افسانہ: ’’پروفیسر‘‘

[تحریر: ناصرہ بٹ]
باجی جی، ادھر آجائیں۔ کہاں جانا ہے آپ کو؟ اس نے دو خواتین کو سٹیشن کے باہر چاند گاڑی کھڑی کر کے آواز دی۔ عورتیں مڑیں اور اس کی طرف چلنے لگیں۔ ۔ ۔
احد کی آج ہی شعبہ تعلیم میں تقرری ہوئی تھی۔ سارا دن وہ اپنے گھریلوکام نبٹاتا رہا اور اپنے دیرینہ خواب کے پورا ہونے پر خوش ہوتا رہا۔ اس نے اس پوسٹ کا خواب ضرور دیکھا تھا لیکن اس طرح یہ سپنا پورا ہو جائے گااس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ چند ماہ سے ایک پرائیویٹ سکول میں تدریس کے شعبہ سے منسلک تھا۔ آٹھ آٹھ پریڈ اس کے اعصاب کو شل کردیتے تھے۔ پھر ایم۔ ڈی کا اصرار ہوتا کہ ڈیلی لیسن پلان کو فالو کیا جائے اور تدریس میں تجربے نہ کئے جائیں۔ جب کہ اس کو شوق تھا کہ اس نے پڑھانے کے جو جدید طریقے سیکھے ہیں ان کو عملی جامہ پہنائے۔ لیکن سکول کی ملازمت نے اسے بالکل مجہول بنا کے رکھ دیا تھا۔ وہ خود کو ایک مشین تصور کرنے لگ گیا تھا۔
رات کوبستر پر لیٹتے وقت نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کوبہت خوشی تھی کہ اس کی تقرری گورنمنٹ کالج میں ہوگئی ہے۔ اور وہ کالج کا لیکچرار بن گیا ہے۔ اس کوخود پر جبر کر کے کسی باس کی ہاں میں ہاں نہیں ملانی پڑے گی۔ ان پڑھ اور جاہل والدین کی خوشامد یں نہیں کرنا پڑیں گی اور ان کی غلط باتوں پر بھی سرتسلیم خم نہیں کرناپڑے گا۔ وہ پرندے کی مانندآزاد فضاؤں میں اڑتا پھرے گا۔ کالج کے لڑکوں کا وہ آیڈیل ہوگا۔ پرنسپل صاحب اپنی سلیکشن پر خوش ہوں گے۔ سینئر اساتذہ اس کی علمی قابلیت کے معتقد ہوگے۔ بس۔ ۔ ۔ ۔ ایک بار یہ کل کی صبح طلوع ہو لے۔ ۔ ۔ ۔ یہ میری زندگی کا نا قابلِ فراموش دن ہوگا۔ ایک بہترین دن۔
یہ رات تو معمول سے زیادہ لمبی ہوتی جارہی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ پلک جھپکتے میں دن ہو جائے اور یہ کم بخت خواب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب بھی وہ سوتا تو ایک غیبی آواز اس کو یہ کہہ کر جگادیتی۔ ۔ کہ بس اب اُٹھ جاؤ۔ وہ فورآنکھ کھولتا اور جلدی سے موبائل ٹٹول کر وقت دیکھتا۔ اوہ! ابھی تو بہت وقت باقی ہے۔ اور پھر سونے کی کوشش میں لگ جاتا۔ اب کی بار جب وہ نیند سے جاگا تو اسے کسی غیبی آوا زنے نہیں بلکہ مچھروں کی فوج کے بھر پو رحملے نے جگایا جو بجلی بند ہوتے ہی وارد ہو گئی تھی۔ جگہ جگہ جلن ہورہی تھی اور وہ مسلسل خارش کئے جارہا تھا۔ سارے بدن میں اک آگ سی لگی تھی اور پسینہ اسے الگ سے پریشان کر رہا تھا۔ اس نے سوچاکہ اٹھ کر تاری لگا لے تو شائد تھوڑی سی ٹھنڈ پڑ جائے۔ لیکن پانی بھی تو نہیں تھا۔ رات کو وہ ٹب بھرنا بھول گیا تھا۔ وہ گھبرا کے گھر سے باہر آ گیا۔ گھر کے پچھواڑے کی طرف چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے دیوار پر لگے اپلے دیکھے۔ تو اس کے ذہن میں آیڈیا آیا۔ اس نے وہاں سے ایک اپلا اتارا اور لا کر کمرے میں جلا دیا۔ اس کی دھونی سے مچھر بھاگ گئے۔
