوں کی ایک مشترکہ میٹنگ میں۔
میں اپنے ما فی الضمیر کو صرف مختصر سے تشریحی نوٹس کے ساتھ شائع کر رہا ہوں، جو کہ رپورٹ میں کہیں زیادہ تفصیل سے دیے گئے ہیں۔

تھیسِس
جہاں تک جنگ کی طرف ہمارے رویے کا سوال ہے تو لیفوف اینڈ کمپنی کی حکومت (زار کی بادشاہت کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت) کے زیر اثر بھی اس جنگ (یہاں پہلی جنگ عظیم میں روس کی شمولیت کی طرف اشارہ ہے)کا کردار سامراجی ہے کیونکہ یہ حکومت اپنی فطرت میں سرمایہ دارانہ ہے، لہٰذا’’انقلابی دفاع‘‘ (یعنی نئی حکومت کے دفاع کے لئے جنگ لڑنا درست ہے) کو ہم ذرا برابر بھی رعایت نہ دیں گے۔
طبقاتی شعور کا حامل پرولتاریہ انقلابی جنگ کی حمایت میں جا سکتا ہے، یہ عمل درحقیقت انقلابی دفاع کا جواز فراہم کرے گا لیکن صرف ان شرائط کے تحت:
الف۔ یہ کہ اقتدار پرولتاریہ اور اس کے ساتھ کھڑے بے مایہ کسان (یہاں غریب یا بے زمین کسان مراد ہیں) طبقے کو منتقل کیا جائے۔
ب۔ یہ کہ تمام مملوکات کا انتقال حقیقی ہونہ کہ زبانی کلامی۔
ج۔ یہ کہ تمام سرمایہ دارانہ مفادات کے ساتھ مکمل قطع تعلق یقینی بنایا جائے۔
عوام کے ان بڑے گروہوں کی مسلمہ نیک نیتی کو سامنے رکھتے ہوئے جو کہ’’انقلابی دفاع ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں، جو جنگ کو ملک گیری (دوسرے ملکوں پر قبضہ) کے ایک ذریعے کی بجائے اسے صرف ایک لازمیت (وقتی مجبوری) کے طور پر لیتے ہیں اورجو بورژوازی سے دھوکا کھاتے رہے ہیں، یہ ضروری ہے کہ مکمّلیت، ثابت قدمی اور تحمل کو خصوصی طور پر مدِ نظر رکھتے ہوئے اْن کی غلطیاں اْن پر واضح کی جائیں تاکہ اْن پر سرمائے اور سامراجی جنگ کا اٹوٹ گٹھ جوڑ واضح ہو سکے اور اس حقیقت کا ثبوت فراہم کیا جائے کہ ’سرمائے‘ کو کیفرِ کردار تک پہنچائے بغیر ’سچے جمہوری امن‘ کے ذریعے بھی جنگ کا خاتمہ ناممکن ہے، ایسا امن جو زبردستی نہ تھونپا جائے۔
اس پیغام کو محاذ پر لڑنے والے فوج میں پھیلانے کے لئے ایک انتہائی دور رس مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

مواخات
روس کے موجودہ حالات کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ ملک انقلاب کا پہلا درجہ عبور کرتے ہوئے۔ ۔ ۔ جس نے، نا کافی طبقاتی شعور اور پرولتاریہ کی صفوں میں تنظیم کے فقدان کے باعث اقتدار بورژوازی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ ۔ ۔ دوسرے درجے میں داخل ہو رہا ہے، چنانچہ یہاں ناگزیر ہے کہ قوت کو پرولتاریہ اور بے مایہ کسان طبقوں کے ہاتھوں میں منتقل کیا جائے۔
یہ منتقلی ایک طرف تو مسلّمہ قانونی حقوق کی زیادہ سے زیادہ حامل ہونے (اس وقت روس پوری دنیا کے تمام متحارب ملکوں میں سب سے زیادہ آزاد ہے)، دوسری طرف عوام کی جان ومال کو کسی قسم کے نقصان نہ پہنچانے اور آخراً سرمایہ داروں کی حکومت، جو کہ امن اور سوشلزم کے بدترین دشمن ہیں، پر خواہ مخواہ کے اعتبار کرنے کے خصائص پر مشتمل ہے۔
یہ مخصوص حالات ہم سے خود کو پارٹی کے کام کی خاص شرائط کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم پرولتاریوں کے اس بے نظیرجم غفیر میں جا کر کام کریں جو کہ سیاسی زندگی میں ابھی ابھی بیدار ہوا ہے۔