ساری رات وہ کروٹیں بدلتا رہا۔ ٹرن۔ ۔ ٹرن۔ ۔ ۔ الارم کی آواز اس کو بہت ہی بھلی محسوس ہوئی اور وہ اٹھ کر اپنی تیاری میں لگ گیا۔ تیار ہو کر وہ گھر سے مین سڑک تک پہنچ گیا اورکسی سواری کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ اس وقت اکا دکا چاند گاڑیاں (موٹرسائیکل رکشا) آرہی تھی لیکن سب کی سب بھری ہوئی تھیں۔ وہ مایوس ہونے کوہی تھا کہ ایک چاند گاڑی پر اسکے پاس آکر رکی۔ باؤ جی! کہاں جانا ہے۔ وہ سوچے بغیر چاند گاڑی میں سوار ہولیا اور کرایہ بھی نہ پوچھا۔ زیادہ ہی جلدی ہے باؤجی! جانا کہاں ہے؟ چاند گاڑی کے نوجوان ڈرائیور نے پوچھا۔ ’کالج‘ اس نے مختصرسا جواب دیا اور اگلی سیٹ پر براجمان ہونے کے بعد پھرسے اپنے سہانے سپنوں میں کھو گیا۔ کیا بات ہے آپ کے تو پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ ڈرائیور نے سوال کیا۔ وہ مجھے دیر ہو رہی تھی۔ آج میرا کالج میں پہلا دن ہے اور میں لیٹ نہیں ہونا چاہتا۔ پلیز! کیا آپ گاڑی تیز چلا سکتے ہیں۔ ا س نے نہایت مؤدبانہ گزارش کی۔
کیوں نہیں باؤ جی۔ ۔ ۔ اور وہ آٹھ بجنے سے پہلے ہی کالج کی دہلیز میں قدم رکھ چکا تھا۔ مین گیٹ سے گزر کر اس نے ایسے ساتھی بھی دیکھے جن کے چہروں پر مسرت دیدینی تھی۔ وہ دوستانہ اور فاتحانہ مسکراہٹ لئے ایک دوسرے سے تعارف کروا رہے تھے۔ احد قدرے حیرت زدہ تھا کہ اس کے ساتھ انٹرویو میں جتنے بھی لڑکے تھے ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ وہ سب نئے چہرے تھے۔ لیکن یہ لوگ تو کل موجود نہ تھے۔ خیر! اس نے آگے بڑھ کر بڑے دوستانہ انداز میں سب کے سا تھ ہاتھ ملایا۔ آپ؟ ۔ ۔ جی۔ ۔ میرانا م احد ہے۔ جب کلرک نے اپوائنٹمنٹ لیٹر پر سائن کرنے کو کہا تو انہیں یقین آگیا کہ ان کو انٹرن شپ کے لئے چن لیا گیا ہے۔ سب لڑکوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ اور اپنی اپنی کامیابی پر نازاں تھے۔ مجھے تو پہلے ہی سے معلوم تھاکہ میری ہی سلیکشن ہو گی کیونکہ ایم این اے صاحب نے خود بات کی تھی۔ ایک نوجوان نے بتایا۔ احد دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اب نوماہ تک ملازمت کے جھنجٹ سے نجات رہے گی۔ کانٹریکٹ پر سائن ہو چکے ہیں اب مجھے ملازمت سے نو ماہ تک کوئی نہیں نکال سکتا۔ اسی دوران گورنمنٹ کی لیکچرار کی پوسٹ بھی آجائے گی۔ اب بیتے دن بھو ل جا۔ ۔ احد۔ باقی سب بھی اسی طرح کی سوچوں میں مگن تھے کہ سکو ل کی ملازمت سے چھٹکارا مل گیا۔ ورنہ! ہر وقت یہی خدشہ لگا رہتا کہ نجانے کب ملازمت سے جواب مل جائے۔ ۔ ۔ کلرک نے ان کو بتا دیا کہ وہ کل ٹھیک آٹھ بجے کالج پہنچ جائیں۔ خوش گپیوں میں مشغول انہوں نے وہاں سے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔

(اگلے صفحات پڑھنے کے لئے نیچے نمبر شمار پر کلک کریں)

Comments are closed.