’عبوری حکومت‘ کی کوئی حمایت نہیں کریں گے؛ اس کے تمام جھوٹے وعدوں کا پول کھولنا ضروری ہے، بالخصوص جن کا تعلق مملوکات کی دستبرداری سے ہے۔ اس ناقابلِ اجازت، واہمہ پرور’’مطالبے‘‘ کہ سرمایہ داروں کی اس حکومت کواپنا سامراجی حکومت والا کردار ترک کر دینا چاہئے، کی بجائے اسے بے نقاب کیا جائے۔

اس حقیقت کا اقرار کرنا پڑے گا کہ مزدوروں کے نمائندوں کی زیادہ تر سوویتوں کے اندر ہماری جماعت اقلیت میں ہے، ہر طرح کے پیٹی بورژوا مفاد پرست عناصر، معروف سوشلسٹوں اور سوشلسٹ انقلابیوں سے لے کر نیچے آرگنائزنگ کمیٹی (شخیدز، ثِریتلی وغیرہ)، سٹیکلوف وغیرہ وغیرہ کے اتحاد کے سامنے ہم چھوٹی سی اقلیت ہیں، یہ عناصر بورژوازی کے اثر و نفوذ کے آگے سَر جھکا چکے ہیں اور اس اثر و نفوذ کو پرولتاریہ میں پھیلا رہے ہیں۔
عوام الناس پر اس حقیقت کو آشکار کرنا ہو گا کہ مزدوروں کے نمائندگان کی سوویتیں ہی انقلابی حکومت کی واحد ممکنہ شکل ہو سکتی ہے، اور یہ کہ ان حالات میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جتنا عرصہ یہ (انقلابی) حکومت بورژوازی کے اثر و نفوذ کے تحت رہے، اْن (مزدوروں) کی حکمت عملی کی خامیوں کی ایک متحمل، منضبط اور ثابت قدم وضاحت اس طرح سے پیش کی جائے کہ یہ عوام کی عملی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہو۔
جب تک کہ ہم اقلیت میں ہیں، ہمیں تنقید کرنے اور خامیوں کی نشاندہی کرنے کا کام مسلسل کرنا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں پوری ریاست کے اقتدار کی مزدور نمائندوں کی سوویتوں کے ہاتھوں میں منتقلی کی لازمیت پر زور دیتے رہنا ہو گا تا کہ لوگ عملی تجربے کے ذریعے اپنی کوتاہیوں پر قابو پا سکیں۔

 پارلیمانی جمہوریت نہیں۔ ۔ ۔ مزدور نمائندوں کی سوویتوں سے پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس لوٹنا ایک رْجعتی قدم ہو گا۔ ۔ ۔ اس کی بجائے پورے ملک میں نیچے سے اوپر تک مزدوروں، کھیت مزدوروں اور کسانوں کی سوویتوں کی جمہوریت۔
پولیس، فوج اور بیوروکریسی کا مکمل خاتمہ (1)
تمام سرکاری اہل کاروں کی تنخواہیں نہ صرف یہ کہ ایک مشاق مزدور کی اوسط اُجرت سے زیادہ نہ ہوں گی اور یہ سب کے سب سرکاری اہلکار منتخب شدہ اور قابل تبادلہ ہوں گے(یعنی منتخب کرنے والے اپنے نمائندے کو کسی بھی وقت واپس بلا سکیں)

زراعتی پروگرام میں سارا زور اس تاکید پردیا جاتا ہے کہ یہ کام کھیت مزدوروں کے نمائندگان کی سوویتوں کو منتقل کر دیا جائے۔
تمام غیر منقولہ جائیدادوں کی ضبطی۔
ملک کی تمام زمینوں کو قومیا لیا جائے، انہیں کھیت مزدوروں اور کسانوں کے نمائندگان کی مقامی سوویتوں کی صوابدید میں دے دیا جائے۔ ۔ ۔ بے مایہ کسانوں کے نمائندگان کی سوویتوں کی علیحدہ تنظیم۔ ہر بڑی اراضی پر ایک ماڈل فارم بنایا جائے گا ( 100 سے 300 دیسیاطین(ایک دیسیاطین 2.7 ایکڑ کے برابر زمین ماپنے کا روسی پیمانہ) تک کے رقبے کا، مقامی حالات اور مقامی انجمنوں کے فیصلے کی بنیاد پر۔ جو کہ کھیت مزدوروں کے نمائندگان کی سوویتوں اور پبلک اکاؤنٹ کے اختیار میں ہو گا۔

ملک میں موجود تمام بینکوں کو ایک واحد قومی بینک میں یکجا کر دیا جائے اور اس پرمزدور نمائندگان کی سوویتوں کو مکمل اختیار حاصل ہو۔

ہمارے سامنے فوری نوعیت کا کام سوشلزم کو’’متعارف‘‘ کروانا نہیں ہے، بلکہ اس کی بجائے صرف سماجی پیداوار اور تقسیم پیداوار کو فی الفور مزدور نمائندگان کی سوویتوں کے اختیار میں دینا ہے۔

پارٹی کے فریضے:
(الف) پارٹی کی کانگرس کا فوری انعقاد۔
(ب) پارٹی کے پروگرام میں تبدیلیاں، خصوصاً:
(i) سامراج اور سامراجی جنگ کے سوال پر
(ii) ریاست کے بارے ہمارے رویے اور ہمارے ’’کمیون ریاست‘‘ کے مطالبے کے حوالے سے(2)
(ج) پارٹی کے نام کی تبدیلی(3)

10۔ ایک نئی انٹرنیشنل
ہمیں لازمی طور پر ایک انقلابی انٹرنیشنل کی تعمیر کا بیڑہ اُٹھانا ہو گا، ایک ایسی انٹرنیشنل جو کہ سوشل شاونسٹوں(زبانی طور پر سوشلسٹ اور عملی طور پر قوم پرست) کے اور ’’مرکز‘‘ کے خلاف ہو گی۔ (4)
قاری کو یہ سمجھانے کی غرض سے کہ میں نیک نیت مخالفین کے’’معاملے‘‘ کی اہمیت غیر معمولی طور پر الگ کر کے خصوصاً کیوں جتا رہا ہوں، میں اسے دعوت دیتا ہوں کہ وہ درج بالا تھیسس کا موازنہ ذیل میں لگائے گئے جناب گولڈن برگ کے اس اعتراض سے کر کے دیکھے کہ: ’’لینن نے انقلابی جمہوریت کے عین وسط میں خانہ جنگی کا جھنڈا گاڑ دیا ہے‘‘ (جناب پلیخانوف کے یے دِنسفو کے نمبر 5 میں حوالہ موجود ہے)
کیا یہ اچھی بات نہیں؟
میں لکھتا ہوں، اعلان کرتا ہوں اور اس بات کی کھل کر وضاحت کرتا ہوں کہ ’’عوام کے ان بڑے گروہوں کی مسلمہ نیک نیتی کو سامنے رکھتے ہوئے جو کہ ’’انقلابی مدافعت‘‘پر یقین رکھتے ہیں۔ ۔ ۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ وہ بورژوازی سے دھوکا کھاتے رہے ہیں، یہ ضروری ہے کہ مکملیت، ثابت قدمی اور تحمل کو خصوصی طور پر مدِ نظر رکھتے ہوئے اْن کی غلطیاں ان پر واضح کی جائیں۔ ۔ ۔‘‘
اس کے باوجود خود کو سوشل ڈیموکریٹ کہنے والی بوژوااشرافیہ کے حضرات، جو کہ نہ تو عوام سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی ان بڑے گروہوں سے جو کہ انقلابی دفاع پر یقین رکھتے ہیں، نہایت ہی خندہ پیشانی سے میرے خیالات اس طرح سے پیش کرتے ہیں: ’’انقلابی جمہوریت کے عین وسط میں خانہ جنگی کا جھنڈا (جس کے بارے میں نہ تو اس تھیسس میں اور نہ ہی میری تقریر میں کوئی ایک بھی ایسا لفظ موجود ہے) گاڑ دیا ہے!۔ ۔ ۔ ‘‘کیا مطلب ہے اس سب کا؟ یہ سب کیا’رْسکایا وولیا‘(ایک بورژوا اخبار) سے مختلف ہے؟
میں لکھتا ہوں، اعلان کرتا ہوں اور اس بات کی کھل کر وضاحت کرتا ہوں کہ مزدوروں کے نمائندگان کی سوویتیں ہی انقلابی حکومت کی واحد ممکنہ شکل ہو سکتی ہے، اور یہ کہ ان حالات میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی حکمت عملی کی خامیوں کی ایک متحمل، منضبط اور ثابت قدم وضاحت اس طرح سے پیش کی جائے کہ یہ عوام کی عملی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہو۔
اس کے باوجود ایک مخصوص سوچ سے تعلق رکھنے والے مخالفین میرے خیالات کو ’’انقلابی جمہوریت کے عین وسط میں خانہ جنگی‘‘ کے ایک بلاوے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
میں نے عبوری حکومت پر حرف گیری اس لئے کی ہے کہ اس نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کی کسی فوری تاریخ کا تعین نہیں کیا، بلکہ یوں کہیں کہ سرے سے کوئی تاریخ مقرر ہی نہیں کی، اور خود کو صرف وعدوں تک محدود کر رکھا ہے۔ میں نے یہ نکتہ اْٹھایا تھا کہ مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں کے بغیر اس دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، رہی اس کی کامیابی تو وہ سرے سے ناممکن ہے۔
اور مجھ سے یہ رائے منسوب کی جا رہی ہے کہ میں دستور ساز اسمبلی کے فوری اجلاس کے انعقاد کا مخالف ہوں۔
میں اسے ’’ہذیان‘‘ ہی کہتا اگر کئی دہائیوں پر مشتمل سیاسی جدوجہد نے مجھے یہ نہیں سکھایا ہوتا کہ حریفوں سے نیک نیتی جیسی مروّت شاید ہی کبھی سرزد ہوتی ہے۔
جناب پلیخانوف نے اپنے اخبار میں میری تقریر کو’’ہذیان‘‘ کا نام دیا ہے۔ بہت خوب جناب پلیخانوف صاحب! لیکن آپ یہ بھول رہے ہیں کہ اپنے اس مناظرے میں آپ کس قدر نامعقول، بونگے اور سست فہم دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر میں نے دو گھنٹے تقریر میں ہذیان فرمایا ہے تو اس بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ پورے دوگھنٹے تک سینکڑوں حاضرین اس ’’ہذیان‘‘ کو برداشت کرتے رہے؟ اس کے علاوہ کس بنا پر آپ کے اخبار نے پورے کا پورا کالم اس ’’ہذیان‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا؟ متناقض بات ہے، انتہا کی متناقض!
چیخ پکار اور واویلا کرنا، گالیاں بکنا اور ہوْکنا یقیناًآسان کام ہے بجائے اس کے کہ اس بات سے تعلق پیدا کیا جائے، وضاحت کی جائے یا پھر یاداشت کو زحمت دی جائے جو مارکس اور اینگلز نے پیرس کمیون کے تجربے اور پرولتاریہ کی ضروریات کے مطابق ریاست کی نوعیت کے متعلق 1871ء، 1872ء اور 1875ء میں کہا تھا۔
سابقہ مارکسسٹ مسٹر پلیخانوف بلا شبہ مارکسزم کو یاد کرنے کی تکلیف ہی نہیں کر رہے۔
میں نے روزا لکسمبرگ کے الفاظ کا حوالہ دیا تھا، جس نے 4 اگست 1914ء کو جرمن سوشل ڈیموکریسی کو ایک ’’متعفن لاش‘‘ کہا تھا۔ اور پلیخانوف، گولڈن برگ اور ان کے چیلے چانٹے اس بات پر بہت ناراض ہوئے تھے۔ لیکن کس کی وجہ سے؟ جرمن شاونسٹوں کی وجہ سے، کیوں کہ انہیں شاونسٹ کہا گیا تھا!
وہ اْلجھاؤ میں پھنسے ہوئے ہیں، یہ بے چارے روسی سوشل شاونسٹس۔ ۔ ۔ باتوں میں سوشلسٹ اور عملی طور پر شاونسٹ۔

*******************

نوٹس
1۔ یعنی موجود فوج کو ساری کی ساری عوام کو مسلح کرتے ہوئے اس سے تبدیل کر دیا جائے۔ ۔ ۔ لینن
2۔ یعنی، ایک ایسی ریاست جو کہ پیرس کمیون کے نمونے پر ہو۔ ۔ ۔ لینن
3۔ ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ کے بجائے، جس کے تمام صاحبِ منصب قائدین دنیا کے ہر کونے میں سوشلزم کو تیاگ کر بورژوازی کی گود میں جا چھپتے ہیں (’’مدافعت پرست‘‘ اور متذبذب کاؤتسکی واد)، ہم پر لازم ہے کہ خود کو کمیونسٹ پارٹی کے نام سے پکاریں۔ ۔ ۔ لینن
4۔ یہاں لفظ ’’مرکز‘‘ بین الاقوامی سوشل ڈیموکریٹک تحریک میں ایسے رجحان کے لئے برتا گیا ہے جو کہ شاونسٹوں (236’’مدافعت پرست‘‘) اور بین الاقوامیت پرستوں کے درمیان گومگو کی کیفیت میں لٹکے ہونے کاا ظہار کرتا ہے، جیسے کہ جرمنی میں کاؤتسکی اینڈ کمپنی، فرانس میں لونگوئے اینڈ کمپنی، روس میں شخیدز اینڈ کمپنی، اطالیا میں طوْراتی اینڈ کمپنی، برطانیہ میں میک ڈونلڈ اینڈ کمپنی وغیرہ۔ ۔ ۔ لینن

Comments are closed.